رافضی کا اعتراض::
صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ:
معاویہ لوگوں کو حرام طریقے سے مال کھانے اور ناحق قتل کرنے کا حکم دیتا۔
یہی اعتراض رافضیوں سے مثاتر مرزا محمد علی جہلمی نے بھی کیا ہے
#الجواب::
جو راوی یہ بات بیان کر رہے کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھانے اور ناحق قتل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ راوی عبد الرحمن بن عبد رب الکعبہ ہیں۔
جو کہ مولا علی شیرِ خدا فاتح خیبر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے لشکر میں تھے۔ کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انکے مدِّ مقابل تھے تو راوی اپنے خیال میں یہ کہہ رہے ہیں کہ معاویہ لوگوں کا مال ناحق کھانے کا حکم دیتے ہیں۔
کیونکہ
وہ مال حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے لشکر پر خرچ ہوتا۔ جسکو راوی کہہ رہے ہیں کہ طریقہ حرام ہے۔
اب یہاں رافضی یہ تاثر دے رہا ہے کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ حرام مال کھاتے تھے۔ حالانکہ کہ ایسی بات نہیں۔
اب یہاں مال کے تصرف (یعنی طریقہ استعمال) کی بات ہو رہی ہے جسے مولا علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے لشکر کے سپاہی کہہ رہے کہ ہمارے خلاف جنگ میں جو مال خرچ ہوتا ہے وہ طریقہ حرام ہے۔
کیونکہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مجتہد و فقیہ تھے اور جب مجتہد خطاء کرتا ہے تو اسے بھی اجر ملتا ہے۔
اب نیم رافضی سے ہم پوچھتے ہیں کہ مال کے تصرفات میں بہت سے مسائل میں آئمہ کا ختلاف ہے کسی کے نزدیک ایک جگہ مال خرچ کرنا، ناجائز ہے۔ کسی کے نزدیک جائز۔ تو اب کیا۔ ایک امام کو حق پر مان کر دوسرے پر مال کو حرام طریقے سے استعمال کرنے کا الزام لگا دیا جائے گا؟؟؟؟
اور جو ناحق قتل کی بات کی ہے تو اس سے مراد وہی قتل ہیں جو حضرت علی المرتضٰی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے لشکر میں سے قتل ہوتے۔ کیونکہ عبد الرحمن بن عبد الکعبہ لشکرِ علی کے سپاہی تھے اسی بنا پر آپ نے حضرت معاویہ کے بارے میں کہا کہ انکا کرنا
قتل بھی ناحق اور مال کے استعمال کا طریقہ بھی ناجائز ہے۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن دشتانی مالکی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
”اس اشکال کے حل کا یہ طریقہ ہے کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ متاوّل اور مجتہد تھے “
[اکمال اکمال المعلم، جلد5 ، صفحہ190، مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت]
یعنی امام دشتانی نے اس اشکال کا حل یوں کیا کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ جو مال اپنے مدِ مقابل لشکر کیلئے استعمال کرتے تھے وہ اپنے اجتہاد سے کرتے تھے کیونکہ آپ فقیہ تھے آپکو عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے خود فقیہ کہا۔
#معاویہ_فقیہ_ہیں
” قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: ""هَلْ لَكَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ، قَالَ: إِنَّهُ فَقِيهٌ “
” حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ خود فقیہ ہیں۔“
[صحیح البخاري، کتاب فضائل اصحاب النبي، حدیث:3765، مطبوعه دار السلام ریاض سعودیه]
حِبر الامة حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے حضرت معاویہ رضی عنہ کو امیر المؤمنین کہا گیا۔
ِحضرت ابنِ عباس نے منع نہیں کِیا بلکہ جواب میں کہا کہ وہ "فقیه" یعنی مجتہد ہیں۔
حضرت ابنِ عباس رضی الله عنه نے حضرت امیرِ معاویه رضی الله عنه کو فقیه اور دوسری روایت میں صحابی کہہ کر قیامت تک آنے والے رافضیوں اور نیم رفضیوں کا منہ کالا کر دیا کہ امیرِ معاویہ کو کچھ نہ کہو کہ صحابی ہیں۔
اب جب فقیہ مجتہد مسئلہ میں خطاء کرتا ہے تو اسکی پکڑ نہیں ہوتی۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ، ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ، ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ
یعنی: جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں۔ اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے
