اقامت دین و خلافت راشدہ
جیسا کہ شیعوں کا ماننا ہے کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کے بعد حفاظت و اقامت دین کے لئے ائمہ کو ہونا ضروری ہے لیکن عقل و نقل گواہ ہے کہ شیعوں کی امامت حفاظت واقامت دین کا سبب بلکل ہی نہیں بنی بلکہ خلافت راشدہ ہی حفاظت واقامت دین کا سبب تھی اور چاروں خلفاء ہی راشد و موعود ائمہ و خلفاء تھے انشاء اللہ اس پوسٹ میں ہم اس کے دلائل پیش کریں گے
مولانہ محمد یوسف شہید رحمہ اللہ علیہ اس بات پر اپنی مشہور کتاب شیعہ سنی اختلافت اور صراط مستقیم میں فرماتے ہیں
اقامت دین وحفظ دین کا عظیم الشان کام اہل تشیع کے نظریہ امامت سے نہیں بلکہ اہلسنت کے ‘‘نظریہ خلافت ’’ سے ہوا اور اہل سنت کے ‘‘خلفاء راشدین ؓ ’’ نے اقامت دین و حفظ ملت کا وہ شاندار کارنامہ انجام دیا جس کے نظیر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ پوری انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ان کا یہ کارنامہ جریدہ عالم پر ایسا ثبت ہے کہ مومن تو مومن، کسی کافر کو بھی اس سے مجال انکار نہیں۔”
لفظ امام
امام کی معنی لغات میں ایسے آدمی کی آئی ہے جس کی اقتدا کی جائے اور اس کا حکم مانا جائے
امام بمعنی خلیفہ
کسی قوم کے سربراہ یا رئیس کو بھی امام کہتے ہیں قرآن کریم اس کے لئے لفظ خلیفہ آیا ہے اور امام کا لفظ لغوی معنی میں استمال ہوا ہے
امام بمعنی دینی مقتدا و پیشوا
جس آدمی کو مذہب میں کمال حاصل ہو اور لوگ اس کی پیروی کرتے ہوں اسے بھی امام ہی کہا جاتا ہے ۔یاد رہے شیعہ کے امام اس حساب سے اہل سنت کے پیشوا ہیں وہ ہمارے بزرگان ہیں
لیکن یہاں جو ہم بیان کرنا چاہ رہےہیں وہ امام بمعنی خلیفہ ہے اور ہمیں صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ خلافت راشدہ و ہ موعودہ خلافت جس کو ماننا لازمی ہے
خلیفہ کی مقرری مسلمانوں کی زمیداری ہے
مولانہ شہید فرماتے ہیں چونکہ دین وملت کے بہت سے احکام اجتماعی ہیں اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور اجماعیت کسی امام اور رئیس عام کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے لئے کسی امیر اور رئیس عام کو متخب کریں۔ نہج البلاغہ میں ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خارجیوں کا نعرہ تحکیم لا حکم الا اللہ سنا تو فرمایا:
قال علیہ اسلام، کلمۃ حق یراد بھا باطل ! نعم انہ لا حکم الا اللہ، ولکن ھولا یقولون: لا امرۃ الا اللہ ، وانہ لا بدللناس من امیر برا او فاجر یعمل فی امرتہ المؤمن ، ویستمتع فیھا الکافر، ویبلغ اللہ فیھا الاجل، ویجمع بہ الفی ، ویقاتال بہ العدو، وتامن بہ السبل ، ویوخذ بہ للضعیف من القوی ، حتیٰ یستریح پر، ویستراح من فاجر۔ (نہج البلاغہ صفحہ ۸۶، خطبہ ۴۰)
ترجمہ: ‘‘کلمہ حق ہے مگر مراد باطل ہے۔ یہ تو صحیح ہے کہ حکم صرف اللہ کا ہے، لیکن یہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ امارت (حکمرانی) تو صرف اللہ کی ہے حالانکہ لوگوں کے لئے کسی امیر کا ہونا ضروری ہے خواہ نیک ہو یا بد، اچھا ہو یا بُرا، تاکہ اس کے زیر حکومت مومن اپنے دین پر عمل پیرا ہو اور کافر تمتع حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ اس میں لوگوں کی دنیوی میعاد پوری فرمائیں۔ اس کی سرکردگی میں اموال فئے جمع ہوں، دشمنوں سے جہاد کیا جائے، راستے محفوظ ہوجائین، قوی سے ضعیف کا حق دلایا جائے، (ہر طرف ایسا امن و امان قائم ہوجائے کہ ) شریف آدمی سکھ چین کی زندگی گزارے اور فسادیوں کے شر کا کسی کو خوف نہ رہے۔ ’’
اس خطبہ میں حضرؓ کے الفاظ ‘‘ لا بد للناس من امیر بر اوجاجر’’ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ امیر کا انتخاب مسلمانوں کی صوابدید پر ہے ورنہ ظاہر ہے کہ ‘‘ براوفاجر’’ کے الفاظ لغو اور بے معنی ہوں گے
خلیفہ کا انتخاب اہل حل و عقد کی بیعت سے ہوتا ہے۔
ایھا الناس، ان احق الناس بھٰذا الامر افواھم علیہ ، اعلمھم بامراللہ فیہ، فان شغب شاغب استعیب ، ان ابیٰ قویل ولعمری، لئن کانت الامامۃ لا تنعقد حتیٰ یحضر ھا عامۃ الناس۔ فما الیٰ ذالک سبیل، ولٰکن اھلھا یحکمون علیٰ من غاب عنھا ۔ ثم لیس للشاھد ان یرجمع ، ولا للغائب ان یختار۔
(نہج البلاغہ صفحہ ۲۴۷، ۲۴۸)
ترجمہ :اے لوگو اس امر خلافت کا حقدار وہی ہو جو سب سے زیادہ مضبوط ہو اور اللہ کے احکام کو زیادہ جانتا ہو۔ ایسے خلیفہ کے تقرر کے بعد اگر کوئی شور کرے تو اس کی فہمائش کی جائے اور پھر بھی انکار کرے تو اس سے قتال کیا جائے ۔مجھے قسم ہے اگر امامت اس طرح منعقد ہوا کرتی ہے کہ ہر فرد حاضر ہو تو یہ ناممکن ہے ۔بلکہ اس کا طریقہ ی ہےکہ اہل حل و عقد جس کو بھی رئیس مقرر کرلیں تو وہ امام قرار پائے گا۔پھر وہ شخص جو موجود تھا سرتابی کرسکتا ہے اور نہ وہ جو موجود نہین تھا اس کا رد کی کوئی اہمیت ہے”
اس بات سے ثابت ہوا کہ خلیفہ کی تقرری مسلمانوں کے اہل حضرات کے مشورہ سےہوتی ہے ۔
خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقرری بھی اسی طرح عمل میں آئی ۔ اور فرمان امیر المومنین علی رضہ کے مطابق کسی کو چوں چراں کی ضرورت نہین ہے ۔ کیوں کہ انصار اور مہاجرین نے اجماع سے آپ کی بیعت کی تھی اور اگر شیعہ کے نذدیک یہ لوگ اہل حل نہیں ہیں تو پھر اور کون سے ہوسکتے ہیں کیوں پیغمبر کی یہی جماعت تھی اس وقت دنیا کے گولے پر۔
امیر المومنین علی رضہ بھی اس اجماع کا احترام کرتے تھے اس لئے آپ نے ابی سفیان اور حضرت عباس کے کہنے پر بھی حضرت ابی بکر کے سامنے نہیں آئے اور آپ نے صحابہ کے اس اجماع پر قائم رہے بلکہ آپ ہی اس اجماع میں شامل تھے ۔
امام اول حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے
اہلسنت کے نزدیک آنحضرت ﷺ کے بعد امام اول اور خلیفہ بلا فصل حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔ ان کے بعد حضرت عمر فاروقؓ ، ان کے بعد حضرت عثمان غنیؓ اور ان کے بعد حضرت علی مرتضیٰ ؓ علی الترتیب امام برحق اور خلیفہ راشد تھے۔کیونکہ اہل حل و عقد مہاجرین و انصارؓ نے علی الترتیب انہیں چاروں کو اپنا خلیفہ و امام متخب کیا تھا۔ خلافت بلا فصل حضرت ابوبکر صدیقؓ کا منصب تھا، اس لئے ان کو ‘‘ امیرالمؤمنین ’’ نہیں بلکہ ‘‘خلیفہ رسول اللہؓ ’’ کہا جاتا تھا۔
حضرت علی ؓ نے مہاجریں و انصار کے ساتھ ان کو خلیفہ بلا فصل تسلیم کیا اور ان کی موجودگی میں اپنی خلافت کو ‘‘قبل از وقت’’ قرار دیا ہے۔ چانچہ نہج البلاغہ میں ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت عباس اور حضرت ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بیعت خلافت کی پیشکش کی تو آپ نے فرمایا:
یایھا الناس،شقوا امواج الفئن بسفن النجاۃ، وعرجوا عن طریق المنافرۃ ، وضعوا یبجاان المفاخرۃ۔ افلح من نھض بجناح، او استسلم فاراح ۔ ھٰذا ماء آجن ، ولمقۃ یغص بھا اکلٰھا ومجتنی الشمرۃ لغیر وقت اینا عھا کالزارع بغیر ارضہ۔(نہج البلاغہ ۔۔۔۔ صفحہ ۵۲)
ترجمہ: ‘‘ اے لوگوں ! فتنوں کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کر پار ہوجاؤ، منافرت کے راستے چھوڑ دو، مفاخرت کے تاج اتا پھینکو۔ کامیاب رہا وہ شخص جوقوت بازو سے اٹھایا جھگڑے سے کنارہ کش رہ کر اس نے لوگوں کوبدامنی سے راحت دی، یہ بار خلافت کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ مدمزہ پانی ہے اور ایسا لقمہ ہے جو کھانے والے کے گلے میں اٹک کر رہ جائے۔ پکنے سے پہلے پھل توڑنے والا ایسا ہے کہ دوسرے کی زمین میں کاشت کرے۔ ’’
آخری جملہ بتاتا ہے کہ آپ خلیفہ بلا فصل حضرت صدیق اکبرؓ کو سمجھتے تھے اور اس وقت اپنی خلافت کو قبل از وقت سمجھتے تھے۔
خلفائے راشدینؓ مسلمانوں کے متخب امام اور اللہ تعالیٰ کے موعود خلفاء تھے
مولانہ شہید فرماتے ہیں یہ چاروں حضرات خلفائے راشدینؓ ہیں، جو افضل البشرﷺ ‘‘خیرامت’’ کے متخب امام اور اللہ تعالیٰ کے موعود خلیفہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خلافت سے پہلے ان کے استخلاف فی الارض کی پیش گوئی فرمائی اور اس پیش گوئی میں ان کی اقامت دین اور حفظ ملت کے اوصاف کو بطور خاص ذکر فرمایا۔ پھر آنحضرت ﷺ کے بعد جب ان پیش گوئیوں کے ظہور کا وقت آیا تو حضرات مہاجرین و انصار ؓ کو توفیق خاص عطا فرمائی کہ ان خلفاء اربعہ ؓ کو اپنا امام اور خلیفہ بنائیں تاکہ ان کے ذریعہ موعود پیش گوئیاں پوری ہوں اور اقامت دین و حفظ ملت کا عظیم الشان کارنامہ پردہ غیب سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہو۔
قرآن کریم میں اس قسم کی آیات بہت ہیں مگر خلفاء اربعہؓ کے بابرکت عدد کی مناسبت سے یہاں قرآن کریم کی چار پیش گوئیوں کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:
پہلی پیش گوئی: مظلوم مہاجرین کو تمکین فی الارض نصیب ہوگی اور وہ اقامت دین کا فریضہ انجام دیں گے
الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ
صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ(حج 40)
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ( الحج 41 )
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے۔یہ آیت کریمہ دو پیش گوئیوں پر مشتمل ہے ایک یہ کہ مہاجرین کو اقتدار نصیب ہوگا اور دوسرہ یہ کہ ان کا اقتدار اقامت دین امر بلمعروف ور نہی عن المنکر کا زریعہ ہوگا
اس آیت کے مطابق مہاجرین اولین میں سے چار حضرات کو اقتدار عطا کیا گیا اور دنیا نے دیکہا کہ کس طرح ان حضرات نے اقامت دین کا کام کیا بلکہ جناب صدیق نے زکواۃ کے انکاریوں سے جہاد کا اعلان کیا ۔
دوسری آیت
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ( 55 )
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں
لفظ منکم سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ جو حضرات نزول آیت کے موقع پر موجود تھے یہ پیش گوئی ان کے لئے نہ کہ صدیوں بعد میں آنے والوں کے لئے ۔ اس آیت کا بلخصوص خطاب صحابہ ہی تھے ۔ اور ان سے چار وعدے کئے گئے ہیں
پہلا وعدہ : اس جماعت کے کچہ لوگوں کو خلیفہ بنا دیا جائے گا اور ان کی خلافت منشا الاہی ہوگی ۔
دوسرہ وعدہ: اللہ تعالی اپنے پسندیدہ دین کو ان خلفاء کے زریعہ سے دنیا میں ہمیشہ کے لئے قائم کردین گے ۔ یعنی وہ خلفاء دین السلام کی اشاعت کے لئے اللہ کے الا کار ہونگے
تیسرہ وعدہ: ان کے خوف کو امن سے بھر دیا جائے گا آج جو ان کو خطرہ لاحق ہے وہ پھر ختم ہوجائے (اس کے بر عکس شیعہ عقیدہ امامت کے مطابق شیعوں کے اماموں کو خوف ساری زندگی ساتھ رہا اس لئے تکیہ کرتے رہے)
چوتھا وعدہ :وہ اللہ کے فرمانبردار ہوںگے اور شرک و بدعت کو اکہاڑ پھہیکے گے۔
ومن کفر بعد ذالک فاولئک ھم الفاسقون۔
یعنی ان حضرات کا استخلاف حق تعالیٰ شانہ کا عظیم الشان انعام ہے۔ جو لوگ اس جلیل القدر نعمت کی ناقدری و ناشکری کرین گے وہ قطعاً فاسق اور اللہ تعالیٰ کے نافرمان ٹھہریں گے۔
نزول آیت کے وقت تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ قرعہ فال کس کس کے نام نکلتا ہے؟ خلافت الٰہیہ موعودہ کا تاج کن کن خوش بختوں کے سر پر سجایا جاتا ہے؟ کون کون خلیفہ ربانی ہوں گے؟ اور ان کی خلافت کی کیا ترتیب ہوگی؟ لیکن آنحضرت ﷺ کے بعد جب یہ وعدہ الٰہی مفصہ شہود پر جلوہ گر ہوا تب معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ شانہ کے یہ عظیم الشان وعدے انہی چار اکابر سے متعلق تھے جن کو خلفائے راشدینؓ کہا جاتا ہے۔
گزشتہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوچکا ہے کہ خلفاء اربعہؓ حق تعالیٰ شانہ کے ‘‘موعود امام’’ تھے ، حکمت خداوندی نے ان حضرات کو خلافت نبوت کے لئے پہلے سے نامزد کر رکھا تھا، اور تنزیل محکم میں ان کی خلافت کا اعلان فرما رکھا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان خلفاء ربانی اور ائمہ ہدیٰ کے ذریعہ دین وملت کی حفاظت ہوئی اور وہ تمام امور جو امامت حقہ اور خلافت نبویہ سے وابستہ ہیں ان اکابر کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوئے
تیسری پیش گوئی
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (المائدہ 54
اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور الله بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے
اس آیت مین جناب صدیق اکبر کی خلافت کی پیش گوئی ہے ۔ وصال نبوی کے بعد جب لوگ ہر طرف سے مرتد ہونے لگے ماسواء مکہ ،مدینہ ، اور طائف کے باقی سارہ عرب اس کی لپیٹ مین آگیا ۔ تو جناب صدیق نے بہت ہی زبردست طریقہ سے اس ی سرکوبی کی او آپ اور آپ کے ساتھی اس آیت کا مصداق بنے ۔اللہ تعالی نے آپ کے اور آپکے ساتھیوں کے جو اوصاف بتائے وہ یہ ہیں ۔
1۔اللہ تعلی ان سے محبت رکہتے ہیں
2۔یہ اللہ تعلی سے سچی محبت رکہتے ہین
3۔مسلمانوں ہر شفیق و مہربان ہین
4۔کافرون پر سخت ہیں اور ان پر غالب ہیں
5۔یہ مجاہد ہیں محض رضا الاہی کے لئے جہاد کرتے ہیں
6۔یہ کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ( یاد رہے جناب صدیق نے جب زکواۃ کے انکاریوں سے اعلان جہا د کیا تو کچہ لوگوں نے کہا کہ یہ صحیح نہیں تو آپ نے کسی کے پرواہ نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ نماز و زکواۃ میں فرق کرتے ہیں میں ان سے جہاد کرون گا)
