اُمت کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایصالِ ثواب نصوص سے ثابت ہے، چنانچہ ایصالِ ثواب کی ایک صورت آپ کے لئے ترقیٴ درجات کی دُعا،اور مقامِ وسیلہ کی درخواست ہے، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:
“اذا سمعتم الموٴذّن فقولوا مثل ما یقول، ثم صلوا علیّ فانہ من یصلی علیّ صلٰوة صلی الله علیہ وسلم بھا عشرًا، ثم سلوا الله لی الوسیلة فانھا منزلة فی الجنة لا ینبغی الا لعبد من عباد الله وارجوا ان اکون انا ھو، فمن سأل لی الوسیلة حلت علیہ الشفاعة۔” (مشکوٰة ص:۶۴)
ترجمہ:… “جب تم موٴذّن کو سنو تو اس کی اذان کا اسی کی مثل الفاظ سے جواب دو، پھر مجھ پر دُرود پڑھو، کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک بار دُرود پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں، پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے “وسیلہ” کی درخواست کرو، یہ ایک مرتبہ ہے جنت میں، جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے شایانِ شان ہے، اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا، پس جس شخص نے میرے لئے وسیلہ کی درخواست کی، اس کو میری شفاعت نصیب ہوگی۔”
اور صحیح بخاری میں ہے:
“من قال حین سمع النداء، اللّٰھم رب ھٰذہ الدعوة التامة والصلٰوة القائمة اٰت محمدن الوسیلة والفضیلة وابعثہ مقامًا محمودن الذی وعدتہ، حلت لہ شفاعتی یوم القیامة۔” (مشکوٰة ص:۶۵)
ترجمہ:…”جو شخص اذان سن کر یہ دُعا پڑھے: “اے اللہ! جو مالک ہے اس کامل دعوت کا، اور قائم ہونے والی نماز کا، عطا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت اور کھڑا کر آپ کو مقامِ محمود میں، جس کا آپ نے وعدہ فرمایا ہے” قیامت کے دن اس کو میری شفاعت نصیب ہوگی۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ عمرہ کے لئے تشریف لے جارہے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلبی کے لئے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رُخصت کرتے ہوئے فرمایا:
“لا تنسنا یا اخی من دعائک۔ وفی روایة: اشرکنا یا اخی فی دعائک۔”
(ابوداوٴد ج:۱ ص:۲۱۰، ترمذی ج:۲ ص:۱۹۵)
ترجمہ:…”بھائی جان! ہمیں اپنی دُعا میں نہ بھولنا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ: بھائی جان! اپنی دُعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا۔”
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح حیاتِ طیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دُعا مطلوب تھی، اسی طرح وصال شریف کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دُعا مطلوب ہے۔
ایصالِ ثواب ہی کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کی جائے، حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا حکم فرمایا تھا:
“عن حنش قال رأیت علیًّا رضی الله عنہ یضحی بکبشین، فقلت لہ: ما ھٰذا؟ فقال: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم اوصانی ان اضحی عنہ، فانا اضحی عنہ۔” (ابوداوٴد، باب الاضحیة عن المیّت ج:۲ ص:۲۹)
ترجمہ:…”حنش کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ مینڈھوں کی قربانی کرتے ہیں، میں نے عرض کیا: یہ کیا؟ فرمایا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، سو میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔”
“وفی روایة: امرنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم ان اضحی عنہ فانا اضحی عنہ ابدًا۔”
(مسندِ احمد ج:۱ ص:۱۰۷)
“وفی روایة: فلا ادعہ ابدًا۔” (ایضاً ج:۱ ص:۱۴۹)
ترجمہ:…”ایک روایت میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا تھا کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں، سو میں آپ کی طرف سے ہمیشہ قربانی کرتا ہوں۔”
ترجمہ:…”ایک روایت میں ہے کہ میں اس کو کبھی نہیں چھوڑتا۔”
علاوہ ازیں زندوں کی طرف سے مرحومین کو ہدیہ پیش کرنے کی صورت ایصالِ ثواب ہے، اور کسی محبوب و معظم شخصیت کی خدمت میں ہدیہ پیش کرنے سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ اس ہدیہ سے اس کی ناداری کی مکافات ہوگی، کسی بہت بڑے امیر کبیر کو اس کے احباب کی طرف سے ہدیہ پیش کیا جانا عام معمول ہے، اور کسی کے حاشیہٴ خیال میں بھی یہ بات نہیں کہ ہمارے اس حقیر ہدیہ سے اس کے مال و دولت میں اضافہ ہوجائے گا، بلکہ صرف ازدیادِ محبت کے لئے ہدیہ پیش کیا جاتا ہے، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں گناہگار اُمتیوں کی طرف سے ایصالِ ثواب کے ذریعہ ہدیہ پیش کرنا اس وجہ سے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حقیر ہدایا کی احتیاج ہے، بلکہ یہ ہدیہ پیش کرنے والوں کی طرف سے اظہارِ تعلق و محبت کا ایک ذریعہ ہے، جس سے جانبین کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے، اور اس کا نفع خود ایصالِ ثواب کرنے والوں کو پہنچتا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درجاتِ قرب میں بھی اس سے اضافہ ہوتا ہے۔
