اس قصے سے وجہ استدلال يہ ہے کہ جب ابولہب جيسا کافر اور دشمن رسول شخص کو نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي ولادت کي خوشي اور اس موقعہ سے خرچ کرنے سے اس پر سے عذاب ميں تخفيف ہوسکتي ہے تو ہم مسلمانوں کو آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي ولادت کے موقعہ پر خوش ہونےا ور خرچ کرنے کا زيادہ حق حاصل ہے، اور جب ابو لہب کے عذاب ميں تخفيف ہوسکتي ہے تو عيد ميلاد منانے پر ہميں جنت ضرور ملے گي ۔
ليکن اس استدلال ميں کتنا وزن ہے اور مسئلہ جشن ميلاد سے اس کا کيا تعلقہ ہے ؟ اسے درج ذيل نقاط پر غور کرنے سے بآساني سمجھا جاسکتا ہے :
[1] باتفاق علماء يہ حديث ضعيف اور ناقابل استدلال ہے ، کيونکہ حضرت عروہ رحمہ اللہ تابعي ہيں ، انہوں نے نہ تو نبي صلي اللہ عليہ وسلم کا زمانہ پايا ہے اور نہ ہي يہ بيان کيا ہے يہ واقعہ انہوں نے کس سے سنا ہے ؟ ۔
{ فتح الباري : 9/145 – عمدۃ القاري :20/95 } ۔
کسي کو يہاں يہ دھوکہ نہيں ہونا چاہئے کہ يہ واقعہ صحيح بخاري ميں مذکور ہے، کيونکہ امام بخاري رحمہ اللہ نے اس قصہ کو مرسلا روايت کيا ہے ، نہ تو اس کي کوئي سند ذکر کي ہے اور نہ ہي اس سے کسي مسئلے پر استدلال ہے ، اور علماء کے نزديک صحيح بخاري کي وہي حديثيں صحيح اور قابل حجت ہيں جو متصلا اور موصولا بيان ہوئي ہيں، حقيقت جيسا کہ ايک ادني طالب بھي اس کو سمجھتا ہے ۔
واضح رہے کہ اصل حديث کو جس کے بعد امام بخاري رحمہ اللہ نے يہ قصہ نقل کيا ہے اسے امام موصوف کے علاوہ امام مسلم ، امام ابو داود ، امام نسائي اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے بھي روايت کيا ہے ليکن اس کے آخر ميں اس قصے کا ذکر نہيں ہے ۔
[2] يہ خواب کا معاملہ ہے اورخواب سے کوئي شرعي مسئلہ ثابت نہيں ہوتا ، الا يہ کہ وہ خواب انبياء عليہم السلام کا ہو ۔
{ فتح الباري : 9/145- الکواکب الداري : 19/79 } ۔
اس خواب کے ديکھنے والے کے بارے ميں کچھ بھي معلوم نہيں ہے کہ وہ کون تھا ؟ مسلمان تھا يا کافر ؟ بعض سيرت کي کتابوں ميں لکھا ہے کہ خواب ديکھنے والے ابو لہب کے بھائي حضرت عباس بن عبد المطلب تھے ، اور يہ خواب انہوں نے ابولہب کي موت کے ايک سال بعد ديکھا تھا ، اس طرح گويا حضرت عباس ابھي تک مسلمان نہيں ہوئے تھے، کيونکہ وہ فتح مکہ کے سال مسلمان ہوئے ہيں اور ابولہب کا انتقال غزوۂ بدر کے بعد کا ہے ، لہذا ان کے خواب کا بھي کوئي اعتبار نہيں ہے ، چہ جائے کہ ا سے کسي شرعي مسئلے کي دليل بنائي جائے ۔
{ فتح الباري : 9/145 – عمدۃ القاري : 20/95 – ارشاد الساري : 8/31 } ۔
اہل تاريخ و سير کا اس بارے ميں اختلاف ہے کہ ابولہب نے ثويبہ کو کب آزاد کيا تھا ؟ صحيح بخاري ميں مذکور حضرت عروہ کے اس قول سے بظاہر يہ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت انہوں نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کو دودھ پلايا تھا وہ آزاد تھيں ، اور " روض الانف للسھيلي " وغيرہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابولہب نے انہيں نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي پيدائش کي خبر سن کر آزاد کيا تھا ، اہل تاريخ و سير ميں سے اکثر کا رجحان اس طرف ہے کہ حضرت ثويبہ ابولہب کي ملکيت ميں ہجرت نبوي کے کچھ بعد تک تھيں ، حتي کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي شادي کے بعد وہ حضرت خديجہ کے پاس آتي تھيں نبي صلي اللہ عليہ وسلم اور حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا ان کي بہت قدر کرتے تھے ، بلکہ حضرت خديجہ ابو لہب سے بار بار مطالبہ کرتي تھيں کہ انہيں ميرے ہاتھ فروخت کردو تاکہ ميں انہيں آزاد کردوں ، ليکن ابو لہب انکار کرتا رہا ، پھر جب آپ صلي اللہ عليہ وسلم ہجرت کرکے مدينہ منورہ چلے آئے تو ابولہب نے انہيں آزاد کيا ۔
