جی ہاں فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے بجواب کیا فقہ حنفی قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض ؛
حدیث ہے شوال کے 6 روزے رکھنا افضل ہے لیکن حنفی فقہ میں امام ابو حنیفہ کا قول لکھا ہے کہ شوال کے 6 روزے رکھنا مکروہ ہے ۔؟
اہل سنت حنفی : جواب ؛
امام ابو حنیفہ کا قول پیش کرنا تمہارا صرف امام دشمنی ہے ورنہ احناف کا عمل شوال کے روزوں کے معاملہ میں حدیث پر ہے
اور امام دشمن بے دین ہوتا ہے حوالہ دیکھیے صحیح مسلم 103
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض ؛
حدیث میں ہے ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا جبکہ فقہ حنفی میں ہے ولی کے بغیر عورت کی مرضی سے نکاح ہوجاتا ہے ؟
اہل سنت حنفی : جواب ؛
آپ حدیث سے بھی نا واقف ہیں ہماری دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے
Sahih Muslim # 3476
بغیر ولی نکاح
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: قُلْتُ لِمَالِكٍ: حَدَّثَكَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا»؟ قَالَ: نَعَمْ
سعید بن منصور اور قتیبہ بن سعید نے کہا: ہم سے امام مالک نے حدیث بیان کی۔ یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: میں نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: کیا آپ کو عبداللہ بن فضل نے نافع بن جبیر کے واسطے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت کا شوہر نہ رہا ہو وہ اپنے ولی کی نسبت اپنے بارے میں زیادہ حق رکھتی ہے، اور کنواری سے اس کے ( نکاح کے ) بارے میں اجازت لی جائے اور اس کا خاموش رہنا اس کی اجازت ہے ؟ تو امام مالک نے جواب دیا: ہاں
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض ؛
ابو حنیفہ کے نذدیک گندم جو اور جوار کی شراب حلال ہے ؟
اہل سنت حنفی : جواب ؛
شراب عربی لفظ کی معنی شربت یا مشروب ہے اور فقہ حنفی کی تفصیلات پڑھنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسا شربت پینا ان چیزوں کا جو نشہ آور نہ ہو جائز ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبیذ پیا کرتے تھے جب تک نشہ آور نہ ہوجاتا اور جب دیکھتے کہ نشہ آور ہوگیا ہے تو ضایع کرا دیتے
صحیح مسلم حدیث نمبر 5207
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَيْتُكُمْ عَنْ النَّبِيذِ إِلَّا فِي سِقَاءٍ فَاشْرَبُوا فِي الْأَسْقِيَةِ كُلِّهَا وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا
اور فقہ حنفی میں امام کا قول موجود ہے تمام نشہ آور چیزیں جب ان میں نشہ پیدا ہوجائے حرام ہیں
1علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں:۔
”فالنبد ھو ماء الشعر ماذا طبخ بالزید عن ابی حنیفہؒ وابی یوسف بحل شربہ للتدلوی التقوی الا المحدی المسکر“(بنایہ شرح ہدایہ جلد ۲ ص۷۰۵، ۷۰۴ مطبوعہ ملک سنز فیصل آباد)
کھجور کے پانی کو معمولی جوش دیا جائے تو یہ نبیذ ہے فقہاء احنا ف کے قول کے مطابق اس کا پینا جائز ہے۔ بشرطیکہ یہ میٹھا ہو جائے اور جب یہ گاڑھا ہو جائے اور جھاگ چھوڑ دے ۔ تو امام اوب حنیفہؒ اور امام یوسفؒ سے روایت ہے کہ دوا اور طاقت حاصل کرنے کیلئے اس کا پینا جائز ہے البتہ اگر یہ نشہ آور ہو تو اس کا پینا جائز نہیں۔
2 علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:۔
”وروایۃ عبدالعزیز عن ابی حنیفہ و سفیان النجما مثلا فیمن شرب البنج فار تفع الٰی راسہ وطلن امراتہ ھل یقع قالا ان کان یعلمہ حین شریہ ما ھو یقع (فتح القدیر شرح ہدایہ ج۵ ص۸۲ مطبوعہ کمتبہ نوریہ رضویہ سکھر)
عبدالعزیز نے بیان کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ اور مفتیان سےسوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص بھنگ کے نشہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے تو کیا اس کی طلاق واقع ہو جائے گی؟ امام ابو حنیفہؒ اور مفتیان نے کہا اگر بھنگ پیتے وقت اس کو بھنگ کا علم تھا اس کی طلاق ہو جائے گی.
