Thursday, 24 September 2020

عقیدے میں تو تقلید جائز نہیں ہوتی، پھر امام ابوالحسن اشعری یا امام ابومنصور ماتریدی کی پیروی کا کیا مطلب؟

 اَکابر علمائے دیوبند کی متفقہ علمی دستاویز ”المہند علی المفند“ کے شروع میں شیخ المحدثین مولانا خلیل احمد سہارنپورینے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ فقہی اجتہادات میں ہم امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت  کے پیروکار ہیں، جب کہ عقیدے کے مباحث و اسلوب تحقیقات میں ہم امام ابوالحسن اشعری اور امام ابومنصور ماتریدی کے پیروکار ہیں۔


یہاں دو سوالات کا جواب بھی جان لینا ضروری ہے۔

پہلا سوال: عقیدے میں تو تقلید جائز نہیں ہوتی، پھر امام ابوالحسن اشعری یا امام ابومنصور ماتریدی کی پیروی کا کیا مطلب؟

جواب: اس جواب کے دو پہلو ہیں:
1..عقائد کی دوقسمیں ہیں:         1.. اصولِ عقائد    2..  فروعِ عقائد۔ چناں چہ عقیدے میں عدم تقلید کا تعلق اصولِ عقائد کے ساتھ ہے۔ عقائد کے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے، کیوں کہ عقائد کی فروعی جزئیات و مسائل منصوص نہیں ہوتے، بلکہ علماء کے اجتہادات کا نتیجہ ہوتے ہیں، چناں چہ جس طرح فقہی اجتہادات میں فقہائے کرام کی پیروی کی جاتی ہے، اسی طرح اِن اجتہادات میں بھی ماہرین عقائد، جنہیں بالعموم اصطلاح اہل سنت میں ”متکلمین“ کہاجاتا ہے، اُن کی پیروی کی جاتی ہے۔

2..ان ائمہ کی طرف عقائد میں پیروی کا مطلب یہ نہیں کہ ان حضرات نے اپنی طرف سے عقائد گھڑے اور علمائے امت نے اس میں ان کی پیروی کرلی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان حضرات نے اسلامی عقائد کی تشریح و تبیین اور ان کے دفاع کے لیے اپنی زندگی بھر کی کاوشوں سے جو ایک منہج اور اسلوب وضع کیاتو بعد والوں نے اس منہج اور اسلوب کو بے حد مفید اور نافع سمجھ کر اپنالیاتو واضح ہوا کہ یہ پیروی اسلوب بیان و طرز توضیح و تشریح میں ہے ، نفس عقائد میں تقلید اور پیروی نہیں ہے۔

یہ وہ بات ہے جس کو جلیل القدر فقیہ و محدث قاضی عیاض المالکی نیترتیب المدارک میں امام ابوالحسن اشعری کے حالات تحریر کرتے ہوئے واضح فرمایا ہے۔

دوسرا سوال: جب حنفیہ ، فقہی اصول و فروعات میں امام ابوحنیفہ کے پیروکا رہیں تو عقائد کی تفریعات اور اصول و ضوابط میں ان کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟ اور انہیں چھوڑ کر امام ابومنصور ماتریدی کی پیروی کیوں کرتے ہیں؟

جواب : احناف نے امام ابوحنیفہ کو چھوڑا نہیں ہے، بلکہ عقائد کے بیان و اسلوب کا جو سلسلہ امام ابوحنیفہ سے چلا تھا، اسی سلسلے کو امام ابومنصور ماتریدی نے مضبوط و مستحکم کیا اور اسی میں اپنی بیشتر زندگی صرف کی اور یوں اس فن کی خدمت حنفیہ میں سے انہی میں سمٹ گئی اور آگے جتنے بھی علماء اس فن کے ماہر ہوئے وہ یا تو براہ راست انہی کے شاگرد تھے یا ان کے شاگردوں کے شاگرد اورانہی کی کتابوں کے فیض یافتہ تھے ، اس لیے پھر یہ نسبت انہی کی طرف ہونے لگی ، چناں چہ اس سے واضح ہوا کہ اس نسبت سے امام ابوحنیفہ کی طرف جو نسبت ہے اس کی نفی ہرگز ہرگز نہیں ہوتی۔

اس تمہید کے بعد اب امام ابومنصور ماتریدی کے حالات کا تذکرہ شروع کیا جاتا ہے۔ و اللہ الموفق وھوالہادی

