الحاد و بدعت اور غیرمقلدین(فرقہ جدید نام نہاد اہلحدیث )
ہر مسلمان ہر نماز ‘ میں خداوندقدوس کی بارگاہ میں درخواست کرتا ہے کہ یا اﷲ مجھے سیدھے راستے پر قائم رکھ اور چونکہ رہبروں کی رہنمائی اور تقلید کے بغیر سیدھے راستہ پررہنا ناممکن ہے ا سلئے يہ گزارش کرتا ہے کہ اے اﷲ مجھے ان لوگوں کے راستے پر چلنے کی توفتق دینا جن پر تیرے انعامات کی بارشیں ہوئیں اور وہ حضرات انبیاءکرام ؑ صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں۔ پھر سیدھے راستے سے بھٹکانے اور گمراہ کرنے کے ليے اس دینا میں بہت سے رہزن بھی ہیں۔ اس لئے مومن اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ جو لوگ راہ حق کے رہزن ہے جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے ان کی پیروی اور تقلید سے ہمیں بچانا۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ صراط مستقیم پر رہنے کےلئے جس طرح رہبروں کی تقلید ضرروی ہے۔ اسی طرح رہزنوں سے بچنا بھی ضروری ہے ورنہ وہ راہ حق سے بھٹکانے اور گمراہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔
بنیادی اصول:۔
جب گمراہی سے بچنا ہر شخص کی دلی خواہش ہے تو ضروری ہے کہ اس بارہ میں علم بھی ہو کہ گمراہی کہاں سے پھوٹتی ہے اور کس طرح گمراہی کا سلاب سيدھے سادھے عوام کو بہا کر لے جاتا ہے تو معزز قرائین يہ یاد رکھیں کہ جس طرح ہمارا علم حساب کتنا بھی پھیل جائے مگر اس کے بنیاد قاعدے صرف دو ہیں جمع اور تفریق، اسی طرح گمراہی اور ضلالت کتنی بھی پھیل جائے مگر اس کے بنیادی اصول دو ہی ہیں، الحاد و بدعت۔
الحاد:۔
الحاد کہتے ہیں کہ جو عقائد یا اعمال دین میں ثابت ہو ان کا انکار کرنا، مثلاً اہل السنة و الجماعة کا اتفاق ہے کہ دلائل شرعيہ بالترتیب چار ہیں۔ کتاب اﷲ، سنت رسول اﷲﷺ، احماع امت اور قیاس مجتہد۔ جو ان چاروں دلائل اور ان سے ثابت شدہ مسائل کو مانتا ہے وہ اہل السنة الجماعة ہے۔اب اگر کوئی شخص يہ کہے کہ میں قیاس مجتہد سے ظاہر کردہ مسائل کو نہیں مانتا تو اس نے اس فقرے سے شریعت کے ان لاکھوں مسائل کے ماننے سے انکار کر دیا جو آئمہ مجتہدین نے کتاب وسنت سے بذریعہ قیاس استنباط فرمائے۔ یاد رہے يہاں قیا س سے مراد اٹکل پچو باتیں نہیں بلکہ اہل سنت والجماعت کی اصطلاح میں قیاس وہ خاص طریقہ عام ہے جس سے مجتہد کتاب وسنت میں پوشیدہ مسائل کو ظاہر کر دیتا ہے اس ليے ہر مجتہد کا اعلان ہوتا ہے۔ ” القیاس مظہر لا مثبت“ کہ قیاس سے مسائل گھڑے نہیں جاتے بلکہ کتاب وسنت میں پوشیدہ مسائل کا صرف ظاہر کیا جاتا ہے۔
استنباط:۔
