منکرین حدیث کا یہ ہمیشہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ احناف کا موقف سمجھے بغیر احناف پر جاہلانا اعتراض شروع کردیتے ہیں ایسے ہی آج پھر ہم ان کے جہالت پر مبنی اعتراضات کا جواب دیتے ہیں ...
ملاحظہ فرمائیں !!!
نجاست چاٹ کر پاک کرنے کا مسئلہ ، کتے کا گوشت فروخت کرنا ، پیشاب سے فاتحہ لکھنا
1⃣ : اعتراض
نجاست چاٹ کر پاک کرنے کا مسئلہ
★ اعتراض کا جواب
غیر مقلدوں نے اپنی ناقص الفہمی کی بنا پر فتاویٰ عالمگیری کی عالمی حیثیت نہیں سمجھی۔۔۔
یہ فتاویٰ بفضلہ تعالیٰ عالمی فتاویٰ ہے۔۔۔
اس میں وہ تمام مسائل حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔
جو عالم اسلام میں عموماً یا خصوصاً پیش آتے رہتے ہیں یا آ سکتے ہیں تاکہ مملکت اسلامیہ کے قاضی صاحبان ان سے استفادہ کر کے ان سے نادر سے نادر واقعات و مقدمات کا حل دریافت کر سکیں۔۔۔
دنیائے عالم میں جہاں عاقل بالغ آباد ہیں وہاں پاگل اور بچے بھی رہتے ہیں ان کی وجہ سے بھی کئی مسئلے جنم لیتے رہتے ہیں۔۔۔
مندرجہ بالا مسئلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔۔۔
ہاتھ کی کسی انگلی پر اگر پیشاب یا شراب یا خون لگ جائے تو انگلی کو اس نجاست سے صاف کرنے کے لیے پانی ہی استعمال کیا جاتا ہے مگر بچوں اور پاگلوں سے یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ اس نجاست کو پانی سے ہی صاف کریں گے بلکہ یہاں ممکن ہے کہ بجائے انگلی دھونے کے اسے چاٹ لیں۔۔۔
العیاذ باﷲ
اور چاٹنے کے بعد وہی انگلی کسی شخص کے پانی میں یا دودھ میں یا شربت میں یا اس قسم کی دوسری اشیاء میں ڈبو دیں اور وہ شخص اسلامی عدالت میں اس نوعیت کا مقدمہ دائر کر دے کہ میں پچاس روپے کا پانی خرید کر مٹکے میں ڈالا تھا فلاں پاگل نے نجاست سے لبریز انگلی کو پہلے اچھی طرح چاٹا پھر اپنی انگلی میرے پانی میں ڈبو دی جس سے پانی پلید اور بے کار ہو گیا۔۔۔
لہٰذا مجھے پاگل کے مال سے پانی کی قیمت دلائی جائے تو جس قاضی نے فتاویٰ عالمگیری کا مندرجہ بالا مسئلہ پڑھا ہو گا وہ یہ کہہ کر مقدمہ خارج کر دے گا کہ جب مدعی خود تسلیم کرتا ہے کہ پاگل نے پہلے انگلی سے نجاست کو چاٹ کر زائل کر دیا تھا پھر پانی میں ڈبو دیا تھا تو پاگل کی انگلی کے سبب پانی پلید نہ ہوا کیوں کہ جب انگلی پر سے نجاست زائل کر دی گئی تو نہ انگلی پلید رہی نہ ہی پانی پلید ہوا۔۔۔
فتاویٰ عالمگیری کی عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ معاذ ﷲ نجاست کو چاٹنا جائز ہے۔۔۔
یا یہ کہ فقہ حنفی میں انگلی پاک کرنے کا یہی طریقہ ہے یہ نجس فہمی صرف غیر مقلدوں کی دماغی نجاست کا نتیجہ ہے بلکہ فتاویٰ عالمگیری میں تو یہاں تک نفاست پسندی فرمائی گئی ہے کہ جو حلال جانور نجاست کھاتا ہو اسے نہ کھائیں بلکہ کئی دن تک باندھ رکھیں کہ نجاست نہ کھانے پائے پھر جب اس کا گوشت نجاست کے اثر سے پاک ہو جائے تو ذبح کر کے کھائیں اونٹ چالیس دن تک باندھا جائے گا۔۔۔ گائے بیس دن تک ، مرغی تین دن تک اور چڑیا بھی ایک دن۔۔۔
(فتاویٰ عالمگیری ج5 ص298)
4/September/2020 and today 2/May/2021
★★★★★★★★★★★★★
3⃣ : اعتراض
کتے اور گدھے کے گوشت کی تجارت کا مسئلہ۔۔۔۔
” اذا ذبح کلبہ وباع لحمہ جاز و کذا اذا ذبح حمارہ و باع لحمہ ویجوز بیع لحوم السباع والحمر المذبوحۃ فی الروایۃ الصحیحۃ “
