قسط نمبر {۲}
جواب نمبر (۴)
حضرت ابن عباس کی روایت میں ایک اشکال یہ ہے کہ: بخاری میں جو روایت ہے اسمیں صرف سورہ فاتحہ پڑھنے کا ذکر ہے، دوسری سورت اور جہر کا لفظ نہیں ہے،
اور نسائی میں جو روایت ہے اسمیں فاتحہ کے ساتھ ضم سورہ کا بھی ذکر ہے،
اور تیسری روایت میں جَہَر (زور سے پڑھنے) اور سَمِعنَا (ہم کو سُنایا) کا لفظ ہے، جبکہ پہلی دو روایتوں میں یہ لفظ نہیں ہے،
ایسے ہی بعض روایات میں صرف سنة آیا ہے، اور بعض میں سنة و حق آیا ہے،
اور یہ سب روایات حضرت طلحہ کے طریق سے ہی مروی ہیں، مگر الگ الگ، لہذا ان میں اضطراب پیدا ہوگیا، اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان میں سے کون سی روایت صحیح ہے، اور کون سی نہیں ...
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث مضطرب ہے،
اور محدثین کے نزدیک مضطرب روایت قابل استدلال اور حجّت نہیں ہوتی، تو پھر غیر مقلدین کا مضطرب حدیث کو اپنی دلیل میں پیش کرنا کیسا صحیح ہوسکتا ہے،
جواب نمبر (۵)
اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ حضرت ابن عباس کا فعل غیر مقلدین کا مستدل ہے،
تو اسکے ساتھ ساتھ غیر مقلدین کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ: تراویح کی بیس رکعات ہیں، اور جمعہ کے دن دوسری اذان جو خطبے سے پہلے امام کے منبر پر پہنچنے کے بعد دی جاتی ہے، وہ اذان بھی سنت ہے، کیونکہ وہ بھی صحابی کے عمل سے ثابت ہے،
بلکہ ابن عباس کا عمل تو شاذ ہے یعنی ابن عباس کی روایت کے مطابق نماز جنازہ صرف غیر مقلدین ہی پڑھتے ہیں، جبکہ حضرت عمر نے جو بیس رکعت تراویح مقرر فرمائی، اس پر پوری امت (ائمہ اربعہ، اور انکے علاوہ تمام فرقوں) کا اتفاق ہے، اور بیس رکعت تراویح کو تلقی بالقبول حاصل ہے،
ایسے ہی جمعہ کی دوسری اذان،
لیکن غیر مقلدین کے دھوکہ، فریب، اور جھوٹ بیانی کو دیکھئے کہ:
جب اپنے مسلک کی بات آئی تو غیر حدیث کو بھی حدیث بناکر عمل کرلیا،
اور جب دوسرے مسلک کی بات آئی تو اسے بدعتِ عُمری اور بدعتِ عثمانی کہہ کر غلط قرار دیدیا،
"لعنة الله علی الکاذبین“ ایسے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو،
** احناف کے نزدیک جنازہ میں فاتحہ پڑھنا **
اور اب ہم اس پر کلام کرینگے کہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا جو یہ مسلک ہے کہ: نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ دعا کے طور پڑھنا مسنون نہیں ہے، تو ان حضرات کے دلائل کیا ہیں ....
