وحی پر بدعتیوں کا عقیدہ علم غیب اور اسکا تحقیقی جواب
إِنَّ أُنَاسًا كَانُوا يُؤْخَذُونَ بِالْوَحْىِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَإِنَّ الْوَحْىَ قَدِ انْقَطَعَ، وَإِنَّمَا نَأْخُذُكُمُ الآنَ بِمَا ظَهَرَ لَنَا مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا خَيْرًا أَمِنَّاهُ وَقَرَّبْنَاهُ، وَلَيْسَ إِلَيْنَا مِنْ سَرِيرَتِهِ شَىْءٌ، اللَّهُ يُحَاسِبُهُ فِي سَرِيرَتِهِ، وَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا سُوءًا لَمْ نَأْمَنْهُ وَلَمْ نُصَدِّقْهُ، وَإِنْ قَالَ إِنَّ سَرِيرَتَهُ حَسَنَةٌ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہو جاتا تھا ۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور ہم صرف انہیں امور میں مواخذہ کریں گے جو تمہارے عمل سے ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے ۔ اس لیے جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا ، ہم اسے امن دیں گے اور اپنے قریب رکھیں گے ۔ اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو گا ۔ اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے خواہ وہ یہی کہتا رہے کہ اس کا باطن اچھا ہے ۔
صحیح بخاری،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہو جاتا تھا ۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور ہم صرف انہیں امور میں مواخذہ کریں گے جو تمہارے عمل سے ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے ۔ اس لیے جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا ، ہم اسے امن دیں گے اور اپنے قریب رکھیں گے ۔ اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو گا ۔ اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے خواہ وہ یہی کہتا رہے کہ اس کا باطن اچھا ہے ۔
صحیح بخاری،
كتاب الشهادات
بَابُ الشُّهَدَاءِ الْعُدُولِ
2641
نبی صلی الله علیه وسلم کی مشهور ومعروف حدیث جو که بخاری کتاب الایمان میں موجود هے. جب جبرئیل علیه السلام انسانی شکل وصورت میں آکر رسول الله صلی الله علیه وسلم سے کئ سوالات کئے تهے جن میں سے ایک سوال یه بهی تها که:
"متی الساعه قال ما المسئول عنهما باعلم من السائل وساخبرک خبرک عن اشراطها."
(صحیح بخاری کتاب الایمان ح ۵۰. مسلم کتاب الایمان ح ۹۷, ابن ماجه باب فی الایمان ح ۶۴.)
سوال کیا قیامت کب آگی گی آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا جس سے یه بات پوحپهی جارهی هے وه خود سائل سے زیاده اس کو نهیں جانتا البته میں تم کو اس کی کپھ علامتیں بیان کر دیتا هوں.
یه روایت اهل بدعت پر ایک پهاڑ هیں مگر کپھ لوگوں نے اپنا عقیده ثابت کرنے کیلئے اس میں جو من رنگ آمیزش کی هے وه دیکھے.
عمر احپهروی کهتے هیں
"اور وهابی صاحت اگر ماالمسئول عنهاباعلم من السائل کے معنی معاذ الله بے علم هونے کے هی کرو گے تو ساخبرک عن اشراطها اذا ولدت الامه ربتها اور اذا اتطاول رعاۃ الابل البهم فی البنیان کے مکذب ثابت هوں گے, یعنی نبی صلی الله علیه وسلم کے ایک جملے کے معنی الٹنے سے آپ کے تین جملوں کا انکار لازمی هوگا کیونکه ماالمسئول عنها باعلم من السائل کے تمهارے مطلب سمجھنے سے اگلے تین جملوں سے اس کا تناقض لازم آئے گا."
(مقیاس حنفیت ص ۴۳۱.)
حالانکه یه نه کوئی تناقض هے نه کوئی تعارض اگر هے تو وه ان کے ذهنوں میں هے. اس لئے که ایک هے نفس قیامت کا علم که کب آئے گی اور ایک هے اسکئ بعض علامات اور نشانیوں کا علم یه دونوں الگ الگ چیزیں هیں اور جو چیزیں اگۓ بیان هوئی وه قیامت کی علامات اور نشانیاں هیں نفی کسی اور چیز کی هے اثبات کسی اور چیز کا, مگر همارے مهربان تو اسکو تناقض کهتے هیں.
.
پهر کپھ آگے جاکر جناب کهتے هیں
"پهلے جملے میں "ما المسئول عنهاباعلم من السائل کے معنی صاف واضح کر رهے هیں که آپ نے فرمایا که مسئول یعنی محمد صلی الله علیه وسلم قیامت کے اظهار سے متعلق سائل سے یعنی جبرئیل سے زیادۂ جاننے والا هوں یعنی تو بهی قیامت کو جتنا جانتا هے جانتا هے اور میں بهی جتنا جانتا هوں, جانتا هوں, نه تو اپنے علم کے مطابق اپنی خبر کو ظاهر کر سکتا هے اور نه اپنے علم کے مطابق میں ظاهر کرسکتا هوں اسکے پوشیده رکهنے کا حکم هے اسلئے بیان بهی فرمایا تو اشارۃ اور پوشیده هی ظاهرا بیان نهیں فرمایا.
(مقیاس حنفیت ۴۳۲.)
.