قرآن پاک نے اس کو استنبابط کے لفظ سے بیان فرمایا ہے کہ وہ پانی جو زمین کی تہ کے نيچے چھپا ہوا ہے ۔ اس کو نکال کر ظاہر کر دینا اس مثال سے اﷲ تعالیٰ نے سمجھا دیا کہ انسانی زندگی کے ليے جس طرح پانی ضروری ہے اس کے بغیر انسان زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسی طرح اسلامی زندگی کے ليے اجتہادی مسائل میں مجتہد کےلئے اجہتاد ضروری ہے اور عامی کےلئے تقلید اور يہ بات بھی ذہن نشین ہو گئی کہ جس طرح کنواں کھودنے والا اس پانی کا خالق اور پیداکرنے والا نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کے ہی پیدا کيے ہوئے پانی کوظاہر کرنے والا ہے۔ سب لوگ اسی عقیدے سے يہ پانی استعمال کرتے ہيں کہ اس کے ايک ايک قطرے کا خالق سرف اﷲ تعالیٰ ہے اس لئے پانی پی کر اسی خدا کا شکريہ ادا کرتے ہیں۔ ہاں اس کنواں کھودنے والے کے لئے بھی دعا کرتے ہيں جس نے خدا کے پیداکردہ پانی کی حصول ہمارے لئے آسان کر دیا۔
مثال :۔
اگر کھانے پینے کی چیز میں مکھی گر جائے اس کو نکال کر پھینک دينے کا ذکر حدیث پاک میں ہے اور ثابت ہے کہ وہ چیز پاک رہتی ہے، ناپاک نہیں ہوتی۔ لیکن اگر شربت میں بھڑ، شوربے میں چیونٹی، دودھ میں مچھر، چائے میں جگنو وغیرہ گر جائیں تو ان کے بارے میں کوئی صحےح صريح حدیث موجود نہیں کہ کیا کیا جائے مگر يہ مسائل ہر گھر کی ضرورت ہیں۔چنانچہ مجتہد نے غور فرمایا کہ اسلام کا جب دعوی ہے کہ اس میں انسان کی زندگی کے تمام مسائل کا حل موجود ہے مگر ان مسائل کا حل صراحةً نہیں ملا تو تلاش کرنا چاہيے۔ ان کی اجتہادی بصیرت نے رہنمائی فرمائی کہ مکھی میں دم مفسوح (رگوں میں دوڑنے پھرنے والا خون) نہیں ہوتا جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے اس لئے اس کے گرنے سے چیز ناپاک نہیں ہوتی اور ظاہر ہے کہ مکھی کی طرح مچھر، چیونٹی، جگنو، بھڑ وغیرہ اور بھی بیسوں جانور ہیں جن میں دم مفسوح نہیں ہوتا تو اس قاعدے سے سب کو مکھی پر قیاس کر لیا گیا کہ ان کے گر نے سے بھی چیز ناپاک نہیں ہوتی يہ حکم ذاتی رائے یا من گھڑت نہیں ہے اس کے جواب کو ذاتی رائے نہیں کہتے بلکہ اصل شرعی کے مطابق ظاہر کیا گیا ہے جس طرح حساب کے قاعدے سے جو سوال نکالا جائے ۔اسے حساب کا جواب کہتے ہیں۔اسی طرح مسئلہ کا جو جواب شرعی قاعدہ سے نکالا جائے اسے کسی کی ذاتی رائے نہیں کہا جاتا بلکہ وہ شرعی مسئلہ ہوتا ہے تو ايسے لاکھوں مسائل جو بذریعہ کتاب وسنت سے اخذ کيے گئے ہیں ان کو شرعی مسائل نہ ماننا بھی الحاد ہی کی ايک قسم ہے اس کا نتیجہ يہی ہو گا کہ اس شخص کی زندگی اکثر مسائل میں اسلامی احکام سے محروم ہو جائے گی اور اگر خود نا اہل ہو کر ٹامک ٹوئیاں مارے گا تو گمراہی کے سوا کچھ نصیب نہ ہوگا۔
