غیرمقلدین کے چند مختلف نظریات ملاحظہ فرما لیں۔
غیرمقلدین کے تراویح اور رکعات تراویح سے متعلق چند مختلف نظریات
۱۔ غیرمقلدین کے سنجیدہ حضرات جیسے نواب صدیق حسن خان صاحب ، ملانا میاں غلام رسول صاحب و غیرہ حضرات جمہور اممت کی طرح بیس تراویح کے مسنون ہونے کے قائل ہیں جیسا کہ آپ حصپہ اول میں ان کے اقوال ملاحظہ کر چکے ہیں۔
۲۔ غیرمقلدینن میں جو سخت متعصب قسم کے لوق ہیں وہ صرف گیارہ رکعات کو ہی مسنون کہتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ صرف گیارہ رکعات ہی رسول اللہﷺ اور حضرت عمرؓ سے ثبات ہیں اور گیارہ کے علاوہ کوئی اور عدد تراویح نہ رسول اللہﷺ سے ثبات ہے نہ ہی کسی خلیفہ راشد سے منقول ہے۔ چنانچہ مولانا عبدلرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں وھو الثابت عن رسول اللہﷺ بالسند الصحیح وبھامر عمر بن الخطاب ؓ واما الاقوال الباقیه فلم بثبت واحد منها عند رسول االلہﷺ سند صحیح ولا یثبت الامربه من احد من الخلفاء الراشدین بسند صحیح خال من الکلام ۔(تحفہ الاحوذی جلد۲ ص۷۳)
٭ص۱۸۴٭
ترجمہ:۔ گیارہ رکعات کا مسنون ہونا ہی نبیﷺ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے اور اسی کا حضرت عمرؓ نے حکم فرمایا تھا اور گیارہ رکعات کے علاوہ باقی جتنے اقوال ہیں ان میں سے ایک بھی صحیح سند کے ساتھ جس میں کلام نہ ہو نہ رسول اللہﷺ سے ثبات ہے اور نہ خلفائے راشدین میں سے کسی ایک خلیفہ سے ثابت ہے۔
۳۔ غیرمقلدین میں بعض ایسے حضرات بھی ہیں جو گیارہ رکعات سے زائد تراویح پڑھنے کو بدعت تک کہہ دیتے ہیں العیاذ با اللہ ۔ چنانچہ مولوی محمد عثمان دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:۔ مقلدین کی ایک بڑی جماعت نے بیس رکعت مقرر کرکے بدعت شنیعہ کا ارتکاب کیا ہے۔(رفع الاختلاف ص۵۴ بحوالہ تحقیق مسئلہ تراویح ص۸)
مولوی یونس قریشی غیرمقلد لکھتے ہیں:۔ البتہ بیس یا تیئس کی تعداد معین اور خاص کرنا درست نہیں ککیونکہ اس عمل کے بدعت ہو جانے کا خوف ہے۔(دستور المتقی ص۱۴۲)
۴۔بعض حضرات غیرمقلدین جو سنت تو صرف آٹھ رکعات تراویح کہتے ہیں البتہ آٹھ سے زائد کو وہ بدعت نہیں کہتے بلکہ مستحب کہتے ہیں۔ چنانچہ مشہور غیرمقلد مصنف مولانا صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت پاک تو آٹھ رکعات تراویح ہی ہے اور اس سے زائد پڑنا سنت نہیں بلکہ نافلہ عبادت ہے۔ (صلوۃ الرسول ص۳۸۵)
مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں: اہل حدیث بھی یہی کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے فعل سے جو تعداد بسند صحیح ثابت ہے وہ سنت اور بہتر ہے۔ باقی نفلی نماز کی حیثیت سے اس کی کوئی تحدیدو تعیین نہیں ہے جس سے جتنی ہو سکے پڑ ھے۔ (انور المصابیح ص۴۴)
مولانا داؤد غزنوی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں امیر جماعت اہل حدیث اعلان فرمایا کرتے تھے کہ اٹھ تراویح سنت رسول کی ہے اور باقی بارہ رکعت مستحب ہیں۔ (فتاویٰ علمائے حدیث جلد۶ ص۲۶۵)