{ طبقات ابن سعد :1/108 – الاصابہ : 4/258 – فتح الباري : 9/145 – الوفاء باخبار المصطفي : 1/806، 807 ،وغيرہ کتب سير و تواريخ } ۔
اس حديث کي شرح سے متعلق ہم نے متعدد کتابوں کي طرف رجوع کيا ، بخاري شريف کي تقريبا تمام موجودہ شرحوں کو ديکھا ليکن کسي بھي شارح نے اس سے عيد ميلاد پر استدلال نہيں کيا ہے بلکہ يہ قصہ کسي اور مسئلے پردليل ہے جس کاذکر آگے آرہا ہے ۔
اگر يہ قصہ صحيح ثابت ہوجائے تو اس سے صرف يہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي پيدائش و بعثت پر خوش ہونا باعث ثواب اور رب کائنات کي رحمت کا سبب ہے ، اور يہ ايسا مسئلہ ہے جس کا منکر کوئي بھي مسلمان نہيں ہے بلکہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي ميلاد و بعثت پر خوشي اور آپ کي امت ميں شامل ہونے کا فخر ہر مسلمان کي بڑي اہم نيکيوں ميں ہے ، اور جو شخص آپ کي ميلاد و بعثت پر خوش نہيں ہے شايد اس کا ايمان خطرے ميں ہے ، ليکن کيا خوشي کا واحد طريقہ جشن منانا ہے ، جھوٹے اور غلو آميز قصے سننا اور نعتيں گانا ہے ؟ حتي کہ اس جشن اور جلسے ميں اب تو باجے اور موسيقي کا بھي استعمال ہوتا ہے ، جب کہ اسلام نے ہميں خوشي و غمي کے کچھ آداب سکھلائے ہيں جن کا پاس و لحاظ ضروري ہے ، ذرا اس حديث نبوي پر غور کريں ، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة
{ مسند البزار - مجمع الزوائد :3/13 ، بروايت انس بن مالک } ۔
ليکن اس استدلال ميں کتنا وزن ہے اور مسئلہ جشن ميلاد سے اس کا کيا تعلقہ ہے ؟ اسے درج ذيل نقاط پر غور کرنے سے بآساني سمجھا جاسکتا ہے :
[1] باتفاق علماء يہ حديث ضعيف اور ناقابل استدلال ہے ، کيونکہ حضرت عروہ رحمہ اللہ تابعي ہيں ، انہوں نے نہ تو نبي صلي اللہ عليہ وسلم کا زمانہ پايا ہے اور نہ ہي يہ بيان کيا ہے يہ واقعہ انہوں نے کس سے سنا ہے ؟ ۔
{ فتح الباري : 9/145 – عمدۃ القاري :20/95 } ۔
کسي کو يہاں يہ دھوکہ نہيں ہونا چاہئے کہ يہ واقعہ صحيح بخاري ميں مذکور ہے، کيونکہ امام بخاري رحمہ اللہ نے اس قصہ کو مرسلا روايت کيا ہے ، نہ تو اس کي کوئي سند ذکر کي ہے اور نہ ہي اس سے کسي مسئلے پر استدلال ہے ، اور علماء کے نزديک صحيح بخاري کي وہي حديثيں صحيح اور قابل حجت ہيں جو متصلا اور موصولا بيان ہوئي ہيں، حقيقت جيسا کہ ايک ادني طالب بھي اس کو سمجھتا ہے ۔
واضح رہے کہ اصل حديث کو جس کے بعد امام بخاري رحمہ اللہ نے يہ قصہ نقل کيا ہے اسے امام موصوف کے علاوہ امام مسلم ، امام ابو داود ، امام نسائي اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے بھي روايت کيا ہے ليکن اس کے آخر ميں اس قصے کا ذکر نہيں ہے ۔
[2] يہ خواب کا معاملہ ہے اورخواب سے کوئي شرعي مسئلہ ثابت نہيں ہوتا ، الا يہ کہ وہ خواب انبياء عليہم السلام کا ہو ۔
{ فتح الباري : 9/145- الکواکب الداري : 19/79 } ۔
