Thursday, 27 September 2018

مودودیت (جماعت اسلامی) کیاچیز ہے*

🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم🌹
*رد ِّمودودیت*

*مودودیت کاتعارف*
  مودودی لٹریچرپرنظردالیں
قرآن وحدیث کی تشریح مودودی صاحب نے عقل کونقل پرجگہ جگہ ترجی دی ہے پہلے اپنانصب العین اورنظریہ متعین کیاہے پھرآیات سے زبردستی اس کوثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اولین درجہ حکومت الٰہیہ کے قیام کوحاصل ہے
مودودی صاحب کی کتاب قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں ذراکھولیں جوانکی اپنی تحریک کیلیے بنیادی حیثیت رکھتی ہےاورجواپنے منصوبہ حکومت الٰہیہ کاقیام  کے تحت عوام کی ذہن سازی کے لیے تفہیم القرآن کی تصنیف سے پہلے لکھی تھی اسمیں توالفاظ کی ایسی تشریح ہےکہ بقول مودودی صاحب ان کی تشریح کے بغیرقرآن کی تین چوتھائ سے زیادہ تعلیم پردہ خفامیں رہی گویاعلماء امت بھی پتہ نہ لگاسکے یاان صدیوں میں ملت اسلامیہ ایسی شخصیتوں سےبانجھ رہی

چنانچہ مودودی صاحب لکھتے ہیں
پس یہ حقیقت ہے کہ محض ان چاربنیادی اصطلاحوں (الٰہ رب  عبادت دین)  کےمفہوم پرپردہ پڑجانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائ سے زیادہ تعلیم بلکہ اسکی حقیقی روح نگاہوں سے مستور ہوگئ 

(قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں صفہ نمبر ۶)

یہ خوش فہمی اورعقل پرستی نہیں تواورکیاہے؟
دوسرے فرقوں کی طرح قرآن پاک میں رائےزنی کی ہے اس طرح مودودیت کے ڈانڈے معتزلہ اورخوارج سے مل جاتے ہیں
اور مودودیت میں شیعیت کی جھلک دیکھنی ہوتو خلافت وملوکیت کوپڑھ لو جس میں مودودی صاحب نے حضرت عثمان غنی( رض) اور حضرت معاویہ( رض) کی شخصیت کومجروح کرنے والی رویات کوخوب نمایاں کیاہے
بلکہ حضرت امیرمعاویہ (رض)پر خیانت وغیرہ کے الزامات بھی لگائے ہیں اس کتاب  کے وجودمیں آنے پرشیعوں نے خوب بغلیں بجائیں کہ ہم بھی یہ کہتے ہیں
بہر حال مدودیت خارجیت شیعیت اور اعتزال کامسموم معجون مرکب ہے


*مودودیت (جماعت اسلامی) کیاچیز ہے*

جناب ابوالاعلٰی مودودی صاحب نے دین کی جوتفہیم وتشریح کی ہے اس کو علماءراسخین نے (نیااسلام) نام دیاہے عام طورپرلوگ علماءکرام کی اس بات کواچھی طرح سمجھ نہیں پاتے اس لیے گزارش ہے کہ جس طرح وسیع معاملہ کےلیے ایک محوری نقطہ    ہوتاہے جس کےاردگردتمام تفضیلات گھومتی ہیں اسی طرح دین اسلام کابھی ایک  مرکزی نقطہ ہے جواس کے تمام اعمال میں ملحوظ ہے اب سوال پیدا ہوتاہے کہ وہ مرکزی نقطہ کیاہے؟

قرآن وحدیث کی بے شمارنصوص سے صاف طورپر یہ بات ثابت ہے کہ تمام دینی معاملات کامحور رضائے خداوندی ہے 
مگرمودودی صاحب کےنزدیک دین اسلام اعمال شریعت کا    قطب الرحٰی (چکی کاکیلا یعنی محور اور بنیادی وجہ) اقامت دین اور حکومت الٰہیہ ہے جوچیز دین کی ایک شاخ تھی مودودی صاحب نے اس کو دین کی بنیاد بنادیا جس کانتیجہ یہ نکلاکہ تمام اعمال شریعت کامحور بجائے رضائے الٰہی کے سیاست ہوگیا چنانچہ نماز کی غایت ان کے نزدیک فوجی ٹرنینگ  زکوٰة کامقصد حاصلات  روزے کی علت فوجی جفاکشی کی مشق حج کاروحانی اجتماع انٹرنیشنل کانفرنس  اور ارکان اربعہ کامجموعہ ٹرنینگ کورس ہوگیا اور تمام وہ مومنین بلکہ انبیاءکرام علیہم الصلٰوة والسلام جن کے لیے اقامت دین اورحکومت الٰہیہ مقدرنہیں تھی مودودی صاحب کوایک ناکام انسان اور ناکام پیغمبر نظرآنے لگے اسی کانام ہے مودودی صاحب کانیااسلام 