3 امام محمد بن حسن شیبانی لکھتے ہیں۔
”نری الحد علی المسکران من نبید کان اوغیرہ لعانیں جلد ہ بالسوط الی فولہ وھو قول ابی حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی “ (کتاب الآثار ص۱۳۷ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی)
جس شخص کو نبیذیا کسی اور مشروب سے نشہ ہو جائے تو ہماری رائے میں اس کو اسی کوڑے حد لگائی جائے گی۔ اور یہی امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے۔
4 حنفی مذہب میں تو حد لگانا لازم ہے۔
۱۔ علامہ ابن عابد شای حنفی لکھتے ہیں:۔
ای شراب کان غیر خمر اذا شربہ لا یحد الااذا سکریہ
خمر کے علاوہ کسی شراب کو بھی پیا جائے اس سے حد لازم نہیں ہو گی البتہ اگر اسس سے نشہ ہو جائے تو حد لامز ہو جائے گی ۔(رد المختار ج۳ ص۲۲۵ مطبوعہ عثمانیہ استنبول)
۲۔ قدوری مترجم ص۳۱۸ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی میں ہے۔
شراب اور نشہ کی حد ازاد کے لئے اسی کو ڑے ہیں۔
۳۔ احسن المسائل ترجمہ کنزا الدقائق مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۸۲ میں ہے۔
اور نشہ کی سزا (خواہ کوئی شراب پینے سے نشہ ہو ا ہو ) اور انگوری شراب پینے کی جلد اگر شہ ایک ہی قطرہ پیا ہو (ہمارے نزدیک ) اسی کوڑے ہیں۔
۴۔ اشرف الوقایہ ترجمہ شرح وقایہ ص۲۳۱ جلد دوم مطبوعہ میر محمد کراچی میں ہے شراب کی حد حد قدف کی طرح ہے یعنی آزاد شخص کے واسطے اسی کوڑے اور غلام کے لئے نصف ۔
۵۔ ہدایہ میں ہے۔
اور آزاد کے حق میں شراب نوشی کی سز اسی کوڑے ہیں اور اس کی تعین صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہے۔
۶۔ فتاویٰ ہندیہ ترجمہ فتایٰ عالمگیری جلد ۳ ص۲۸۵ مترجم سید امیر علی غیرمقلد مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی لاہور میں ہے۔
سکر و خمر کی حد اگر چہ ایک ہی قطرہ پیا ہو اسی کوڑے ہیں یہ کنز میں ہے۔
غیرمقلدین کا مذہب پہلا مسئلہ جو روٹی شراب ملا کر پکائی جائے اس کا کھانا درست ہو گا جن ادویہ میں شراب کی روح یعنی الکحل شریک ہوتی ہے اس کا بھی استعمال درست ہو گا ہمارے علماء اہل حدیث میں سے مفتی مصر نے ایسا ہی فتویٰ دیا ہے۔( لغات الحدیث جلد ۱ ص۶۰ )
دوسرا مسئلہ :۔ کپڑے یا جسم ممیں شراب لگ جائے تو دھونے کی ضرورت نہیں کیونکہ شراب نجس نہیں ہے۔(لغات الحدیث جلد ۶ ص۸)
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض ؛
نبی نے شراب کا سرکہ بنانے سے منع کیا اور فقہ حنفی میں لکھا ہے کہ شراب کا سرکہ حلال ہے بلکہ مکروہ بھی نہیں
اہل سنت حنفی : جواب ؛
برائے مھربانی امت کو گمراہ نہ کیجئے دھوکہ دینا کہاں کی دینداری ہے ؟
امام ابو حنیفہ کے نذدیک شراب کا سرکہ تب جائز ہے جب وہ خود ہی سرکہ بن جائے کیونکہ جب شراب خود ہی سرکہ بن جائے تو وہ نہ شراب رہتی ہے اور نہ نشہ آور ۔
سعودیہ دائمی کمیٹی کے فتوے
سوال نمبر:3429س 3: ہم میں سے بہت سے لوگ سرکے کو مسئلے کو لیکر حیرت میں مبتلا ہیں، واضح رہے کہ ہمارے یہاں الجزائر( الجيريا )( جلد کا نمبر 22، صفحہ 122)میں الکحل کے کئی درجات ہیں ، اور ہم یہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے؟ تو کیا الکحل کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے اس کا حکم حرام تو نہیں ہوجاتا ہے؟ اور یہاں ہمارا مقصود سرکے کو پینا نہیں ہے ، بلکہ مختلف کھانوں کےساتھ جیسے سلاد كے پتے وغیرہ کے ساتھ اس کا استعمال کرنا ہے ، تو کیا سرکے کے اس میں ہونے کی وجہ سے اس کو کھایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ج 3: پہلی بات: جب سرکے کی اصل حقیقت ہی شراب ہو ، اور کسی انسان کى طرف سے اس شراب کو سرکہ بنالیا گیا ہو ، تو اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کو امام مسلم نے اپنی صحیح کے اندر " کتاب الأشربة " کے عنوان کے تحت ، اور امام ترمذی نے اپنی جامع میں کتاب البیوع کے اندر ، اور امام ابو داود نے اپنی سنن میں کتاب الاشربہ کے اندر ذکر کیا ہے، کہ حضرت ابوطلحہ نے حضوراکرم - صلى الله عليه وسلم - سے یتیموں کو وراثت میں ملی ہوئى شراب کے بارے میں دریافت کیا ، تو آپ نے فرمایا : اس کو بہادو [ پھینک دو ] : تو انہوں نے کہا : کیا میں اس کو سِرکہ نہیں بنا سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں
علامہ ابن قیم - رحمه الله تعالى - نے کہا کہ اس حدیث میں اس بات کی صاف وضاحت ہے کہ شراب کو سرکہ بنانا جائز نہیں ہے ، اور اگر شراب کو سرکہ بنانے کا کوئی راستہ ہوتا ، تو یتیم کا مال اس کا زیادہ حقدار ہوتا ، اس لئے کہ یتیم کے مال کی حفاظت ، اس کی سرمایہ کاری ، اور اس کے سلسلے میں مکمل احتیاط کرنا واجب ہے ۔ اور آپ - صلى الله عليه وسلم - نے اپنی دولت کو بیکار ضائع کرنے سے منع کیا تھا ، اور شراب کو بَہادینے میں اس کو بیکار ضائع کرنا ہی ہے ، [ پھر بھی شراب کو بہانے کا حکم دیا گیا ہے ] جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شراب کی حقیقت کو بدلنے سے وہ پاک نہیں ہوتا ہے ، اور نہ ہی وہ کسی بھی حال میں کسی انسان کا مال بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اور یہی حضرت عمر بن خطاب - رضی الله عنه - کا قول ہے ، اور اسی کو امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے اختیار کیا ہے ۔
دوسری بات : جب شراب خود سرکہ بن جائے تو اس کا استعمال جائز ہوگا ، اس مسئلہ کی دلیل وہ حدیث ہے( جلد کا نمبر 22، صفحہ 123)جس کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں "کتاب الاشربۃ " کے اندر " باب فضل الخل " کے عنوان کے تحت ، اور امام ترمذي نے اپنی جامع میں کتاب الاطعمۃ کے اندر " باب في الخل " کے تحت ، اور امام نسائی نے کتاب الایمان میں ، اور امام ابن ماجہ نے کتاب الاطعمہ کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے کہ حضوراکرم - صلى الله عليه وسلم - نے فرمایا : سِرکہ کتناہی بہتر [ لذیذ ] سالن ہے ! اور اس حدیث کا عمومی مفہوم پہلی بات کے تحت ذکر کی ہوئی حدیث کے مفہوم کو خاص کردیتا ہے ، اور امام مالک ۔ رحمہ اللہ ۔ نے کہا کہ میں یہ پسند نہیں کرتا ہوں کہ کسی مسلمان کو وراثت میں شراب ملے اور اس کو وہ اپنے پاس رکھـ کر سرکہ بنالے ، لیکن جب شراب خراب ہوکر خود سرکہ بن جائے ، تو میں نہیں سمجھتا کہ اس کے کھانے میں کوئی حرج ہے ۔ ختمتيسری بات : جب سرکے کی اصل حقیقت شراب نہ ہو ، تو اس کےحلال ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، اس لئے کہ ہر کھٹّے جوس یا شربت کو سرکہ کہا جاتا ہے ۔وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
1 ممبر 2 ممبر 3 نائب صدر 4 صدر:
1 عبد اللہ بن قعود 2 عبد اللہ بن غدیان 3 عبدالرزاق عفیفی 4 عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
http://alifta.com/Fatawa/fatawaChapters.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=8420&PageNo=1&BookID=3
Sunnan e Nisai # 5713
صحیح الاسنادہ
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيذُ الَّذِي يَشْرَبُهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَدْ خُلِّلَ ، وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى صِحَّةِ هَذَا حَدِيثُ السَّائِبِ.