نام و نسب
محمد بن محمد بن محمود، کنیت ابو منصور اور نسبت ماتریدی اور سمرقندی ہے۔ سمرقند شہر کی طرف نسبت ہے اور ماتریدی اُس بستی کی طرف جہاں اِن کی پیدائش ہوئی۔ بعض اہل علم مثلا علامہ بیاضی حنفی نے آپ کا نسب مشہور صحابی حضرت سیدنا ابوایوب انصاری تک پہنچایا ہے ، مگر دیگر کسی اور معتبر اور قدیم ماخذ سے اس کی تائید نہیں ہوسکی ہے۔

ماترید: میں تا پرپیش بھی پڑھاگیا ہے اورزبر بھی یعنی : ماتُرید اور ماتَرید۔ جب کہ بعض لوگ ماتریت بھی پڑھتے ہیں۔ علامہ عبدالکریم السمعانی نے اس محلے کی متعدد بار زیارت کی اور اس کے بارے میں اپنا یہ تبصرہ نقل کیا :

”قد تخرج منہا جماعة من الفضلاء“․ (الانساب للسمعانی،ص:498)

اس محلے سے فاضل اہل علم کی ایک بڑی جماعت پیدا ہوئی ہے۔

پھر یہی بات علامہ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں اور علامہ ابن الاثیر الجزری نے اللباب میں بھی نقل کی ہے۔

جب کہ سمرقند ماوراء النہر کے مشہور ترین قدیم شہروں میں سے ایک ہے ۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق اسکندر مقدونی نے اپنے زمانے میں اس کی تعمیر نو کی تھی اور بعض سیاح مورخین نے تو یہاں تک لکھا ہے:”کل ما سمعت عن محاسنہا صحیح باستثناء انہا اجمل مما تصورت“․

اس شہر کی خوب صورتی کے بارے میں جو کچھ بھی سنا تھا سب صحیح ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی خوب صورتی میرے تصور سے بھی زیادہ تھی۔

ولادت
اکثر مورخین نے امام ماتریدی کے حالات اور خاص کر تاریخ پیدائش سے کچھ خاص تعرض نہیں کیا، اس لیے اکثر تاریخی کتب اس حوالے سے خاموش ملتی ہیں، لیکن اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس جلیل القدر امام کے حالات کی جستجو کرنے والوں نے اس کا کچھ نہ کچھ پتہ لگا لیا ہے ۔

اس بارے میں محققین نے جس تاریخ کو راجح قرار دیا ہے وہ ہے: سنہ238ھ ، کیوں کہ آپ کے ایک استاذ محمد بن مقاتل الرازی کی وفات سنہ 248ھ میں ہے اور اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ امام ماتریدی نے جب آپ سے استفادہ کیا ہو تو کم از کم ان کی عمر دس سال ہونی چاہیے کیوں کہ اس عمر سے کم میں استفادہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

اساتذہ
امام ماتریدی نے چوں کہ ایک ایسے علاقے میں آنکھ کھولی جو علم و فقہ کی سرگرمیوں سے خوب آباد تھا، خصوصا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے سلسلے کے علماء کرام وہاں بکثرت تھے اور اپنی علمی تگ و دو سے پورے علاقے کو روشن کیے ہوئے تھے تو یہ وہ ماحول تھا جس نے امام ماتریدی کو اپنی خداداد صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ بہترین اساتذہ کی بدولت درجہ امتیاز عطا کردیا تھا اور آپ کی علمی کاوشوں نے آگے چل کر ایسی مقبولیت حاصل کی کہ بالعموم علمائے احناف نے عقائد کے مباحث ومسائل اور تحقیقاتی اسلوب میں انہی کی پیروی کی اور یوں ”علمائے ماتریدیہ“ اہل سنت و الجماعت کا ایک علمی ترجمان حلقہ بن کر تاریخی حقیقت بن گیا ۔

امام ماتریدی کی یہ خوش قسمتی ہے وہ امام ابوحنیفہ کی کتابوں کو، خصوصا عقائد سے متعلق رسائل کو، اپنے اساتذہ کے توسط سے سند متصل کے ساتھ روایت کرنے والے اور ان کی ترویج و اشاعت کرنے والے ہیں۔

چناں چہ امام ماتریدی نے ، امام ابوحنیفہ کے عقائد سے متعلق رسائل: ” الفقہ الابسط ، رسالہ الی عثمان البتی ، العالم و المتعلم ، یوسف بن خالد کے نام وصیت “ کو اپنے شیخ ابونصر احمد بن عباس العیاضی ، شیخ احمد بن اسحاق الجوزجانی اور شیخ نصیر بن یحییٰ البلخی سے روایت کیا ہے اور یہ تینوں شیوخ ان کتابوں کو اپنے شیخ ابو سلیمان الجوزجانی سے روایت کرتے ہیں اور شیخ ابو سلیمان الجوزجانی ، روایت کرتے ہیں اپنے شیخ محمد بن حسن شیبانی سے اور امام محمد انہیں روایت کرتے ہیں امام اعظم ابوحنیفہ سے۔