(۱) تو سب سے پہلے آپ یہ سمجھ لیجئے کہ نماز جنازہ دوسری عام نمازوں کی طرح کوئی نماز نہیں ہے، جسمیں فاتحہ کا پڑھنا مسنون یا واجب ہو، بلکہ یہ تو دعا ہے،
حافظ ابن قیم فرماتے ہیں "ومقصود الصلاة علی الجنازة ھو الدعا للمیت لان اجتماع امة من المؤمنین شافعین للمیت لہ تاثیر بلیغ فی نزول الرحمة علیہ (زادالمعاد۲/ص۳)
یعنی میت پر نماز اسلئے مشروع ہوئی کہ اہل ایمان کی ایک جماعت کا میت کی شفاعت کیلئے جمع ہونا اللہ کی رحمت میت پر نازل ہونے کا بڑا مؤثر طریقہ اور ذریعہ ہے،
یعنی نماز جنازہ میت کیلئے شفاعت اور بخشش کی دعا کیلئے ہے،
لہذا نماز جنازہ کو دوسری پنج وقتہ نمازوں پر قیاس کرکے اسمیں فاتحہ کی شرط لگانا صحیح نہیں ہے، اسلئے کہ دونوں کا طریقہ اور مقصد اور ادائیگی کا حکم الگ الگ ہے،
چنانچہ نماز جنازہ کا طریقہ کیا ہے اس سلسلے میں مؤطا امام مالک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے:
حضرت سعید اپنے والد ابوسعید سے ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اپ نمازجنازہ کیسے پڑھتے ہیں ...؟
حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ: خدا کی قسم میں تم کو اسکا طریقہ بتلاؤنگا،
اور پھر فرمایا کہ: میں گھر والوں کے ساتھ نماز جنازہ میں شریک ہوتا ہوں، جب جنازہ نماز کیلئے رکھا جاتا ہے تو میں تکبیر کہتا ہوں، اور اللہ کی حمد وثنا کرتا ہوں، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہوں، پھر میں یہ دعا پڑھتا ہوں "اللھم انی عبدک وابن عبدک ..الخ“
یہ صحیح روایت ہے،
اور اسمیں کہیں بھی سورہ فاتحہ پڑھنے کا ذکر نہیں ہے،
(۲) اور مؤطا میں ہی حضرت عبداللہ بن عمر کے بارے میں انکے شاگرد حضرت نافع فرماتے ہیں
"ان عبداللہ کان لا یقرأ فی الصلاة علی الجنازة“
یعنی حضرت عبداللہ بن عمر نماز جنازہ میں قرآ کی تلاوت نہیں کیا کرتے تھے،
(۳) بدائع صنائع میں ہے "روی عن عبد الرحمن وابن عمر انھما قال: لیس فیھا قرأة شئی من القرآن“
(بدائع صنائع۱/ص۲۱۲)
یعنی حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ: نماز جنازہ میں قرآن میں سے کچھ نہیں پڑھنا ہے،
(۴) اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت علی سے یہ روایت ہے "عن علی انہ کان اذا صلی علی میت یبدأ بحمداللہ ویصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم یقول اللھم اغفر لاحیائنا وامواتنا والف بین قلوبنا واصلح ذات بیننا واجعل قلوبنا علی قلوب اخیارنا“
( مصنف ابن ابی شیبہ/ص۲۹۵)
یعنی جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز جنازہ پڑھتے تو پہلے اللہ کی حمد وثنا کرتے، پھر حضور علیہ السلام پر درود پڑھتے، اور پھر یہ دعا پڑھتے اللھم اغفر لاحیائنا وامواتنا ...آخر تک،
(۵) اور مدوّنہ میں ہے کہ: حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبید بن قضاعہ، حضرت ابوھریرہ، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت واثلہ بن اسقع، حضرت قاسم، حضرت سالم بن عبداللہ، حضرت ابن مسیب، حضرت ربیعہ، حضرت عطا، وغیرہ بڑے بڑے صحابہ اور تابعین نماز جنازہ میں قرآن نہیں پڑھا کرتے تھے، "لم یکونوا یقرأون فی الصلاة علی المیت“ (مدونہ۱/ص۱۷۴)
(۶) حضرت امام شعبی جنکی ملاقات پانچ صحابہ کرام سے ہوئی، انکے بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ، وہ جنازہ کے بارے میں فرماتے تھے:
پہلی تکبیر میں اللہ کی حمد وثنا کی جائے گی، دوسری میں درود شریف، اور تیسری میں میت کیلئے دعا کی جائے گی، اور چوتھی تکبیر سلام کیلئے ہوگی،