نبیذ جسے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پیا کرتے تھے، وہ سرکہ ہوتا تھا ۔ اس کی صحت پر سائب کی یہ حدیث دلیل ہے۔
Sunnan e Ibn e Maja # 3460
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَتْنِي رُمَيْثَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَعْجِزُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ تَتَّخِذَ كُلَّ عَامٍ مِنْ جِلْدِ أُضْحِيَّتِهَا سِقَاءً، ثُمَّ قَالَتْ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ يُنْبَذَ فِي الْجَرِّ وَفِي كَذَا وَفِي كَذَا، إِلَّا الْخَلَّ .
انہوں نے سوال کیا: کیا تم میں سے کوئی عورت اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ہر سال اپنی قربانی کے جانور کی کھال سے ایک مشک تیار کرے؟ پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کے روغنی گھڑے میں نبیذ تیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اور فلاں فلاں برتن میں بھی، البتہ ان میں سرکہ بنایا جا سکتا ہے۔
Sunnan e Abu Dawood 3821
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نِعْمَ الْإِدَامُ الْخَلُّ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرکہ کیا ہی اچھا سالن ہے ۔
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض
نبی اکرم نے کتے کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے جبکہ فقہ حنفی میں جائز لکھا ہے ؟
اہل سنت حنفی : جواب ؛
دھوکہ نہ دو محترم
ہم بھی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کی بیع سے منع فرمایا ہے لیکن سوائے شکاری کتوں کے
غیر مقلد علامہ البانی نے حدیث بیان کی اور صحیح کہا ہے کہ شکاری کتوں کی خریدو فروخت جائز ہے
Al-Silsila-Tus-Sahiha# 1242
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ ؓ عَنِ النَّبِىِّ ﷺ قَالَ: «ثَلاَثٌ كُلُّهُنَّ سُحْتٌ كَسْبُ الْحَجَّامِ وَمَهْرُ الْبَغِىِّ وَثَمَنُ الْكَلْبِ إِلاَّ الْكَلْبَ الضَّارِىَّ».
ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے كہ نبی ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں مكمل طور پر حرام ہیں۔ حجام (سینگی لگانے والے) كی كمائی، زانیہ كی كمائی اور كتے كی قیمت سوائے شکاری کتے کے۔
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض:۔
فقہ کی کتاب چلپی حاشیہ شرح وقایہ چھاپہ نو لکشور کے صفحہ ۲۹ میں محیط سے نقل کرکے لکھا ہے کہ خرچی عورت زانیہ کی امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک حلال طیب ہے۔
اہل سنت حنفی : جواب:۔
یہ بھی بہتان ہے کہ بلکہ سب دینی کتابوں میں لکھا ہے کہ بالاتفاق زانیہ کا مہر حرام ہے معترض کو اگر عربی فارسی کتابوں کے دیکھنے کی دسترس نہیں تو ترجمہ مشارق الانوار مترجم مولوی خرم علی موحد ہی دکھ لیوے کہ کہتے ہیں کہ خرچی زانیہ کی چاروں اماموں کے نزدیک بالاتفاق حرام ہے۔ اور چلپی میں جو محیط سے حلال ہونا لکھا ہے تو ہو خرچی مقررہ زانیہ کی بابت نہیں ہے وہ تو یوں ہے کہ زانی نے زانیہ سے کچھ مقرر نہیں کیا۔ اور بالا شرط دے دیا ہے تو گو یا یہ مہر البغی نہ ٹھہرا کیوں کہ مہر تو مقرر کا نام ہے اس لیے اس کو مباح لکھا ہے اس پر بھی بہت سے معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بھی حلال نہیں کہ معروف مثل مشروط کے ہے۔ جیسا کہ صاحب در مختار منتقی میں اور سید احمد طحاوی حاشیہ درمختار میں اور علامہ سید ابن عابدین رد المختار میں لکھتے ہیں۔ پس ضعیف غیر مفتی بہ کو امام صاحب کی طرف منسوب کرکے اس پر طعن کرنا منتقم حقیقی کے غضب میں پڑنا ہے۔
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض ؛