اس هی طرح ایک اور صاحب کهتے هیں
"اس میں رسول الله صلی الله علیه وسلم نے اپنے جاننے کی نفی نهیں کی بلکه زیادتی علم کی نفی کی ورنه فرماتے لا اعلم میں نے جانتا. اتنی دراز عبارت کیوں ارشاد فرمائی؟ اسکا مطلب یه هوسکتا هے که اے جبرئیل اس مسئله میں میرا اور تمارا علم برابر هے که مجھ کو بهی خبر هے اور تم کو بهی اس مجمع میں یه پوحپھ کر راز ظاهر کرانا مناسب نهیں.
(جاء الحق وزهق الباطل ج ۱ ص ۱۱۳.)
.
آپ حیران نه هوں یه کوئی نئی تحقیق یا جواب نهیں بلکه بهت وقت پهلے بهی ایسے منگهڑٹ عقیده رکهنے والوں لوگ موجود تهے جن کا ذکر ابن القیم نے المنار المنیف فی الصحیح والضعیف میں کیا هے. وه هم ان شاءالله ذکر کرتے هیں مگر اس سے پهلے اس حدیث کی کر متعلق علماء کی تصراحات دیکھے.
.
حافظ ابن حجر کهتے هیں اس حدیث کے دو معنی هیں
عمر احپهروی کهتے هیں
"اور وهابی صاحت اگر ماالمسئول عنهاباعلم من السائل کے معنی معاذ الله بے علم هونے کے هی کرو گے تو ساخبرک عن اشراطها اذا ولدت الامه ربتها اور اذا اتطاول رعاۃ الابل البهم فی البنیان کے مکذب ثابت هوں گے, یعنی نبی صلی الله علیه وسلم کے ایک جملے کے معنی الٹنے سے آپ کے تین جملوں کا انکار لازمی هوگا کیونکه ماالمسئول عنها باعلم من السائل کے تمهارے مطلب سمجھنے سے اگلے تین جملوں سے اس کا تناقض لازم آئے گا."
(مقیاس حنفیت ص ۴۳۱.)
حالانکه یه نه کوئی تناقض هے نه کوئی تعارض اگر هے تو وه ان کے ذهنوں میں هے. اس لئے که ایک هے نفس قیامت کا علم که کب آئے گی اور ایک هے اسکئ بعض علامات اور نشانیوں کا علم یه دونوں الگ الگ چیزیں هیں اور جو چیزیں اگۓ بیان هوئی وه قیامت کی علامات اور نشانیاں هیں نفی کسی اور چیز کی هے اثبات کسی اور چیز کا, مگر همارے مهربان تو اسکو تناقض کهتے هیں.
.
پهر کپھ آگے جاکر جناب کهتے هیں
"پهلے جملے میں "ما المسئول عنهاباعلم من السائل کے معنی صاف واضح کر رهے هیں که آپ نے فرمایا که مسئول یعنی محمد صلی الله علیه وسلم قیامت کے اظهار سے متعلق سائل سے یعنی جبرئیل سے زیادۂ جاننے والا هوں یعنی تو بهی قیامت کو جتنا جانتا هے جانتا هے اور میں بهی جتنا جانتا هوں, جانتا هوں, نه تو اپنے علم کے مطابق اپنی خبر کو ظاهر کر سکتا هے اور نه اپنے علم کے مطابق میں ظاهر کرسکتا هوں اسکے پوشیده رکهنے کا حکم هے اسلئے بیان بهی فرمایا تو اشارۃ اور پوشیده هی ظاهرا بیان نهیں فرمایا.
(مقیاس حنفیت ۴۳۲.)
.
اس هی طرح ایک اور صاحب کهتے هیں
"اس میں رسول الله صلی الله علیه وسلم نے اپنے جاننے کی نفی نهیں کی بلکه زیادتی علم کی نفی کی ورنه فرماتے لا اعلم میں نے جانتا. اتنی دراز عبارت کیوں ارشاد فرمائی؟ اسکا مطلب یه هوسکتا هے که اے جبرئیل اس مسئله میں میرا اور تمارا علم برابر هے که مجھ کو بهی خبر هے اور تم کو بهی اس مجمع میں یه پوحپھ کر راز ظاهر کرانا مناسب نهیں.
(جاء الحق وزهق الباطل ج ۱ ص ۱۱۳.)
.
آپ حیران نه هوں یه کوئی نئی تحقیق یا جواب نهیں بلکه بهت وقت پهلے بهی ایسے منگهڑٹ عقیده رکهنے والوں لوگ موجود تهے جن کا ذکر ابن القیم نے المنار المنیف فی الصحیح والضعیف میں کیا هے. وه هم ان شاءالله ذکر کرتے هیں مگر اس سے پهلے اس حدیث کی کر متعلق علماء کی تصراحات دیکھے.
.
حافظ ابن حجر کهتے هیں اس حدیث کے دو معنی هیں
اول: یه که سائل اور مسئول عنه دونوں نفی علم میں مساوی هیں چنانجه کهتے هیں
"فان المرادایضا: التساوی فی عدم العلم به."
(فتح الباری ج ۱ ص ۱۲۱.)
اس سے مراد یه بهی هے که وه دونوں نفی علم میں برابر هیں.
.
اور قسطلانی کهتے هیں
"والمراد نفی علم وقتها لا علم جبیئھا مقطوع به فهوعلم مشترک وهذا وان اشعربالتساوی فی العلم الا ان المراد التساوی فی العلم بان الله استاثر بعلم وقت مجیئھا لقوله بعد فی خمس لا یعلمن الا الله."
