Tuesday, 1 September 2020

موضوع متعہ پر خیر طلب کو جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

موضوع متعہ پر خیر طلب کو جواب

یہ آرٹیکل ہمارے اسلامک فورم کے مناظر اور ہمارے بھائی کلام (عبداللہ خان )  کا ہے ۔۔ جس میں انہوں خیر طلب رافضی کو اس کی تحریر پر دندان شکن جواب دیا ہے جو کہ پڑھنے والوں کے لئے بہت ہی مفید ہے اس لئے ہم اسے یہاں رد شیعہ میں پوسٹ کر رہے ہیں۔ 

"

کچھ عرصہ قبل ایک رافضی شیعہ ’’ خیر طلب‘‘ نے متعہ کے حوالے سے اپنی ایک تحریر شائع کی۔ احقر نے اس کا جواب لکھا جس میں احقر نے متعہ کے حوالے سے خیر طلب کے دلائل کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ خیر طلب کو بھی مجبوراََ جواب لکھنا پڑا، لیکن انہوں نے احقر کے جواب کو من وعن نقل کر کے اس پر جرح کر نے سے صاف گریز کیا، نیز جن عبارات کو نقل کرنے کی زحمت فرمائی، ان میں بھی تحریف سے گریز نہ کیا ۔ خیر طلب چونکہ بڑھکیں مارنے کے انتہائی شوقین ہیں، اوراپنی تحاریر کو ’’دندان شکن ‘‘قرار دیتے ہیں،اس لئے ہم نے سوچا کہ ان کے جواب پر ایک اور جرح کر کے قارئین پر ان کے دلائل اور ان کے’’ دندان شکن‘‘ جوابات کی حقیقت واضح کر دی جائے۔

قولہ (وہ کہتا ہے ینعی خیر طلب): سابقہ تحریر میں اس مسئلہ پر ہم نے بہت سارے علماء اہلسنت کے اقوال نقل کئے جو اسے نکاح المتعہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہم اس بات کو بخوبی جانتے ہیں اور اس کا ذکر بھی کر چکے ہیں کہ علماء اہلسنت اس کو منسوخ مانتے ہیں۔ اس بحث کا تعلق اس بات سے ہرگز نہیں تھا کہ اس کے نسخ یا اس کے عدم نسخ پر فیصلہ کیا جائے بلکہ بدیہی طور پر یہ بات عرض کرنا تھی کہ متعہ ہرگز زنا میں نہیں آتا۔ اگرچہ اس کو جائز قرار نہ دینے والے اگرچہ نہ دیں۔ اس سلسلے میں کلام صاحب اس کی منسوخیت کا تقارن و قیاس دیگر اشیاء سے کرنے لگے۔ کلام صاحب ہمیں سود وغیرہ کی مثالوں سے سمجھنا چارہے ہیں کہ فلاں چیز حلال تھی بعد میں حرام ہوگئی ، بیشک کلام صاحب ہمیں کوئی مسئلہ نہیں منسوخ کے ماننے پر۔ خود علماء اسلام نے کافی کتب ناسخ منسوخ کے حوالے سے لکھی ہے۔ لیکن بحث سردست اس کے زنا ہونے یا نہ ہونے پر تھی جس کا اس کی منسوخیت سے کوئی تعلق نہیں۔ کلام صاحب نے ہمیں سود و دیگر اشیاء کی مثال دی تو کلام صاحب سود ہو، شراب ہو جن کی حرمت نازل ہوئی، ان قبیح چیزوں کے بارے میں ایک تحدی دیتا ہوں کہ کیا رسول ص نے : 
۱، ان افعال کو کرنے کا حکم دیا؟
۲، ان افعال کی طرف توجہ کو ملتفت کی؟
۳، ان افعال کو کسی برائی سے بچنے کا سامان بھم قرار دیا؟
ہرگز نہیں اور ہرگز نہیں۔ بلکہ ان قبیح چیزوں کی حرمت جس میں وہ تمام مزعوم طریقہ رھط ، بغایا، حزن اور استبضاع آجاتے ہیں۔ کسی روایت صحیحہ و مشہورہ سے آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان تمام فضیح و قبیح چیزوں پر اوپر کے تین احکامات منطبق ہوتے ہوں؟

اقول (ہم کہتے ہیں): خیر طلب کے دلائل کی قلعی کھلنے کے بعد انہوں نے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ متعہ کا حکم دیا گیا، لیکن ان دیگر افعال کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ یاد رکھئے، میں نے رہط ، حزن اور استبضاع کا تذکرہ اس دلیل کے جواب میں کیا تھا جس میں خیر طلب نے کہا تھا کہ چونکہ متعہ کو نکاح کہا گیا ہے، اس لئے متعہ زنا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا میں نے کہا کہ رہط، حزن اور استبضاع کو بھی نکاح کہا گیا ہے، خیر طلب کے پاس چونکہ اس کا جواب نہیں تھا، اس لئے اس نے یہ بہانا بنایا ہے کہ سود ، شراب ، نکاح مع الکافرہ وغیرہ کا حکم نہیں دیا گیا تھا لیکن متعہ کا حکم دیا گیا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک غیر مسلم سے کیا۔ لیکن آج کافر کے ساتھ نکاح کو حرام سمجھا جاتا ہے، اور قبیح بھی سمجھا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سودی کاروبار کرتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان کو روکا کیوں نہیں؟ ظاہر ہے کہ اس وقت سود مباح تھا، اور چونکہ زمانہ جاہلیت میں بھی ایسا ہوتا رہا، اس لئے حکم دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ہاں جب سود کی حرمت کا حکم نازل ہوا، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں خود روکا۔ لیکن متعہ کا حکم رسول اللہ ﷺ نے جو دیا، تو جان لینا چاہئے کہ دراصل یہ رخصت تھی ۔ یہ بات تو بالکل ذہن سے نکال دینی چاہئے کہ اس کا حکم نکاح کی طرح تھا۔ نکاح دائمی رخصت نہیں بلکہ اس کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا۔جبکہ متعہ کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ روایات کو ملا کر اس کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہی کافی ہے جس سے خیر طلب نے متعہ کی اباحت ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس میں ہی متعہ کے مطلقاََ مباح ہونے کی نفی ہوتی ہے، اس لئے کہ اگر متعہ مطلقاََ مباح ہوتا، تو رسول اللہ ﷺ جہاد کے مواقع پر ہی اس کی اجازت کیوں دیتے۔ اور اگر متعہ مطلقاََ مباح ہوتا، تو آخر صحابہ یہ عرض ہی کیوں کرتے کہ (الا نستخصی) یعنی کیا ہم خود کو خصی نہ کر لیں؟ حضرت عبداللہ بن مسعود کے یہ الفاظ اسی روایت میں ہیں جس سے خیر طلب نے متعہ کی حلت کو ثابت کرنا چاہا تھا۔ پھر اسی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ( ثم رخص لنا ان ننکح المرأۃ بالثوب الی اجل )یعنی پھر ہمیں اس کی اجازت دے دی کہ ہم کسی عورت سے ایک کپڑے پر (ایک مدت کے لئے) نکاح کر لیں۔ یہاں پر رخص لنا کا مطلب ہے ہمیں رخصت دی گئی۔ امید ہے اب یہ بات واضح ہو چکی ہو گی۔اگلی روایت میں لفظ امر کا مطلب بھی رخصت کے معنوں میں ہی لیا جائے گا، اور اسی میں ہی روایت کا مفہوم ٹھیک سمجھا جاسکتاہے۔

قولہ : متعہ کا حکم رسول ص نے دیا اور اس فعل میں اہلسنت روایات کے مطابق معیت اختیار کی۔ 
چنانچہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے:
حدثنی حامد بن عمر البکراوی ، حدثنا عبد الواحد ، عن عاصم ، عن أبی نضرۃ، قال : کنت عند جابر بن عبداللہ فأتاہ ات فقال : إن ابن عباس و ابن الزبیر اختلفا في المتعتین ، فقال جابر : فعلناھما مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ثم نھانا عنھما عمر
ابونضرہ فرماتے ہین کہ ہم جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس موجود تھے پس ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ ابن عباس اور ابن زبیر دو متعہ یعنی متعہ النساء اورمتعہ الحج کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں۔ پس جابر نے کہا کہ ہم نے ان دونوں متعہ کو رسول ص کی متعیت یعنی ساتھ انجام دیا۔ اس کے بعد عمر نے ہمیں ان دونوں سے ہمیں منع کر دیا۔
حوالہ : صحیح مسلم ، رقم ۱۲۴۹ و ۱۴۰۵، الناشر : دار إحیاء التراث العربي ۔ بیروت
ادھر لفظ مع بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب سورہ توبہ کی آیت غار سے استدلال کے موقع پر ’’ان اللہ معنا‘‘ میں مع یعنی ساتھ ہونے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ شاید کوئی یہ کہے کہ ادھر ساتھ سے مراد بذات خود رسول ص کا انجام دینا مراد نہیں بلکہ اس سے رسول ص کی فقط رضامندی مراد ہے اس فعل پر۔ ہم یہ کہیں گے کے چلیں آپ کا اپنا قیاس اپنی جگہ۔ لیکن کم سے کم ادھر جس متعہ کو زنا قرار دیا جاتاہے جو اہلسنت کے بقول رسول ص زمانہ جاہلیت کی وجہ سے بند کروانا چاہتے تھے، جس کی حرمت کی ہمیشہ سے کوشش ہو رہی تھی، اس پر رضامندی رسول ص ان تمام باطل قیاسوں کو جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے۔

اقول : لفظ مع سے قطعاََ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ فعل انجام دیا، اور یہ کوئی قیاس نہیں، بلکہ ایک واضح حقیقت ہے۔ مع کالفظ سیاق کے اعتبار سے مختلف معنی رکھتا ہے۔اسی طرح ان اللہ معنا میں مع کا لفظ الگ معنی رکھتا ہے، اور فعلناھما مع رسول اللہ میں مع کا لفظ الگ معنی رکھتا ہے۔ان اللہ معنا کا مطلب ہے، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہاں پر ساتھ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالٰی کی حمایت اور نصرت مراد ہے۔خیر طلب نے جو دلیل پیش کی ہے، انتہائی لغو ہے، اس میں دراصل آیت پر ہی اعتراض ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھی کو کہہ رہے ہیں، کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ، اس لئے خوف نہ کر۔ اگر یہاں اللہ کی حمایت و نصرت مراد نہیں، تو پھر کیا مراد ہے؟اس کی وضاحت کر دیجئے۔ اور اگر اللہ کی حمایت و نصرت ہی اس آیت میں مراد ہے، تو پھر اس میں ’’مع‘‘ کو فعلناھما مع رسول اللہ کے ’’مع‘‘ ساتھ کس مضحکہ خیز توجیہ کی بنا پر ہم معنی سمجھا جا سکتاہے؟ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کے لئے کسی کو عربی کا عالم ہونا چاہئے۔ چنانچہ ایک شخص اپنے ساتھی سے کہتا ہے کہ تم فکر مت کرو، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تمہارے ساتھ ساتھ گومتا رہوں گا، اور کسی کا ہاتھ تم پر اٹھے گا، تو میں روک لوں گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنے ساتھی کو اپنی حمایت اور نصرت کی یقین دہانی کر رہا ہے۔ اب اگر کوئی یوں کہے کہ میرے ساتھ میرا گدھا بھی تھا۔ تو کیا دونوں جگہوں پر لفظ ’ساتھ‘ کا مطلب ایک سمجھا جا سکتاہے؟ظاہر سی بات ہے کہ کوئی گدھا ہی ہوگا جو دونوں جگہوں پر ساتھ کا معنی ایک ہی سمجھے۔ اب کیا کوئی دعوی کرسکتا ہے کہ (فعلناھما مع رسول اللہ ) میں وہی معیت مراد ہے جو (ان اللہ معنا) میں ہے۔ یہاں پر تو مراد بس اتنی سی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس کو کرتے تھے۔ اور اس میں رسول اللہ ﷺ کا بذات خود اس فعل کا انجام دینا قطعاََ ثابت نہیں ہوتا،یہاں پر فقط زمانے کی بات ہو رہی ہے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب ہم ہوا کرتے تھے۔ اور اگر مع رسول اللہ ﷺ کا مطلب فقط یہی سمجھا جائے تو بہت ساری روایات کا مفہوم سمجھنے میں انتہائی زبردست غلطی کا امکان داخل ہو جائے گا۔ چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ( اسلم مع رسول اللہ تسعۃ و ثلاثون رجلا وامراۃ۔ ثم ان عمر اسلم فصاروا اربعین ) یعنی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ انتالیس مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کیا۔ پھر عمر اسلام لائے تو ان کی تعداد چالیس ہو گئی۔(اسد الغابہ ج ۱ ص ۸۱۴) 
اب یہاں پر اگر ہم یہ مطلب لیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسلام لائے ، ان انتالیس افراد کے ساتھ، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پہلے رسول اللہ ﷺ بھی مسلمان نہیں تھے۔جس کوکوئی بھی مسلمان تسلیم نہیں کر سکتا۔ پس یہاں پر مع کا مطلب اور ہے۔ چنانچہ ایسے الفاظ جن کے معنی ایک سے زیادہ ہو سکتے ہوں، ان کا ترجمہ کرتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہئیے، اور مدمقابل کو زیر کرنے کے زعم میں دین کا ستیاناس نہیں کرنا چاہئیے۔ 
ہاں البتہ شیعہ روایات میں ضرور آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت علیؓ نے متعہ کیا۔ دیکھئے (وسائل الشیعہ ج ۲۱ ص ۱۰)
یہ روایات ضعیف ہیں،لیکن ہمارے ہاں تو ضعیف روایات میں بھی ایسا ہرگز نہیں آیا۔ اور ہرگز کا مطلب بھی لغات میں دیکھ کر سمجھنے کے بعد ایسی روایت کی جستجو کیجئے گا۔

قولہ : ایک اور روایت صحیح مسلم میں بایں موجود ہے: 
حدثنا إسحاق بن إبراھیم ، أخبرنا یحیی بن ادم، حدثنا إبراھیم بن سعد، عن عبد الملک بن الربیع بن سبرۃ الجھنی ، عن أبیہ، عن جدہ، قال : امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالمتعۃ عام الفتح، حین دخلنا مکۃ، ثم لم نخرج منھا حتی نھانا عنھا ربیع بن سبرہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول ص نے عام الفتح میں متعہ کا حکم دیا جب ہم مکہ میں داخل ہوئی پس ہم واپس نہیں نکلے مگر یہ کہ رسول ص نے ہمیں اس سے منع کر دیا۔ حوالہ : صحیح مسلم ، رقم ۱۴۰۶، الناشر: دارإحیاء التراث العربي ۔ بیروت ۔ ہمیں اس کی منسوخیت سے فی الحال بحث نہیں اور جو ادہر حرمت متعہ کا بیان ہے ، مھم چیز اس کے زنا نہ ہونے کی دلیل دینا ہے اور وہ رسول ص کا حکم ہے۔

اقول : یہ روایت بھی ثابت کرتی ہے کہ متعہ کا حکم زمانہ جنگ میں دیا جاتا تھا۔ اور جہاں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے اس کا زنا نہ ہونا ثابت کرتے ہو، تو آپ کی عقل میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ رسول اللہ ﷺ کے منع کرنے سے یہ نکاح باطل ہو گیا؟ اور جیسے کافر اور کافرہ کے ساتھ نکاح سے منع کئے جانے کے بعدکافر اور کافرہ ،جو کہ اہل کتاب سے بھی تعلق نہ رکھتی ہو،کے ساتھ نکاح کو ہم زنا ہی کہیں گے،ورنہ کوئی مسلمان عورت کسی ہندو مرد سے شادی کر لے تو کون اس کو زنا نہیں کہے گا؟اور یہ دلیل پیش کرنا کہ متعہ کا تو حکم دیا گیا تھا، چنانچہ اس وجہ سے زنا نہیں قرار دیا گیا، تو ابھی آپ جان جائیں گے کہ اہل تشیع کی کتب میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جس چیز کو اسلام نے حرام قرار نہیں دیا، وہ مباح ہے۔ پس چاہے متعہ ہو یا کافر سے نکاح، حرام ہونے سے قبل دونوں مباح تھے۔ اب رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہو یا نہ دیا ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔نیز رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک غیر مسلم ابو العاص بن ربیع سے کیا، اور اس وقت وہ غیر مسلم تھے، اسلام بعد میں لائے۔ تمہیں قول چاہئے تھا، اور یہ قول سے اقوی دلیل ہے۔اب اس کے لئے کوئی اور بہانہ تراش لیجئے۔

قولہ : ایک سلفی ویب سائٹ میں سلفی مفتی فرماتے ہے:
ولما أبیحت المتعۃ في أول لم تکن (زنا) حال إباحتھا، وإنما تأخذ حکم الزنا بعد التحریم واستقرار الأحکام کما ھو معلوم
یعنی جب متعہ اوائل اسلام میں جائز تھا تو اس وقت یہ زنا نہیں تھا اور یہ زنا کے حکم میں جب آیا جب اس کی تحریم کا اعلان ہوا اور حکم باقی رہا جیسا کہ معلوم ہے حوالہ :فقہ الأسرۃ المسلمۃ، النکاح ، عقد النکاح ، الأنکحۃ المحرمۃ۔
اس فتوی سے یہ ثابت ہوا کہ متعہ کی اباحت اس کے زنا نہ ہونے پر دال تھا لیکن جب و ہ حرام ہو گیا تو وہ زنا ہوگیا۔ ماشاء اللہ کیا طرز استدلال ہے۔ یعنی زنا غیر طیب عمل ہے اور وہ غیر طیب ہمیشہ رہے گا۔ کیا مفتی صاحب یہ کہنے چا رہے ہیں کہ پہلے غیر طیب چیز کی اجازت دی اور بعد میں حرام ہوگئی۔ لیکن اس فتوے سے کم سے کم یہ پتا تو چلا کہ متعہ (جملہ پورا نہیں ہے ۔ کلام)

اقول :چلیں یہ تو ثابت ہوا کہ میں نے جو کہا، اس کی تائید سلفی مفتی نے بھی کی ہے۔اس کی تائید صحابہ، تابعین وتبع تابعین نے بھی کی ہے۔اور یہ کہنا انتہائی لغو ہے کہ پہلے غیر طیب چیز کی اجازت دی ،اور بعد میں حرام ہو گئی۔ جب کافرہ سے نکاح جائز تھا تواس وقت یہ غیر طیب نہیں تھی۔ شیعہ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کو ابو العاص بن ربیع ؓ کے نکاح میں دیا، جو کہ اس وقت مسلمان نہیں تھے۔ تو کیا تم رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ تسلیم کرو گے کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو کافر کی نکاح میں دیا، جبکہ کافر سے نکاح حرام ہے او ر سراسر زنا ہے؟ اس وقت تمہارا فہم اس بات کو قبول کرتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کیا، اور اس وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے، اس لئے کہ اس وقت یہ نکاح جائز تھا، لیکن جب یہ نکاح باطل، غیر طیب، حرام وغیرہ (جو بھی لفظ خیر طلب کو مناسب لگے) قرار پایا تو اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی تو کیا، کسی مسلمان شخص کی بیٹی کا نکاح بھی کسی کافر سے نہیں کرایا، پھر متعہ کے بارے میں یہ تسلیم کرنا کیسے خلافِ عقل ہے کہ جب مباح تھا تو اس وقت یہ زنا نہیں تھا، اور جب اس کی تحریم کا اعلان ہوا، تو زنا کے حکم میں آگیا؟اس طرزِ استدلال میں خرابی ہے یا خیر طلب کے طرزِ استدلال میں ، یہ قارئین خوب سمجھ سکتے ہیں۔

قولہ :کلام صاحب نے نکاح متعہ کے اول شریعت میں رائج ہونے پر جناب آدم ع کی خلقت کے بعد بہن بھائیوں کی شادی والے معاملہ سے استدلال کیا اور تاثر یہ دیا کہ چونکہ ایسا نکاح بالکل حرام ہے جو اب زنا کے حکم میں ہے جو کہ شریعت آدم ع میں حلال تھا، پس اس چیز کا قیاس متعہ والے مسئلہ پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے شیعی روایات کو نقل کیا اور تاثر یہ دیا کہ یہ فقط شیعی مسئلہ ہے، اہلسنت اس قضیہ کے متعلق خاموش ہے تو مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے آپ کو آپ کے گھر کی تصویر دکھا دوں پھر ان روایات کے بارے میں عرض کرتا ہوں۔
ابن کثیر فرماتے ہیں:
ذکرہ غیر واحد من السلف والخلف ، أن اللہ تعالی : شرع لادم علیہ السلام ، أن یزوج بناتہ من بیہ لضرورۃ الحال،
کافی سارے علماء سلف متقدمین ومتاخرین نے ذکر کیا کہ اللہ تعالٰی نے آدم علیہ السلام کو اجازت دی تھی کہ وہ حالات کے پیش نظر اپنے بیٹیوں کی شادی بیٹوں سے کریں۔
حوالہ : تفسیر ابن کثیر، جز ۳، ص ۷۴، الناشر : دارالکتب العلمیۃ، منشورات محمد علي بیضون ۔ بیروت
باقی جہاں تک اس قضیہ کا تعلق ہے اس پر کچھ جہت سے بات کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ قیاس مع الفارق کلام صاحب کی لغت میں وافر مقدار میں موجود ہے۔
۱۔ شیعی روایات کے مطابق جناب آدم ع کی بیٹی اور بیٹوں کا ایک دوسرے سے رشتہ مختلف ہیں۔ بعض اس کے وقوع ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور بعض اس کی نفی میں جیسا کہ درج ذیل روایات موجود ہیں جن کا مضمون درج ذیل ہیں:
الف ، خدا نے جناب آدم ع کے بیٹوں کے لئے جنت سے حور بھیجی جن سے ان کی شادی ہوئی اور نسل انسانی بڑھی۔
ب، بہن کا بھائی سے شادی ہونا یہ مجوس کا مقولہ ہے جو سرے سے باطل ہے، خدا کی شان سے بعید ہے۔
یہ تمام تفاصیل علام ، مجلسی رح کی کتاب بحار الانوار ، جز ۱۱ باب تزویج آدم حواء و کیفیۃ بدء النسل منھما وقصۃ قابیل و ھابیل و سائر اولادہ میں مل جائیں گی جس میں اس مضمون کو بہت احسن دلائل سے رد کیا گیا ہے۔
۲۔ علماء تشیع میں سے جمہور اس رائے سے متفق نہیں بلکہ جن میں بہن سے تزویج کا تذکرہ انہیں مذھب اہلسنت کے موافق ہونے کی وجہ سے تقیہ پر محمول کیا ہے۔
چنانچہ میرزا محمد مشہدی فرماتے ہے:
فمحمول علی التقیۃ، لأنہ موافق لمذھب العامۃ
یہ روایات تقیہ پر محمول ہیں، جس کی وجہ ان روایات کا اہلسنت مذھب سے موافقت ہونا ہے۔
حوالہ : تفسیر کنز الدقائق ، جز ۲، ص ۳۴۳
علامہ مجلسی رح نے بحار الانوار میں فرمایا :
ھذان الخبران محمولان علی التقیۃ لاشتھار ذلک بین العامۃ
دونوں خبریں جن میں آدم ع کے بیٹا بیٹی کی شادی کی بات تھی تقیہ پر محمول ہے کیونکہ یہ مطمع نگاہ اہلسنت میں مشہور ہے۔
حوالہ : بحار الانوار ، جز ۱۱ ، ص ۲۲۷، طبع دار الوفاء لبنان۔

اقول :میں نے قطعاََ یہ کوشش نہیں کی کہ اس کو فقط شیعہ مسئلہ قرار دوں۔دوسری بات یہ ہے کہ ذراملاحظہ کیجئے، کس طرح اپنی صحیح روایت کا رد فقط اس وجہ سے کیا جا رہا ہے کہ اس کی موافقت اہلسنت کے مذہب سے ہو رہی ہے، نہ کہ شیعہ مذہب سے۔ یعنی ضعیف روایت سے تو اہلسنت ویسے بھی دلیل نہیں پکڑ سکتے،اور اگر کہیں کوئی صحیح روایت مل بھی جائے تو اس کو بھی تقیہ پر محمول کر کے جان خلاصی کی جا سکتی ہے۔آخر یہ بتائیں کہ پھر ہم آپ کو کہاں سے دلیل پیش کریں؟آپ کو ضعیف بھی قبول نہیں، صحیح بھی قبول نہیں، تو آخرآپ کیا چاہتے ہیں کہ اہلسنت آپ کی کونسی روایات سے استہشاد کریں؟یہ تو میں نہ مانوں والی پالیسی ہو گئی۔ ہم ضرور آپ کی مستند روایات سے استشہاد کریں گے، اور آپ کا ’’محمول علی التقیہ‘‘ والا بہانہ ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ اس کو آپ اپنے اندرونی اختلافات تک ہی محدود رکھئے۔اور میں کہتا ہوں کہ یہ بات اس جن والی کہانی سے کئی گنا بہتر ہے، جس میں حضرت آدم ؑ کے ایک بیٹے کا جنیہ(مونث جن) اور دوسرے بیٹے کا حوریہ سے نکاح کرکے اولاد پیدا کرنا بتایا جاتا ہے، اور اس طرح نسلِ انسانی کو انسان، حور اور جن کے ملاپ کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔پھر یہ بتائیں کہ حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا ؑ کی بیٹیوں کی شادی کن سے کرائی گئی؟ جنات سے یا حوروں سے؟یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں سے؟ یا پھر ان کا نکاح ہی نہیں کرایا گیا؟یا حضرت آدم ؑ اور بی بی حوا ؑ کی بیٹیاں ہی پیدا نہیں ہوئیں تھیں؟ 

۳۔ بقولہ الفرض صحت مضمون روایت اس کا جواب ان الفاظ میں دیا جائے گا کہ اس وقت زمانہ محدود تھا اور نسل انسانی کو بڑھانے کے لئے فقط بیٹا اور بیٹی ہی موجود تھے، اس سے عام حالات میں اس کا جائز ہونا اور متعہ کا عام حالات میں جائز ہونے میں واضح فرق ہے۔
چلیں بالفرض مان لیتے ہیں کہ یہ اس وقت جائز تھا تو کلام صاحب کیا یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ جناب آدم ع کی پوری زندگی میں یہ چیز جائز رہی جب کہ اس وقت نسل انسانی اتنی بڑھ گئی تھی کہ بہن بھائی کا نکاح ناگزیر چیز نہیں تھا۔ یہ ہر نبی ص کی شریعت میں قبیح بات رہی ہے۔

اقول :بالفرض اس کوتسلیم کیا جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ بہن بھائی کا نکاح حضرت آدم ؑ کی شریعت میں کچھ عرصہ تک جائز رہا، اور اب یہ سراسر زنا ہے۔ چنانچہ اگر اہلسنت کہتے ہیں کہ متعہ زنا ہے، تو اس سے چنداں فرق نہیں پڑتا کہ متعہ کچھ عرصہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت میں مباح تھا۔ اور میں ابھی عرض کر چکا ہوں کہ متعہ عام حالات میں جائز نہیں تھا، بلکہ اس کی اجازت غزوات کے مواقع پر دی جاتی تھی۔

قولہ : کلام صاحب فرماتے ہیں:
متعۃ النکاح کا ترجمہ زنا کرنا غلط ہے۔ لیکن انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ متعۃ النکاح زنا نہیں۔
جواب : واہ واہ کیا منطق ہے۔ دوسروں کی بات کی ایسی علیل تاویل کی جائے جس کا کوئی حساب نہ ہو۔ ہمارے سامنے دو کتب موجود ہیں
۱۔ قرآن مقدس بخاری محدث پر عدالتی فیصلہ، مصنف احمد سعید خان ملتانی۔
۲۔ توفیق الباری فی تطبیق القرآن وصحیح البخاری بجواب کتاب قرآن مقدس بخاری محدث، مصنف زبیر علی زئی۔ 
پہلی کتاب ایک دیوبندی مماتی کی ہے جس نے صحیح بخاری پر تنقید کی اور قرآنی اصول و قوانین سے اس کا رد بالغہ کرنے کی کوشش کی۔ دوسری کتاب ایک اہلحدیث کی ہے جس نے دیوبندی مماتی کی اس کتاب کا جواب دیا۔ چنانچہ ہم دونوں کتب میں موجود عبارات کو نقل کرتے ہیں اور پھر قارئین پر فیصلہ چھوڑیں گے کہ خاطی ہم یا کلام۔ 
احمد سعید خان دیوبندی مماتی فرماتے ہے:
یونہی آنکھ بند کم بصیرت کے ساتھ انہوں نے جڑ دیا کہ یہ آیت متعہ یعنی زنا کے حلال کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اور صحابی رسول عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متھے اتنا بڑا طومار جڑ دیا کہ انہوں نے آیت پڑھی ہی اس لئے تھی کہ پتہ چل جائے کہ آیت کا نزول ہی متعہ یعنی زنا کے جواز کے لئے تھا۔
حوالہ : قرآن مقدس بخاری محدث پر عدالتی فیصلہ، صفحہ ۲۷، ناشر مولانا منظور معاویہ خادم مرکزی اشاعت التوحید والسنۃ۔
اب ادھر متعہ سے یعنی کا ترجمہ کر کے مفہوم مراد لیا جارہا ہے جس کی نفی زبیر علی زئی نے بایں الفاظ کی :
یاد رہے متعۃ النکاح کا ترجمہ زنا کرنا غلط ہے
حوالہ : توفیق الباری فی تطبیق القرآن وصحیح البخاری، صفحہ ۳۶، طبع نعمان پبلیکیشنز۔
اب بتائے ادھر ترجمہ سے مراد مفہوم ہے جو ہمارا اصلی مدعا ہے یعنی متعۃ النکاح زنا نہیں۔ لیکن وائے ہو مخالف کی بصیرت پر جو اتنے واشگاف چیزوں کو بھی تاویل کے دبیز پردے میں چھپائے رکھتے ہیں۔

اقول :خیر طلب یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ زبیر علی زئی نے کہا کہ متعہ کا ترجمہ زنا کرنا غلط ہے، اس لئے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک متعہ زنا نہیں۔میں نے کہا کہ دونوں باتوں میں فرق ہے ۔ اور چونکہ بات زبیر علی زئی کی ہو رہی ہے، اس لئے میں زبیر علی زئی کے ہی مضامین سے اس بات کو واضح کر دیتا ہوں ۔ زبیر علی زئی مجلہ’’ الحدیث‘‘ میں متعہ کے متعلق لکھتے ہیں:
امام مکحول الشامی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا : ایک آدمی نے ایک عورت سے خاص مقرر وقت تک کے لئے نکاح (یعنی متعہ ) کیا؟توانہوں نے جواب دیا : (ذلک الزنا) یہ زنا ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ ۴/۲۹۴ ح ۱۷۰۷۲، وسندہ صحیح (ماہنامہ الحدیث، شمارہ نمبر ۷۱، ص ۱۳)
اس پر زبیر علی زئی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جب احمد سعید خان نے کے متعلق کہا (متعہ یعنی زنا) اور اس میں احتمال تھا کہ وہ متعہ کا ترجمہ ہی زنا سمجھ رہے ہیں ، تو زبیر علی زئی نے اعتراض کیا، لیکن جب امام مکحول نے متعہ کے متعلق فرمایا (ذلک الزنا) یہ زنا ہے، تو زبیر علی زئی نے کوئی اعتراض نہیں کیا، اور اس کی سند کی تصحیح بھی کردی۔اب بتائیے، کس کی تاویل علیل ہے اور کس نے حق بات کہی؟

قولہ : اب ہم ذیل میں ان ویڈیوز و تحریرات کی مثال پیش کریں گے جو متعہ کا ترجمہ ہی زنا کرتے ہیں۔
تحریرات
Muta (Temporary marriage Or Legalized Prostitution)
http://www.kr-hcy.com/statichtml/files/104292584629524,print.shtml
Places and merits of Mut\’ah (Zina) nikah in Shia Majoos Religion
http://devilsdeceptionofshiism.wordpress.com/tag/place-and-merits-of-mutah-zina-nikah-in-shia-majoos-religion/
متعہ یعنی زنا کی اولاد
http://daaljan.wordpress.com/2011/02/10/%D9%85….
ویڈیوز
Shia Mazhab aur Mutta (Zina) شیعہ مذہب میں متعہ ۔ زنا . kafr kafr shia kafrmp
Shia Mutta Zinna – Answers to Shia Alims who are Spreading Zinna by proving it from Quran Shia Mutta (Prostitution) exposed
تبصرہ: کلام صاحب اتنے جاہل تو مت بنائے یا تجاہل عارفانہ سے کام مت لیجئے کہ جب اہلسنت علماء و مناظرین کھلے عام بریکٹ میں اس کو زنا کہیں اور کہیں ایک عالم ان کی تردید کرے تو مان لینا چاہئے ، ایسی بے کار تاویلات سے کام لینا عبث ہے۔
کلام صاحب ہم ذیل میں اب ان علماء اہلسنت کے نام مع عبارات پیش کرتے ہیں جو اس کو زنا نہیں کہتے۔ یاد رہے آپ کا فورم چونکہ چار یار پر مشتمل ہیں لہذاء ایک زبیر علی زئی تو ہوگئے باقی تین کی گنتی پوری کر دیتا ہوں تاکہ چار یار کا پورا عدد بن جائے۔
فخر الدین رازی رقم طراز ہے:
الزنا إنما سمي سفاحا، لأنہ لا یراد منہ إلا سفح الماء، والمتعۃ لیست کذلک، فان المقصود منا سفح الماء بطریق مشروع مأذون فیہ من قبل اللہ
زنا کو سفاح کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ اس سے سوائے منی کے اخراج کے کوئی مقصد نہیں لیکن متعہ ہرگز زنا کی طرح نہیں کیونکہ اس سے مقصود منی کا اخراج اس طریقے سے کرنا ہوتا ہے جو خدا کے نزدیک مشروع و جائز ہو۔
حوالہ : مفاتیح الغیب ، جز ۱۰ ص ۴۴، الناشر: دار إحیاء التراث العربي۔ بیروت
کیوں کلام صاحب کیا کہتے ہیں؟؟؟ فخر الدین رازی جن کو چالیس چالیس نکات نکالنے کی عادت تھی آیات میں سے، وہ کیا کہتے ہیں اور آپ کیا کہتے ہے؟

