Thursday, 16 August 2018

اشکالات کے جوابات قسط 1

مسئلہ نمبر (158)
                           قسط نمبر {۱}

سوال: کچھ غیر مقلد یہ کہتے ہیں کہ جنازے کی نماز بالجہر پڑنی چاہۓ اور اسمیں سورہ فاتحہ اور ضم سورہ بھی پڑنی چاہۓ اور رفعِ یدین بھی کرنا چاہئے، اسکے بغیر نماز جنازہ نہیں ہوتی، اسکے لئے وہ لوگ صحائے ستہ سے بطور دلیل حدیث بھی پیش کرتے ہیں،
تو برائے مہربانی آپ بتائیں کہ انکی بات صحیح ہے یا غلط؟
نیز صحیح اور مسنون طریقہ کیا ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق:
اس سوال میں تین چیزیں ہیں،
(۱) نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اور ضم سورہ پڑھنا،
(۲) بلند آواز سے پڑھنا،
(۳) رفعِ یدین کرنا،
ھم ترتیب وار تینوں باتوں کا خلاصہ کرتے ہیں،


***پہلی بات کا جواب***
جواب نمبر (۱)
اگر کوئی غیر مقلد اس مسئلہ کو
{یعنی (۱)نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، (۲) زور سے قرأت کرنا، (۳) رفعِ یدین کرنا،}
کسی صحیح اور صریح حدیث سے ثابت کردے، تو میری طرف سے دس ہزار روپئے کا اعلان ہے،
لیکن یاد رہے کہ: غیر مقلدین کے نزدیک حدیث کی جو تعریف ہے، اُسی کو سامنے رکھتے ہوئے حدیث سے ثابت کرے،

​حدیث کی تعریف غیر مقلدین کے نزدیک​

(۱) حدیث سے مراد وہ اقوال ، اعمال اور تقریر (یعنی تصویب) ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں۔
(بحوالہ: تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص، حافظ سیوطی)

(۲) حدیث: تحدیث کا اسم ہے، پھر اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو موسوم کیا گیا۔
(بحوالہ: علوم الحدیث و مصطلح، ایوب بن موسیٰ ابوالبقا)

(۳) "کل ما اضیف الی النبی ﷺ من قول او فعل او تقریر او صفۃ“
"ہر وہ قول یا فعل یا تقریر یا صفت جو نبی ﷺ کی طرف منسوب ہو، اسے حدیث کہتے ہیں۔
یعنی آپ علیہ السلام کی صفت کو بھی حدیث کہتے ہیں، جیسے وہ روایات جن میں آپ علیہ السلام کا رنگ یا چال یا آپکی خوبصورتی کا بیان ہو، تو وہ بھی حدیث ہی کہلائے گی،
(100مشہور ضعیف احادیث از احسان بن محمد العتیبی​،)

اگر حدیث کی اس تعریف کو سامنے رکھ کر غیر مقلدین نماز جنازہ کا وہ طریقہ ثابت کردیں جسکے وہ قائل ہیں، تو میری طرف سے دس ہزار روپئے کا انعام ہے،

لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ قیامت تک اپنے دعوی پر حدیث پیش نہیں کرسکتے،

کیونکہ ایسی کوئی صحیح اور صریح حدیث ہے ہی نہیں جسمیں غیر مقلدین کا مَن گھڑت نمازِ جنازہ کا طریقہ مذکور ہو،

جواب نمبر (۲)
حضرت ابن عباس سے مروی روایت غیر مقلدین کی دلیل نہیں ہوسکتی، اسلئے کہ غیر مقلدین ہمیشہ نعرہ لگاتے پھرتے ہیں "اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول“ یعنی اللہ اور صرف اسکے رسول کی اطاعت کرو،
چنانچہ غیر مقلدین کے نزدیک حجّت اور دلیل صرف کتاب اللہ اور حدیث ہے، اور ابن عباس کی روایت حدیث نہیں بن سکتی، اسلئے کہ اس پر حدیث کی تعریف صادق ہی نہیں آتی، کیونکہ روایت میں نماز جنازہ پڑھانے کا جو طریقہ مذکور ہے وہ ابن عباس کا اپنا فعل ہے،
اور صحابی کے قول یا فعل کو حدیث نہیں کہتے، اور نہ ہی وہ غیر مقلدین کے نزدیک حجّت ہے،

