السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته
دوستو ان شاء اللہ اپ سب ٹھیک ٹھاک اور خیریت سے ہونگے
ابھی ایک صاحب کی پوسٹ میری نظر سے گزری بعنوان علمائے دیوبند کا ایک اصول پھر اس کے ذیل میں صاحب پوسٹ لکھتا ہے کہ تم اس چیز کو حلال و حرام مت کہو جس کی حلت و حرمت اللہ تعالی اور اس کے رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو ورنہ تم اللہ تعالٰی پر جھوٹ کہنے والے ہو جاو گے کیونکہ حلت و حرمت کا مدار صرف اللہ تعالٰی کے حکم پر ہے پھر حوالہ دیا ہے راہ سنت کا اور اسکے نیچے ایک سوال کیا ہے کہ دیوبندی اپنے اس اصول کو اچھی طرح پڑھ لیں اور پھر بتائیں کہ بھینس کو حلال کہتے ہو یا نہیں۔
#_الجواب، سب سے پہلے یہ بات قابل غور ہے متعرض کو پہلے یہ دیکھنا چاہیے جس مسئلے پر وہ سوال اٹھا رہا ہے اس مسئلے پر متعرض کو شرح صدر بھی ہے یا نہیں
نمبر 2۔ جن پر سوال اٹھایا جا رہا ہے اُن کے اصول کا علم بھی رکھتا ہے ؟ اور سب سے بڑھ کر اپنے گھر کے متضاد اصولوں کا احاطہ بھی کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اب اتے ہیں اس سوال کے جواب کی طرف چونکہ بھینس ہمارے ہاں تواتر اجماع سے حلال ہے آج تک کسی مقلد عالم نے بھینس کے حرام ہونے کا فتوی نہیں دیا اسلیے یہ اجماع ہے اور یہ اجماع تواتر اج تک جاری ہے لیکن متعرض نے اصول نقل کیا ہے حلال و حرام کے لیے دلیل اللہ تعالٰی کا حکم ہو گا لیکن متعرض نے یہ تحقیق ہی نہ کی کے ہمارے ہاں اصول چار ہیں قرآن سنت اجماع امت اور قیاس شرعی اب ان میں پہلے دو کو ماننے کا دعوی متعرض کا بھی ہے باقی دو ہم متعرض کے گھر سے ثابت کرتے ہیں کہ وہ بھی کتاب و سنت میں سے ہیں لیکن اس سے پہلے ہم متعرض کو ان کے گھر سے ان کے عالم زبیر علی زئی کا قول دکھانا چاہتے ہیں کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے پھر اس کے بعد زبیر علی زئی بھی اجماع کی طرف گیا ہے اور لکھتا ہے کہ اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے اور پھر اِس اجماع کو ثابت کیا ہے ابن منذر رح کے قول سے
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ ان کا ایک عالم جناب روپڑی صاحب ہے وہ کہتا ہے کہ بھینس بهيمة الأنعام میں سے نہیں اس لیے اس کی قربانی جائز نہیں اور متعرض کا اپنا قول بھی یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی رو سے بھینس #_حلال_ہے
اب یہاں روپڑی کے فتوے کا کیا حکم ہو گا کیونکہ اگر بھینس گائے کی قسم ہے اور اس پر اجماع بھی ہے جیسا زبیر علی زئی نے نقل کیا ہے اور متعرض کہتا ہے کہ #_قرآن_و_حدیث_کی_رو_سے_بھینس_حلال_ہے تو روپڑی تو قرآن و حدیث اور اجماع کا منکر بنتا ہے اسکا حکم کیا ہوگا ؟ دوستو الحمدللہ ہمارے ہاں تو مسئلہ واضح اور صاف ہے لیکن ان کے ہاں تو اس پر زبردست اختلاف سامنے آگیا ہے اب ان میں ٹھیک کون اور غلط کون ہے یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے چونکہ راقم الحروف نے اوپر دعویٰ کیا ہے کہ اجماع امت اور قیاس شرعی کو ان کے گھر سے ثابت کروں گا کہ یہ بھی کتاب و سنت میں سے ہیں تو آتے ہیں اُس دعوے کی طرف۔
حافظ عبداللہ غازی پوری رح نے اپنی کتاب ابراء اہل الحدیث والقرآن میں باب باندھا ہے
#_اہلحدیث_کے_اصول_و_عقائد پہلے تو اس باب کے عنوان سے یہ ثابت ہوا کہ اہلحدیث حضرات کا اصول اور عقیدہ یہ ہے کہ اجماع امت اور قیاس شرعی کتاب و سنت میں سے ہیں جب یہ اہلحدیث حضرات کا اصول اور عقیدہ ہے کہ اجماع اور قیاس شرعی کتاب و سنت میں سے ہیں تو اسکا ماننا بھی قرآن و سنت کا ماننا ہوا اور یہ غازی پوری رح نے اپنی کتاب میں بھی لکھا ہے اسلیے امام اہلسنت سرفراز خان صفدر رح کا نقل کیا ہوا اصول اس مسئلے میں اہلسنت والجماعت کی مخالفت نہیں کرتا #_اسلیے ہمارا مشورہ ہے متعرض سائل کو کہ آپ پہلے تحقیق کیا کرو پھر پوسٹ چمکایا کرو #_لیکن_پوسٹ_لگانے_سے_پہلے اپنا گھر بھی ضرور دیکھا کرو کیونکہ اپنے گھر میں مسئلے کی تحقیق کیے بغیر اگر پوسٹ چمکاؤ گے اور مناظر بننے کی کوشش کرو گے #_تو اسی طرح پھنستے جاو گے جس طرح اس سوال میں بری طرح پھنس گئے ہو #_کہ_جناب_روپڑی_صاحب آپ کے قول سے قرآن و حدیث کا مخالف اور زبیر علی زئی کے فتوے سے اجماع کا #_منکر ٹھرا اور اب یہ عقدہ بھی تم نے ہی حل کرنا ہے کہ قرآن و اجماع کا مخالف کیا کہلاتا ہے۔😁۔
No comments:
Post a Comment