اگر اپنے کتے کو ذبح کر لے اس کا گوشت بیچے اسی طرح اپنے گدھے کو ذبح کرے اور اس کا گوشت بیچے صحیح روایت کے مطابق درندوں کا گوشت اور ذبح شدہ گدھے کا گوشت فروخت کرنا جائز ہے۔۔۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص۴٠/۴١
★ اعتراض کا جواب
امام ابو حنیفہ کا موقف یہ ہے کہ احادیث میں مذکور نہیں اس زمانے سے متعلق ہے جب کتوں کے بارے میں شریعت کے احکام بہت سخت تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل عرب میں کتوں کے ساتھ غیر معمولی انس اور محبت پائی جاتی تھی اور ان کے گھروں میں کتوں کو شوقیہ پالنے کا بکثرت رواج تھا ، یہ انس و محبت اور تعلق ان کے دل سے نکالنے کے لیے ابتداء میں بہت سخت احکام دیے گئے جو کہ بعد میں بتدریج نرم ہوتے گئے اور آخر میں یہ حکم ٹھہر گیا کہ کسی ضرورت کی غرض سے تو کتے کو پال لینے کی اجازت ہے لیکن شوقیہ طور پر کتا رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔
احادیث ملاحظہ فرمائیں
” عن عبدﷲ عن ابن المغفل قال امر رسول ﷲ ﷺ بقتل الکلاب ثم قال ما بالہم وبال الکلاب ثم رخص فی کلب الصید وکلب الغنم “
(مسلم ج٢ ص٢۵)
حضرت ابن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ابتدا میں) کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا کتے لوگوں کو کیا تکلیف دیتے ہیں پھر آپ نے شکاری کتے اور بکریوں (کی حفاظت) کے (لیے) کتوں کو پالنے کی اجازت دے دی۔۔۔
اس حدیث میں تین باتوں کا ذکر ہے
١) ۔۔۔ پہلے کتے کو قتل کرنے کا حکم تھا
٢) ۔۔۔ پھر قتل کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا
٣) ۔۔۔ پھر شکاری کتے اور بکریوں کی حفاظت کے لیے پالنے کی اجازت بھی دے دی گئی
چنانچہ شکار اور کھیتی اور ریوڑ کی حفاظت کے لیے کتے کو پانے کی اجازت کی صریح روایات حضرت عبدﷲ بن عمر ، حضرت ابو ہریرہ اور سفیان بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہیں۔۔۔
صحیح مسلم کتاب المساقات والمزراعہ
” عن ابی ہریرۃ عن رسول ﷲ ﷺ قال من اقتنی کلبا لیس بکلب صید ولا ماشیۃ ولا ارض فانہ ینقص من اجرہ قیراطان کل یوم “
(مسلم ج۴ ص٣٠٦)
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے شکار مویشی اور زمین کے علاوہ کتا پالا یا رکھا) اس کے اجر میں سے ہر روز دو قیراط کم ہوتے رہیں گے۔۔۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ ان تین وجہوں سے کتا پالنے کی اجازت ہے ، یہ اجازت بعد کے زمانے ہی کی ہے ، جس وقت کتوں کو قتل کرنے کا حکم منسوخ ہو چکا تھا۔۔۔
قرآن پاک میں بھی کتے کے شکار کا ذکر ملتا ہے
” فکلوا مما امسکن علیکم واذکروا اسم اللہ علی “
(سورة المائدہ : ۴)
تو کھاؤ اس شکار میں سے جو وہ (شکاری کتے وغیرہ) مار کر تمہارے لیے رہنے دیں اور اس پر ﷲ کا نام لو۔۔۔
آنحضرت ﷺ نے عدی بن حاتم سے فرمایا کہ
” اذا ارسلت الکلب المعلم وذکرت اسم ﷲ علیہ فاخذ فکل “
جب تو ﷲ تعالیٰ کا نام لے کر سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑے اور کتا اسے پکڑ لے تو ایسے شکار کا کھانا تیرے لیے جائز ہے۔۔۔
(سنن نسائی ج٢ ص١٩٢)
ان روایات کے پیش نظر امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ جب کسی جائز ضروریات کے لیے کتے کو پالنا اور اس سے فائدہ اٹھانا درست ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کی خرید و فروخت کرنا بھی درست ہوگا ، اسی وجہ سے جن بعض روایات میں کتوں کی خرید و فروخت سے ممانعت آئی ہے ، خود انہی روایات میں یہ استثناء بھی ثابت ہے۔۔۔
