Friday, 28 February 2020

حاجی امداد اللّه علیہ رحمہ پر اعتراض کا جواب

علماء دیوبند کی کتابوں سے چند عبارات کوتوڑ موڑ کر عوام الناس کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے کہ علماء دیوبند اپنے اکابرین کے متعلق علم غیب وحاضرناظر وغیرہ کاعقیدہ رکھتے ہیں حالانکہ علماء دیوبند کے عقائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں عقائد علماء دیوبند پر بے شمار کتابیں بازار سے مل جاتی ہیں تفصیلات کے لیے ان کامطالعہ کیجیے۔
شاہ صاحب نے اپنی اس کتاب میں اور اسکی فیس بک ذریت نے  امانت ودیانت کاجس طرح خون کیا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ جس طرح احمد رضا خان بریلوی اور ان کی جماعت نے علماء دیوبند کی کتا بوں کی بعض عبارات میں تغیر وتبدل کر کے ان پر کفر کافتوی لگا یاہے اسی طرح شاہ صاحب نے علماء دیوبندکی کتا بوں کی عبارات کو نقل کر کے عوام الناس کو یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ علماء دیوبند اپنے اکابر اور بزرگوں کے بارے میں علم غیب وحاضر ناظر  اور شرکیہ وغیرہ کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ شاہ صاحب اور اسکی ذریت کے 5 اعتراض کا ایک اجمالی جواب ملاحظہ فرمائیں۔
الزام نمبر 6:
اکابر دیوبند کاکھلا شرک:
بجواب
اکابر غیر مقلدین کا کھلا شرک :
یارسول کبریا فریاد ہے، یا محمد ﷺ فریاد ہے۔ آپ کی امداد ہومیر ایا نبی حال ابتر ہےفر یاد ہے سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل اے میرے مشکل کشا فریاد ہے۔
کلیات ص91
موازنہ کیجئے صفحہ22
جواب:
شاہ صاحب اور اسکی ذریت  نے اگرچہ علماء دیوبند پر مشرک ہونے کاالزام لگایا ہے حالانکہ اس معاملہ میں بریلویوں کا جتنا رد علماء دیوبند نے کیا ہے اتنا کسی نے نہیں کیا۔ ہماری کتب اس پر گواہ ہیں۔ ان اشعار میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ لغوی معنوں میں ہیں۔ علمائے دیوبند کا عقیدہ درست ہے، بریلویوں والا نہیں۔ شاہ صاحب سے التماس ہے کہ علماء دیوبند پر الزام لگانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
َ  نواب صدیق حسن خان نے اپنے ایک طویل قصیدے میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے کہا ہے
یا سیدی یا عروتی یا وسیلتی، ویا عدتی فی شدہ ورخائی
قد جئت مابک ضارعا متفرعا ،مثاوھا بنفس

الصدار
مالی وأراک متغاث فارحمنی یا رحمۃ للعلمین بکائی


ترجمہ: اے میرے آقا اے میرے سہارے اور وسیلے اے خوش حالی اور بد حالی میں روتا گڑگڑاتا اور ٹھنڈی آہیں بھر تا ہوا آپ کے در پر آیا ہوں آپ کے علاوہ کوئی فریاد رس نہیں سو اے رحمۃ للعالمین میری گریہ زاری پر رحم فرمائیں۔
ہدیۃ المہدی ص24

جواب 
حضرت حاجی صاحبنے اپنی جس  مناجات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکل کشا کہہ کر خطاب فرمایا ہے،وہ غالباً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر پڑھنے کے لیے کہی گئی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر حاضر ہوکر آپ سے مغفرت یا اصلاح حال وغیرہ کے لیے دعا کی درخواست کرنا بالاتفاق جائز ہے ؛کیوں کہ اہل السنة والجماعة کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں باحیات ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) روضہ مبارکہ پر حاضر ہونے والوں کا سلام وغیرہ سماعت فرماتے ہیں، اور اگر یہ مناجات روضہٴ مرابکہ پر پڑھنے کے لیے نہیں کہی گئی ہے جیسا کہ اس مناجات کے بعض اشعار (یا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) احمد کو در پر بلالو) سے معلوم ہوتا ہے تو یہ غیر اللہ سے بطور مجاز تخیلی طور پر خطاب کرنا ہے، اور اس میں مخاطب کے حاضر وناظر یا عالم الغیب وغیرہ ہونے کا کوئی عقیدہ نہیں ہے جیسا کہ حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ کے احوال سے اچھی طرح واضح ہے (فتاوی عثمانی: ۱/ ۵۸، ۵۹)، اور حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ چوں کہ اہل حق اور اولیائے کاملین میں سے ہیں؛ اس لیے حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ کے کلام میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں مشکل کشا کا مطلب ہے: بذریعہ دعا یعنی: آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے یہ دعا فرمادیں کہ میری تمام مشکلات دور ہوجائیں، حضرت حاجی صاحب کے کلام میں مشکل کشا کے وہ معنی ہرگز مراد نہیں جو بعض عوام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ لفظ (مشکل کشا) استعمال کرکے مراد لیتے ہیں

جواب:

حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ کے درج بالا اشعار میں مشکل کا مطلب ہے: آپ اپنی روحانی توجہ اوردعا وغیرہ کے ذریعے میری روحانی وباطنی مشکلات وپریشانیاں اللہ تعالیٰ سے دور کروادیں تاکہ میرے اندرونی احوال قبض وغیرہ سے بسط وغیرہ میں تبدیل ہوجائیں، پس یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست دعا وغیرہ ہے، حضرت حاجی صاحب کے کلام میں مشکل کشا کے وہ معنی ہرگز مراد نہیں ہیں جو بعض عوام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ لفظ (مشکل کشا) استعمال کرکے مراد لیتے ہیں؛ کیوں کہ حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ صحیح العقیدہ لوگوں میں سے ہیں اور مشکل کشا کا لفظ عام معنی کے اعتبار سے غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا ہرگز جائز ودرست نہیں ہے، پس اس معنی کے اعتبار سے آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکل کشا نہیں فرمایا، البتہ عوام کو اس طرح کے الفاظ سے سخت پرہیز کرنا چاہیے؛ کیوں کہ ان کے لیے یہ باریک فرق نہایت مشکل ہے، نیز مقتدا حضرات کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے الفاظ سے پرہیز کریں تاکہ یہ عوام کے لیے فساد عقیدہ کا باعث نہ بنیں، نیز مقتدا حضرات سے بدظنی کا سبب بھی نہ ہوں۔


No comments:

Post a Comment