(ارشاد الساری ج ۱ ص ۱۴۰.)
"
"فان المرادایضا: التساوی فی عدم العلم به."
(فتح الباری ج ۱ ص ۱۲۱.)
اس سے مراد یه بهی هے که وه دونوں نفی علم میں برابر هیں.
.
اور قسطلانی کهتے هیں
"والمراد نفی علم وقتها لا علم جبیئھا مقطوع به فهوعلم مشترک وهذا وان اشعربالتساوی فی العلم الا ان المراد التساوی فی العلم بان الله استاثر بعلم وقت مجیئھا لقوله بعد فی خمس لا یعلمن الا الله."
(ارشاد الساری ج ۱ ص ۱۴۰.)
"
کهتے هیں اس سے مراد وقت قیامت کے علم کی نفی کرنا هے کیونکه اس کے آنے کا علم قطعی هے لهذا وه مشترک هے اور اگرچه بظاهر اس علم میں مساوات مفهوم هوتی هے لیکن دراصل مراد یه هے که اس بات کے جاننے میں برابری جتلانا هے که الله تعالی نے اس کے خاص وقت کا علم اپنے ساتھ مخصوص کر لیا کیونکه اس کے بعد یه قول موجود هے که قیامت ان پانچ چیزوں میں سے هے جن کا علم الله تعالی کے سوا کسی اور کو نهیں هے."
.
آپ نے دیکھا که قسطلانی اور عسقلانی کیا کهتے هیں اور جناب صاحب مقیاس حنفیت اور جاالحق والے کیا کهتے هیں.!
.
دوسرا معنی اسکا یه علماء نے کیا که قیامت کے بارے میں علم که کب آئی گی, سائل مسئول دونوں اس کے جاننے میں برابر هیں که قیامت کا علم صرف رب عزت کے علاوه اور کسی کو نهیں.
اس هی لئے جناب علامه طیبی لکهتے هیں:
"انا متساویان فی انا نعلم ان للساعه مجیئا فی وقت ما من الاوقات وذلک هو العلم المشترک بیننا ولا مزید للمسئول علی هذا العلم یتعین عند المسئول عنه وهو الوقت المتعین الذی یتحقق فیه مجیئ الساعه."
(الکاشف عن حقائق السنن ج ۲ ص ۴۳۳.)
.
اور ابن حجر کهتے هیں
"وهذاو ان کان مشعرا بالتساوی فی العلم لکن المراد التساوی فی العلم بان الله تعالی استاثر بعلمھا لقوله بعد خمس لا یعلمھا الا الله."
(فتح الباری ج ۱ ص ۱۲۱.)
یعنی که قیامت کے معاملے میں سوال کرنے والے اور جواب دینے والے کا علم برابر هے, اس لئے که حدیث میں لفظ "السائل" اور "السؤول" آیا هے تو ان دونوں لفظوں میں جو الف لام شروع میں هے اس میں دو احتمال هیں. اول تو یه که اس الف لام سے مراد حضرت جبرائیل علیه السلام اور آپ صلی الله علیه وسلم مراد هوں, تو اس صورت میں سوال پوحپهنے والے (یعنی حضرت جبرائیل) اور جواب دینے والے دونوں علم میں برابر هوں گے یعنی معنی یه هوں گے که دونوں هی اس کے بارے میں کپھ نهیں جانتے.
دوم: یه که اس الف لام سے مراد الف لام جنسی هو, تو اس صورت میں لفظ کے لحاظ سے معنی عام هو جائیں گے. یعنی وقوع قیامت کا علم پوری دنیا میں کسی بهی سوال پوحپهنے والے اور جواب دینے والے کو نهیں هے.
(النهایه للبدایه لابن کثیر مترجم مفتی ثنا الله محمود ص ۱۶۵.)
اور ابن رجب کهتے هیں:
"قیامت کے وقت کے بارے میں تمام مخلوقات کا علم برابر هے اور یه اشاره هے که قیامت کے علم الله نے صرف اپنے پاس هی رکها هے."
(جامع العلوم والحکم ج ۱ ص ۱۳۵.)
.
یه تهی الائمه دین کی تصراحات اس صحیح حدیث کے متعلق, اب جس کا وعده هم نے اوپر کیا تها اب وه ابن القیم سے سنئے, هم اختصار کی وجه سے عربی عبارت حذف کر دے گۓ.
