Wednesday, 8 March 2023

اللہ کہاں ہے ؟

 اللہ کہاں ہے ؟ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سلفی : اللہ کہاں ہے ؟


 سلفی : اللہ فی السماء ( دیکھو ہم حدیث کے مطابق جواب دیتے ہیں حدیث جاریہ اشاعرہ ماتریدیہ حدیث کے بجائے اللہ موجود بلا مکان کے لفظ سے جواب دیتے ہیں ) 


تو  : اللہ آسمان یعنی مخلوق میں ہے ؟


سلفی : نہیں ۔ ( تاویل کی طرف بھاگتے ہوئے ) فی بمعنی علی ہے یعنی آسمان پر ہے اور فی اپنے ظاہری معنی میں نہیں ہے ظرفیت کے معنی پر 


تو آسمان کدھر ہے ؟ آسمان تو عرش کے نیچے ہے 


یعنی اللہ عرش کے نیچے ہے ؟


سلفی :نہیں ( دوسری تاویل کی طرف بھاگتے ہوئے ) بلکہ آسمان سے مراد عرش ہے 


تو اللہ عرش کے اوپر کسی مکان میں ہے ؟ 

یہ مکان خود اللہ ہے یا غیر اللہ خود اللہ تو نہیں ہوسکتا اور اگر غیر اللہ ہو تو اللہ خالق کل شئ 

اللہ نے ہی اس کو پیدا کیا ہے 


آپ نے پھر اللہ کو مخلوق میں مان لیا 


سلفی : نہیں ( تیسری تاویل کرتے ہوئے ) بلکہ وہ مکان عدمی ہے یعنی سرے سے کوئی موجود شے ہی نہیں  


یعنی مکان ہے ہی نہیں ؟


سلفی : ہاں وہ کوئی چیز ہے ہی نہیں 


یعنی : اللہ جس چیز میں یا جس چیز پر ہے وہ کچھ ہے ہی نہیں لیس بشئ ہے 


سلفی : جی 


تو پھر آپ کا عقیدہ یہ بن گیا

کہ اللہ لیس فی شئ۔ ۔۔۔


آپ اولا  فی السماء سے علی السماء کو بھاگے 


السماء سے عرش کی طرف بھاگے 


اور عرش سے بھی مکان عدمی کی طرف بھاگے ۔۔ 


جبکہ آپ  حدیث کے مطابق جواب دینا چاہتے تھے لیکن وہاں فی السماء ہے جبکہ آپ کا عقیدہ یہ بن گیا کہ 


اللہ لیس فی شئ۔    اور السماء تو کوئی موجود شئ ہے نا 


اور جب فی السماء کا مطلب آپ کے ہاں آخر کار 

فی مکان عدمی بنتا ہے اور یہ  مکان ہے ہی نہیں 

تو خود بخود لیس فی مکان کے مفہوم میں ہوا


تو پھر اشاعرہ جب اللہ موجود بلا مکان کہتے ہیں تو اسی کی طرف آپ واپس بھاگ کر آگئے 


نتیجہ :


یا تو آپ کا جواب حدیث کے مطابق نہیں 


اور یا اللہ فی السماء اور اللہ موجود بلا مکان دونوں ہم معنی ہیں 


فی السماء یا علی العرش کہنے سے مقصد یہ نہیں کہ عرش کے اوپر کسی جگہ میں اللہ ٹھہرا ہوا ہے اور عرش کے زیادہ قریب ہے کیونکہ اس کی ذات وہیں سے شروع اور اختتام پذیر ہوتی ہے 


بلکہ مقصود یہ ہے کہ رب العالمین کی ذات مخلوقات اور مکانات میں نہیں 


مکانات کا سلسلہ عرش سے فرش تک ہے 


اور چونکہ اللہ تعالیٰ تمام مکانات کا خالق ہے اور وہ خود کوئی مکانی شے نہیں ہے 


اس لیے مکانات سے تنزیہ کے لیے ہم اللہ کو فوق العرش کہتے ہیں یعنی عرش اور ما تحت العرش تمام مکانات میں استقرار سے منزہ اور پاک  ہے 


جبکہ مجسمہ کا عقیدہ یہ کہ فوق العرش فوقیت مکانی کے اعتبار سے ہے یعنی اللہ کی ذات عرش کے محاذات اور قرب و جوار میں ہے 


عرش کے زیادہ قریب ہے 


عرش کے ساتھ فاصلہ کم باقی اشیاء سے زیادہ ہے 


کیونکہ اس کی ذات کے لیے نہایات و اطراف اور حدود ہیں جو عرش پر آکر ختم ہوجاتے ہیں ۔۔۔


و رب العرش فوق العرش لکن 


بلا وصف التمکن و اتصال

No comments:

Post a Comment