یہ سند متصل اس بات کی دلیل اور شاہد ہے کہ امام ماتریدی نے عقائد کے مسائل و مباحث اور اسلوب تحقیق میں جو بھی کاوشیں کی ہیں ان کی بنیاد و اساس وہی فکر ہے جس کی بنیاد امام ابوحنیفہ نے رکھی اور امام ابوحنیفہ کے حالات پر نظر رکھنے والوں سے یہ مخفی نہیں کہ جس طرح آپ فقہ کی تاسیس رکھنے والے ہیں اسی طرح گم راہ فرقوں کے ظہور کی وجہ سے اہل سنت و الجماعت کی ترجمانی کرتے ہوئے عقائد کے مباحث و مسائل کو بھی ایک مستقل علم و فن کی حیثیت دینے والے ہیں ، اگرچہ آپ پر بعد ازاں فقہ کا رنگ غالب آگیا اور یہی چیز آپ کی پہچان بن گئی اور عقائد والے مباحث کو پھر آپ کے شاگرد درشاگرد اِمام ماتریدی نے پوری توجہ سے بڑھایا اور اسی سبب سے پھر یہ علمی نسبت امام ابوحنیفہ کے بجائے امام ماتریدی کی طرف ہوگئی۔ و اللہ اعلم

مشہور اساتذہ
امام ماتریدی کے چند نامور اساتذہ کرام کا مختصر تذکرہ بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔

1..اِمام محمد بن مقاتل الرازی:
علامہ عبدالحی لکھنوی نے ”الفوائد البہیة فی تراجم الحنفیة“ میں آپ کو امام ماتریدی کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے۔

آپ ایک فقیہ بھی تھے اور محدث بھی اور دیگر علوم اسلامیہ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ علم حدیث امام وکیع بن الجراح اوران کے طبقے کے دیگر اہل علم سے حاصل کیا تھا ۔ علامہ کمال پاشا نے آپ کے حالات لکھے ہیں اور اس میں یہ صراحت کی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے عقائد میں جو شاگردوں کا سلسلہ چلا ہے، تو یہ اس میں چوتھے طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ ایک مدت تک رے کی قضا کے منصب پر فائز رہے۔

آپ کی وفات کے بارے میں دو قول ہیں: ایک قول کے مطابق وفات 242ھ میں ہوئی، جب کہ راجح یہ ہے ان کی وفات سنہ248ھ میں ہوئی، قریبی زمانے کے نامور محقق عالم دین شیخ محمد زاہد الکوثری نے اسی کو ذکرکیا ہے اور راجح قرار دیا ہے۔ (مقدمة العالم والمتعلم)

2..اِمام اَبو نصر احمد العیاضی:
آپ امام ماتریدی کے اُن اساتذہ میں سے ہیں جن سے آپ کو خصوصی تعلق تھا، چناں چہ شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ محدث قاسم بن قطلوبغا نے آپ کے اساتذہ میں سے صرف انہی کا ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر تمام طبقات حنفیہ میں بھی امام ماتریدی کے اساتذہ میں ان کا نام شامل ہے۔ علامہ محمد مرتضی زبیدی نے بھی امام ماتریدی کے اساتذہ میں ان کا ذکرکیا ہے اور آپ کا نسب اس طرح بتایا ہے:

احمد بن عباس بن حسین بن جبلة بن جابر بن نوفل بن عیاض بن یحییٰ بن قیس بن سعد ابن عبادة الانصاری الفقیہ السمرقندی۔

اس نسب سے واضح ہوتا ہے کہ آپ مشہور صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم، حضرت سعد بن عبادہ کے خاندان سے تھے۔

آپ نے علاقہ ماوراء النہر کے معروف حنفی فقیہ شیخ ابوبکر احمد بن اسحاق جوزجانی سے علم حاصل کیا تھا۔ موصوف حددرجہ بہادر اور جرا ت مند تھے۔ جہاد میں بے دریغ شریک ہوتے تھے اور پھر اسی راہِ جہاد میں احمد بن اسد بن سامان کے عہد ولایت میں ایک معرکے میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

علم و فضل میں اس قدر بلندمرتبہ رکھتے تھے کہ علماء سیر نے یہاں تک تحریر کیا:

”اِن الدلیل علی صحة مذھب ابی حنیفة کون الامام احمد العیاضی علی مذھبہ“․(ذیل الجواہر المضیئة لابن ابی الوفاء،ج2،ص:562 )