اقول :زبیر علی زئی اور امام مکحول کے حوالے سے تو میں ثابت کر چکا ہوں کہ ان کے نزدیک متعہ زنا کی طرح ہے۔اس حوالے سے سلفی عالم کا فتوٰی خیر طلب صاحب خود ہی پیش کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ امام جعفر سے بھی یہی الفاظ متعہ کے متعلق سنن کبری میں امام بیہقی نے نقل کئے ہیں۔ 
اخبرنا ابو عبد اللہ الحافظ ، انبا ابو محمد الحسن بن سلیمان الکوفی ببغداد ، ثنا محمد بن عبد اللہ الحضرمی ، ثنا اسماعیل بن ابراھیم ، ثنا الاشجعی ، عن بسام الصیرفی قال : سالت جعفر بن محمد عن المتعۃ ، فوصفتھا ، فقال لی، ذلک الزنا ۔
بسام صیرفی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر سے متعہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ یہ زنا ہے۔ (السنن الکبری للبیھقی، ج ۷ ص ۲۰۷)
شیخ البانی نے اس روایت کی سند کو السلسلۃ الصحیحۃ میں جید قرار دیا ہے۔ (السلسلۃ الصحیحۃ ج ۵ ص ۵۲۷)
اوراپنی کتب میں امام جعفر کا قول بھی سن لیجئے جن کے نزدیک متعہ صرف فاجر ہی کرتے ہیں۔
احمد بن محمد بن عیسی فی (نوادرہ) عن ابن ابی عمیر ، عن ھشام بن الحکم ، عن ابی عبد اللہ علیہ السلام فی المتعۃ قال : ما یفعلھا عندنا الا الفواجر
ہشام بن حکم نے امام جعفر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے متعہ کے بارے میں فرمایا : اس کو ہمارے ہاں سوائے فاجروں کے اور کوئی نہیں کرتا۔ (وسائل الشیعہ ج ۱۴، ص ۴۵۶)
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ 
ایک اور روایت بھی ملاحظہ کیجئے۔
علی عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن عمر بن اذینۃ عن زرارۃ قال جاء عبد اللہ بن عمیر اللیثی الی ابی جعفر (علیہ السلام) فقال لہ ما تقول فی متعۃ النساء فقال احلھا اللہ فی کتابہ و علی لسان نبیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) فھی حلال الی یوم القیامۃ فقال یا ابا جعفر مثلک یقول ھذا وقد حرمھا عمر ونھی عنھا فقال وان کان فعل قال انی اعیذک باللہ من ذلک ان تحل شیئا حرمہ عمر قال فقال لہ فانت علی قول صاحبک وانا علی قول رسول اللہ (صلہ اللہ علیہ وآلہ) فھلم الاعنک ان القول ما قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) وان الباطل ما قال صاحبک قال فاقبل عبد اللہ بن عمیر فقال یسرک ان نساء ک وبناتک واخواتک وبنات عمک یفعلن قال فاعرض عنہ ابوجعفر (علیہ السلام) حین ذکر نساء ہ وبنات عمہ
زرارہ سے مروی ہے کہ عبدا للہ بن عمیر لیثی امام باقر کے پاس آیا اور اس نے آپ سے کہا : آپ عورتوں کے متعہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا : اللہ عز و جل نے اسے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور اپنے نبی ﷺ کی زبان پر بھی۔ پس متعہ قیامت تک کے لئے حلال ہے۔ اس نے کہا : اے امام باقر آپ ایسا کہتے ہیں حالانکہ حضرت عمر نے اسے حرام قرار دیا اور اس سے منع کیا تو آپ نے فرمایا : اگرچہ اس نے بھی کیا تب بھی۔ اس نے کہا میں تم سے اللہ عز و جل کی پناہ مانگتا ہوں اس بارے میں کہ تم اس چیز کو حلال کرو جس کو حضرت عمر نے حرام کیا۔ تو آپ نے فرمایا : تو اپنے صاحب کے قول پر ہے اور میں رسول اللہ ﷺ کے قول پر ہوں۔ پس آؤ۔ میں تم پر لعن کرتا ہوں کہ حق قول وہ ہے کہ جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور جو تمہارے صاحب نے کہا وہ باطل ہے۔ عبد اللہ بن عمیر نے کہا : تمہیں اچھا لگے گا اگر تمہاری عورتیں، بیٹیاں ، بہنیں اور چچا زاد بہنیں متعہ کریں؟ تو امام صاحب نے منہ موڑ لیا جب اس کی عورتوں اور چچا زاد بہنوں کا ذکر ہوا۔ (فروع الکافی ج ۵ ص ۱۵۱)
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب متعہ کے برکات اپنے گھر میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی وجہ سے باقی سب مومنین کے واسطے تو اس کے فضائل بیان کئے، لیکن جب اپنی عورتوں کا ذکر آیا تو منہ موڑ لیا۔ کیا تمام مسلمان اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے لئے متعہ کو سخت ناپسند نہیں کرتے؟ کون ہے جو اپنی بہن کے متعہ کرنے کی خبر بھی کسی کو بتانا پسند کرے گا؟ جس طرح امام صاحب کو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے لئے متعہ ناپسند ہے، اسی طرح باقی تمام مسلمان بھی ناپسند کرتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ باقی سب مسلمان متعہ کریں، لیکن امام صاحب کا گھرانہ متعہ کے برکات سے محروم رہے؟
یہاں پر رازی کے قول ’’والمتعۃ لیست کذلک‘‘ کا ترجمہ ’’متعہ ہرگز زنا کی طرح نہیں‘‘ غلط ہے۔ یہاں پر اس کا ترجمہ ہوگا ’’اور متعہ اس طرح نہیں‘‘۔ مراد یہ ہے کہ زنا کو سفاح اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس سے سوائے منی کے اخراج کے کوئی مقصد نہیں، لیکن متعہ اس طرح نہیں، یعنی متعہ میں منی کا اخراج واحد مقصد نہیں ہوتا۔لیکن ظاہر ہے کہ یہاں پر جو زنا مراد ہے، وہ تو ایک مسلمان عورت کے ہندو مرد سے نکاح پر بھی لاگو نہیں ہوتا، کیونکہ ادھر بھی فقط سفح الماء مراد نہیں ہوتا، بلکہ ایک دوسرا مقصد یعنی نکاح کا بھی ہوتاہے، اور یہ نکاح بھی ایک عرصہ تک جائز تھا، کیونکہ مسلمان عورتوں کا غیر مسلم مردوں کے ساتھ نکاح ہماری شریعت میں کچھ عرصہ تک جائز تھا۔لیکن جن معنوں میں ہم مسلمان عورت کے کافر کے ساتھ نکاح کو زنا سے تعبیر کرتے ہیں، انہی معنوں میں متعہ کو بھی زنا سے تعبیر کرتے ہیں۔اور اگر خیر طلب کو اعتراض ہے تو فقط اتنا بتا دے کہ کیا مسلمان عورت کا کسی ہندو مرد سے نکاح زناہے یا نہیں۔ حقیقت خود بخود واضح ہو جائے گی۔

قولہ : علامہ ابن قیم ابن تیمیہ کے کلام بایں نقل کرتے ہیں 
وسمعت شیخ الاسلام یقول : نکاح المتعۃ خیر من نکاح التحلیل من عشرۃ أوجہ
میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے سنا ہے کہ نکاح متعہ حلالہ سے دس وجوہات کی بنا پر بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان وجوہات کو بتاتے ہوئے ابن قیم کہتے ہے:
الثامن : أن الفطر السلیمۃ والقلوب التی لم یتمکن منھا مرض الجھل والتقلید تنفر من التحلیل أشد نفار، وتعیر بہ أعظم تعبیر، حتی إن کثیرا من النساء تعیر المرأۃ بہ أکثر مما تعیرھا بالزنا، ونکاح المتعۃ لا تنفر منہ الفطر والعقول ، ولو نفرت منہ۔ لم یبح فی أول الإسلام
آٹھویں وجہ یہ ہے کہ سلیم فطرت اور وہ دل جن میں جہل اورتقلید کا مرض نہ ہو وہ حلالہ سے شدید نفرت کرتے ہیں، اور اس کو بہت زیادہ کوستے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت ساری عورتیں ایک حلالہ شدہ عورت کا زیادہ مذاق بناتی ہیں بنسبت کہ وہ زنا کرے۔ جب کہ نکاح متعہ سے نہ فطرت سلیمہ نفرت کرتی ہے اور ہی عقل۔ اگر اس کو برا سمجھا جاتا تو کبھی اوائل اسلام میں جائز نہ ہوتا۔
حوالہ : إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان، جز ۱ ، صفحہ ۲۷۸، الناشر : مکتبۃ المعارف، الریاض ، اللملکۃ العربیۃ السعودیۃ

اقول :پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن قیم اور ابن تیمیہ اگر احناف کے ساتھ اس معاملہ میں اختلاف کرتے بھی ہیں، تب بھی ان کا حوالہ پیش کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ میں ابن بابویہ القمی کا حوالہ پیش کروں جو کہ انبیاء کے سہو اور خطا کے منکرین کو غالی سمجھتے ہیں۔ اب خیر طلب انبیاء بلکہ اپنے بارہ ائمہ کرام کو بھی سہو اور خطا سے پاک سمجھتے ہیں، تو اگر میں خیر طلب کو بھی غالی کہوں، تو ان کو ہضم نہیں ہوگا۔ اس لئے اگر ابن قیم اور ابن تیمیہ اس حوالے سے احناف سے اختلاف کرتے ہیں، تب بھی ان کا حوالہ پیش کرنا غلط ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حلالہ تو ایک ایسی چیز ہے جس سے کوئی بھی مسلمان انکار نہیں کر سکتا۔ جس عورت کو تین طلاق دی جائے، اس کا شوہر اس کو دوبارہ اپنے نکاح میں نہیں لا سکتا یہاں تک کہ وہ عورت کسی شخص سے نکاح کر لے، اور پھر طلاق یا اس شخص کی موت واقع ہونے کے بعد دوبارہ اپنے پہلے شوہر سے نکاح کر لے۔ احناف اور دوسروں کا اختلاف اس میں ہے کہ اگر تین طلاق ایک ہی مجلس میں دی جائے، تو کیا تین ہی شمار ہونگی یا فقط  ایک۔اختلاف اس میں ہے ہی نہیں کہ تین طلاق واقع ہونے کے بعد حلالہ ضروری ہے یا نہیں۔ حلالہ یا تحلیل تو لازمی ہے، لیکن یہاں جس تحلیل کی بات ہو رہی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ محلل اس عورت کو فقط اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال کرنے کے واسطے اس سے نکاح کرے۔یعنی وہ حلالہ فقط اس واسطے کیا جائے کہ طلاق شدہ عورت کو اس کے پہلے شوہر کے لئے حلال کیا جاسکے۔

قولہ : اب ہم ابن تیمیہ کے کلام کو بھی سنتے ہیں
ولکن تنازعو۱ في’’نکاح المتعۃ‘‘ فإن نکاح المتعۃ خیر من نکاح التحلیل من ثلاثۃ أوجہ۔ أحدھا ’’أنہ کان مباحا في أول الإسلام بخلاف التحلیل۔‘‘ الثاني ’’أنہ رخص فیہ ابن عباس وطائفۃ من السلف؛ بخلاف التحلیل فإنہ لم یرخص فیہ أحد من الصحابۃ‘‘۔ الثالث ’’ أن المتمتع لہ رغبۃ فيالمرأۃ وللمرأۃ رغبۃ فیہ إلی أجل ؛ بخلاف المحلل فإن المرأۃ لیس لھا رغبۃ فیہ بحال وھو لیس لہ رغبۃ فیھا بل في أخذ ما یعطاہ وإن کان لہ رغبۃ فھي من رغبتہ في الوطء ؛ لا في اتخاذھا زوجۃ من جنس رغبۃ الزاني؛

اگرچہ نکاح متعہ میں اختلاف ہوا ہے ۔ پس اس میں شک نہیں کہ نکاح متعہ بہتر ہے حلالہ سے تین وجوہات کی بنا پر:
۱۔ نکاح متعہ اوائل اسلام میں جائز تھا جب کہ حلالہ کے ساتھ یہ صورت نہیں 
۲۔ نکاح متعہ کی اجازت ابن عباس اور سلف میں سے ایک گروہ نے دی ہے جب کہ حلالہ کی اجازت کسی بھی صحابی نے نہیں دی
۳۔ متعہ کرنے والے کو متعہ کرنے والی عورت سے ایک خاص رغبت ہوتی ہے اسی طرح متعہ کرنے والی عورت کو بھی مرد سے ہوتی ہے ایک عرصہ تک، جب کہ حلالہ میں اس کے برخلاف حلالہ کرنے والی عورت کو کوئی رغبت نہیں ہوتی اور حلالہ کرنے والے مرد کو فقط جماع و ہمبستری سے رغبت ہوتی ہے نہ کہ اس کو حقیقی زوجہ بنانے کی جو زنا کرنے والے مرد کی رغبت کی طرح ہے۔
حوالہ : مجموع الفتاوي جز ۳۲، ص ۹۳ الناشر : مجمع الملک فھد لطباعۃ المصحف الشریف ، المدینۃ النبویۃ ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ
کیوں کلام صاحب اب حنفی تو خیر منا ہی لیں جن کا حلالہ متعہ سے بدتر قرار پایا اور متعہ میں رغبت زنا قرار نہیں گیا بلکہ حلالہ میں قرار دیا جارہا ہے۔ متعہ کی اجازت ابن عباس و سلف سے نقل کی جارہی ہے۔

اقول : حلالہ کے متعلق قرآن مجید کی آیت کریمہ کے متعلق شیعی روایت شیعی تفسیر سے شیعی کتاب میں ملاحظہ کیجئے :
جناب محمد بن مسعود عیاشی اپنی تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؑ نے آیت مبارکہ (فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ) ’’ کہ اس کے بعد وہ عورت اپنے خاوند پر حلال نہیں ہوتی جب تک کسی اور شخص سے نکاح نہ کرے‘‘ کی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں تیسری طلاق مراد ہے۔ پس جب وہ دوسرا شخص (محلل) اسے طلاق دے دے اور سابقہ میاں بیوی راضی ہوں تو پھر عقد جدید کر سکتے ہیں۔(وسائل الشیعہ، کتاب الطلاق، ج ۱۵، ص ۲۵۷)
اسی طرح الکافی میں زرارہ نے امام باقر سے روایت کی ہے کہ آپ ؑ نے اس شخص کے بارے میں جو اپنی بیوی کو طلاق دے اور عدت کے ختم ہونے پر پھر نکاح کرے اور پھر طلاق دے دے حتٰی کہ تین بار ایسا کرے؟ فرمایا اب جب تک کسی اور شخص (محلل) سے نکاح نہیں کرے گی تب تک اپنے پہلے خاوند پر حلال نہیں ہوگی۔(فإذا تزوجھا غیرہ ولم یدخل بھا وطلقھا أو مات عنھا لم تحل لزوجھا الأول حتی یذوق الآخر عسیلتھا) اور اگر یہ دوسرا شخص دخول سے پہلے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تب بھی پہلے خاوند پر حلال نہ ہوگی۔ جب تک دوسرا شخص مباشرت کا مزہ نہ چکھے۔ (الکافی ج ۶ ص ۷۶)

قولہ : کلام صاحب اس باب کا اختتام ہم تحدی کے ساتھ کرتے ہیں کہ متعہ کو زنا کافی نہیں بلکہ اب ان سوالوں کا جواب دیں
۱۔ متعہ کے زنا ہونے کی منفرد دلیل فرمائیں
۲۔ ایسے افراد کے بارے میں بتائیں جو اس کی اباحت کے قائل ہیں۔
۳۔ سنی علماء نے بالاخر اس کو نکاح المتعہ سے تعبیر کیوں کیا۔ یعنی یہ تو ایسا ہی ہے کہ اسلامی شراب ، اسلامی سود، اسلامی زنا۔۔ کیا طیب و غیر طیب کا ایک جگہ جمع ہونا ممکن ہے، کیا نکاح و زنا کا ملاپ ایک جگہ ممکن ہے؟ اگر متعہ زنا ہے تو کیا نکاح المتعہ بھی کوئی شئی ہے؟

اقول :متعہ کے زنا ہونے کے دلائل میں نے اس تحریر کے آغاز ہی میں دے دیئے ہیں۔ اورمتعہ کی اباحت کے قائلین کے نام مجھ سے پوچھنا ایک عجیب بات ہے، چونکہ میں متعہ کے حرام ہونے کا قائل ہوں، لہٰذا آپ مجھ سے ان لوگوں کے نام پوچھئے جو کہ اس کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ایسے افراد کے نام بتاناآپ کا کام ہے جو کہ متعہ کی اباحت کے قائل ہیں۔بہرحال میں نے کبھی اس کی تحقیق نہیں کی کہ کون متعہ کی اباحت کا قائل ہے، اور نہ ہی مجھے اس کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ اس کے متعلق صحیح اور مرفوع روایات ہماری کتب میں موجود ہیں جس سے متعہ کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور ان صحیح اور مرفوع روایات کی موجودگی میں کسی دوسرے کے قول کی اہمیت ہی نہیں رہتی۔اورمتعہ کو نکاح المتعہ کہنے سے اس کی اباحت ثابت کرنا پرلے درجے کی جاہلیت ہے، اور اگر نکاح المتعہ کا مطلب اسلامی متعہ ہے، تو آپ یہ بھی تسلیم کرلیں کہ نکاح البھیمہ کا مطلب جانوروں سے اسلامی نکاح ہونا چاہئے ، کیونکہ ابن بابویہ اپنی کتاب ’’معانی الاخبار‘‘ میں کہتا ہے :
(وأما نکاح البھیمۃ فمعروف) یعنی جہاں تک نکاح البھیمہ (جانوروں سے حرام فعل) کا تعلق ہے، تو اس کے معنی معروف ہیں( یعنی سب جانتے ہیں)۔ اور شیخ صدوق نے یہ اس روایت کے تحت لکھا جس میں فرمایا گیا ہے کہ (ملعون ملعون من نکح بھیمۃ) یعنی وہ ملعون ہے جو جانور سے نکاح کرے۔ (معانی الاخبار ص ۴۰۳)
یہاں پر نکاح کے لفظ سے اگر ہم یہ سمجھیں کہ جانوروں کے ساتھ حرام فعل کرنا اسلامی نکاح ہے، تو میں کہتا ہوں کہ یہ بھی ایسی ہی جاہلیت ہے جس طرح کی جاہلیت کا مظاہرہ خیر طلب نے نکاح المتعہ کو اسلامی متعہ سمجھ کر کیاہے۔ جان لیجئے کہ نکاح کے لغوی معنی جماع کے ہیں۔ مشہو شیعہ آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی کی ویب سائٹ پر انکا ایک درس شائع ہواہے، جس میں انہوں نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۲۱ کے بارے میں مشہور شیعہ مفسر طبرسی کے حوالے سے فرماتے ہیں : 
(معنای لغوی نکاح وطی و جماع است، کثرت الاستعمال در آن بودہ وبعد از کثرت استعمال بہ معنای عقد استعمال شدہ است) 
نکاح کے لغوی معنی وطی اور جماع کے ہیں۔ ان معنوں میں کثرت سے اس کا استعمال ہوا، اور اس کے بعد عقد کے معنوں میں بھی اس کا استعمال ہوا۔
(www.fazellankarani.com/persian/lesson/2897)
قارئین کرام ! اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ کیا نکاح المتعہ کہنے سے متعہ جائز قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ 

قولہ :قطعا کے معنی جب ہم نے لغت میں تلاش کرے تو فیروز لغت میں باین معنے ملے اصلا۔ہرگز۔ذرا بھی۔ بالکل۔ حوالہ: فیروز اللغات ، صفحہ ۹۵۹، طبع فیروز سنز لمٹیڈ۔
تو معنی کلام یہ ہے کہ سورۃ النساء کی آیت ۲۴ ہرگز ہرگز متعہ کے عنوان سے تعلق نہیں رکھتی ۔ اب اس قطعا کی گنجائش جب ہوتی جب اس آیت پر کسی سے متعہ کے حوالے سے اقوال منقول ہی نہیں ہوتے، لیکن مع الاسف شدید کلام صاحب نے بے بانگ دھل جو دعوی کیا ہے اسکی حقیقت سراب سے زیادہ نہیں جو دور سے تو حقیقت لگے اور تحقیق کے بعد دھول چاٹنی پڑے۔
کلام صاحب آپ سے انصاف کی امید تو کم ہی رکھتا ہوں لیکن منصف قارئیں کی توجہ علمائے اہلسنت کے اقوال کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ذیل میں علمائے اہلسنت کے اقوال نقل کئے جا رہے ہیں جو اجمالا علم کے لئے کافی ہیں ، تفصیل کے شائقین دیگر کتب فقہ، تفسیر کا مطالعہ کریں یا کبھی موقعہ ملا تو ہم شرح و بسط کے ساتھ اس پر لکھیں گے ۔ سردست اجمالی علم کے لئے درج ذیل اقوال بصارت کی نظر ہیں۔ 
۱۔ قرطبی رقم طراز ہیں:
قال الجمہور : المراد نکاح المتعۃ الذی کان فی صدر الاسلام
جمہور علماء نے سورۃ النساء کی آیت ۲۴ سے مراد نکاہ متعہ لیا ہے جو اسلام کے اوائل میں تھا۔ 
حوالہ: الجامع الاحکام القرآن۔جز۔۵۔ ص۔۱۳۰۔الناشر ۔دارالکتب ال مصریۃ۔القاھرۃ۔
۲: شوکانی رقم طراز ہیں:
قال الجمہور : ان المراد بھذہ الایۃ نکاہ المعۃ الذی کان فی صدر الاسلام۔ 
جمہور علماء نے سورۃ النساء کی آیت ۲۴ سے مراد نکاہ متعہ لیا ہے جو اسلام کے اوائل میں تھا۔ 
حوالہ: فتح القدیر، جز ۔۱، ص ۔۵۱۸، طبع دار ابن کثیر۔ 
کہاں جمہور کا فیصلہ اور کہاں کلام صاحب کا منفرد فیصلہ؟ میرے محترم مقابل ۔ الہی فیصلے کے حوالے سے ہم نشوری کے اور جمہوریت کے قائل نہیں لیکن آپ کے پسندیدہ خلفاء جو جمہور کے فیصلے سے خلیفہ بنے ، وہاں پر جمہوریت بہترین اور ادھر جمہور کا انکار؟ آخر اس دوغلی پالیسی کا کیا جواز ہے؟

اقول : جن علماء کے نزدیک یہ آیت نکاح صحیح کے بارے میں نازل ہوئی، ان کی فہرست ملاحظہ کیجئے۔
۱۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ فرماتے ہیں :
وقال اکثر المفسرین المتعۃ لیست مرادۃ من ھذہ الآیۃ بل معنی قولہ فما استمتعتم بہ منھن ما انتفعتم وتلذذتم بالجماع من النساء بالنکاح الصحیح فاتوھن اجورھن ای مورھن کذا قال الحسن ومجاہد
اکثر مفسرین کے نزدیک آیت میں متعہ مراد ہی نہیں ہے بلکہ صحیح نکاح کے بعد جماع سے بہرہ اندوز اور لذت گیر ہونا مراد ہے۔یعنی عورتوں سے نکاح کرنے کے بعد جب تم لذت یاب اور بہرہ اندوز ہوگئے تو ان کے مہر ادا کردو۔ حسنؒ اور مجاہد ؒ نے بھی یہی کہا ہے۔ (تفسیر مظھری ج ۲ ص ۷۸)
۲۔ ابن جوزی فرماتے ہیں :
واما الآیۃ فانھالم تتضمن جواز المتعۃ 
رہی مذکورہ آیت تو وہ جوازِ متعہ کو متضمن نہیں ہے۔ (زاد المسیر ج ۲ ص ۵۴)
۳۔ مولانا محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں :
اس آیت میں استمتاع سے بیویوں سے ہم بستر ہونا اور وطی کرنا مراد ہے۔ (معارف القرآن ج ۲ ص ۳۶۵)
۴۔ تفسیر حقانی میں ہے:
جمہور کے نزدیک یہاں بھی نکاح مراد ہے۔ اس کو اس لئے بیان کیا ہے کہ جب عورت سے نکاح کر کے صحبت کر لی تو نفع اٹھا لیا۔اس کا پورا مہر واجب ہو گیا۔ (تفسیر حقانی ج۲ ص ۱۴۴)
۵۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں :
والقول بانھا نزلت فی المتعۃ وتفسیر البعض لھا بذلک غیر مقبول لان نظم القرآن یاباہ         اس آیت میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ متعہ کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔ اور جن لوگوں نے متعہ سے تفسیر کی ہے تو وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ نظمِ قرآنی اس کی تردید کرتی ہے۔نیز فرماتے ہیں ان المراد بالاستمتاع ھو الوطئ والدخول لا الاستمتاع بمعنی المتعۃ التی یقول بھا الشیعہ
استمتاع سے مراد وطی اور دخول ہے ، نہ کہ استمتاع بمعنی متعہ جس کے شیعہ قائل ہیں۔ (تفسیر آلوسی ج ۴ ص ۱۵)
۶۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں :
حکی عن مجاھد بأنھا في المتعۃ ولکن الجمھور علی خلاف ذلک 
مجاھد سے حکایت کی گئی ہے کہ یہ آیت متعہ کے بارے میں ہے لیکن جمہور اس کے خلاف ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۲۶)
۷۔ علامہ ابوبکر الجصاص فرماتے ہیں:
وفی فحوی الآیۃ من الدلالۃ علی ان المراد النکاح دون المتعۃ 
مضمونِ آیت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں نکاح صحیح مراد ہے، متعہ نہیں۔ (احکام القرآن ج ۳ ص ۹۷)
۸۔ پیر کرم شاہ فرماتے ہیں : اس آیت سے متعہ روافض پر استدلال کرنا سراسر باطل ہے ۔کیونکہ محصنین غیر مسافحین کے الفاظ اس کی صراحتہََ تردید کرتے ہیں۔ (ضیاء القرآن ج ۱ ص ۳۳۴)
۹۔ امام عبدالرزاق الصنعانی فرماتے ہیں 
انا معمر عن الحسن فی قولہ تعالٰی (الآیۃ) قال : ھو النکاح 
(تفسیر القرآن لعبد الرزاق الصنعانی ج ۲ ص ۴۸)
۱۰۔ تفسیر الماتریدی میں لکھا ہے (واما عندنا، فانھا نزلت فی النکاح) (تفسیر الماتریدی ج ۳ ص ۱۱۵)
۱۱۔اسی طرح البدائع الصنائع میں لکھا ہے ( واما الآیۃ الکریمۃ فمعنی قولہ (الآیۃ) ای : فی النکاح ؛ لان المذکور فی اول الآیۃ وآخرھا ھو النکاح) (بدائع الصنائع ج ۲ ص ۲۷۳)
۱۲۔ اسی طرح تفسیر رازی میں بھی اس سے مراد نکاح لیا گیا ہے، نہ کہ متعہ۔ اور اسے اکثر علماء کا قول بھی قرار دیا ہے۔ (تفسیرالرازی ج ۱۰ ص ۴۱)
۱۳۔ تفسیر نیشاپوری میں بھی لکھا ہے (قال اکثر علماء الامۃ : ان الآیۃ فی النکاح الموبد)۔ (تفسیر نیشاپوری ج ۲ ص ۳۹۲)
۱۴۔ ابوحفص سراج الدین الحنبلی النعمانی نے بھی اپنی تفسیر میں فرمایا ہے کہ اکثر علماء کے مطابق اس آیت سے مرادنکاح صحیح ہے۔(اللباب فی علوم القرآن ج ۶ ص ۳۰۹)

اقول : اہل تشیع کے چودہ ستاروں کی مناسبت سے چودہ حوالے ہم نے پیش کر دیئے ہیں۔ قارئین بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ کلام نے جو کہا تھا، آیا وہ کلام کا منفرد قول تھا یا اکثر مفسرین کا قول۔ یہ بات یاد رہے کہ بعض اوقات بعض علماء کسی قول کو جمہور کی جانب منسوب کرتے ہیں، لیکن اگر تحقیق کرنے پر معلوم ہو جائے کہ یہ نسبت غیر صحیح ہے، تو اس کو جمہور کا قول سمجھنا غلط ہے۔ اور میں نے چودہ تفاسیر کے حوالے پیش کر دیئے ہیں، جس میں آپ نے جمہور کا قول سن لیا ہے کہ یہ آیت متعہ کے بارے میں نہیں ہے۔ اگر ان چودہ تفاسیر کے بعد بھی روافض ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کلام کا منفرد فیصلہ قرار دیتے ہیں، تو انشاء اللہ پھر ہم گیارہ حقیقی ائمہ کی مناسبت سے گیارہ تفاسیر کے حوالے پیش کریں گے۔

قولہ : کلام صاحب یہ تو شیعوں کا احسان سمجھیں جن کی بدولت آپکو اتنی ساری احادیث ملی۔ ایسی علم سے گری ہوئی بات یقیناًآپ سے ہی توقع کی جا سکتی ہے۔ 
کیا شیعہ ہونا ضعیف ہونے کی دلیل ہےَ؟ 
اگر یہ بات ہے تو صحیح مسلم بھی محفوظ نہ رہے گی۔
چنانچہ سیوطی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں:
قال الحاکم و کتاب مسلم ملان من الشیعۃ۔
حاکم فرماتے ہیں کہ مسلم بن حجاج نیشاپوری صاحب کی کتاب یعنی صحیح مسلم شیعوں سے بھری ہوئی ہے۔
حوالہ: تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی۔ج۔۱، ص۔۳۸۵، الناشر ۔دار طیبۃ۔
آپ تو خیر کسی شمارے میں نہیں آتے علامہ شمس الدین ذہبی نے اپنی کتاب میں اس شبہ کا پہلے ہی جواب دے دیا ہے۔
فلقائل ان یقول : کیف ساغ توثیق مبتدع وحد الثقۃ العدالۃ والاتقان ؟ فکیف یکون عدلا من ھو صاحب بدعۃ ؟ وجوابہٗ ان البدعۃ علی ضربین : فبدعۃ صغری کغلو التشیع ، او کالتشیع بلا غلو ولا تحرف ، فھذا کثیر فی التابعین وتابعیھم مع الدین و الورع والصدق فلو رد حدیث ھوٗ لاء لذھب جملۃ من ا لآثار ۔ النبویہ ، وھذہ مفسدۃ بینۃ۔
کہنے والا کہہ سکتا کہ بدعتی کو بھلا کیسے ثقہ، عادل اور اچھے حفظ والے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ عادل بھی ہے اور صاحب بدعت بھی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بدعت دو اقسام کی ہیں ایک چھوٹی جیسے شیعیت غلو والی یا بغیر غلو والی شیعیت ۔ یہ شیعیت تو کثیر تابعین اور تبع تابعین میں تھی اگر چہ وہ کافی دیندار ، متقی اور سچے تھے۔ اگر ان تمام احادیث کو رد کر دیا جائے تو جملہ احادیث نبوی ذائل ہو جائیں گی ، اور یہ بڑی ظاہر گھاٹے والی بات ہے۔
حوالہ: میزان الاعتدال۔ جز ۔ اول، صفحہ ۔۵، ناشر ۔دارالمعرفہ ، لبنان۔
کیوں کلام صاحب طبیعت خوش ہوئی ، 

اقول : ہماری طبیعت تو اہلتشیع کے امام شیخ حر العاملی ، مصنف وسائل الشیعہ، کا یہ قول پڑھ کر پہلے سے ہی خوش ہے ، جس میں انہوں نے شہید ثانی کے بارے میں دھماکہ خیز انکشاف کیا۔آپ کی طبیعت بھی خوش کر دیتے ہیں۔ حر عاملی فرماتے ہیں:
ھو أول من صنف من الامامیۃ في درایۃ الحدیث، لکنہ نقل الاصطلاحات من کتب العامۃ کما ذکرہ ولدہ وغیرہ
وہ(یعنی شہید ثانی ) امامیہ میں سے پہلا فرد ہے جس نے درایۃ الحدیث کے بارے میں کتاب لکھی، لیکن اس نے اصطلاحات اہلسنت کی کتب سے نقل کیں، جیسا کہ اس کے بیٹے اور دوسروں نے ذکر کیا ہے۔ (أمل الآمل ، ج ۱ ص ۸۶)
اس کو پڑھ کر تو ہر امامی کی طبیعت خوش ہوگئی ہوگی۔ اب آپ نے جو لکھا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی آپ کو اپنی کتب میں اہلسنت راویوں کی تعداد اور ان کی روایات پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے؟جب آپ کی اپنی کتب اہلسنت اور دیگر غیر اثنا عشری راویوں سے بھری پڑی ہیں، تو ہم کوکس منہ سے الزام دیتے ہو؟
اور میں نے احمد بن مفضل کو شیعہ کہا ہے، لیکن ضعیف نہیں کہا۔ آپ کو جاننا چاہئیے کہ حدیث کا ایک اصول یہ ہے جو ابن حجرؒ نے اپنی کتاب نخبۃ الفکرمیں بیان کیا ہے:
یقبل من لم یکن داعیۃ إلی بدعتہ في الأصحّ إلا إن روی ما یقوي بدعتہ فیرد علی المختار
جو شخص اپنی بدعت کی طرف دعوت نہ دے، اس کی روایت قبول کی جائے گی، سوائے اس کے کہ اس کی روایت اس کی بدعت کو پختہ کرتی ہو، ایسی صورت میں مختار قول کے مطابق اسے رد کیا جائے گا۔(نخبۃ الفکر ج ۱ ص ۱۹)
پس میں اس روایت کو اسی واسطے رد کر رہا ہو ں، کہ اس میں شیعہ راوی ہے، اور یہ روایت اسکے مذہب کی تائید میں ہے۔اس لئے اس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