[صحیح البخاری، کتاب الاعتصام،باب اجر الحاکم اذا اجتھد فاصاب او اخطأ، الحدیث:7152، مطبوعہ دار السلام ریاض]
لہذا اگر امیرِ معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا اجتہاد درست نہ بھی ہو پھر بھی آپکو حدیثِ نبوی ﷺ کے مطابق ایک اجر مل گیا۔
اگر اسی طرح کے الفاظ لیکر مرزا جہلمی اور نیم رافضی، صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اجمعین کو موردِ الزام ٹہراتے رہیں گے۔ تو مرزا جہلمی اور نیم رافضی حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے ان الفاظ کے بارے کیا کہیں گے؟ جو کہ ایک معتبر اھلبیت کی شخصیت کے بارے میں کہے اور یہ الفاظ صحیح حدیث میں وارد ہوئے ہیں
فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، ..........؟؟؟؟؟
ہے خود کو سنی کہنے والے کسی نیم رافضی یا مرزا جہلمی و اسکے کسی چیلے میں دم کہ حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے ان الفاظ کے بارے کچھ کہے ؟؟؟
اگر نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ عبد الرحمن بن عبد رب الکعبہ کے الفاظ کو لیکر حضرت معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کو ہی کیوں موردِ الزام ٹہرایا جاتا ہے؟
کل کو رافضی اور مرزا جہلمی کہیں گے کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے کیونکہ قرآن میں ہے کہ انہوں نے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی پکڑی تھی۔
قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْۚ-اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ
ہارون نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑو بیشک مجھے ڈر تھا کہ تم کہو گے کہ (اے ہارون!) تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور تم نے میری بات کا انتظار نہ کیا۔ [سورة طه، آیت:94]
لہذا پسِ منظر اور تناظر کو سمجھے بغیر ہی زبان درازی شروع کر دینا یہ رافضیوں کا پرانا طریقہ ہے۔
عبد الرحمٰن بن عبد رب الکعبہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ کو لیکر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو طعن کا نشانہ بنا نے والے رافضی جواب دیں۔کہ
#شیعوں_نےمولاعلی_کوگدھاکہا(العیاذباللہ تعالٰی)
شیعہ مذھب کا محدث ملّا باقر مجلسی اھلبیت پر بہتان باندھتے ہوئے جھوٹی روایت گھڑتا ہے کہ:
”عن جابر بن یزید عن ابی جعفر علیه السلام قال: قال یا جابر اَ لك حمار یسیر بك، فلیبلغ بك من المشرق الی المغرب فی یوم واحد؟ فقلت: جعلت فداك یا ابا جعفر و انّی لی ھذا؟ فقال ابو جعفر ذاك امیر المؤمنین (علی) علیه السلام۔“
یعنی:
”حضرت امام باقر کہتے ہیں اے جابر کیا تمہارے پاس ایسا گدھا ہے جو تمہیں مشرق سے مغرب تک صرف ایک دن میں لے جائے؟ جابر نے کہا نہیں، ابو جعفر(باقر) آپ پر قربان جاؤں، ایسا گدھا کہاں سے ملے گا؟ امام باقر نے کہا وہ امیر المؤمین علی علیہ السلام ہیں۔“
[بحار الانوار، جلد 25، صفحہ 380، مطبوعہ مؤسسة الوفا بیروت لبنان]
رافضیو جیسے تم نے حضرت عبد الرحمٰن بن عبد رب الکعبہ کے الفاظ کو پکڑ کر حضرت معاویہ کو مورد الزام ٹہرا دیا۔
کیا کسی رافضی میں دم ہے کہ اپنی کتاب میں موجود اھلبیت کیطرف منسوب اس روایت کو لیکر حضرت امام باقر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے قول کو دلیل بنا کر حضرت مولا علی شیرِ خدا، مشکل کشا، خیبر شکن پر زبان درازی کرے؟؟ اور وہ کہے جو شیعوں کے نزدیک امام باقر نے مولا علی کو کہا؟؟؟؟
رافضیو.... خدا کا کچھ خوف کرو
#چندشیعہ_کتب_سےالزامی_جواب
#حضرت_امام_حسن_وحسین_رضی_اللہ_عنھما #نےحضرت #معاویہ_کی_بیعت_کی
شیعہ کے شيخ الطائفة ابو جعفر محمد بن الحسن بن علی الطوسی نے نقل کیا:
امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے امام حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو مع ساتھیوں کے شام بلایا جب یہ سب آگئے تو:
وأعد لهم الخطباء، فقال يا حسن قم فبايع فقام فبايع، ثم قال للحسين عليه السلام قم فبايع فقام فبايع، ثم قال قم يا قيس فبايع فالتفت إلى الحسين عليه السلام ينظر ما يأمره، فقال يا قيس انه امامي يعني الحسن عليه السلام