چنانچہ مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں
” عن جابر ان النبی علیہ الصلوۃ والسلام نہی عن ثمن السنور والکلب الا کلب صید “
(سنن نسائی ج٢ ص١٩۵)(دارقطنی ج٣ ص٧٣)
(سنن الکبریٰ بیہقی ج٦ ص٦)(مسند احمد ج٣ ص٣١٧)
حضرت جابر بن عبدﷲ سے روایت ہے کہ
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے بلی اور کتے کی بیع سے منع فرمایا ، مگر شکاری کتے کی بیع سے۔۔۔
” عن ابی ہریرۃ قال نھی عن ثمن الکلب الا کلب الصید “
(ترمذی ج١ ص١۵۴)(سنن دار قطنی ج٣ ص٧٣)
(سنن الکبری بیہقی ج٢ ص٦)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہا انہوں نے منع کیا (حضور اکرم ﷺ نے) کتے کی قیمت سے ، مگر شکاری کتے کی قیمت کو یعنی اس کو منع نہیں کیا۔۔۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
” رخص رسول ﷲ ﷺ فی ثمن الکلب الصید “
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شکاری کتے کی قیمت لینے کی اجازت دی۔۔۔
(مسند امام اعظم ص١٦٩)(نصب الرایہ ج۴ ص۵۴)
اس کے علاوہ طحاوی اور سنن الکبریٰ بیہقی میں عبدﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ اور سنن بیہقی میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ
ایک دفعہ ایک شخص نے کسی کے شکاری کتے کو قتل کر دیا تو حضرت عبدﷲ بن عمرو بن العاص نے
” قضی فی کلب صید قتلہ رجل باربعین درہما “
فیصلہ فرمایا کہ کتے کا قاتل اس کے مالک کو چالیس درہم اور بیس اونٹوں کا تاوان ادا کرے۔۔۔
(١بیہقی ج٦ ص٨)(طحاوی ج٢ ص٢٢٨)
اگر شکاری کتے کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی تو مندرجہ بالا فیصلہ ہر گز نہ فرمایا جاتا۔۔۔
ان روایات میں شکاری کتے کی بیع کی اجازت مذکور ہے جبکہ کھیتی اور ریوڑ کے محافظ کتے کی خرید و فروخت کی اجازت اس پر قیاس کرنے سے ثابت ہوگی اور جو روایت آج کے جہلاء نقل کرتے ہیں وہ پہلے زمانے کی ہے جب کتوں کو قتل کرنے کا حکم تھا جب شکار اور کھیتی اور ریوڑ کی حفاظت کے لیے کتا رکھنے کی اجازت ہو گئی تو شکاری کتے کی بیع کی اجازت بھی بعد میں ہوگئی تھی۔۔۔
فتاویٰ عالمگیری کے حوالہ کی وضاحت
جس طرح احادیث کی کتابوں میں بعض احادیث صحیح بعض منسوخ اور بعض ضعیف و متروک ہوتی ہیں ، اسی طرح کتب فقہ اور اس کے شروح اور فتاویٰ میں بھی بعض اقوال مفتی بہا اور معمول بہا ہوتے ہیں ، مذہب حنفی اسی سے عبارت ہے ، اسی طرح بعض غیر مفتی بہا مرجوح اور شاذ اقوال ہوتے ہیں۔۔۔
لہٰذا مرجوح اور غیر مفتی بہا اقوال کو بہانہ بنا کر مذہب حنفی پر اعتراضات کرنا یہ دعوی حدیث عرف منکرین حدیث (غیرمقلدین) کا شیوہ ہے ، مسلمان کا نہیں یعنی احناف کا نہیں کیونکہ منکرین حدیث بھی ضعیف اور موضوع احادیث کو بہانہ بنا کر ذخیرہ احادیث سے انکار کرتے ہیں اور اسلام پر کئی قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔۔۔ اصل مسئلہ اسی طرح ہے کہ کتے اور گدھے کو شرعی طریقہ سے ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کیا جائے تو کیا یہ جائز ہے یا ناجائز ؟؟؟
اس میں فقہائے احناف کے درمیان اختلاف ہے۔۔۔
بعض جواز کے قائل ہیں ، اکثر محققین احناف عدم جواز کے قائل ہیں ، جو جائز سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ذبح کرنے کے بعد اس کے گوشت سے نجاست زائل ہوتی ہے اور جن کے نزدیک فروخت کرنا جائز نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ ذبح کرنے سے گوشت سے نجاست زائل نہیں ہوتی یہی قول مفتی بہ اور راجح ہے۔۔۔