قولہ : اب ہم راوی احمد بن مفضل کی توثیق پر آتے ہیں۔
۱: ابو حاتم نے راست گو و سچا کہا۔
۲: ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا
۳: ابوبکر بن ابی شیبہ نے خیر کے الفاظ میں یاد کیا 
حوالہ: تہذیب التہذیب، جز۔۱، ص۔۸۱، رقم ۔۱۳۹۔
جہاں تک آزدی کا منکر الحدیث کہنے کا تعلق ہے تو خود آزدی مجروح ہے اہلسنت کی نظر میں ، لہذا اس کے قول کی کوئی قیمت نہیں۔

اقول : توثیقات کا تو میں نے انکار ہی نہیں کیا، بلکہ جس وجہ سے اس روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا، وہ میں نے بیان بھی کر دیا ہے، یعنی اس روایت کا راوی بدعتی ہے، اور یہ روایت اس کی بدعت کی موید ہے ۔ البتہ خیرطلب نے خطبہ شقشقیہ کے حوالے سے ایک ایسی سند سے استدلال کیا ، جس میں ایک راوی ’’عکرمہ‘‘ نہ صرف خارجی ، بلکہ اہلتشیع کے نزدیک کذاب بھی ہے۔ اور اس کی دلیل یہ دی گئی کہ چونکہ عکرمہ کی روایت اس کے مذہب کے خلاف ہے، لہٰذا قابل قبول ہے۔ اس احمقانہ دلیل کو میں نے کسی کتاب میں نہیں پڑھا کہ ایک راوی بدعتی بھی ہو، اور کذاب بھی ہو، تو اس کی ایسی روایت قبول کی جائے گی جو اس کے مذہب کے خلاف ہو۔اصول تو یہ ہے کہ راوی بدعتی بھی ہو، اور اس کی توثیق بھی کی گئی ہو، تب ہی اس کی ان روایات کو قبول کیا جائے گا جو اس کی بدعت کے موافق نہ ہو۔اگر خیر طلب سے ہو سکے تو یہ اصول اپنی کتب میں کہیں سے دکھا دے۔

قولہ : اعتراض: سدی نے دیگر شرائط کا بھی ذکر کیا۔
جواب: خوب! بیشک اس کے ہم معترف ہے لیکن سردست ابھی اس کا متعہ کے لئے استدلال بتانا تھا جو ثابت ہے ۔ دیگر شرائط اصل قضیہ کا ابطال نہیں کرتی۔

اعتراض : مجاہد کے قول میں انقطاع ہے کیونکہ ابن ابی نجیح مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے نیز اس کا مجاہد سے سماع ثابت نہیں ۔

جواب : ماشا ء اللہ ماشا ء اللہ۔لگ رہاہے آپ تمام محققین کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔مجاہد کی تفسیر کا اکثر دارومدار ابن ابی نجیح کی سند ہے اور علماء اہلسنت کی تحریرات پڑھ لیتے تو شکایت نہیں کرتے کیونکہ ابن ابی نجیح اور مجاہد میں ایک واسطہ بیان کیا گیا ہے جس کا نام قاسم بن ابی بزہ ہے جو بالاتفاق اہلسنت علماء صحیح و ثقہ راوی ہے۔لہذا تدلیس کی قبیح جرح تو یہی ختم ہوجاتی ہے۔

آخر میں ہم شیخ عبدالعزیز بن مرزق الطریفی کا قول نقل کرینگے جو فقط عربی میں ہوگا اور مفہوم اردو میں :

وجاء التفسیر عن مجاہدمن وجوہ عدہ اصحھاما یرویہ ابن ابی نجیح عنہ ،وان لم یسمعہ من مجاہد ،کما قالہ یحیی القطان وابن حبان فھو کتاب صحیح نص علی صھۃ تفسیرہ الثوری کما حکاہ عنہ وکیح ،وصححہ ابن المدینی ایضاوعدم السماع لیس علۃ مطلقا،بل ھناک

الف ، ابن مدینی اور سفیان الثوری نے مجاہد کی تفسیر جو ابن ابی نجیح کے طریق سے آئی ہے اسکو صحیح قرار دیا ہے ۔
ب،ابن ابی نجیح کا مجاہد سے نہ سننا قادح نہیں بلکہ ابن ابی نجیح نے قاسم سے تفسیر کو اخذ کیا ہے جو ثقہ ہے۔
د،ابن تیمہ کے مطابق مفسرین کے پاس مجاہد کی تفسیر جو ابن ابی نجیح سے نقل ہوئی اس سے زیادہ صحیح تفسیر کوئی موجود نہیں ۔ 

کیوں کلام صاحب اتنے بڑے رجالی نہ بنا کریں جب چیزوں کا علم نہ ہو ۔اب صاحب منہج السنہ کا قول اگر یوں رد کر دیا جائے تو بے جاہوگا،دلیل واستدالال ضروری ہے جو ہماری تحریر میں ملیگا،باقی آپ فقط باتوں کے شیر ہے جن کو دلیل سے کوئی لگاوٗ نہیں ۔

اقول :اگرچہ میں خود کو قطعاََ عالم نہیں کہتا، بلکہ میں تو کتب پڑھنے کے علاوہ اورکسی چیز کا بھی دعوٰی نہیں کرتا، لیکن یہ کہنا کہ مجھے ان چیزوں کا علم نہیں تھا، صحیح نہیں۔ میں پہلے ہی یہ واضح کر چکا ہوں کہ ’’دونوں روایات سند کے لحاظ سے منقطع ہیں کیونکہ ابن ابی نجیح مدلس ہے اور عن سے روایت کر رہا ہے نیز مجاہد سے اس کا سماع ثابت نہیں۔ لیکن بعض نے ابن ابی نجیح المعتزلی کی مجاہدسے اخذ کی گئی تفسیر کو معتبر بھی قرار دیا ہے۔ لیکن جس روایت میں مجاہد نے فقط نکاح کا لفظ استعمال کیا ہے، اس میں بھی ابن ابی نجیح موجود ہے، اور اس کے بقیہ راوی ثقہ ہیں۔ اور نکاح کا لفظ یہ بتاتا ہے کہ یہاں پر فقط حقوق زوجیت ادا کرنا مراد ہے۔‘‘ چنانچہ میں اس کی وضاحت پہلے ہی کر چکا ہوں کہ بعض نے ابن ابی نجیح المعتزلی کی مجاہد سے اخذ کی گئی تفسیر کو معتبر بھی قرار دیا ہے۔خیر طلب میاں نے اپنا علمی رعب قارئین پر جھاڑنے کے لئے فقط اتنا کیا کہ جنہوں نے ابن ابی نجیح کی مجاہد سے اخذ کی گئی تفسیر کو معتبر قرار دیا،ان کے حوالے پیش کر دئیے۔ اور پھر فرماتے ہیں کہ ’’دلیل و استدلال ضروری ہے جو ہماری تحریر میں ملیگا‘‘۔یہ دلیل و استدلال ہمیں کھجوا کے شیعہ اکابرین کی کتب میں بھی ملا ، جنہوں نے قرآن کی آیت ’’یریدون ان یبدلوا کلم اللہ‘‘ ترجمہ : ’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں‘‘سے یہ استدلال کیا کہ قرآن میں تحریف واقع ہو چکی ہے۔(مشعل ہدایت ،سید اظہار حسین ، ص ۷) نیز فرماتے ہیں کہ’’ غرض جامعین قرآن نے اس آیہ کریمہ سے ان علیا مولی المومنین کو غائب کر دیا اب اونکے ہوا خواہ اور تابعین کہتے ہیں کہ اس آیہ میں حضرت علی کی خلافت کے متعلق اشارہ بھی نہیں ہے‘‘۔ (مشعل ہدایت ، سید اظہار حسین ، ص ۳۲۰) اور ان کا ایک مضمون ’’اہلسنت کا قرآن ‘‘ کے عنوان سے رسالہ اصلاح میں چھپا، جو اپنے زمانہ کا بدنام زمانہ شیعہ رسالہ تھا، جیسا کہ اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں لکھا ہے۔ معلوم نہیں اس میں موصوف نے کیا کیا گل کھلائیں ہوں گے۔ اور یہ کوئی چھوٹا موٹا شیعہ نہیں ہے، بلکہ رئیس کھجو ا’’سید محمد عسکری‘‘ نے اس کی کتاب پر تقریظ لکھی ہے، اور اس کی تحریف کے متعلق بیانات کی پذیرائی بھی کی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے ’’ابتداء ہی میں ص ۵ پر آیات قرآنی کے ردوبدل کااچھا ثبوت دیا ہے کہ کہیں کی آیت کہیں پائی جاتی ہے جس سے محکمات بھی متشابہات ہوئے جاتے ہیں‘‘ ۔ اور کسی مرزائی کے جواب میں کھجوا کا شیعہ ملا علی حیدر یوں گویا ہوا ’’جناب امیر کا نام بھی قرآن مجید میں موجود ہے وانہ فی ام الکتاب لعلی حکیم‘‘ (رد الملاحدہ ص ۲۶۳) 
مجاہد سے فقط ایک سند سے نکاح المتعہ کے الفاظ مروی ہیں، جبکہ پانچ اسناد میں فقط نکاح کے الفاظ ہیں، جس کا مطلب مباشرت ہوگا، نہ کہ نکاح المتعہ۔ان پانچ اسناد میں سے تین اسناد ایسی ہیں جن میں ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کی ہے۔ چنانچہ اگر آپ ابن ابی نجیح کی تفسیر کو بھی تسلیم کرتے ہیں، تب بھی کثرتِ طرق کی بنا پر النکاح کا لفظ ثابت ہوتا ہے، نہ کہ نکاح المتعہ کا۔
حدثنا المثنی قال : حدثنا أبو حذیفۃ قال : حدثنا شبل ، عن ابن أبي نجیح ، عن مجاھد : فما استمتعتم بہ منھن : النکاح (تفیسر الطبری)
میں نے اس کا ذکر پہلے بھی کیا تھا، لیکن جب کسی نے مکر و فریب سے ہی اپنا موقف ثابت کرنا ہو، وہ اس کی طرف توجہ کیوں دے گا۔
اسی طرح اس کی تائید ایک دوسری سند سے بھی ہوتی ہے جو کہ تفسیر طبری ہی میں موجود ہے۔
حدثنا القاسم ، قال : ثنا الحسین ، قال : ثني حجاج ، عن ابن جریج ، عن مجاھد ، قول فما استمتعتم بہ منھن قال: النکاح أراد (تفیسر طبری)
اسی طرح ابوجعفر النحاس نے ایک اور سند سے مجاہد سے یوں روایت کی ہے۔
کما حدثنا أحمد بن محمد الأزدی، قال حدثنا ابن أبی مریم، قال حدثنا الفریابی ، عن ورقاء ، عن ابن أبی نجیح ، عن مجاھد فما استمتعتم بہ منھن قال : النکاح (الناسخ والمنسوخ للنحاس ج ۱ص ۲۵۵)
اسی طرح ابن عبد البر نے اپنی کتاب ’’التمھید‘‘ میں ایک اور سند سے مجاھد سے یوں روایت کی ہے۔
حدثنا محمد بن عبد اللہ قال : حدثنا محمد بن معاویۃ قال : حدثنا أصحاب الفضل بن الحباب قال : حدثنا مسلم بن إبراھیم قال : حدثنا شعبۃ ، عن منصور ، عن مجاھد فی قولہ فما استمتعتم بہ منھن قال : النکاح (التمھید ج ۱۰ ص ۱۲۲)
نیز تفسیر ابن المنذرمیں بھی ابن ابی نجیح کی سند سے مجاہد سے جو قول نقل ہوا ہے، اس میں بھی فقط نکاح کا لفظ ہے۔
حدثنا موسی قال حدثنا عبد الاعلی قال حدثنا مسلم عن ابن ابی نجیح عن مجاھد فی قولہ عز و جل (الآیۃ ) قال : النکاح (تفسیر ابن المنذر ج ۲ ص ۶۴۱)

اس لئے کثرتِ طرق کو اگر دیکھا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مجاہد سے اس کی تفسیر میں النکاح کے الفاظ ثابت ہیں، نہ کہ نکاح المتعہ۔جس سے ثابت ہوا کہ مجاہد کے مطابق اس آیت سے مراد متعہ نہیں بلکہ مباشرت ہے۔

قولہ : قارئین کرام اب ہم مفسر قرآن وحبرامت جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نقطہ نظر کو یہاں واضع کریں گے۔اس پر جملہ اعتراضات جو کلام صاحب کی طرف سے ہوئے ہیں اس کا جواب بھی دیا جائے گا۔
اعتراض :ابن عباس نے متعہ کی اباحت کے قول سے رجوع کر لیا تھا۔
بحوالہ مسند ابو عوانہ 
جواب :جناب کلام صاحب جب ہم کوئی روایت نقل کرتے ہیں تو اس پر اتنی شدید جراح و نقد کی جاتی ہے کہ جیسے آسمان ٹوٹ پڑے اور جب آپ کوئی روایت پیش کریں تو اس میں ان اصول و قوانین کی رعایت کرنا ایک غیر معنی بات لگتی ہے ۔ ابن عباس کا مذہب اتنا مشہور و معروف ہے کہ سوائے چنیدہ حضرات جن کو اپنے علماء کی تحریرات سے شغف نہیں ،کوئی انکار نہیں کرتا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذہب ابن عباس کی وضاحت کر دی جائے ۔اور اس کے بعد دعویٰ رجوع پر سیر بحث کی جائے ۔

اقول :مسئلہ یہ ہے کہ آپ روایات پر جرح و نقد اصول و قوائد کی بجائے اپنے فائدے کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ اسی لئے کہیں پر ہمارے خلاف مرسل سے دلیل پکڑتے ہیں، اگرچہ اس مرسل میں کئی خامیاں مزید ہوں، اور جب آپ کو لگتا ہے کہ مرسل روایت آپ کے خلاف جا رہی ہے، تو آپ مرسل کی تضعیف کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ کہیں پر کسی روایت کی سند میں ناصبی ہو، اور آپ کے موقف کے خلاف ہو، تو آپ ناصبی کی وجہ سے روایت کو ضعیف قرار دینے پر بضد نظر آتے ہیں، اور کسی دوسری جگہ کسی روایت کی سند میں خارجی ہو ، اگرچہ اس کی توثیق بھی نہ کی گئی ہو، تب بھی آپ اس کو قبول کرنے میں بچوں کی طرح بضد نظر آتے ہیں۔ کسی روایت میں کوئی صاحب الاجماع ہو، اور وہ مرسل روایت بیان کرے، اور وہ روایت آپ کی تائید بھی کر رہی ہو، تو آپ فرمانے لگتے ہیں کہ ہمارے علماء کی ایک جماعت اصحاب الاجماع کی مراسیل کو قبول کرتی ہے، اور کسی روایت میں کوئی صاحب الاجماع ہو، اور وہ روایت آپ کے موقف کے خلاف جا رہی ہو، تو آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کی ایک جماعت نے اصحاب الاجماع کی روایات کو قبول نہیں کیا۔کسی روایت کی سند نہ ہو، تو شور مچاتے ہیں کہ اس کی تو کوئی سند ہی نہیں، اور اگر ایسی ہی کوئی بے سند روایت آپ کے موقف کی تائید کرتی ہو، تو آپ اس کے لئے تاویلیں ڈھونڈنے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔پھر آپ کو اعتراض ہوتا ہے کہ کلام آپ کی پیش کردہ روایتوں پر سخت جرح و نقد کرتا ہے۔ آپ کی علمی خیانتیں تو ایسی ہیں کہ چھپائے نہیں چھپتی۔اب چونکہ میں بسند صحیح ابن عباسؓ کا رجوع ثابت کررہا ہوں، تو آپ کو علماء کے اقوال یاد آ گئے ہیں۔میں کہتا ہوں تم ان علماء کا بھی تذکرہ کرتے جنہوں نے ابن عباسؓ کے رجوع کو تسلیم کیا، تو صورتحال خود ہی واضح ہو جاتی، لیکن اب ہم ہی اس کو بیان کر دیں گے انشاء اللہ۔ 

قولہ : ہمارے پاس ابن عباس کے مذہب کے اثبات کے مختلف طرق ہیں ،ایک طریقہ یہ ہے کہ روایات کو نقل کی جائے اور پھر اس پر بحث کی جائے ۔جو یقیناًاس سب سے بہتر طریقہ ہے کیونکہ اس میں قیل وقال نہیں چلے گی ،لیکن اس طریقہ میں ایک واضع مسئلہ یہ ہے کہ پھر ان ضعیف آثار کو بیچ میں لا دیا جائے گاجس میں ابن عباس کا رجوع لکھا ہے اور یوں بحث اپنے محور سے ہٹ جائے گی ۔دوسرا طریقہ علماء اہلسنت کے اقوال سے استنباط کرنا ہے جو یقیناًبحث کے ہر زاویہ اور قیل قال کی تحلیل کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچیں ہوں گے ۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ معترض کہ پاس بھاگنے کا کوئی موقعہ نہ رہے گا۔
البتہ معتبر روایات جو مطالب آئیں ہیں ان کی طرف اشارہ ضروری ہے تاکہ قارئیں آثار وروایات کے معاملہ میں اپنے آپ کو تشنہ محسوس نہ کریں ۔چناچہ ابن عباس وہی شخص ہے 
۱۔جن کا عبداللہ بن زبیر سے متعہ کے حوالہ سے معرکتہ الارا مناظرہ موجود ہے جس میں معترضین کو دندان شکن جواب دے کر خاموش کروایا گیا۔
۲۔جنہوں نے اسماء دختر خلیفہ اول کے مایہ نازو فیصلہ کن متعہ کی روئیداد کو نقل کیا۔
۳۔جنہوں نے سورۃالنساء آیت ۴۲ کی قرات اس انداز سے کی کہ جس سے متعہ کا اثبات واضع ہوتا ہو ۔اب قرات کو کوئی تفسیر سے تعبیر کرے یا تحریف سے ،ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ جس کی جو تحقیق وہ اس پر عمل کرے ۔
۴۔جنہوں نے عمر بن خطاب خلیفہ دوم کہ اس عمل پر خوب تنقید کی اور متعہ کو رحمت سے تعبیر کیا ۔
حق چاریاریوں کے لیے ان چار حوالہ جات کو مناسب جانتے ہوئے تحقیق کے سفر کو آگے بڑھاتے ہیں ۔

اقول :۔مزید ہم بیان کرتے جائیں کہ ابن عباسؓ وہی شخص ہے جس کے متعلق نہج البلاغہ میں درج ہے کہ حضرت علی نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا فلما رایت الزمان علی ابن عمک قد کلب ، والعدو قد حرب ، امانۃ الناس قد خزیت ، وھذہ الامۃ قد فتکت وشغرت قلبت لابن عمک ظھر المجن ففارقتہ مع الفارقین ، وخذلتہ مع الخاذلین وخنتہ مع الخائنین، فلا ابن عمک اسیت ، ولا الامانۃ ادیت۔وکانک لم تکن اللہ ترید بجھادک وکانک لم یکن علی بینۃ من ربک وکانک انما کنت تکید ھذہ الامۃ عن دنیاھم وتنوی غرتھم عن فیءھم۔ فلما امکنتک الشدۃ فی خیانۃ الامۃ اسرعت الکرۃ وعاجلت الوثبۃ ، واختطفت ما قدرت علیہ من اموالھم المصونتہ لاراملھم وایتامھم اختطاف الذئب الاذل دامیۃ المعزی الکسیرۃ فحملتہ الی الحجاز رحیب الصدر بحملہ غیر متاثم من اخذہ کانک لا ابا لغیرک۔ حدرت الی اھلک تراثاََ من ابیک وامک فسبحان اللہ ! اما تعمن بالمعاد؟ او ما تخاف نقاش الحساب؟ ایھا المعدود کان عندنا من ذوی الالباب کیف تسیغ شراباََ وطعاماََ وانت تعلم انک تاکل حراماََ و تشرب حراما؟ وتبتاغ الاماء وتنکح النساء من مال الیتامی والمساکین والمومنین والمجاھدین الذی افاء اللہ علیھم ھذہ الاموال واحرز بھم ھذہ البلاد۔

جب تم نے دیکھا کہ زمانہ تمہارے چچا زاد بھائی کے خلاف حملہ آور ہے اور دشمن بپھرا ہوا ہے۔ امانتیں لٹ رہی ہیں اور امت بے راہ اور منتشر و پراگندہ ہو چکی ہے تو تم نے بھی اپنے ابن عم سے رخ موڑ لیا اور ساتھ چھوڑ نے والوں کے ساتھ تم نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ، اور خیانت کرنے والوں میں داخل ہو کر تم بھی خائن ہو گئے۔ اس طرح نہ تم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ ہمدردی ہی کا خیال کیا، نہ امانت داری کے فرض کا احساس کیا۔ گویا اپنے جہاد سے تمہارا مدعا خدا کی رضامندی نہ تھا اور گویا تم اپنے پروردگار سے کوئی روشن دلیل نہ رکھتے تھے اور اس امت کے ساتھ اس کی دنیا بٹورنے کے لئے چال چل رہے تھے اور اس کا مال چھین لینے کے لئے غفلت کا موقع تاک رہے تھے ۔ چنانچہ امت کے مال میں بھر پور خیانت کرنے کا موقع تمہیں ملا ، تو جھٹ سے دھاوا بول دیا، اور جلدی سے کود پڑے اور جتنا بن پڑا، اس مال پر جو بیواؤں اور یتیموں کے لئے محفوظ رکھا گیا ھا، یوں جھپٹ پڑے جس طرح پھرتیلا بھیڑیا زخمی اور لاچار بکری کو اچک لیتا ہے اور تم نے بڑے خوش خوش اسے حجاز روانہ کر دیا اور اسے لے جانے میں گناہ کا احساس تمہارے لئے سد راہ نہ ہوا۔ خدا تمہارے دشمنوں کا برا کرے، گویا یہ تمہارے ماں باپ کا ترکہ تھا جسے لے کر تم نے اپنے گھر والوں کی طرف روانہ کر دیا۔ اللہ اکبر کیا تمہارا قیامت پر ایمان نہیں؟ کیا حساب کتاب کی چھان بین کا ذرا بھی ڈر نہیں؟ اے وہ شخص جسے ہم ہوش مندوں میں شمار کرتے تھے، کیونکر وہ کھانا اور پینا تمہیں خوش گوار معلوم ہوتا ہے اور حرام پی رہے ہو۔ تم ان یتیموں ، مسکینوں، مومنوں اور مجاہدوں کے مال سے جسے اللہ نے ان کا حق قرار دیا تھا، اور ان کے ذریعہ سے ان شہروں کی حفاظت کی تھی ، کنیزیں خریتے ہو، اور عورتوں سے بیاہ رچاتے ہو۔ (نہج البلاغہ مکتوب نمبر۴۱)
اسی طرح رجال کشی کی روایت پڑھئیے۔
جعفر بن معروف، قال حدثنا یعقوب بن یزید الانباری ، عن حماد ابن عیسی ، عن ابراھیم بن عمر الیمانی ، عن الفضیل بن یسار، عن ابی جعفر علیہ السلام قال اتی رجل ابی علیہ السلام فقال : ان فلانا یعنی عبدا للہ بن العباس یزعم انہ یعلم کل آیۃ نزلت فی القرآن فی ای یوم نزلت وفیم نزلت۔قال فسلہ فیمن نزلت ’’ومن کان فی ھذہ اعمی فھو فی الآخرۃ اعمی واضل سبیلا‘‘ 
فضیل بن یسار سے مروی ہے کہ امام باقر نے فرمایا : ایک شخص میرے والد (امام زین العابدین)کے پاس آیا اور کہا کہ فلاں یعنی عبدا للہ بن عباس یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ کس دن نازل ہوئی، اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔ تو میرے والد نے اسے کہا کہ تم اس سے پوچھو کہ قرآن کی یہ آیت ’’اور جو شخص اس (دنیا ) میں اندھا ہو، وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور (نجات کے) رستے سے بہت دور‘‘ کس کے متعلق نازل ہوئی۔ (رجال کشی ج ۱ ص ۲۷۴)
اس روایت کی ذیل میں شیعہ عالم محقق داماد فرماتے ہیں ’’وبالجملۃ ھذہ الحدیث الشریف طریقہ صحیح علی الاصح‘‘ یعنی اس حدیث شریف کا طریق صحیح ہے۔ گستاخِ اہل بیت شیخ یاسر خبیث اس روایت کے متعلق کہتا ہے ’’وقد ناقش بعض الرجالیین فی سند ھذہ الروایۃ، والحال ان بعض من ضعفوہ ۔کابراھیم بن عمر الیمانی موثق عند آخرین کالنجاشی وغیرہ‘‘ یعنی بعض رجالی حضرات نے اس روایت کی سند پر اعتراض کیا ہے، جبکہ ان میں سے بعض راوی جن کی انہوں نے تضعیف کی ہے،مثلاََ ابراہیم بن عمر الیمانی ، وہ دوسروں کے نزدیک موثق ہیں جیسے کہ نجاشی وغیرہ۔ 
اس کے علاوہ بھی ایک روایت رجال کشی میں موجود ہے، جس میں حضرت علی نے حضرت عباسؓ کے دونوں بیٹوں یعنی عبداللہ اور عبیداللہ پر لعنت کی ہے اور دعا کی ہے کہ اللہ تعالی ان کو نابینا کر دے چنانچہ فرمایا ہے ’’اللھم العن ابنی فلان واعم ابصارھما کما عمیت قلوبھما‘‘۔ (رجال کشی ج ۱ ص ۲۷۰) اگرچہ اس کی سند میں محمد بن سنان کو محقق داماد نے اصح قول کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے، لیکن ساتھ ہی لکھا ہے کہ اس کی توثیق بھی بعض شیعہ علماء جیسے شیخ مفید اور شیخ الاعظم مرتضی انصاری نے کی ہے۔اور مجلسی نے اس کی سند کو معتبر قرار دیا ہے۔ (حیات القلوب ج ۲ ص ۸۶۵)
اور پھر الکافی کی ایک روایت میں تو ابن عباسؓ کی ایسی مذمت بیان کی گئی ہے جس کو پڑھ کر خیر طلب جیسے لوگوں کو شرم کے مارے ڈوب مرنا چاہئے۔ملاحظہ فرمائیے :
امام جعفر اپنے والد امام باقر کا ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ایک روز امام صاحب بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک خود بخود ہنسنے لگے اور اس قدر زور سے ہنسی آئی کہ آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ پھر لوگوں سے فرمایا کہ اس وقت مجھے ابن عباس کا ایک واقعہ یاد آگیا، اسی پر مجھے اس قدر ہنسی آئی۔ اس کے بعد امام صاحب نے اپنی اور ابن عباس کی ایک گفتگواپنے دلدادوں کو سنائی ، جس میں انہوں نے ابن عباس سے مخاطب ہو کر کہا 
ھکذا احکم اللہ لیلۃ ینزل فیھا امرہ ان جحدتھا بعدما سمعتھا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فادخلک اللہ فی النار کما اعمی بصرک یوم جحدتھا علی ابن ابی طالب علیہ السلامقال فذلک عمی بصری ۔
ایسا ہی حکم اللہ کا اس رات میں جس میں اللہ کا حکم نازل ہوتا ہے، اگر تم اس بات کا انکار کرو گے بعد اس کے کہ رسولِ خدا ﷺ سے سن چکے ہو، تو اللہ تم کو دوزخ میں داخل کر دے گا جس طرح تمہاری آنکھ خدا نے اس دن پھوڑ دی تھی جس دن تم نے علی بن ابی طالب سے اس کا انکار کیا تھا۔ ابن عباس نے کہا کہ ہاں آنکھ تو میری اسی وجہ سے پھوٹ گئی تھی۔
امام صاحب مزید فرماتے ہیں فاستضحکت ثم ترکتہ یومہ ذلک لساخفۃ عقلہ یعنی پھر مجھے ہنسی آ گئی ، اور اس کے بعد میں نے اس سے بات کرنا چھوڑ دی، کیونکہ وہ بڑا بے وقوف شخص تھا۔ اور اس کے بعد ایک دفعہ پھر جو ملناہوا تو ابن عباسؓ کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ ھلکت واھلکت یعنی تم بھی ہلاک ہوئے اور دوسروں کو بھی ہلاک کر ڈالا۔ (الکافی ج ۱ ص ۲۴۷)
اس روایت کے متعلق شیخ یاسر خبیث کہتا ہے کہ وقد ناقش بعض الرجالیین فی سند ھذہ الروایۃ ایضا من جھۃ تضعیف الحسن بن العباس بن حریش مع ان الراوی لیس بمتھم فی شیء یعنی بعض رجالی حضرات نے اس روایت کی سند پر بھی حسن بن عباس بن حریش کی تضعیف کی وجہ سے اعتراض کیا ہے، حالانکہ یہ راوی کسی چیز میں متہم نہیں ہے۔
میں کہتا ہوں کہ رجال کشی کی دونوں اسناد بھی ضعیف ہیں، اور الکافی کی سند بھی ضعیف ہے، لیکن شیعہ علماء کے اقوال بیان کرنے کا مقصدصرف یہ تھا کہ بعض شیعہ جہلاء اہلسنت پر اعتراض کرتے ہیں جب علماء کے اقوال میں اختلاف آجاتا ہے،اور انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے علمِ حدیث کا کیا حال ہے۔بہرحال رجال کشی اور الکافی کی اسناد ضعیف ہیں، لیکن نہج البلاغہ کا خطبہ عبداللہ بن عباسؓ کی مذمت میں وارد ہوا ہے ، اور ان تینوں روایات سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ اہل تشیع کے بارہ ائمہ کے نزدیک ابن عباسؓ کوئی ایسی قابل قدر شخصیت نہیں، جس سے شیعوں کو ہدایت حاصل کرنی چاہئے۔ مشہور شیعہ عالم اور محقق میرزا محمد باقر لاہیجانی نے اپنی شرح نہج البلاغہ میں واضح طور پراس مکتوب میں مخاطب شخص سے مراد حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو تسلیم کیا ہے۔شرح نہج البلاغہ منظوم میں لکھا ہے کہ از مطالعہ مطالب و جملات مکتوب ظن نزدیک بیقین برای انسان حاصل می شود کہ مخاطب ابن عباس است یعنی مطالب اور جملات مکتوب کے مطالعہ کے بعد انسان کا ظن یقین میں تبدیل ہو جاتا ہے کہ مخاطب ابن عباسؓ ہے۔ اسی طرح شرح منہاج البراعہ میں شیخ حبیب اللہ الخوئی نے بھی لکھا ہے کہ والاکثر علی انہ عبد اللہ بن عباس اکثر کے نزدیک اس سے مراد عبداللہ بن عباس ہے۔ابن میثم نے بھی اپنی شرح میں لکھا ہے کہ المشہور ان ھذ الکتاب الی عبداللہ بن عباس حین کان والیا لہ علی البصرۃ ، والفاظ الکتاب تنبہ علی ذلک مشہور قول یہ ہے کہ اس مکتوب کا مخاطب عبد اللہ ابن عباس ہے، اور اس مکتوب کے الفاظ اس پر خبردار کرتے ہیں۔ شیخ محمد جواد مغنیہ اپنی شرح میں لکھتے ہیں : اکثر الباحثین او الکثیر منھم قالوا ان ھذہ الرسالۃ کتبھا الامام لابن عمہ عبد اللہ بن عباس اکثر تحقیق و تبحیث کرنے والے حضرات کے نزدیک یہ مکتوب امام علی نے اپنے چچازاد بھائی عبد اللہ بن عباس کو لکھا۔ نیز نہج البلاغہ کے محقق شیخ فارس تبریزیان نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ اس مکتوب میں حضرت علی نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو ہی مخاطب کیا ہے۔
موصوف فرماتے ہیں کہ ’’دوسرا طریقہ علماء اہلسنت کے اقوال سے استنباط کرنا ہے جو یقیناًبحث کے ہر زاویہ اور قیل قال کی تحلیل کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچیں ہوں گے ۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ معترض کہ پاس بھاگنے کا کوئی موقعہ نہ رہے گا۔‘‘ میں کہتا ہوں کیا ہی اچھا ہوتا جو آپ اس طریقے کو ہر جگہ استعمال کرتے۔لیکن چونکہ یہاں پر موصوف نے اس مقام پر بحث کو علماء کے اقوال تک محدود رکھا ہے، تو ہم بھی یہاں خواہ مخواہ روایات کو درمیان میں نہیں لائیں گے۔

