ایک حقیقت
بریلوی مکتبہ فکر کے احمد رضا صاحب نے اپنی کتاب ’’حسام الحرمین ‘‘ پیش کی
جس میں احمد رضا صاحب نے مختلف عبارتوں میں علمی خیانت کر کے عبارتوں کو توڑ موڑ کر الٹ پلٹ کیا
اور اپنی کتاب علماء حرمین کے پاس لے گئے
اور علماء حرمین کی اردو سے ناواقفیت کا فائدہ اٹھا کر عبارتوں کے غلط مفہوم بتائے اور علماء دیوبند کے خلاف کفر کے فتوے لئے
لیکن جب بعد میں ہندوستان کے بعض علماء عرب گئے اور علماء حرمین سے ملاقات کی اور اس کتاب کا تذ کرہ کیا اور علماء حرمین کو ان عبارتوں کے اصل مفہوم بتائے
تو اس پر علماء حرمین بہت نادم ہوئے کہ افسوس ! احمد رضاصاحب نے دھوکہ دے کر ایسے حضرات کے خلاف فتوی لئے جو نہ صرف وقت کے محقق تھے بلکہ ولی اللہ تھے.
پھر علماء حرمین نے ان مسائل کی تحقیق کے لئے مستقل سوالات ہندوستان بھیجے کہ کیا علماء دیو بند نے ایسا لکھا ہے ?
اور علماء دیو بند کا عقیدہ کیا ہے ?
جس کے جواب میں علماء دیو بند نے جوابات عرب روانہ کئے
جس پر ہندوستان کے 24 علماء کرام کے دستخط بھی تھے .
پھر علماء حرمین نے ان جوابات کی تائید اور تصدیق بھی فرمائی
اور مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ سمیت مصر ،طرابلس ،دمشق ،بخارا،تونس ،الجزائر ، نابلس وغیرہ کے 46 علماء کرام نے دستخط کئے جن میں حنفی شافعی مالکی حنبلی سب شریک تھے .
اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مسلک کے بلند پایہ مفتی اور عالم تھے .
جن میں بعض خود حرم شریف کے اعلیٰ مدرسین بھی تھے.
ان سوالات اور جوابات کے مجموعہ کا نام ’’التصدیقات الدفع التلبیسات‘‘ ہے .
اور جن علماء عرب نے احمد رضا صاحب کی کتاب ’’حسام الحرمین‘‘ میں دستخط کئے تھے .
انہوں نے اپنے دستخط سے رجوع کیا اور اعلان کیا کہ ہم کو دھوکہ دے کر احمد رضا صاحب نے دستخط کرائے .
لیکن کیوں کہ یہ کتاب ’’حسام الحرمین‘‘ہندوستان میں چھپ کر شایع ہوچکی تھی
اس لئے محض اعلان کرنا کافی نہ تھا کیوں کہ تمام لوگوں تک اس اعلان کی رسائی ممکن نہ تھی .
اس لئے علماء مدینہ طیبہ نے اس پر مستقل رسائل لکھے ..
جن میں سے ایک رسالہ کا نام ’’غایۃ المعمول‘‘ہے .
اس میں اعلیٰ حضرت کی اور ان کے عقائد باطلہ کی پورے دلائل کے ساتھ تردید کی گئی ہے .
دوسرے رسالے کا نام ’’تثقیف الکلام‘‘ہے ...
تیسرے رسالے کا نام ’’رجوع المذنبین علیٰ روءس الشیاطین‘‘ہے
بریلوی مکتبہ فکر کے احمد رضا صاحب نے اپنی کتاب ’’حسام الحرمین ‘‘ پیش کی
جس میں احمد رضا صاحب نے مختلف عبارتوں میں علمی خیانت کر کے عبارتوں کو توڑ موڑ کر الٹ پلٹ کیا
اور اپنی کتاب علماء حرمین کے پاس لے گئے
اور علماء حرمین کی اردو سے ناواقفیت کا فائدہ اٹھا کر عبارتوں کے غلط مفہوم بتائے اور علماء دیوبند کے خلاف کفر کے فتوے لئے
لیکن جب بعد میں ہندوستان کے بعض علماء عرب گئے اور علماء حرمین سے ملاقات کی اور اس کتاب کا تذ کرہ کیا اور علماء حرمین کو ان عبارتوں کے اصل مفہوم بتائے
تو اس پر علماء حرمین بہت نادم ہوئے کہ افسوس ! احمد رضاصاحب نے دھوکہ دے کر ایسے حضرات کے خلاف فتوی لئے جو نہ صرف وقت کے محقق تھے بلکہ ولی اللہ تھے.
پھر علماء حرمین نے ان مسائل کی تحقیق کے لئے مستقل سوالات ہندوستان بھیجے کہ کیا علماء دیو بند نے ایسا لکھا ہے ?
اور علماء دیو بند کا عقیدہ کیا ہے ?
جس کے جواب میں علماء دیو بند نے جوابات عرب روانہ کئے
جس پر ہندوستان کے 24 علماء کرام کے دستخط بھی تھے .
پھر علماء حرمین نے ان جوابات کی تائید اور تصدیق بھی فرمائی
اور مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ سمیت مصر ،طرابلس ،دمشق ،بخارا،تونس ،الجزائر ، نابلس وغیرہ کے 46 علماء کرام نے دستخط کئے جن میں حنفی شافعی مالکی حنبلی سب شریک تھے .
اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مسلک کے بلند پایہ مفتی اور عالم تھے .
جن میں بعض خود حرم شریف کے اعلیٰ مدرسین بھی تھے.
ان سوالات اور جوابات کے مجموعہ کا نام ’’التصدیقات الدفع التلبیسات‘‘ ہے .
اور جن علماء عرب نے احمد رضا صاحب کی کتاب ’’حسام الحرمین‘‘ میں دستخط کئے تھے .
انہوں نے اپنے دستخط سے رجوع کیا اور اعلان کیا کہ ہم کو دھوکہ دے کر احمد رضا صاحب نے دستخط کرائے .
لیکن کیوں کہ یہ کتاب ’’حسام الحرمین‘‘ہندوستان میں چھپ کر شایع ہوچکی تھی
اس لئے محض اعلان کرنا کافی نہ تھا کیوں کہ تمام لوگوں تک اس اعلان کی رسائی ممکن نہ تھی .
اس لئے علماء مدینہ طیبہ نے اس پر مستقل رسائل لکھے ..
جن میں سے ایک رسالہ کا نام ’’غایۃ المعمول‘‘ہے .
اس میں اعلیٰ حضرت کی اور ان کے عقائد باطلہ کی پورے دلائل کے ساتھ تردید کی گئی ہے .
دوسرے رسالے کا نام ’’تثقیف الکلام‘‘ہے ...
تیسرے رسالے کا نام ’’رجوع المذنبین علیٰ روءس الشیاطین‘‘ہے
آخر میں جن کتابوں کے نام آہ نے لکھے ہیں،کیا وہ پی ڈی ایف فائل مین مل سکتی ہیں؟؟؟
ReplyDelete