غیر مقلدین قول اول پر اعتراض کرتے ہیں 😒
غیر مقلدین کی خیانت
غیر مقلدین فتاویٰ عالمگیری سے آدھی عبارت نقل کرتے ہیں اور اس مسئلہ میں عالمگیری میں جو اختلاف بیان کیا ہے اس سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر دیتے ہیں۔۔۔
عالمگیری میں مسئلہ مذکورہ کے بعد لکھا ہے کہ
” وہذا فصل اختلف المشائخ فیہ بناہ علی اختلافہم فی طہارۃ ہذا اللحم بعد الذبح “
(فتاویٰ عالمگیری ج٣ ص١١۵)
یہ فصل ہے اس میں مشائخ نے اختلاف کیا ہے اختلاف کی بنا ذبح ہونے کے بعد اس گوشت کی طہارت میں اختلاف پر ہے۔۔۔
اسی طرح علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں کہ
” فالظاہر منہما ان ہذا الحکم علی القول بطہارۃ عینہ “
(البحر الرائق ج١ ص١٠٣)
ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم (بیع کا جواز اور عدم جواز) متفرع ہے اس کی ذات کے طاہر ہونے پر۔۔
یعنی جو ذبح کرنے کے بعد بھی گوشت کو نجس کہتے ہیں تو ان کے نزدیک اس کی بیع ناجائز ہے اور جو کہتے ہیں کہ ذبح کرنے کے بعد گوشت سے نجاست زائل ہوتی ہے ان کے نزدیک اس کی بیع جائز ہے اگرچہ عالمگیری وغیرہ میں لکھا ہے کہ ” مذکورہ گوشت کے جواز بیع کا ثبوت روایت صحیحہ میں ہے “
(فتاویٰ عالمگیری ج٣ ص١١۵)
لیکن فتویٰ نجاست اور عدم جواز بیع پر ہے جیسے امام بخاری نے صحیح بخاری میں دو روایتیں ران کی ستر کے متعلق نقل کی ہیں۔۔۔
انس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ران ستر میں داخل نہیں ہے۔۔۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ران ستر میں داخل ہے۔۔۔
دونوں روایات صحیح ہیں لیکن انس کی روایت کے متعلق امام بخاری لکھتے ہیں کہ :
” وحدیث انس اسند “
(بخاری ج١ ص۵٣)
انس کی روایت کو زیادہ صحیح کہہ کر معلوم ہوا کہ امام بخاری کا رجحان بھی اس طرف ہے کہ ران ستر میں داخل نہیں ہے لہٰذا ان کے نزدیک مفتی بہ قول یہ ہے کہ ران ستر میں داخل نہیں۔۔۔
حنفی مذہب کا مفتی بہ قول
احناف کا مفتی بہ مذہب یہ ہے کہ ذبح کرنے کے بعد کتے اور گدھے کے گوشت سے نجاست زائل نہیں ہوتی تو ان کا فروخت کرنا بھی جائز نہیں۔۔۔
چنانچہ صاحب بحر الرائق لکھتے ہیں کہ :
” وصح فی الاسرار والکفایۃ والتبیین نجاس “
(البحر الرائق ج١ ص١٠٦)
صاحب اسرار صاحب کفایہ اور صاحب تبین نے مذکورہ گوشت کی نجاست کو صحیح قرار دیا ہے۔۔۔
بحرالرائق ہی میں ہے کہ :
” وفی المعراج انہ قول محققین من اصحابنا “
(البحر الرائق ج١ ص١٠٦)
کتاب معراج میں ہے کہ مذکورہ گوشت کی نجاست محققین احناف کا قول ہے۔۔۔
صاحب بحر الرائق مزید لکھتے ہیں کہ:
” وفی الخلاصۃ وہو القول المختار واختارہ قاضی خان فی التبیین انہ قول اکثر المشائخ “
(البحر الرائق ج١ ص١٠٦)
خلاصہ میں ہے کہ (مذکورہ گوشت کی نجاست) قول مختار ہے اور اسی کو قاضی خان نے اختیار کیا ہے تبیین میں ہے کہ یہ اکثر مشائخ کا قول ہے۔۔۔
صاحب بحر نے خود بھی نجاست والے قول کے متعلق فرمایا کہ " وہو الصحیح "
(البحر الرائق ج١ ص١٠٦)
یہ صحیح قول ہے۔۔۔
صاحب درمختار لکھتے ہیں کہ :
” لا یطھر لحمہ ہذا صح ما یفتی “
اس کا گوشت پاک نہیں ہوتا یہ اصح قول ہے جس پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔۔۔
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ
” قال کثیر من المشائخ انہ یطہر جلدہ لا لحمہ وہو الاصح واختارہ الشارحون “
(فتح القدیر ج١ ص٨۴)