اور اگر اسکے باوجود غیر مقلدین حضرت ابن عباس کی روایت کو اپنا مستدل بناتے ہیں تو ان پر الزام عائد ہوگا کہ وہ اپنے ہی اصول "اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول“ کی خلاف ورزی کر رہے ہیں،

اسلئے غیر مقلدین پر لازم ہے کہ وہ اپنی مقرر کردہ حدیث کی تعریف کی روشنی میں اپنے دعوے پر صحیح اور صریح حدیث پیش کریں؟

جواب نمبر (۳)
اگرچہ حضرت ابن عباس کی روایت غیر مقلدین کی دلیل نہیں بن سکتی، جیساکہ ہم نے اوپر بیان کیا،
لیکن پھر بھی ہم ابن عباس کی روایت کا جواب، اور اسکا صحیح مفہوم بیان کرتے ہیں، تاکہ غیر مقلدین کیلئے بھاگنے کا کوئی راستہ نہ بچے ...

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے سلسلہ میں غیر مقلدین کی سب سے مضبوط دلیل صحیح بخاری میں مذکور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل ہے،
روایت یہ ہے: "عن طلحة بن عبد اللہ بن عوف قال صلیت خلف ابن عباس رضی اللہ عنہما علی جنازة فقرأ بفاتحة الکتاب ...قال لتعلموا انھا سنة“
حضرت طلحہ ابن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز ابن عباس کے پیچھے پڑھی، تو آپ نے سوہ فاتحہ پڑھی، اور فرمایا: کہ میں نے سور فاتحہ اسلئے پڑھی کہ تم کان لو کہ یہ سنت ہے،

اور یہی روایت نسائی میں بھی ہے مگر وہاں اسکے الفاظ بدلے ہوئے ہیں،
اس طرح: "عن طلحة بن عبد الله بن عوف أخي عبد الرحمن بن عوف قال: ‏صليت خلف ابن عباس على جنازة، فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة، فجهر حتى سمعنا، فلما انصرف أخذت بيده ‏فسألته عن ذلك ؟ فقال: سنةٌ وحقٌ“
حضرت طلحہ ابن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز ابن عباس کے پیچھے پڑھی، تو آپ نے سوہ فاتحہ پڑھی، اور ایک سورہ بھی، اور بلند آواز سے پڑھی، یہاں تک کہ ہمکو سنایا، پھر جب آپ نماز پڑھاچکے تو میں نے انکا ہاتھ پکڑا اور اسکے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: کہ سنت اور حق ہے،

ایسے ہی نسائی شریف میں ابو اُمامہ سے اسی سلسلے کی روایت مروی ہے،
"عن ابی امامة قال: السنة فی الصلاة علی الجنازة ان یقرآ فی التکبیرة الاولی بأمّ القرآن مخافة ثم ثم یکبّر ثلاثا والتسلیم عند الآخرة“ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں کہ جنازہ کی نماز میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ آہستہ سے پڑھی جائے، پھر تین تکبیر کہی جائیں اور آخر میں سلام پھیرا جائے،

ترمذی شریف میں اسی سلسلے کی ایک روایت آپ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے،
"عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قرأ علی الجنازة بفاتحة الکتاب“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پر سورہ فاتحہ پڑھی،

مگر یہ روایت ناقابل اعتبار ہے، خود امام ترمذی نے اسکا فیصلہ فرمادیا، فرماتے ہیں: حدیث ابن عباس حدیث لیس اسنادہ بذاک القوی“ یعنی حضرت ابن عباس کی یہ حدیث قوی نہیں ہے،
اور اسکی وجہ امام ترمذی یہ بیان فرماتے ہیں کہ اسکی سند میں ایک راوی ابراھیم بن عثمان ہے جو منکر الحدیث ہے،
حافظ ابن حجر اسکے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ راوی متروک الحدیث ہے،
لوگوں نے اس کی حدیث کو لینا چھوڑ دیا ہے، (تحفة الاحوذی۲/ ص۱۴۲)