حافظ ابن القیم کهتے هیں:
"همارے زمانه کے بعض مدعیان علم نے جو درحقیقت علم سے متصف نهیں بلکه نرے جعل ساز هیں یه کھلا هوا جهوٹ کها هے که رسول الله صلی علیه وسلم کو وقت قیامت ساعت معلوم تها, جب اسکو کها گیا که حدیث جبرئیل میں تو مذکور هے که مسئول عنه سائل سے زیاده علم نهیں رکھتا تو اس محرف نے اس حدیث کے معنی میں یوں تحریف کی که اس کا معنی یه هے که میں اور تم دونوں قیامت کا علم رکھتے هیں اور یه عظیم ترین جهل اور قبیح ترین تحریف هے اور نبی الله تعالی کی شان کو سب سے زیاده جانتے هیں, وه بھلا ایسے شخص کو جسکو وه دیهاتی اور اعرابی سمجھتے تهے یه کیسے کهه سکتے تهے که میں اور تم قیامت کا علم رکهتے هیں الا یه که یه جاهل دعوی کرے که نبی اس وقب جبرئیل کو جانتے تهے مگر اس کا کیا کریں که رسول الله جو اپنے اس قول میں بالکل سچے هیں که الله کی قسم جبرئیل جب بهی میرے پاس آئے میں کو پهچان لیتا رها مگر میں اب کی بار اس صورت میں اسکو نه پهچان سکا اور ایک روایت میں هے که جبرئیل مجھ پر کبهی مشتبه نه هوئے مگر اس مرتبه اور ایک روایت میں هے که اس اعرابی کو واپس بلا لاو جب صحابه گئے تو وهاں کپھ بهی نه تها. رسول الله صلی الله علیه وسلم کو کپھ عرصه کے بعد اسکا علم هوا تها که یه تو جبرائیل تهے. چنانچه آپ نے سیدنا عمر سے کپھ عرصه بعد فرمایا که اے عمر تم جانتے هو که سائل کون تها اور یه محرف کهتا هے که آپ سوال کے وقت هی جانتے تهے که سوال پوحپهنے والا جبرائیل هے حالانکه آپ نے صحابه کرام کو ایک عرصه کے بعد بتادیا تها که سائل کون تها. پهر ما المسئول ومسئول عنها باعلم من السائل کا عنوان اختیار کرنے میں یه فائده هے که قیامت کے بارے میں هر سائل ومسئول کا یهی حکم هے که اس کا علم بجز الله کے کسی اور کو نهیں.
(المنار المنیف ۸۲, ۸۱.)
اور اس هی بات کو ملا علی قاری حنفی نے اپنی کتاب میں بغیر کسی چوں چراں کے نقل کیا بلکه اپنی کتاب میں ابن القیم کی عبارت کو من وعن نقل هی نهیں کیا بلکه اس پر مهر تصدیق ثبت کی هے.
(الاسرار المرفوعه فی الاخبار الموضوعه ۴۳۱ فصل ۱۵ منهیه ۱۳.)
.
هم نے الله کی توفیق ومدد سے تمام حقائق واضح کر دیے الله سے دعا هے که الله هم سب کو حق دیکھنے سننے جاننے کی توفیق دے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق دے.
.
گنهگار کیلئے خصوصی دعا کی اپیل.
.
آپ نے دیکھا که قسطلانی اور عسقلانی کیا کهتے هیں اور جناب صاحب مقیاس حنفیت اور جاالحق والے کیا کهتے هیں.!
.
دوسرا معنی اسکا یه علماء نے کیا که قیامت کے بارے میں علم که کب آئی گی, سائل مسئول دونوں اس کے جاننے میں برابر هیں که قیامت کا علم صرف رب عزت کے علاوه اور کسی کو نهیں.
اس هی لئے جناب علامه طیبی لکهتے هیں:
"انا متساویان فی انا نعلم ان للساعه مجیئا فی وقت ما من الاوقات وذلک هو العلم المشترک بیننا ولا مزید للمسئول علی هذا العلم یتعین عند المسئول عنه وهو الوقت المتعین الذی یتحقق فیه مجیئ الساعه."
(الکاشف عن حقائق السنن ج ۲ ص ۴۳۳.)
.
اور ابن حجر کهتے هیں
"وهذاو ان کان مشعرا بالتساوی فی العلم لکن المراد التساوی فی العلم بان الله تعالی استاثر بعلمھا لقوله بعد خمس لا یعلمھا الا الله."
(فتح الباری ج ۱ ص ۱۲۱.)
یعنی که قیامت کے معاملے میں سوال کرنے والے اور جواب دینے والے کا علم برابر هے, اس لئے که حدیث میں لفظ "السائل" اور "السؤول" آیا هے تو ان دونوں لفظوں میں جو الف لام شروع میں هے اس میں دو احتمال هیں. اول تو یه که اس الف لام سے مراد حضرت جبرائیل علیه السلام اور آپ صلی الله علیه وسلم مراد هوں, تو اس صورت میں سوال پوحپهنے والے (یعنی حضرت جبرائیل) اور جواب دینے والے دونوں علم میں برابر هوں گے یعنی معنی یه هوں گے که دونوں هی اس کے بارے میں کپھ نهیں جانتے.
دوم: یه که اس الف لام سے مراد الف لام جنسی هو, تو اس صورت میں لفظ کے لحاظ سے معنی عام هو جائیں گے. یعنی وقوع قیامت کا علم پوری دنیا میں کسی بهی سوال پوحپهنے والے اور جواب دینے والے کو نهیں هے.
(النهایه للبدایه لابن کثیر مترجم مفتی ثنا الله محمود ص ۱۶۵.)
اور ابن رجب کهتے هیں:
"قیامت کے وقت کے بارے میں تمام مخلوقات کا علم برابر هے اور یه اشاره هے که قیامت کے علم الله نے صرف اپنے پاس هی رکها هے."
(جامع العلوم والحکم ج ۱ ص ۱۳۵.)
.
یه تهی الائمه دین کی تصراحات اس صحیح حدیث کے متعلق, اب جس کا وعده هم نے اوپر کیا تها اب وه ابن القیم سے سنئے, هم اختصار کی وجه سے عربی عبارت حذف کر دے گۓ.