بہت سے مشائخ نے کہا ہے (ذبح کرنے کے بعد) اس کا چمڑا پاک ہوتا ہے گوشت پاک نہیں ہوتا اور یہی سب سے صحیح قول ہے اسی کو شارحین نے اختیار کیا ہے۔۔۔
علامہ شرنبلالی لکھتے ہیں کہ :
” وتطہر الذکدۃ الشرعیۃ جلد غیر الماکول دون لحمہ علی اصح ما یغی بہ “
شرعی ذبح غیر ماکول اللحم کے چمڑے کو پاک کرتا ہے گوشت کو پاک نہیں کرتا اصح قول کے مطابق جس پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔۔۔
صاحب خلاصہ لکھتے ہیں کہ :
” وہو المختار وبہ اخذ الفقیہ ذکرہ صدر الشہید فی صید الفتاوٰی “
(خلاصۃ الفتاوٰی ص۴٣)
یہی قول مختار ہے فقہاء نے اس کو لیا ہے۔۔۔
صاحب کبیری لکھتے ہیں کہ :
” الصحیح ان اللحم لا یطہر بالذکاۃ “
(کبیری ص١۴۴)
صحیح یہ ہے کہ حرام جانوروں کا گوشت ذبح کرنے سے پاک نہیں ہوتا۔۔۔
ملا علی القاری حنفی قائلین بالطہارۃ کے اسماء ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :
” وقال کثیر من المشائخ یطہرہ جلدہ بھا ولا یطہر لحمہ کما لا یطھر بالدباغ قال شارح الکنز وہو الصحیح واختیارہ صاحب الغایۃ والنہایۃ “
(شرح النقایۃ ج١ ص٢٠)
بہت سے مشائخ نے کہا ہے کہ ذبح کرنے سے چمڑا پاک ہوتا ہے گوشت پاک نہیں ہوتا جیسا کہ دباغت سے پاک نہیں ہوتا شارح کنز نے کہا ہے کہ یہی صحیح ہے اسے صاحب غایہ اور صاحب نہایہ نے اختیار کیا ہے۔۔۔
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا ہے کہ مذہب حنفی میں اصح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ ذبح کرنے سے حرام جانوروں کا گوشت پاک نہیں ہوتا تو اس کا فروخت کرنا بھی جائز نہیں لیکن یاد رہے کہ غیر مقلدین کے علماء کہتے ہیں کہ شرعی ذبح کے بعد گوشت پاک ہو جاتا ہے۔۔۔
گھر کی خبر 🤧
چنانچہ غیر مقلد وحید الزمان لکھتے ہیں کہ :
” ما یطہر بالدباغۃ یطہر بالذکاۃ الا لحم الخنزیر فانہ رجس “
(نزل الابرار ج١ ص٣٠)
جو دباغت سے پاک ہو جاتا ہے ذبح سے بھی پاک ہو جاتا ہے خنزیر کے گوشت کے ماسو کہ وہ رجس ہے۔۔۔
غیر مقلد نواب صدیق حسن خان نے کتے کے گوشت ہڈی خون بال اور پسینے کو نجس نہیں کہا۔۔۔
(بدور الاہلہ ص١٦)
صدیق حسن خان کے بیٹے غیر مقلد نور الحسن لکھتے ہیں کہ کتے اور خنزیر کے نجس کے ہونے کا دعویٰ شراب اور دم مسفوح کے پلید ہونے کا دعویٰ اور مرے ہوئے جانور کے ناپاک ہونے کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔۔۔
(عرف الجادی)
غیرمقلدین کے دلائل کا تحقیقی جائزہ
چند جاہل غیرمقلدین نے جن روایات سے مذبوح کتے اور گدھے کے گوشت کو فروخت کرنا حرام ثابت کیا ہے (بزم خویش) ان کا مشاہدہ بھی کیجیے کہ واقعی وہ دلائل ان کے مدعی کے مطابق ہے یا صرف اپنے حمایتی اور اپنے مریدین کو خوش کرنے کے لیے یہ ناکام کوشش کی ہے۔۔۔
١) ۔۔۔ ابو ثعلبہ خشنی فرماتے ہیں کہ
بے شک رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے درندوں میں سے ہر داڑ والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔۔۔
(بخاری)
٢) ۔۔۔ رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک آواز دینے والے کو حکم دیا تو اس نے لوگوں میں منادی کرائی کہ ﷲ اور ﷲ کے رسول تمہیں گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرماتے ہیں۔۔۔
(بخاری)
٣) ۔۔۔ رسول علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ﷲ تعالیٰ یہود کو ہلاک کرے ان پر چربی حرام کر دی گئی تو انہوں نے پگھلا کر فروخت کیا پھر اس کے پیسے کو کھایا۔۔۔
(بخاری و مسلم)