ابن ماجہ میں حضرت ام شریک سے ایک حدیث ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے،
"ام شریک الانصاریة قالت: أمرنا رسول اللہ انا نقرأ علی الجنازة بفاتحة الکتاب“
حضرت ام شریک فرماتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم جنازہ پر سورہ فاتحہ پڑھیں،

لیکن یہ روایت بھی قوی نہیں ہے، مولانا مبارکپوری تحفة الاحوذی میں ابن حجر سے نقل کرکے فرماتے ہیں "فی اسنادہ ضعیف یسیر“ یعنی اسکی سند میں کچھ ضعف ہے،

یہ ھیں صحائے ستّہ کی وہ روایتیں جن کی بنیاد پر غیر مقلدین نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کو واجب قرار دیا ہے،
اور جمھور اھلِ اسلام کی مخالفت کی ہے،

اس سے پہلے کہ ہم بخاری اور نسائی وغیرہ کی روایات پر کلام کریں، مناسب اور بہتر ہے کہ ہم یہ بتلادیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اس سلسلے کی سب روایتیں ضعیف ہیں، اور یہ بات ھم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ غیر مقلدوں کے بڑوں میں سے حافظ ابن قیّم کا فیصلہ ہے، جو حافظ بن تیمیہ کے شاگرد ہیں،
حافظ ابن قیّم زادالمعاد میں فرماتے ہیں
"ویذکر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ امر ان یقرأ علی الجنازة بفاتحة الکتاب، ولا یصح اسنادہ“
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا جاتا ہے کہ آپ نے جنازہ پر سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا تھا، (جن روایتوں میں یہ ہے) ان احادیث کی سند صحیح نہیں ہے،

ابن قیم کا یہ بیان سو فیصد صحیح ہے، کوئی شخص صحیح سند سے یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا تھا،
اور اس سلسلے میں جو کچھ بھی احادیث میں مروی ہے، وہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابوامامہ کا اپنا عمل اور قول ہے،
صحابہ کرام میں ان دو کے علاوہ اور کسی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ حضور نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کو سنت بتلایا ہو،

(۲) پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں خلفائے راشدین کے مقام سے کون واقف نہیں ہے؟
مگر کسی ایک بھی خلیفہ راشد سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھی ہو، یا اسکو حضور علیہ السلام کی سنت بتلایا ہو،
بلکہ آگے ہم بیان کرینگے کہ بعض خلفائے راشدین سے بطور صراحت ثابت ہے کہ وہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھا کرتے تھے،

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پورے ذخیرہ احادیث میں صرف حضرت ابن عباس اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنھما  سے ہی صحیح سند سے یہ مروی ہے کہ: سورہ فاتحہ کا پڑھنا سنت ہے،

اسلئے ہم ان دونوں صحابی کی حدیث پر ہی کلام کرینگے، اور انکی احادیث سے اصل میں ثابت کیا ہوتا ہے اسکو واضح کرینگے،

*** تفصیل ***
بخاری میں امام بخاری نے ابن عباس سے جو حدیث نقل کی ہے اُسے آپ ایک بار غور سے پڑھیں،
حدیث کے الفاظ یہ ہیں: "صلیت خلف ابن عباس رضی اللہ عنھما علی جنازة فقرأ بفاتحة الکتاب، قال لتعلموا انھا سنة“
یعنی حضرت طلحہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی تو آپ نے سورہ فاتحہ پڑھی، اور فرمایا کہ تم لوگ جان لو کہ یہ سنت ہے،

اور ھاں جواب سے پہلے ایک بات یہ بھی یاد رکھ لیں کہ
کبھی کبھی امام بخاری حدیث کا ایسا اختصار کرتے ہیں کہ حدیث کا مفہوم اور مطلب کچھ سے کچھ (بدل) ہوجاتا ہے، اور اصل مسئلہ کی حقیقت واضح نہیں ہو پاتی،

