Monday, 20 August 2018

حدیث کے بارے میں کسی خاص موضوع پر بحث(Discussion)کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ حدیث کسے کہتے ہیں

حدیث کے بارے میں کسی خاص موضوع پر بحث(Discussion)کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ حدیث کسے کہتے ہیں اور اس سے کیا مراد ہے،اس کے لفظی معنی کیا ہیں،دور اول میں اس سے کیا مراد لی جاتی تھی،دور آخر میں اس کے اصطلاحی معنی کیا رہے ہیں اور علومِ اسلامی میں حدیث کو ہر دور میں کیا اہمیت حاصل رہی ہے؟
حدیث کی اہمیت
قانونِ اسلامی کے مآخذ کی حیثیت سے لفظِ حدیث علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، اسلام میں اسے ہمیشہ اساسی اہمیت حاصل رہی ہے اور اس موضوع پر دور قدیم اور دور جدیدمیں خاصا کام ہوا ہے، کام کی وسعت اور تالیفات کی کثرت پتہ دیتی ہے کہ علومِ اسلامی میں حدیث کی طرف ہی رجوع کیا جاتا ہے اور فقہ کی سند حدیث سے ہی لی جاتی ہے اور حق یہ ہے کہ اسے جانے بغیر اسلام کا کوئی موضوع مکمل نہیں ہوتا۔
حدیث سے مراد
حضورؐ کی تعلیمات (قولی،فعلی اور تقریری)از روئے بیان کے ہوں تو حدیث ہے اور از روئے عمل کے ہوں تو سنت کہلاتی ہیں۔
(تقریری:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےکسی صحابی نے کچھ کیا یا کہااور آپ نے اس پرسکوت فرمایا نکیر نہ کی اور اس سے یہی سمجھا گیاکہ اس عمل یا قول کی حضورﷺ نے تصدیق فرمادی ہے تواسی تصدیق کو "تقریر" confirmationکہتے ہیں اور آپ کی یہ تصدیق تقریری صورت کہلاتی ہے،یہ تقریری حدیث ہے)
حدیث میں بیان کی نسبت غالب ہے اور سنت میں عمل کی نسبت غالب ہے، صحابہ کرامؓ جب اس طریق کی نشاندہی کرتے تھے جس پر حضور اکرمﷺ نے انہیں قائم کیا تو کہتے تھے:
"سَنَّ رَسُولُ اللَّهِﷺ"۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ،حدیث نمبر:۴۱۵)
ترجمہ: حضورؐ نے اس امر کو ہمارے لیے راہ عمل بنایا ہے۔
اور جب وہ حضورﷺ کی بات کو نقل کرتے تو کہتے تھے :
"حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"۔
(بخاری، بَاب رَفْعِ الْأَمَانَةِ،حدیث نمبر:۶۰۱۶)
حضورؐ نے اسے ہمارے لیے بیان کیا۔
پس حدیث حضور اکرمﷺ کی تعلیمات کا بیان ہوا،سنت میں نسبت عمل اور حدیث میں نسبت بیان ممتاز رہی۔
(تنویرالحوالک:۱/۴")

حدیث وقدیم کا فرق
عربی میں لفظ حدیث قدیم کے مقابلہ میں بھی ہے،قدیم پُرانے کو کہتے ہیں، اسلامی عقیدے میں قرآن پاک کلام الہٰی ہے جو اللہ تعالی کی صفت ہے اور کلام قدیم ہے یہ مخلوقCREATEDنہیں،لیکن حضور اکرمﷺ کا کلام حدیث ہے قدیم نہیں، آپﷺ بھی اللہ کے بندے اور اس کی مخلوق ہیں، آپ کی ذات حادث ہے قدیم نہیں،ذات قدیم کا کلام قدیم ہوگا اور ذات حادث کے کلام کو حدیث کہتے ہیں، قرآن پاک کا غیر مخلوق ہونا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے،سو ضروری تھا کہ علم اسلامی کا دوسرا سر چشمہ حدیث کہلائے، تاکہ کلامِ خالق اور کلام ِمخلوق میں اصولی فرق عنوان میں بھی باقی رہے۔

Talb E dua
Aaqibul islam

No comments:

Post a Comment