۴) ۔۔۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جس ذات نے اس (شراب) کے پینے کو حرام قرار دیا ہے اس ذات نے اس کے فروخت کرنے کو بھی حرام قرار دیا ہے۔۔۔
(مسلم)
مشہور ہے کہ
” لن یصلح العطار ما افسدہ الدہر “
بظاہر تو قوم نے ان کے ان علمی جوابات سے خبردار ہو کر خراج تحسین ادا کیا ہوگا بھوکے کو باسی روٹی مل جائے تو خوشی مناتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ
انہوں نے قوم کو اندھیرے میں رکھا ہے کیونکہ ان چار روایت میں سے کسی ایک روایت میں بھی ذبح کا لفظ ہے ؟؟؟ تو پیش کریں
نم نے تو پہلے بھی اور اب بھی مذبوح کتے اور گدھے کا گوشت فروخت کرنے کی حرمت پر دلیل مانگی تھی چند جاہل غیرمقلدین علماء اور فیسبکی مفتیان نے غیر مذبوح حرام جانوروں کا گوشت اور شراب کی فروخت کے حرام ہونے پر دلائل پیش کردیے۔۔۔🤣
غیرمقلدین نے حرام جانوروں کی حرمت پر دلائل پیش کیے اگر جانور حلال بھی ہو لیکن شرعی ذبح کے بغیر مر جائے احناف وغیرہم تو ان کی حرمت کے بھی قائل ہیں۔۔۔
چہ جائیکہ حرام جانور
البتہ بات شرعی طریقہ پر ذبح کرنے میں ہے کہ ذبح کرنے سے عند البعض حرام جانور کی نجاست زائل ہوتی ہے جیسا کہ مرا ہوا حلال جانور کا کھانا حرام ہے لیکن ان کے چمڑے کو اگر دباغت دی جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے اور ان کا فروخت کرنا بھی جائز ہے۔۔۔
چنانچہ ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک برتن سے وضو کا ارادہ کیا کسی نے کہا کہ یہ برتن مرے ہوئے جانور کے چمڑے سے بنا ہے تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس چمڑے کی دباغت اس کے نجاست کو زائل کر دیتی ہے۔۔۔
(مسند احمد، ابن خزیمہ، حاکم بیہقی قال الحافظ واسنادہ صحیح تلخیص الحبیر ج٢ ص١٩٠)
بہرحال یہ غیر مفتی بہ اور مرجوح بھی دلائل سے مبرہن ہے لیکن دیگر دلائل کی بنا پر محققین احناف نجاست اور حرمت والے قول کو راجح اور مفتی بہ قرار دیتے ہیں۔۔۔
الحمداللہ
8/September/2020
★★★★★★★★★★★★★
2⃣ : اعتراض
فقہ حنفی میں خون اور پیشاب کے ساتھ سورۃ فاتحہ لکھنا جائز ہے۔۔۔
رد المحتار میں ہے کہ۔۔۔👇😒
” لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء وبالبول أيضا “
(رد المحتار لابن عابدین ج1 ص406)
اگر کسی کی نکسیر جاری ہوئی اور اس نے اس خون سے اپنی پیشانی اور ناک پر فاتحہ لکھ لی تو شفاء کے حصول کے لیے یہ جائز ہے اسی طرح پیشاب کے ساتھ بھی ایسا کرنا جائز ہے۔۔۔
★ اعتراض کا جواب
مذہب حنفیہ میں بغیر طہارت قرآن مجید کو چھونا جائز نہیں۔۔۔
” لا یجوز لمحدث اداء الصلاۃ لفقد شرط جوازھا و ھو الوضوء ولا مس مصحف من غیر غلاف عندنا “
(بدائع الصنائع ج1 ص140)(در المختار ج1 ص197)
بغیر وضوء آدمی کے لیے نماز ادا کرنا جائز نہیں کیونکہ وضوء کی شرط نہیں پائی گئی اور بغیر غلاف کے قرآن کو چھونا جائز نہیں۔۔۔
جب حنفیہ اتنی احتیاط کرتے ہیں تو ان کے ہاں خون یا پیشاب سے (معاذ اللہ)
قرآن لکھنا کیسے جائز ہو گا۔۔۔؟؟؟😒😒😒
امور محرمہ از قسم اقوال و افعال بحالت اکراہ واجبار اور بوقت مخمصہ واضطرار قابل مواخذہ نہیں رہتے حق عمل میں حرمت مبدل بحلت ہوجاتی ہے جب کہ حق اعتقاد میں حرمت بدستور برقرار رہتی ہے۔
اقوال کی مثال۔۔۔👇
” من كفر باللہ من بعد إيمانه إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان ولکن من شرح بالكفر صدرا فعليهم غضب من اللہ ولهم عذاب عظيم “
(سورۃ النحل: 106)
جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرے۔۔۔