اس خواب کے ديکھنے والے کے بارے ميں کچھ بھي معلوم نہيں ہے کہ وہ کون تھا ؟ مسلمان تھا يا کافر ؟ بعض سيرت کي کتابوں ميں لکھا ہے کہ خواب ديکھنے والے ابو لہب کے بھائي حضرت عباس بن عبد المطلب تھے ، اور يہ خواب انہوں نے ابولہب کي موت کے ايک سال بعد ديکھا تھا ، اس طرح گويا حضرت عباس ابھي تک مسلمان نہيں ہوئے تھے، کيونکہ وہ فتح مکہ کے سال مسلمان ہوئے ہيں اور ابولہب کا انتقال غزوۂ بدر کے بعد کا ہے ، لہذا ان کے خواب کا بھي کوئي اعتبار نہيں ہے ، چہ جائے کہ ا سے کسي شرعي مسئلے کي دليل بنائي جائے ۔
{ فتح الباري : 9/145 – عمدۃ القاري : 20/95 – ارشاد الساري : 8/31 } ۔
اہل تاريخ و سير کا اس بارے ميں اختلاف ہے کہ ابولہب نے ثويبہ کو کب آزاد کيا تھا ؟ صحيح بخاري ميں مذکور حضرت عروہ کے اس قول سے بظاہر يہ معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت انہوں نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کو دودھ پلايا تھا وہ آزاد تھيں ، اور " روض الانف للسھيلي " وغيرہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابولہب نے انہيں نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي پيدائش کي خبر سن کر آزاد کيا تھا ، اہل تاريخ و سير ميں سے اکثر کا رجحان اس طرف ہے کہ حضرت ثويبہ ابولہب کي ملکيت ميں ہجرت نبوي کے کچھ بعد تک تھيں ، حتي کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي شادي کے بعد وہ حضرت خديجہ کے پاس آتي تھيں نبي صلي اللہ عليہ وسلم اور حضرت خديجہ رضي اللہ عنہا ان کي بہت قدر کرتے تھے ، بلکہ حضرت خديجہ ابو لہب سے بار بار مطالبہ کرتي تھيں کہ انہيں ميرے ہاتھ فروخت کردو تاکہ ميں انہيں آزاد کردوں ، ليکن ابو لہب انکار کرتا رہا ، پھر جب آپ صلي اللہ عليہ وسلم ہجرت کرکے مدينہ منورہ چلے آئے تو ابولہب نے انہيں آزاد کيا ۔
{ طبقات ابن سعد :1/108 – الاصابہ : 4/258 – فتح الباري : 9/145 – الوفاء باخبار المصطفي : 1/806، 807 ،وغيرہ کتب سير و تواريخ } ۔
اس حديث کي شرح سے متعلق ہم نے متعدد کتابوں کي طرف رجوع کيا ، بخاري شريف کي تقريبا تمام موجودہ شرحوں کو ديکھا ليکن کسي بھي شارح نے اس سے عيد ميلاد پر استدلال نہيں کيا ہے بلکہ يہ قصہ کسي اور مسئلے پردليل ہے جس کاذکر آگے آرہا ہے ۔
اگر يہ قصہ صحيح ثابت ہوجائے تو اس سے صرف يہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي پيدائش و بعثت پر خوش ہونا باعث ثواب اور رب کائنات کي رحمت کا سبب ہے ، اور يہ ايسا مسئلہ ہے جس کا منکر کوئي بھي مسلمان نہيں ہے بلکہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي ميلاد و بعثت پر خوشي اور آپ کي امت ميں شامل ہونے کا فخر ہر مسلمان کي بڑي اہم نيکيوں ميں ہے ، اور جو شخص آپ کي ميلاد و بعثت پر خوش نہيں ہے شايد اس کا ايمان خطرے ميں ہے ، ليکن کيا خوشي کا واحد طريقہ جشن منانا ہے ، جھوٹے اور غلو آميز قصے سننا اور نعتيں گانا ہے ؟ حتي کہ اس جشن اور جلسے ميں اب تو باجے اور موسيقي کا بھي استعمال ہوتا ہے ، جب کہ اسلام نے ہميں خوشي و غمي کے کچھ آداب سکھلائے ہيں جن کا پاس و لحاظ ضروري ہے ، ذرا اس حديث نبوي پر غور کريں ، آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا :
صوتان ملعونان في الدنيا والآخرة مزمار عند نعمة ورنة عند مصيبة
{ مسند البزار - مجمع الزوائد :3/13 ، بروايت انس بن مالک } ۔

No comments:
Post a Comment