وکیل اہلحدیث ہند مولوی محمد حسین بٹالوی فرماتے ہیں”جو لوگ قرآن و حدیث سے خبر نہ رکھتے ہوں علوم عربیہ ادبیہ(جو خادم قرآن وحدیث ہیں) سے محض ناآشنا ہوں صرف اردو فارسی تراجم پڑھ کر یا لوگوں سے سن کر یاٹوٹی پھوٹی عربی جان کر مجتہد اور ہر بات میں تارک تقلید بن بیٹھیں ان کے حق میں ترک تقلید سے بجز ضلالت (گمراہی) کے کسی ثمرہ کی توقع نہیں ہو سکتی پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو يہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کو سلام کر بیٹھتے ہیں ۔( اشاعتہ السنة ص53 ج11)
ديکھئے اہل سنت علماء نے جو بات ابتداءفرما دی تھی مولوی محمد حسین بٹالوی بھی 25سال کے تجربہ کے بعد وہیں پہنچے کہ ترک تقلید سے گمراہی کے سوا کچھ نہیں ملتا بلکہ بعض اوقات ترک تقلید کا نتیجہ ترک اسلام کی شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔
اجماع:۔
اسی طرح جو شخص اجماع کے حجت ہونے کا انکار کرتا ہے اس نے گویا ہزاروں ان مسائل شرعیہ کا انکار کر دیا ہے جو اجماع سے ثابت ہیں يہ بھی الحاد ہے اور جو شخص سنت کو ماننے سے انکار کرتا ہے اس نے بھی ايسے سینکڑوں مسائل شرعیہ کا انکار کر دیا جو سنت سے ثابت ہيں۔ ملحد کی مثال کيڑے کی سی ہے جیسے بعض کیڑے صرف پتوں کوکھاتے ہیں ، بعض پھلوں کو خراب کرتے ہیں۔ بعض شاخوں کو اور بعض جڑوں کو کاٹ جاتے ہیں ايسے ملحدین کی مختلف اقسام ہیں جو ان کے عقائد کا انکار کریں جو ضرورت دین میں سے ہیں جيسے انکار ختم نبوت وغیرہ وہ کافر ہیں، جو ایسے مسائل کا انکا رکریں جو ضروریات اہل السنة و الجماعة میں سے ہوں وہ اہل السنة و الجماعة سے خارج ہیں جيسے عذاب قبر وحیات النبی ﷺ کا انکار کرے یا اہل سنت کی کتاب” المھند علی المفند“ میں درج شدہ مسائل کا انکار کرے۔ اسی طرح جو شخص مطلق تقلید کا انکار کرکے خودرائی اور ذہنی آوارگی میں مبتلا ہو يہ بھی الحاد ہی کی قسم ہے۔ اﷲ تعالیٰ الحاد سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھیں۔ (آمین)
گمراہی کی دوسری بنیاد:۔
گمراہی کی دوسری بنیاد:۔
الحاد کی طرح گمراہی كی دوسری بنیاد بدعت ہے یعنی جو مسئلہ نہ کتاب اﷲ سے ثابت ہو نہ سنت رسول اﷲ سے ثابت ہو نہ اجما ع امت سے نہ قیاس مجتہد سے ايسے مسئلہ کو دین و شریعت کا مسئلہ سمجھنا، اس کو بدعت کہتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے شرک کے بعد سب سے زیادہ مذمت بدعت کی ہی فرمائی ہے۔بدعت کی مثال خود رو جڑی بوٹیوں کی ہے جس طرح گندم کو پودا سارے ملک میں ايک جيسا ہے لیکن گندم میں جڑی بوٹیاں ہر علاقے کے الگ الگ ہیں۔ جو جڑی بوٹیاں پنجاب میں اگتی ہیں بلوچستان میں ان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح جو جڑی بوٹیاں سرحد میں اگتی ہیں سندھ والے ان کی شکل سے بھی نا واقف ہوتے ہیں۔ بعض جڑی بوٹیاں فصلی کی جڑوں کا ناکارہ کر دیتی ہیں بعض شاخوں اور پھلوں کو برباد کرتی ہیں اسی طرح بعض بدعات سے ضروریات دین متاثر ہوتی ہیں ان کو بدعاع کفريہ کہتے ہیں ان کے بارہ میں کتاب وسنت میں شدید وعیدیں آئی ہيں جيسے انکار بشریت انبیاء علہیم السلام وغیرہ اور بعض بدعات عملتہ ہوتی ہیں وہ حرام اور مکروہ کے درجہ میں ہوتی ہیں پہلی مثال يہ ہے جيسے کوئی آدمی کھانا پکا کر اس میں زہر ملا دے جس کے کھا نے سے جان ہی رخصت ہو جائے گی یا کوئی شخص کھانا پکا کر اس میں پیشاب ملا دے، اب يہ نجس اور حرام ہے یا کوئی شخص کھانا پکا کر اس میں پیاز کاپانی اور لہسن ملا دے تو يہ طبعاً نا پسندیدہ اور مکروہ ہو گا۔
نقطہ اعتدال:۔
اہل سنت والجماعت نقطہ اعتدال پر ہیں اور الحاد و بدعت والے افراط وتفريط کا شکار اور انتہا پسند لوگ ہیں اور محض ضد میں مبتلا ہیں مثلاً ايک فریق نے يہ انتہا کی کہ ”دم بدم پڑھو درود۔ حضرت بھی ہیں يہاں موجود“ دوسراضد ی اٹھا کہ يہ بالکل غلط ہے۔حضرت محمد ﷺ تو روضہ اقدس میں بھی حیات نہیں ہیں ايک شخص اٹھا اس نے کہا امداد کن، امداد کن، ازبند غم آراد کن، دردین ودنیا شادکن یا شیخ عبدا لقادرا۔ غیراﷲ سے مرادیں مانگنی شروی کر دیں۔ دوسرا اٹھا اس نے کہا کہ یوں کہنا کہ اے اﷲ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے وسیلہ سے میری دعاقبول فرما يہ بھی شرک ہے۔
خطرناک گناہ:۔
يہ الحاد و بدعت دونوں گناہ انتہائی خطر ناک ہیں جو گناہ کی شکل میں نہیں بلکہ نیکی کے روپ دھار کر آئے ہیں۔ جو گناہ گناہ ہی کی شکل میں ہو اس سے توبہ کی توفیق آسان ہے لیکن جو گناہ نیکی کی شکل میں آئے اس سے توبہ کی توفیق عموما سلب ہوتی ہے۔ بدعتی اپنے گناہ کو گناہ ہی نہیں بلکہ عشق رسول اور حب اولیاء اﷲ کا نام دیتاہے تو اس سے کب توبہ کرے گا۔ جو شخص اپنے مرض کو ہی مثالی صحت سمجھنے لگے اسے علاج کی کب فکر ہو گی۔ اسی طرح ملحد جب فقہ کا انکا کرتا ہے تو اس کا نام عمل بالحدیث رکھ لیتا ہے وہ اپنی سوچ کو عین نبی کی سوچ سمجھتا ہے ۔ اپنے فہم کو معصوم عنا الخطاءسمجھتا ہے جو اس کے فہم کو نہ مانے اسے نبی کا منکر خیا ل کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ صحابہ ،ؓ اہل بیتؓ،مجتہدین ؒ کی سوچ میں خطا ہوتی ہے لیکن میری سوچ نبی ﷺ کی سوچ ہے۔ جو خطا سے معصوم ہے تو وہ کب اس پر نظر ثانی کے لئے تیا رہوگا۔
اسی طرح دوسرے ملحد نے انکار سنت کا نام عمل بالقرآن رکھا وہ اپنی سمجھ کو عین خدا کی سمجھ خیال کرتا ہے اہل سنت کو مخلوق پرستی کا طعنہ دتیا ہے لیکن اپنی عقل سقیم کو خالق کے مقام پر سمجھتا ہے تو وہ کب توبہ کی طرف آئے گا۔
محاکمہ:۔