۵۔ غیرمقلدین میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی بھی ہے جو نماز تراویح کو جماعت سے ہی پڑھنے کے مخالف ہیں اور حضرت عمرؓ کے قائم کردہ اس طریقہ جماعت کو نعوذ بااللہ بدعت عمری اور بدعت ضلالہ گر دانتے ہیں نانچہ جماعت غیرمقلدین کے سرخیل اور ان کے مشہور محقق علامہ امیر یمانی صاحب جماعت تراویح کے متعلق لکھتے ہیں۔ والمحافظه علیها ھوا لذی نقول انه بدعه (سبل السلام جلد۲ ص۱۱)
تراویح کی جماعت کے ساتھ باقاعدگی سے ادائیگی کو ہم بدعت کہتے ہیں۔ اس سے چند سطور قبل
٭ص۱۸۵٭
امیر یمانی صاحب لکھتے ہیں ان عمرؓ ھوالزی جعلھا جماعه علٰی معین و سماھا بدمه وانا قوله نعم الدعه فلیس فی البدعه ما یمدح بل کل بدعه ضلاله (سبل السلام جلد۲)
حضرت عمرؓ نے ہی تراویح کو ایک مقرر کردہ امام کے ساتھ جماعت کی صورت دی اور اس کا نام بدعت رکھا آپ کا یہ قول کہ اچھی بدعت ہے تو بدعت کوئی بھی قابل تعریف نہیں بلکہ ہر بدعت ضلالۃ (گمراہی) ہے۔ نعوذبا للہ من ذالک
۶۔ جماعت غیرمقلدین کے بعض علماء تراویح کی جماعت کو سنت نہیں سمجھتے لیکن یہ سابقہ جماعت کی نسبت تھوڑے نرمم ہیں اور اس کو بدعت ضلالہ کی بجائے بدعت حسنہ کہتے ہیں چنانچہ مشہور غیرمقلد مولانا عبدلقادر حصاروی صاحبل کھتے ہیں مسجد میں جماعت سے عشاء کے بعد ہمیشہ تراویح پڑھنا بدعت حسہ ہے سنت موکدہ نہیں بلکہ سنت نبوی اور سنت خلفاء اربعہ بھی نہیں ہے۔ (صحیفہ اہل حدیث کراچی یکم رمضان ۱۳۹۲ھ بحوالہ رسالہ تحقیق مسئلہ تراویح ص۴۲)
۷۔ بعض دوسرے غیرمقلدین سابقہ غیرمقلدین کے بالمقابل تروایح کے لیئے جماعت کو صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری قرار دیتے ہیں ،۔چنانچہ غرممقلدین کے فتاویٰ علماء حدیث میں تراویح کے لئے جماعت کو شرط قرار دیتے ہیں۔ (فتاویٰ علماء حدیث جلد۶ص۲۴۳)
۸۔ قاضی شوکانی و غیرہ غیرمقلدین تراویح کو جماعت اور بلا جماعت دونوں صورتوں میں ادا کرنے کو جائز کہتے ہیں۔ (نیل الاوطار جلد۳ ص۵۳)
حضرات ! یہ ہیں غیرمقلدین کے اکابر کے تراویح اور رکعات تراویح سے متعلق تقریباً آٹھ قسم کے مختلف نظریات ان میں سے ہر ایک نظریہ دوسرے سے بالکل جد اور مختلف ہے ان ہم موجود ہ جماعت اہل حدیث (غیرمقلدین) کی خدمت میں بصدادب عرض کرتےہ یں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ ان مذکورہ نظریات میں سے کون کون سانظریہ درست اور کون کون سا غلط ہے؟ موجود ہ جماعت اہل حدیث یعنی غیرمقلدین کا اب کو ن سا نظریہ ہے۔؟ یہ بھی بتائے جائے کہ آپ کے جن اکابر نے بدعت کو کو سنت اور مستحب یا سنت اور مستحب کو بدعت کہا ہے قرآن و حدیچ کی رو سے ان کے بارے میں آپ کا
٭ص۱۸۶٭
کیا فیصلہ ہے؟ جب تک جماعت یہ فیصلہ نہیں کر پاتی ہم ان کے جواب کے آنے تک یہی کہیں گے۔
کس کا یقین کیجئے کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں بزم دوست سے یئار خبر الگ الگ
آٹھ اور بیس تراویح کے دلائل میں موازنہ
طالب دعا
طالب علم
No comments:
Post a Comment