امام احمد العیاضی جیسے شخص کا امام ابوحنیفہ کے مذہب پر ہونا، امام ابوحنیفہ کے مذہب کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔

3..ابوبکر احمد بن اسحاق الجوزجانی
علامہ عبدالحی لکھنوی، علامہ تمیمی اور علامہ زبیدی سب نے ان کو امام ماتریدی کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے اور سب نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ:

”کان عالما جامعا بین الاصول و الفروع، وقد اخذ العلم عن ابی سلیمان الجوزجانی“․

موصوف ایک بڑے عالم اور اصول وفروع دونوں میں مہارت رکھتے تھے اور (امام محمد کے نامور شاگرد)امام ابو سلیمان الجوزجانی سے علم حاصل کیا تھا۔

ان کی دوکتابوں کے نام ملتے ہیں:1.. الفرق و التمییز 2..کتاب التوبة

4..نصیر بن یحییٰ البلخی
اتحاف السادة المتقین فی شرح احیاء علوم الدین میں علامہ زبیدی نے انہیں امام ماتریدی کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے۔ ابومطیع حکم بن عبد اللہ، ابو مقاتل حفص بن مسلم السمرقندی اور ابوسلیمان الجوزجانی آپ کے شیوخ میں سے ہیں۔ موصوف فقہ حنفی اور علم کلام میں ماہرتھے اور سنہ268ھ میں وفات پائی۔

علمی مقام ومرتبہ
امام ماتریدی کا علمی مقام ومرتبہ تین باتوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔

آپ کی تالیفات۔آپ کے شاگردوں اور استفادہ کنندگان کا سلسلہ۔سیرت نگار علماء و محققین کی طرف سے آپ کے لیے ذکر کیے گئے القاب۔

پہلے ہم تیسرے نکتے کوذکر کرتے ہیں ۔ چناں چہ سیرت نگاروں نے آپ کے لیے جو القاب ذکر کیے ہیں وہ سب کے سب آپ کے بلند پایہ علمی مقام اور درجہ اِمامت کو واضح کررہے ہیں۔ چناں چہ درج ذیل تین القابات دیکھیے:

”اِمَامُ الہُدیٰ اِمَامُ الْمُتَکَلِّمِیْن مُصَحِّحُ عَقَائِدِ الْمُسْلِمِینْ“․(مسلمانوں کے عقائد کو درست کرنے والے)

جب کہ آپ کی تالیفات کی عمدگی اور کمال کی گواہی دینے والے سب ہی وہ علماء ہیں جنہوں نے آپ کی تالیفات دیکھیں اوران کا مطالعہ کیا۔ چناں چہ اب بھی جو کتابیں خاص کر آپ کی ضخیم تفسیر بنام ”تاویلات اہل السنة“ اور علم التوحید پر ضخیم اور دقیق کتاب بنام ”کتاب التوحید“ شائع ہوچکی ہیں اور عرب و عجم کے اہل علم کی توجہات کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ خصوصا تفسیرماتریدی کو تو متعدد اہل علم نے اپنی تحقیق کی جولان گاہ بنایا ہے اور اس کے متعدد تحقیقی ایڈیشنز شائع ہوچکے ہیں اور شنید ہے کہ پاکستان کے بعض ادارے اس کے اردو ترجمے کی طرف بھی پیش رفت کرچکے ہیں۔

علامہ بیاضی حنفی آپ کی تالیفات کے بارے میں لکھتے ہیں:
”وحقق فی کتبہ المسائل بقواطع الادلة، واتقن التفاریع بلوامع البراہین الیقینة“․ (اِشارات المرام ، ص:2)

امام ماتریدی نے اپنی کتابوں میں مسائل کو قطعی دلائل سے پایہ تحقیق کو پہنچایا ہے اور تفریعات کو روشن براہین سے مستحکم کردیا ہے۔

یہ بات محققین کے لیے بہت ہی واضح اور کافی ہے، جب کہ عام آدمی کے لیے یہ بات کافی ہونی چاہیے کہ عالم اسلام کے مایہ ناز اور قدیم ترین علمی و تعلیمی ادارے : مصر کا جامعہ الازہر،تیونس کا جامعہ الزیتونہ اور جامع القرویین، ماوراء النہر کے علمی ادارے اور پاک و ہند و افغانستان کے تعلیمی اداروں میں صدیوں سے امام ماتریدی کے اسلوب فکر والے عقائد کو درسی نصاب کا حصہ بنایاگیا ہے اور جلیل القدر علمائے کرام انہیں پڑھتے اور پڑھاتے چلے آرہے ہیں۔ چناں چہ عقیدہ نسفیہ جو ماتریدی اسلوب فکر کا نمائندہ اور مختصر ترین رسالہ ہے اور اس کی شرح، جو علامہ ثانی سعدالدین التفتازانی نے تحریر کی ہے، وہ اوپر ذکرکردہ دینی جامعات میں داخل نصاب رہی ہے یا درسی نصاب میں بطور معاون کتاب کے پڑھی اور پڑھائی جاتی رہی ہے۔

