Tuesday, 1 September 2020

کیا معاویہ رضی اللہ عنہ شراب پیتے تھے ؟

سوال : کیا مسند احمد جلد ۵ ص 347 کی حدیث میں ایسا آیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ شراب پیتے تھے جیسا کہ شیعہ لوگ کہتے ہیں ؟

جواب:

رافضیوں ، سبائیوں اور اللہ کے دشمنوں نے جلیل القدر صحابی معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے یزید دونوں سے متعلق یہ جھوٹی باتیں پھیلائی ہیں وہ شراب پیتے تھے نعوذباللہ من ذالک ، اس سلسلے میں روافض اور سبائی جتنی بھی روایت پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب جھوٹی اور من گھڑت ہیں اب جب سبائیوں نے یہ دیکھا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

کے شراب پینے سے متعلق ساری روایات موضوع اور من گھرت ہیں تو انہوں نے سوچا کہ صحیح روایات سے بھی زبردستی یہی مفہوم کشید کر لیا جائے چناچہ اس مقصد کے تحت انہوں نے مسند احمد کہ محولہ حدیث پیش کا انتخاب کیا اور اس کی سند ظاہری حسن دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ روایت صحیح ہے حالانکہ اس سیاق کے ساتھ نہ تو یہ روایت صحیح ہے اور نہ ہی اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ شراب پیتے تھے

تفصیل ملاحضہ ہو:

امام احمد (المتوفی 241) نے کہا:

22432 حدثنا زيد بن الحباب حدثني حسين حدثنا عبد الله بن بريدة قال دخلت أنا وأبي على معاوية فأجلسنا على الفرش ثم أتينا بالطعام فأكلنا ثم أتينا بالشراب فشرب معاوية ثم ناول أبي ثم قال ما شربته منذ حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال معاوية كنت أجمل شباب قريش وأجوده ثغرا وما شيء كنت أجد له لذة كما كنت أجده وأنا شاب غير اللبن أو إنسان حسن الحديث يحدثني

صحابی رسول عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ک میں اور میرے والد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں بستر پر بٹھایا ، پھر ہمارے سامنےکھانا حاضڑ کیا جسے ہم نے کھایا ، پھر مشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اور پھر میرے والد کو پیش کیا ، اس کے بعد کہا کہ میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب تک سے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں قریش کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور سب سے عمدہ دانتوں والا تھا ، جوانی میں مجھے دودہ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں لذت محسوس نہیں ہوتی تھی ( مسند احمد ظ الرسالۃ ۲۶/ ۳۸و اخرجہ ایضا ابو زرعہ الدمشقی فی تاریخہ 201/ا و عنہ ابن عساکر 127/27 من طریق احمد بہ)

ہمارے ناقص مطالعہ کے مطابق مذکورہ روایت ان الفاظ کے ساتھ منکر و ضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی زید بن حباب صدوق و حسن الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب اوہام و اخطاء تھے جیسا کہ متعدد محدیثین نے صراحت کی ہے مثلا امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں

یہ بھت غلطی کرنے والے تھے (العلل و معرفۃ الرجال الاحمد روایہ ابنہ عبداللہ 92/2 و انظر سوالات ابی داود لااحمد ص ٫319)  معلوم ہوا کہ زید بن حباب کے صدوق و حسن الحدیث ہونے کے باوجود بھی ان سے اوہام و اخطاء کا صدور ہوتا تھا لہذا عام حالات میں ان کی مرویات حسن ہوں گی لیکن اگر خاص روایت کے بارے میں محدیثین کی صراحت یا قرائن و شواہد مل جائیں کہ یہاں موصوف سے چوک ہوئے ہے تو وہ خاص روایت ضعیف ہوگی۔ اور مزکورہ روایت کا بھی یہی حال ہے کیوں کہ زید بن حباب نے ابن ابی شیہ سے اسی روایت کو اس طرح بیان کیا ہیے

امام ابن أبی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفی 235) نے کہا:

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَأَجْلَسَ أَبِي عَلَى السَّرِيرِ وَأَتَى بِالطَّعَامِ فَأَطْعَمَنَا، وَأَتَى بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: «مَا شَيْءٌ كُنْتُ أَسْتَلِذُّهُ وَأَنَا شَابٌّ فَآخُذُهُ الْيَوْمَ إِلَّا اللَّبَنَ، فَإِنِّي آخُذُهُ كَمَا كُنْتُ آخُذُهُ قَبْلَ الْيَوْمِ» وَالْحَدِيثُ الْحَسَنُ