قولہ : علماء اہلسنت کی تصریح کے ابن عباس متعہ کو جائز و حلال سمجھتے 
۱۔ابن تیمہ الحرانی :
سب سے پہلے ہم مذہب اہلسنت کے شیخ الاسلام جو ہمارے نزدیک شیخ الامویہ ہے اور شیعہ دشمنی میں سند و میزان سمجھے جاتے ہیں ابن تیمہ الحرانی کا قول نقل کرتے ہوئے جو اس تحریر کے ایک حصہ میں نقل کیا گیا ہے ۔
چناچہ ابن تیمہ رقم طراز ہے : انہ رخص فیہ ابن عباس وطائفۃ من السلف ؛بخلاف التحلیل فاء نہ لم یرخص فیہ احد من الصحابۃ۔ نکاح متعہ کی اجازت ابن عباس اور سلف میں سے ایک گروہ نے دی ہے جب کہ حلالہ کی اجازت کسی بھی صحابی نے نہیں دی۔ حوالہ :مجموع الفتاوی جز ،۳۲ ،ص،۹۳ ۲۔اہل مکہ اور اہل یمن کی وضاحت علامہ اوزاعی جو فقیہ شام ہے اور تعارف کے محتاج نہیں ،ان کا قول یہ واشگاف موجود ہے : اہل حجاز کے قول سے ۵ باتیں چھوڑ دی جائیں اور ان میں سے ایک یہ بات تھی کہ اہل مکہ کا فتوی کے متعہ حلال ہے اور اہل مدینہ کا قول کہ دبر سے جمع کرنا جائز ہے ۔ حوالہ :نیل الاوطار ،جز ،۶۔ص۔۱۶۸ ۔الناشر ۔دارالحدیث ،مصر اس قول کا اصل ماخذ علامہ حاکم نیشاپوری کی کتاب معرفتہ علوم حدیث صفحہ ۶۸ نوع نمبر ۲۰ ،ناشر دارالکتب العلمیہ عربی عبارت یہ رہی : ثنا ابوالعباس محمد بن یعقوب قال:اخبرنا العباس بن الولید البیروتی قال:ثنا ابو عبدللہ بن بحر قال:سمعت الاوزاعی یقول :یتجنب او یترک من قول اھل العراق خمس ،ومن قول اھل الحجاز خمس ،ومن قول اھل العراق :شرب المسکر والاکل عند الفجر فی رمضان ،والا جمعتہ الا فی سبعۃ امصار ،وتاخیر صلاۃالعصر حتی یکون ظل کل شیء اربعۃ امثالہ والفرار یوم الزحف ومن قول اھل الحجاز :استماع الملاھی والجمع بین الصلاتین من غیر عذر والمتعۃ بالنساء والدرھم بالدرھمین والدینار بالدینارین یدابید واتیان النساء فی ادبارھن 
اس عبارت کو نقل کرنا دراصل ابن عباس کی بات سے مربوط کرنا تھاکیونکہ اہل مکہ یا اہل حجاز کا قول ہوا میں تیر چلانے کا مصداق نہیں بلکہ ان کی دلیل ابن عباس کا متعہ کو حلال جاننا ہے چناچہ اگلے ہی صفحہ میں علامہ شوکانی کہتے ہیں :
روياھل مکہ والیمن عن ابن عباس اباحۃ المتعۃ اہل مکہ اور اہل یمن ابن عباس سے متعہ کی اباحت کا قول نقل کرتے ہیں ۔ حوالہ :نیل الاوطار ،جز ،۶۔ص۔۱۶۲ ۔الناشر ۔دارالحدیث ،مصر ۳ ۔علامہ ابوعمر صاحب الاستیعاب کا قول الاستیعاب فی معرفتہ الاصحاب علامہ ابن عبد البرابو عمر کی بیش بہا کتاب ہے جس کو ہر اہلسنت توصیف و تعریف کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔علامہ ابوعمر کبھی نہیں چاہیں گے کہ صحابی پر آنچ بھی آئے لیکن وہ بھی رافضیوں والے متعہ کو ابن عباس کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔چناچہ یہ قول باوقارابھی بھی کتب کی زینت بنا ہوا ہے ۔اصل عبارت کچھ یوں ہے :
قال ابو عمر :اصحاب ابن عباس من اھل مکۃوالیمن کلھم یرون المتعۃ حلالا علی مذہب ابن عباس اہل مکہ و اہل یمن میں سے ابن عباس کے تلامذہ و اصحاب تمام متعہ کو حلال جانتے تھے اور اسکی وجہ ابن عباس کا متعہ کو حلال جننا تھا۔ حوالہ :الاستذکار الجامع لمذاہب فقھاء المصار جز ۔۵،ص الناشر ۔دارالکتب العلمیۃ ۔بیروت یہی بات علامہ قرطبی نے اپنی کتاب الجامع لاحکام القرآن ۔جز۔۵،صفحہ ۔۱۳۳،الناشر ۔دارالکتب المصریۃ۔القاھرۃمیں نقل کی ہے۔ ۴۔علامہ ابن حجر عسقلانی کا فیصلہ حافظ الدنیا رقم طراز ہے: اجازۃالمتعۃعنہ اصح وھو مذہب الشیعۃ ابن عباس سے متعہ کی اباحت واجازت زیادہ صحیح بات ہے جوکہ مذہب شیعہ کا مسلک بھی ہے حوالہ: فتح الباری ۔جز ۔۹،ص ۔۱۷۳ ۵۔علامہ ابن کثیر الشامی کا فیصلہ علامہ کہتے ہے: قد ذہب بعض السلف منھم اب عباس الی اباحتھا سلف میں سے بعض جن میں ابن عباس بھی شامل ہے اس کی اباحت کے قائل تھے۔ حوالہ :البدایۃوالنھایۃ۔جز ۶ ،ص۔۲۷۹۔ علامہ ابن کثیر ۵ صفحات کے بعدہی یہ لکھتے ہیں : ومع ھذامارجع ابن عباس عما کان یذہب الیہ من اباحت الحمر والمتعۃ اس کے باوجود ابن عباس کا متعہ کو جائز جاننااور پالتو گدھے کے گوشت کو حلال جاننے میں کبھی رجوع نہیں کیا۔ حوالہ :البدایۃوالنھایۃ۔جز ،۶ ،ص۔۲۷۸ ۵۔علامہ ابو الفرج حلبی کا فیصلہ : علامہ حلبی اپنی مشہور سیرت کی کتاب میں رقم طراز ہے : وفی کلام فقھائنا:والنھی عن نکاح المتعۃ فی خبر الصحیحین الذی لو بلغ ابن عباس رضی اللہ عنھما لم یستمر علی القول بابا حتھا ہمارے فقہاء کے قول کے مطابق نکاح متعہ کے منع کے حوالے سے صحیحین میں خبر موجود ہے جو اگر ابن عباس تک پہنچ جاتی تو وہ متعہ کی حلت پر باقی نہ رہتے ۔ حوالہ :انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون جز ۳ ص ۳۶۷، الناشر: دارالکتب العلمیۃ ۔ بیروت ۷۔ علامہ شوکانی کا فیصلہ علامہ صاحب کہتے ہیں واجازۃ المتعۃ عنہ اصح وھو مذھب الشیعۃ ابن عباس سے متعہ کی اباحت و اجازت زیادہ صحیح بات ہے جو کہ مذھب شیعہ کا مسلک بھی ہے۔ حوالہ : نیل الاوطار جز ۶، صفحہ ۱۶۲، الناشر : دار الحدیث، مصر ۸۔ علامہ ملا علی قاری حنفی کا فیصلہ فقد ثبت انہ مستمر القول علی جوازھا ولم یرجع الی قول علی یہ بات پایہ ثبوت تک ہے کہ ابن عباس متعہ کے جواز کے فتوے پر پوری زندگی قائم رہے اور انہوں نے امام علی ع کے قول کی طرف مراجعت نہیں کی جو حرمت متعہ پر تھا۔ حوالہ : مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جز ۵ ص ۲۰۷۵، الناشر: دار الفکر ، بیروت۔ لبنان ، کتاب النکاح ۹۔ علامہ قاضی خان حنفی علامہ فرماتے ہیں ولا ینعقد النکاح بلفظۃ المتعۃ وھی باطلہ عندنا لا تفید الحل خلافا لابن عباس و مالک رضی اللہ عنھما نکاح متعہ کے الفاظ سے منعقد نہیں ہوتا ، اور ایسا نکاح ہمارے نزدیک باطل جو حلال نہیں برخلاف ابن عباس اور مالک بن انس کے جو جائز سمجھتے یہں۔ حوالہ : فتاوی قاضی خان، جز اول ، ص ۱۵۱، طبع نولکشور لکھنوو ص ۳۲۴ طبع شامل۔ ۱۰ ۔ علامہ ابن ھمام حنفی فرماتے ہے: فقد ثبت انہ مستمر القول علی جوازھا ولم یرجع الی قول علی یہ بات پایہ ثبوت تک ہے کہ ابن عباس متعہ کے جواز کے فتوے پر پوری زندگی قائم رہے اور انہوں نے امام علی ع کے قول کی طرف مراجعت نہیں کی جو حرمت متعہ پر تھا۔ حوالہ : فتح القدیر، جز ۳ ،ص ۲۴۹، ناشر : دارالفکر۔ تبصرہ: ہم دس گزارشات اہلسنت قارئین کے حضور پیش کر رہے ہیں، باقی ابھی اور حوالے جات بھی ہیں لیکن فی الحال د س علماء کے اقوال پر اکتفاء کیا گیا ہے۔

اقول:
اقول: اب میں بھی علماء اہلسنت ہی کے اقوال پیش کرتا ہوں، جنہوں نے ابن عباسؓ کے رجوع کو تسلیم کیا۔

۱۔ ابوبکر الدمیاطی نے لکھا ہے کہ (وما نقول عن ابن عباس من جوازھا رجع عنہ) (حاشیۃ إعانۃ الطالبین ج ۴ ص ۱۶۴)
۲۔ اسی طرح شمس الدین الشربینی فرماتے ہیں (وابن عباس رجع عنہ کما رواہ البیھقی ) (مغني المحتاج ج ۱۶ ص ۳۶۱)
۳۔ عبد الحی لکھنوی موطا امام مالک پر اپنی تعلیق میں فرماتے ہیں (ثبت انہ رجع عنہ) (التعلیق الممجد علی موطا محمد ج ۲ ص ۵۲۴) 
۴۔ اسی طرح ابوبکر الجصاص احکام القرآن میں فرماتے ہیں (ولا نعلم احدا من الصحابۃ روي عنہ تجرید القول في اباحۃ المتعۃ غیر ابن عباس وقد رجع عنہ) (احکام القرآن ج ۳ ص ۱۰۲)
۵۔ ابوبکر السرخسی فرماتے ہیں (وابن عباس رضي اللہ عنھما کان یقول باباحۃ المتعۃ ثم رجع إلی قول الصحابۃ ) (اصول السرخسی ج ۱ ص ۳۲۱)
۶۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں (وابن عباس رضی اللہ عنہ ، صح رجوعہ بعد ما اشتھر عنہ من اباحتھا) (شرح مسند ابی حنیفہ ج ۱ ص ۵۵۰)
۷۔ ابن عابدین فرماتے ہیں (وقد صح رجوع ابن عباس عن القول بجوازھا ) (الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین ج ۴ ص ۴۹۳)
۸۔ عبد اللہ بن محمود الموصلی الحنفی فرماتے ہیں (وصح ان ابن عباس رجع الی قولھم) (الاختیار لتعلیل المختار ج ۳ ص ۸۹)
۹۔ ابو الحسین یحیی بن ابی الخیر العمرانی الشافعی فرماتے ہیں (قلنا وقد رجع عنہ) (البیان فی مذھب الامام الشافعی ج ۹ ص ۲۷۷)
۱۰۔ علامہ ناصر الدین البیضاوی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں (وجوزھا ابن عباس رضی اللہ عنھما ثم رجع عنہ) (تفسیر البیضاوی ج ۲ ص ۶۹)
۱۱۔ تفسیر بحر المحیط میں لکھا ہے (والاصح عنہ الرجوع الی تحریمھا) ۔ ( تفسیر بحر المحیط ج ۳ ص ۵۸۹)
۱۲۔ علامہ ابوالعباس احمد الحسنی المغربی فرماتے ہیں (وجوزہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ثم رجع عنہ) ۔ (البحر المدید فی تفسیر القرآن المجید ج ۱ ص ۴۸۸)

گیارہ اصلی اور ایک فرضی امام کی مناسبت سے ہم نے بارہ حوالے پیش کر دیئے ہیں، لیکن ہمارے ان حوالوں میں کوئی حوالہ غیر حقیقی نہیں ہے۔اور اس کے علاوہ بھی ابن عباس کے رجوع کے قائل کئی علماء کے نام گنوائے جا سکتے ہیں، پس خیر طلب کو جان لینا چاہئے، کہ کلام نے جو ابن عباسؓ کے رجوع کا دعوی کیا ہے، تو یہ علماء کے اقوال میں ناپید ہرگز نہیں، اور ابوعوانہ کی سند پر جو خیر طلب نے انتہائی ضعیف ترین اعتراضات کر کے خود کو شرمندہ کرنے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں کیا، اس کا حال بھی آپ اگلی سطور میں ملاحظہ کر لیں گے۔

قولہ : ابن عباس کا متعہ سے رجوع والی روایات ضعیف ہیں 
اگرچہ اب مزید کلام کی حاجت نہیں رہ جاتی ابن عباس کے مسلک کو واضح کرنے کے لئے لیکن پھر بھی اتمام حجت کے طور پر ہم ان چند علماء اہلسنت کا نام ذکر کر دیں جو ابن عباس کے رجوع کی روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔
۱۔ علامہ ابن حجر عسقلانی قول ابن بطال نقل ہوتے ہوئے کہتے ہے وروی عنہ الرجوع باسانید ضعیفۃ ابن عباس سے متعہ کے رجوع کی روایات ہیں جو ساری ضعیف اسناد سے ہیں حوالہ : فتح الباری ، جز ۹، ص ۱۷۳، الناشر : دارالمعرفۃ ۲۔ علامہ شوکانی قول ابن بطال نقل ہوتے ہوئے کہتے ہے : وروی عنہ الرجوع باسانید ضعیفۃ ابن عباس سے رجوع کی روایات ہیں جو ساری ضعیف اسناد سے ہیں۔ حوالہ : نیل الاوطار، جز ۶، ص ۱۶۲، الناشر: دار الحدیث، مصر ۳۔ علامہ شروانی کہتے ہے : ولعل الاولی من عدم صحۃ رجوع ابن عباس ابن عباس سے رجوع کی روایات کی صحت ثابت نہیں حوالہ : حاشیۃ تحفۃ المحتاج فی شرح المنھاج ، جز ۷ ، صفحہ ۲۲۴، الناشر : المکتبۃ التجاریۃ الکبری بمصر لصاحبھا مصطفی محمد ۴۔ علامہ ابن حجر ہیثمی کہتے ہے : وحکایۃ الرجوع عنہ لم تصح ابن عباس سے رجوع کی روایات کی صحت ثابت نہیں حوالہ : تحفۃ المحتاج فی شرح المنھاج ، جز ۷، صفحۃ ۲۲۴، الناشر ، المکتبۃ التجاریۃ الکبری بمصر لصاحبھا مصطفی ۵۔ علامہ زکریا کاندھلوی علامہ صاحب لکھتے ہے : وھذا علی انہ لم یصح رجوع ابن عباس عنہ یعنی ابن عباس سے متعہ کی اباحت کے حوالے سے رجوع صحیح نہیں حوالہ : اوجز المسائل ، جز ۱۰، ص ۵۳۳، ناشر دار القلم دمشق نوٹ : ہمارے پاس علامہ مودودی کا فتوی اور ابن عباس کے مسلک کے حواے سے ان کی گزارش اور ان کا ایک چاہنے والے مفتی صاحب کی گزارشات بھی ہیں جو کلام صاحب کے کمزور دلائل کوتوڑنے کے لئے کافی ہے لیکن چونکہ مودودی ان پر حجت نہیں اس لئے ہم ایسی چیزوں کو نقل کرنے سے فی الحال احتراز کریں گے۔ 
علامہ البانی کا مسلک ابن عباس پر فیصلہ کن قول 
علامہ البانی کہتے ہے وجملۃ القول : ان ابن عباس رضی اللہ عنہ وروی عنہ فی المتعۃ ثلاثہ اقوال : الاول : الاباحۃ مطلقا ۔ الثانی : الاباحۃ عند الضرورۃ ۔ والآخر : التحریم مطلقا وھذا مما لم یثبت عنہ صراحۃ بخلاف القولین الاولین فھما ثابتان عنہ
ابن عباس کے تین اقوال متعہ کے حوالے سے ملتے ہیں ۱۔ مطلقت اباحت کی ۲۔ ضرورت کے وقت جائز ہونا ۳۔ مطلق حرام ہونے کا ان میں سے تیسرا قول تو بالکل ثابت نہیں اگرچہ شروع کے دو اقوال یعنی اباحت کے ثابت ہے۔ ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل ، جز ۶ ، صفحۃ ۳۱۹، الناشر : المکتب الاسلامی ۔ بیروت

اقول : عرض ہے کہ جن روایات کو علماء نے ضعیف قرار دیا، ان سے میں نے استدلال نہیں کیا، اور جس روایت سے میں نے استدلال کیا ہے، اس کو علماء نے ضعیف قرار نہیں دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ میں نے جو روایت پیش کی ہے، اس کے ضعف پر خیر طلب صاحب علماء کے اقوال پیش کرتے، لیکن اس کی ہمارے مد مقابل کو توفیق نہیں ملی، چنانچہ اس بے بسی کی حالت میں موصوف کے پاس ادھر ادھر کی ہانکنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔یہاں تک کہ علامہ مودودی اور ان کے چاہنے والے ایک صاحب کے قول سے میرے دلائل توڑنے کو کافی سمجھتے ہیں، جبکہ علامہ مودودی کا علمِ حدیث میں کیا مقام ہے، اس سے ہم سب باخبر ہیں۔ چونکہ خیر طلب صاحب کے پاس کوئی کام کی بات نہیں ہے، لہذا فضولیات میں وقت ضائع کر کے فقط صفحات کالے کررہے ہیں۔ اگر علامہ مودودی کو پیش بھی کیا گیا، تو میرے پاس بھی حافظ زبیر علی زئی کی مذکورہ روایت کے متعلق تصحیح موجود ہے،بلکہ ان کے نزدیک تو یہ روایت علی شرط مسلم ہے،جو علامہ مودودی صاحب اور ان کے چاہنے والے کے دلائل توڑنے کو کافی ہے۔ اور شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں اس حوالے سے کئی روایات کو زیرِ بحث لایا ہے، لیکن مستخرج ابوعوانہ کی سند پر انہوں نے کوئی بحث نہیں کی۔

قولہ : ہم یہ بتاتے چلیں کہ اس قول کی سند میں واضح مسئلہ ہے چونکہ اس کو بایں سند نقل کیا گیا ہے : قال یونس : قال ابن شھاب : وسمعت الربیع بن سبرۃ یحدث عمر بن عبد العزیز ۔ تنقیح اول : یونس بن یزید کا ابن شہاب زھری کی روایت میں ضعف ہے۔ اس دعوے کے اثبات کے لئے ہم مشاہیر اہلسنت کی اقوال کی طرف رجوع کریں گے۔ چنانچہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہے : یونس بن زید اگرچہ ثقہ تھے لیکن ان کو زہری سے روایت میںتھوڑا وہم تھا اور زہری کے علاوہ راویوں میں خطا۔

اقول : اہلتشیع کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی راوی کثیر الخطا ہو، لیکن ان کے مذہب کے موافق کوئی روایت بیان کر رہا ہو، تو اس کی روایت قبول کرنے میں ہرگز دیر نہیں کرتے۔ جیسا کہ آگے حضرت معاویہؓ کے متعلق ایک روایت میں آپ ملاحظہ کر لیں گے جس میں ایک راوی کثیر الخطا اور دوسرا وہم سے متہم ہے۔ لیکن جو روایت ان کے موقف کے برخلاف ہو ، اس میں معمولی وہم بھی ان سے برداشت نہیں ہوتا۔ یونس بن یزید کے اس تھوڑے سے وہم کے باجود یہ سند صحیح ہے۔ شیخ البانی نے خود ’’صحیح وضعیف سنن الترمذی‘‘ میں ایک ایسی سند کو صحیح قرار دیا جس میں یونس نے زہری سے روایت کی۔
حدثنا قتیبۃ حدثنا أبو صفوان عن یونس بن یزید عن ابن شھاب الزھري (صحیح وضعیف الترمذي ج ۲ ص ۸۱)
ایک دوسری سند کو البانی صحیح اور امام ترمذی نے حسن صحیح قرار دیا جس میں یونس نے ابن شہاب الزہری سے روایت کی ہے۔
حدثنا أحمد بن الحسن حدثنا سعید بن أبي مریم حدثنا ابن وھب حدثني یونس عن ابن شھاب عن سالم عن أبیہ عن رسول اللہ (صحیح و ضعیف الترمذی ج ۲ ص ۱۴۰)
اسی طرح امام حاکم نیشاپوری نے اپنی مستدرک میں یونس بن یزید کی زھری سے روایت کو صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا ہے۔
أخبرنا أبو زکریا یحیی بن مھمد العنبري ثنا إبراھیم بن أبی طالب ثنا محمد بن یحیی ثنا عثمان بن عمر ثنا یونس بن یزید عن الزھری (المستدرک ج ۱ ص ۶۵۱)
اسی طرح ایک اور حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا جس کی سند یوں ہے۔
حدثنا علي بن حمشاذ العدل ، ثنا الحسن بن عبد الصمد ، ثنا عبدان بن عثمان ، ثنا عبداللہ بن المبارک ، عن یونس بن یزید ، أخبرنی أبو علي بن یزید ، عن ابن شھاب، عن أنس (مستدرک ج ۷ ص ۵۳)
اسی طرح صحیح بخاری مین ایک سند یوں ہے
حدثنا أحمد قال حدثنا ابن وھب قال أخبرنی یونس بن یزید عن ابن شھاب حدثنی عبد اللہ بن کعب بن مالک أن کعب أخبرہ (صحیح البخاری)
اور ایک دوسری سند یوں ہے 

القاسم بن بکر بن مضر عن عمرو بن الحارث عن یونس بن یزید عن ابن شھاب عن سعید بن المسیب (صحیح البخاری)
شعیب الأرنؤوط نے مسند احمد کی ایک روایت کی اسناد کو صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا، جس میں یونس نے زہری سے روایت کی ۔
حدثنا عبداللہ حدثني أبي ثنا یحیی بن آدم ثنا مبارک عن یونس عن الزھری عن السائب بن یزید (مسند احمد بن حنبل ج ۳ ص ۴۹۹)
اور ایک دوسری سند کی اسناد کو بھی صحیح قرار دیا جس میں یونس نے ابن شہاب سے روایت کی ۔
حدثنا عبد اللہ حدثني أبي ثنا علي بن إسحاق قال أنا عبد اللہ قال أنا یونس عن بن شھاب قال حدثني عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبۃ بن مسعود (مسند احمد بن حنبل ج ۳ ص ۴۴۱)
گزارش یہ ہے کہ اگر میں یونس بن یزید کی ابن شہاب زہری سے روایت کی تصحیح علماء کرام کی کتب سے دکھاتا جاؤں تو خدشہ ہے کہ پڑھتے پڑھتے خیر طلب کی طبیعت مزید خراب ہو جائے گی۔ امید ہے کہ موصوف دوبارہ اسناد کے معاملے میں احتیاط سے کام لیں گے۔یہ سند بالکل صحیح ہے۔ اس کے بعد خیر طلب نے مجھ پر مضحکہ خیز اعتراض کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے :

قولہ : کلام صاحب پوری روایت کو نقل کر دیتے تو بات اچھی ہوتی لیکن انہوں نے فقط اپنے مطلب کی بات نقل کی جس کو ہم ابھی طشت از بام کردیں گے ۔ روایت کے پہلے حصے میں ابن عباس شدو مد سے متعہ کا دفاع کرتے ہے ۔ جی ہاں قارئین کرام ۔ روایت کے پہلے حصے کا من و عن ترجمہ کرنا خوف طوالت کے باعث نہیں کر رہا لیکن اس مضمون میں یہ باتیں ہیں ۔عبداللہ بن زبیر حضرت عبداللہ بن عباس کو طعنہ دے رہے ہیں ان الفاظ میں کہ خدا نے ابن عباس کو آنکھوں سے تو اندھا کر ہی دیا ہے اور اب دل سے بھی اندھا کر دیا ہے کیونکہ ابن عباس متعہ کی حلت کا فتوٰی دیتے ہیں۔ابن عباس نے کہا کہ میری عمر کی قسم نکاح متعہ رسول ص کے زمانے میں ہوتاتھا پس یہ حلال ہے۔ابن زبیر کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں تمہیں پتھروں سے سنگسار کروں گا اس فتوی کی وجہ سے۔ ابن عباس متعہ کے بارے میں سوال کرنے والوں کو اس کی حلت کا فتوٰی دیتے یہاں تک کہ اہل علم حضرات نے اس فتوٰٰ ی حلت متعہ سے کراہت کا اظہار کیا ۔ابن عباس کے اس فتوے کی وجہ سے ان پر ایک نظم بھی بنائی گئی جو سراسر ان کے طعن پر مشتمل تھی۔ناظرین کرام اب انصار کرنے والوں سے ہم انصاف کے طلب گارہے کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ عدالت صحابہ کا ڈھنڈورا پیٹنے والا پھلا اخلاق ابن زبیروالی پوری روایت اور ابن عباس کے جواب کو نقل کرتے تاکہ قارئین انصاف کرتے لیکن بس اپنے مطلب کی بات لینا ان کا پرانا اور پسندیدہ مشغلہ ہے۔ہم منصف اہلسنت حضرات سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس روایت کے تناظر میں وہ پہلے تو عدالت صحابہ کا جنازہ نکالیں اور پھر ابن عباس جو اپنی پیری اور بڑھاپے کی عمر میں آکر آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوئے تھے ان کے استقلال کو سلام کریں کہ لوئمہ لائم کی پرواہ کئے بغیر کس شجاعت سے اپنے فتوے کا دفاع کیا۔اب اتنی ادھیڑ عمر کا آدمی ایک فتوی کا دفاع کر رہا ہے اور ایک تابعی کا قول یوں نقل کیا جارہا ہے۔قال ابن شھاب : وسمعت الربیع بن سبرۃ یحدث عمر بن عبد العزیز ، وانا جالس انہ قال : ما مات ابن عباس حتی رجع عن ھذہ الفتیا۔یعنی ابن عباس کا انتقال نہیں ہوا مگر یہ کہ انہوں نے متعہ کی حلت کے فتوے سے رجوع کر لیا۔ 

اقول : جی حضرت ابن عباس کے استقلال کو بھی سلام کریں، اور جب انہوں نے فتوے سے رجوع کر لیا، تو اس رجوع کو بھی بھرپور سلام پیش کیجئے ، کیونکہ یہ باسند صحیح نقل ہوا ہے۔لیکن اہل تشیع کو دین میں من مانی کے پرانے شوق کی وجہ سے باقی سب تو تسلیم ہے، لیکن حضرت ابن عباسؓ کا رجوع جب صحیح سند سے ثابت ہو گیا، تو اس کو ہضم کرنا ان کے لئے مشکل ہو رہا ہے۔بات اتنی سی ہے کہ حضرت ابو عوانہ نے اس ایک ہی روایت میں کئی اسناد کے ساتھ کئی واقعات کو نقل کیا ہے۔خوفِ طوالت کی وجہ سے خیر طلب خود اس کا ترجمہ نہیں کرنا چاہتے، اور ہمیں الزام دیتے ہیں کہ ہم نے پوری روایت کا ترجہ کیوں نہ کیا۔ معترض نے الزام ہمیں دیا، اور پھر خود بھی وہی جرم کر ڈالا۔ اگر ہم کہیں کہ یہ ایک روایت بہت سی روایات پر مبنی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ چنانچہ شروع میں حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت عبداللہ بن عباس کا واقعہ نقل کیا، جس کے متعلق خیر طلب نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا (ابن زبیر کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں تمہیں پتھروں سے سنگسار کروں گا اس فتوی کی وجہ سے) حالانکہ ابن زبیرؓ نے تو یہ کہا کہ فواللہ لئن فعلتھا لارجمنک باحجارک اگر آپ نے یہ فعل انجام دیا تو میں آپ کو سنگسار کروں گا۔ فتوے کی وجہ سے سنگسار کا کوئی ذکر ہی نہیں لیکن اہل تشیع کی عادت کافی پرانی ہے، اتنی جلدی نہیں جائے گی۔پھر دوسری سند سے ابن شہاب نے خالد بن مہاجر سے ایک دوسرا واقعہ بیان کیا جس میں ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور متعہ کے متعلق پوچھا، تو حضرت ابن عباس نے اس کا فتوٰی دیا، جس پر ابن ابی عمرہ الانصاری صحابی نے کہا یا ابن عباس انھا کانت رخصۃ فی اول الاسلام لم اضطر الیھا کالمیتۃ والدم ولحم الخنزیر ثم احکم اللہ الدین ونھی عنھا اے ابن عباس ، متعہ تو اوائل اسلام میں فقط ایک رخصت تھی ، مجبور کے واسطے، جیسے مردے کا گوشت، خون اور خنزیر کے گوشت کے سلسلے میں مجبوری میں رخصت دی گئی تھی۔ پھر اس سے روک دیا گیا۔پھر ایک دوسری سند سے ایک اور واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس سند میں ابن شہاب نے عبید اللہ بن عبداللہ سے روایت لی اور یہ وہی روایت ہے جس میں اہل علم نے ابن عباس کے فتوے پر ناراضگی کا اظہار کیا ،اور ابن عباس کے خلاف اشعار بیان کئے گے۔اس کے بعد اگلی سند میں وہ روایت نقل کی گئی ہے جس میں ابن شہاب نے ربیع بن سبرہ سے اور انہوں نے اپنے والد حضرت سبرہؓ سے روایت کی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں متعہ کرتے تھے، پھر ہمیں روک دیا گیا۔ اس کے بعد اگلی سند میں ابن شہاب زہری نے ربیع بن سبرہ سے روایت کی ہے کہ میں عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ بیٹھا تھا او ر میں نے ربیع بن سبرہ ؒ نے عمر بن عبد العزیزؒ کو بتایا کہ حضرت ابن عباسؓ نے فوت ہونے سے پہلے اس فتوے سے رجوع کر لیا تھا۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب علیحدہ واقعات ہیں۔ یہاں پر ہم یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ آیا حضرت ابن عباسؓ نے رجوع کر لیا تھا یا نہیں۔ اب اس سلسلے میں مجھے اس ایک روایت کو ہی نقل کرنا تھا جس میں امام زہریؒ اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ کے موجودگی میں حضرت ابن عباسؓ کے رجوع کے سلسلے میں حضرت ربیع بن سبرہ ؒ ثقہ تابعی کا بیان ہے۔ 
اب آپ خیر طلب کے دوسرے اعتراض کا جواب بھی ملاحظہ کیجئے۔

قولہ : تنقیح دوم: یہ قول زھری کا ہے سعید بن سبرہ کا نہیں۔ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں کہتے ہے: واخرج البیھقی من طریق الزھری قال ما مات ابن عباس حتی رجع عن ھذہ الفتیا وذکرہ ابوعوانۃ فی صحیحہ بیھقی نے زھری کے طریق سے روایت کی ہے کہ زھری کہتے ہے کہ ابن عباس نے مرنے سے پہلے متعہ کے فتوے سے رجوع کر لیا تھا۔ اس ہی بات کو ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ حوالہ : تلخیص الحبیر ، جز ۳ ص ۵۴۶ ، الناشر : دارالکتب العلمیۃ اب اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو یہ قول زھری کا ہے نہ کہ ربیع بن سبرہ کا ۔ اور اسے ہم زیادہ سے زیادہ بلاغات زھری قرار دے سکتے ہیں جو خود مناظرین اہلسنت و علماء اہلسنت کے نزدیک ضعیف ہیں۔

اقول :شاید بنظرِ عمیق سے خیر طلب کی مراد آنکھیں بند کر کے دیکھنا ہے۔ کیونکہ ابوعوانہ کی کتاب میں تو ہم ابھی ملاحظہ کر چکے ہیں کہ یہ قول ربیع بن سبرہ ؒ کا ہی ہے، نہ کہ امام زہری ؒ کا۔ اس لئے اس واضح اورآنکھوں دیکھے حال کے بعد بھی یہ کہنا کہ ابوعوانہ میں یہ قول امام زہری کا ہے، سراسر اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔لیکن اگر ایسی کوئی روایت اہلتشیع کے موقف کی تائید کرتی، اور ابن حجر نے ایسا کہا ہوتا ، تو سب سے پہلے خیر طلب ہی ابن حجر کے قول کو سراسر غلط قرار دیتا۔ مذہبی تعصب کی ایسی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔اگر خیر طلب میں ہمت ہے، تو ابوعوانہ کی کتاب سے دکھا دے کہ یہ قول زہری کا ہے، اور ربیع بن سبرہ کا نہیں۔ لیکن خیر طلب کو معلوم ہے کہ صدیاں گزر جائیں گی اور ایسا ثابت نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے حافظ ابن حجر کے قول کا سہارا لینے کی کوشش کر رہا ہے، ورنہ اگر ابوعوانہ میں ایسا ہوتا تو آخر حافظ ابن حجر کا قول پیش کرنے کی ضرورت ہی کیوں پڑتی؟ خیر طلب ادھر ہی فرما دیتے کہ یہ تو زہری کا قول ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ امام بیہقی نے زہری سے یہ روایت نقل کی ہو، اورحافظ ابن حجر نے جو کہا ہے کہ وذکرہ ابو عوانۃ فی صحیحہ یعنی ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں اس کا ذکر کیا ہے، تو یہاں ابن حجر کی مراد ابن عباسؓ کے رجوع کی بھی ہو سکتی ہے، نہ کہ زہری کاذاتی قول۔

