Monday, 30 November 2020

کیا رسول ﷺ کا سایہ تھا

 کیا رسول ﷺ کا سایہ تھا  

سیّد الانبیاء محمد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ﷲ کے برگزیده نبی اور انسان تھے ۔
ﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلسلہ انسانیت سے پیدا کیا تھا اور انسان ہونے کے اعتبار سے یہ بات عیاں ہے کہ انسان کا سایہ ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں ﷲتعالیٰ نے ایک مقام پر فر ما یا ہے کہ :
’’اور جتنی مخلو قا ت آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور نا خوشی سے ﷲ تعالیٰ کے آگے سجده کر تی ہیں اور اْن کے سائے بھی صْبح و شام سجده کرتے ہیں ۔‘‘
(رعد :۱۵)
ایک اور مقام پر فرمایا :
’’کیا اْنہوں نے ﷲکی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اْس کے سائے دائیں اور بائیں سے لوٹتے ہیں ۔
یعنی ﷲ کے آگے ہو کر سر بسجود ہوتے ہیں۔‘‘
(النحل : ۴۸) 
اِن ہر دو آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ آسمان و زمین میں ﷲ نے جتنی مخلوق پیدا کی ہے اْن کا سایہ بھی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو ﷲ کی مخلوق ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سا یہ تھا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں
جیسا کہ :
سیّدنا اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور بالکل نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک آگے بڑھایا مگر پھر جلد ہی پیچھے ہٹالیا ہم نے عرض کیا کہ اے ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج آپؐنے خلافِ معمول نماز میں نئے عمل کا اضافہ کیا ہے۔
آپؐ نے فرمایا نہیں ۔
بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی میں نے اِس میں بہترین پھل دیکھے تو جی میں آیا کہ اِس میں سے کچھ اْچک لوں مگر فوراً حکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ میں پیچھے ہٹ گیا پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی۔
((حَتّٰی رَأَیْت ظِلِیّ وَظِلِیّ وَظِلَّلکْمْ))
اِس کی روشنی میں میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا ۔
دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشاره کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔
(مستدرک حاکم ۴ / ۴۵۶)
امام ذہبیؒ نے تلخیص مستددک میں فرمایا :
ھذا حدیث صحیح
یہ حدیث صحیح ہے ۔
اِسی طرح مسند احمد ۶/۱۳۲‘۶/۳۳۸
طبقات الکبریٰ ۸/۱۲۷‘
مجمع الزوائد۴/۳۲۳
پر ایک حدیث میں مروی ہے کہ سیدّه  زینب رضی اللہ عنہا اورسیده صفیہ رضی اللہ عنہا ایک سفر میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں‘
صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک اْونٹ تھا اور وه بیمار ہو گیا جب کہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دو اونٹ تھے ۔
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زائد اونٹ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو
تو اْنہوں نے کہا میں اْس یہودیہ کو کیوں دوں ؟
اِس پر رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے ۔
تقریباً تین ماه تک زینب رضی اللہ عنہا کے پاس نہ گئے
حتیٰ کہ زینب رضی اللہ عنہا نے مایوس ہو کر اپنا سامان باندھ لیا۔
سیده زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
’’اچانک دیکھتی ہوں کہ دوپہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک آرہا ہے ۔‘‘ 
عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ سایہ مرئیہ فقط اْس جسم کا ہوتا جو ٹھوس اور نگر ہو نیز سورج کی شعاعوں کوروک ہی نہیں سکتا تو اِس کا سایہ بلاشبہ نظر نہیں آتا ۔
مثلاً صاف اور شفاف شیشہ اگر دھوپ میں لایا جائے تو اْس كا  سایہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اِس میں شعاعوں کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔
بخلاف اِس کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر نہایت ٹھوس اور نگر تھا
اْس کی ساخت شیشے کی طرح نہیں تھی کہ جس سے سب کچھ ہی گزر جائے۔
لا محالہ آپؐ کا سایہ تھا ۔
اگر جسم اطہر کا سایہ مبارک نہ تھا تو کیا جب آپؐ لباس پہنتے تو آپؐ کے مبلوسات کا بھی سایہ نہ تھا ؟؟؟
اگر وه کپڑے اتنے لطیف تھے کہ اْن کا سایہ نہ تھا تو پھر اِن کے پہننے سے ستر وغیره کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی؟؟؟
منکرینِ سایہ یہ کہتے ہیں کہ آپؐ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپؐ کا سایہ اِس لیے نہیں تھا کہ اگر کسی کاقدم آپؐ کے سایہ پر آجا تا تو آپؐ کی توہین ہوتی
اِس لیے ﷲ نے آپؐ کا سایہ پیدا ہی نہیں کیا ۔
جہاں تک پہلی بات کا ذکر ہے کہ آپؐ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ‘ سراسر غلط ہے۔
نوریوں کا سایہ صحیح حدیث سے ثابت ہے
جب سیّد نا جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبدﷲ رضی اللہ عنہ غزوئہ اْحد میں شہید ہوگئے تو اْن کے اہل و عیال اْن کے گرد جمع ہوکر رونے لگے
تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کہ جب تک تم انہیں یہاں سے اْٹھا نہیں لیتے اْس وقت تک فرشتے اِس پر اپنے پروں کا سایہ کیے رکھیں گے۔‘‘
(بخاری کتاب الجنائز ۲ / ۱۵)
اور دوسری بات بھی خلافِ واقع ہے کیونکہ سایہ پاؤں کے نیچے آہی نہیں سکتا جب کبھی کوئی شخص سائے پر پاؤں رکھے گا تو سایہ اْس کے پاؤں کے اْوپر ہوجائے گا نہ کہ نیچے ۔
لہٰذا ان عقلی اور نقلی دلائل کہ خلاف یہ بے عقلی اور بے سند باتیں حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں

No comments:

Post a Comment