اب يہ ديکھنا ہے کہ گمراہی کے ان دونوں اصولوں میں سے کونسا بد ہے اور کو نسا بدتر، تو علما ءکرام کی تحقیق يہی ہے کہ الحاد کا گناہ بدعت سے شدید تر ہے کیونکہ اس کی بنیاد اہل اﷲ سے بغاوت پر ہے اس کا پہلا قدم اسلاف سے بدگمانی اور دوسر اقدم اسلاف پر بدزبانی ہے ۔”لعن آخر ہذہ الامة اولیاء“ اور اﷲ والوں سے عدوات رکھنا اﷲ تعالیٰ سے اعلان جنگ ہے ۔ بدعتی اہل اﷲ کی محبت میں غلو کر کے گمراہ ہوتاہے اور ملحد اہل اﷲ کی شان میں گستاخی کر کے۔اہل اﷲ سے محبت کرنے کا ايک درجہ جس کو الحب فی اﷲ کہتے ہیں خود شریعت میں مطلوب ہے تو کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ اس کی محبت غلو سے اتر کر نقطہ اعتدال پر آجائے تو سے توبہ کی توفیق ہو جائے اگرچہ شاذو نادر ہو مگر اہل اﷲ کی شان میں گستاخی کاکوئی درجہ بھی شرع شریف میں مطلوب نہیں کہ اتنی گستاخی کر لینا اس سے زیادہ نہ کرنا اس لئے اس کا توبہ کرنا نا ممکن ہے اسی ليے عارفین نے بتایا ہے کہ بدعتی کی مثال کچی روٹی کی سی ہے اگر اسے دوبارہ آگ پر رکھا جائے تو شاید کسی کام آجائے لیکن ملحد کی مثال جلی ہوئی روٹی کی ہے جو اب کسی کام نہیں آ سکتی۔
ايک مثال :۔
مکرم قارئین! آپ نے ملحد ، بدعتی اور اہل سنت کا فرق کرنسی نوٹ کی مثال سے بہ آسانی سمجھ جائیں گے ايک سو روپے کا نوٹ آج چل رہا ہے ملک کا بازار اور بنک اسی پر کاروبار کر رہا ہے۔ يہ مثال اہل سنت والجماعت کی ہے کہ يہ ان ہی مسائل پر عامل ہیں جن پر ادلہ شرعیہ میں سے کسی دلیل کی مہر لگی ہے اور امت میں عملاً متواتر شدہ ہیں اور ايک نوٹ وہ تھا جو چند سال ہوئے بند ہو گیا اگرچہ اس پر لفظ منسوخ تو نہیں چھپا لیکن جب ملک کا بازار اور بنک اس کو نہیں لیتا تو يہ ہی اس کے منسوخ ہونے کی دلیل ہے۔ اب اگر کوئی شخص کسی سادہ آدمی کو وہ پرانا اور منسوخ نوٹ دے اور وہ کہے کہ بھائی يہ تو میں نے عام لوگوں کے پاس نہیں ديکھا دہ کہے کہ دیکھو اس پرحکومت پاکستان لکھا ہے، اس پر سٹیٹ بینک کی مہر ہے، اس پر کہیں لفظ منسوخ نہیں لکھا تم يہ نوٹ نہ لو گے تو حکومت کے باغی سمجھے جاﺅ گے اور يہ جھانسا دے کر چالو نوٹ لے جائے تو سب لوگ اس کو دھوکا اور فریب کہیں گے يہی حال ملحد کا ہے وہ کوئی ایسی حدیث یا کسی آیت کا اایسا مطلب بیان کرتا ہے جو نہ کسی فقہيہ ومجتہد نے بیان کیا نہ اس حدیث پر مجتہد نے عمل کیا جو اس مجتہد کے نزدیک منسوخ یا مرجوع یا موول ہے اور اس کے بہانے متوارث سنت چھڑوا دیتا ہے تو يہ یقینا دین کے ساتھ ايک فراڈ ہے۔تیسرا شخص وہ جعلی نوٹ لے آتا ہے جو عید کے موقعہ پر چھپا ہوتا ہے اور چند پيسيوں میں سو روپے کا نوٹ فروخت ہو رہا ہے يہ مثال بدعتی کی ہے جيسے وہ جعلی نوٹ دے کر کسی سے چالو نوٹ لے جائے۔ يہ فراڈ ہے اسی طرح بدعتی سنتیں مٹا مٹا کران کی جگہ بدعات کو مروج کرتا ہے سنت ااور اہل سنت کا دشمن ہے۔ آج اہل سنت پر دو طرفہ حملے ہو رہا ہيں۔ کوئی عشق رسول کے بہانے سنتیں چھین کر بدعات پر لگا رہا ہے کوئی حدیث رسول کے بہانے نبی پاک ﷺ کی سنتوں کو مٹا رہاہے۔
No comments:
Post a Comment