قولہ : تنقیح سوم : یہ زیادتی دیگر کتب میں موجود نہیں
دیگر کتب میں بھی یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے لیکن ان کتب میں اس زیادتی کا ذکر نہیں، یعنی اس میں ابن عباس کا رجوع والا قول موجود نہیں۔
(اس کے ذیل میں خیر طلب نے ایک مسند عمر بن عبد العزیز اور ایک صحیح مسلم کی روایت نقل کی ہے)

اقول : ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے جب تک کہ دیگر قرائن سے اس کا ضعف نہ ثابت ہو جائے۔ لہذا آپ کا یہ قول بھی مردود ٹھرا۔اور رجوع کا قول کوئی ایسا نہیں کہ فقط اس سند سے مروی ہو، بلکہ کئی دیگر اسانید سے بھی ابن عباسؓ کا رجوع نقل کیا گیا ہے نیز اس روایت کو ان روایات کا متعارض سمجھنا بھی غلط ہے جن میں ابن عباسؓ سے متعہ کی اباحت کا قول نقل کیا گیا ہے۔ 

قولہ : شاگردان ابن عباس بھی متعہ کے قائل تھے

ہم موجبہ کلیہ کو استعمال کرنے سے پرہیز کرینگے لیکن ہم یہ اطمینان رکھتے ہیں کہ کافی تابعین و شاگردان اہلسنت متعہ کی اباحت کے قائل تھے۔
چناچہ عبدارزاق بن ھمام ناقل ہے :
عن ابن جریج قال :اخبرنی عبد اللہ بن عثمان بن خثیم قال:کانت بمکۃ امراۃعراقیۃ تنسک جمیلۃ لھا ابن یقال لہ: ابو عمیۃ وکان سعید بن جبیر یکثر الدخول علیہ قلت :یا ابا عبداللہ ما اکثر ماتد خل علی ھذہ المراۃ قال:(انا قد نکحناھاذالک النکاح للمتعۃ )قال:قاخبرنی ان سعید ا،قال لہ :ھی احل من شرب الماء للمتعۃ 
عبد للہ راوی کہتے ہے کہ مکہ میں ایک عورت خوبصورت اور اچھے حسن کی مالک تھی جس کا ایک بچہ تھاجسے ابو عمیہ کہاجاتا تھا،سعید بن جبیر اس کے ہاں بہت جایا کرتے تھے ،راوی نے سعید بن جبیر سے کہاکہ اے عبدللہ آپ اس عورتکے گھر اتنا کیوں آتے جاتے ہیں ؟سعید بن جبیر نے کہامیں نے اس سے نکاح متعہ کیاہے اور سعید بن جبیر نے ہی مجھے خبر دی کہ متعہ پانی پینے سے زیادہ حلال ہے ۔
حوالہ :مصنف ۔جز ۔۷۔صفحہ ۔۴۹۶۔رقم ۔۱۴۰۲۰۔
اب خود قارئین فیصلہ کریں اوپر تحریر میں ہم نے اہل حجاز اور اہل یمن کا ابن عباس سے متعہ کی حلت کا قول نقل کیا ہے ۔
ابن عباس کا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعہ کو حرام قرار دینے پر سرزنش کرنا
ہم نے اس قول مفید کو نقل کیا جس میں ابن عباس نے متعہ کورحمت قرار دیا اور عمر بن خطاب کو سرزنش کی کہ اگر وہ اس کو حرام نہ قرار دیتے تو فقط شقی ہی زنا کرتے۔
مناسب ہے اعتراضات کو نقل کرنے سے پہلے ہم اصل سند مع المتن نقل کر دیں۔
مصنف عبد الرزاق :
قال عطاء،وسمعت ابن عباس یقول :یرحم اللہ عمر ما کانت المتعۃ الارخصۃ من اللہ عزوجل رحم بھا امۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فلولا نھیہ عنھا ما احتاج الی الزناالا شقی 
حوالہ :مصنف عبدالرزاق ۔جز۔صفحہ ۔۴۹۶
شرح معانی الآثار :
حدثنا ربیع الجیزی ،قال:ثنا سعید بن کثیر بن عفیر قال:ثنا یحیی بن ایوب عن ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس قال:ماکانت المتعۃ الا رحمۃ رحم اللہ بھا ھذہ الامۃ ولولانھی عمر بن الخطاب عنہ مازنی الا شقی ۔قال عطاء :کانی اسمعھا من ابن عباس الا شقی ۔
کلام صاحب نے اس پر جو اعتراض کرے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
اعتراض اول:ابن جریج مدلس ہے اور عن سے روایت کررہا ہے۔
جواب:جناب کلام صاحب کاش آپ اس اعتراض سے پہلے خود ابن جریج کے کلام کی طرف التفاء کرتے تو ایسا اعتراض نہ کرتے ۔چناچہ ابن ابی خثیمہ نقل کرتے ہے:
حدثنا ابراہیم بن عر عرۃ قال:حدثنا یحیی بن سعید القطان عن ابن جریج قال:اذا قالت :قال عطاء فانا سمعتہ منہ وان لم اقل سمعت ابن جریج کہتے ہے کہ جب میں کہوں قال عطاء یعنی عطا ء نے کہا تواس کا یہ مطلب ہے کہ میں نے اس سے ہی سنا ہے اگرچہ میں تصریحایہ نہ کہوں کہ میں نہ سنا۔
حوالہ :تاریخ ابن ابی خیثمۃ ۔ السفر ۔۱۔الثالث۔جز۔صفحہ ۔۲۵۰۔
لہذا یہ اعتراض مردود ہے ۔اس قول کی سند صحیح ہے ،جیساکہ علامہ البانی نے اس قول کو نقل کیا ہے اور اس سے استشہاد کیا ہے ۔ملاحظہ ہو۔ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل ،جز ۔۳۔صفحہ ۔۹۷
یہی بات شعیب ارنووط نے لکھی ہے :
اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ۔وابن جریج تغتفر عنعنتہ (۲)فی عطاء ۔وھو ابن ابی رباح ۔فقط فقد قال:اذا قالت :قال عطاء فانا سمعتہ منہ وان لم اقل :سمعت ،علی انہ قد صرح بالسماع
حوالہ :مسند احمد بن حنبل ۔جز ۔۳۔صفحہ ۔۲۱۰
اعتراض دوم :عطاء الخرا سانی کی ابن عبا س سے ملاقات ثابت نہیں ۔
کلام صاحب پہلے تو یہ بات واضع ہونی چاہیے کہ اس روایت میں عطاء الخرا سانی ہے یا عطاء بن ابی رباح ۔جھٹ سے یہ کہہ دینا کہ یہ عطاء الخرا سانی ہے ۔عطاء ابن ابی رباح نہیں کس دلیل کے تحت ہے ۔کیونکہ عطاء بن ابی رباح کا تو سماع ابن عباس سے ثابت ہے ۔جس میں کوئی اشکال نہیں ۔
دوسری بات یہ کلام صاحب کاش مصنف عبد الرزاق کی سند پر آنکھ دوڑا لیتی ہوتی تواس میں واضع طور پر سند میں سماعت کا ذکر ہے عطاء کا ۔یعنی عطاء کی سماعت ابن عباس سے ثابت ہے ۔چناچہ سند کے جملے میں یہ ہے :
قال عطاء وسمعت ابن عباس 
عطاء نے کہا میں نے ابن عباس سے سنا۔
کیوں کلام صاحب علم غیب کے ذریعے عطاء نے سناتھا ؟جی نہیں ۔چونکہ اس سند والے عطاء کی ملاقات ابن عباس سے ثابت ہے ،اس لیے روایت میں سماع کی تصریح کے بعد کسی اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔
محققین اہلسنت نے عن ابن جریج عن عطاء ،عن ابن عباس کی سند کی تعدیل کی ہے 
ذیل میں ہم ان علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں جنہوں نے اس سند کی روایت کو تحسین و تصحیح کی نظر سے دیکھا ہے ۔
۱۔حسین سلم اسد
حوالہ :مسند الدارمی ۔جز۔۲۔صفحہ ۔۱۱۸۰۔رقم ۔۱۹۰۱
۲۔شعیب ارنووط
حوالہ :مسند احمد بن حنبل ۔جز ۔۴۔صفحہ ۔۱۰۳۔رقم ۔۲۲۳۳۔
۳۔عبدالملک بن عبداللہ بن دھیش 
اخبار مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ ۔جز۔۱۔صفحہ ۔۱۳۰۔رقم ۔۱۳۳
۴۔البانی 
حوالہ : سنن ابی داود ۔جز ۔۳۔صفحہ ۔۳۶۶۔رقم ۔۳۸۴۷۔
۵۔حاکم نیثاپوری 
حوالہ :مستدرک الصحیحین ۔جز۔۱۔صفحہ ۔۵۸۷۔رقم ۔۱۵۴۹۔
تبصرہ:ہم فی الحال ۵ اقوال علماء اہلسنت پر اکتفاء کرتے ہیں ،ورنہ ہمارے پاس اور حوالے جات بھی ہیں۔اس سے کلام صاحب کا اعتراض باطل ہوجاتا ہے جو اس سند کے حوالے سے کیا۔

اقول : ابن جریج مدلس راوی ہے، اور مدلس راوی جب سماع کی تصریح نہ کرے ، تو ایسی روایت سے احتجاج نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں پر ابن جریج نے سماع کی تصریح نہیں کی، اور کہا قال عطاء لیکن ابن جریج سے مروی ہے کہ جب وہ قال عطاء کہے، تو یہ سماع پر محمول ہے۔ اس کے باوجود یحیی بن سعید سے مروی ہے کہ واذا قال قال ھو شبہ الریح یعنی جب ابن جریج قال کہے تو یہ ریح کی مانندہے۔(تھذیب التھذیب ج ۶ ص ۳۵۹) اور اسی طرح امام احمد سے مروی ہے کہ اذا قال ابن جریج قال فاحذرہ یعنی جب ابن جریج قال کہے تو اس سے بچو۔نیز فرمایا اذا قال ابن جریج قال فلان و قال فلان واخبرت ، جاء بمناکیر یعنی جب ابن جریج کہے قال فلان اور قال فلان اور اخبرت ، تو وہ منکر احادیث نقل کرتا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء ج ۶ ص ۳۲۸) بہرحال چونکہ ابن جریج کا اپنا قول موجود ہے کہ وہ جب قال عطاء کہے تو یہ سماع پر محمول ہے، لہذا یہ ایک قابل تحقیق مسئلہ ہے ۔ بہرحال ہم چونکہ حضرت ابن عباسؓ سے متعہ کے حوالے سے رجوع ثابت کر چکے ہیں، لہذا اس روایت پر بحث کرنے کی کوئی ضرورت ویسے بھی نہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہو گئی کہ میں کہوں کہ شیعہ عالم عبداللہ بن جعفر حمیری بارھویں امام کی امامت کا منکر تھا،اور اس کی امامت کو تسلیم نہیں کرتا تھا، جبکہ اس نے اپنے اس قول اور عقیدہ سے رجوع کر لیا تھا۔ پس جب رجوع ثابت ہو گیا، تو رجوع سے پہلے کے اس کے عقائد کی بنیاد پر کس طرح دلیل قائم کی جاسکتی ہے۔ ورنہ پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ کا ہم مسلک اور معتبر عالم عبداللہ بن جعفر حمیری بارہویں امام کی امامت کا نظریہ غلط سمجھتا ہے۔ اور حر بن یزید کو بھی امام حسین کا دشمن تسلیم کر لیجئے، کیونکہ وہ بھی رجوع سے پہلے یزید کی فوج کا سپاہی تھا۔ نیز ابن عباسؓ کے اکثر تلامذہ سے متعہ کی اباحت کا قول ہی نقل نہیں ہوا، لہذا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ابن عباسؓ کے اکثر تلامذہ متعہ کی اباحت کے قائل تھے۔ اور حضرت ابن عباسؓ سے استمناء کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا (خیر من الزنا ، ونکاح الامۃ خیر منہ) یعنی استمناء زنا سے بہتر ہے، اور لونڈی کے ساتھ نکاح استمناء سے بہتر ہے۔ معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس استمناء کو حرام سمجھتے تھے، البتہ زنا سے چھوٹا گناہ سمجھتے تھے۔ اور لونڈی کے ساتھ نکاح کو استمناء سے بہتر سمجھتے تھے، اور اگر ان کے نزدیک متعہ جائز ہوتا، تو لونڈی کے ساتھ نکاح کی بجائے متعہ کا ذکر کرتے، کیونکہ متعہ زیادہ آسان ہے، بنسبت لونڈی کے ساتھ نکاح کے، اور یہ بات کسی پر مخفی نہیں۔ پس اس روایت سے بھی حضرت ابن عباسؓ کامتعہ کے قول سے رجوع ثابت ہوتا ہے۔

قولہ : اعتراض :امام باقر الی جل مسمی کی قرات نہیں کرتے تھے اور امام جعفر الی جل مسمی کی قرات کرتے تھے پس جس امام پر زیادہ بھروسہ ہو اس کو قبول کیا جائے ۔
جواب :معاف کیجئے کلام صاحب ہمارا مذہب حق چار یاری نہیں کہ جب دل چاہا کسی ستارے کی اطاعت کر لی اور باقیوں کو پس پشت ڈال دیں ۔ہم تمام آئمہ ع کی اطاعت کرتے ہیں اور کسی کی بات کی ترجیع دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے نزدیک سارے منصوص ہے اورمنصوعات میں اختلافات بد یہی نہیں ہوتے ۔
اب اصل جواب کی طرف آتے ہے ۔موجودہ قرآن میں آپ کو فقط’’فمااستمتعتم بہ منھن‘‘ہی ملے گا،لیکن ابن عباس کی قرات کے مطابق ’’ الی اجل مسمی ‘‘ کا لاحقہ ملے گاجو دوسرے اصحاب جیسے ابی بن کعب و دیگر سے بھی منقول ہے تو جواب تو پہلے آپ کو دینا چاہیے تھااور اس کا ازالہ کرتے لیکن آپ نے جواب دینا گوارہ نہیں کیابلکہ الزامی جواب سے کام چلایا۔ہمارا استدلال بھلا قرات کے اختلاف پر کب تھاجو آپ نے قرات کے اختلافات جو جواز بنا کر جواب دیا،ہمارا مدعا تو اس قرات سے متعہ کو ثابت کرناتھا جس کا مدوا آپ نے نہیں کیا ؟قارئین کی ذوق طبع کے لیے ہم ابن عباس کی ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں اس قضیہ کی طرف لطیف اشارہ ہے :
چناچہ حاکم نیثاپوری ناقل ہے :
اخبرنا ابو زکریا العنبری ثنا محمد بن عبدالسلام ثنا اسحاق بن ابراہیم انبا النظر بن شمیل انبا شعبۃ ثنا ابو مسلمۃ ،قال:سمعت ابا نضرۃ ،یقول :قرات علی ابن عباس رضی اللہ عنھما(فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضۃ )(النساء ۔۲۴)قال ابن عباس:(فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی )قال ابو نضرۃ :فقلت:مانقروھاکذلک ۔فقال ابن عباس:(واللہ ونزلھا اللہ کذلک )ھذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ
(التعلیق۔من تلخیص الذھبی ۔۳۱۹۲۔علی شرط مسلم )
ابن عباس سورہ نساء کی آیت ۲۴(فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضۃ) کی قرات یوں کرتے تھے (ا استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی )ابو نضرہ راوی کہتے ہے کہ ہم تو ایسی قرات نہیں کرتے ،ابن عباس نے کہا خدا کی قسم یہ آیت ایسے ہی نازل ہوئی ۔
حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ۔ذہبی نے تلخیص میں روایت کو صحیح کہا ہے ۔
حوالہ :المستدرک علی الصحیحین ۔جز ۔۲۔صفحہ ۔۲۳۴

ہمارا اصل استدلال قرات کے اختلاف کو ہوا دینا نہیں جو کسی اور دن کا موضوع ہے بلکہ فقط اس قرات سے نکاح متعہ پر استدلال ہے جس کا جواب کلام صاحب نے دینا گوارہ ہی نہیں کیا ۔
اس روایت کی روشنی میں ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے اس ہی صوت و آواز میں کہ کسی صحابی پر زیادہ بھروسہ ہے ابن عباس یا ۔۔۔۔؟؟
باقی جو امامین صادقین ع سے روایت پر اعتراض ہے اس کا جواب ان روایات کی روشنی میں یہی ہوگا کہ ادھر آیت کی تفسیر کے طور پر بعض الفاظ کا لاحقہ ہے جو اہلسنت اصحاب سے بھی ثابت ہے۔پس اگر اس طریقہ تفسیر پر اعتراض وارد ہوگا تو صحابی پر بھی محرف قرآن ثابت ہونگے ؟ہم فی الحال ایک دقیق نکتہ کی طرف اشارہ کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں کیونکہ خود طوالت ایک جگہ اور دوسری جگہ تحریف قرآن کی بحث کو نہ چھیڑنا مانع بن رہا ہے مزید تبصرہ کے لیے ۔ورنہ ابن عباس کی روایت سے دقیق مطالب اخذکئے جاسکتے ہیں جس پر کلام کسی اور دن کا رہا۔

اقول:ہمیں بھی معلوم ہے کہ آپ کا مذہب اثنا عشری ہے، جب چاہا اپنے ائمہ کی صحیح حدیث کو تقیہ پر محمول کر دیا۔ جب چاہا اصحاب الاجماع کی مرسل روایات سے استدلال کیا، اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ ہمارے بعض علماء کے نزدیک ایسی روایات مقبول ہیں، اور جب چاہا اصحاب الاجماع کی مرسل روایات پر علماء کے ایک گروہ کا اعتراض نقل کر کے جان خلاصی کی ناکام کوشش کی۔ اگر یہ آیت ایسی ہی نازل ہوئی تھی، تو آپ کے ایک امام نے یہ آیت غلط پڑھی۔ کیونکہ آپ مختلف قرآت پر ایمان نہیں رکھتے، بلکہ صرف ایک قرات پر آپ کا ایمان ہے، لہذا یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ کہیں کہ امام جعفر اور امام باقر کی روایات میں جو اس آیت میں اختلاف ہے، تو یہ قرات میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔ ہمارے نزدیک یہ قرات شاذ ہے، متواتر نہیں۔

قولہ : اس مضمون میں ایک مشہور روایت جو اہلسنت حضرات کے ہا ں امام علی سے علماء منسوب کرتے ہیں ،اس کا دفاع کرینگے اور اس کی صحت مخالفین کے اصول و قوانین کی روشنی مین ثابت کرینگے ۔
اعتراض:امام علی کی روایت جس میں متعہ کی اجازت کی صورت میں زنا فقط شقی کرتا مین حکم بن عتیبہ اور امام علی کے درمیان انقطاع ہے۔
جواب:کلام حنفی صاحب ۔ہم اطمینان سے یہ بات کہتے ہیں کہ آپ حنفی ہیں تو احناف کے علم اصول حدیث کی تو رعایت کریں ۔اس روایت میں انقطاع ہونے کے باوجود یہ روایت آپ کے اصول حدیث کے پیش نظر قابل احتجاج و قابل استدلال ہے ۔اس کی توضیع عنقریب آرہی ہے ،لیکن تفصیل دینے سے پہلے اگر کلام حنفی اس تحقیق اور احناف کے طریقے سے متفق نہ ہوں تو صراحت کے ساتھ احناف کے اس وضعی اصول کی کھل کر مخالفت کریں اور کہیں کہ اس معاملہ میں ،میں حنفی نہیں ۔

اقول :خیر طلب صاحب کی اصول پسندی کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس سے قبل ابن عباسؓ کے رجوع کی روایت کو امام زہریؓ کی مرسل قرار دے کر رد کرنے کی کوشش کی، اور یہاں پر حکم بن عتیبہ کی ’’مرسل‘‘ روایت کو لے کر اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔معلوم ہوا کہ مسئلہ مرسل اور غیر مرسل کا نہیں، بلکہ پسند اور ناپسند کا ہے۔یہ پسند اور نا پسند کا اصول تمام اصولوں میں قبیح ترین ہے اور اس سے آپ خیر طلب کا دوہرا پن بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ اس روایت کا مرسل ہونا تو آپ نے تسلیم کر لیا، اب یہ بھی سن لیجئے کہ حکم بن عتیبہ مدلس بھی تھا۔ حکم بن عتیبہ کو ابن حجر نے مدلس قرار دیا۔ (طبقات المدلسین ج ۱ ص ۳۰) اور اس کے ساتھ ہی لکھا ہے کہ اس کو امام نسائی اور دارقطنی نے بھی تدلیس کے ساتھ موصوف کیا ہے۔ اسی طرح ابن حبان نے بھی اس کے متعلق کہا ہے وکان یدلس (الثقات لابن حبان ج ۴ ص ۱۴۴) اب احناف کا اصول بھی ملاحظہ کیجئے۔ سرفراز خان صفدر حنفی صاحب خزائن السنن میں فرماتے ہیں ’’مدلس راوی عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں اِلَّا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا اس کا کوئی ثقہ متابع ہو‘‘ (خزائن السنن ج ۱ ، ص ۱) اب ایک روایت جو کہ مرسل ہے، اور اس میں مدلس کا عنعنہ بھی موجود ہے، اس کو آپ ایک صحیح و متصل سندکے مقابلے میں پیش کر رہے ہیں، جو کہ تواتر کے ساتھ مروی ہے، اور جو کہ متفق علیہ بھی ہے۔

قولہ : چونکہ حکم بن عتیبہ تابعی ہے اور انہوں نے امام علی ع سے روایت کو منسوب کیا ہے تو یہ روایت مرسل کے حکم میں آتی ہے ۔اس حوالے سے ہم برادر محترم اسمعیل دیوبندی کی تحقیق سے استفادہ کرینگے جنہوں نے مرسل کے حکم پر کافی اچھا کلام کیا ہے ۔
امام حاکم کی ایک تصنیف الاکلیل اسی فن سے متعلق ہے۔لیکن یہ کتاب کافی مختصر تھی اس لیے اس پر امام حاکم نے خطبہ لکھا ہوا ہے جو ’’المدخل الی معرفۃ کتاب الکلیل ‘‘کے نام سے معروف ہے ۔
امام حاکم مرسل کی تعریف اور حکم کے باب میں رقمطراز ہیں :
فالقسم الاول منھا المراسیل وھو قول الامام التابعی او تابع التابعی قال رسول اللہ :وبینہ وبین رسول اللہ قرن او قرنان ،ولا یذکر سماعہ فیہ من الذی سمعہ (والمعتمد ما قالہ الحاکم فیہ المعرفۃ )فھذہ احدیث صحیحۃ عند جماعۃ ائمۃ اھل ال کوفہ کابراھیم بن یزید النخعی و حما د بن ابی سلیمان وابی حنیفۃ النعمان بن ثابت وابی یوسف یعقوب بن ابراہیم القاضی و ابی عبداللہ محمد بن الحسن الشیبانی فمن بعدھم من ائمتھم محتج بھا عند جماعتھم 
کہتے ہیں :مرسل سے مراد تابعی یا تبع تابعی کا قول ہے جو رسول اللہ سے نقل کرے جبکہ اسکے اور رسول اللہ کے درمیان ایک یا دو واسطوں کا فاصلہ ہو لیکن راوی ان واسطوں کا ذکر نہ کرے جس سے اس نے حدیث سنی ہو(کتاب کے محقق احمد بن فارس السلوم اس تعریف کی شرح میں کہتے ہیں کہ مستند تعریف وہ ہی ہے جو امام حاکم نے اپنی کتاب۔۔معرفۃ علوم الحدیث ۔۔میں بیان کری ہے یعنی صرف تابعی روایت کرے نہ کے تبع تابعی )مرسل کا حکم یہ ہے کہ مرسل احادیث صحیح ہیں اہل کوفہ کہ ایک جماعت کے نذدیک جن میں ابراہیم نخعی حماد بن ابی سلیمان امام ابوحنیفہ امام ابو یوسف امام محمد اور انکے بعد آنے والے دیگر آئمہ شامل۔
حوالہ :المدخل الی معرفۃ کتاب الاکلیل ۔ص۔۱۶۰
حافظ ابو نعیم اصفھانی نے حاکم کی کتاب ۔۔معرفۃ علوم حدیث ۔۔پر کچھ قواعد کا اضافہ کیا انکی کتاب۔۔المستخرج علی معرفۃ علوم حدیث۔۔کے نام سے ہے ،انکے بعد خطیب بغدادی کانام آتا ہے جنہوں نے علل حدیث کے اکثر فنون پر تصانیف لکھیں انکی تصانیف میں سے ۔۔الکفایۃ فی علم الروایۃ ۔۔فن اصول حدیث میں حد درجہ استناد رکھتی ہے ۔
حکم مرسل کے باب میں خطیب رقم طراز ہیں 
وقد اختلف العلماء فی وجوب العمل بما ھذہ حالہ فقال بعضھم انھ مقبول ویجب العمل بہ اذا کان المرسل ثقہ عدلاوھذاقول مالک وہل المدینہ وابی حنیفہ واھل المدینۃ وابی حنیفہ واھل العراق وغیرھم 
کہتے ہیں :مرسل روایت پر عمل کی بابت علماء میں اختلاف ہے نعض علماء کہتے ہیں مرسل مقبول ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے جبکہ ارسال کرنیوالاراوی ثقہ اور عادل ہو اور یہ قول امام مالک ،امام ابو حنیفہ ،اہل مدینہ اور اہل عراق کا ہے ۔
حوالہ :الکفایۃ فی علم الروایۃ ۔ص۔۳۳۳
حافظ ابن رجب حنبلی مرسل سے استدال کے باب میں لکھتے ہیں 
وقد استدل کثیر من الفقہاء بالمرسل وھو الذی ذکرہ اصحابنا انہ الصحیح عن الامام احمد وھو قول ابی حنیفۃ واصحابہ واصحاب مالک ایضا:
فرماتے ہے :فقہاء کی بڑی جماعت نے مرسل روایت سے استدلال کیا ہے اور یہی (مرسل سے استدلال کا )قول ہمارے اصحاب نے امام احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے اور یہی صحیح قول ہے اور یہی قول امام ابو حنیفہ اور انکے اصحاب اور مالکیہ کا بھی ہے ۔
حوالہ:شرح علل الترمذی ۔صفحہ ۱۱۶
نوٹ:برادر اسمعیل دیوبندی کا کلام ختم ہواجاتا ہے
فی الحال ہم ان حوالجات پر اکتفاء کر رہے ہیں ورنہ احناف کے علماء نے خود مرسل کے حجت پر دلائل باہرہ دیے ہیں جو کلام صاحب کے اعتراض کی صورت میں ہم تفصیل سے عرض کر دینگے ۔کیونکہ ہم قدم بقدم چلنا چاہ رہے ہیں ۔

اقول : اگر ہم اس روایت کو مرسل بھی تسلیم کر لیں ، تب بھی احناف ہی کے کئی اصولوں کے مطابق یہ روایت قابل حجت نہیں ہے۔ اس میں حکم بن عتیبہ الکندیؒ اپنے سے قوی تر راوی حضرت محمد بن حنفیہؒ کی مخالفت کر رہا ہے، لہٰذا یہ روایت شاذ کے زمرے میں آئے گی۔ اور شاذ کی مخالف روایت کو محفوظ کہا جاتا ہے ، لہٰذا جو روایت میں نے بیان کی، وہ محفوظ ہے، اور یہ روایت شاذ ٹھرے گی۔اور میں نے جو روایت بیان کی، وہ مشہور ہے چنانچہ علامہ عبد الحئی لکھنوی ؒ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں ’’وقد یطلق المشھور علی ما اشتھر علی السنۃ الناس فیصدق علی اخبار الآحاد التی انتشرت فی الآفاق وکتب فی الاوراق ایضا‘‘(ظفر الامانی فی شرح مختصر الجرجانی ص ۱۴) اب فرمائیے آپ کی یہ روایت کیوں مشہور کہلائے گی؟ہاں آج کل شیعہ اسے مشہور بنانے کی کوششوں میں ضرور لگے ہوئے ہیں، شاید اگلی چند دہائیوں میں اسے مشہور بنا ہی ڈالیں گے۔ اور جس مرسل پر احناف اعتبار کرتے ہیں، اس کے بارے میں بھی علامہ عبد الحئی لکھنوی نے واضح کر دیا ہے کہ ’’المرسل انما ھو ما ارسلہ راوی الحدیث وترک الواسطۃ بینہ وبین النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا مجرد قول کل من قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلٰی آلہ وسلم والالزم ان یکون قول العوام والسوقیۃ قال رسول اللہ کذا مرسلا والوجہ فیہ ان الارسال والانقطاع و نحو ذلک من صفات الاسنادہ یتصف الحدیث بہ بواسطتہ فحدیث لا اسناد فلا ارسال ولا اتصال وانما ھو مجرد نقل اعتماد علی الغیر ‘‘ یعنی مرسل وہ ہے جسے راوی حدیث (تابعی) بیان کرے ، اپنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ چھوڑ دے، ورنہ لازم آئے گا کہ کوئی عامی اور بازاری آدمی بھی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہے تو اسے مرسل کہا جائے۔ ارسال و انقطعاع وغیرہ اسناد کی صفات ہیں۔ جہاں کوئی سند ہی نہیں، وہاں نہ ارسال ہے نہ انقطاع ہے اور نہ ہی اتصال، بلکہ یہ صرف دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے نقل محض ہے۔(ظفر الامانی فی شرح مختصر الجرجانی ص ۱۹۰) اور اسی کی تائیدجناب سرفراز خان صفدر صاحب کی کتاب سے بھی ہوتی ہے ، جنہوں نے فرمایا ’’مرسل وہ روایت ہے جس کو کوئی تابعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرے اور صحابی کا نام نہ لے‘‘ (مقدمہ خزائن السنن) خیر طلب نے امام حاکم ؒ سے جو تعریف نقل کی ہے، اس میں بھی مرسل سے مراد یہی ہے۔ اور مرسل کی یہی وہ قسم ہے جس پر احناف اعتبار کرتے ہیں، لیکن کیا یہ روایت بھی مرسل کی اس تعریف کے زمرے میں آتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ روایت اصل میں منقطع ہے، اگرچہ منقطع کو مرسل بھی کہا گیا ہے، لیکن دونوں میں فرق ہے جیسا کہ مرسل کی تعریف سے آپ سمجھ سکتے ہیں۔ سنن ترمذی کی ایک روایت پر انہوں نے جرح کی ، جس میں عبد الجبار تابعی اور ان کے والد حضرت وائلؓ کے درمیان انقطاع تھا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ سرفراز خان صفدر نے فرمایا ’’امام نووی شرح المہذب ج ۲ ص ۱۰۴ میں لکھتے ہیں کہ الائمہ متفقون علٰی ان عبد الجبار لم یسمع عن ابیہ شیئاً وقال جماعۃ انما ولد بعد وفات ابیہ بستۃ اشھر وراجع التھذیب ج ۶ص ۱۰۵ تو یہ روایت منقطع ہے درمیان کی کڑی غائب ہے۔ ‘‘ (خزائن السنن ج ۱ ص ۸۱)پس حکم بنعتیبہ الکندیؒ کی روایت میں بھی درمیان کی کڑی غائب ہے اور اس وجہ سے اس کی بھی اسنادی حالت کمزور ہے۔

قولہ : اعتراض امام علی نے ابن عباس کو متعہ سے منع کیا اور ممانعت متعہ و گدھے کے گوشت سے استدلال کیا
جواب:ہم اس روایت کا جواب یوں دیتے ہیں کہ اس روایت کا اصل مضمون وہ صحیحین کی روایت ہے جس میں امام علی نے خیبر کے دن متعہ کی حرمت کا اعلان کر رہے ہیں ۔تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بات اس روایت پر بھی کر لی جائے ۔
تنقیح اول صحابی کو گمراہ کہنا:
کلام صاحب کے ہم بے حد ممنوع و مشکور ہیں جنہوں نے ترجمہ میں امام علی کے الفاظ نقل کئے اس میں جناب ابن عباس کو گمراہ ہونے کا سرٹیفکیٹ ملا ہے ۔چناچہ ہم گمراہ صحابی جو ستاروں کی مانند تھے ان میں ایک اور اضافہ دیکھتے ہیں ۔یقیناًجو حضرات ہم پر طعن صحابہ کا الزام لگاتے ہیں وہ بھلا اس شائستہ تھذیب و تمدن کو دیکھیں کہ ایک صحابی کو گمراہ کہا جائے تووہ رحمۃ اللہ اور اگر شیعہ کہہ دے تو لعنت اللہ ؟یقیناًمصنفین انصاف کرینگے ۔