ان کے لیے خطیب مقرر کیے گئے پھر کہا اے حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) اٹھیے اور بیعت کیجیے وہ اٹھے اور بیعت کی، پھر امام حسین علیہ السلام کو کہا آپ اٹھیے اور بیعت کیجیے، تو انہوں نے بھی اٹھ کر بیعت کی، پھر قیس کو فرمایا اٹھ کر بیعت کرو، اس نے امام حسین علیہ السلام کی طرف نظر کی تاکہ مرضی معلوم کر سکے آپ نے فرمایا اے قیس امام حسن علیہ السلام میرے امام ہیں۔“
[اختيار معرفة الرجال المعروف بـ رجال الكشي، صفحہ 104، مؤسسة النشر الاسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة]
شیعہ کا محدث ملا باقر مجلسی بحار الانوار میں مزید لکھتا ہے :
عن عدي بن ثابت عن سفيان قال: أتيت الحسن بن علي ع حين بايع معاوية فوجدته بفناء داره وعنده رهط فقلت: السلام عليك يا مذل المؤمنين قال: وعليك السلام يا سفيان انزل فنزلت فعقلت راحلتي ثم أتيته فجلست إليه فقال: كيف قلت يا سفيان ؟ قال: قلت: السلام عليك يا مذل المؤمنين فقال: ما جر هذا منك إلينا ؟
عدی بن ثابت نے سفیان سے روایت کیا وہ کہتا ہے کہ :
جب جناب حسن نے معاویہ کی بیعت کرلی ، تو میں جناب حسن کے پاس آیا ، وہ اپنے گھر کے صحن میں چند لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے، میں نے جاتے ہی کہا :
اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے تجھ پر سلام ہو ،
انہوں نے مجھے وعلیکم السلام کہا ، اور کہنے لگے آؤ سواری سے اترو ، میں سواری سے اترا ، اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔“
[ بحار لانوار، جلد44، صفحہ 312، المنشورات مؤسسة الاعلمی للمطبوعات بیروت لبنان]
رافضیوں کا شیخ مفید لکھتا ہے:
کہ جب امام حسن علیہ سلام فوت ہوگئے تو عراق کے شیعہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے امام حسین علیہ سلام کو اپنی معاویہ کی بیعت توڑ دینے اور آپ کی بیعت کرنے کے بارے میں لکھا۔ آپ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا۔ میرے اور معاویہ کے درمیان ایک عہد و پیمان ہے۔ مدت ختم ہونے سےپہلے اسے توڑنا جائز نہیں۔
[تذکرۃ الاطہار اردو از شیخ مفید۔ صفحہ 247 مطبوعہ امیامیہ پبلیکیشنز لاھور]
#رافضیو_جواب_دو
اگر حضرت معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ حرام مال کھاتے اور حرام مال کھانے و قتل کرنے کا حکم دیتے تھے۔ تو بتاؤ امامِ حسن اور امامِ حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما نے حرام مال کھانے اور اسکا حکم دینے والے کی بیعت کیوں کی؟؟؟
بتاؤ حرام طریقے سے مال کھانے اور ناحق قتل کرنے والے کی بیعت کرنے والے کون ہوئے؟؟؟
#حضرت_امام_حسن_وحسین_معاویہ_کےنذرانےقبول #کرتے
شیعہ کا شیخ طوسی لکھتا ہے کہ:
”اس کے بعد معاویہ نے کبھی انکو ناراحت کرنے والا خط نہیں لکھا اور اپنے ھدایا (وظائف) تحائف میں کمی نہیں کی اور ہر سال ایک ملیون درھم امام حسین علیہ السلام کو بھیجتا تھا یہ ھدایا و سامان کے علاوہ تھا جو تمام جنگوں سے انکو ارسال کیا جاتا“
[احتجاج طبرسی، حصہ سوئم، صفحہ 58، ناشر ادارہ تحفظِ حسینیت لاھور پاکستان]
شیعوں کا امام مُلّا باقر مجلسی لکھتا ہے کہ:
""امیرِ معاویہ حضرت امام حُسین کو تحائف بھیجتے اور دس لاکھ درہم ہر سال انکو ھدیہ کے علاوہ بھیجا کرتے تھے“
[بحار الانوار باب4 جلد1 صفحہ 57 مطبوعہ محفوظ بُک ایجنسی مارٹن روڑ کراچی]
رافضیو....! جواب دو اگر حضرت امیرِ معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ حرام مال کھاتے تھے اور اسکا حکم بھی دیتے تھے۔
تو بتاؤ کیا امامِ حسن و امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما حرام مال کے نذرانے قبول کرتے تھے؟؟؟
اگر تم لوگ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا حرام طریقے سے مال استعمال کرنا مانو گے تو اسکی زد میں اھلبیتِ اطہار بھی آئیں گے۔
لہذا عافیت اسی میں ہی کہ صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اجمعین کے معاملے میں زبان بند رکھو۔ کیونکہ خود حضور ﷺ نے ارشاد فرما دیا: «لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي»
میرے صحابی میں سے کسی کو برا مت کہو۔
[صحیح بخاری و لفظه مسلم، حدیث:6488، مطبوعہ دار السلام ریاض]
اللہ کریم ہمیں اپنے پیاروں کا ادب نصیب فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
No comments:
Post a Comment