اب اصل جواب سمجھئیے ...
امام بخاری نے جو حدیث ذکر کی ہے، وہی حدیث نسائی میں پوری ذکر گئی ہے، جیساکہ یہ حدیث پہلے بھی گذر چکی ہے کہ:
طلحہ بن عبداللہ بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو میں نے کہ وہ سورہ فاتحہ پڑھ رہے تھے، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے انکا ہاتھ پکڑا اور پوچھا کہ آپ جنازہ میں قرأت کرتے ہیں؟
تو انہوں نے کہا کہ ہاں! یہ حق اور سنت ہے،
اب آپ خود ہی غور فرمائیں کہ اس مکمل حدیث سے صاف صاف یہ معلوم ہو رہا ہے کہ: حضرت ابن عباس کا جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ایک اجنبی اور غیر معروف و غیر معمول بہ عمل تھا، جنازہ میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا صحابہ کرام کا عمل نہیں تھا، اسی وجہ سے حضرت طلحہ کو انکے سورہ فاتحہ پڑھنے پر تعجب ہوا، اور انکو اسکے بارے میں سوال کرنا پڑا، اگر یہ سنت نبوی ہوتا تو حضرت طلحہ کو اس پر تعجب کیوں ہوتا، اور سوال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی؟
اگر یہ آپ علیہ السلام کا عمل ہوتا اور سورہ فاتحہ کا پڑھنا بطور قرأت مشروع اور سنت ہوتا تو یہ بات ناممکن ہے کہ صحابہ کرام سے یہ سنت پوشیدہ رہتی، اور صحابہ کو اسکے بارے میں علم نہ ہوتا، اور حضرت ابن عباس کو یہ بتلانے کی ضرورت پڑتی کہ یہ سنت ہے،

اسلئے کہ وہ زمانہ تو جنگ کا تھا، اور عموما نماز جنازہ کا معاملہ پیش آرہا تھا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ صحابہ کو سنت طریقہ کا علم نہ ہو،

بہرحال حضرت ابن عباس کا جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا اجنبی فعل تھا، اور صحابہ میں یہ فعل غیر معمول بہ اور غیر معروف تھا،

یہی وجہ ہے کہ حضرت امام مالک فرماتے ہیں "لیس ذالک بمعمول بہ انما ھو الدعاء ادرکت اھل بلادنا علی ھذا (المدونہ۱/ص۱۷۴)
یعنی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے پڑھنے پر عمل نہیں ہے، جنازہ میں تو صرف میت کیلئے دعاء ہے، میں نے اھلِ مدینہ کو اسی پر پایا ہے،

غرض اگر امام بخاری کی مختصر حدیث کو نہیں بلکہ نسائی کی مکمل حدیث کو سامنے رکھا جائے تو خود حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ: صحابہ کے زمانے میں سورہ فاتحہ کو بطور قرأت کے نماز جنازہ میں پڑھنا مشھور ومعروف عمل نہیں تھا، اور نہ صحابہ کا اس پر عمل تھا، اور جو چیز غیر مشھور ہو یعنی صحابہ کو بھی اسکا علم نہ ہو تو اسے حضور علیہ السلام کی سنت نہیں کہا جاسکتا، ورنہ صحابہ پر الزام عائد ہوگا کہ انہوں نے حضور کی سنت سے لاپرواہی برتی، جبکہ یہ بات مشھور و معروف ہے کہ:
حضور علیہ السلام کی سنت سے مراد: وہ عمل ہے جسے آپ نے دوام کے ساتھ کیا ہو، نیز صحابہ کرام نے بھی اسے اپنی زندگی کا اکثری یا دائمی معمول بنایا ہو، اور جو عمل آپ نے کبھی کبھی کیا ہو اسے سنت مستمرہ کا درجہ نہیں دیا جاسکتا،

خلاصہ کلام یہ نکلا کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ حضور کی سنت ہے، اور نہ ہی اس صحابہ کا عمل تھا،