اقول : ابن عباسؓ کے متعلق شیعہ روایات اور ائمہ معصومین کے اقوال ہم پہلے ہی پیش کر چکے ہیں، اس کو دیکھ کر ایک شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ خود ائمہ معصومین کی نظر میں ابن عباسؓ نہ صرف گمراہ، بلکہ ملعون اور خائن بھی تھے۔ بلکہ ائمہ حضرات تو ابن عباسؓ کی علمی حیثیت کا مزاق اڑاتے رہتے ،اور اپنے کارندوں کو بھیجتے تاکہ ابن عباسؓ کو نیچا دکھا سکیں۔ اہل بیت کی کشتی میں سوار افراد کے متعلق جو شیعہ روایات موجود ہیں، ان پر تبصرہ کسی اور دن رہا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری کتب میں تو ابن عباسؓ کا رجوع ثابت ہے، پس گمراہی سے تائب ہو گئے، شیعہ کتب میں تو وہ گمراہی پر مرے اور قیامت تک گمراہ رہنے کی نوید ہے۔

قولہ : تنقیح دوم :دلیل جامع و مانع ہونی چاہیے:
خود علماء اہل سنت اس بات کے معترف ہیں کے خیبر کے دن متعہ کلیتا منسوخ نہیں ہواتھا بلکہ انہوں نے سات مقامات کا ذکر کیا ہے جس میں متعہ حلال و حرام ہو ا۔لہذا امام علی کو ان اختلافات روایات کے پیش نظر ایسی بات کرنی چاہیئے تھی جس سے مخالف خاموش ہوجاتا۔یعنی امام علی کم سے کم اگر سات موارد کا ذکر نہیں کرتے تو آخری مرتبہ جب قیامت تک کے لیے حرام ہوا،اس موقع کا ذکر کرتے جو ہمارے مقابل کے نذدیک فتع مکہ کا موقع تھالیکن امام علی نے اہل سنت روایات کے مطابق خیبر کی دلیل دے کر بہت سارے اشکالات کو جنم دیا ۔جب ہی ہم دیکھتے ہیں کہ ابن عباس کو اتنے سمجھانے کے باوجود وہ گمراہ کے گمراہ ہی رہے اور متعہ سے رجوع نہیں کیا ؟ابن عباس کا عدم رجوع اب روایت کے بطلان کے لئے کافی ہے ۔

اقول : ابن عباسؓ کا رجوع تو ہم ثابت کر چکے ہیں،اس لئے خیر طلب صاحب کوئی نیا اعتراض ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ چونکہ ابن عباسؓ کا رجوع ثابت ہو چکا ہے، اس لئے اب میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ابن عباسؓ نے حضرت علیؓ کی طرف سے سخت مذمت کے بعد اپنے موقف سے رجوع کیا۔اور حضرت علیؓ نے خیبر کا ذکر کیا، لیکن ابن عباسؓ ان کا رد نہیں کرسکے۔ اس لئے یہ ایک اور دلیل ہو گئی کہ خیبر میں متعہ کو رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا۔ اور اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ دلیل جامع و مانع تھی۔ اس وجہ سے ابن عباسؓ جواب نہ دے سکے۔ اس کے علاوہ ابن عباسؓ چونکہ فتح مکہ کے موقع پر موجود نہیں تھے، لہذا حضرت علیؓ کو فتح مکہ کا تذکرہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت علیؓ نے خیبر میں متعہ کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کا فرمان خود سنا، لہذا یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے جنگ خیبر کا تذکرہ کیا۔ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خیبر سے پہلے متعہ کو حرام قرار دینے کے سلسلے میں کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا، لہذا حضرت علی نے اس وجہ سے خیبر کا ذکر کیا۔اور چونکہ خیبر میں پہلی بار متعہ کو حرام قرار دیا گیا تھا، لہذا غالب امکان یہ تھا کہ اس سے مسلمانوں کی اکثریت باخبر ہوئی ہوگی۔اس وجہ سے حضرت علیؓ نے دیگر واقعات کی بجائے خیبر کا ذکر کیا۔اور پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جامع و مانع دلیل لانا کوئی فرض نہیں ہوتا، خاص طور پر جب یہ بھی معلوم ہو کہ اگلے کے پاس اس چھوٹی سی بات کا جواب بھی نہیں ہوگا۔ مثال کے طورپر کوئی شخص کسی روایت کو صحیح ثابت کرنا چاہتا ہو، تو شیخ البانی کا حوالہ دے دیتے ہیں۔ اب جامع و مانع دلیل تویہ ہونی چاہئے کہ روایت کے تمام راویوں پر جرح و تعدیل کر کے اس کو صحیح ثابت کیا جاتا، لیکن جب موصوف یہ جانتے ہوں کہ ان کا مدمقابل شیخ البانی صاحب کی تصحیح کا رد پیش نہ کر سکے گا، تو خواہ مخواہ تمام راویوں پر جرح و تعدیل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

قولہ : تنقیح سوم :خودعلماء اہل سنت خیبر کے دن کے نہی کو رد کرتے ہیں 
ہمارے پاس ابھی من و عن عبارت و ترجمہ کانہ وقت ہے اور نہ ہی تحریر کا ہجم اس کی اجازت دیتا ہے ۔البتہ ایک قول نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہے جو واقعی اپنے ثقل و ہجم کے لحاظ سے اتنا قوی ہے کہ مقابل کو مسکت کر دے گا۔
چناچہ سھیلی رقم طراز ہے :
وھذا شی ء لا یعرفہ احد من اھل السیر 
خیبر کے دن متعہ کے منع کے حوالے سے کوئی سیرت نگار نہیں جانتا۔
حوالہ :الروض الانف ۔جز ۔۶،صفحہ ۔۵۵۷
لہذا اس روایت کو دلیل کے طور پر نقل کرنا مضبوط نہیں ۔

اقول :اہل سیر کے جاننے یا نہ جاننے سے قطعاََ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب کہ ہم نے صحیح اسناد سے ثابت کر دیا ہے کہ خیبر کے دن متعہ کو حرام قرار دیا گیا۔ اگر ہم اہل سیر کے جاننے یا نہ جاننے کو ہی روایات کی جانچ پڑتال کا بنیادی اصول بنا لیں، تو پھر ایک الگ باب کھل جائے گا جس میں اہل تشیع خود پریشان حال ہو جائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت علیؓ کی روایت متفق علیہ کا درجہ رکھتی ہے۔اس کے علاوہ ابن عمرؓ اور ابوسعید خدریؓ سے بھی یوم خیبر کے دن متعہ کی تحریم نقل ہوئی ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔اور ضعیف اسناد کی میں بات نہیں کر رہا ورنہ حق تو بنتا ہے کیونکہ خیر طلب صاحب نے ابن حزم کے قول کو نقل کیا ، تاکہ بعض صحابہ کو حلت متعہ کا قائل سمجھا جائے، اگرچہ ابن حزم کے قول کے علاوہ خیر طلب کے پاس اس کے ثبوت کے لئے کوئی سند نہیں، جید یا ضعیف سند کی تو بات ہی مت کیجئے۔اگر ضعیف اسناد کی بات کی جائے تو خیبر کے دن متعہ کے حرام ہونے کا قول نقل کرنے والوں کی فہرست میں کعب بن مالکؓ اور ثعلبہؓ کو بھی شامل کر لیجئے۔

قولہ : کلام صاحب جب اپنی روایات پر ضعیف کلام کر کے فارغ ہوئے تو ہماری ایک الکافی کی روایات جو جز۔۵ ،صفحہ ۔۴۴۸ طبع ایران میں ہے اس کو علامہ مجلسی کے توسط سے مجہول ثابت کیا اور بغلین بجانے لگے لیکن ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ کلام صاحب مانا آپ اپنی علم مصطلح الحدیث سے واقف نہیں لیکن خدایا اس بے علمی کا مظاہرہ شیعہ روایات پر مت کیا کیجیئے کیونکہ یہ دخل در معقولات کے ضمر میں سے آتا ہے ۔کیا ایک روایت مجہول ثابت ہونے سے دیگر صحیح روایات ضعیف ہوجاتی ہیں ؟نہیں ہرگز نہیں ۔اب ہم ایک روایات شیخ طوسی کی کتا ب سے نقل کرتے ہیں 
شیخ رقم طراز ہے :وعنہ عن محمد بن اسمعیل عن الفضل بن شاذان عن صفوان بن یحیی عن ابن مسکان قال:سمعت ابا جعفر علیہ السلام یقول :کان علی علیہ السلام یقول :لولاماسبقنی الیہ بنی الخطاب مازنی الا شقی 
ابن مسکان فرماتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر علیہ السلام یعنی امام باقر علیہ السلام سے سنا ہے کہ علی نے کہا اگر عمر بن خطاب نکاح متعہ کو حرام قرار نہ دیتے تو سوائے شقی کے کوئی زنا نہیں کرتا۔
حوالہ :تھذیب الاحکام ۔جز ۔۷،صفحہ ۔۲۵۰
اس روایت کی سند میں سارے راوی ثقہ ہیں اور یہ روایت قابل احتجاج ہے ۔اس لیے کلام صاحب دوسروں کو درس دینے سے پہلے تحقیق کر لیا کریں ۔

اقول : اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں، لیکن خیر طلب کی معلومات میں اضافہ کرتے چلیں کہ تہذیب الاحکام کی یہ روایت پوری کی پوری وہی ہے جو کہ الکافی کی روایت ہے، اور شیخ طوسی نے اسے نقل بھی کلینی سے کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جو مجہول راوی تھا، اس کوشیخ طوسی نے درمیان سے اڑا دیا ہے۔ چنانچہ اس کی سند ملاحظہ فرمائیے:عنہ (محمد بن یعقوب الکلینی) عن محمد بن اسماعیل عن الفضل بن شاذان عن صفوان بن یحیی عن ابن مسکان قال : سمعت ابا جعفر علیہ السلام یقول : کان علی علیہ السلام یقول : لو لا ما سبقنی الیہ بنی الخطاب ما زنی الا شقی
چنانچہ مجلسی نے شیخ طوسی صاحب کے اس کارنامے کے اعتراف میں اس روایت کو مجہول کالصحیح قرار دے دیا۔( ملاذ الاخیار فی فھم تھذیب الاخبار ج ۱۲ ص ۲۹)
طوسی صاحب نے تہذیب الاحکام میں ایک راوی کو سند سے نکال باہر کیا، اور الاستبصار میں دو راویوں کو سند سے نکال باہر کیا۔ چنانچہ استبصار میں آپ کو یہ سند یوں ملے گی۔
عنہ (محمد بن یعقوب الکلینی) عن محمد بن اسماعیل عن الفضل بن شاذان عن ابن مسکان قال سمعت ابا جعفر علیہ السلام یقول کان علي علیہ السلام یقول : لو لا ما سبقنی الیہ ابن الخطاب ما زنی الا شقی (الاستبصار ج ۳ ص ۱۴۱)
اب خیر طلب صاحب جان گئے ہونگے کہ تہذیب الاحکام میں اس کے تمام راوی کیوں ثقہ نظر آتے ہیں۔ اور اہلسنت کی کتب میں تو اس روایت کو مشہور ثابت کرنا ایران کے کمال حیدری کے بس کا بھی کام نہیں، ان چھوٹے حیدری صاحب کی تو بات ہی مت کیجئے۔خلاصۃ الایجاز میں شیخ مفید نے امام باقر کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تزوج بالحرۃ متعۃ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آزاد عورت سے متعہ کیا۔ اور اس کے بعد اگلی روایت میں فرمایا کہ شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ أن علیا علیہ السلام نکح بالکوفۃ امرأۃ من بني نھشل متعۃ یعنی حضرت علی نے کوفہ میں بنی نہشل کی ایک عورت کے ساتھ متعہ کیا۔(خلاصۃ الایجاز ص ۲۵) یہ تو کذبِ صریح ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں ۔ اس کے بعد شیخ مفید کہتے ہیں : وبأسانید کثیرۃ إلی عبد الرحمان بن أبي لیلی قال سألت علیا علیہ السلام ھل نسخ آیۃ المتعۃ شئ ؟ فقال : لا ، ولو لا ما نھی عنھا عمر ما زنی إلا شقي۔ ذکر أسانیدھا الشیخ في التھذیب 
اور بہت سی سندوں سے عبدا لرحمان بن ابی لیلی سے مروی ہے کہ اس نے کہا : میں نے حضرت علی سے پوچھا کہ کیا متعہ کی آیت کو کسی چیز نے منسوخ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا ، نہیں! اور اگر عمر نے منع نہ کیا ہوتا تو شقی کے علاوہ اور کوئی زنا نہ کرتا۔اس کی اسناد کو شیخ نے تہذیب میں ذکر کیا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ شیخ کا حال تو آپ نے دیکھ لیا، شیخ کے پاس تو ایک کلینی کی سند ہے، اس میں بھی شیخ نے تہذیب میں ایک راوی نکال دیا، اور استبصار میں ایک اور راوی کو بھی نکال دیا۔ شیخ صاحب اور اسناد کیا ذکر کرتے، جو ایک واحد سند ہے ، وہ بھی شیخ کے ہاتھوں میں پہنچ کر اپنی اصلی حالت کھو بیٹھی۔اس کے علاوہ جن بہت سی اسناد کا شیخ مفید نے تذکرہ کیا ہے، وہ ہمیں شیخ کی تہذیب الاحکام میں نہیں میں۔ اور اگر مل بھی جاتیں، تب بھی بات عبد الرحمان بن ابی لیلی پر جا کر رک جاتی، کیونکہ عبد الرحمان بن ابی لیلی کی توثیق کسی شیعہ عالم نے نہیں کی۔خیر طلب کو اگر یہ بہت سی اسناد کہیں مل جائیں تو ہم امید رکھتے ہیں کہ اگلے جواب میں ضرور شامل کر کے قارئین کے ذہنوں سے کم از کم ایک یہی اشکال ہی دور کر دیں گے۔سوال یہ ہے کہ جب یہ روایت اہلسنت کی کتب میں بھی مشہور نہیں، اثنا عشریہ کی کتب میں بھی مشہورنہیں،زیدیہ کی کتب میں بھی مشہور نہیں، بلکہ زیدیہ بھی اہل سنت کی طرح متعہ کا حرام ہونا اور اس پر اپنے ائمہ اہل بیت کا اجماع نقل کرتے ہیں، تو آخر یہ روایت کن کی کتب میں مشہور ہے تاکہ اس پر اعتبار کیا جاسکے؟اور کس دلیل کی بنا پر خیر طلب نے اس کو مشہور قرار دیا ہے؟

قولہ : کلام صاحب مضمون کے ایک حصہ میں رقم طراز ہے :
بلکہ حضرت علی سے تواتر کے ساتھ ثابت شدہ روایات کے بھی خلاف ہے ۔
تبصرہ:ناظرین اب ہم اس دعوی تواتر کے قلعی کھولتے ہیں اور مخالفین کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ تواتر کے ادعی بھی تحقیق سے کام لیں ۔یہ کوئی نیا دعوی نہیں کیا گیا بلکہ پر اس سے پہلے اہلسنت مناظرین یہ دعوی کر چکے ہیں ۔چناچہ محمد علی جانباز شیعوں کے خلاف کتاب لکھتے ہوئے رقم طراز ہے :
حضرت علی سے بھی تحریم متعہ کی روایات اس قدر شہرت اور تواتر تک پہنچی ہوئی ہے ۔
حوالہ :حرمت متعہ ۔صفحہ ۔۲۹۔
ہم نے محمد علی جانباز صاحب کے دعوی پر جب برادر اسمعیل دیوبندی کی طرف رجوع کیا تو ان کے درج ذیل جواب کو نقل کیا جارہا ہے ۔
ہماری نظر سے کسی بھی معتبر اور مستند محدث یا عالم کا ایسا کوئی دعوی یا قول نہیں گذرا جس میں انہوں نے غزوہ خیبر کے موقع پر حرمت متعہ والی روایت کو متواتر کہا ہو۔البتہ آپ کے توسط سے معلوم ہواکہ مولوی محمد علی جانباز نے غزوہ خیبر کے موقع پر حرمت متعہ والی روایت کے تواتر کا دعوی کیا ہے ۔
علم حدیث کے ابتدائی طالب علم بھی بخوبی جانتا ہے کہ متواثر اس حدیث کو کہتے ہیں کہ جس کے راویوں کی تعداد صحابی سے لے کر محدث تک تمام طبقات میں اتنی کثیر ہو کہ ان تمام طبقات کے رواۃ کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلا محال ہو۔
لیکن محمد علی جانباز کے نزدیک متواتر ،،غریب حدیث ،،کو کہتے ہیں ،یعنی صحابی تامحدث کسی بھی ایک طبقے میں اس حدیث کو روایت کرنے والا تن تنہا صرف ایک راوی ہو۔

اقول :متواتر کی کئی اقسام ہوتی ہیں، اور بعض روایات ایسی ہوتی ہیں جو کہ اصل میں تو احاد ہوتی ہیں، لیکن اس کے بعد وہ اس حد تک پھیل جاتی ہیں، اور اتنے لوگ اسے نقل کر لیتے ہیں، اور اس کی تصدیق کر لیتے ہیں کہ عقل ان کے جھوٹ پر اتفاق کر لینا محال سمجھے ۔ بعض علماء نے اسے بھی متواتر کی ایک قسم قرار دیا ہے۔
چنانچہ اصول البزدوی میں لکھا ہے:
المشھور ما کان من الآحاد في الأصل ثم انتشر فصار ینقلہ قوم یا یتوھم تواطؤھم علی الکذب ، وھم القرن الثاني بعد الصحابۃ رضي اللہ عنھم ، ومن بعدھم وأولئک قوم ثقات أئمۃ لا یتھمون فصار بشادتھم وتصدیقھم بمنز لۃ المتواتر حجۃ من حجج اللہ تعالٰی حتی قال الجصاص إنہ أحد قسمي المتواتر 
مشہور وہ ہے جو اصل میں تو خبر واحد تھی ، پھر وہ پھیل گئی، حتٰی کہ اس کو اتنے لوگوں نے نقل کیا کہ عقل ان کے جھوٹ پر اتفاق کر لینا محال سمجھے ، وہ صحابہ کے بعد قرنِ ثانی اور اس کے بعد کا زمانہ ہے۔اور یہ لوگ ائمہ ثقات میں شمار کئے جاتے ہوں، تو ان کی شہادت اور تصدیق سے یہ تواتر کی منزلت تک پہنچ جائے گی۔ جو کہ اللہ تعالٰی کی حجتوں میں سے ایک حجت ہے۔ یہاں تک کہ جصاص نے کہا کہ یہ متواتر کی ایک قسم ہے۔ (أصول البزدوي ج ۱ ص ۱۵۲)
پس حضرت علیؓ سے یہ روایت ان کے محمد بن حنفیہ نے لی ، جن سے حضرت علیؓ کے دونواسوں نے نقل کی، اور ان سے امام زہری نے نقل کی۔ امام زہری سے یہ روایت دس سے زیادہ تلامذہ نے لی۔ان میں عبید اللہ بن عمر ، سفیان بن عیینہ، امام مالک، یونس بن یزید ، معمر ابن سلیمان، محمد بن اسحاق ، عبدلعزیز بن سلمہ اور اسامہ بن زید کی روایات کو تو میں نے خود پڑھا ہے، اس کے علاوہ ابن شاہین نے زہری کے شاگردوں کی فہرست اپنی کتاب ناسخ الحدیث ومنسوخۃ میں درج کی ہے جنہوں نے یہ روایت نقل کی ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں ورواہ معمر، ویحیی بن سعید، وأسامۃبن زید، ویونس بن یزید، وعثمان الوقاصي ، وإسماعیل بن أمیۃ ، وعبدالعزیز بن أبي سلمۃ ، وشعیب بن خالد، وھي في کتاب المناھي بطولھا (ناسخ الحدیث و منسوخۃ لابن شاھین ج ۲ ص ۸۴)
چنانچہ اس مختصر سی تحقیق سے ثابت ہوا کہ امام زہری سے یہ روایت دس سے زیادہ تلامذہ نے نقل کی ہے۔پس حضرت علیؓ سے یہ روایت شروع میں جب ان کے بیٹے اور نواسوں نے نقل کی ، تو اس کا شمار احاد میں ہوتا تھا۔ لیکن ان کے نواسوں سے جب یہ روایت امام زہری کے واسطے سے پھیلی، ائمہ ثقات نے اسے نقل کیا اور اس کی تصدیق کی تو اسکا متواتر ہونا ثابت ہو گیا۔

قولہ : حرمت متعہ در غزوہ خیبر :روایت کی تخریج 
عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :نہی عن متعۃ النساء یوم خیبر 
امام علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر متعہ سے روک دیا۔اسی طرح بعض روایت میں ہے کہ امام علی کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس متعہ کی حلت کا فتوی دے رہے ہیں تو امام نے ابن عباس کو رسول اللہ کی اس نہی سے آگاہ اور خبردار کیا ۔
امام مالک ،حافظ عبدالرزاق بن ھمام الصنعانی ،حافظ ابو بکر ابن ابی شیبہ ،امام احمد،سعید بن منصور ،امام بخاری ،امام مسلم ،امام نسائی ،امام ترمذی ،امام ابن ماجہ،امام دارمی ،امام ابو داود الطیاسی ،امام حمیدی بزار،حافظ ابن حبان اور امام بیہقی نے مختلف اور متعدد اسانید سے روایت اور نقل کیا ہے ۔
حرمت متعہ در خیبر والی روایت غریب ہے 
اس روایت کی اسنا د کے تین طبقات میں غرابت ہے،مذکورہ بالا محدثین نے جن مختلف و متعدد اسانید سے اس روایت کو نقل کیا ہے آگے جاکر یہ تمام اسانید امام زہری کے طریق پر ایک ہوجاتی ہیں کیونکہ امام زہری کے علاوہ کسی نے بھی اس کو روایت نہیں کیا۔طبقہ ثانیہ تابعین میں سے محمد بن حنفیہ اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں کیونکہ اس روایت کو امام علی سے نقل کرنے والے تنہا محمد بن حنفیہ ہیں ۔اسی طرح طبقہ اولی میں امام علی کے علاوہ کسی صحابی نے جنگ خیبر کے موقع پر حرمت متعہ کو رسول اللہ سے بیان نہیں کیا۔کوئی بھی روایت کسی بھی ایک طبقہ میں غرابت (تفرد )کی بنا ء پر غریب ہوتی ہے جبکہ زیر بحث روایت کے توتین طبقات میں غرابت پائی جاتی ہے لہذا حرمت متعہ در جنگ خیبر والی روایت غریب قرار پائی ۔یہی وجہ ہے کہ امام دار قطنی نے بھی اس روایت کو غرائب میں شمار کیا ہے ۔
غریب روایت کو امام دار قطنی نے اپنی کتاب ۔۔الغرائب و لافراد۔۔میں جمع کیا ہے جبکہ حافظ ابن القیسرانی نے دارالقطنی کی جمع کردہ غریب روایات کی اطراف کو اپنی کتاب ۔۔اطراف الغرائب والافراد ۔۔میں جمع کر دیاہے ۔جوکہ انتہائی مفید ہے ۔امام دار قطنی نے اپنی کتاب ۔۔الغرائب ولافراد مین اس روایت کو امام زین العابدین سے نقل کیا ہے ۔امام علی کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس متعہ کی حلت کا فتوع دے رہے ہیں تو امام نے ابن عباس کو رسول اللہ کی اس نہی سے آگاہ اور خبردار کیا ۔اس روایت کو امام زین العابدین سے ذکر کرنے کے بعد امام دار قطنی کہتے ہیں کہ علی بن حسین نے اس روایت کو محمد بن حنفیہ سے نقل کیا جو کہ ان کا وہم ہے کیونکہ اس روایت کو امام زہری نے محمد بن حنفیہ کے بیٹوں عبیداللہ اورحسن سے روایت کیا ہے اور ان دونوں بیٹوں نے اپنے والد محمد سے اور پھر محمد حنفیہ نے امام علی سے اس کو روایت کیا ہے ۔
چناچہ حافظ ابن القیسرانی ،امام دار قطنی سے سے نقل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
حدیث:انہ بلغہ ان ابن عباس یفتی بنکاح المتعۃ ۔الحدیث غریب من حدیث ابی سعد سعید بن المرزبان البقال عن الزہری عنہ۔تفرد بہ المسیب بن شریک عنہ وقولہ محمد بن علی عن ابیہ عن علی وھم وانما رواہ الزہری عن عبید اللہ والحسن ابنی محمد بن علی عن ابیھما عن علی۔ حوالہ :اطراف الغرائب والافراد المجلد۔۱ ۔الصفحۃ ۔۲۳۸
مولوی محمد علی جانباز کی علمی یتیمی پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے ،لگتا ہے حضرت جانباز کو حدیث متواتر کی تعریف بھی معلوم نہیں اگر معلوم ہے تو جناب تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ،موصوف نے غریب روایت کے تواتر کا بچگانہ دعوی کر کے اپنی حد درجہ جہالت کا ثبوت دیاہے جس کی ظرف التفات کرنا بھی عبث ہے ۔
اختتامیہ :ہم اس مضمون کے اختتام پر یہی کہنا چاہینگے کہ شیعوں کا تعصب و عناد بہرحال ایک مرض ہے لیکن اس مرض کا اگر اتنا اثر ہونے لگ جائے کے جھوٹ اور تہی دست باتوں کا شعار بنایا جائے تو یقیناًتعارف الاشیاء باضداد ھا کے کے تحت مذہب حقہ شیعہ خیر البریہ کی حقانیت واشگاف ہوتی ہے ۔

اقول : خیر طلب نے لکھا ہے کہ ’’اسی طرح طبقہ اولی میں امام علی کے علاوہ کسی صحابی نے جنگ خیبر کے موقع پر حرمت متعہ کو رسول اللہ سے بیان نہیں کیا‘‘
یہ سراسر غلط ہے۔ سنن کبرٰی میں امام بیہقی ؒ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے خیبر کے دن متعہ کی تحریم نقل کی ہے۔
ان رجلا سأل عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما عن المتعۃ فقال حرام قال فان فلانا یقول فیھا فقال واللہ لقد علم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمھا یوم خیبر وما کنا مسافحین 
ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے متعہ کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ حرام ہے۔ اس شخص نے کہا کہ فلاں اس کی اجازت دیتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا : اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے اس کو خیبر کے دن حرام قرار دیا تھا، اور ہم شہوت پرست نہیں تھے۔ (السنن الکبرٰی ج ۷ ص ۲۰۲)
اس روایت کی سند کو حافظ ابن حجر ؒ نے تلخیص میں اورشیخ البانی ؒ نے ارواء الغلیل میں قوی قرار دیا ہے۔
ابو عوانہ نے دو سندوں کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے خیبر کے دن متعہ کی ممانعت کا قول نقل کیا ہے۔(مستخرج ابو عوانہ ج ۵ ص ۳۹، ۴۰)
اس کے علاوہ یہ روایت موطا عبداللہ ابن وہب میں بھی موجود ہے، اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔
اخبرنی عمر بن محمد بن زید بن عبد اللہ بن عبد اللہ بن عمر بن الخطاب عن ابن شھاب قال اخبرنی سالم بن عبد اللہ ان رجلا سأل عبد اللہ بن عمر عن المتعۃ فقال : حرام۔ قال : فإن فلانا یقول فیھا ، فقال واللہ لقد علم ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرمھا یوم خیبر ، وما کنا مسافحین۔ (موطا عبد اللہ ابن وھب ج ۱ ص ۸۵)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی متعہ کی تحریم خیبر کے دن نقل کی گئی ہے۔ 
عبد الرزاق عن بن عیینۃ عن إسماعیل عن قیس عن عبداللہ بن مسعود قال کنا نغزو مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتطول عزبتنا ألا نختصي یا رسول اللہ فنھانا ثم رخص أن نتزوج إلی اجل بالشيء ثم نھانا عنھا یوم خیبر وعن لحوم الحمر الإنسیۃ (مصنف عبد الرزاق ج ۷ ص ۵۰۶)
اس سند کے تمام راوی بھی ثقہ ہے۔
اسی طرح امام طبرانی ؒ نے معجم کبیر میں کعب بن مالکؓ اور ثعلبہ بن حکمؓ سے ضعیف اسناد کے ساتھ خیبر کے دن متعہ کی تحریم نقل کی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امام زہری کے علاوہ اس روایت کو امام زید بن علی نے بھی روایت کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے، کتاب بھی شیعہ ہے اور تمام راوی بھی شیعہ امامی اثناعشری علماء کے مطابق ثقہ ہیں۔ 
محمد بن یحیی عن ابی جعفر عن ابی الجوزا عن الحسین بن علوان عن عمرو بن خالد عن زید بن علی عنآباۂ عن علی علیھم السلام قال حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ یوم خیبر لحوم الحمر الاھلیۃ ونکاح المتعۃ
امام زید بن علی نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھے کا گوشت اور نکاح متعہ کے حرام قرار دیا۔
محمد بن یحیی ثقہ ہے۔ (جامع الرواۃ ج ۲ ص ۳۱۲)
ابو جعفر ثقہ ہے۔ (المفید من معجم رجال الحدیث ص ۶۹۰)
ابو الجوزاء ثقہ ہے ۔ (مشایخ الثقات ص ۸۶)
حسین بن علوان ثقہ ہے۔ (معجم رجال الحدیث ج ۷ ص ۳۴)
عمرو بن خالد ثقہ ہے۔ (معجم رجال الحدیث ج ۱۴، ص ۱۰۲)

قولہ : عبداللہ بن مسعود کی روایت اتنی واشگاف و اظہر ہے کہ متعہ کو صحابی رسول طیبات میں سے شمار کرتا اور رسول ص کے زمانے سے دلیل پکڑتا لیکن کلام صاحب نے اس پر بھی اعتراضات کئے تو جوابات ذیل ہیں:
اعتراض :عبداللہ بن مسعود کی روایت جس میں روزہ سے جنسی خواہش کو فرد کرنے کی بات ہے اس سے متعہ باطل ثابت ہوتا ہے ۔
جواب:کلام صاحب کہاں روایت کے الفاظاور کہاں آ پکی مدلول ۔جب کہ خود علماء اہلسنت اس بات کو متشرح و مصرح کر چکے ہیں کے ابن مسعود نکاح متعہ کی حلت کے قائل تھے ۔ہم تو اصل علت پر بات کر رہے تھے کہ رسول صہ نے ایک حلال طریقہ بتایا تھااپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ۔اب اسکو اگرچہ اب جہاد تک مقیدکر دیں یا کسی اور موقع پر اصل استدلال پر فرق نہیں آتااور وہ یہی ہے کے جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے اس سے استفادہ کیا جائے اوربقول سعید بن جبیر یہ پانی سے زیادہ حلال ہے تو صغری کبری ملے لیجئے اورنتیجہ آرام سے نکال لیجئے ۔
خود ابن حزم ،ابن حجر اور شوکانی نے بالترتیب المحلی ،جلد۔۹۔صفحہ ۔۵۱۹،مسئلہ۱۸۵۴،تحت احکام النساء ،تلخیص الجبیر ،جز ۔۳۔صفحہ ۔۳۲۷۔مسئلہ رقم ۱۶۰۳،کتاب النکاح ،طبع قاہرہ ،نیل الا وطار ۔جلد ۔۷۔صفحہ ۔۵۹۸کتاب النکاح ۔میں ابن مسعود سے متعہ کی حلت کا قول ہوا ہے ۔اور نکاح متعہ کے معتقدین میں شمار کیا ہے ۔کہاں آپ کا ستدلال اورکہاں جہابذان اہلسنت کا استدلال؟
اعتراض:ابن حجر عسقلانی ،شوکانی اور ابن حزم سے جو متعہ کی اباحت کاقول مختلف صحابہ سے منسوب کیا گیا ہے ،ان میں سے اکثر کی طرف متعہ کی نسبت کا قول غلط ہے ۔اور دیگر کی طرف جو متعہ کی اباحت کا قول منسوب ہے تو اس کا ثابت ہونا دلیل کا محتاج ہے ۔
جواب ۔میرے محترم مقابل ۔اگر آپ عربی عبارت بنظر عمیق دیکھے تو معاملہ صاف ہے کہ انہوں نے ثبت کا لفظ استعمال کیا ہے کہ یہ قول ان سب سے ثابت ہے نہ کر شک استعمال کیا ہے ۔کیوں کہ ثبت یقیں کے لئے آتا ہے ،چناچہ لغت کی مشہور و معروف کتاب مصباح اللغت کی طرف جب ہم رجوع کرتے ہے جو عربی الفاظ کا اردو میں ترجمہ میں سند کی حیثیت رکھتی ہے تو دیکھتے ہیں کہ ثبت کا معنی دیج ذیل ہے :
۱۔ثابت کرنا 
۲۔دلائل سے موکد کرنا 
حوالہ:مصباح اللغت ،صفحہ ۔۹۰
چناچہ ہم اصلی عربی عبارات ان تینوں علماء کی نقل واپس سے کر دیتے ہیں :
اب حزم :
وقد ثبت علی تحلیلھابعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعۃ من السلف ،منھم من الصحابۃ اسماء بنت ابی بکر ،وجابر بن عبداللہ ،وابن مسعود ،و ابن عباس ،و معاویہ ،و عمرو بن حریث،و ابو سعید ،وسلمۃ ،و معبد بن امیۃ بن خلف
حوالہ :محلی ،جلد۔۹۔صفحہ ۔۵۱۹،مسئلہ۱۸۵۴،تحت احکام النساء