(مودودی صاحب کا صلی چہرہ صفہ نمبر  ۳۸۵   ۳۸۶)

 *مودودی کاتعارف پیش کرتے ہیں*

مودودی صاحب کانام ابوالاعلٰی ہے مودودی صاحب کی  پیدائش  ۱۳۲۱ مطابق ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ کو  اورنگ آباد (مہاراشٹر) میں ہوئ والد کانام سید احمد حسن مودودی تھا   مودودی صاحب کاابوالا علٰے اصلی نام ہے کنیت نہیں ہے  چنانچہ مودودی صاحب خود لکھتے ہیں کہ

ابوالاعلٰے کوئ لقب نہیں ہے جسے میں نے خوداختیارکیاہو بلکہ یہ میرانام ہے جووالدمحترم نے پیدائش کے وقت رکھاتھامیرے خاندان کے سب سے پہلے بزرگ جوسنکدر لودہی  کےعہد مین ہندوستان آئے تھے ان کایہی نام تھااورمیرےوالد مرحوم نے تبرکاً ان کے نام پررکھاتھا 

( مکاتیب سید ابوالاعلٰے مودودی  ج ۱ صفہ ۱۷۵)

پروفیسرعمرحیات خان غوری کاکہناہے کہ مولانا کی پیدئش سے تین سال قبل ان کے والد صاحب کوبھی ایک بزرگ نے پشین گوئ سنائ تھی اورکہا تھا کہ اس بچہ کانام ابوالاعلٰے رکھنا والد کی خواہش تھی کہ آپ کومولوی بنائیں چنانچہ تعلیم وتربیت کاخاص خیال رکھا اور فارسی عربی فقہ اور حدیث کی تعلیم شروع کردی فاضل اوقات میں اپنے ساتھ رکھتے اپنے احباب میں لیجاتے راتوں انبیاء کے قصّے بزرگان دین کے حالات اوراسلامی تاریخ کی کہانیا سناتے
( اقبال اور مودودی کاتقابلی مطالعہ صفہ ۴۱)

مودودی صاحب  جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس مورث اعلی حضرت خواجہ  قطب الدین مودود چشتی ہروی (متوفی ۵۲۷ ھ) ہیں جوخواجہ معین الدین چشتی اجمیری کےداداپیر تھے
یہ بزرگ خواجہ. ودود چشتی سلسلہ کے تیرھویں بزرگ  ہیں اور خواجہ اجمیری سولہویں بزرگ ہیں  تفصیل کے لئے تاریخ مشائخ چشت دیکھ لیں

مودودی صاحب کےوالد سید احمدحسن مودودی اورنگ آباد میں وکالت کرتےتھے اسی زمانے مین مودودی نے

وہاں جنم لیا ورنہ اصلا دہلی کے تھے حتی کہ ددجیال ننھیال  بلکہ سسرال بھی دہلی میں تھی چنانچہ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں  کہ میری ددھیال ننھیال سسرال دہلی میں  ہے

 ( مکاتیب سید ابوالاعلے مودودی ج ۱   صفہ ۱۹۱)

 مسلم یونیورسٹی علیگھڑ کے بانی سرسید احمد خان سے  بھی مودودی صاحب کی قرابت ہے مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ سرسید خان  ایک قریبی رشتہ سے میری دادی کے بھائ ہوتے تھے میرےوالد ان کے بھانجے تھے

 ( مکاتیب سید ابوالاعلے مودودی  ج۲  صفہ ۳۴۹)