(۷) ایسے ہی حضرت ابراھیم نخعی، عطا، حماد، طاؤس، بکر بن عبداللہ، ابوالعالیہ، وغیرہ جلیل القدر تابعین رحمھم اللہ میں سے کوئی بھی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا قائل نہیں تھا، مزید تفصیل کیلئے مصنف ابن ابی شیبہ ملاحظہ کریں،
اس تمام تفصیل سے یہ بات صاف ہوگئی کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا سنت نہیں ہے، اور نہ ہی اس پر صحابہ اور تابعین کا عمل تھا، ورنہ غیر ممکن تھا کہ یہ سنت حضرت عمر اور حضرت علی جیسے بڑے صحابہ اور خلفائے راشدین سے چھپی رہ جاتی ...؟
انھیں دلائل کی روشنی میں اور انھیں اکابرِ صحابہ اور تابعین رحمھم اللہ کی تقلید اور اتباع میں حضرات احناف اور امام مالک فرماتے ہیں کہ: نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ سنت نہیں ہے، البتہ بطور دعاء ثنا کی جگہ پڑھنا درست ہے، یعنی یہ مطلب نہیں کہ اگر فاتحہ نہ پڑھی جائے تو نماز ہی صحیح نہ ہو، جیساکہ غیر مقلدین کہتے ہیں،
(۲) اب رہا دوسرے سوال کا جواب:
کہ جنازہ میں بلند آواز سے قرأت کرنا ضروری ہے،
تو اسکا جواب یہ ہے کہ: نماز میں زور سے نہ دعا پڑھنا ثابت ہے، اور نہ سورہ فاتحہ،
یہ غیر مقلدین کا ایسا عمل ہے جس اہل سنت والجماعت تو کیا؟
کسی بھی فرقے کا عمل نہیں ہے سوائے شیعہ لوگوں کے، لہذا زور سے دعا یا فاتحہ پڑھنا شیعہ فرقے کی تقلید ہے، اور شیعہ بالاتفاق کافر ہیں،
تمام اہل سنت والجماعت نماز میں جو کچھ پڑھتے ہیں وہ آہستہ پڑھتے ہیں، اور یہی صحیح حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ آپ علیہ السلام نے جتنی بھی نماز جنازہ پڑھائی کسی میں بھی زور سے پڑھنا ثابت نہیں ہے، معلوم ہوا کہ اصل اور صحیح آہستہ پڑھنا ہے،
اب رہی یہ بات کہ: حضرت ابن عباس نے زور سے سورہ فاتحہ کیوں پڑھی ..؟
تو اسکا جواب اور اسکی وجہ خود حضرت ابن عباس نے بتلادی ...
"لتعلموا انھا سنة“ یعنی تاکہ تم لوگ جان لو کہ جنازہ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے، چنانچہ کبھی کبھی خود آپ علیہ السلام کسی بات کو بتلانے کیلئے خلافِ واقعہ عمل کیا کرتے تھے، جیساکہ احادیث میں ہے کہ کبھی کبھی آپ علیہ السلام رکوع اور سجدہ کی تسبیحات بتلانے کیلئے زور زور سے پڑھ دیا کرتے تھے ...
تاکہ صحابہ کو معلوم ہوجائے کہ رکوع اور سجدے کی تسبیحات کیا ہیں ...؟
لہذا اگر اس سے کوئی یہ سمجھے اور اپنا عقیدہ بنالے کہ میں تو رکوع اور سجدہ کی تسبیحات زور زور سے پڑھوں گا جیسے آپ علیہ السلام نے ایک بار پڑھی تھی، تو کیا وہ سنت پر عمل کرنے والا کہلائے گا ...؟
نہیں نا ...
تو ٹھیک یہی بات ابن عباس کی روایت میں ہے، لیکن اسے معمول بنالینا، اور سنت کہنا بالکل غلط ہے؟
دوستو! حقیقت بات یہ ہے کہ یہ غیر مقلدین فرقہ انگریز کا پیدا کیا ہوا ہے، جن کا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت اور مسلمانوں میں غلط فہمی پیدا کرکے انکو سیدھے راستے سے ہٹا دیا جائے،
اور اسکی دلیل یہ ہے کہ اس فرقے کی پیدائش صرف دوسو سال پہلے کی ہے، اس سے پہلے اس فرقہ کا کوئی وجود نہیں تھا، اور نہ ہی انکے عقائد آپکو کسی کتاب میں ملیں گے،
مگر اس چیز کو چھپانے کیلئے انہوں نے یہ چال چلی کہ: اپنے آپکو سَلفِی کہنے لگے،
حالانکہ جس سَلفی جماعت کی یہ بات کرتے ہیں اسکا وجود تو کچھ عرصے بعد ہی ختم ہوگیا تھا،
مگر ان جھوٹے اور شیطان غیر مقلدین اپنے آپ کو ان سے منسوب کرلیا،
آخر میں ایک چیلنج:
اگر غیر مقلدین کا وجود چودہ سو سال سے ہے، تو میرا مطالبہ ہے کہ: صرف اب سے پانچ سو سال پہلے لکھی ہوئی کتابوں میں اپنے عقائد اور نظریات دکھلادیں،
مفتی معمور-بدر مظاہری، قاسمی (اعظم-پوری)
.