حافظ ابن القیم کهتے هیں:
"همارے زمانه کے بعض مدعیان علم نے جو درحقیقت علم سے متصف نهیں بلکه نرے جعل ساز هیں یه کھلا هوا جهوٹ کها هے که رسول الله صلی علیه وسلم کو وقت قیامت ساعت معلوم تها, جب اسکو کها گیا که حدیث جبرئیل میں تو مذکور هے که مسئول عنه سائل سے زیاده علم نهیں رکھتا تو اس محرف نے اس حدیث کے معنی میں یوں تحریف کی که اس کا معنی یه هے که میں اور تم دونوں قیامت کا علم رکھتے هیں اور یه عظیم ترین جهل اور قبیح ترین تحریف هے اور نبی الله تعالی کی شان کو سب سے زیاده جانتے هیں, وه بھلا ایسے شخص کو جسکو وه دیهاتی اور اعرابی سمجھتے تهے یه کیسے کهه سکتے تهے که میں اور تم قیامت کا علم رکهتے هیں الا یه که یه جاهل دعوی کرے که نبی اس وقب جبرئیل کو جانتے تهے مگر اس کا کیا کریں که رسول الله جو اپنے اس قول میں بالکل سچے هیں که الله کی قسم جبرئیل جب بهی میرے پاس آئے میں کو پهچان لیتا رها مگر میں اب کی بار اس صورت میں اسکو نه پهچان سکا اور ایک روایت میں هے که جبرئیل مجھ پر کبهی مشتبه نه هوئے مگر اس مرتبه اور ایک روایت میں هے که اس اعرابی کو واپس بلا لاو جب صحابه گئے تو وهاں کپھ بهی نه تها. رسول الله صلی الله علیه وسلم کو کپھ عرصه کے بعد اسکا علم هوا تها که یه تو جبرائیل تهے. چنانچه آپ نے سیدنا عمر سے کپھ عرصه بعد فرمایا که اے عمر تم جانتے هو که سائل کون تها اور یه محرف کهتا هے که آپ سوال کے وقت هی جانتے تهے که سوال پوحپهنے والا جبرائیل هے حالانکه آپ نے صحابه کرام کو ایک عرصه کے بعد بتادیا تها که سائل کون تها. پهر ما المسئول ومسئول عنها باعلم من السائل کا عنوان اختیار کرنے میں یه فائده هے که قیامت کے بارے میں هر سائل ومسئول کا یهی حکم هے که اس کا علم بجز الله کے کسی اور کو نهیں.
(المنار المنیف ۸۲, ۸۱.)
اور اس هی بات کو ملا علی قاری حنفی نے اپنی کتاب میں بغیر کسی چوں چراں کے نقل کیا بلکه اپنی کتاب میں ابن القیم کی عبارت کو من وعن نقل هی نهیں کیا بلکه اس پر مهر تصدیق ثبت کی هے.
(الاسرار المرفوعه فی الاخبار الموضوعه ۴۳۱ فصل ۱۵ منهیه ۱۳.)
.
هم نے الله کی توفیق ومدد سے تمام حقائق واضح کر دیے الله سے دعا هے که الله هم سب کو حق دیکھنے سننے جاننے کی توفیق دے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق دے.
.
گنهگار کیلئے خصوصی دعا کی اپیل.
حدثنا محمد بن سلام ، أخبرنا الفزاري ، عن حميد ، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال بلغ عبد الله بن سلام مقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ، فأتاه ، فقال إني سائلك عن ثلاث لا يعلمهن إلا نبي ، { قال ما} أول أشراط الساعة وما أول طعام يأكله أهل الجنة ومن أى شىء ينزع الولد إلى أبيه ومن أى شىء ينزع إلى أخواله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " خبرني بهن آنفا جبريل ". قال فقال عبد الله ذاك عدو اليهود من الملائكة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " أما أول أشراط الساعة فنار تحشر الناس من المشرق إلى المغرب. وأما أول طعام يأكله أهل الجنة فزيادة كبد حوت. وأما الشبه في الولد فإن الرجل إذا غشي المرأة فسبقها ماؤه كان الشبه له ، وإذا سبق ماؤها كان الشبه لها ". قال أشهد أنك رسول الله. ثم قال يا رسول الله إن اليهود قوم بهت ، إن علموا بإسلامي قبل أن تسألهم بهتوني عندك ، فجاءت اليهود ودخل عبد الله البيت ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " أى رجل فيكم عبد الله بن سلام ". قالوا أعلمنا وابن أعلمنا وأخبرنا وابن أخيرنا. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " أفرأيتم إن أسلم عبد الله ". قالوا أعاذه الله من ذلك. فخرج عبد الله إليهم فقال أشهد أن لا إله إلا الله ، وأشهد أن محمدا رسول الله. فقالوا شرنا وابن شرنا. ووقعوا فيه.