حضرت صدیق اکبرؓ نے مسلمانوں کی از سر نو شیرازہ بندی کی اور پورے عرب کو نئے سرے سے متحد کر کے ایمان و اخلاص اور جہاد فی سبیل اللہ کے راستہ پر ڈال دیا۔ اور ان کے ہاتھ میں علم جہاد دے کر ان کو قیصرو کسریٰ سے بھڑایا۔ لہٰذا اس قرآنی پیش گوئی کا اولین مصداق حضرت صدیق اکبر ؓ اور ان کے رفقاء ہیں۔ رضی اللہ عنہم وارضا ھم یہا ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے
وہ یہ کہ غزوہ خیبر میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: ‘‘میں کل یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اللہ و رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔ ’’
اس ارشاد کے وقت آنحضرت ﷺ نے اس شخصیت کا نام نامی مبہم رکھا تھا۔ اس لئے ہر شخص کو تمنا تھی کہ یہ سعادت اس کے حصہ میں آئے۔ اگلے دن جب جھنڈا حضرت علیؓ کے ہاتھ میں دیا گیا تو اس پیش گوئی کے مصداق میں کوئی التباس نہیں رہا اور سب کو معلوم ہوگیا کہ اس بشارت کا مصداق حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے۔
ٹھیک اسی نہج پر سمجھنا چاہئے کہ اس آیت شریفہ میں جس قوم کو مرتدین کے مقابلہ میں لائے جانے کی پیش گوئی فرمائی گئے ہے نزول آیت کے وقت ان کے اسمائے گرامی کی تعین نہیں فرمائی گئے تھی۔ اس لئے خیال ہوسکتا تھا کہ خدا جانے کون حضرات اس کا مصداق ہیں؟ لیکن جب وصال نبویﷺ کے بعد فتنہ ارتداد نے سراٹھایا اور اس کی سرکوبی کے لئے حضرت صدیق اکبرؓ اور ان کے رفقاء ؓ کو کھڑا کیا گیا، تب حقیقت آشکارا ہوگئی اور التباس واشتباہ باقی نہ رہا کہ اس پیش گوئی کا مصداق یہی حضرات تھے اور انہی کے درج ذیل سات اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں:
چوتھی آیت
لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًاحَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (الفتح 16 )
جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم ایک سخت جنگجو قوم کے (ساتھ لڑائی کے) لئے بلائے جاؤ گے ان سے یا تو تم جنگ کرتے رہو گے یا پھر وہ اسلام لے کر ائیں اگر تم حکم مانو گے تو خدا تمہیں اچھا بدلا دے گا اور اگر اگر منھن پھیر لو گے جیسا کہ پہلے پھیرلیا تھا تو اللہ تم کوبری تکلیف کی سزا دےگا۔
یہ آیت دعوت اعراب کہلاتے ہے یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے حضور علیہ السلام سے حدیبیہ کے موقع پر پہلو تہی کی تھی انہیں بتایا جا رہا کہ آئندہ تمہیں جنگجو قوموں کے مقابلے مین نکلنے کی دعوت دی جائے گی اور تم کو یہاں تک جنگ کرنا ہوگی کہ وہ اسلام لے آئیں یا جزیہ دے کر اسلام کے زیر اثر آجائیں ۔ عربوں کو یہ دعوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں دی گئی کیون کہ آپ کے زمانے میں دوسری قوموں سے جنگ کی نوبت نہین آئی تھی ۔بلکہ جناب صدیق کے زمانے میں جہاد شام و عراق کے لئے انہیں نکلنے کے کی دعوت دی گئی اور خلفاء ثلاثہ کے زمانہ مبارک مین ہی یہ مقامات اسلام کے زیر اثر آئے اس سے ان کی خلافت ،اللہ تعالی کی موعودہ خلافت ہی بنتی ہے۔
چناچہ قرآن کریم کی یہ پیش گویاں خلافاء ثلاثہ ہی پوری کرتے ہیں نہ ہی ان کے علاوہ کوئی مہاجر خلیفہ بنا اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی نے مرتدیں سے قتال کیا ۔ اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی نے اعراب کو دعوت جہاد دی۔
اس سے خلفاء راشدہ موعودہ ثابت ہوتھی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اس کو نا ماننے والا بحکم قرآن بدکردار بنتا ہے ۔
خلافت راشدہ کی تائید احادیث سے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےاس پر صریح نص نہیں ملتی اورنہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئ قطعی وصیت فرمائ لیکن کچھ ایسے حکم دییے جس سے اس کا استدلال ملتا ہے کہ وہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہوں گے مثلا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں انہیں لوگوں کونماز پڑھانے کا حکم دیا ۔
حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی خلافت کی پیشن گوئی
عن عائشة قالت قال لي رسول اﷲ! في مرضه: اُدعي لي أبا بکر أباك وأخاك حتی أکتب کتابًا فإني أخاف أن يتمنّٰی متمنّ ويقول قائل: أنا ويأبی اﷲ والمؤمنون إلا أبابکر» (صحيح مسلم: رقم ۲۳۸۷)
”اپنے باپ ابوبکرؓ اور بھائی عبدالرحمنؓ کوبلا لیجئے کہ میں خلافت کا فیصلہ لکھ دوں۔ ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کوئی کہنے لگے کہ میں خلافت کا حق دار ہوں حالانکہ اللہ کو اور سب مؤمنوں کو ابوبکرؓ کے سوا کوئی بھی منظور نہ ہوگا۔
مسند امام احمد ، ترمذی ،مستدرک ، صحیح ابن حبان و ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت حذیفہ سے روایت ہے
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي : أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ (مسند احمد حدیث 23245)
حضور علیہ السلام نے فرمایا میرے بعد ابو بکر و عمر کی اقتدا کرنا
عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ : کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : إِنِّي لَا أَدْرِي مَا قَدْرُ بَقَائِي فِيْکُمْ؟ فَاقْتَدُوْا بِالَّذِيْنِ مِنْ بَعْدِي وَأَشَارَ إِلٰی أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ
’’حضرت حُذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. انہوں نے بیان کیا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک میں (اپنے آپ) نہیں جانتا کہ کتنی مدت تمہارے درمیان رہوں گا. سو تم میرے بعد اِن لوگوں کی پیروی کرنا. یہ فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی طرف اشارہ فرمایا
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما أَنَّهُ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أُرِيَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ صَالِحٌ، انَّ ابَا بَکْرٍ نِيْطَ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَنِيْطَ عُمَرُ بِأَبِي بَکْرٍ، وَنِيْطَ عُثْمَانُ بِعُمَرَ. قَالَ : جَابِرٌ : فَلَمَّا قُمْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قُلْنَا : أَمَّا الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَأَمَّا تَنَوُّطُ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ، فَهُمْ وُلَاةُ هٰذَا الْامْرِ الَّذِي بَعَثَ اﷲُ بِه نَبِيَه صلی الله عليه وآله وسلم .