Aaqibul islam
جواب نمبر (۴)
حضرت ابن عباس کی روایت میں ایک اشکال یہ ہے کہ: بخاری میں جو روایت ہے اسمیں صرف سورہ فاتحہ پڑھنے کا ذکر ہے، دوسری سورت اور جہر کا لفظ نہیں ہے،
اور نسائی میں جو روایت ہے اسمیں فاتحہ کے ساتھ ضم سورہ کا بھی ذکر ہے،
اور تیسری روایت میں جَہَر (زور سے پڑھنے) اور سَمِعنَا (ہم کو سُنایا) کا لفظ ہے، جبکہ پہلی دو روایتوں میں یہ لفظ نہیں ہے،
ایسے ہی بعض روایات میں صرف سنة آیا ہے، اور بعض میں سنة و حق آیا ہے،
اور یہ سب روایات حضرت طلحہ کے طریق سے ہی مروی ہیں، مگر الگ الگ، لہذا ان میں اضطراب پیدا ہوگیا، اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان میں سے کون سی روایت صحیح ہے، اور کون سی نہیں ...
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث مضطرب ہے،
اور محدثین کے نزدیک مضطرب روایت قابل استدلال اور حجّت نہیں ہوتی، تو پھر غیر مقلدین کا مضطرب حدیث کو اپنی دلیل میں پیش کرنا کیسا صحیح ہوسکتا ہے،
جواب نمبر (۵)
اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ حضرت ابن عباس کا فعل غیر مقلدین کا مستدل ہے،
تو اسکے ساتھ ساتھ غیر مقلدین کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ: تراویح کی بیس رکعات ہیں، اور جمعہ کے دن دوسری اذان جو خطبے سے پہلے امام کے منبر پر پہنچنے کے بعد دی جاتی ہے، وہ اذان بھی سنت ہے، کیونکہ وہ بھی صحابی کے عمل سے ثابت ہے،
بلکہ ابن عباس کا عمل تو شاذ ہے یعنی ابن عباس کی روایت کے مطابق نماز جنازہ صرف غیر مقلدین ہی پڑھتے ہیں، جبکہ حضرت عمر نے جو بیس رکعت تراویح مقرر فرمائی، اس پر پوری امت (ائمہ اربعہ، اور انکے علاوہ تمام فرقوں) کا اتفاق ہے، اور بیس رکعت تراویح کو تلقی بالقبول حاصل ہے،
ایسے ہی جمعہ کی دوسری اذان،
لیکن غیر مقلدین کے دھوکہ، فریب، اور جھوٹ بیانی کو دیکھئے کہ:
جب اپنے مسلک کی بات آئی تو غیر حدیث کو بھی حدیث بناکر عمل کرلیا،
اور جب دوسرے مسلک کی بات آئی تو اسے بدعتِ عُمری اور بدعتِ عثمانی کہہ کر غلط قرار دیدیا،
"لعنة الله علی الکاذبین“ ایسے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو،
** احناف کے نزدیک جنازہ میں فاتحہ پڑھنا **
اور اب ہم اس پر کلام کرینگے کہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا جو یہ مسلک ہے کہ: نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ دعا کے طور پڑھنا مسنون نہیں ہے، تو ان حضرات کے دلائل کیا ہیں ....