حدیث ہے شوال کے 6 روزے رکھنا افضل ہے لیکن حنفی فقہ میں امام ابو حنیفہ کا قول لکھا ہے کہ شوال کے 6 روزے رکھنا مکروہ ہے ۔؟
اہل سنت حنفی : جواب ؛
امام ابو حنیفہ کا قول پیش کرنا تمہارا صرف امام دشمنی ہے ورنہ احناف کا عمل شوال کے روزوں کے معاملہ میں حدیث پر ہے
اور امام دشمن بے دین ہوتا ہے حوالہ دیکھیے صحیح مسلم 103
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض ؛
حدیث میں ہے ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا جبکہ فقہ حنفی میں ہے ولی کے بغیر عورت کی مرضی سے نکاح ہوجاتا ہے ؟
اہل سنت حنفی : جواب ؛
آپ حدیث سے بھی نا واقف ہیں ہماری دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے
Sahih Muslim # 3476
بغیر ولی نکاح
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: قُلْتُ لِمَالِكٍ: حَدَّثَكَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا»؟ قَالَ: نَعَمْ
سعید بن منصور اور قتیبہ بن سعید نے کہا: ہم سے امام مالک نے حدیث بیان کی۔ یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: میں نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: کیا آپ کو عبداللہ بن فضل نے نافع بن جبیر کے واسطے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت کا شوہر نہ رہا ہو وہ اپنے ولی کی نسبت اپنے بارے میں زیادہ حق رکھتی ہے، اور کنواری سے اس کے ( نکاح کے ) بارے میں اجازت لی جائے اور اس کا خاموش رہنا اس کی اجازت ہے ؟ تو امام مالک نے جواب دیا: ہاں
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض ؛
ابو حنیفہ کے نذدیک گندم جو اور جوار کی شراب حلال ہے ؟
اہل سنت حنفی : جواب ؛
شراب عربی لفظ کی معنی شربت یا مشروب ہے اور فقہ حنفی کی تفصیلات پڑھنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسا شربت پینا ان چیزوں کا جو نشہ آور نہ ہو جائز ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبیذ پیا کرتے تھے جب تک نشہ آور نہ ہوجاتا اور جب دیکھتے کہ نشہ آور ہوگیا ہے تو ضایع کرا دیتے
صحیح مسلم حدیث نمبر 5207
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَيْتُكُمْ عَنْ النَّبِيذِ إِلَّا فِي سِقَاءٍ فَاشْرَبُوا فِي الْأَسْقِيَةِ كُلِّهَا وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا
اور فقہ حنفی میں امام کا قول موجود ہے تمام نشہ آور چیزیں جب ان میں نشہ پیدا ہوجائے حرام ہیں
1علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں:۔
”فالنبد ھو ماء الشعر ماذا طبخ بالزید عن ابی حنیفہؒ وابی یوسف بحل شربہ للتدلوی التقوی الا المحدی المسکر“(بنایہ شرح ہدایہ جلد ۲ ص۷۰۵، ۷۰۴ مطبوعہ ملک سنز فیصل آباد)
کھجور کے پانی کو معمولی جوش دیا جائے تو یہ نبیذ ہے فقہاء احنا ف کے قول کے مطابق اس کا پینا جائز ہے۔ بشرطیکہ یہ میٹھا ہو جائے اور جب یہ گاڑھا ہو جائے اور جھاگ چھوڑ دے ۔ تو امام اوب حنیفہؒ اور امام یوسفؒ سے روایت ہے کہ دوا اور طاقت حاصل کرنے کیلئے اس کا پینا جائز ہے البتہ اگر یہ نشہ آور ہو تو اس کا پینا جائز نہیں۔
2 علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:۔
”وروایۃ عبدالعزیز عن ابی حنیفہ و سفیان النجما مثلا فیمن شرب البنج فار تفع الٰی راسہ وطلن امراتہ ھل یقع قالا ان کان یعلمہ حین شریہ ما ھو یقع (فتح القدیر شرح ہدایہ ج۵ ص۸۲ مطبوعہ کمتبہ نوریہ رضویہ سکھر)
عبدالعزیز نے بیان کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ اور مفتیان سےسوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص بھنگ کے نشہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے تو کیا اس کی طلاق واقع ہو جائے گی؟ امام ابو حنیفہؒ اور مفتیان نے کہا اگر بھنگ پیتے وقت اس کو بھنگ کا علم تھا اس کی طلاق ہو جائے گی.