وہ نہیں جسے زبردستی (کلمہ کفر کہنے پر) مجبور کر دیا گیا ہو جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو بلکہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ کفر کے لیے کھول دیا ہو تو ایسے لوگوں پر اللہ کی جانب سے غضب نازل ہو گا اور ان کے لیے زبردست عذاب تیار ہے۔۔۔
افعال کی مثال۔۔۔👇😒
” فمن اضطر غير باغ ولا عاد فلا إثم عليه إن اللہ غفور
رحيم “
(سورۃ البقرۃ: 173)
اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری کی حالت میں ہو
(اور ان چیزوں میں سے کچھ کھا لے)
جبکہ اس کا مقصد نہ لذت حاصل کرنا ہو اور نہ وہ (ضرورت کی) حد سے آگے بڑھے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔۔۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔۔۔
اس آیت میں ” اکل حرام “ عملا ً حلال ہے۔۔۔
دلیل اس کی ” فلا إثم “ ہے اور اعتقاداً حرام ہے۔۔۔
دلیل اس کی ” غفور رحيم “ ہے کیونکہ مغفرت گناہ کے بعد ہی ہوتی ہے۔۔۔
اصل عبارت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔👇😒😒😒
علامہ ابن عابدین شامی نے الدر المختار لعلاء الدین الحصکفی کی جس عبارت کی شرح کی ہے۔۔۔۔
وہ اصل عبارت یہ ہے۔۔۔👇
” اختلف في التداوي بالمحرم وظاهر المذهب المنع “
(در المختار ج1 ص405 ص406)
حرام چیزوں سے علاج کرنے میں اختلاف ہے حنفیہ کا ظاہر مذہب (یعنی امام صاحب کا قول) یہ ہے کہ حرام اشیاء سے علاج کرنا منع ہے۔۔۔
اس کی شرح میں علامہ شامی رحمہ اللہ نے ”النہایۃ شرح الہدایۃ لحسام الدین السغناقی“ کے حوالے سے لکھا ہے کہ
” ففی النهاية عن الذخیرة يجوز ان علم فیه شفاء ولم يعلم دواء آخر “
(رد المحتار ج1 ص405)
” نہایہ“ میں ”ذخیرہ“ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ (تداوی بالمحرم کی گنجائش اس وقت ہے کہ) اگر حرام میں شفاء کا علم (یعنی یقین) ہو اور اس کے علاوہ اسے کوئی دوا معلوم نہ ہو۔۔۔
#اعتراض
دونوں اقوال میں تعارض ہے کہ پہلے قول سے منع ثابت ہو رہا ہے اور دوسرے سے جواز۔۔۔؟؟؟
اعتراض کا جواب
قول اول
(عدم جواز) حالت اختیار کا ہے جب کہ قول ثانی (جواز) حالت اضطرار کا ہے۔۔۔
چنانچہ علامہ شامی خود اس عبارت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں۔۔۔👇
” قوله وظاهر المذهب المنع محمول على المظنون كما علمتہ “
(رد المحتار ج1 ص406)
کہ تداوی بالمحرم اس صورت میں منع ہے جب اس میں شفاء مظنون و موہوم ہو۔۔۔یقینی نہ ہو
#اعتراض
قول اول یعنی قول امام اعظم رحمہ اللہ اگرچہ قول ثانی کا مخالف نہیں لیکن حدیث کے تو خلاف ہے۔۔۔
اس لیے کہ حدیث میں ہے...👇
إن اللہ لم يجعل شفاءكم فیما حرم عليكم “
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج10 ص5)
اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں شفاء نہیں رکھی جن کو تم پر حرام قرار دیا ہے۔۔۔
اعتراض کا جواب
تعارض کے لیے وحدات ثمانیہ کا پایا جانا ضروری ہے۔۔۔
در تناقض ہشت ، وحدت شرط داں ، وحدتِ موضوع
و محمول و مکاں ، وحدتِ شرط و ، اضافت، جزء و کل
قوت و فعل ، است در آخر زماں
ان میں ایک ” وحدت زمان“ بھی ہے جو یہاں نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ حدیث حالت اختیار کے لیے ہے اور قول امام حالت اضطرار میں ہے۔۔۔
مثال۔۔۔👇
کوئی کہے کہ علاج نہیں کرانا چاہیے اور مراد ہو زمانہ صحت دوسر ا کہے علاج کرانا چاہیے اور مراد ہو زمانہ مرض تو اس میں کیا تعارض ہے!!!