رَوَاهُ ابُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
أخرجه ابو داود في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 208، الرقم : 4636، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 355، الرقم : 14863، وابن حبان في الصحيح، 15 / 343، الرقم : 6913، والحاکم في المستدرک، 3 / 75، الرقم : 4439.
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : گزشتہ رات ایک نیک آدمی کو خواب دکھایاگیا کہ ابوبکر کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور عمر کو ابوبکر کے ساتھ اور عثمان کو عمر کے ساتھ. حضرت جابر کا بیان ہے کہ جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے اٹھے تو ہم نے کہا : اس نیک آدمی سے مراد تو خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں. رہا بعض کا بعض سے منسلک ہونا تو وہ ان کا اس ذمہ داری کو سنبھالنا ہے جس کے لیے اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا.
امام بخاری نے اپنی تاریخ میں کہا ہے
عَن ابْن جمْهَان عَن سفينة أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ لأبي بكر وَعمر وَعُثْمَان هَؤُلَاءِ الْخُلَفَاء بعدِي
یعنی میرے بعد ابو بکر عمر و عثمان خلیفہ ہونگے
اَلْخَلَافَة فِیْ اُمَّتِیْ ثَلَاثُوْنَ سَنَةً ثُمَّ مَلکَ بَعْدَ ذَلِکَ.
بہیقی السنن الکبری 5:47 رقم 1855
میری امت میں خلافت تیس رہے گی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی
اس کا مطلب ہے کہ خلافت علی منھج نبوت تیس سال ہوگی جیسا کہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ خلافت راشدہ کی مثال ایسی ہے جیسے اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے اور حکم دیتے کام کرکہ سمجھاتے تھے اور خلافت میں گویا آپ علیہ السلام اشاروں سے سمجھا رہے ہیں کرنے والے دوسرے ہیں۔
شیعہ تفسیر صافی و قمی میں حضرت حفصہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ملاحضہ ہو
فقال انی ابابکر یلی الخلافۃ بعدی ثمہ بعدہ ابوی فقالت من انبای ہذا قال نبانی العلیم الخبیر
ترجمہ: (راز کی بات ارشاد فرماتے ہوئے) آپﷺ نے فرمایا: میرے بعد بے شک ابوبکر خلیفہ ہوں گے۔ پھر ان کے بعد تیرے والد بزرگوار اس منصب پر فائز ہوں گے۔ اس پر سیدہ حفصہ نے عرض کی کہ حضورﷺ یہ خبر آپ کو کس نے دی؟ آپﷺ نے فرمایا مجھے اﷲ علیم وخبیر نے خبر دی (تفسیر صافی ص 714، تفسیر قمی ص 457، سورہ تحریم)
خلافت راشدہ و خلفاء ثلاثہ ہی اقامت دین کا سبب تھے ملاحضہ ہو کچھ شیعہ حوالہ جات
ملاں مجلسی دعوت زولاعشیرہ کے تحت لکہتے ہیں کہ
حضور علیہ السلام نے حجر اسماعیل پر کہڑے ہوکرکہا کہ اے گروہ قریش و عرب مین تمہیں اللہ کی وحدانیت اور اپنی پیغمبری کی دعوت دیتا ہوں اور بت پرستی سے روکتا ہون ۔میری بات مانو اور جو کچہ میں کہتا ہوں اسے قبول کرو تو تم عرب و عجم کے بادشاہ بن جاؤ گے اور بہشت میں بھی سلطنت ہوگی ( حیات القلوب 477)
آگے لکہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس لئے مبعوث کیا گیا ہے کہ میں تمام بادشاہان باطل کو قتل کردون اور اے مسلمانو بادشاہی تمہارے لئے قرار دوں (حیات القلوب 430)
چناچہ اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے والوں کے لئے عرب و عجم کی بادشاہی ہے اب خلفاء اربع کے علاوہ کوئی ایسا ہے جو اس فرمان کا مصداق ہو ۔
دوم: یہ وعدہ دین حق کو قبول کرنے والون سے چناچہ ثابت ہوا کہ خلفاء ثلاثہ دین حق پر تھے
سوم : ان سے عرب و عجم کی باشاہی کے علاوہ بہشت کی سلطنت کا بھی وعدہ کیا گیا معلوم ہوا کہ یہ حضرات قطعن جنتی ہیں
چہارم : بادشاہاں باطل کے قتل کی پیش گوئی کی گئے ہے جو بھی خلفاء ثلاثہ کے دور میں ہوا معلوم ہوا یہ حضرات بادشاہان حق تھے
پنجم : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بادشاہان باطل کا قتل اپنے ہاتھون فرہایا حالانکہ آ پ علیہ السلام کے دور میں ایسا نہین بلکہ آپ کے بعد خلفاء ثلاثہ کے ہاتھون ہوا معلوم ہوا کہ یہ آپ علیہ السلام کے سچے نائب تھے
اس کے علاوہ حدیث چٹان جو موقع خندق پر آپ علیہ السلام نے فرمائی تھے وہ شیعہ کتب میں تواتر کے ساتھ وارد ہوئی ہے جس میں آپ نے شام ، یمن اور فارس کی فتح کی خوشخبری فرمائی ۔۔۔ کیا ا خلفاء ثلاثہ کے علاہ کسی اور نے اس کو پورہ کیا ، نہیں بلکہ خلفاء ثلاثہ ہی تھے جنہوں نے اسے پورا کیا ۔
روایت سراقہ بن مالک بھی ہے جو شیعہ کتب میں تواتر کے ساتھ موجود ہے میں اس کو فلحال چہوڑ دیتا ہوں
حضرت علی رضی اللہ کے فرمان از کتب شیعہ
مولانہ شہید اپنی کتاب میں فرماتے ہیں حضرت شیر خدا علی المرتضیٰ ؓ نے بھی متعدد موقعوں پر اپنے پیشرو خلفائے راشدینؓ کی خلافت موعدہ قرار دیا اور ان کے کارناموں کی مدح فرمائی، یہاں آپ کے چار اقوال شریفہ نقل کرتا ہوں:
نہج البلاغہ میں ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے جنگ فارس میں نبفس نفیس شرکت کے بارے میں حضرات صحابہؓ سے مشورہ لیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا:
ان ھٰذا الامر لم یکن نصرہ ولا خذلانہ بکثرۃ ولا بقلۃ وھو دین اللہ الذی اظھرہ، وجندہ الذی اعدہ وامدہ، حتیٰ بلغ ما بلغ ، وطلع حیث طلع، ونحن علیٰ موعد من اللہ ، واللہ منجز وعدہ ، ناصر جندہ(نہج البلاغہ ص ۲۰۲ خطبہ ۱۴۶)
