Saturday, 15 June 2019

تراویح کے ضروری مسائل

تراویح اور اس کے ضروری مسائل
 مفتی محمود حسن گنگوہی

مسئلہ:1…کُل تراویح حنفیہ کے نزدیک بیس رکعت ہیں اوران کو جماعت سے پڑھنا سنت ہے، اگر تمام اہل محلہ تراویح چھوڑ دیں تو سب ترکِ سنت کے وبال میں گرفتار ہوں گے ۔( کبیری)

مسئلہ:2 … گھر پر تراویح کی جماعت کرنے سے بھی فضیلت حاصل ہوجائے گی لیکن مسجد میں پڑھنے کا جو ستائیس درجہ ثواب ہے وہ نہیں ملے گا۔ ( کبیری)

مسئلہ:3 … تراویح کی جماعت عشاء کی جماعت کے تابع ہے(لہذا عشاء کی جماعت سے پہلے جائز نہیں) اور جس مسجد میں عشاء کی جماعت نہیں ہوئی وہاں پر تراویح کو بھی جماعت سے پڑھنا درست نہیں۔ (کبیری)

مسئلہ:4 … ایک شخص تراویح پڑھ چکا امام بن کر یا مقتدی ہو کر، اب اسی شب میں اس کو امام بن کر تراویح پڑھنا درست نہیں، البتہ دوسری مسجد میں اگر تراویح کی جماعت ہورہی ہو تو وہاں (بنیتِ نفل ) شریک ہونا بلا کراہت جائز ہے ۔( کبیری)

مسئلہ:5 … ایک امام کے پیچھے فرض اور دوسرے کے پیچھے تراویح اور وتر پڑھنا بھی جائز ہے۔ ( کبیری)

مسئلہ:6 … کسی مسجد میں ایک مرتبہ تراویح کی جماعت ہوچکی تو دوسری مرتبہ اُسی شب میں وہاں تراویح کی جماعت جائز نہیں لیکن تنہا تنہا پڑھنا درست ہے۔ (بحر)

مسئلہ:7 … نابالغ کو تراویح کے لیے امام بنانا درست نہیں۔ (کبیری)۔ البتہ اگر وہ نابالغوں کی امامت کرے تو جائز ہے۔ (خانیہ)۔

مسئلہ:8 … اگر اپنی مسجد کا امام قرآن شریف غلط پڑھتا ہو تو دوسری مسجد میں تراویح پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔(عالم گیری )

مسئلہ:9 … اجرت مقرر کر کے امام کو تراویح کے لیے بُلانا مکروہ ہے۔ (عالم گیری )

مسئلہ:10 … ہر ترویحہ پر یعنی چار رکعت پڑھ کر اتنی ہی دیر یعنی چار رکعت کے موافق جلسہٴ استراحت مستحب ہے، (اسی طرح پانچویں ترویحہ کے بعد وتر سے پہلے بھی جلسہ مستحب ہے، لیکن اگر مقتدیوں پر اس سے گرانی ہو تو نہ بیٹھے، (عالم گیری) اور اتنی دیر تک اختیار ہے کہ تسبیح ، قرآن شریف، نفلیں جو دل چاہے پڑھتا رہے، اہلِ مکہ کا معمول طواف کرنے اور دو رکعت نفل پڑھنے کا ہے اور اہلِ مدینہ کا معمول چار رکعت پڑھنے کا ۔( کبیری) اور یہ دعا بھی منقول ہے:
”سبحان ذي الملک والملکوت، سبحان ذي العزة والعظمة والقدرة والکبریاء و الجبروت، سبحان الملک الحي الذي لا یموت، سبوح، قدوس، رب الملائکة والروح، لاإلہ إلا الله، نستغفر الله نسألک الجنة، و نعوذ بک من النار“․ (شامي)

مسئلہ :11 … دس رکعت پر جلسہٴ استراحت کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ (کبیری)

مسئلہ:12 … ہر شفعہ کے بعد دو رکعت علیحدہ علیحدہ پڑھنا بدعت ہے۔(کبیری)

مسئلہ:13 … کوئی شخص مسجد میں ایسے وقت پہونچا کہ تراویح کی جماعت شروع ہوگئی تھی تو اس کو چاہیے کہ پہلے فرض اور سنتیں پڑھے اس کے بعد تراویح میں شریک ہو اور چُھوٹی ہوئی تراویح دو ترویحوں کے درمیان جلسہ کے وقت پوری کرلے، اگر موقعے نہ ملے تو وتروں کے بعد پڑھے اور وتروں یا تراویح کی جماعت چھوڑ کر تنہا نہ پڑھے۔(کبیری)

مسئلہ:14 … اگر بعد میں معلوم ہوا کہ کسی وجہ سے عشاء کے فرض صحیح نہیں ہوئے، مثلاً: امام نے بغیر وضو پڑھائے یا کوئی رکن چھوڑ دیا تو فرضوں کے ساتھ تراویح کا بھی اعادہ کرنا چاہیے، اگر چہ یہاں وہ وجہ موجود نہ ہو۔ (کبیری)

مسئلہ:15 … قیامِ لیلِ رمضان یا تراویح یا سنتِ وقت یا صلوة امام کی نیت کرنے سے تراویح ادا ہوجائیں گی۔ (خانیہ)

مسئلہ:16 … مطلقاً نماز یا نوافل کی نیت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ (خانیہ)

مسئلہ:17 … اگر کسی نے عشا کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں اور امامِ تراویح کے پیچھے سنتِ عشاء کی نیت کر کے اقتدا کیا، تو یہ جائز ہے ۔(خانیہ)

مسئلہ:18 … اگر امام دوسرا یا تیسرا شفعہ پڑھ رہا ہے اور کسی مقتدی نے اس کے پیچھے پہلے شفعہ کی نیت کی، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (خانیہ)

مسئلہ:19 … اگر تراویح کسی وجہ سے فوت ہوجائیں تو ان کی قضاء نہیں، نہ جماعت کے ساتھ، نہ بغیر جماعت کے، اگرکسی نے قضاء کی تو تراویح نہ ہونگی ،بلکہ نفلیں ہونگی۔ (بحر)

مسئلہ:20 … اگر یاد آیا کہ گذشتہ شب کوئی شفعہ تراویح کا فوت ہوگیا یا فاسد ہوگیا تھا تو اس کو بھی جماعت کے ساتھ تراویح کی نیت سے قضاء کرنا مکروہ ہے ۔ (خانیہ)

مسئلہ:21 … اگر امام نے دو رکعت پر قعدہ نہیں کیا، بلکہ چار پڑھ کر قعدہ کیا تو یہ اخیر کی د ورکعت شمار ہوں گی۔(کبیری)

مسئلہ:22 … اگر وتر پڑھنے کے بعد یاد آیا، ایک شفعہ مثلاً رہ گیا، تو اس کو بھی جماعت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔

مسئلہ:23 … اگر بعد میں یاد آیا کہ ایک مرتبہ صرف ایک ہی رکعت پڑھی گئی اور شفعہ پورا نہیں ہوا اور کل تراویح انیس ہوتی ہیں تو دو رکعت اَور پڑھ لی جائے، یعنی صرف شفعہ فاسدہ کا اعادہ ہوگا اور اس کے بعد کی تمام تراویح کا اعادہ نہ ہوگا۔ (کبیری)

مسئلہ:24 … جب شفعہٴ فاسدہ کا اعادہ کیا جائے تو اس میں جس قدر قرآن شریف پڑھا تھا، اس کا بھی اعادہ کرنا چاہیے تاکہ تمام

No comments:

Post a Comment