3 امام محمد بن حسن شیبانی لکھتے ہیں۔
”نری الحد علی المسکران من نبید کان اوغیرہ لعانیں جلد ہ بالسوط الی فولہ وھو قول ابی حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی “ (کتاب الآثار ص۱۳۷ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی)
جس شخص کو نبیذیا کسی اور مشروب سے نشہ ہو جائے تو ہماری رائے میں اس کو اسی کوڑے حد لگائی جائے گی۔ اور یہی امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے۔
4 حنفی مذہب میں تو حد لگانا لازم ہے۔
۱۔ علامہ ابن عابد شای حنفی لکھتے ہیں:۔
ای شراب کان غیر خمر اذا شربہ لا یحد الااذا سکریہ
خمر کے علاوہ کسی شراب کو بھی پیا جائے اس سے حد لازم نہیں ہو گی البتہ اگر اسس سے نشہ ہو جائے تو حد لامز ہو جائے گی ۔(رد المختار ج۳ ص۲۲۵ مطبوعہ عثمانیہ استنبول)
۲۔ قدوری مترجم ص۳۱۸ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی میں ہے۔
شراب اور نشہ کی حد ازاد کے لئے اسی کو ڑے ہیں۔
۳۔ احسن المسائل ترجمہ کنزا الدقائق مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۸۲ میں ہے۔
اور نشہ کی سزا (خواہ کوئی شراب پینے سے نشہ ہو ا ہو ) اور انگوری شراب پینے کی جلد اگر شہ ایک ہی قطرہ پیا ہو (ہمارے نزدیک ) اسی کوڑے ہیں۔
۴۔ اشرف الوقایہ ترجمہ شرح وقایہ ص۲۳۱ جلد دوم مطبوعہ میر محمد کراچی میں ہے شراب کی حد حد قدف کی طرح ہے یعنی آزاد شخص کے واسطے اسی کوڑے اور غلام کے لئے نصف ۔
۵۔ ہدایہ میں ہے۔
اور آزاد کے حق میں شراب نوشی کی سز اسی کوڑے ہیں اور اس کی تعین صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہے۔
۶۔ فتاویٰ ہندیہ ترجمہ فتایٰ عالمگیری جلد ۳ ص۲۸۵ مترجم سید امیر علی غیرمقلد مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی لاہور میں ہے۔
سکر و خمر کی حد اگر چہ ایک ہی قطرہ پیا ہو اسی کوڑے ہیں یہ کنز میں ہے۔
غیرمقلدین کا مذہب پہلا مسئلہ جو روٹی شراب ملا کر پکائی جائے اس کا کھانا درست ہو گا جن ادویہ میں شراب کی روح یعنی الکحل شریک ہوتی ہے اس کا بھی استعمال درست ہو گا ہمارے علماء اہل حدیث میں سے مفتی مصر نے ایسا ہی فتویٰ دیا ہے۔( لغات الحدیث جلد ۱ ص۶۰ )
دوسرا مسئلہ :۔ کپڑے یا جسم ممیں شراب لگ جائے تو دھونے کی ضرورت نہیں کیونکہ شراب نجس نہیں ہے۔(لغات الحدیث جلد ۶ ص۸)
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض ؛
نبی نے شراب کا سرکہ بنانے سے منع کیا اور فقہ حنفی میں لکھا ہے کہ شراب کا سرکہ حلال ہے بلکہ مکروہ بھی نہیں
اہل سنت حنفی : جواب ؛
برائے مھربانی امت کو گمراہ نہ کیجئے دھوکہ دینا کہاں کی دینداری ہے ؟
امام ابو حنیفہ کے نذدیک شراب کا سرکہ تب جائز ہے جب وہ خود ہی سرکہ بن جائے کیونکہ جب شراب خود ہی سرکہ بن جائے تو وہ نہ شراب رہتی ہے اور نہ نشہ آور ۔
سعودیہ دائمی کمیٹی کے فتوے
سوال نمبر:3429س 3: ہم میں سے بہت سے لوگ سرکے کو مسئلے کو لیکر حیرت میں مبتلا ہیں، واضح رہے کہ ہمارے یہاں الجزائر( الجيريا )( جلد کا نمبر 22، صفحہ 122)میں الکحل کے کئی درجات ہیں ، اور ہم یہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے؟ تو کیا الکحل کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے اس کا حکم حرام تو نہیں ہوجاتا ہے؟ اور یہاں ہمارا مقصود سرکے کو پینا نہیں ہے ، بلکہ مختلف کھانوں کےساتھ جیسے سلاد كے پتے وغیرہ کے ساتھ اس کا استعمال کرنا ہے ، تو کیا سرکے کے اس میں ہونے کی وجہ سے اس کو کھایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ج 3: پہلی بات: جب سرکے کی اصل حقیقت ہی شراب ہو ، اور کسی انسان کى طرف سے اس شراب کو سرکہ بنالیا گیا ہو ، تو اس کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کو امام مسلم نے اپنی صحیح کے اندر " کتاب الأشربة " کے عنوان کے تحت ، اور امام ترمذی نے اپنی جامع میں کتاب البیوع کے اندر ، اور امام ابو داود نے اپنی سنن میں کتاب الاشربہ کے اندر ذکر کیا ہے، کہ حضرت ابوطلحہ نے حضوراکرم - صلى الله عليه وسلم - سے یتیموں کو وراثت میں ملی ہوئى شراب کے بارے میں دریافت کیا ، تو آپ نے فرمایا : اس کو بہادو [ پھینک دو ] : تو انہوں نے کہا : کیا میں اس کو سِرکہ نہیں بنا سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں
علامہ ابن قیم - رحمه الله تعالى - نے کہا کہ اس حدیث میں اس بات کی صاف وضاحت ہے کہ شراب کو سرکہ بنانا جائز نہیں ہے ، اور اگر شراب کو سرکہ بنانے کا کوئی راستہ ہوتا ، تو یتیم کا مال اس کا زیادہ حقدار ہوتا ، اس لئے کہ یتیم کے مال کی حفاظت ، اس کی سرمایہ کاری ، اور اس کے سلسلے میں مکمل احتیاط کرنا واجب ہے ۔ اور آپ - صلى الله عليه وسلم - نے اپنی دولت کو بیکار ضائع کرنے سے منع کیا تھا ، اور شراب کو بَہادینے میں اس کو بیکار ضائع کرنا ہی ہے ، [ پھر بھی شراب کو بہانے کا حکم دیا گیا ہے ] جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شراب کی حقیقت کو بدلنے سے وہ پاک نہیں ہوتا ہے ، اور نہ ہی وہ کسی بھی حال میں کسی انسان کا مال بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اور یہی حضرت عمر بن خطاب - رضی الله عنه - کا قول ہے ، اور اسی کو امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے اختیار کیا ہے ۔
دوسری بات : جب شراب خود سرکہ بن جائے تو اس کا استعمال جائز ہوگا ، اس مسئلہ کی دلیل وہ حدیث ہے( جلد کا نمبر 22، صفحہ 123)جس کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں "کتاب الاشربۃ " کے اندر " باب فضل الخل " کے عنوان کے تحت ، اور امام ترمذي نے اپنی جامع میں کتاب الاطعمۃ کے اندر " باب في الخل " کے تحت ، اور امام نسائی نے کتاب الایمان میں ، اور امام ابن ماجہ نے کتاب الاطعمہ کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے کہ حضوراکرم - صلى الله عليه وسلم - نے فرمایا : سِرکہ کتناہی بہتر [ لذیذ ] سالن ہے ! اور اس حدیث کا عمومی مفہوم پہلی بات کے تحت ذکر کی ہوئی حدیث کے مفہوم کو خاص کردیتا ہے ، اور امام مالک ۔ رحمہ اللہ ۔ نے کہا کہ میں یہ پسند نہیں کرتا ہوں کہ کسی مسلمان کو وراثت میں شراب ملے اور اس کو وہ اپنے پاس رکھـ کر سرکہ بنالے ، لیکن جب شراب خراب ہوکر خود سرکہ بن جائے ، تو میں نہیں سمجھتا کہ اس کے کھانے میں کوئی حرج ہے ۔ ختمتيسری بات : جب سرکے کی اصل حقیقت شراب نہ ہو ، تو اس کےحلال ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، اس لئے کہ ہر کھٹّے جوس یا شربت کو سرکہ کہا جاتا ہے ۔وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
1 ممبر 2 ممبر 3 نائب صدر 4 صدر:
1 عبد اللہ بن قعود 2 عبد اللہ بن غدیان 3 عبدالرزاق عفیفی 4 عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
http://alifta.com/Fatawa/fatawaChapters.aspx?languagename=ur&View=Page&PageID=8420&PageNo=1&BookID=3
Sunnan e Nisai # 5713
صحیح الاسنادہ
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيذُ الَّذِي يَشْرَبُهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَدْ خُلِّلَ ، وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى صِحَّةِ هَذَا حَدِيثُ السَّائِبِ.
