کیا ائمہ نے اپنی تقلید سے منع کیا ہے؟
🌼 *ازافادات: مولانا یحییٰ نعمانی*
🔸🔸🔸🔸🔸🔸🔸🔸🔸
🌻 معروف غیرمقلد محدث شیخ ناصرالدین البانی نے جواس مسئلہ میں اپنے غلو کے لئے مشہور ہیں۔ اپنی کتاب ”صفة صلاة النبی“ کے شروع میں ائمہ کے حوالے سے چند ایسے اقوال ذکر کئے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان میں ائمہ نے تقلید سے منع کیاہے۔
🌺 جب راقم سطور نے انہیں دیکھا تو پایا کہ ان میں سے اکثر میں تو صرف اتباع سنت کے وجوب اوراس کی مخالفت سے بتاکید منع کیا گیاہے۔ ایسے اقوال کو تقلید کے خلاف استعمال کرنا صریح خلط مبحث ہے۔ ایک مقلد سنت کی مخالفت نہیں بلکہ اس کی اتباع کے لیے تقلید کرتا ہے۔ اہل علم کے اختلاف کے مسائل میں وہ خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تو اس کے لیے سنت کی اتباع یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی عالم یا امام کی اتباع کرتے ہوے حدیث کا وہی مطلب سمجھے جو اس امام نے سمجھا ہے۔ اہل حدیث عوام بھی یہی کرتے ہیں اور مسالک کے متبع بھی——
💐 بہر حال علامہ البانی نے اس سلسلے میں ائمہ کے جو اقوال نقل کیے ہیں ان میں اکثر کا تو یہی حال ہے کہ ان میں سنت کی مخالفت سے منع کیا گیا ہے اور اس میں کس صاحب ایمان کو اختلاف ہوسکتا ہے؟
🌸 البتہ صرف دو تین ایسے اقوال ہیں جن میں تقلید سے روکا گیا ہے۔ مگر اگر غور سے پوری بات سنی اور پڑھی جائے تو یہ بات وہاں بھی واضح نظر آتی ہے کہ ائمہ کی اس نصیحت کے مخاطب صرف وہ علماء ہیں جو شریعت کے علوم میں گہری بصیرت رکھتے ہیں۔ ان اقوال کو عوام کی تقلید پر چسپاں کرنا ایک بالکل بے تکی بات ہی ہے۔
(1⃣) مثلاًشیخ موصوف نے امام ابوحنیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے
*”کوئی ہمارے کسی قول کو اس وقت تک نہ لے جب تک یہ نہ جان لے کہ اس کی شرعی دلیل کیا ہے“۔*
🌷 خط کشیدہ جملے پر غور کیجئے، بتائیے کہ وہ مسائل جن میں صحابہ کرام سے لے کر ائمہ مجتہدین کے دور تک اور پھر آج تک علماء میں اختلاف رائے چلا آرہاہے، کیا ان میں دلائل کو تفصیل کے ساتھ جاننا اور سمجھنا اور امام ابو حنیفہ کے قول کی ترجیح کے اسباب کا مفصل علم یہ کسی عام آدمی کا کام ہے، یا اس کا اہل صرف راسخ العلم عالم ہی ہوسکتا ہے۔
🌹 ہاں ایسا وسیع النظر اور راسخ العلم عالم جس میں اجتہاد کی صلاحیت ہو اس سے یہ بات کہنی ممکن ہے کہ میری دلیل کو جان کر ہی میرے قول کی اتباع کرے۔امام صاحب کے اس قول کے مخاطب ایسے ہی علماء تھے۔
(2⃣) امام احمد بن حنبل کا یہ قول بھی شیخ البانی نے نقل کیا ہے کہ:
*نہ میری تقلید کرو، نہ مالک کی، نہ شافعی کی، نہ اوزاعی کی، نہ ثوری کی، بلکہ وہاں سے احکام کا استنباط کرو جہاں سے انہوں نے کیا۔*
🍄 آپ غور کرلیں کہ *”وہاں سے احکام کا استنباط کرو جہاں سے انہوں نے کیا“* یہ عوام اور کم علم لوگوں کا کام ہے یا اجتہاد کی قدرت رکھنے والے علمائے کرام کا؟
(3⃣) شیخ البانی نے امام شافعی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ:
*"اگر کوئی صحیح حدیث میرے قول کے خلاف ہو تو حدیث پر عمل کرو اور میری تقلید مت کرو“*
💎 اصولی طور پر یہ بھی ایک ایسی بات ہے کہ کوئی صاحب ایمان، ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس سے اختلاف نہیں کرسکتا۔