صحابی رسول عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ک میں اور میرے والد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں چار پائی پر بٹھایا ، پھر ہمارے سامنےکھانا لائے جسے ہم نے کھایا ، پھر مشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، جوانی میں مجھے دودہ یا اچھی باتوں کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں لذت محسوس نہیں ہوتی تھی اور آج بھی میرہ یہی حال ہے  (مصنف ابن ابی شیبہ 188/6)

غور کریں یہ روایت بھی زید بن حباب ہی کی بیان کردہ ہے لیکن اس میں وہ منکر جملہ قطعا نہیں ہے جو امام احمد کی روایت میں ہے معلوم ہوا کہ زید بن حباب نے کبھی اس روایت کو صحیح طور سے بیان کیا ہے جیسا کہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے اور کبھی ان سے چوک ہوگئی ہے جیسا کہ مسند احمد کی روایت میں ہے

اور چونکہ مسند امام احمد کی روایت میں ایک بے جوڑ اور بے موقع و محل جملہ ہے اس لئے یہی روایت منکر قرار پائے گی چناچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی جب اس روایت کو مجمع الزوائد میں درج کیا تو منکر جملہ کو چھوڑ دیا امام ہیثمی رحمہ اللہ (المتوفی 807) نے لکھا :

عن عبد الله بن بريدة قال دخلت مع أبي على معاوية فأجلسنا على الفراش ثم أتينا بالطعام فأكلنا ثم أتينا بالشراب فشرب معاوية ثم ناول أبى ثم قال معاوية كنت أجمل شباب قريش وأجوده ثغرا وما من شئ أجد له لذة كما كنت أجده وأنا شاب غير اللبن وإنسان حسن الحديث يحدثني.
رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح وفى كلام معاوية شئ تركته

صحابی رسول عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ک میں اور میرے والد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں بستر پر بٹھایا ، پھر ہمارے سامنےکھانا حاضڑ کیا جسے ہم نے کھایا ، پھر مشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اور پھر میرے والد کو پیش کیا ، ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں قریش کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور سب سے عمدہ دانتوں والا تھا ، جوانی میں مجھے دودہ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں لذت محسوس نہیں ہوتی تھی۔

امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح ہیں اور اس روایت سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے کلام کے ایک ٹکڑے کو میں نے نقل نہیں کیا ہے (مجمع الزوائد للہیثمی 55/5)

فائدہ :

اس روایت کی تخریج کرنے والے امام احمد نے بھی اسے منکر قرار دیا چناچہ:

امام احمد رحمہ اللہ (المتوفی 241) نے کہا : حسین بن واقد ۔ لہ أشیاء مناکیر یعنی حسین بن واقد کے پاس منکر روایات ہیں(سوالات المیمونی 444)

ایک موقع پر کہا :

ما انکر حدیث حسین بن واقد وابی المنیب عن بریدۃ  یعنی حسین بن واقد اور ابوالمنیب عن بریدہ کی احادیث کس قدر منکر ہیں (العلل و معرفۃ الرجال 301/1)

نیز فرمایا:

عبداللہ بن بریدہ الذی روی عن حسین بن واقد ما أنکرھا  عبداللہ بن بریدہ سے حسین بن واقد نے جو روایت کیا ہے اس میں بڑی نکارت ہے ( العلل و معرفۃالرجال 22/2)

عرض ہے کہ حسین بن واقد ثقہ راوی ہیں اور انکی مذکورہ روایت ابن ابی شیبہ کے یہاں جن الفاظ میں ہے اس میں کوئی نکارت نہیں ہے لھذا وہ روایت صحیح ہے جب کہ مسند احمد کی زیر بحث روایت ضعیف ہے کیوں کہ امام احمد نے روایت کیا ہے اور آپ نے حسین بن واقد کی مرویات کو منکر قرار دیا ہے ہمارے نزدیک راجع بات یہی معلوم ہوتی ہے زیر بحث روایت میں نکارت کا زمہ دار حسین بن واقد نہیں بلکہ زید بن الحباب ہے کما مضی-