اب رہ گیا یہ سوال: کہ جب یہ سنت نہیں ہے، اور نہ ہی اس پر خلفائے راشدین کا عمل تھا، تو پھر حضرت ابن عباس نے اسکو سنت کیوں کہا ..؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ: سنت سے مراد یہ نہیں ہے کہ حضور علیہ السلام کی سنت ہے، بلکہ یہ بتلانا مقصد ہے کہ نماز جنازہ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے، یعنی جس طرح نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد مخصوص ثناء پڑھی جاتی ہے، اسی طرح اگر ثناء کی جگہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھی جائے تو بھی نماز صحیح ہوجائے گی، صرف ثناء ھی پڑھنا ضروری نہیں ہے،

اور اسکی دلیل یہ ہے کہ:
عربی میں جب سُّنة بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ہوتا ہے "طریقہ“
اور جب السنة بولا جائے الف لام کے ساتھ تو اسے حضور علیہ السلام کی سنت مراد ہوتی ہے، اور یہاں پر سنة بولا گیا ہے، بغیر الف لام کے، جس کے معنی ہیں طریقہ،

*** سنت کے معنی ***

(۱) امام لغت مطرزی متوفی ۶۱۰ھ ”لفظ سنن“ کے تحت لکھتے ہیں:
”السنة“ الطریقہ ومنہا الحدیث في مجوس ہَجَر ”سنّوا بہم سنّة اہل الکتاب“ ای اسلکوا بہم طریقہم یعنی عاملوہم معاملة ہٰوٴلاء في اعطاء الامان باخذ الجزیة منہم (المُغرِب، ج:۱،ص:۴۱۷)
”سنت“ طریقہ کے معنی میں ہے اسی معنی میں مجوسِ ہجر کے بارے میں حدیث ہے ”سنّوا بہم سنة اہل الکتاب“ ان مجوسیوں کے ساتھ اہل کتاب جیسا طریقہ اختیار کرو یعنی جزیہ لے کر امن دینے کا جو معاملہ اہل کتاب کے ساتھ کرتے ہو یہی معاملہ ان مجوسیوں کے ساتھ کرو۔
(۲) ماہر لغت ابن المنظور متوفی ۷۱۱ھ اپنی گرانقدر تصنیف ”لسان العرب“ میں لکھتے ہیں:
وقد تکرر في الحدیث ذکر السنة وما تصرّف منہا، والأصل فیہ الطریقة، والسیرة، (فصل السین حرف النون، ج:۱۷،ص:۸۹)

(۳) المعجم الوسیط مادہ سنن میں ہے:
"السَّنَن“ الطریقة والمثال یقال بنوا بیوتہم علی سنن واحد... والسنة الطریقة“ (ص:۴۵۶)
سنن طریقہ اور مثال کے معنی میں ہے اسی معنی میں بولا جاتا ہے ”بنوا بیوتہم علی سنن واحد“ یعنی اپنے گھروں کو ایک طریقہ اور ایک نمونہ پر بنایا... اور سنت بمعنی طریقہ اور طرز زندگی ہے یہ طریقہ خواہ محمود ہو یا مذموم،

معلوم ہوا کہ سنت یہاں طریقہ کے معنی میں بولا گیا ہے،

(۲) اور اسکی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ حضور علیہ السلام نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھی ہو، جیساکہ ہم نے اوپر ترمذی کے حوالے سے بیان کیا ہے،
لہذا یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ حدیث ابن عباس میں سنت سے مراد حضور علیہ السلام کی سنت نہیں ہے، جیساکہ غیر مقلدین کہتے ہیں، بلکہ نماز جنازہ کا دوسرا طریقہ مراد ہے،

چنانچہ اس پر تیسری دلیل حضرت ابو امامہ کی حدیث ہے،
حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ آہستہ سے پڑھی جائے، پھر تین تکبیر کہی جائیں، اور آخر میں سلام پھیرا جائے،
اس حدیث میں غور کریں کہ پہلی تکبیر کے بعد صرف سورہ فاتحہ پڑھنے کا ذکر ہے، جو ثنا کی جگہ ہے، پھر جو بعد کی تین تکبیریں ہیں ان میں سے دوسری میں درود شریف اور تیسری میں میت کیلئے دعاء پڑھی جاتی ہے، اور چوتھی تکبیر کہہ کر سلام پھیر دیا جاتا ہے،
یعنی ابوامامہ کی حدیث میں ثنا کا کہیں ذکر نہیں ہے، اگر سورہ فاتحہ پڑھنا جنازہ میں پڑھنا سنت ہوتا دیگر نمازوں کی طرح، تو پھر پہلی تکبیر کے بعد ثنا پڑھنے کا بھی ذکر ہوتا، حالانکہ ثنا پڑھنے کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے،
معلوم یہ ہوا کہ حضرت ابن عباس سنت سے یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ جیسے پہلی تکبیر کے بعد ثنا پڑھنا ایک طریقہ ہے، تو دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ثنا کی جگہ سورہ فاتحہ پڑھی جائے، اور اس طرح بھی نماز جنازہ پڑھنا صحیح ہے،