🌐 ہم تقلید کے مسئلہ کی جو تفصیلی تشریح کرآئے ہیں، اس سے یہ بات واضح طور پر سامنے آچکی ہے کہ سارے محقق علماءیہی کہتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔ البتہ اگر ان کے نزدیک ان کا مذہب قرآن کی کسی آیت پر مبنی ہو، یا اس کے حق میں اس حدیث سے بھی زیادہ قابل ترجیح حدیث ہوتی ہے تو پھر وہ اپنے ہی مذہب پر باقی رہتے ہیں اور دوسری حدیث کا ایسا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو دیگر احادیث اور قرآنی آیات کے مطابق ہو۔ البتہ جو لوگ ان کی رائے اور فہم کے خلاف اسی حدیث کی بنا پر دوسری رائے رکھتے ہیں وہ ان کو اپنی رائے پر عمل کرنے کی پوری اجازت دیتے ہیں اور ان کو بھی راہ ہدایت پر گامزن مانتے اور جانتے ہیں۔
🎯 بہرحال ائمہ اسلام نے عوام اور کم علم لوگوں کو تقلید سے ہر گز منع نہیں کیا ہے، ان کے ان اقوال کو عوام کی تقلید پر محمول کرنا صرف غلط فہمی ہے ۔ انہی اماموں کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ علاقوں کے علاقے ان کی تقلید کرتے ہیں۔ شام میں اوزاعی کا مذہب چلتا ہے، پورے افریقہ میں امام مالک کا چلتا ہے، اور یہ ائمہ اس کا خود تذکرہ کرتے ہیں، اور کسی کو اس سے منع نہیں کرتے، ہم اس کتاب میں اس کی مثالیں ذکر کرچکے ہیں۔
🌻 یہ سراسر غلط فہمی ہے بلکہ مغالطہ آرائی ہے کہ ائمہ کے ان اقوال کا یہ مطلب نکالا جائے کہ انہوں نے عوام کو اپنی تقلید سے روکا تھا۔
🌺 ہم آگے فقہی اختلاف سے متعلق باب میں واضح کریں گے کہ مذاہب کے اختلاف کا سبب اکثر سمجھنے کا اختلاف ہوتا ہے، نہ ائمہ جاہل تھے اورنہ اللہ ورسول کی مخالفت کرنے والے۔ بس اتنی سی بات پر غور کرنے سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ دلائل پر سب نے غور کیا اور ہر ایک کو اللہ ورسول کا حکم الگ نظر آیا، ہم جس کی اتباع کرلیں گے ان شاءاللہ اللہ راضی ہوگا۔
(ماخوذ از: تقلید اور مسلکی اختلاف کی حقیقت )
🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
🌼 *ازافادات: مولانا یحییٰ نعمانی*
🔸🔸🔸🔸🔸🔸🔸🔸🔸
🌻 معروف غیرمقلد محدث شیخ ناصرالدین البانی نے جواس مسئلہ میں اپنے غلو کے لئے مشہور ہیں۔ اپنی کتاب ”صفة صلاة النبی“ کے شروع میں ائمہ کے حوالے سے چند ایسے اقوال ذکر کئے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان میں ائمہ نے تقلید سے منع کیاہے۔
🌺 جب راقم سطور نے انہیں دیکھا تو پایا کہ ان میں سے اکثر میں تو صرف اتباع سنت کے وجوب اوراس کی مخالفت سے بتاکید منع کیا گیاہے۔ ایسے اقوال کو تقلید کے خلاف استعمال کرنا صریح خلط مبحث ہے۔ ایک مقلد سنت کی مخالفت نہیں بلکہ اس کی اتباع کے لیے تقلید کرتا ہے۔ اہل علم کے اختلاف کے مسائل میں وہ خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تو اس کے لیے سنت کی اتباع یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی عالم یا امام کی اتباع کرتے ہوے حدیث کا وہی مطلب سمجھے جو اس امام نے سمجھا ہے۔ اہل حدیث عوام بھی یہی کرتے ہیں اور مسالک کے متبع بھی——
💐 بہر حال علامہ البانی نے اس سلسلے میں ائمہ کے جو اقوال نقل کیے ہیں ان میں اکثر کا تو یہی حال ہے کہ ان میں سنت کی مخالفت سے منع کیا گیا ہے اور اس میں کس صاحب ایمان کو اختلاف ہوسکتا ہے؟
🌸 البتہ صرف دو تین ایسے اقوال ہیں جن میں تقلید سے روکا گیا ہے۔ مگر اگر غور سے پوری بات سنی اور پڑھی جائے تو یہ بات وہاں بھی واضح نظر آتی ہے کہ ائمہ کی اس نصیحت کے مخاطب صرف وہ علماء ہیں جو شریعت کے علوم میں گہری بصیرت رکھتے ہیں۔ ان اقوال کو عوام کی تقلید پر چسپاں کرنا ایک بالکل بے تکی بات ہی ہے۔
(1⃣) مثلاًشیخ موصوف نے امام ابوحنیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے
*”کوئی ہمارے کسی قول کو اس وقت تک نہ لے جب تک یہ نہ جان لے کہ اس کی شرعی دلیل کیا ہے“۔*
🌷 خط کشیدہ جملے پر غور کیجئے، بتائیے کہ وہ مسائل جن میں صحابہ کرام سے لے کر ائمہ مجتہدین کے دور تک اور پھر آج تک علماء میں اختلاف رائے چلا آرہاہے، کیا ان میں دلائل کو تفصیل کے ساتھ جاننا اور سمجھنا اور امام ابو حنیفہ کے قول کی ترجیح کے اسباب کا مفصل علم یہ کسی عام آدمی کا کام ہے، یا اس کا اہل صرف راسخ العلم عالم ہی ہوسکتا ہے۔
🌹 ہاں ایسا وسیع النظر اور راسخ العلم عالم جس میں اجتہاد کی صلاحیت ہو اس سے یہ بات کہنی ممکن ہے کہ میری دلیل کو جان کر ہی میرے قول کی اتباع کرے۔امام صاحب کے اس قول کے مخاطب ایسے ہی علماء تھے۔
(2⃣) امام احمد بن حنبل کا یہ قول بھی شیخ البانی نے نقل کیا ہے کہ:
*نہ میری تقلید کرو، نہ مالک کی، نہ شافعی کی، نہ اوزاعی کی، نہ ثوری کی، بلکہ وہاں سے احکام کا استنباط کرو جہاں سے انہوں نے کیا۔*
🍄 آپ غور کرلیں کہ *”وہاں سے احکام کا استنباط کرو جہاں سے انہوں نے کیا“* یہ عوام اور کم علم لوگوں کا کام ہے یا اجتہاد کی قدرت رکھنے والے علمائے کرام کا؟
(3⃣) شیخ البانی نے امام شافعی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ:
*"اگر کوئی صحیح حدیث میرے قول کے خلاف ہو تو حدیث پر عمل کرو اور میری تقلید مت کرو“*
💎 اصولی طور پر یہ بھی ایک ایسی بات ہے کہ کوئی صاحب ایمان، ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس سے اختلاف نہیں کرسکتا۔
🌐 ہم تقلید کے مسئلہ کی جو تفصیلی تشریح کرآئے ہیں، اس سے یہ بات واضح طور پر سامنے آچکی ہے کہ سارے محقق علماءیہی کہتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔ البتہ اگر ان کے نزدیک ان کا مذہب قرآن کی کسی آیت پر مبنی ہو، یا اس کے حق میں اس حدیث سے بھی زیادہ قابل ترجیح حدیث ہوتی ہے تو پھر وہ اپنے ہی مذہب پر باقی رہتے ہیں اور دوسری حدیث کا ایسا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو دیگر احادیث اور قرآنی آیات کے مطابق ہو۔ البتہ جو لوگ ان کی رائے اور فہم کے خلاف اسی حدیث کی بنا پر دوسری رائے رکھتے ہیں وہ ان کو اپنی رائے پر عمل کرنے کی پوری اجازت دیتے ہیں اور ان کو بھی راہ ہدایت پر گامزن مانتے اور جانتے ہیں۔
🎯 بہرحال ائمہ اسلام نے عوام اور کم علم لوگوں کو تقلید سے ہر گز منع نہیں کیا ہے، ان کے ان اقوال کو عوام کی تقلید پر محمول کرنا صرف غلط فہمی ہے ۔ انہی اماموں کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ علاقوں کے علاقے ان کی تقلید کرتے ہیں۔ شام میں اوزاعی کا مذہب چلتا ہے، پورے افریقہ میں امام مالک کا چلتا ہے، اور یہ ائمہ اس کا خود تذکرہ کرتے ہیں، اور کسی کو اس سے منع نہیں کرتے، ہم اس کتاب میں اس کی مثالیں ذکر کرچکے ہیں۔
🌻 یہ سراسر غلط فہمی ہے بلکہ مغالطہ آرائی ہے کہ ائمہ کے ان اقوال کا یہ مطلب نکالا جائے کہ انہوں نے عوام کو اپنی تقلید سے روکا تھا۔
🌺 ہم آگے فقہی اختلاف سے متعلق باب میں واضح کریں گے کہ مذاہب کے اختلاف کا سبب اکثر سمجھنے کا اختلاف ہوتا ہے، نہ ائمہ جاہل تھے اورنہ اللہ ورسول کی مخالفت کرنے والے۔ بس اتنی سی بات پر غور کرنے سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ دلائل پر سب نے غور کیا اور ہر ایک کو اللہ ورسول کا حکم الگ نظر آیا، ہم جس کی اتباع کرلیں گے ان شاءاللہ اللہ راضی ہوگا۔
(ماخوذ از: تقلید اور مسلکی اختلاف کی حقیقت )
🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
No comments:
Post a Comment