مشروب یعنی پینے والی چیز کیا تھی؟

مذکورہ روایت میں شراب سے مراد کوئی حلال مشروب یعنی پینے والی چیز تھی اس سے اردو والا شراب یعنی خمر مراد لینا کسی بھی صورت میں درست نہیں نہ سیاق و سباق کے لحاظ سے اس کی گنجائش ہے اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس کی امید ہے ۔ بلکہ اردو والا شراب یعنی خمر مراد لینے سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بریدہ رضی اللہ عنہ پر بھی حرف آتا ہے کہ انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھون ایسے مشروب کو کیوں لیا جو کہ حرام تھا بلکہ ایسے دسترخواں پر بیٹھنا بھی کیونکر گوارہ کیا جس پر شراب(خمر) کا دور چلتا ہو کیونکہ ایسے دسترخواں پر بیٹھنا کسی عام مسلمان کے شایاں شان نہیں چہ جائے کہ ایک صحابی اسے گوارہ کرے۔

مزید یہ کہ ایسے دسترخواں پر بیٹھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے اس سلسلے میں مرفوع حدیث (ترمزی 2701) گرچہ ضعیف ہے لیکن خلیفہ دوم عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے موفا یہ ممانعت بسند صحیح منقول ہے چناچہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ (المتوفی 211) نے کہا

أخبرنا معمر عن زید بن رفیع عن حرام بن معاویہ قال کتب ­الینا عمر بن الخطاب لا یجاورنکم خنزیر ولایرفع فیکم صلیب الا تأکلو علی مائدہ یشرب علیھا الخمر وأدبوا الخلیل و امشو ا بین الغرضین۔

حرام بن معاویہ کہتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہمیں لکھا کہ سور تمہارے آس پاس نہ پھٹکے ، تمہارے درمیان صلیب نہ کھڑی کی جائے اور تم ایسے دسترخواں پر نہ کھاؤ  جس پر شراب پی جاتی ہو اور گھوڑوں کو سکہاؤ اور دونشانوں(جھاں سے تیر چلائے جائیں اور جھاں پر چلائی جائے اس) کے بیچ دوڑو(مصنف عبدالرزاق 6/61 و اسنادہ صحیح)

معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت میں مشروب سے خمر لینا کسی بھی صورت میں درست نہین ۔

مسند احمد کے مترجم نسخہ میں رقم 23329 کے تحت مذکورہ حدیث ہے اور اس میں شراب کا ترجمہ نبیذ سے کیا گیا ہے شراب کا ترجمہ نبیذ سے کرنا بھی غلط ہے کیوںکہ اول شراب کا معنی نبیذ نہیں ہوتا دوم روایت کے سیاق و سباق میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے یہ پینے والی چیز نبیذ تھی – بلکہ روایت کے اخیر میں دودہ کا زکر ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دودہ اپنا پسندیدہ مشروب بتلایا ہے اس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دودہ ہی پیا تھا یعنی شراب سے مراد دودہ ہی ہے۔

چناچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اس رویت کو نقل کرکے اس پر یہ باب قائم کیا ہے

باب ماجاء فی اللبن

دودہ کے سلسلے میں جو کچھ وارد ہے اس کابیان ( مجمع الزوائد للہیثمی 5/55)

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ وضاحت کیوں کی ؟

مذکورہ روایت کے بیچ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ جو وضاحت کی ہے کہ : میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا۔

اس وضاحت میں جس چیز کے پینے کی بات ہو رہی ہے وہ خمر یعنی شراب ہی ہوسکتی ہے کیوںکہ اسے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ۔ اور ما شربتہ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع محذوف ہے اور وہ خمر ہے اہل عرب کبھی کبھی ضمیر مرجع کو حذف کردیتے ہیں  بلاغت کی اصطلاح میں اسے الاضمارفی مقام الاظہار کہتے ہیں یعنی جس ضمیر کا مرجع معلوم ہو اس مرجع کو بعض مقاصد کے تحت حذف کردینا اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہان ضمیر کے مرجع کو حذف کیا ہے۔اور مقصد خمر کی قباحت و شناعت کا بیان ہے یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خمر سے اتنی نفرت تھی کہ آپ نے اس کا نام تک نہیں لیا  ۔

اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضلیت اور شراب سے ان کی نفرت ظاہر ہوتی ہے۔ اور شراب سے نفرت کا اظہار کر کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے دودہ کو اپنا پسندیدہ مشروب قرار دیا اس سے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضلیت ظاہر ہوتی ہے۔

بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہوضاحت بھی کردی کہ قبل از اسلام بھی دودہ ہی ان کے نزدیک پسندیدہ مشروب تھا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہےکہ زمانہ جاھلیت میں بھی امیر معاویہ رضیا للہ عنہ شراب کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ اس کے بجاء وہ دودہ ہی نوش فرماتے تھے۔

یاد رہے معراج میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شراب اور دودہ پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودہ کو منتخب کیا بخاری کے الفاظ ہیں

ثم أتیت باناءین فی احدھما لبن و فی الاخر خمر فقال اشرب أیھما شئت فأخذت اللبن فشربتہ فقیل أخذت الفطراۃ أما انک لو أخذت الخمر خوت أمتک

پھر دو برتن لمیرے سامنے لائے گئے ایل میں دودہ تھا اور دوسرے میں شراب تھی أ جبرائیل نے کہاکہ دونوں چیزوں میں سے آپ کا جو جی چاہے پیجئے میں نے دودہ کا پیالہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے پی گیا مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا (دودہ آدمی کی پیدائشی غذا ہے) اگر اس کے بجائے آپ نے شراب پی ہوتی تو آپ کی امت گمراھ ہوجاتی(بخاری رقم 3394)

معلوم ہوا کہ دودہ کو پسند کرنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ فطرت پر تھے یہ چیز بھی ان کے فضائل میں ہے الحمدللہ

اب سوال یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ وضاحت کیوں کی ؟ تو عرض ہے کہ مذکورہ روایت میں اس کا اشارہ موجود نہیں ہے اس لئے ہم نے شروع میں کہا کہ یہ وضاحت محمود ہونے کے باوجود بے موقع محل ہے۔

مسند احمد کے معلقین لکھتے ہیں

و قولہ ثم قال ما شربتہ منذ حرمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أی معاویہ بن أبی سفیان و لعلہ قال ذلک لما رأی من الکراھت والانکار فی وجہ بریدہ لظنہ انہ شراب محرم واللہ عالم

معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا غالبا یہ بات معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہی جب انہوں نے بریدہ رضی اللہ عنہ کے اس گمان کی وجہ سے کہ امیر معاویہ نے انہیں حرام مشروب دے دیا ہے ( مسند احمد ظ الرسالۃ 26/38)

عرض ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے مذکورہ وضاحت کی یہ توجیہ کرنا غلط ہے کیوںکہ اول تو صحابہ کرام سے یہ توقع نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں اس طرح کی بدگمانی میں مبتلا ہوجائیں نہ تو بریدہ رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی معاویہ رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پر شراب کا شبھہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس سوء ظن میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ بریدہ رضی اللہ عنہ کی کسی ناپسندیدگی کی وجہ ، معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کی بدگمانی ہے ۔ لھذا مسند احمد کے معلقین نے جو توجیہ پیش کی ہے وہ ہماری نظر میں بلکل درست نہیں۔

بلکہ ہمارہ یہ کہنا ہے کہ ممکن ہے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف کچھ منافقین نے یہ افواہ اڑا رکھی ہو کہوہ شراب پیتے ہیں اس لئے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے مہمانوں کے سامنے وضاحت کرتے رہے ہوں اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور و حالات کیا تھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں دشمنان اسلام اور منافقین نے جو کچھ کیا وہ تاریخ میں محفوظ ہے اس لئے بعید نہیں سلف کے کردار کو مجروح کرنے کے لئے ان کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا گیا ہو جس طرح ان کے بیٹے یزید کے بارے میں بھی ظالموں اور فاسقوں بلکہ کفار و منافقین نے شراب خوری وغیرہ کی تھمتیں لگائی ہیں اور ان کے ہم نوا آج بھی ایسا کر رہے ہین ۔ ہماری یہ پیش کردہ ہوجیہ بھی محض ایک قیاس و ظن ہے کوئی قطعی بات نہیں ہے۔

یاد رہے یہ ساری باتیں اس صورت میں کہی جائیں گی جب مذکورہ روایت کے ثبوت پر قرائن و شواہد مل جائیں ورنہ ہماری نظر میں یہ روایت منکر و ضعیف ہے جیسا کہ شروع مین وضاحت کی گئی واللہ اعلم۔

No comments:

Post a Comment