ابن حجر عسقلانی :
وقد ثبت علی تحلیلھابعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعۃ من السلف ،منھم من الصحابۃ اسماء بنت ابی بکر ،وجابر بن عبداللہ ،وابن مسعود ،و ابن عباس ،و معاویہ ،و عمرو بن حریث،و ابو سعید ،وسلمۃ ،و معبد بن امیۃ بن خلف
حوالہ :،تلخیص الجبیر ،جز ۔۳۔صفحہ ۔۳۴۶
شوکانی :
وقد ثبت علی تحلیلھابعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعۃ من السلف ،منھم من الصحابۃ اسماء بنت ابی بکر ،وجابر بن عبداللہ ،وابن مسعود ،و ابن عباس ،و معاویہ ،و عمرو بن حریث،و ابو سعید ،وسلمۃ ،و معبد بن امیۃ بن خلف
حوالہ :نیل الا وطار ۔جلد ۔۶۔صفحہ ۔۱۶۱ 
اب ان تینوں علماء کی عبارت میں ثبت مشترکہ لفظ ہے جس سے ثبوت کا پایا جانا اظہر ہوتا ہے ،کلام صاحب جب آپ کے نذدیک بعض سے نسبت غلط ہے اور بعض سے مشکوک ہے توآپ اپنے رشحات قلم کی جاذبیت سے اس قضیہ کی نفی کر سکتے تھے جو آپ نے زحمت کرنا بھی درست نہیں سمجھا ۔اس سے بالترتیب ابن مسعود کا حلت نکاح متعہ کا عقیدہ واشگاف ہوتا ہے اور جملہ اعتراضات و ر وایات کا رد ہوتا ہے ۔
آخر میں شارح صحیح مسلم نووی کا قول پیش کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا،چناچہ نووی رقم طراز ہے:
(وفی قراء ت بن مسعود فما استمتعتم بہ منھن الی اجل و قراۃ بن مسعود ھذہ شاذۃ لایحتج بھا قراناولا خبرا ولایلزم العمل بھا)
ابن مسعود کی سورہ نساء کی آیت ۲۴ کی قرات یہ تھی ۔۔فما استمتعتم بہ منھن الی اجل۔۔یعنی جب تم ان سے ایک مدت تک فائدہ اٹھا لو۔ابن مسعود کی قرات شاذ ہے یعنی جمہور کے خلاف ہے جس نے قرآنی آیت کا استدلال ہوتا ہے نہ ہی کسی روایت کا اور نہ اس پر عمل کرنے کا مو جب ہے ۔
حوالہ :المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ۔جز ۔۹۔ صفحہ ۔۱۷۹۔
تبصرہ : ہم نووی کے شاذ کہنے پر تعجب کرتے ہیں لیکن اس فیصلے سے قطع نظر ابن مسعود کا عقیدہ بلمتعہ کا اثبات تو ہو ہی جاتا ہے جو ہمارا مقصود ہے ۔باقی کی ابحاث ثانوی ہے ۔

اقول : خیر طلب صاحب نے ایک مصباح اللغات کیا ڈاون لوڈ کر لی ہے، انہیں لگتا ہے کہ دنیا میں بس یہی ایک قاموس ہے، اوراس کے باہر عربی کا کوئی وجود نہیں۔ آپ قاموس الوحید بھی ڈاون لوڈ کر لیں۔قاموس الوحید میں ثَبَتَ کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے ۔ جمنا، ٹھرنا، ثابت قدم رہنا، مضبوط و مستحکم ہونا، قائم رہنا، ثابت و ظاہر ہونا،محقق ہونا ، پایہ ثبوت کو پہنچنا۔ چنانچہ بہت سی روایات میں آپ کو ثبت کا ترجمہ ’’قائم رہنا‘‘ کرنا پڑے گا۔ جیسا آپ کی معتبر کتاب ’’کمال الدین ‘‘میں حضرت زین العابدین سے مروی ہے کہ (من ثبت علی ولایتنا فی غیبۃ قائمنا اعطاہ اللہ عز و جل اجر الف شھید من شھداء بدر واحد) یعنی جو ہمارے قائم کی غیبت میں ہماری ولایت پر قائم رہے گا، تو اس کو اللہ تعالی ایک ہزار شہداء بدر و احد کے برابر اجر عطا کرے گا۔ (کمال الدین ص ۳۲۳)
اسی طرح کنز العمال میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا (کان فیمن ثبت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم حنین ایمن ابن ام ایمن وھو ایمن بن عبید) غزوہ حنین کے دن جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے، ان میں سے ام ایمن کا بیٹا ایمن یعنی ایمن بن عبید بھی شامل تھا۔ (کنز العمال ج ۱۰ ص ۵۳۱)

بہرحال خیر طلب نے حافظ ابن حجر اور علامہ شوکانی کی طرف بھی اس قول کی نسبت کی، حالانکہ ان دونوں نے فقط ابن حزم کا قول نقل کیا۔ابن حجر نے ابن حزم کا رد کیا، اور علامہ شوکانی نے ابن حجر کے اس رد کا ذکر کرکے اس کی طرف رجوع کرنے کو کہا۔اس لئے جان لیجئے کہ یہ صرف ابن حزم کا قول ہے، اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اسے غلط ثابت کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں (وفی جمیع ما اطلقہ نظر) (فتح الباری ج ۹ ص ۱۷۴)
اسی طرح علامہ شوکانی نے لکھا ہے (وقد ذکر الحافظ فی فتح الباری بعدما حکی عن ابن حزم کلامہ السالف المتضمن لروایۃ جواز المتعۃ عن جماعۃ من الصحابۃ ومن بعدھم مناقشات فقال وفی جمیع ما اطلقہ نظر اما ابن مسعود الی آخر کلامہ فلیراجع) (نیل الاوطار ج ۶ ص ۱۹۴)
علامہ عبد الحی لکھنوی فرماتے ہیں (ونسب ابن حزم الی جابر وابن مسعود وابن عباس ومعاویۃ وابی سعید الخدری وغیرھم الحکم بتحلیلھا وتعقب بانہ لم یصح عنھم ذلک) (التعلیق المجدد لموطا الامام محمد ج ۲ ص ۵۲۴)

قولہ : ہم نے سابقہ تحریر میں واشگاف موقف پیش کیا علماء اہلسنت کا جو اس بات پر مصر تھے کے بغیر گواہ کے نکاح ہوجاتا ہے ،یہی ہمارا مقصود تھااب ہونا یہ چاہیے تھا کہ کلام صاحب اس معقول کا جواب دیتے ان تمام افراد سے نفی کا ثبوت دیتے یا اگر نہ دے سکتے تھے تو کم سے کم اس بات کو تو مان ہی لیتے کیونکہ طالب علم کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مکابرہ و مجادلہ سے پرہیز کے دلیل کا تابع ہوتاہے لیکن کلام صاحب نے جواب میں یوں گلو خاصی کرنے کی کوشش کی :
اعتراض:اہلسنت کے مطابق اگر گواہ اور اعلان میں سے کوئی ایک بھی موجود نہ ہو تو نکاح باطل ہے ۔
جواب: کلام صاحب اس سادہ لوحی پر کون نہ مر جائے ۔یعنی اب جن حضرات سے ہم نے ثابت کیا ہے کہ وہ گواہ کو ضروری نہیں سمجھتے وہاں کسی کے لیے بھی نہیں لکھا کہ وہ اس بات کے معتقد تھے کہ اس کا اعلان کیاجائے ،صرف امام مالک بن انس کے لئے ابن قدامہ یہ لاحقہ لگاتے ہیں :
(ومالک،اذااعلنوہ )
مالک کا نظریہ یہ ہے کہ دہ گواہوں کی ضرورت نہیں اس صورت میں جب اعلان کیا جائے ۔
اس سے پہلے کی عبارت میں اذااعلنوہ کی قید صحابہ ،تابعین کا ذکر نہیں آیا ۔ان صحابہ و تابعین سے نفی کا ثبوت تو آپ کے ذم میں تھاجو آپ نے ہمارے متھے ڈال دیا ،ہم نے سیاق و سباق کر دیا کے امام مالک بن انس کے علاوہ سب ہی بغیر گواہوں کے نکاح کی اباحت کے قائل ہے اور اعلان کو ضروری نہیں سمجھتے ۔

اقول : خیر طلب نے امام زہری کا ذکر کیا۔ امام عبدا لرزاق ؒ نے المصنف میں معمر سے روایت کی ہے کہ امام زہری نے فرمایا (فانا نراہ نکاحا جائزا اذا اعلنوہ ولم یسروہ ) یعنی ہم نکاح کو جائز سمجھتے ہیں جبکہ اس کا اعلان کر دیں، اور اس کو خفیہ نہ رکھیں۔ (المصنف ، کتاب النکاح) پھر خیر طلب نے ظاہریہ کی طرف اس قول کی نسبت کی ، جبکہ ابن حزم ظاہری کہتا ہے( لا یتم النکاح الا باشھاد عدلین فصاعدا او باعلان عام ) یعنی نکاح منعقد نہیں ہوتا بغیر دو عادل افراد کی گواہی کے، یا اعلان عام کے۔(المحلی بالآثار ، کتاب النکاح) حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں (اذا تزوجھا بلا ولی ولا شھود وکتم النکاح فھذا نکاح باطل باتفاق الائمۃ) یعنی اگر کوئی مرد کسی عورت سے بغیر ولی، گواہوں کے اور خفیہ نکاح کرے، تو ائمہ ایسے نکاح کے باطل ہونے پر متفق ہیں۔(مجموع الفتاوی ج ۸ ص ۲۶۷) اسی طرح شیخ حمد بن عبداللہ فرماتے ہیں (وقال المالکیۃ وھو مذھب ابن المنذر واختارہ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ وھو روایۃ عن الامام احمد ان الاشھاد لا یشترط وانما یشترط اعلان النکاح) یعنی مالکیہ کہتے ہیں، اور ابن منذر کا مذہب بھی یہی ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اسے اختیار کیا ہے، اور امام احمد سے بھی مروی ہے، کہ گواہی شرط نہیں، اور شرط تو فقط نکاح کا اعلان ہے۔ (شرح زاد المستقنع ج ۲۰ ص ۳۶) امید ہے خیر طلب صاحب کے یہ شبہات بھی رفع ہو چکے ہونگے۔

قولہ : اگر آپ کو اصل اعتراض یا د ہو تووہ اس ہی بات پر تھاکہ بغیر گواہوں کے نکاح باطل ہے جس کا ابطال ہم نے کیا۔اب مزید توجیہیں وکٹ حجتی بات کو گمبھیر تو بنا سکتی ہے لیکن آپ کا مدعا ثابت نہیں کر سکتی ۔
اب ہم اپنی دلیل دیتے ہیں کہ متعہ میں گواہوں کی شرط ضروری نہیں ۔چناچہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے جس کا اردو ترجمہ ہم اہلسنت حضرات کے بنائے ہوئے سافٹ وئیر سے من و عن نقل کر دینگے:
اردو ترجمہ:(ربیع بن سبرہ سے روایت ہے کہ ان کے والد رضی اللہ عنہ غزوہ فتع مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور کہا کہ ہم مکہ میں پندرہ یعنی رات اور دن ملا کر تیس دن ٹہرے تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی پس میں اور میری قوم کا ایک شخص دونوں نکلے اور میں اس سے خوبصورتی میں زیادہ تھااور وہ بد صورتی کے قریب تھااور ہم میں سے ہر ایک پاس چادر تھی اور میری چادر پرانی تھی اور میرے ابن عم کی چادر نئی اور تازہ تھی ۔یہاں تک کہ ہم جب مکہ کے نیچے یا اوپر کی جانب میں پہنچے تو ہمیں ایک عورت ملی جیسے جوان اونٹنی ہوتی ہے ،صراحی دار گردن والی (یعنی جوان خوبصورت عورت)پس ہم نے اس سے کہا کہ کیا تجھے رغبت ہے کہ ہم میں سے کوئی تجھ سے متعہ کرے ؟اس نے کہا تم لوگ کیا دوگے ؟تو ہم میں سے ہر ایک نے اپنی چادر پھیلائی تو وہ دونوں کی طرف دیکھنے لگی ،اور میرا رفیق اس کو گھورتا تھا(اور اس کے سر سے سرین تک گھورتا تھا)اس نے کہا کہ ان کی چادر پرانی ہے اور میری چادر نئی اور تازہ ہے ۔تو اس عورت نے دویا تین بار یہ کہا کہ اس کی چادرمیں کوئی مضائقہ نہیں ۔غرض میں نے اس سے متعہ کیا ۔پھر میں اس عورت کے پاس سے اس وقت تک نہیں نکلا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو حرام نہیں کر دیا۔)
حوالہ:صحیح مسلم ۔جز ۔۲۔صفحہ ۔۱۰۲۴
اس کی شرح میں نووی رقم طراز ہے :
(وفی ھذا الحدیث دلیل علی انہ لم یکن فی نکاح المتعۃ ولی ولا شھود )
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے نکاح متعہ میں ولی کی اور گواہی کی ضرورت نہیں ۔
حوالہ:المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج ۔جز۔۹۔صفحہ ۔۱۸۵۔۱۸۶۔
اور یہی بات علامہ نواب صدیق حسن بھوپالی نے بھی السراج الوھاج ،جز اول ۔صفحہ ۔۵۲۵ طبع قدیم میں کہی۔
اب ہمارا اور آپ کا اختلاف اگرچہ اس کی منسوخ ہونے پر ضرور ہے لیکن اب ان احکامات کو خالص شیعی و ضعی قرار دینا جائز نہیں ،جبکہ صدر اسلام میں نکاح متعہ میں ولی اور گواہوں کی اجازت ضروری نہیں تھی۔باقی ابن قدامہ کا قول بڑا واضع ہے اور مالک بن انس کے ساتھ شرط اعلان لگانا اس بات کا ثبوت ہے کہ باقی اس شرط کو بھی ضروری نہیں سمجھتے ۔

اقول : اصل اعتراض گواہی پر نہیں، اصل اعتراض چوری چھپے نکاح پر ہے، جو کہ آپ کے علماء کی رائے ہے، اور جس کو آپ ہمارے علماء کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گواہی ہو یا اعلان، بنیادی مقصد تو نکاح کا مشتہر ہونا اور خفیہ نہ ہونا ہے۔ اور نکاح المتعہ میں ولی اور گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، اس سے میں انکار نہیں کرتا۔لیکن میں نے خیر طلب کا رد بھی اسی وقت کیا جب اس نے نکاح دائمی میں اہلسنت کے ائمہ کے اقوال پیش کئے کہ گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نکاح دائمی میں اعلان اور/یا گواہوں کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ ملاحظہ کیجئے امام جعفر کیا فرماتے ہیں:

علی بن ابراھیم عن ابیہ عن ابن ابی عمیر عن عمر بن اذینۃ عن زرارۃ قال سئل ابو عبد اللہ عن الرجل یتزوج المراۃ بغیر شھود فقال لا باس بتزویج البتۃ فیما بینہ و بین الناس انما جعل الشھود فی تزویج البتۃ من اجل الولد لو لا ذلک لم یکن بہ باس  زرارہ بن اعین سے روایت ہے کہ امام جعفر سے سوال کیا گیا اس شخص کے بارے میں جو کہ کسی عورت سے بغیر گواہوں کے شادی کرتا ہے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’اس شادی میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ جو اس کے اور اللہ کے درمیان ہے۔ بے شک گواہوں کو مقرر کیا گیا ہے شادی میں اولاد کی وجہ سے ، اگر ایسا نہ ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ (فروع الکافی ج ۵ ص ۷۸)
پس یہاں سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اس وجہ سے شادی کرتا ہے کہ اس کی اولاد ہو ، تو اس کو گواہ لانے پڑیں گے ، لیکن اگر وہ شادی میں اولاد کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، بلکہ محض فلمی شادی کرنا چاہتا ہے، تو وہ گواہ لائے یا نہ لائے، کوئی مضائقہ نہیں۔
اگلی روایت ملاحظہ کیجئے:
علی بن ابراھیم عن ابیہ و محمد بن یحیی عن عبد اللہ بن محمد جمیعا عن ابن ابی عمیر عن ھشام بن سالم عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال انما جعلت البینات للنسب والمواریث وفی روایۃ اخری والحدود
ہشام بن سالم سے روایت ہے کہ امام جعفر نے فرمایا : بے شک گواہوں کو نسب اور وراثت کے معاملات کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے : حدود کے لئے۔ (فروع الکافی ج ۵ ص ۷۸)
زرارہ اور ہشام دونوں کی روایات کو مجلسی نے مراۃ العقول میں حسن قرار دیا ہے۔ (مراۃ العقول ج ۲۰ ص ۱۲۰)
پس اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر اپنے بچوں کے نسب کی فکر ہو، اور ان کے وراثت کے معاملات کی فکر ہو ، اور حدود کا کچھ خیال ہو، تو گواہ لازمی لانے چاہئے۔ اور اگر ان کی پروا نہ ہو، فقط شغل میلے کے واسطے شادی کرنی ہو، تو پھر گواہ نہ بھی ہوں تب بھی کام چل جائے گا۔
اب اہل تشیع سے ہمارا سوال ہے، کیا شادی فقط شغل میلے کے واسطے کی جاتی ہے؟ کیا آپ کو بچوں کی اور ان کے نسب کی فکر نہیں ہوتی، ان کے وراثت کے معاملات آپ کے نزدیک کچھ اہمیت نہیں رکھتے؟اگر رکھتے ہیں تو آپ کو گواہ لانے پڑیں گے۔ ورنہ نہ بچوں کا نسب ثابت ہوگا، اور نہ ان کی وراثت کے معاملات کو طے کیا جاسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ابن ابی عقیل العمانی جو کہ انتہائی مشہور شیعہ فقیہ اور متکلم گزرا ہے، نکاح دائم میں گواہوں کی شرط کے قائل ہیں۔چنانچہ شیخ محمد علی انصاری شیعی اپنی کتاب ’’الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ‘‘ میں لکھتا ہے 
(قال ابن ابی عقیل بوجوبہ) (الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ ج ۳ ص ۳۵۶)

قولہ : اگر آپ مفہوم و دلالت کے اعتبا ر سے دیکھیں تو دونو ن چیزیں تقریباایک جسیی ہے فقط صیغہ جات کا فرق ہے اور بعض ضمنی احکامات کا۔یعنی ایک شخص ایک مدت کے لیے نکاح متعہ کرتا ہے اور دوسرا شخص نکاح دائمی بنیت طلاق کرے۔پہلا شخص جو متعہ کر رہا ہے وہ ایک سال کی میعاد و عرصہ کو اعتبا ر جانیدوسرا شخص جو نکاح دائمی کر رہا ہے وہ اس نیت سے دیکھے کہ میں ایک سال کے بعد اسے طلا ق دے دونگا۔تو کلام صاحب مجھے فرق بتائیں ؟سوائے صیغہ جات جو نکاح کے لئے الگ الگ پڑھے جائیں گے اس کے علاوہ کوئی فرق ہے ،نہیں جی نہیں ۔دونوں میں وہی باتیں لازم ملزوم ہیں جو نکاح متعہ کا خاصہ ہے ۔ادھر بھی ایک میعاد مقرر ہے اور ادھر بھی نیت میعاد ادھر بھی اس میعاد کے اختمام پر رشتہ منقطہ ہوجائے گااور ادھر بھی۔اس تمہید کے ذکر کے بعداصل موضوع پر آتے ہے اور اپنے اس اقتباس کو نقل کرتا ہوں جو پچھلی تحریر میں تھا۔
اہلسنت مکتب کے مشہور فقہی مکاتب کے نزدیک اگر کوئی شخص اس نیت سے شادی کرے کہ میں عورت کو طلاق دے دوں گاتو وہ شادی صحیح ہے ۔چناچہ اس حوالے سے اہلسنت کے تین مشہور مکاتب فقہی یعنی فقہہ حنفی ،فقہہ مالکی ،فقہہ شافعی اور ایک قول کے مطابق فقہہ حنبلی اس نکاح جو صحیح قرار دیتے ہیں ۔
جب علامہ اوزاعی اہلسنت امام کے پاس یہ مسئلہ پہنچا تو انہوں نے اس نکاح متعہ قرار دیتے ہوئے اس قول کو قابل التفات نہ سمجھا۔
حوالہ :الموسوعتہ الفقہیہ ۔جز ۔۴۱۔صفحہ ۔۳۴۳۔۳۴۴
افر اس نکاح میں جو نیت طلاق حد فاصل ہے،اس میں اہلسنت کے نزدیک معنوی قباحت نہ ہوتی تو علامہ اوزاعی کبھی متعہ قرار نہ دیتے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اوزاعی جو شام کے آئمہ میں سے ایک تھے انہوں نے اس کو متعہ کیوں قرار دیا؟یقیناًان کے نذدیک اس میں معنوی تاثرات وہی ہوتے ہیں جو نکاح متعہ میں ہوتے ہیں۔اب آخر میں مزید تقویت کے لیے علامہ ابن قدامہ کا قول نقل کرتے ہیں :
(وان تزوجھابغیر شرط الا ان فی نیتہ طلاقھابعد شھر او اذا انقضت حاجتہ فی ھذا البلد ،فالنکاح صحیح ،فی قول عامۃ اھل العلم الا ا لاوزاعی قال:ھو نکاح متعۃ۔والصحیح انہ لاباس بہ۔)
(اور اگر کوئی شخص بغیر شرط کے نکاح کرے مگراس کی نیت یہ ہو کہ ایک مہینہ بعد طلاق دے دیگایا اگر اس کی حاجت کسی خاص شہر میں پوری ہوجائے تو طلاق دے دیگا تو اس صورت میں نکاح صحیح ہے جمہور اہل علم کے قول کے نذدیک مگر یہ کہ اوزاعی اس صورت کو نکاح متعہ قرار دیتے ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں کوئی برائی نہیں ۔)
حوالہ :المغنی ۔جز ۔۷۔صفحہ ۔۱۸۰

اقول : صیغہ جات کے علاوہ فرق میں آپ کو بتاتا ہوں۔ صیغہ جات کے علاوہ فرق یہ ہے کہ متعہ میں میاں اور بیوی دونوں کے درمیان یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ متعہ کا دورانیہ اتنی باریوں، گھنٹوں، دنوں یا مہینوں کا ہوگا۔ جبکہ نکاح بنیۃ الطلاق میں یہ شرط نہیں ہوتی، بلکہ ایک بات جو فقط مرد کے دل میں موجود ہوتی ہے ۔ پھر میراث کے معاملات اس میں جدا اور متعہ میں جدا ہوتے ہیں۔ متعہ میں مرد بیوی کے نان نفقہ کا ذمہ دار نہیں ہوتا، جبکہ نکاح بنیۃ الطلاق میں مرد بیوی کے نان نفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
یہ تین ایسی واضح باتیں ہیں، جن سے ایک شخص بہت اچھی طرح دونوں میں فرق کو سمجھ سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ طلاق بنیۃ الطلاق کو خود شیعہ علماء نکاح دائمی سمجھتے ہیں، تو امام اوزاعی کے قول سے کس طرح اس کو نکاح متعہ کی طرح قرار دیں گے؟اگر شیعہ علماء اس کو نکاح متعہ ہی سمجھتے ہیں، تو اس پر آپ دلیل پیش کریں، پھرامام اوزاعی کے قول سے استدلال کریں۔

قولہ : یہ ہماری تحریر کا آخری سلسلہ ہے اور اس تحریر میں درج ذیل موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے ۔
۱۔یحیی بن اکثم اور لواطت کا قصہ 
۲۔معاویہ کا شراب پینا 
۳۔استمناء یعنی خود لزتی و علماء اہلسنت 
۱۔یحیی بن اکثم اور لواطت کا قصہ 
یحیی بن اکثم ایسی شخصیت ہے جن کی لواطت حد اشتہار تک پہنچی ہوئی ہے اور انکی لواطت کے حوالے سے ہمارا اورکلام صاحب کا بڑا تفصیلی مباحثہ ہوچکاہے ،اس کے بعد بھی کلام صاحب اس اعتراض کرنے پر مصر ہے:
اعتراض :ایسا غبی ہی یحیی بن اکثم پر ایسا الزام لگا سکتا ہے ۔
جواب:اس کا جواب ہم اپنے پرانے آرٹیکل سے ہی بایں دیں گے:
ثعالبی نیثاپوری اپنی کتاب ثمار القلوب فی المضاف والمنسوب صفحہ ۔۱۵۶۔۱۵۸رقم ۲۲۱ طبع دارالمعارف میں لواط یحیی بن اکثم کی پوری ۳ صفحات کی داستانیں لکھی ہیں۔
علامہ راغب اصفہانی اپنی کتاب محاضرات الادباء ،جلد ۱ ،صفحہ ۔۴۳۴ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جس میں ایک خوبصورت لڑکے نے ایک سوال کے جواب میں یحیی بن اکثم کہ زمین کی خبر کے مطابق تم لواطت کرتے ہو۔علامہ شمس الدین ذہبی نے سیر اعلام البنلاء۔جلد۔۱۲۔صفحہ ۔۱۰۔میں کہا کہ یحیی بن اکثم ایام جوانی میں خوبصورت لڑکوں سے مسخرہ کرتے تھے ۔اس کے علاوہ کلام صاحب نے ایک بار اس قول سے بایں استدلال کیا تھا:
احمد بن یعقوب فرماتے ہیں (کان یحیی بن اکثم یحسد حسدا شدیدا)
جس کا جواب ہم نے یہ دیا تھا:
جواب:خدارا ذرا ایمان سے بتائیے کہ آپ نے روایت کا آگے کا حصہ نہیں پڑھا، یہ روایت بایں ہے :
اخبرنی الازھری ،اخبرنا محمد بن عباس قال حدثنا محمد بن خلف بن مرزبان بن بسام قال حدثنی ابو العباس احمد بن یعقوب قال کان یحیی بن اکثم یحسد حسدا شدیداوکان مفتنا فکان اذانظر الی رجل یحفظ الفقہ سالہ ان الحدیث،فاذاراہ یحفظ الفقہ سالہ عن الحدیث ،فاذاراہ یحفظ الحدیث سالہ عن النحو فاذاراہ یعلم النحو سالہ عن الکلام لیقطعہ و یحنجلہ فد خل الیہ رجل من اھل خراسان ذکی حافظ فنا ظرہ فراہ مفتنا فقال لہ نظرت فی الحدیث؛قال نعم قال فماتحفظ من الاصول ؛قالاحفظ شریک عن ابی اسحاق عن الحارث عن علیاان علیارجم لوطیہ فامسک یکلمہ شی ۔
یحیی بن اکثم شدید حسد رکھا کرتا تھا(یہ صیغہ معروف کا ہے مجہول کانہیں فتد براز خیر طلب )اور وہ بہت بڑا فن رکھنے والاآدمی تھا،پس وہ جب بھی کسی شخص کو دیکھتا جیسے فقہ پر عبور ہوتاتو یحیی (حسد کے مارے )اس سے حدیث کے بارے میں سوال کرتاجب وہ یہ دیکھتا کہ اسے تو حدیث پر بھی عبور ہے تو وہ علم نحو کے بارے میں پوچھتا جب وہ یہ دیکھتا کہ وہ شخص علم نحو بھی جانتا ہے تو یحیی علم کلام کے بارے میں سوال کرتا تاکہ اس شخص کے علمی رعب کو توڑا جائے اور اس کو پریشان کیا جائے (حسد کی انتہا از خیر طلب)پس ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خراسان کا ایک شخص داخل ہو ا جونہایت ذہین اور حافظ تھاپس یحیی بن اکثم نے اس شخص سے مناظرہ شروع کر دیا،پس مناظرے کے دوران یحیی کو محسوس ہوا کہ یہ شخص نہایت ذہین ہے ۔یحیی نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہیں حدیث کے بارے میں علم ہے ؛اس (اہل خراسان والا) نے کہا بیشک ۔یحیی بن اکثم نے اس شخص سے علم اصول کے بارے میں پاچھاتو اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے شریک سے روایت کی اس نے ابو الاسحاق سے اس نے حارث سے اس نے حضرت علی سے روایت کی علی ،لواطت کرنے والوں کو رجم کیا کرتے تھے ،یہ سن کر یحیی قابو میں آیا اور پھر اسے بولنے کی کچھ ہمت نہیں ہوئی۔ حوالہ :تاریخ بغداد،جلد ،۱۴۔صفحہ ۔۲۰۴
تبصرہ :یہ دیکھیں یہ کلام صاحب کی علمی امانت کا حال ہے کہ ترجمہ بھی غلط کیا اور پھر اوپر سے یحیی کی حسدکی کہانیاں جو وہ لوگوں کے زیچ کرنے کے لیے کرتا لیکن اب ثابت ہوا کہ کلام صاحب کے نذدیک جوقابل احتجاج روایت ہے

اقول : قصہ کچھ یوں ہے کہ دو سال پہلے ہمارا یحیی بن اکثم کے حوالے سے مباحثہ ہوا تھا۔ اس حوالے سے موصوف نے اپنے دلائل دیئے، جن کا میں نے رد پیش کیا۔ موصوف نے بے سند روایات پیش کی، جس کے مقابلے میں احقر نے یحیی بن اکثم ہی کے ہم عصر ، اور اپنے وقت کے امام احمد بن حنبل سے اس کی تردید شدید الفاظ میں ایک ایسی سند سے دکھائی تھی، جس کی سند میں کوئی خامی نہیں تھی۔ اس کی سند میں خیر طلب نے جو اعتراض کیا تھا، اس کی خامی ہم ابھی خیر طلب کے اپنے اصولوں سے ہی دکھائیں گے، لیکن جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے، تو اس روایت کو میں نے امام احمد کی روایت کی مؤید کے طور پر پیش کیا تھا۔ چنانچہ امام احمد کی روایت کی سند کے ایک ایک راوی کی توثیق میں نے دکھائی تھی، اور اس روایت کی سند کے راویوں کی توثیق میں نے نہیں دکھائی تھی۔ بہرحال اس وقت عربی زبان سے عدم واقفیت کی بنا پر اس روایت کا ترجمہ کرنے میں غلطی کی۔ لیکن بفضلِ خدا اب میں اس روایت کے متن اور سند دونوں کا ضعف آپ کے سامنے واضح کر رہا ہوں۔اس کی سند میں محمد بن خلف بن مرزبان کے بارے میں امام دارقطنی فرماتے ہیں ’’اخباری لین‘‘ ۔ (میزان الاعتدال للذھبی ج ۳ ص ۵۳۸) اس کی سند میں کمزوری یوں ہے کہ خراسان کا یہ عالم فاضل جو روایت حضرت علی سے نقل کر رہا ہے، اس کی سند میں ایک کذاب ’’حارث بن عبداللہ الاعور ‘‘ ہے ، دو مدلسین ہیں یعنی شریک اور ابو اسحاق ، اور دونوں ہی عن سے روایت کر رہے ہیں۔ پس خراسان کا یہ عالم ایک ایسی حدیث لے کر آیا جو کہ سراسر موضوع ہے ۔مجھے حیرت ہے کہ ایک شخص جو تمام علوم اپنے پاس رکھتا ہو، ایسے شخص سے کیونکر حسد کرے گا؟ اس نے تو موضوع روایت پیش کر کے اپنے علم حدیث کا انکشاف کر دیا۔اور خراسان کے عالم نے تو سند یوں بیان کی ’’احفظ شریک عن ابی اسحاق عن الحارث ان علیا رجم لوطیا‘‘ لیکن خیر طلب نے جوش میں ہوش کھوتے ہوئے اس کی سند یوں لکھ ڈالی ’’احفظ شریک عن ابی اسحاق عن الحارث عن علیاان علیا ‘‘۔ کلمہ ، نماز، قرآن اور اذان کے بعد اب سند میں بھی’ علی‘ کا اضافہ ایک نیا شوشہ ہے۔ جس طرح کہتے ہیں کہ سو سنار کی ، ایک لوہار کی۔ اسی طرح خیر طلب کی ان ضعیف و بے سند حکایات اس ایک باسند معتبر روایت کے مقابلے میں خس و خاشاک سے بھی زیادہ گئی گزری ہیں۔
چنانچہ میں باسند امام احمد بن حنبل کا قول نقل کرتا ہوں:
اخبرنا ابو الحسن محمد بن عبد الواحد (ثقہ) حدثنا محمد بن العباس (ثقہ) حدثنا محمد بن ھارون بن المجدر (ثقہ) قال حدثنا عبد اللہ بن احمد بن حنبل (ثقہ) ذکر یحیی بن اکثم عند ابی … وذکر لہ ما یرمیہ الناس فقال سبحان اللہ سبحان اللہ ومن یقول ھذا؟ وانکر ذلک احمد انکارا شدیدا
عبداللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ یحیی بن اکثم کا تذکرہ میرے والد صاحب کے ہاں ہوا، اور اس کا تذکرہ بھی ہواجو لوگ اس جس کا لوگ اس پر الزام دھرتے ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا : سبحان اللہ سبحان اللہ ، یہ کون کہتا ہے؟ اور امام احمد نے شدید طور پر اس کا انکار کیا۔(تاریخ بغداد ج ۶ ص ۲۵۸)
اس صحیح سند کے علاوہ کچھ اور نقل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا، کیونکہ ہمارے مخالف کے پاس کوئی صحیح سند اس حوالے سے موجود نہیں، جس سے اپنا الزام ثابت کر سکیں۔
مشہور مورخ ابن خلدون نے بھی اس کو سراسر افتراء اور بہتان قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں (وکذلک ما ینبزہ المجان بالمین الی الغلمان بھتانا علی اللہ وفریۃ علی العلماء ویستندون فی ذلک اخبار القصاص الواھیۃ التی لعلھا من افتراء اعتداۂ فانہ کان محسودا فی کمالہ وخلتہ للسلطان وکان مقامہ من العلم والدین منزھا عن مثل ذلک) (مقدمہ ابن خلدون ص ۱۹)

