Friday, 18 June 2021

ائمہ کا اختلاف

ائمہ کا اختلاف 

اس جگہ پہنچ کر ایک سوال پوچھا جا سکتا ہے


"اگر سارے اماموں نے قرآن اور حدیث سے مسائل کو نکالا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے  کہ انکی رائے کچھ مسائل میں آپس میں مختلف ہے؟"

اس کو سمجھنے کے لیئے ہمیں تاریخ میں رسو ل اللہ ﷺ صحابہ کے زمانے میں جانا ہوگا ۔

ایک بار رسول اللہ ﷺ  ایک غزوہ سے   واپس ہوتے ہی فوراً صحابہ کو حکم دیا کہ بنو قریضہ کی طرف کوچ کرنا ہے ۔

بنو قریضہ  مدینے کے باہر یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا ۔اس کوچ کا مقصد ان کا محاصرہ کرنا تھا کیوں کہ انہوں نے مسلمانوں سے کیئے ہوئے اپنے معاہدے کو توڑ دیا تھا ۔صحابہ کو اس ہنگامی صورتِ حال کو باور کرانے کے لیئے  حضور ﷺ نے فرمایا   " تم میں سے کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے   بغیر بنو قریضہ پہنچے ہوئے ۔"

ابھی صحابہ راستے میں ہی تھے کہ عصر کا وقت آگیا کچھ صحابہ کی یہ رائے ہوئی کہ انہیں عصر کی نماز پڑھ لینی چاہیئے    کیوں کہ ان کا ماننا تھا کی حضور پاک ﷺ کا حکم  یہ باور کرانے کے لیئے تھا کہ بنو قریضہ بہت تیزی کے ساتھ پہنچنا ہےاسکا یہ مقصدنہیں تھا کہ عصر کی نماز راستے میں نہیں پڑھی جا سکتی ہے  اس لیئے  کچھ صحابہ نے عصر کی نماز پڑھ لی ۔

کچھ دوسرے صحابہ نے حضور پاک ﷺ کے حکم کو اس کے لفظی معنوں میں لیا  اور عصر کی نماز بعد میں بنو قریضہ پہنچ کر پڑھی ۔بعد میں جب رسول اللہ ﷺ کو  یہ بات معلوم ہوئی  تو انہوں نے دونوں میں سے  کسی کو غلط نہیں کہا ۔(صحیح بخاری)

رسول اللہ ﷺ کو  یہ بات معلوم ہوئی  تو انہوں نے دونوں میں سے  کسی کو غلط نہیں کہا ۔(صحیح بخاری)

اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے  کہ رسول اللہ ﷺکے  کسی حکم کی تشریح میں اختلا ف ہو سکتا ہے ۔لیکن یہ اجتہادی اور تشریحی اختلاف تبھی قابل قبول ہوگا جب وہ کسی ایسے عالم کا ہو جسے قرآن و حدیث اور اس  سے مسائل کے اسنباط کے سلسلے کا وسیع علم ہو  ۔


کئی مرتبہ یہ اختلاف ا س وجہ سے ہوتا ہے کہ کسی ایک عمل کی تفصیل میں ایک سے زیادہ حدیث موجو د ہوتی ہے ۔

 اب ایک امام اصولوں کی بنیا د پر کسی ایک حدیث کو ترجیح دیتے ہیں ،جب کہ دوسرے امام کسی دوسری حدیث کو ۔

یہی در اصل فقہا کے درمیان فروعی مسائل کی تشریح میں اختلاف کی وجہ ہوتی ہے ۔لیکن جیسا کہ اوپر کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے کسی کو غلط نہیں فرمایا ۔ اس لیئے وہ امام جو مجتہد کے درجے پر ہیں ان کے بیچ کے اختلاف میں کسی رائے کو غلط نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ۔

ایک دوسری حدیث صورتِ حال کو اور واضح کرتی ہے  ۔صحیح بخاری میں ہےکہ ایک حاکم اپنی پوری صلاحیت لگا کر کسی نتیجے پر پہنچتا ہے اوروہ نتیجہ صحیح ہوتا ہے تو دو ہرا اجر ملتا ہے ۔اور اگر اپنی پوری صلاحیت لگاکر غلط نتیجہ پر پہنچتا ہے تو بھی اسے ایک اجر ملتا ہے ۔(بخاری  جلد 2پیج نمبر1092        

ابن المنظرؒ  اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ایک حاکم تبھی اجر کا مستحق ہوگا جب اس کا علم گہرا ہو اور وہ اپنی پوری صلاحیت لگا کر نتیجہ پر پہنچا ہو ۔چاروں امام علم،تقویٰ  اور دوسرے تمام بنیادوں پر  بلا شبہ اجتہاد کی صلاحیت رکھتے تھے ۔

اس لیئے وہ اس حدیث کے دائرے میں آئیں گے

No comments:

Post a Comment