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا ۔ جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے ؟ وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا ؟ اور کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے آ کر اس کی خبر دی ہے ۔ اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ملائکہ میں تو یہی تو یہودیوں کے دشمن ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی ، سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا ، وہ مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹکا رہتا ہے وہ ہو گا اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے اس وقت اگر مرد کی منی پہل کر جاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے ۔ اگر عورت کی منی پہل کر جاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے ( یہ سن کر ) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ “ پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے ۔ اگر آپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کر دیں گے ۔ چنانچہ کچھ یہودی آئے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں ؟ سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں ۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اگر عبداللہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہو گا ؟ انہوں نے کہا ، اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے ۔ اتنے میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے ، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے ۔
3329
کتاب انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
بخاری
شرح عقائد میں ہے
وبالجمله العلم بالغیب امر تفرد به اﷲ تعالی لا سبیل للعباد الیه الا باعلام منه
ترجمہ : خلاصہ کلام یہ کہ علم غیب اﷲ تعالیٰ کی خاص صفت ہے۔ بندوں کے لئے اس طرف کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے بتائے اور وہ وحی کے ذریعے بتاتا ہے جیسے نبی کا معجزہ یا الہام کے ذریعے جیسے ولی کی کرامت یا نشانات و علامات سے جیسے استدلالی علم ۔ (شرح عقائد مع النبراس : 572
3329
کتاب انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
بخاری
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں غیب مصدر ہے سورج آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو کہتے ہیں
غابت الشمس سورج غائب ہو گیا : کل غائب عن الحاسه وعما یغیب عن علم الانسان بمعنی الغائب یقال للشئ غیب وغائب باعتباره بالناس لا باﷲ تعالی فانه لا یغیب عنه الشئ قوله عالم الغیب والشهادة أی ما یغیب عنکم وما تشهدونه والغیب في قوله ’’یومنون بالغیب‘‘ ما لا یقع تحت الحواس ولا تقتضیه بدایة العقول وانما یعلم بخبر الانبیاء علیهم السلام وبدفعه یقع علی الانسان اسم الالحاد ۔
ترجمہ : جو چیز حاسہ سے غائب ہو اور جو کچھ انسانی علم سے چھپا ہو بمعنی غائب ہے۔ کسی چیز کو غیب یا غائب لوگوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے نہ کہ اﷲ کے اعتبار سے کہ اس سے تو کوئی چیز غائب نہیں اور فرمان باری تعالیٰ (عالم الغیب والشہادۃ) کا مطلب ہے جو تم سے غائب ہے اﷲ اسے بھی جاننے والا ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو اسے بھی اور (یومنون بالغیب) میں غیب کا معنی ہے جو کچھ حواس سے بھی معلوم نہ ہو اور عقلوں میں بھی فوراً نہ آئے اسے صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے بتانے سے جانا جا سکتا ہے جو اس کا انکار کرے اسے ملحد کہتے ہیں ۔
(مفردات راغب : 367)
شرح عقائد میں ہے
وبالجمله العلم بالغیب امر تفرد به اﷲ تعالی لا سبیل للعباد الیه الا باعلام منه
شرح عقائد میں ہے : وبالجمله العلم بالغیب امر تفرد به اﷲ تعالی لا سبیل للعباد الیه الا باعلام منه ۔
قاضی ناصر الدین بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 791ھ) فرماتے ہیں
: المراد به الخفی الذی لا یدرکه الحس ولا یقتضیه بداهه العقل وهو قسمان لا دلیل علیه وهو المعنی بقوله تعالی ’’وعنده مفاتح الغیب‘‘ لا یعلمها الا هو. وقسم نصب علیه دلیل کالصانع وصفاته والیوم الاخر واحواله وهو المراد به فی هذه الایه (یومنون بالغیب) ۔
ترجمہ : غیب سے مراد ہے وہ پوشیدہ چیز جسے حس معلوم نہ کر سکے اور نہ ہدایت عقل چاہے اس کی دو قسمیں ہیں پہلی جس پر کوئی دلیل قائم نہیں اور وہی مراد ہے اﷲ کے اس فرمان میں عندہ مفاتح الغیب الخ غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں صرف وہ جانتا ہے، دوسری جس پر دلیل قائم ہو جیسے صانع (خالق) اور اس کی صفات، یوم قیامت اور اس کے احوال اور یہی مراد اس آیہ کریمہ یومنون بالغیب میں ہے ۔ (تفسیر بیضاوی، 1 : 7،)
امام ابو عبد اﷲ محمد بن احمد انصاری القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 671ھ) فرماتے ہیں
:(یومنون) یصدقون، والایمان فی اللغه التصدیق… الغیب کل ما اخبر به الرسول مما لا تهتدی الیه العقول من اشراط الساعة وعذاب القبر والحشر والنشر والصراط والمیزان والجنة والنارِ .