نبیذ جسے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پیا کرتے تھے، وہ سرکہ ہوتا تھا ۔ اس کی صحت پر سائب کی یہ حدیث دلیل ہے۔
Sunnan e Ibn e Maja # 3460
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَتْنِي رُمَيْثَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَعْجِزُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ تَتَّخِذَ كُلَّ عَامٍ مِنْ جِلْدِ أُضْحِيَّتِهَا سِقَاءً، ثُمَّ قَالَتْ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنْ يُنْبَذَ فِي الْجَرِّ وَفِي كَذَا وَفِي كَذَا، إِلَّا الْخَلَّ .
انہوں نے سوال کیا: کیا تم میں سے کوئی عورت اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ہر سال اپنی قربانی کے جانور کی کھال سے ایک مشک تیار کرے؟ پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کے روغنی گھڑے میں نبیذ تیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اور فلاں فلاں برتن میں بھی، البتہ ان میں سرکہ بنایا جا سکتا ہے۔
Sunnan e Abu Dawood 3821
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نِعْمَ الْإِدَامُ الْخَلُّ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرکہ کیا ہی اچھا سالن ہے ۔
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض
نبی اکرم نے کتے کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے جبکہ فقہ حنفی میں جائز لکھا ہے ؟
اہل سنت حنفی : جواب ؛
دھوکہ نہ دو محترم
ہم بھی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کی بیع سے منع فرمایا ہے لیکن سوائے شکاری کتوں کے
غیر مقلد علامہ البانی نے حدیث بیان کی اور صحیح کہا ہے کہ شکاری کتوں کی خریدو فروخت جائز ہے
Al-Silsila-Tus-Sahiha# 1242
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ ؓ عَنِ النَّبِىِّ ﷺ قَالَ: «ثَلاَثٌ كُلُّهُنَّ سُحْتٌ كَسْبُ الْحَجَّامِ وَمَهْرُ الْبَغِىِّ وَثَمَنُ الْكَلْبِ إِلاَّ الْكَلْبَ الضَّارِىَّ».
ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے كہ نبی ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں مكمل طور پر حرام ہیں۔ حجام (سینگی لگانے والے) كی كمائی، زانیہ كی كمائی اور كتے كی قیمت سوائے شکاری کتے کے۔
اہل حدیث غیر کا مقلد : اعتراض:۔
فقہ کی کتاب چلپی حاشیہ شرح وقایہ چھاپہ نو لکشور کے صفحہ ۲۹ میں محیط سے نقل کرکے لکھا ہے کہ خرچی عورت زانیہ کی امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک حلال طیب ہے۔
اہل سنت حنفی : جواب:۔
یہ بھی بہتان ہے کہ بلکہ سب دینی کتابوں میں لکھا ہے کہ بالاتفاق زانیہ کا مہر حرام ہے معترض کو اگر عربی فارسی کتابوں کے دیکھنے کی دسترس نہیں تو ترجمہ مشارق الانوار مترجم مولوی خرم علی موحد ہی دکھ لیوے کہ کہتے ہیں کہ خرچی زانیہ کی چاروں اماموں کے نزدیک بالاتفاق حرام ہے۔ اور چلپی میں جو محیط سے حلال ہونا لکھا ہے تو ہو خرچی مقررہ زانیہ کی بابت نہیں ہے وہ تو یوں ہے کہ زانی نے زانیہ سے کچھ مقرر نہیں کیا۔ اور بالا شرط دے دیا ہے تو گو یا یہ مہر البغی نہ ٹھہرا کیوں کہ مہر تو مقرر کا نام ہے اس لیے اس کو مباح لکھا ہے اس پر بھی بہت سے معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بھی حلال نہیں کہ معروف مثل مشروط کے ہے۔ جیسا کہ صاحب در مختار منتقی میں اور سید احمد طحاوی حاشیہ درمختار میں اور علامہ سید ابن عابدین رد المختار میں لکھتے ہیں۔ پس ضعیف غیر مفتی بہ کو امام صاحب کی طرف منسوب کرکے اس پر طعن کرنا منتقم حقیقی کے غضب میں پڑنا ہے۔
No comments:
Post a Comment