ترجمہ: ‘‘ جہاد میں مسلمانوں کی کامیابی ناکامی کا مدار ان کی قلت و کثرت پر کبھی نہیں ہوا، یہ تو اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خود غالب (کرنے کا فیصلا) فرمایا ہے، اور مسلمانوں کی جماعت اللہ تعالیٰ کا وہ لشکر ہے جس کو اس نے خود تیار کیا ہے اور اس کی مدد فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ یہ دین پہنچا جہاں تک پہنچا، اور پھیلا جہاں تک پھیلا۔ اور ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک وعدہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کو بہرحال پورا فرمائیں گے اور اپنے لشکر کی مدد فرمائین گے
حضرت علی ؓ کے ارشاد: ‘‘ ونحن موعود من اللہ واللہ منجز وعدہ’’ (اور ہم سے اللہ تعالیٰ کا ایک وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرمائیں گے) میں سورہ النور کی اسی آیت استخلاف کے وعدہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپ، حضرت عمرؓ کی خلافت کو خلافت موعدہ سمجھتے تھے اور ان کو ‘‘امام موعد’’ جانتے تھے، جس دین کی وہ نشرواشاعت فرمارہے تھے اس کو ‘‘اللہ کا دین’’ تصور فرماتے تھے، اور ان کی قیادت میں جو لشکر مصروف جہاد تھے ان کو ‘‘اللہ کا لشکر’’ یقین کرتے تھے۔ گویا آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے جو چار وعدے فرمائے ہیں حضرت عمرؓ کی خلافت کو ان چاروں وعدوں کا مصداق سمجھتے تھے۔
نہج البلاغہ میں حضرت امیر کا ایک خطبہ نقل کیا ہے:
ا للہ بلاء فلان فلقد قوم الاود ، وداویٰ العمد ، اقام السنۃ ، وخلف الفتنۃ ! ذھب نقی الثواب، قلیل العیب۔ اصاب خیرھا، وسبق شرھا۔ ادیٰ الیٰ اللہ طاعتۃ ، اتقاہ بحقہ ۔ رحل ترکھم فی طرق متشعبۃ ، لا یھتدی بھا الضال، ولا یستیقن المھتدی۔ (نہج البلاغہ صفحہ ۳۵۰)
ترجمہ: ‘‘اللہ تعالیٰ ‘‘فلان’’ شخص کو جزائے خیر دے کہ (ا) کجی کو سیدھا کردیا (۲) اندروانی مرض کی اصلاح کردی (۳) سنت کو قائم کردیا(۴) بدعت کو پیچھے ڈال دیا (۵) پاکدامن اور کم عیب دنیا سے گیا (۶) خلافت کی خوبی اور بھلائی کو پالیا (۷) اور فساد خلافت سے پہلے چلا گیا (۸) اللہ کی بارگاہ میں اس کی طاعت ادا کردی (۹) اور حق کے موافق پرہیزگاری اختیار کی (۱۰) (اس کی موجودگی میں اس کی برکت سے تمام امت متفق و متحد تھی، لیکن اس کی موت سے امت کا شیرازہ بکھر گیا۔ چنانچہ وہ اپنے بعد) لوگوں کو شاخ درشاخ راستوں میں چھوڑ گیا، جن میں نہ گمرہ ہدایت پاتا ہے نہ ہدایت یافتہ یقین پاتا ہے۔ ’’
رافضی نے نہج البلاغہ کو مرتب کرتے ہوئے حضرت علیؓ کے خطبہ سے اصل نام حذف کر کے اس کی جگہ ‘‘فلاں’’ کا لفظ لکھ دیا۔ اس لئے شارحین نہج البلاغہ کو لفظ ‘‘فلاں’’ کی تعین میں دقت پیش آئی۔ بعض نے خلیفہ اول اور بعض نے خلیفہ ثانی ؓ کو اس کا مصداق ٹھہرایا۔ بہرحال حضرت علیؓ نے اپنے پیش رو خلیفہ کی اییسی دس صفات ذکر فرمائی ہیں، جو خلافت و امامت سے منتہائے مقصود ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر کسی خلیفہ ربانی کی مدح ممکن نہیں۔
۴۔نہج البلاغہ میں حضرت علی رضہ اللہ عنہ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:
۴۶۷۔ وقال علی السلام فی کلام لہ: وولیھم وال فاقام واستقام، حتیٰ ضرب الدین بجرانہ ۔ (نہج البلاغہ صفحہ ۵۵۷)
ترجمہ: ‘‘پھر حاکم ہوا ان کا ایک والی، پس اس نے قائم کیا دین کو، اور وہ ٹھیک سیدھا چلا، یہاں تک کہ رکھ دیا دین نے زمین پر اپنا سینہ۔ ’’
ملا فتح اللہ کا شافی شارح نہج البلاغہ نے پہلے فقرہ کا ترجمہ یہ کیا ہے:
‘‘والی ایشاں شد والی کہ آن عمر خطاب است ’’
یعنی: ‘‘ان کا حاکم ہوا ایک حاکم کہ اس سے مراد حضرت عمرؓ ہیں۔ ’’
اور آخری فقرہ کا ترجمہ یوں لکھا:
‘‘تا آنکہ بزد دین پیش سینہ خودرا برزمین ، وایں کنایت است از استقرار و تمکین اہل اسلام’’
ترجمہ: ‘‘ یہاں تک کہ دین نے اپنے سینہ کا اگلا حصہ زمین پررکھ دیا، اور یہ اس سے کنایہ ہے کہ اہل اسلام کو خوب استقرار اور تمکین حاصل ہوئی۔ ’’
جناب علی رضہ اللہ عنہ کے ان ارشادات سے واضع ہے کہ وہ اپنے پیش رو خلفاء کی خلافت کو خلافت راشدہ سمجھتے تھے، قرآن کریم کے وعدوں کا مصداق جانتے تھے اور ان اکابر کے مشیر اور وزیر باتدبیر تھے۔ کیونکہ ان کی خلافتوں سے دین کو تمکین حاصل ہوئی، اسلام کا پرچم بلند ہوا اور دین اسلام تمام ادیان پر غالب آیا۔
(خلفائے ثلاثہ کی خلافت کو برحق نہ سمجھنے والا حضرت علی کے نزدیک لعنتی ہے)
قال امیر المومنین و من لوقل انی رابع الخلفآء فعلیہ لعنۃ اﷲ
(مناقب علامہ ابن شہر آشوب سوم، 63)
ترجمہ ’’حضرت امیر المومنین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا جو مجھے ’’رابع الخلفائ‘‘ نہ کہے اس پر لعنت ہے۔
آپ خلفائے اربعہ میں سے چوتھے نمبر پر خلیفہ ہیں اور یہی عقیدہ ضروری بھی ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے اس کلام پر عمل کرنا اور اسے درست تسلیم کرنا اس وقت تک محال ہوگا جب تک خلیفہ ’’بلافصل‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو نہ مانا جائے۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ اور تیسرے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو تسلیم نہ کرلیا جائے۔ ان تینوں کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خلافت کو مانا جائے ورنہ اس کے بغیر ’’اﷲ کی لعنت‘‘ سے بقول حضرت علی رضی اﷲ عنہ بچنا محال ہوجائے گا۔
فرمان علی رضی اﷲ عنہ: اﷲ تعالیٰ نے نبی پاکﷺ کے بعد لوگوں کے لئے بہترین شخص کا انتخاب فرمایا۔
ان فی الخبر المدوی عن امیرالمومنین علیہ السلام لماقیل لہ الا توصی فقال مااوصیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاوصی ولٰکن ان اراد اﷲ بالناس خید استجمعھم علی خیرہم کما جمعہم بعد نبیہم علی خیرہم قتضمن لما یکاد یعلم بطلانہ مندورۃ لان فیہ التصدیح القوی بفضل ابی بکر علیہ وانہ خیر منہ والظاہر من احوال امیر المومنین علیہ السلام والمشہود من اقوالہ واحوالہ جملۃ وتفصیلاً یقتصی انہ کان یصدم نفسہ علی ابی بکروغیرہ
