Monday, 17 May 2021

صفت عالم الغیب جو اللہ کی صفت ھے کو ثابت کرنے کے لئے ایسی احادیث پیش کرتے ہیں جن احادیث سے بظاہر معلوم ہوتا ھے کہ اس چیز کا علم حضور ص کو خود بخود سے ھے

 بریلوی حضرات حضور ص کے لئے صفت عالم الغیب جو اللہ کی صفت ھے کو ثابت کرنے کے لئے ایسی احادیث پیش کرتے ہیں جن احادیث سے بظاہر معلوم ہوتا ھے کہ اس چیز کا علم حضور ص کو خود بخود سے ھے۔۔

حالانکہ اللہ تعالی نے دو ٹوک قرآن میں فرمایا کہ:حضور ص خود سے بات نہیں کرتا ہیں اور نہ  ہی اپنی خواہش سے بات کرتے ہیں بلکہ جو کچھ فرماتے ہیں یہ تو سراسر اللہ کی طرف سے وحی ھے۔جو ان کی طرف اتاری جاتی ھے


 وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ  الْہَوٰی ۔(3)

ترجمہ۔نہ اپنی نفسانی خواہش سے کوئی بات کرتے ہیں ،

اِنْ  ہُوَ   اِلَّا  وَحْیٌ   یُّوْحٰی(4) 

یہ  تو وحی ہے جو اُن پر اُتاری جاتی ہے ۔

سورہ نجم آیت 3/4

دیکھیے اس آیت کے مختلف تراجم و تفاسیر۔۔۔تفسیر مدارک۔۔۔تفسیر نسفی۔آسان تفسیر۔۔۔۔۔تفسیر مظہری۔۔۔کنزالایمان مع خزائن العرفان۔۔۔احمد رضا خان مع مولانا نعیم الدین۔۔وغیرہ

___________________

اصولی بات ۔۔اب اگر کوئی رضا خانی یہ کہے کہ وحی کے ذریعے علم کو بھی حضور ص کے لئے علم غیب ہی کہا جائےگا تو یہ غلط ھے کیونکہ علم غیب کا شرعی مطلب ہی یہ ھے کہ وہ علم جس کے متعلق اللہ نے کسی کو اطلاع نہ دی ہو۔۔اور نہ ہی انسانی حواس اس کا تدراک کر سکے۔۔وہی علم غیب کہلاتا ھے۔۔

اس کے علاؤہ قرآن نے جس علم کو حضور ص کی طرف نسبت کی ھے۔اسے قرآن نے اطلاع غیب۔اظہار غیب ۔انباء غیب کہا ھے۔نہ کہ علم غیب۔۔قران میں اللہ نے اپنی طرف جہاں بھی علم کی نسبت کی وہا علم غیب کا اطلاق کیا ھے۔


(دیکھیے علم غیب کی تعریف۔۔۔بحوالہ مطالعہ بریلویت جلد 5 ص289..👇👇


1..تفسیر مدارک۔سورہ نمل۔۔ایت 65

2..تفسیر ابن کثیر جلد 1 ص 41

3..تنویر القیاس جلد 2.ص 192

4..تفسیر ابن جریر۔جکد 29 ص 69

5.فقہ لغتہ۔ص 1

6.۔المفردات

7..تفسیر کبیر جلد 1

8..المغرب جلد 2 ص 83

9..تفسیر بیضاوی۔

10..شرح عقائد ص 122

تلک عشرہ کاملہ۔۔اس کے علاؤہ بھی بہت سارے حوالہ جات ہیں۔۔یہاں اتنے کافی ہیں۔


بریلوی کتب کے حوالہ جات👇


اطلاع علی الغیب کو علم غیب نہیں کہا جاتا ھے۔


1..جاءالحق صفحہ 97 مفتی یار خان نعیمی.

2.غایت المامول فی علم الرسول صفحہ۔347۔۔فیض احمد اویسی۔۔

3..اعلان کلمتہ اللہ۔۔صفحہ۔230.پیر مہر علی شاہ۔














No comments:

Post a Comment