Thursday, 20 February 2020

آج کل بعض جاہل نام نہاد اہل حدیث حضرات کہتے ہیں کہ مولانا اشرف علی صاحبؒ نے امام ابو حنیفہؒ کو غیرمقلد لکھا ہے




ماشاء اللہ یہاں بھی کمال کردکھانے کی کوشش فرمائی ھے آپ نے ۔لیکن نا اسکین پورا دکھایا نا ہی پوری عبارت کوٹ فرمائی ؟

چلیں میں دکھادیتا ھوں جناب کو بھی اور باقی بھائی لوگوں کو بھی۔

یہ تو وہ عبارت ہے جو waqar hussain  صاحب نے لکھی جو کہ ادھوری ھے ۔ اس عبارت سے پہلے بھی کچھ لکھا ھوا ھے اور بعد میں بھی بقیہ عبارت موجود ھے ۔ بعد کی عبارت میں یہاں پیش کرتا ھوں ۔
“پھر فرمایا کہ مگر انکی تقلید بوجہ خود مجتہد عالم ماہر ھونے کے جائز تھی۔ اب جاہل لوگ یا معمولی عربی جاننے والے اپنے آپ کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر قیاس کرکے تقلید نہ کریں تو یہ انکی غلطی ہے۔“
(صفحہ 345 آخری حصہ اور صفحہ 346 پہلے سطر)
اس عبارت کے دونوں اقتباسات ،یعنی شاھد نظیر اور میرے کو ملاکر پڑھیں تو عبارت کچھ ایسی بنتی ہے

“بعض غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے نفرت ہے بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ ہم خود ایک غیر مقلد کے معتقد اور مقلد ہیں، کیونکہ امام اعظم ابوحنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے۔پھر فرمایا کہ مگر انکی تقلید بوجہ خود مجتہد عالم ماہر ھونے کے جائز تھی۔ اب جاہل لوگ یا معمولی عربی جاننے والے اپنے آپ کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر قیاس کرکے تقلید نہ کریں تو یہ انکی غلطی ہے۔“



اس عبارت سے پہلے کی عبارت کو اسکین میں پڑھ لیجئے ۔ اور دیکھئے شاھد صاحب نے کیسے بے بنیاد عمارت تعمیر فرمائی ھے ۔

شکریہ
ﺳﻮﺍﻝ : ﮐﯿﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧؒ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﺗﮭﮯ؟؟؟
ﺟﻮﺍﺏ : ﺟﺐ ﮨﻢ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ :
ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﻘﺘﺪﯼ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ
ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺗﯿﺴﺮﺍ
ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻭﺳﻮﺳﮯ ﮈﺍﻟﺘﺎﮨﮯ .
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﯾﻦ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺷﯿﻄﺎﻥ . ﺁﺝ ﮐﻞ ﺍﺳﮯ ﻏﯿﺮ - ﻣﻘﻠﺪ ﺑﮭﯽ ﮐﻬﺎ ﺟﺎ ﺳﻜﺘﺎ ﻫﮯ ،
ﻭﮦ ﻣﻘﻠﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﺳﻮﺳﮯ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﮨﮯ . ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﻣﻮﻻﻧﺎ
ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ﺭﺡ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺑﮭﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﺗﮭﮯ . ﯾﮧ ﺷﯿﻄﺎﻥ
ﺻﻔﺖ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﮰ :
ﮨﺮ ﻟﻔﻆ ﮐﮯ ﺩﻭ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ :
ﺍﯾﮏ ﻟﻐﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﺻﻄﻼﺣﯽ؛
ﻟﻐﻮﯼ ﻣﻄﻠﺐ ﻭﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮈﮐﺸﻨﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺻﻄﻼﺣﯽ
ﻭﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻟﻔﻆ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺁﭖ ﮈﮐﺸﻨﺮﯼ ﻣﯿﮟ
ﻟﮑﮭﮯ ﮨﻮﮰ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﻮ ﻛﻬﺎﮞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ .
ﻣﺜﺎﻝ ﻛﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺻﻠﻮﺓ ﻛﮯ ﻟﻐﻮﻯ ﻣﻌﻨﻰ ﺩﻋﺎ ﻛﮯ ﻫﻴﮟ ﻟﻴﻜﻦ ﺩﻳﻦ ﻛﻰ
ﺍﺻﻄﻼﺡ ﻣﻴﮟ ﺍﺳﻜﮯ ﻣﻌﻨﻰ ﻧﻤﺎﺯ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ ...
ﺍﺳﻰ ﻃﺮﺡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ ﺭﺡ ﻧﮯ ﺟﻮ ﯾﮧ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻣﺎﻡ
ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﻟﻐﻮﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ . ﯾﻌﻨﯽ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻧﻬﻴﮟ
ﻛﺮﺗﺎ . ﻛﻴﻮﻧﻜﻪ ﺗﻘﻠﻴﺪ ﻛﻬﺘﮯ ﻫﻴﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﻣﺤﺾ ﺍﺱ ﺣﺴﻦ ﻇﻦ ﭘﺮ
ﻣﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﻟﯿﻞ ﮐﮯﻣﻮﺍﻓﻖ ﺑﺘﻼﺩﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻟﯿﻞ ﮐﯽ
ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﻳﻪ ﻫﻮﺗﻰ ﻫﮯ ﺗﻘﻠﻴﺪ ... ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﻣﺠﺘﮩﺪ ‏( ﻋﺎﻟﻢ / ﺍﻣﺎﻡ ‏) ﭘﺮ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻭﺍﺟﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ .
ﻭﮦ ‏( ﻣﺴﺎﺋﻞ _ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ‏) ﺍﭘﻨﮯ ‏( ﻋﻠﻤﯽ ‏) ﺍﺟﺘﮩﺎﺩ ﭘﺮ ﭼﻠﮯ ﮔﺎ . ﺍﺳﻰ ﻟﺌﮯ
ﺣﻀﺮﺕ ﺗﻬﺎﻧﻮﻯ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﻴﻔﻪ ﻛﻮ ﻏﻴﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﻛﻬﺎ ﻫﮯ ... ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ
ﻣﺠﺘﮩﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﻟﻐﻮﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .
ﺍﻭﺭ ﺍﺻﻄﻼﺡ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻮ ﻧﮧ ﺗﻮ ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮨﻮ،
ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﻘﻠﺪ ﮨﻮ . ﺑﺲ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻭﺳﻮﺳﮯ ﮈﺍﻟﺘﺎ
ﮨﻮ .
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺍﺻﻄﻼﺣﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ
ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ . ﻟﯿﮑﻦ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﺻﻄﻼﺣﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ " ﺷﯿﻄﺎﻥ " ﺿﺮﻭﺭ
ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ
آج کل بعض جاہل نام نہاد اہل حدیث حضرات کہتے ہیں  کہ مولانا اشرف علی صاحبؒ نے امام ابو حنیفہؒ کو غیرمقلد لکھا ہے  گویا  غیرمقلد ہونا جرم نہیں   ۔مولانا صاحب   کی پوری بات پڑھنے سے بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ  انہوں نے
ان   جاہل نام نہاد اہل حدیث حضرات  کے حق میں کوئی بات نہیں لکھی ۔
وہ فرماتے ہیں: ”غیرمقلدین کہتے ہیں  کہ ہمیں ان سے نفرت ہے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ہم خود ایک غیرمقلد کے معتقد اور مقلد ہیں کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کا غیرمقلد ہونا یقینی ہے  انکی تقلید بوجہ خود مجتہد عالم ماہر ہونے کے جائز تھی۔ اب جاہل لوگ یا معمولی عربی جاننے والے اپنے آپ کو ابو حنیفہؒ پر قیاس کرکے تقلید نہ کریں تو یہ ان کی غلطی ہے“۔
 (مجالس حکیم الامت صفحہ ۳۴۵-۳۴۶)