(تلخیص الشافی تالیف شیخ الطائفہ ابی جعفر طوسی جلد دوم ص 237، دلیل آخر علی امامتہ علیہ السلام مطبوعہ قم طبع جدید)
ترجمہ: امیر المومنین حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ سے کہاگیا کہ آپ وصیت کیوں نہیں کرتے تو آپ نے فرمایا کیا حضورﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ میں وصیت کروں لیکن اگر اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمایا تو ان کو ان میں سے ناشرین شخص پر جمع کردے گا جیسا کہ اس نے نبی پاکﷺ کے بعد انہیں بہترین شخص پر جمع کیا۔ یہ اس چیز کو متضمن ہے کہ قریب ہے کہ اس کا بطلان ہدایۃ معلوم ہوجائے کیونکہ اس میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی فضیلت حضرت علی رضی اﷲ عنہ پر تقریح قوی ہے اور یہ کہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے بہتر ہیں۔ لیکن امیرالمومنین کے احوال اور ان کے اقوال و احوال سے اجمالاً اور تفصیلاً جو ظاہرا اور مشہور ہے اس کا متقضی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کو ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ وغیرہ پر مقدم جانتے ہیں۔
حضرت حسن مجتبیٰ ؓ کا قول:
علامہ مجلسی نے بحارالانوار ‘‘تاریخ امام حسن’’ کے انیسویں باب میں اردبیلی کی ‘‘کشف الغمہ ’’ کے حوالے سے حضرت حسنؓ اور حضرت معاویہؓ کے صلح نامہ کا متن نقل کیا ہے، اس کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، ھذا ماصالح علی الحسن بن علی بن ابی طالب معاویۃ بن ابی سفیان: صالحہ علی ان یسلم الیہ ولایۃ امر المسلمین، علی ان یعمل فیھم بکتاب اللہ وسنۃ رسول اللہ ﷺ وسیرۃ الخلفاء الصالحین۔
(بحارالانوارصفحہ ۶۵، جلد ۴۴)
ترجمہ: ‘‘بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، یہ وہ تحریر ہے جس پر حسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب نے معاویہؓ بن ابی سفیان ؓ سے صلح کی، یہ طے ہوا کہ حسنؓ مسلمانوں کی ولایت امر (خلافت) معاویہؓ کے سپرد کردیں گے۔ اس شرط پر کہ وہ مسلمانوں میں کتاب اللہ، سن رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی سیرت کے مطابق عمل کریں گے۔ ’’
علامہ مجلسی نے یہاں ‘‘خلفائے راشدین’’ کے بجائے ‘‘خلفائے صالحین’’ کا لفظ نقل کیا ہے، لیکن بحارالانوار کے حاشیہ میں کہ اصل کتاب (یعنی کشف الغمہ) میں ‘‘خلفائے راشدین’’ کا لفظ ہے:
فی المضدر ج ۲ ص ۱۴۵، ‘‘الخلفاء الراشدین’’ (الصالحین)۔
حضرت امام حسنؓ کی اس تحریر سے چند امور مستفاد ہوئے:
اول: یہ کہ اہل سنت جو خلفائے اربعہ ؓ (حضرات ابوبکر، عمر، عثمان اور علیؓ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ‘‘خلفائے راشدین’’ تھے یہی عقیدہ حضرت امام حسنؓ کا تھا، الحمد اللہ کہ اہل سنت کو اس عقیدہ میں حضرت امام موصوف کی اقتدار واتباع نصیب ہے۔
دوم: یہ کہ اہل سنت کی کتابوں میں جو یہ حدیث نقل کی گئی ہے:
وعن العریاض بن ساریۃ رضی اللہ عنہ قال: (صلی بنا رسول اللہ ﷺ ذات یوم ثم اقبل علینا بوجھہ ، فوعظنا موعظۃ بلیغۃ ، ذرفت منہا العیون، ووجلت منہا القلوب، فقال رجل: یا رسول اللہ ، کان ھذا موعظۃ مودع، فماذا تعھد الینا؟ قال: (اوصیکم بتقوی اللہ والسمع والطاعۃ، وان کان عبدا حبشیا، فانہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافا کثیرا، فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، تمسکوا بہا، وعضوا علیہا بالنواجذ، وایاکم ومحدثات الامور، فان کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ)۔
(مشکوۃ ص ۲۹، ۳۰)
ترجمہ: ‘‘حضرت عرباض بن ساریہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر ہمیں ایک نہایت بلیغ اور موثر وعظ فرمایا جس سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دل کانپ گئے۔ ایک شخص نے عرض کیا، یارسول اللہ ﷺ ! ایسا لگتا ہے کہ گویا یہ رخصت کرنے والے کی نصیحتیں تھیں،پس ہمیں کوئی وصیت فرمائیے! ارشاد فرمایا کہ میں تم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی اور (اپنے حاکم کی) سمع و طاعت بجالانے کی وصیت کرتاہوں۔ خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے جوشخص میرے بعد زندہ رہا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، اس لئے میری سنت کو اور میرے بعد خلفائے راشدینؓ، جو ہدایت یافتہ ہیں، کی سنت کولازم پکڑو! اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑلو، اور دیکھو! جو نئی نئی باتیں ایجاد کی جائیں ان سے احتزاز کیجیو! کیونکہ ہر وہ چیز (جو دین کے نام پر) نئی ایجاد کی جائے وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ ’’
حضرت امام حسنؓ کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے، اور چونکہ اس میں آنحضرت ﷺ کے بعد کے خلفاء کو ‘‘خلفائے راشدین’’ فرمایا گیا ہے اس لئے حضرت امام حسنؓ اس حدیث کے مطابق عقیدہ رکھتے تھے۔
سوم: یہ کہ حضرت امام حسن ؓ نے حضرت معاویہؓ سے کتاب و سنت پر عمل کرنے کے علاوہ حضرات خلفائے راشدینؓ کی سنت و سیرت کی پیروی کا بھی عہد لیا، اسے ثابت ہوا کہ حضرت امام حسنؓ کے نزدیک کتاب وسنت کے ساتھ خلفائے راشدینؓ کی سنت بھی جحت شرعیہ ہے اور اس کی اقتدا لازم ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے خلفائے راشدینؓ کی سنت کے ساتھ تمسک کرنے اور اس کو مضبوط پکڑنے کی تاکید بلیغ فرمائی ہے۔