امام ماتریدی کے تلامذہ
امام ماتریدی کی علمی سرگرمیوں اور علم مقام دونوں سے واقفیت کے لیے ان کے تلامذہ پر بھی ایک نظر ہونی چاہیے۔ اس لیے ذیل میں ان کے چند نامور تلامذہ کا ذکر کیاجاتا ہے۔

1..ابوالقاسم السمرقندی:
اپنے وقت میں علم فقہ اور علمی کلام امام ماتریدی سے حاصل کیا اور بلخ کے مشایخ سے علم تصوف حاصل کیا اور اس میں اس قدر ترقی ہوئی کہ ”الحکیم“ ان کا لقب پڑگیا۔ سمرقند کے قاضی بھی مقرر ہوئے اور اچھی سیرت وکردار کے مالک تھے۔ سمرقند میں سنہ342ھ میں وفات پائی۔ دوکتابیں یادگار چھوڑیں: الرد علی اصحاب الہوی اور کتاب الایمان جزء من العمل۔

2..شیخ علی الرستغنی:
ابوالحسن علی بن سعد الرستغنی ان کا پورا نام ہے۔ سیرت نگاروں نے آپ کو امام ماتریدی کے جلیل القدر تلامذہ میں بتلایا ہے۔ یادگارکتابوں میں ”ارشاد المہتدی اور الزوائد و الفوائد فی انواع العلوم“ کے نا م ملتے ہیں۔

3..ابومحمد عبدالکریم بن موسیٰ البزدوی:
آپ علمائے حنفیہ میں سے دو مشہور شخصیات : امام ابوالعسر البزدوی اور امام ابوالیسر البزدوی کے دادا ہیں۔ یہ پورا خاندان علمی خاندان ہے۔ سنہ390ھ میں وفات پائی۔

امام ماتریدی کی وفات
آپ کی وفات میں اہل علم کا تھوڑا سا اختلاف ہے، مگر جو راجح ہے وہ سنہ 333ھ ہے اور آپ کی قبر سمرقند میں ہے اور مشہور ہے۔

امام ماتریدی کی زندگی کے عمومی نقوش

امام ماتریدی کے زمانے میں ماوراء النہر کے علاقے میں جو گم راہ فرقے تھوڑی یا زیادہ تعداد میں موجود تھے، ان میں سے تین قابل ذکر ہیں: معتزلہ، شیعہ اور کرامیہ، جب کہ غیر مسلموں میں سے فلاسفہ کی کتب کے عربی تراجم ہونے کی وجہ سے ان کا نام بھی عالم اسلام میں کافی گونج رہاتھا۔ چناں چہ امام ماتریدی نے ان سب کے خلاف اہل سنت کی ترجمانی اور دفاع کا محاذ سنبھالا اور اسی لیے ”امام الہدی“ ان کا لقب قرار پایا۔

اسی لیے تفسیر ماترید ی کا مطالعہ کرنے والا جابجا اس حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے کہ امام ماتریدی بڑی وضاحت و صراحت اور قوت کے ساتھ ان گم راہ فرقوں کی تردید کرتے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا مقام ہو جہاں ان فرقوں کی تردید کی نوبت آئے اور امام ماتریدی خاموشی سے گزر جائیں۔ امام ماتریدی کی تفسیر گویا اس حوالے سے منفرد حیثیت رکھتی ہے کہ آپ نے آیات قرآنیہ کی تفسیر و تاویل میں اہل سنت کے نظریے کو بھی بیان کیا ہے اور ساتھ ساتھ گم راہ فرقوں کے نظریات اور ان کی تردید کو بھی سامنے رکھا ہے ، اس طرح یہ عظیم کتاب ”تقابلی مطالعے“ کا ایک بہترین اور شاہ کار نمونہ قرار پاتی ہے اورجو لوگ سمجھتے ہیں کہ تقابلی مطالعے کی روایت عصر حاضر میں پڑی ہے اور متقدمین اہل علم اس ضروری پہلو سے ناواقف تھے، ان کی غلط فہمی بھی اس کے بعد دور ہوجانی چاہیے۔ (جاری)

No comments:

Post a Comment