اور اسکی مزید تائید حافظ ابن عبد البر کے اس بیان سے ہوتی ہے جسکو انہوں نے اپنی مشھور کتاب "الکافی“ میں ذکر کیا ہے،
وہ فرماتے ہیں "ولیس فی الصلاة علی الجنازة قرأة عند مالک واصحابہ وجماعة من اھل المدینہ وقال جماعة من کبراء اھل المدینة یقرأ بعد التکبیرة الاولی بام القرآن وبعد الثانیة یصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم یدعوا للمیت بعد الثالثة
یعنی نماز جنازہ میں قرآن کا پڑھنا امام مالک اور انکے اصحاب اور اہل مدینہ کی ایک جماعت کے نزدیک نہیں ہے،اور ایک جماعت کا کہنا ہے کہ تکبیر اولی کے بعد سورہ فاتحہ پڑھی جائے گی، اور دوسری تکبیر کے بعد درود شریف، اور تیسری تکبیر کے بعد میت کیلئے دعاء کی جائے گی،
حافظ ابن عبدالبر کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ اہل مدینہ کی ایک جماعت کے نزدیک تو سورہ فاتحہ پڑنا مشروع ہی نہیں ہے، اور ایک جماعت کے نزدیک مشروع تو ہے مگر ثناء کی جگہ، یعنی تلاوت کے طور پر سورہ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ دعاء کے طور پر پڑھی جائے گی،
ایسے ہی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی کے نزدیک ہے، یعنی بطور دعاء، حجّة اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں "ومن السنة قرأة فاتحة الکتاب لانھا خیر الادعیة واجمعھا“
یعنی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کا پڑھنامسنون ہے اس وجہ سے کہ وہ بیترین اور جامع ترین دعاء ہے،
( حجّة اللہ البالغہ۲/ص۳۶)
اور شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے جنازہ کیلئے کوئی دعا متعین نہیں فرمائی، کہ اسی دعا کو پڑھا جائے گا، اسکے علاوہ دوسری دعا کو نہیں پڑھا جاسکتا،
اسی وجہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں "لم یوقت لنا رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم قولاََ ولا قرأة واختر من الدعاء ما اطیبہ“
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے نماز جنازہ میں کوئی متعین دعا اور متعین قرآن کاپڑھنا مخصوص نہیں کیا، بلکہ اچھی سے اچھی دعا پڑھنے کو پسند فرمایا،
اس سے معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ کودعا کے طور پر تو پڑھا جاسکتا ہے، مگر قرأت کے طور پر نہیں،

بہرحال اب تک کی تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ: غیر مقلدین کا یہ دعوی کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی، یہ دعوی حقائق کی روشنی میں صحیح نہیں ہے، اور صحیح بخاری، سنن نسائی اور دیگر کتب حدیث کی جن روایات واحادیث کو وہ اپنا مستدل بنا رہے ہیں وہ بالکل غلط ہے، اسلئے کہ ان احادیث کا وہ مطلب نہیں ہے جو غیر مقلدین سمجھ رہے ہیں، بلکہ حدیث کا.مطلب دوسرا ہے، جیساکہ ہم نے اسکو اوپر تفصیل سے بیان کیا ہے،

یعنی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کو دعا کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے، اور اسکا کوئی منکر نہیں ہے،
بلکہ ہم احناف کا بھی یہی مسلک ہے،

                            {جاری ھے}


Aaqibul

No comments:

Post a Comment