اسی طرح خارجیوں کے بارے میں جو حضور علیہ السلام نے پیش گوئیان کیں تھیں وہ جب امیر المومنین شہید مظلوم علی کے ہاتھو ں پوری ہوئیں تو بہت صحابہ نے کہا ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے اس قتال میں آپ کے ساتھ نہین تھے تو معلوم ہوان کہ یہ خلیفہ راشد چوتھے ہیں ۔۔۔ ان سب واقعات و پیش گوئیوں سے امت نے ان چار حضرات کو خلیفہ راشد کہا اور ان کی اطاعت کو لازم قرار دیا کیوں کہ خود حضور علیہ السلام نے اس کا حکم کیا ہے۔ جو میں نے پہلے پیش کیا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مطابق جو خلیفہ راشد ہے اس کی پیروی لازم ہے۔اور ان چار حضرات کے راشد ہونےپر اہل سنت کا اجماع ہے ۔
خلافت راشدہ کا نظام ( از محمد مبشر نذیر www.mubashirnazir.org )
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے کسی ایک نظام حکومت کو اپنانے کا حکم نہیں دیا کیونکہ مختلف حالات میں مختلف نظام حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم قرآن میں ایک بنیادی اصول بیان کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان جو بھی نظام حکومت اپنائیں، اس کی بنیاد "مشورے” پر ہونی چاہیے اور حکومت کے تمام امور لوگوں کو مل جل کر باہمی مشورے سے چلانے چاہییں۔
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ.
وہ لوگ جو اپنے رب کی بات کا جواب دیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ان کے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے، وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (الشوری 42:38)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اگرچہ کسی سے مشورہ کرنے کے محتاج نہ تھے، مگر آپ کو بھی یہی حکم دیا گیا تھا:
فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ.
ان سے درگزر کیجیے، ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے، معاملات میں ان سے مشورہ کیجیے۔ پھر جب آپ فیصلہ کر لیں تو اللہ پر توکل کیجیے، یقیناً اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (آل عمران 3:159)
ان آیات سے واضح ہے کہ مسلمانوں کا کوئی بھی اجتماعی نظام مشورے سے چلنا چاہیے۔ حکمران کسے بنایا جائے؟ حکومتی فیصلے کیسے کیے جائیں؟ حکمران کو معزول کیسے کیا جائے؟ ان سب کا فیصلہ مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہو گا۔ ایسا نہیں کہ حکمران مشورے تو سب کے سن لے اور پھر اپنی من مانی کرے بلکہ معاملات کا فیصلہ لوگوں کے مشورے ہی سے ہو گا۔ جو مشورہ لوگوں کی اکثریت دے ، حکمران کو اسے قبول کرنا ہو گا۔
خلفائے راشدین نے اپنے دور کے لحاظ سے جو نظام حکومت اختیار کیا، اسے ہم قبائلی وفاق کا نظام کہہ سکتے ہیں۔ اس نظام میں مشورے کی روح پوری طرح کار فرما تھی۔ عرب میں دور جاہلیت سے بہت سے قبائل آباد تھے۔ ان قبائل کو اپنی خود مختاری بہت عزیز تھی اور یہی وجہ تھی کہ یہ صدیوں سے کسی ایک حکومت پر متفق نہ ہو سکے تھے اور آپس میں جنگیں کرتے رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اپنی حکومت قائم فرمائی تو معاہدوں کے ذریعے ان قبائل کو اسلامی مملکت کا حصہ بنا لیا۔ ان معاہدوں میں یہ شرط ہوتی تھی کہ اپنے اندرونی معاملات میں قبیلہ خود مختار رہے گا اور ان پر ان کی مرضی کے خلا ف کسی کو حکمران مقرر نہ کیا جائے گا۔ بین القبائلی معاملات میں فیصلہ کن حیثیت مدینہ کی مرکزی حکومت کو حاصل ہو گی۔ خلفائے راشدین نے بھی یہی نظام حکومت جاری رکھا۔
ہر قبیلے سے متعلق معاملات اس قبیلے کے ساتھ مشورے ہی سے طے پاتے۔ مرکزی حکومت کے لیے طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ تمام قبائل نے متفقہ طور پر یہ تسلیم کر لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قبیلہ قریش کی حکومت کو تسلیم کریں گے۔ چنانچہ خلیفہ کے انتخاب کا معاملہ قبیلہ قریش کے سپرد کیا گیا کہ وہ اپنے میں سے کسی شخص کو خلیفہ منتخب کر لیں۔ اب کس شخص کو خلیفہ منتخب کیا جائے؟ اس کے لیے مدینہ کے سبھی باشندوں سے رائے لی جاتی۔ ان میں خاص کر ان صحابہ کی رائے کو اہمیت دی جاتی جنہوں نے نہایت تکالیف کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔ اس میں وہ صحابہ شامل تھے جو جنگ بدر سے پہلے ایمان لائے۔ ان کے بعد صلح حدیبیہ میں شامل بقیہ صحابہ کا درجہ تھا اور ان کے بعد باقی سب صحابہ کا۔ اعلی حکومتی عہدوں پر وہ دس صحابہ فائز تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن میں بالکل ابتدائی سالوں میں شریک ہوئے تھے اور انہوں نے دین کی خاطر بڑی قربانیاں دی تھیں۔ انہیں "عشرہ مبشرہ” کہا جاتا ہے۔ ان کے نام یہ ہیں:
ابوبکر صدیق (573-634CE/13H): آپ پہلے خلیفہ تھے اور آپ کو دور حکومت 11-13/632-634 تھا۔
عمر فاروق (586-645/23H): آپ دوسرے خلیفہ تھے اور آپ نے 13-23/634-644کے دوران حکومت کی۔ پہلے خلیفہ کے دور میں آپ ان کے دست راست رہے اور محکمہ قضاء کی ذمہ داری آپ ہی کے سپرد تھی۔
عثمان غنی (579-656/35H): آپ تیسرے خلیفہ تھے اور آپ کا دور حکومت 23-35/644-656 پر محیط ہے۔ آپ پہلے دو خلفاء کے دور میں مرکزی کابینہ کے رکن تھے اور متعدد ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔
علی المرتضی (598-661/40H): چوتھے خلیفہ۔ آپ کا دور حکومت 35-40/656-661 ہے۔ پہلے تین خلفاء کے دور میں آپ وفاقی کابینہ میں شامل رہے اور عدلیہ کے سربراہ بھی رہے۔