(۱) تو سب سے پہلے آپ یہ سمجھ لیجئے کہ نماز جنازہ دوسری عام نمازوں کی طرح کوئی نماز نہیں ہے، جسمیں فاتحہ کا پڑھنا مسنون یا واجب ہو، بلکہ یہ تو دعا ہے،
حافظ ابن قیم فرماتے ہیں "ومقصود الصلاة علی الجنازة ھو الدعا للمیت لان اجتماع امة من المؤمنین شافعین للمیت لہ تاثیر بلیغ فی نزول الرحمة علیہ (زادالمعاد۲/ص۳)
یعنی میت پر نماز اسلئے مشروع ہوئی کہ اہل ایمان کی ایک جماعت کا میت کی شفاعت کیلئے جمع ہونا اللہ کی رحمت میت پر نازل ہونے کا بڑا مؤثر طریقہ اور ذریعہ ہے،
یعنی نماز جنازہ میت کیلئے شفاعت اور بخشش کی دعا کیلئے ہے،
لہذا نماز جنازہ کو دوسری پنج وقتہ نمازوں پر قیاس کرکے اسمیں فاتحہ کی شرط لگانا صحیح نہیں ہے، اسلئے کہ دونوں کا طریقہ اور مقصد اور ادائیگی کا حکم الگ الگ ہے،
چنانچہ نماز جنازہ کا طریقہ کیا ہے اس سلسلے میں مؤطا امام مالک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے:
حضرت سعید اپنے والد ابوسعید سے ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اپ نمازجنازہ کیسے پڑھتے ہیں ...؟
حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ: خدا کی قسم میں تم کو اسکا طریقہ بتلاؤنگا،
اور پھر فرمایا کہ: میں گھر والوں کے ساتھ نماز جنازہ میں شریک ہوتا ہوں، جب جنازہ نماز کیلئے رکھا جاتا ہے تو میں تکبیر کہتا ہوں، اور اللہ کی حمد وثنا کرتا ہوں، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہوں، پھر میں یہ دعا پڑھتا ہوں "اللھم انی عبدک وابن عبدک ..الخ“
یہ صحیح روایت ہے،
اور اسمیں کہیں بھی سورہ فاتحہ پڑھنے کا ذکر نہیں ہے،
(۲) اور مؤطا میں ہی حضرت عبداللہ بن عمر کے بارے میں انکے شاگرد حضرت نافع فرماتے ہیں
"ان عبداللہ کان لا یقرأ فی الصلاة علی الجنازة“
یعنی حضرت عبداللہ بن عمر نماز جنازہ میں قرآ کی تلاوت نہیں کیا کرتے تھے،
(۳) بدائع صنائع میں ہے "روی عن عبد الرحمن وابن عمر انھما قال: لیس فیھا قرأة شئی من القرآن“
(بدائع صنائع۱/ص۲۱۲)
یعنی حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ: نماز جنازہ میں قرآن میں سے کچھ نہیں پڑھنا ہے،
(۴) اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت علی سے یہ روایت ہے "عن علی انہ کان اذا صلی علی میت یبدأ بحمداللہ ویصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم یقول اللھم اغفر لاحیائنا وامواتنا والف بین قلوبنا واصلح ذات بیننا واجعل قلوبنا علی قلوب اخیارنا“
( مصنف ابن ابی شیبہ/ص۲۹۵)
یعنی جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز جنازہ پڑھتے تو پہلے اللہ کی حمد وثنا کرتے، پھر حضور علیہ السلام پر درود پڑھتے، اور پھر یہ دعا پڑھتے اللھم اغفر لاحیائنا وامواتنا ...آخر تک،
(۵) اور مدوّنہ میں ہے کہ: حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبید بن قضاعہ، حضرت ابوھریرہ، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت واثلہ بن اسقع، حضرت قاسم، حضرت سالم بن عبداللہ، حضرت ابن مسیب، حضرت ربیعہ، حضرت عطا، وغیرہ بڑے بڑے صحابہ اور تابعین نماز جنازہ میں قرآن نہیں پڑھا کرتے تھے، "لم یکونوا یقرأون فی الصلاة علی المیت“ (مدونہ۱/ص۱۷۴)
(۶) حضرت امام شعبی جنکی ملاقات پانچ صحابہ کرام سے ہوئی، انکے بارے میں مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ، وہ جنازہ کے بارے میں فرماتے تھے:
پہلی تکبیر میں اللہ کی حمد وثنا کی جائے گی، دوسری میں درود شریف، اور تیسری میں میت کیلئے دعا کی جائے گی، اور چوتھی تکبیر سلام کیلئے ہوگی،