اور چونکہ خیر طلب کو سند کی پروا نہیں، بلکہ فقط الزام لگانے کا شوق پورا کرنا ہے، لہذا ایسے ضعیف اور بے سند اقوال ہم بھی پیش کردیتے ہیں۔
وقال القاضی ابوعمر محمد بن یوسف سمعت اسماعیل بن اسحاق یقول کان یحیی بن اکثم ابرا الی اللہ تعالی من ان یکون فیہ شیء مما رمی بہ من امر الغلمان ولقد کنت علی سرائرہ فاجدہ شدید الخوف من اللہ تعالی ولکن کانت فیہ دعابۃ
قاضی ابوعمر محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ انہوں نے اسماعیل بن اسحاق کو فرماتے ہوئے سنا کہ یحیی بن اکثم اللہ کے نزدیک اس سے بری ہیں کہ ان میں کچھ ہو۔ اور لڑکوں کی طرف رجحان کے بارے میں جو ان پر الزام لگایا جاتا ہے، وہ بالکل بے بنیاد ہے۔ میں ان کے باطنی احوال خوب جانتا ہوں۔ میں انہیں اللہ سے انتہائی ڈرنے والا پاتا ہوں ، البتہ دل لگی ان کی عادت تھی۔ (تھذیب التھذیب ج ۱۰۵ ص ۱۰)
قاضی اسماعیل فرماتے ہیں معاذ اللہ ان تزول عدالۃ مثلہ بکذب باغ او حاسد اللہ کی پناہ کہ آپ جیسوں کی عدالت دشمنوں اور حاسدوں کے جھوٹ سے زائل ہو جائے۔ (سیر اعلام النبلاء ج ۱۲ ص ۹)
اس روایت کو ضعیف قرار دینے کے واسطے خیر طلب نے کہا کہ اس سند کا ایک راوی ناصبی ہے۔ خیر طلب کا یہ اعتراض نہ اہلسنت کی جرح و تعدیل میں کوئی وقعت رکھتا ہے، نہ ہی اہل تشیع کی جرح و تعدیل میں کوئی وقعت رکھتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود خیر طلب کے اپنے اصولوں کے بھی خلاف ہیں۔ اہلسنت نے بھی ناصبی راویوں کی توثیق کی، اہل تشیع نے بھی ناصبی راویوں کی توثیق کی، اور خطبہ شقشقیہ کے متعلق ایک روایت کی سند جس میں ایک خارجی راوی تھا، کی توثیق خود خیر طلب نے کی۔

قولہ : معاویہ جو اہلسنت کے خلیفہ پنجم ہے ،وہ شراب پیتے تھے ،اس حوالے سے ہم مسند احمد بن حنبل کی روایت نقل کرتے ہیں : (حدثناعبدللہ حدثنی ابی ثنا زید بن الحباب حدثنی حسین ثنا عبدللہ بن بریدۃ قال:دخلت انا وابی علی معاویۃ فاجلسنا علی الفرش ثم اتینا بالطعام فاکلناثم اتینا بالشراب فشرب معاویہ ثم ناول ابی ثم قال ما شربتہ منذ حرمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم قال معاویہ کانت اجمل شباب قریش واجودہ ثغرا وما شی ء کنت اجد لہ لذۃ کما کنت اجدہ وانا اللبن اوانسان حسن الحدیث یحدثنی )
(بحذف سند عبداللہ بن بریدہ کہتے ہے میں اور میرے والد معاویہ کے ہاں گئے ،پس معاویہ نے ہمیں فرش پر بٹھایا،اس کے بعد ہمارے لیے کھانے کا انتظام کیا ،پھر ہمارے لیے مشروب لائی گئی جس کو معاویہ نے پیا اور میرے والد کو دیا پس انہوں نے کہا کے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا میں نے اس مشروب کو کبھی نہیں پیا،معاویہ نے کہا کہ جوانوں میں سے خوبصورت اور اچھی گردن کاحامل تھا س،مجھے دودھ پینا اور اچھی گفتگو کرنا بہت پسند تھی ۔)
حوالہ:مسند احمد بن حنبل ،جز ،۳۸،صفحہ ۔۲۵،۲۶،طبع لبنان
ان علماء کا بیان جنہوں نے اس روایت کی تعدیل کی 
اس سے پہلے روایت پر کوئی اعتراض کرے مناسب معلوم ہوتا ہے اس کی توثیق پیش کر دی جائے ۔
شعیب ارنووط نے اس کی سند کو قوی کہا ہے ۔بحوالہ :مسند احمد ،جز ۳۸۔ص۔۲۵۔۲۶
حمزہ احمد زین نے سند کو صحیح کہا ہے ۔بحوالہ :مسند احمد ،جز ۔۱۶۔صفحہ ۔۴۷
علامہ ہیثمی نے اس کی سند کے راویان کو صحیح کے راوی کہا ہے ۔بحوالہ :مجمع الزوائد روایت نمبر ،۸۰۲۲
شیخ مقبل الوادعی نے اس روایت کو معتبر قرار دیا ہے ۔بحوالہ :الجامع الصحیح مما لیس فی الصحیحین ،رقم ،۱۷۷

اقول : خیر طلب کے دوغلے پن کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابوعوانہ کی روایت پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں ایک راوی یونس کو معمولی وہم ہوتا تھا، اب مسند احمد کی یہ روایت چونکہ اس کو اپنے مطلب کی دکھائی دے رہی ہے، لہذا اس کو ہر صورت میں معتبر تسلیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، حالانکہ اسکی سند میں زید بن الحباب کثیر الخطا راوی ہے۔امام احمد نے اسے کثیر الخطا قرار دیا ہے (سوالات ابی داود لاحمد ص ۳۱۹، العلل ج ۲ ص ۹۶)۔اور اس روایت کی سند کے ایک اور راوی حسین بن واقد کے بارے میں ابن حجر فرماتے ہیں لہ اوھام (تقریب التھذیب ج ۱ ص ۱۶۹) ۔لیکن اس کے باوجود خیر طلب کے لئے اس سند میں کوئی مسئلہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جب ان کا وہم اور کثیر الخطا ہونا اس روایت کی صحت پر کچھ اثر نہیں ڈالتا، تو کیوں ابوعوانہ کی سند پراعتراض کرتے ہو۔دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے اس روایت کے متعلق جو جواب دیا تھا، اس کا جواب خیر طلب نے کس حد تک دینے کی کوشش کی ہے، اس کو پڑھنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

قولہ : اب ہم درج ذیل اعتراضات کے جوابات دیتے ہیں :
اعتراض اول :اس روایت سے مشروب سے خمر یعنی شراب لینا صحیح نہیں ۔
جواب :جناب کلام صاحب چلیں بالفرض اس مشروب سے شراب نہیں لیتے تو اس کا کیا مطلب ہوگا :
(قال ما شربتہ منذ حرمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
انہوں نے کہا کے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا میں نے اس مشروب کو کبھی نہیں پیا۔ 
یقیناًاس جملے ثابت ہے جس مشروب کی بات ہو رہی تھی کم سے کم وہ حلال نہیں تھی ۔باقی دودھ وغیرہ اس کو اس لئے قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس کا پینا کبھی حرام نہیں ہوا۔

اقول : مشروب کا معنی خمریعنی شراب نہیں ہوتا، یہ آپ فرض نہ کریں، یہ تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا چاہے آپ کو اچھا لگے یا برا۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک انسان ذرا بھی عقل سے کام لے تو جان جائے گا کہ یہ قول خود ہی بتا رہا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے شراب نہیں پی۔ کیا کوئی شخص شراب پی کر یہ کہتا ہے کہ جب سے رسول اللہ ﷺ نے اسے حرام قرار دیا، تب سے میں نے نہیں پیا؟اور اگر ایسا ہوتا تو حضرت بریدہؓ ادھر ہی پکار اٹھتے کہ جناب ابھی شراب بھی پی لی اور ابھی کہتے ہو جب سے حرام ہوئی تب سے میں نے نہیں پی!یہ تو کھلا تضاد ہے، جس کو عقلِ سلیم تسلیم نہیں کرتی۔ہاں اگر ہم بھی عقل پر پردہ ڈال دیں، تو کوئی صورت نکل سکتی ہے۔

قولہ : اعتراض دوم:ادھر اس جملہ (جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا میں نے اس مشروب کو کبھی نہیں پیا)کے قائل بریدہ صحابی نہیں بلکہ معاویہ ہے اور یو ں ثابت ہوتاہے کہ وہ شراب سے بیزار تھے ۔
جواب :کلام صاحب قائل کوئی بھی ہو روایت کے جملے یہ بتا رہے ہیں :
(فشرب معاویہ )
معاویہ نے اس مشروب کو پیا۔
اب دو صورتیں ہیں :
۱۔اگر قائل بریدہ دئے جائیں تو اس سے مراد معاویہ کی مذمت و معاویہ کو تنہیہ کرنا ہوگی۔
۲۔اگر قائل معاویہ لیا جائے تو یہ تو اس بڑی فضیحت ہے کہ ایک جگہ پی بھی رہے ہیں اور دوسری جگہ منع بھی نقل کر رہے ہے ۔اس کو کھلا تضاد سے تعبیر کیا جاتاہے۔
کلام صاحب کی گردن پر علامہ ابو بکر ہیثمی کی تلوار
جی یہ عنوان تھوڑا ثقیل معلوم ہولیکن علامہ ابو بکر ہیثمی اس روایت کو ملا نقل نہیں کرتے بلکہ مسند احمد بن حنبل سے یوں نقل کر کے پوری روایت کو نقل نہیں کرتے بلکہ یوں عرض کرتے ہیں :
(رواہ احمد و رجالہ رجال الصحیح وفی کلام معا ویہ شی ء ترکتہ )
احمد بن حنبل نے اس روایت کو نقل کیا اور اس کے سارے راویا ن صحیح کے روات ہیں ،اور معاویہ کے کلام میں کچھ ایسی چیز تھی جس میں نے عمدا ترک کر دیا۔
حوالہ:مجمع الزوائد ،جز ،۵۔صفحہ ۔۵۵
یقیناًجو علم بلاغت کے جو درو س سئے گئے ہیں وہ علامہ ابو بکر ہیثمی کی قبر پر بھی دینا چاہیئے ۔یہ روایت میں واقعی ایسی قباحت ہے کہ ابو بکر ہیثمی جیسا صحابی دوست بھی مجبور ہوا کہ روایتی حذف و بتر سے کا م لے۔

اقول : یہ تلوار اصل میں میری گردن پر نہیں، بلکہ خیر طلب ہی کے گردن پر ہے۔ موصوف خود فرما رہے ہیں کہ اگر ہم تسلیم کر لے کہ یہ قول بریدہؓ کا نہیں، بلکہ معاویہؓ کا ہے تو اس کو کھلا تضاد سے تعبیر کیا جائے گا۔ اور پھر علامہ ہیثمی کا قول لا رہے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : معاویہ کے کلام میں کچھ ایسی چیز تھی جس کو میں نے ترک کر دیا۔ اب فرمائیے،علامہ ہیثمی فرما رہے ہیں کہ یہ حضرت معاویہؓ کا قول ہے، اور آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اگر اس کو حضرت معاویہؓ کا قول تسلیم کیا جائے تو اس کو کھلا تضاد سے تعبیر کیا جائے گا، یعنی ایک جگہ پی بھی رہے ہیں، اور منع بھی کر رہے ہیں۔ تو فرمائیے ، یہ معاویہؓ کا قول بھی ہو، اور تضاد کی صورت بھی نہ ہو، یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب حضرت معاویہؓ شراب کی بجائے کسی اور مشروب کی بات کر رہے ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ علامہ ہیثمی کی تلوار جو آپ میرے گردن پر لٹکانا چاہ رہے تھے، اس سے آپ ہی کی گردن کٹ گئی۔ اور معاویہؓ کے مذکورہ الفظ کو علامہ ہیثمی نے غالباََ اس وجہ سے ترک کردیا کہ ان کے نزدیک یہ الفاظ منکر ہوں۔کسی وجہ کے بغیر اس کی یہ توجیہ پیش کرنا کہ ان الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے شراب پی، سراسر غلط ہے۔ ابن ابی شیبہ نے بھی یہی روایت انہی اسناد سے نقل کی ہے، لیکن انہوں نے بھی مذکورہ الفاظ کو نقل نہیں کیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۶ص ۱۸۸)

قولہ : اعتراض:حمیری شیعہ بقول مبلغ اعظم محمد اسمعیل شراب پیتا تھا۔
جواب :علامہ اسمعیل صاحب نے تنقیع المقال للماقانی سے جوبات نقل کی ہے وہ اسمعیل بن محمد الحمیری کے ترجمہ میں ملتی ہے ۔ادھر خود علامہ عبدللہ مامقانی نے تین اقوال اس راوی کے عنوان سے نقل کئے ہیں :
۱۔یہ راوی ثقہ ہے ۔ ۲۔یہ راوی ممدوح ہے ۔ ۳۔یہ راوی ضعیف ہے ۔
تیسرے قول کے ذیل میں انہوں نے یہ بات نقل کی ہے :
(انہ کان یشرب الخمر) وہ شراب پیتا تھا۔
حوالہ:تنقیع المقال۔جز۔۱۰۔صفحہ ۔۳۱۲
اس روایت کا اصل مرجع دراصل رجال کشی کی روایت ہے جس کے بارے میں آیت اللہ العظمی سید خوئی رقم طراز ہے:
(واما مارواہ الکشی ،من الروایات،فھی ضعیفۃ السند)
اور جو روایات کشی نے نقل کی ہیں وہ ساری ضعیف اسناد سے مروی ہیں ۔
حوالہ:معجم رجا ل الحدیث۔جز۔۴۔صفحہ ۔۹۴۔رقم راوی ۔۱۴۳۲
لہذا کلام صاحب ادھر ادھر کے قول نقل کرنے کے بجائے کم سے کم اپنی منھج پر تو قائم رہتے جو کسی عالم اہلسنت کو خاطر میں نہیں لاتابلکہ سند پر اعتراض کرناوظیفہ عاجلہ سمجھتا ہے ۔پس اس وظیفہ سے ہم نے بھی ابھی استفادہ کر لیا۔

اقول : خیر طلب کی حرکت سے ہم کافی محظوظ ہوئے۔ موصوف کے اپنے علماء جب کسی شخص کے بارے میں کچھ کہہ دیں، تو موصوف اسناد کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ اور جب اپنا مفاد ہوتا ہے تو اسناد کو ایک طرف رکھ کر علماء کے اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔پس جس طرح خیر طلب کو سند کی طرف رخ کرنا پڑا، اس طرح ہم نے بھی کیا۔ موصوف ہم پر تو الزام دھرتے ہیں، لیکن یہاں آکر خود ہی پھنس گئے، اور اپنے مبلغِ اعظم مولوی اسماعیل اور دیگر شیعہ علماء کو ایک طرف کر کے سند کی طرف بھاگ پڑے۔

قولہ : کلام صاحب کو اجمالا ہم نے کہا تھاکہ استمناء بہت سارے اہل علم نے جائز قرار دیا۔تو کیا سارے مسلمان خواہشات کو مٹانے کی خاطر وہ کرنے لگ جائیں اور یہ کہاتھا کہ اسلام الگ ہے اورماننے والے الگ ہیں دونوں میں نسبت تساوی نہیں ۔اس پر ہونا یہ چاہیئے تھا کہ اس کا شافی کافی جواب دیا جاتا ہے ۔کلام صاحب نے روایتی انداز میں فقط الزامی جواب دیتے ہوئے علامہ مجلسی کی کتاب کا ایک فتوی نقل کیا ہے جس میں علامہ نے کہا:
(بیوی یا لونڈی جو دونوں حلال ہے ان کے ہاتھ سے استمناء کو جائز قرار دیا ہے ) 
اس سے کلام صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شیعہ اس فعل کو مطلقا جائز سمجھتے ہیں ۔

اقول : ہمیں بار بار خیر طلب کی علمی خیانتوں سے واسطہ کرنا پڑ رہا ہے۔موصوف نے دھاندلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ہم نے حق الیقین کی عبارت یوں پیش کی تھی (اگر ہاتھ یا انگلی یا اپنی عورت یا کنیز کے کسی اعضا سے بازی کرے تاکہ منی نکل آئے جائز ہے اور کسی دوسری چیز سے جائز نہیں اور اپنی زوجہ یا کنیز کے ہاتھوں سے عضو تناسل کو ملنے میں تاکہ منی نکل آئے اختلاف ہے ۔) ( حق الیقین ج ۲ ص ۲۸۶) اور خیر طلب فرماتے ہیں ( کلام صاحب نے روایتی انداز میں فقط الزامی جواب دیتے ہوئے علامہ مجلسی کی کتاب کا ایک فتوی نقل کیا ہے جس میں علامہ نے کہا: بیوی یا لونڈی جو دونوں حلال ہے ان کے ہاتھ سے استمناء کو جائز قرار دیا ہے ) ۔ یہ عبارت کیا معنی دے رہی ہے، اور موصوف نے جو عبارت میں تحریف کر کے لکھا ہے، وہ کیا معنی دے رہی ہے، قارئین فیصلہ کر سکتے ہیں۔ عبارت نقل کرنے میں ایسی خیانت کی ہمیں قطعاََ امید نہیں تھی۔

قولہ : کلام صاحب اگر اس عبارت میں آپ یہ دیکھا دیں یا ثابت کر دیں کہ ایک مرد اپنے ہاتھ سے اس فعل قبیع کو انجام دے سکتا ہے تو منہ مانگا انعام پائے ۔بیوی اور کنیز کے ہا تھ سے ہونے کو تو بالتفاق اہلسنت علماء جائز قرار دیتے ہیں ۔جس کا حوالہ عنقریب آئے گالیکن اپنے ہاتھ سے جائز قرار دینے کے عنوان سے کسی موثق شیعہ عالم کا قول نقل کریں جو مطلقا اس کی اجازت دیتاہو؟ھل من مبارز؟

اقول : کلام نے عبارت پیش کر دی ہے، عبارت کو پڑھنے والے بخوبی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب نکلتا ہے۔ اور یہ منہ مانگا انعام ہماری طرف سے آپ اپنی جیب میں سنبھال کر رکھئے ۔ لبنان کے مشہور شیعہ عالم آیت اللہ فضل اللہ سے ایک عورت نے سوال کیا:

Q. I am a girl. Is it permissible for me to practice masturbation in order to protect myself from committing impermissible acts? I tried to quit this habit, but I could not because that makes me nervous and sick, knowing that I am a 30 year old single woman and I have no other choice in order to satisfy my sexual desire?
A: This is permissible and it is not prohibited for women to practice the secret habit (which leads to ejaculation in men), since they do not have semen, according to what the experts have proved, especially in the above mentioned case that is based on preventing oneself from committing a prohibited act.
www.english.bayynat.org.lb/QA/qa.aspx?id=86

اس کا ترجمہ کرنا نہیں چاہتا ، سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ وسائل الشیعہ میں حسین بن زرارہ سے مروی ہے کہ اس نے کہا سالت اباجعفر علیہ السلام عن رجل یعبث بیدیہ حتی ینزل، قال لاباس بہ
میں نے امام باقر سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو ہاتھ کے ساتھ کھیلتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے) یہاں تک کہ انزال کر جائے۔ تو انہوں نے فرمایا : اس میں کوئی قباحت نہیں۔(وسائل الشیعہ ج ۲۸ ، ص ۳۶۳، الاستبصار ج ۴ ص ۲۲۷)قولہ : اب اس موضوع کو درج ذیل موضوعات میں تقسیم کرتے ہیں :
۱۔علماء اہلسنت کے اقوال استمناء مطلقا جائز ہے ۔
۲۔علماء اہلسنت کے اقوال کے بیوی کے ہاتھ سے استمناء حلال ہے ۔
۳۔شیعی تراث سے استمناء و خود لذتی کی شدید مذمت۔

علماء اہلسنت کے اقوال استمناء مطلقا جائز ہے 
ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ طائفہ اہلسنت اس فعل کو جائز سمجھتی ہے اور بعض علماء اس کو حرام سمجھتے ہیں ۔اصل 
استدلال ہرگزاس کی اباحت وغیرہ ثابت کرنا نہیں اہلسنت کے نزدیک بلکہ بعض ملاوں کے فتوی اوراصل اسلام کے درمیان فرق کو واضع کرنا ہے ۔
علامہ ابن جریر الطبری رقم طراز ہے :
(فقال العلاء بن زیاد لاباس بذلک قد کنانفعلہ فی مغازیناحدثنا بذلک محمد بن بشار العبدی قال حدثنا معاذبن ہشام قال حدثنی ابی عن قتادۃ عنہ وقال الحسن البصری والضحاک بن مزاحم و جماعۃ معھم مثل ذلک)
علاء بن زیاد صحابی کا فرمان ہے کہ ہم استمناء میں کوئی قباحت نہیں دیکھتے اور ہم استمناء تو رسول اللہ کے ہمراہ ہی جنگوں میں کیا کرتے تھے۔حسن بصری اور ضحاک بن مزاحم اور ایک علماء کی جماعت کا یہی قول ہے۔
حوالہ :اختلاف الفقہاء،ص۔۳۰۳،الناشر :دارالکتب العلمیہ 

اقول : یہاں پر خیر طلب نے دو غلطیاں کی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ علاء بن زیاد صحابی نہیں۔ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں (ھو العلاء بن زیاد البصري تابعي زاھد قلیل الحدیث)۔ (فتح الباری ج ۸ ص ۵۵۵)
اسی طرح علامہ ابوسعید العلائی فرماتے ہیں (العلاء بن زیاد تابعي) ۔ (جامع التحصیل ج ۱ ص ۲۴۹)
دوسری بات یہ ہے کہ فی مغازینا کا ترجمہ(رسول اللہ کے ہمراہ ہی جنگوں میں) کرنا غلط ہے، بلکہ اس کا ترجمہ : (ہم اپنی جنگوں میں)۔ پورا ترجمہ یوں ہو گا ( علاء بن زیاد نے فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں، ہم اپنی جنگوں میں ایسا کیا کرتے تھے)۔ خیر طلب کو بھی عجیب و غریب حرکتیں سوجھتی ہیں۔ بہرحال یہاں پر سوال واضح نہیں، کہ علاء بن زیاد سے سوال کیا پوچھا گیا تھا، آیا مطلقاََ اس کے بارے میں پوچھا گیا تھا، یا مجبوری کی حالت میں۔ کیونکہ ان کا یہ کہنا کہ ہم جنگوں میں ایسا کرتے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجبوری کی حالت کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ اور وسائل الشیعہ کی روایت میں جو لا باس بہ یعنی اس میں کوئی قباحت نہیں کے الفاظ ہیں، تو اس کے متعلق شیعہ علماء نے لکھا ہے کہ (حملا علی نفی الحد) یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ استمناء کرنے پر کوئی حد نہیں ۔ (ریاض المسائل للسید علی الطباطبائی ج ۱۳، ص ۶۳۹) پس جس طرح شیعہ علماء اپنی روایت میں اس سے یہ مراد لیتے ہیں، تو اس روایت میں جو لاباس بذلک یعنی اس میں کوئی قباحت نہیں کے الفاظ ہیں، تو اس کے متعلق ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد بھی یہی ہے کہ استمناء کرنے پر کوئی حد نہیں۔

قولہ : علامہ ابن حزم فقیہ مذہب اہلسنت رقم طراز ہے:
(لان مس الرجل ذکرہ بشمالہ مباح،ومس المراۃ فرجھا کذلک مباح باجماح الامۃ کلھافاذ ہو مباح فلیس ھنالک زیادۃ علی المباح الا التعمد لنزول المنی ،فلیس ذلک حراما اصلا)
پوری امت مسلمہ کے نذدیک چونکہ ایک مرد کا اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگانے میں کوئی اشکال نہیں،اسی طرح ایک عورت کا اپنے فرج کو ہاتھ لگانا مباح ہے ،پس جب یہ فعال مباح ہے تو اپنے ہاتھ سے عمدا منی نکالنا بھی مباح سے تجاوز نہیں کرتا اور یہ اصلا حرام نہیں۔ حوالہ:المحلی بالاثار ،جز ،۱۲۔صفحہ ۔۴۰۷ علامہ صنعانی رقم طراز ہے : (وقد اباح الاستمناء بعض الحنابلہ و بعض الحنفیہ ) استمناء کو بعض حنبلی اور بعض حنفی جائز سمجھتے ہیں ۔ حوالہ :سبل السلام ۔جز،۲۔صفحہ۔۱۶۱ علامہ شوکانی نے استمناء کو حرام کہنے کے حوالے سے لافی دلائل کا رد اپنی تنصیف ۔۔بلوغ المنی فی حکم الاستمناء ۔۔میں کیا۔
چناچہ ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ استمناء ان حضرات کے نذدیک جائز ہیں ۱۔علامہ بن زیاد صحابی ۲۔حسن البصری ۳۔ضحاک بن مزاحم ۴۔ابن حزم ۵۔شوکانی ۶۔بعض احناف ۷۔بعض حنبلی
اس کے علاوہ دیگر اور صحابی و تابعین سے یہ قول نقل ہوا ہے لیکن خوف طوالت کے پیش نظر فقط ان پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔ہمارے استدلال کا ایک جز کہ ماننے والوں سے کبھی دین کا تعین نہیں ہوتاکے پیش نظر جس طرح بعض طوائفہ کو اپنے برے افعال کے باوجود شیعیت سے منسوب کرتی ہے ،اسی طرح یہ علماء بھی اسلام کا جنازہ فتووں کے ذریعے نکالتے ہیں ان کے اس فعل کو تعلیم اسلام نہیں قرار دیا جائے گا۔

اقول : بعض احناف اور بعض حنابلہ کا ہمیں جب تک پتہ نہیں چل جاتا کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں ،تب تک اس کی ہمارے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔ اور علاء بن زیاد کے متعلق میں جواب دے چکا ہوں۔ ابن حزم اگرچہ اسے حرام نہیں سمجھتے، لیکن مکروہ ضرور سمجھتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں (نکرھہ لانہ لیس من مکارم الاخلاق، ولا من الفضائل)۔(المحلی ج ۱۱ ص ۳۹۲) شوکانی نے جو رسالہ لکھا ہے، وہ اس کے حرام نہ ہونے کے متعلق ہے۔ اس رسالے میں انہوں نے ان روایات کی تضعیف بیان کی ہے جو استمناء کے حرام ہونے کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی حدیث ثابت نہیں۔ نیز انہوں نے غالباََ قرآن کریم کی آیت سے استدلال کو بھی غیر صحیح قرار دیا ہے۔ بہرحال ان کے نزدیک استمناء حرام نہیں، بلکہ مکروہ ہے۔ حضرت حسن بصری سے جو قول منسوب ہے، اس کی سند میں اشکال ہے۔ضحاک سے اس قول کی سند ہمیں نہ مل سکی۔ پس جان لیجئے کہ جمہور کے مطابق استمناء حرام ہے، بعض احناف اور حنابلہ کہتے ہیں کہ زنا کا خوف ہو، تواستمناء جائز ہے۔ کسی حنفی یا حنبلی کا قول ہمیں نہیں ملا جو یہ کہتا ہو کہ استمناء مطلقاََ مباح ہے۔ اور ہمارے لئے جمہورکا قول کافی ہے کہ استمناء حرام ہے۔اور رہی یہ بات کہ اہلسنت علماء فتووں کے ذریعے اسلام کا جنازہ نکالتے ہیں، تو یہ کسی جاہل اور متعصب کا ایسا قول ہے کہ جس کو انصاف سے کبھی دور کا بھی واسطہ نہ رہا ہو۔اور نہ ہی اس جاہل کے واسطے یہاں پر شیعہ علماء کے مضحکہ خیز فتوے یہاں پر نقل کرنے کی ضرورت سمجھتا ہوں، کیونکہ اس جاہل کو ان فتووں کا علم بھی ہے۔

قولہ : ذیل میں علامہ مجلسی کے فتوی کو جس رنگ میں پیش کیا گیا ہے اس کا جواب ان ہی کے علماء کی تحریرات کی روشنی میں دیا جاتا ہے۔
سلفی عالم دین شیخ سلیمان بن عبدللہ الماجد ایک فتوی یو ں صادر کرتے ہیں:
(الحمدللہ اما بعد۔۔الاستمناء بید الزوجہ جائز۔لعموم قولہ تعالی:والذین ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم الایہ )
ساری حمد کا حقدار خدا ہے،اس کے بعد عرض ہے کہاستمناء بیوی کے ہاتھوں سے کروانا جائز ہے اس آیت کے عمومی عنوان کے تحت۔۔والذین ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم ۔۔اور جو اپنی شھوت کی جگہ کو تھامتے ہیں مگراپنی بیویوں یا (کنیزوں سے)جو ان کی ملک ہوتی ہے۔۔۔الی آخر
حوالہ :العشرۃ والفرقۃ بین الزوجین الاستمناء بالید اوبید الزوجہ
آکر میں ہم ایک اہلسنت عالم دین کا فتوی نقل کرتے جو مقصد سمجھانے میں آسانی پیدا کر دیگا۔
ایک سائل یوں گویا ہوتا ہے:
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہویعنی بیوی قابل جمع نہ ہوجب کہ شوہر کا فعل حرام میں پڑنے کا امکان ہویعنی اس جماع کی ضرورت ہوکیا وہ اس صورت میں اپنی بیوی کے ہاتھوں سے استمناء کراسکتاہے ؟
جواب:ان اعذار کی وجہ سے یہ فعل مذکور جائز ہے ورنہ مکروہ تز یہی ہے ۔
حوالہ :فتاوی دیوبند پاکستان المعروف بہ فتاوی فریدیہ ۔جلد ۔۵صفحہ ۔۲۴۴۔طبع ۔۱۴۳۰ ہجری 
کیوں کلام صاحب عقل میں بات آئی؟اب حیض و نفاس کی حالت میں جائز اور ویسے مکروہ تز یہی وہ فعل ہے جس کو ترک کرنے کے مطالبہ میں شدت نہ پائی جائے ۔اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ لینے کے دینے پڑ گئے ہیں ۔
شیعی تراث سے استمناء کی حرمت : اب حوالے سے ہم صدھا تراث کو نقل کر سکتے ہیں،سردست بعض عنوانات کو نقل کرتے ہیں جس سے معاملہ کی تحلیل آسان ہوجائے گی ،چناچہ علامہ حر عاملی وسائل الشیعہ میں ایک عنوان قرار دیتے ہیں : باب تحریم الاستمناء یعنی استمناء کے حرام ہونے کا باب ۔ اس کے اندر علامہ ۷ روایات نقل کرتے ہیں ۔ حوالہ :وسائل الشیعہ ۔جز ۔۲۰۔صفحہ ۔۳۵۲۔۳۵۴
علامہ بروجردی اپنی بیش بہا کتاب میں ایک عنوان قرا ر دیتے ہیں باب تحریم الاستمناء یعنی استمناء کے حرام ہونے کا باب ۔ حوالہ:جامع الحدیث الشیع جز ۔۲۰۔صفحہ ۔۳۸۱۔۳۸۳ میں کافی روایات کو نقل کرتے ہیں ۔
روایات کا تذکرہ خوف طوالت کے تحت نہیں کیا گیا ۔فی الحال ان تین فصول پر اکتفاء کی گیا ہے ،اب مزید اب حملہ کیا گیا توویسے ہی سناٹے والا جواب آئے گا۔

اقول : مجلسی کی عبارت میں خیر طلب نے جو تحریف کی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔عبارت میں کھلم کھلا تحریف بھی کرتے ہیں اور ’’سناٹے والا جواب‘‘ کی بونگی مارتے ہوئے بھی شرم نہیں آتی۔ ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اور میں نے استمناء بید زوجہ کی بات بھی قطعاََ نہیں کی۔لیکن خیر طلب کی عادت پرانی ہے، جس چیز کا ذکر نہ ہو، اس کے متعلق حوالہ جات لاکر نجانے کن ’’مومنین ‘‘کے اشکالات دور کرتے رہتے ہیں۔ پھر خیر طلب نے اپنی کتب سے استمناء کے حرام ہونے کی روایات کا ذکر کرتے ہیں، اور متعلقہ ابواب کا حوالہ دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ہماری کتب تو استمناء کے حرام ہونے کے متعلق بھری پڑی ہیں، جن کا میں تذکرہ کروں تو ایک رسالہ آسانی سے مرتب ہو سکتاہے۔یہ بات میرا مخالف بخوبی جانتا ہے، لہذا اس کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ یہاں پر استمناء کے متعلق کتب کے حوالے دینا شروع کروں۔اور اگر خیر طلب اس سے بے خبر ہے، تو بارہ حوالے صرف احناف کی کتب سے پیش کروں گا (انشاء اللہ) ۔ 
متعہ کے حوالے سے خیر طلب کے تمام دلائل کا رد مکمل ہو گیا،قارئین سے ہماری درخواست ہے کہ دونوں فریقین کے دلائل کا مطالعہ کیجئے ، اور آپ کو حق و باطل میں فرق بخوبی سمجھ میں آ جائے گا۔ معتدل مزاج اہل تشیع جو کہ متعہ کو اپنی ماں بہنوں کے لئے عار سمجھتے ہیں، ان کو بھی متعہ کے متعلق صحیح رہنمائی حاصل ہوگی، نیز غلاۃ اور روافض جو متعہ کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں، ان کا بطلان بھی واضح طور پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے۔ آمین!ٓ

No comments:

Post a Comment