طلحہ بن عبیداللہ (595-656/36H): سب سے پہلے ایمان لانے والے دس افراد میں شامل ہیں۔ دین کی خاطر زبردست قربانیاں دیں، جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر برسنے والی تلواروں کو اپنے ہاتھ پر روکا۔ آپ پہلے تین خلفاء کے دور میں مرکزی کابینہ میں شامل تھے۔
زبیر بن عوام (594-656/36H) جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے "حواری ” کا خطاب دیا۔ آپ بھی پہلے تین خلفاء کے دور میں مرکزی کابینہ میں شامل تھے۔
ابو عبیدہ بن الجراح (580-652/31H) جو "امین الامت” کے لقب سے مشہور ہیں اور شام کو فتح کرنے والی فوج کے سپریم کمانڈر تھے۔ اس کے علاوہ آپ محکمہ مالیات کے سربراہ بھی رہے۔
سعد بن ابی وقاص(595-664/43H): آپ ایران کو فتح کرنے والی فوج کے سربراہ تھے۔ عراق کے گورنر بھی رہے اور مرکزی کابینہ کے رکن بھی تھے۔
عبدالرحمن بن عوف (580-652/32H): آپ بھی مرکزی کابینہ کے رکن رہے۔ آپ کو مالی امور پر غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔
سعید بن زید (593-673/51H): آپ حکومتی اور سیاسی معاملات میں زیادہ شریک نہیں رہے۔ رضی اللہ عنہم
عام حکومتی معاملات کو ان ہی دس صحابہ کی ایک کابینہ مل کر چلایا کرتی تھی جس کا سربراہ خلیفہ وقت ہوتا تھا۔ بڑے اور اہم مسائل کے حل کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب فیصلہ کرنا مقصود ہوتا تو "صلوۃ الجامعہ” کا اعلان کر دیا جاتا جس سے دار الحکومت کے تمام افراد مسجد نبوی میں جمع ہو جاتے جن میں خواتین بھی شامل ہوا کرتی تھیں۔ مسئلے کو ان کے سامنے رکھا جاتا اور ہر شخص کو اپنی رائے بیان کرنے کی مکمل آزادی ہوتی۔ اس کے بعد اجتماعی طور پر لوگ جس رائے پر متفق ہوتے ، اسے اختیار کر لیا جاتا۔ بہت بڑے مسائل کی صورت میں قبائل اور صوبوں کے نمائندوں کو بھی طلب کیا جاتا اور ان کے ساتھ مل کر فیصلے کیے جاتے۔ ایران پر بڑے حملے کا فیصلہ اسی طرح ہوا تھا۔ ان میں آفیشل نمائندوں کے علاوہ کسی بھی عام شخص کو مشورے میں شریک ہونے کا حق حاصل ہوتا تھا اور وہ جب چاہے ، دربار خلافت میں آ کر اپنا مشورہ پیش کر سکتے تھے۔ دربار خلافت کسی عالی شان محل میں نہیں بلکہ مسجد کے فرش پر لگتا تھا جس میں کوئی کسی کو داخل ہونے سے نہ روک سکتا تھا۔
اگر خلیفہ وقت کی رائے ، عام لوگوں کی رائے سے مختلف ہوتی تو وہ اس وقت تک اپنی رائے کو نافذ نہ کر سکتے تھے جب تک کہ وہ انہیں قائل نہ کر لیتے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب عراق کی زمینوں کے انتظام کا مسئلہ درپیش ہوا تو اکثر صحابہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں فاتحین میں تقسیم کر دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ انہیں حکومتی ملکیت میں رکھا جائے اور کسانوں کے ساتھ پارٹنر شپ پر معاملہ کر لیا جائے۔ اس مسئلے پر کئی دن بحث ہوئی اور بالآخر جب صحابہ حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوئے تو اسے نافذ کیا گیا۔ ہاں اگر کسی معاملے میں قرآن و سنت کا کوئی واضح حکم موجود ہوتا، تو پھر اسے بلا تامل نافذ کر دیا جاتا۔
حکومتی معاملات سے لوگوں کو آگاہ رکھا جاتا اور اس کے لیے جمعہ کی نماز کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا۔ جمعہ کی نماز کے لیے نہ صرف اہل مدینہ بلکہ گرد و نواح کے دیہات سے بھی لوگ آیا کرتے تھے۔ خلیفہ وقت جمعہ کا خطبہ دیتے اور اس میں اہم حکومتی امور بھی زیر بحث لاتے اور حکومت کی پالیسی کو بیان کرتے۔ اگر کسی کو اختلاف ہوتا تو اسے اجازت تھی کہ وہ بر سر منبر ہی خلیفہ کو ٹوک کر اپنی رائے بیان کرے۔ مالی معاملات میں شفافیت (Transparency) کا یہ عالم تھا کہ مال کی تقسیم کھلے عام مسجد میں ہوتی تھی اور ہر شخص کو اعتراض کرنے اور اپنی رائے بیان کرنے کا حق حاصل تھا۔ سال میں ایک مرتبہ بیت المال کے اکاؤنٹس کلوز کیے جاتے اور اس میں موجود تمام مال لوگوں میں ان کی خدمات کے مطابق تقسیم کیا جاتا۔ بیت المال کو صاف کر کے اس میں جھاڑو دے دی جاتی۔
جب خلافت راشدہ کے صوبے قائم ہونا شروع ہوئے تو وہاں بھی یہی ماڈل اختیار کیا گیا۔ ہر شہر کے گورنر کا تعین اس شہر کے لوگوں کی رائے کے مطابق ہوتا۔ مشہور ہے کہ اہل کوفہ اور اہل بصرہ نے حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے ادوار میں کئی مرتبہ اپنے گورنر کو ہٹا کر کسی دوسرے کو گورنر بنانے کا مطالبہ کیا تو اسے مان لیا گیا۔ گورنروں کو حکم تھا کہ وہ اپنے تمام فیصلے اہل شہر کے مشورے سے ہی انجام دیں۔ اگر کسی بھی شخص کو گورنر کے خلاف کوئی شکایت ہوتی تو اسے براہ راست خلیفہ تک رسائی حاصل تھی۔ حج کے موقع پر خلفاء راشدین ایسی مجالس لگایا کرتے تھے جن میں کوئی بھی شخص گورنروں کے خلاف اپنی درخواست پیش کر سکتا تھا اور اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہ ہوتا تھا۔
اس طرح سے خلفائے راشدین نے ایک ایسا شورائی (Participative) نظام حکومت قائم کیا جس کی مثال دور جدید کی امریکی اور یورپی جمہوریتوں میں بھی ملنا مشکل ہے۔ ان جدید جمہوری ریاستوں میں بھی بہت سے امور عوام سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں اور عام آدمی حکومتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن خلافت راشدہ میں ایک عام آدمی کو بھی حق حاصل تھا کہ وہ خلیفہ کا احتساب کر سکے اور یہ احتساب بھی کسی منفی جذبے سے نہیں بلکہ خلیفہ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی کے جذبے کے تحت ہوا کرتا تھا۔
No comments:
Post a Comment