علامہ ابنِ عابدین شامی رح نے ردالمحتار میں باب الشہید سے قبیل اس مسئلے پر مختصر سا کلام کیا ہے، اتمامِ فائدہ کے لئے اسے نقل کرتا ہوں:
“ذکر ابن حجر فی الفتاویٰ الفقھیة ان الحافظ ابن تیمیة زعم منع اھداء ثواب القرائة للنبی صلی الله علیہ وسلم لان جنابہ الرفیع لا یجرأ علیہ الا بما اذن فیہ وھو الصلٰوة علیہ وسوال الوسیلة لہ۔
قال: وبالغ السبکی وغیرہ فی الردّ علیہ بان مثل ذٰلک لا یحتاج لاذن خاص الا تری ان ابن عمر کان یعتمر عنہ صلی الله علیہ وسلم عمرًا بعدہ موتہ من غیر وصیة وحج ابن الموفق وھو فی طبقة الجنید عنہ سبعین حجة وختم ابن السراج عنہ صلی الله علیہ وسلم اکثر من عشرة اٰلاف ختمة وضحی عنہ مثل ذٰلک۔ اھ۔
قلت: رأیت نحو ذٰلک بخط مفتی الحنفیة الشھاب احمد بن الشلبی شیخ صاحب البحر نقلًا عن شرح الطیبة للنویری ومن جملة ما نقلہ ان ابن عقیل من الحنابلة قال: یستحب اھدائھا لہ صلی الله علیہ وسلم۔
قلت: وقول علمائنا لہ ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ، یدخل فیہ النبی صلی الله علیہ وسلم فانہ احق بذٰلک حیث انقذنا من الضلالة ففی ذٰلک نوع شکر واسدأ جمیل لہ والکامل قابل لزیادة الکمال وما استدل بہ بعض المانعین من انہ تحصیل الحاصل لان جمیع اعمال امتہ فی میزانہ یجاب عنہ بانہ لا مانع من ذٰلک فان الله تعالیٰ اخبرنا بانہ صلی علیہ ثم امرنا بالصلٰوة علیہ بان نقول اللّٰھم صل علی محمد، والله اعلم۔” (شامی ج:۲ ص:۲۴۴، طبع مصر)
ترجمہ:…”ابنِ حجر رح (مکی شافعی) نے فتاویٰ فقہیہ میں ذکر کیا ہے کہ حافظ ابنِ تیمیہ رح کا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاوت کے ثواب کا ہدیہ کرنا ممنوع ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں صرف اسی کی جرأت کی جاسکتی ہے جس کا اذن ہو، اور وہ ہے آپ پر صلوٰة و سلام بھیجنا اور آپ کے لئے دُعائے وسیلہ کرنا۔
ابنِ حجر رح کہتے ہیں کہ: امام سبکی رح وغیرہ نے ابنِ تیمیہ رح پر خوب خوب رَدّ کیا ہے کہ ایسی چیز اذنِ خاص کی محتاج نہیں ہوتی، دیکھتے نہیں ہو کہ ابنِ عمر ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرے کیا کرتے تھے، جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کی وصیت بھی نہیں فرمائی تھی۔ ابن الموفق نے جو جنید کے ہم طبقہ ہیں، آپ کی طرف سے ستر حج کئے، ابن السراج نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دس ہزار ختم کئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتنی ہی قربانیاں کیں۔
میں کہتا ہوں کہ میں نے اسی قسم کی بات مفتی حنفیہ شیخ شہاب الدین احمد بن الشلبی، جو صاحبِ بحر الرائق کے اُستاذ ہیں، کی تحریر میں بھی دیکھی ہے، جو موصوف نے علامہ نیویری رح کی “شرح الطیبہ” سے نقل کی ہے، اس میں موصوف نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حنابلہ میں سے ابنِ عقیل کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہٴ ثواب مستحب ہے۔
میں کہتا ہوں کہ ہمارے علماء کا یہ قول کہ: “آدمی کو چاہئے کہ اپنے عمل کا ثواب دُوسروں کو بخش دے” اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی داخل ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا زیادہ استحقاق رکھتے ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے ہمیں گمراہی سے نجات دلائی، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ثواب کا ہدیہ کرنے میں ایک طرح کا تشکر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا اعتراف ہے، اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ ہر اعتبار سے کامل ہیں، مگر) کامل زیادتِ کمال کے قابل ہوتا ہے۔ اور بعض مانعین نے جو استدلال کیا ہے کہ یہ تحصیلِ حاصل ہے، کیونکہ اُمت کے تمام عمل خود ہی آپ کے نامہٴ عمل میں درج ہوتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ چیز ایصالِ ثواب سے مانع نہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرماتے ہیں، اس کے باوجود ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ کے لئے رحمت طلب کرنے کے لئے اللّٰھم صل علیٰ محمد کہا کریں۔”
No comments:
Post a Comment