(۷) ایسے ہی حضرت ابراھیم نخعی، عطا، حماد، طاؤس، بکر بن عبداللہ، ابوالعالیہ، وغیرہ جلیل القدر تابعین رحمھم اللہ میں سے کوئی بھی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا قائل نہیں تھا، مزید تفصیل کیلئے مصنف ابن ابی شیبہ ملاحظہ کریں،
اس تمام تفصیل سے یہ بات صاف ہوگئی کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا سنت نہیں ہے، اور نہ ہی اس پر صحابہ اور تابعین کا عمل تھا، ورنہ غیر ممکن تھا کہ یہ سنت حضرت عمر اور حضرت علی جیسے بڑے صحابہ اور خلفائے راشدین سے چھپی رہ جاتی ...؟
انھیں دلائل کی روشنی میں اور انھیں اکابرِ صحابہ اور تابعین رحمھم اللہ کی تقلید اور اتباع میں حضرات احناف اور امام مالک فرماتے ہیں کہ: نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ سنت نہیں ہے، البتہ بطور دعاء ثنا کی جگہ پڑھنا درست ہے، یعنی یہ مطلب نہیں کہ اگر فاتحہ نہ پڑھی جائے تو نماز ہی صحیح نہ ہو، جیساکہ غیر مقلدین کہتے ہیں،
(۲) اب رہا دوسرے سوال کا جواب:
کہ جنازہ میں بلند آواز سے قرأت کرنا ضروری ہے،
تو اسکا جواب یہ ہے کہ: نماز میں زور سے نہ دعا پڑھنا ثابت ہے، اور نہ سورہ فاتحہ،
یہ غیر مقلدین کا ایسا عمل ہے جس اہل سنت والجماعت تو کیا؟
کسی بھی فرقے کا عمل نہیں ہے سوائے شیعہ لوگوں کے، لہذا زور سے دعا یا فاتحہ پڑھنا شیعہ فرقے کی تقلید ہے، اور شیعہ بالاتفاق کافر ہیں،
تمام اہل سنت والجماعت نماز میں جو کچھ پڑھتے ہیں وہ آہستہ پڑھتے ہیں، اور یہی صحیح حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ آپ علیہ السلام نے جتنی بھی نماز جنازہ پڑھائی کسی میں بھی زور سے پڑھنا ثابت نہیں ہے، معلوم ہوا کہ اصل اور صحیح آہستہ پڑھنا ہے،
اب رہی یہ بات کہ: حضرت ابن عباس نے زور سے سورہ فاتحہ کیوں پڑھی ..؟
تو اسکا جواب اور اسکی وجہ خود حضرت ابن عباس نے بتلادی ...
"لتعلموا انھا سنة“ یعنی تاکہ تم لوگ جان لو کہ جنازہ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے، چنانچہ کبھی کبھی خود آپ علیہ السلام کسی بات کو بتلانے کیلئے خلافِ واقعہ عمل کیا کرتے تھے، جیساکہ احادیث میں ہے کہ کبھی کبھی آپ علیہ السلام رکوع اور سجدہ کی تسبیحات بتلانے کیلئے زور زور سے پڑھ دیا کرتے تھے ...
تاکہ صحابہ کو معلوم ہوجائے کہ رکوع اور سجدے کی تسبیحات کیا ہیں ...؟
لہذا اگر اس سے کوئی یہ سمجھے اور اپنا عقیدہ بنالے کہ میں تو رکوع اور سجدہ کی تسبیحات زور زور سے پڑھوں گا جیسے آپ علیہ السلام نے ایک بار پڑھی تھی، تو کیا وہ سنت پر عمل کرنے والا کہلائے گا ...؟
نہیں نا ...
تو ٹھیک یہی بات ابن عباس کی روایت میں ہے، لیکن اسے معمول بنالینا، اور سنت کہنا بالکل غلط ہے؟
دوستو! حقیقت بات یہ ہے کہ یہ غیر مقلدین فرقہ انگریز کا پیدا کیا ہوا ہے، جن کا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت اور مسلمانوں میں غلط فہمی پیدا کرکے انکو سیدھے راستے سے ہٹا دیا جائے،
اور اسکی دلیل یہ ہے کہ اس فرقے کی پیدائش صرف دوسو سال پہلے کی ہے، اس سے پہلے اس فرقہ کا کوئی وجود نہیں تھا، اور نہ ہی انکے عقائد آپکو کسی کتاب میں ملیں گے،
مگر اس چیز کو چھپانے کیلئے انہوں نے یہ چال چلی کہ: اپنے آپکو سَلفِی کہنے لگے،
حالانکہ جس سَلفی جماعت کی یہ بات کرتے ہیں اسکا وجود تو کچھ عرصے بعد ہی ختم ہوگیا تھا،
مگر ان جھوٹے اور شیطان غیر مقلدین اپنے آپ کو ان سے منسوب کرلیا،
آخر میں ایک چیلنج:
اگر غیر مقلدین کا وجود چودہ سو سال سے ہے، تو میرا مطالبہ ہے کہ: صرف اب سے پانچ سو سال پہلے لکھی ہوئی کتابوں میں اپنے عقائد اور نظریات دکھلادیں،
مفتی معمور-بدر مظاہری، قاسمی (اعظم-پوری)
.
Aaqibul islam
No comments:
Post a Comment