فرقہ اہل حدیث کے ایک  عالم لکھتے ہیں ”اہل حدیث  (یعنی غیرمقلد لایجتہد ولایقلد) کا مزاج کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والوں کے نزدیک عام و عظون کی باتیں زیادہ مرغوب ہوتی ہیں علمی اور گہری باتیں ان کے لئے بسا اوقات پریشانی کا باعث بن جاتی ہیں“(قافلہ حدیث صفحہ ۸۰) اسلئے ہم اسے تھوڑا آسان کرکے لکھتے ہیں ؛
آدمی غیرمقلد  دو ہی طرح کہلایا جاسکتا ہے ایک جب وہ  کسی کی تقلید نہ کرتا ہو  کیونکہ خود اجتہاد کا اہل ہو جیسے امام ابو حنیفہؒ ، امام شافعیؒ، امام مالک، امام احمدؒ وغیرہ مجتہدین ہیں دوسرا جب آدمی نہ کسی مجتہد  کی تقلید کرے نہ ہی خود اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو جیسے آج کل کا ایک فرقہ جس نے انگریز سے اپنا نام اہل حدیث الارٹ کروا لیا ہے نہ خود اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے نہ ہی کسی مجتہد کی تقلید کرتا ہے۔
نواب صدیق حسین خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
” آج کل احمقوں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ میں مشہور اہل حدیث ہوں “ (ابقار المنن صفحہ ۲۹۰)
ایک جگہ فرماتے ہیں:
”میں نے رد تقلید میں بہت کچھ لکھا ہے“ (ابقار المنن صفحہ ۱۵۶)
یعنی معلوم ہوا  کہ اہل حدیث کہلاتے تھے اور تقلید     کے قائل نہیں تھے۔
تقلید کے قائل نہیں تھے تو  شاید اجتہاد جانتے ہوں؟
چنانچہ  فرماتے ہیں:
”مجھے بخوابی معلوم ہے کہ مجھ میں کوئی شرائط اجتہاد  موجود نہیں“ (ابقار المنن صفحہ ۱۵۹)
یعنی معلوم ہوا  کہ اجتہادی صلاحیت سے بھی محروم تھے۔
اس سے معلوم ہو گیا  کہ اہل حدیث   وہ ہوتا ہے جو کہ نہ خود اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو نہ کسی مجتہد کی تقلید کرتا ہو۔
انگریز کے دور میں ایک ایسا فرقہ   وجود میں آیا جو نہ تو اجتہاد جانتا تھا نہ کسی مجتہد کی تقلید کرتا "غیرمقلد " کے نام سے مشہور ہوا۔ صحابہ رضی اللہ عنہ ، تابعین،تبع تابعین اور ائمہ محدثین رحھم اللہ میں سے ایک بھی شخص غیرمقلد نہ تھا۔ جس کے بارے میں صرف ایک حوالہ جو مستند ہو اور صاف اور صریح ہو کہ فلاں صحابی یا فلاں محدث نہ اجتہاد کی اہلیت رکھتے تھے نہ ہی مجتہد کی تقلید کرتا تھا بلکہ غیرمقلد  تھا۔

No comments:

Post a Comment