ترجمہ : (ایمان لاتے ہیں یعنی) تصدیق کرتے ہیں۔ لغت میں ایمان کا مطلب ہے تصدیق… غیب ہر شے جس کی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی، جس کی طرف عقل رہنمائی نہ کر سکے مثلاً قیامت کی شرطیں، عذاب قبر، حشر و نشر، پل صراط، میزان، جنت و جہنم ۔ (لاحکام القرآن للقرطبی، 1 : 114۔ ،115،)
لا یعلمون الغیب الا عند اطلاع اﷲ بعض انبیاء هم علی بعض الغیب کما قال عالم الغیب فلا یظهر علی غیبه احد الا من ارتضی من رسول ۔ (تفسیرکبیر، 7 : 11)
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا مجھے امید ہے کہ اگر میری عمر طویل ہوئی تو میں عیسیٰ بن مریم کو پالوں گا ‘ اور اگر مجھے جلدی موت آگئی تو جوان کو پائے وہ ان کو میرا سلام کہہ دے ۔ (مسنداحمد ج ٢ ص ٣٩٩ ‘ ٣٩٨ ‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت
قال الامام احمد : ثنا محمد بن جعفر ثنا شعبة عن محمد بن زیاد عن ابی ھریرة عن النبی ﷺ انہ قال : ”انی لارجو ان طال بی عمر ان القی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ،فان عجل بی موت فمن لقیہ منکم فلیقرئہ منی السلام.“
ابوہریرۃ رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں :کہ نبیﷺنے فرمایا:”میں امید کرتا ہوں اگر میری عمر طویل ہوئی تو میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے ملاقات کرلوں گا،اگر مجھے جلدی موت آگئی تو تم میں سے جو بھی ان سے ملاقات کرے تو اسے چاہئیے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو میری طرف سے سلام پہنچا دے
مسند احمد بن حنبل:۵۷۷/۷۹۱۰/۲، اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
قال الامام احمد : ثنا یزید بن ھارون ان شعبة عن محمد بن زیاد عن ابی ھریرة قال : ”انی ارجو ان طالت بی حیاة ان ادرک عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام،فان عجل بی موتی،فمن ادرکہ فلیقرئہ منی السلام.“
ابوہریرۃ رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں:”میں امید کرتا ہوں اگر میری زندگی لمبی ہوئی تو میں عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو پالوں گا۔اگر مجھے جلد موت آجائے تو تم میں سے جو کوئی انہیں پائے تو میری جانب سے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو سلام پہنچادے۔“
مسند احمد بن حنبل:۵۷۷/۷۹۱۰/۲، اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
قال الامام احمد : ثنا محمد بن سابق ثنا اابراھیم بن طہمان عن ابی الزبیر عن جابر بن عبداﷲ انہ قال:”انّ امرأة من الیھود بالمدینة ولدت غلامًا.فقال رسول اﷲﷺ : آمنت باﷲ ورسولہ فلبس علیہ،فقال رسول اﷲﷺ : یا ابن صائدانا قد خبانا لک خبیئًا فما ھو؟ قال : الدخ الدخ،فقال لہ رسول اﷲﷺ : اخسأاخسأ،فقال عمر بن خطاب : ائذن لی فاقتلہ یارسول اﷲ،فقال رسول اﷲﷺ : ان یکن ھو فلست صاحبہ،انما صاحبہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام،وان لا یکن ھو فلیس لک ان تقتل رجلا من اھل العھد،قال : فلم یزل رسول اﷲﷺ مشفقًا انہ الدجال.“
جابر بن عبداﷲ رضی اﷲعنہما سے روایت ہے کہ : ایک یہودی عورت کے ہاں مدینہ میں لڑکا پیدا ہوا.رسول اﷲﷺنے فرمایا:میں اﷲپر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لایا اس پر معاملہ مشتبہ ہوگیا ،رسول اﷲﷺنے ابن صائد سے فرمایا:اے ابن صائد میں تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات دل میں چھپاتا ہوں ابن صیاد بولادخ دخ رسول اﷲﷺنے فرمایا:تو ذلیل ہوا خوار ہوا،عمر بن خطاب رضی اﷲعنہ نے فرمایا:یارسول اﷲ مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن مار دوں،رسول اﷲﷺنے فرمایا:اگر یہ وہی دجال ہے تو تو اس کا صاحب نہیں اس کے صاحب عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام ہیں اگر وہ نہیں تو جائز نہیں ہے کہ تو ایک ذمی آدمی کو قتل کرے ،نبیﷺڈرتے رہے کہ کہیں یہ دجال نہ ہو۔
مسنداحمد بن حنبل:۳۴۵/۱۴۵۳۸/۴، اس حدیث کی سند حسن ہے
قال الحاکم : اخبرنا ابوالعباس محمد بن احمد المحبوبی ثنا سعید بن مسعود ثنا یزید بن ھارون انبا العوام بن حوشب حدثنی جبلة بن سحیم عن مؤثر بن غفارة عن عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ قال : ”لما کان لیلة اسری برسول اﷲﷺ لقی ابراھیم وموسٰی وعیسٰی علیھم السلام فتذکروالساعة متٰی ھی فبدؤوا بابراھیم فسالوہ فلم یکن عندہ منھا علم فسالوا موسٰی فلم یکن عندہ منھا علم فردوالحدیث الٰی عیسٰی فقال : عھداﷲ الی فیھا وجبتھا فلا یعلمھا الا اﷲ عزوجل فذکر خروج الدجال وقال : فاھبط فاقتلہ ثم یرجع الناس الی بلادھم فیستقبلھم یا جوج وماجوج وھم من کل حدب ینسلون لا یمرون الارض من ریحھم فیجئرون الی اﷲ فیرسل السماءبالماء فیحملھم فیقذف باجسامھم فی البحر ثم تنسف الجبال وتمدالارض مدالادیم فعھداﷲ الی انہ اذا کان ذلک ان الساعۃ من الناس کالحامل المتم لایدری اھلھا متی تفجاھم ولادتھا لیلا او نھارا .قال العوام : فوجدت تصدیق ذلک فی کتاب اﷲ عزوجل ثم قرأ :”حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج وھم من کل حدب ینسلون واقترب الوعد الحق“ (الانبیاء:۹۶)
عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جس رات رسول اﷲﷺکو معراج ہوئی تو وہاں پر ابراہیم وموسٰی اور عیسٰی علیہم السلام اجمعین کی ملاقات ہوئی تو ان انبیاء کا اس بات پر مذاکرہ ہواکہ قیامت کب قائم ہوگی تو اس بات کی ابتداء ابراہیم علیہ السلام سے کی گئی اور ان سے پوچھا گیا کہ قیامت کا وقوع کب ہوگا تو ابراہیم علیہ السلام کو اس کے وقوع کا علم نہ تھا تو ان انبیاء نے موسٰی علیہ السلام سے اس بات کا پوچھا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا تو انبیاء نے عیسیٰ علیہ السلام سے اس بات کو پوچھا تو عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا: اﷲکا یہ وعدہ ہے کہ قیامت ضرور قائم ہوگی لیکن اس کے واقع ہونے کا علم اﷲتعالیٰ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے پھر عیسٰی علیہ السلام نے دجال کے خروج کا ذکر کیا اور کہا میں نیچے اتروں گا اور دجال کو قتل کروں گا پھر لوگ اپنے اپنے ملکوں میں لوٹ جائیں گے پھر یاجوج ماجوج کا خروج ہوگا اور وہ ہر بلندی سے نیچے کی طرف آئیں گے اور زمین پران کی بو کی وجہ سے چلنا مشکل ہوجائے گاتو لوگ اﷲسے گڑ گڑا کر دعا کریں گے تو اﷲتعالیٰ آسمان سے پانی بھیجے گا اور یاجوج اور ماجوج کو ان کے جسموں سمیت سمندر میں ڈال دے گاپھر اس کے بعد پہاڑ اکھاڑ دیے جائیں گے اور زمین کی سطح پھیلادی جائے گی تو اﷲکا مجھ سے عہد ہے کہ جب یہ وقت آپہنچے تو لوگوں میں قیامت اس طرح واقع ہوگی جیسے حاملہ جس کا بچہ جننے کا وقت قریب ہو لیکن اس کے گھر والے نہیں جانتے کہ بچہ کی ولادت رات میں ہوگی یا دن میں ۔عوام رحمہ اللہ کہتے ہیں:میں نے اس حدیث کی تصدیق کتاب اﷲ میں پائی پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی:یہاں تک کہ یاجوج اورماجوج کھول دئیے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑرہے ہوں گے اور قیامت کا سچا وعدہ قریب آجائے گا۔(الانبیاء:۹۶)۔
مستدرک حاکم :۵۳۵-۵۳۴/۲۱۰/۵۸۰۲، امام حاکم کہتے ہیں:یہ حدیث صحیح الاسناد ہے امام ذہبی فرماتے ہیں:یہ حدیث صحیح ہے۔
wahi ka baayn
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ سَأَلْتُمُوهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأ... Show more
Narrated 'Abdullah: I took a walk with the Prophet (ﷺ) on a farm in Al-Madinah, and when he reclined upon a palm-leaf stalk, a group of Jews were passing by. Some of them said, 'We should question him.' Others said: 'Do not question him for he mig... Show more
میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہا تھا۔ آپ ( کبھی کبھی ) کھجور کی ایک ٹہنی کا سہارا لے لیا کرتے تھے، پھر آپ کچھ یہودیوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے ( چہ میگوئی کی ) کہا: کاش ان سے کچھ پوچھتے، بعض نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، کیونکہ وہ تمہیں ایسا جواب دیں گے جو تمہیں پسند نہ آئے گا ( مگر وہ نہ مانے ) کہا: ابوالقاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے، ( یہ سوال سن کر ) آپ کچھ دیر ( خاموش ) کھڑے رہے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی آنے والی ہے، چنانچہ وحی آ ہی گئی، پھر آپ نے فرمایا: «الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا» ”روح میرے رب کے حکم سے ہے، تمہیں بہت تھوڑا علم حاصل ہے“۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے
کتاب؛ جامع الترمذي
جلد؛ جلد سوم
مضامیں: کتاب: تفسیر قرآن کریم
باب؛ باب: سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر
تخریج؛ تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۴۷ (۱۲۵)، وتفسیر الإسراء ۱۲ (۴۷۲۱)، والإعتصام ۴ (۷۲۹۷)، والتوحید ۲۸ (۷۴۵۶)، و ۲۹ (۷۴۶۲)، صحیح مسلم/المنافقین ۴ (۲۷۹۴) (تحفة الأشراف : ۹۴۱۹)
حدیث؛ صحیح
راوی؛ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ
حیثیت۔راوی؛ صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3141
کتاب؛ جامع الترمذي
جلد؛ جلد سوم
مضامیں: کتاب: تفسیر قرآن کریم
باب؛ باب: سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر
تخریج؛ تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۴۷ (۱۲۵)، وتفسیر الإسراء ۱۲ (۴۷۲۱)، والإعتصام ۴ (۷۲۹۷)، والتوحید ۲۸ (۷۴۵۶)، و ۲۹ (۷۴۶۲)، صحیح مسلم/المنافقین ۴ (۲۷۹۴) (تحفة الأشراف : ۹۴۱۹)
حدیث؛ صحیح
راوی؛ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ
حیثیت۔راوی؛ صحيح صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3141
No comments:
Post a Comment