#اعتراض
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام دوا میں مطلقا شفاء نہیں جب کہ مذہب امام میں حرام کا بحالت اختیار استعمال کرنا ناجائز مگر بحالت اضطرار استعمال کرنا جائز ہے تو ایک صورت تو پھر بھی مخالف حدیث ہو گئی۔۔۔
اعتراض کا جواب
بحالت اضطرار وہ چیز حرام رہتی ہی نہیں بلکہ حلال ہوجاتی ہے۔۔۔
اس موقف کے مطابق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ
” فمن اضطر غير باغ ولا عاد فلا إثم عليه “
پر بھی عمل ہوگیا اور
” إن اللہ لم يجعل شفاءكم فيما حرّم عليكم “ حدیث پر بھی۔
یہ ہے فقاہت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور یہی مصداق ہے اس حدیث کا۔۔۔🙃
” مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ“
(بخاری ج1 ص16)
اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔۔۔
اصل مسئلہ۔۔۔🙃👇
” وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنیس فقال لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به لكن لم ينقل “
اصل میں ” ان علم فیه شفاء “ شرط اور ” لا بأس به “ جزا ہے۔۔۔
اور شرط علم جب منتفی ہے تو جزاء ” لا بأس به “ خود بخود منتفی ہو گئی کیونکہ ضابطہ ہے کہ مقدم اور تالی (یعنی شرط وجزا ) میں نسبت تساوی کی ہو تو سلب مقدم سلب تالی کو مستلزم ہوتا ہے۔۔۔
جیسے ” ان کانت الشمس طالعۃ فالنھار موجود لکن الشمس لیست بطالعۃ “ لہذا نتیجہ یہ ہو گا۔۔۔
” فالنھارلیس بموجود “
#اعتراض
شرط ” ان علم فيه شفاء “ہے اور نفی اس کی نہیں بلکہ نفی ” ينقل “ کی ہے اور وہ شرط نہیں۔۔۔
اعتراض کا جواب
کتابت بالدم کا ” مو جب شفاء ہونا یا نہ ہونا “ نہ عقلا معلوم ہو سکتا ہے نہ طباً کیونکہ فن طب میں ادویات کی تاثیر سے بحث ہوتی ہے نہ کہ عملیات کی تاثیر سے۔۔۔
اگر اس کا ” مو جب شفاء ہونا یا نہ ہونا “ شرعاً ہوگا تو وہ منقول نہیں۔۔۔
جب منقول نہیں تو معلوم بھی نہیں اور یہاں علم سے مراد علم شرعی ہے۔۔۔
خلاصہ کلام یہ کہ فقہاء اس کا جائز ہونا نہیں بلکہ حرام ہونا ثابت کر رہے ہیں۔۔۔
اب بھی اگر کوئی ان پر اعتراض کرتا ہے۔۔۔
تو یہ ایسا ہے جیسے کوئی ” لا تقربوا الصلاة “ تو پڑھے
مگر ” وأنتم سكارى “ کو چھوڑ دے۔۔۔
یا ” للرحمن ولد فأنا أول العابدين “ تو پڑھے مگر ” إن كان “ کو چھوڑ دے۔۔۔۔
فائدہ:
غیر مقلدین کو یہ اعتراض ویسے بھی نہیں ہونا چاہے کیونکہ ان کے مذہب میں تو منی ، خون ، شرمگاہ کی رطوبت اور شراب پاک ہے۔۔۔
علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں۔۔۔👇🙃😒
” و المنی طاہر و غسلہ و فرک الیابس منہ ازکیٰ و اولیٰ و کذلک الدمُ غیرُ دم الحیض و رطوبۃ الفرج و الخمرو بول الحیوانات غیر الخنزیر “
(کنز الحقائق من فقہ خیر الخلائق ص16)
منی پاک ہے اسے دھونا اور خشک کو کھرچنا بہتر ہے۔۔۔
اسی طرح حیض کے خون کے علاوہ دیگر خون عورت کی شرمگاہ کی رطوبت شراب اور خنزیر کے علاوہ دیگر جانوروں کا پیشاب بھی پاک ہے۔۔۔
حتی کہ کتے کا پیشاب اور پاخانہ بھی نجس نہیں۔۔۔😒👇
” وکذالک فی بول الکلب و خزاءہ و الحق انہ لا دلیل علی النجاسۃ “
(نزل الابرار ص50)
اور بے وضو قرآن چھونا بھی جائز ہے۔۔۔
” محدث را مس مصحف جائز باشد “
(عرف الجادی ص 15)
بے وضو آدمی کے لیے قرآن مجید کو چھونا جائز ہے۔۔۔
11/September/2020
No comments:
Post a Comment