 بچپن کےسلسلہ میں مودودی صاحب کی کہانی خود کی زبانی 
میرا بچپن ریاست حیدرآباد کےمشہور شہراورنگ آباد میں گزرا ہے میراخاندان تو دہلی کاتھالیکن میرے والد مرحوم دہلی سے اورنگ آباد چلے گئے تھے  اس وجہ سے میری زندگی کے ابتدائ ۱۳ یا۱۴ سال اورنگ آباد ہی میں بسر ہوئے
پچپن کی یادیں
کہتے ہین کہ مجھیے اپنی چھوٹی عمر کی باتیں ابھی تک  یاد ہیں  مجھے وہ اپنی حیرت اب تک یاد ہے  جو مجھے پہلی مرتبہ یہ سن کر ہوئ تھی کہ ابا کے ابا کو دادا اور اباکی امی کو دادی کہتے ہیں 😃 میرادل کسی طرح یقین کرنے  کوتیار نہ تھا  ابابھی کسی کے بیٹے ہوسکتے ہیں؟ اور نہ مین یہ تصورکرسکتاتھا میرے والد صاحب بھی  میر طرح کسی کے بچہ ہوسکتےہیں   اس نئ معلوامات پر بہت دن تک غور کرتارہااوریہ بات بڑی تحقیق کے بعد میری سمجھ میں آئ کہ جتنے لوگ اب بوڑھے ہیں یہ سب  بھی بچے تھے اور ان کے بھی کوئ ماں باپ تھے

اس سے بھی چھوٹی عمر کاایک اور خیال مجھے اب تک یاد ہے میں ابااماں کے کوئ معنی نہیں جان تاتھا میری سمجھ میں کچھ نہیں آتاتھا کہ یہ کون لوغ ہیں اور میں ان کے پاس کیسے آگیاہوں البتہ یہ ضرور محسوس کرتاتھا کہ یہ ہیں بڑے اچھے لوغ والد کو دنیاں میں سب سے اچھاآدمی والدہ کو سب سے اچھی عورت سمجھتاتھا

*✍🏻 تعلیم*

میرے والد صاحب نے میری ابتدائ تعلیم کاانتظام گھرپرکیاتھا غالبًا وہ میری زبان کی حفاظت کےاور مجھ کوبری صحبتوں سے بچانے کے لیے مدرسے بھیجنانہیں چہاتے تھے گھر کی اس تعلیم میں مجھ کوبہت سے استاذوں سابقہ پیش آیا
بعذاستاذ ایسے جنھوں نے مجھے کند ذہن بنانے کی کوشش کی اور ان کے اثر سےمجھے خود اپنے  اوپر شک ہونے لگاکہ شاید میں کچھ پرھنے کی صالاحیت نہیں رکھتا    ( استاذوں کے بارے میں اورمدارس کے بارے مودودی کا تصور آپ نے اوپر دیکھ لیا تفصیل بعد میں)

بعض استاذوں نے مجھے اس سے زیادہ پرھانے کی کوشش کی  جتنا میں اپنی عمر کے لحاظ سے پڑھ سکتاتھا البتہ بعض استاذوں نے مجھے اچھی تعلیم دی پانچ چھ سال کی اس تعلیم میں مجھ کواتناعلم حاصل ہوگیاجتنادوسرے بچوں کو آٹھ سال میں ہوتاہے  بلکہ جب مجھ کوگیارہ سال کی عمر میں آٹھویں جماعت میں داخل کیاگیا تواکثرمضمونوں میں میری معلومات اپنے ہم جماعتوں سے زیادہ تھیں حالانکہ میں اپنی آٹھوی کلاس میں سب سے چھوٹی عمر کاطالب علم تھا
   
مودودی صاحب کےنزدیک بچہ کی بسم اللہ قاعدہ بغدادی سے کرانااورابتداءً  قرآن مجید  پڑھانا مسمانوں کی غلطی ہے بلکہ پہلے اردو پڑھایاجائے تاکہ قرآن مجید کاترجمہ سمجھ یہ غلطی مودودی صاحب کے گھروالوں نے بھی کی  جس کو مودودی صاحب یوں بیان کرتے ہیں
میری ابتدائ تعلیم میں ایک خرابی ایسی تھی جس کومیں نے بری طرح بعد میں محسوس کیا وہ خرابی یہ تھی کہ عام دستور کےمطابق  مجھے بھی سب سے پہلے بغدادی  قاعدہ پڑھاکرقرآن مجیدپڑھ وایاگیا  یہ غلطی عام طور پر مسلمان اس زمانے میں کرتے  ہیں اور آج تک کیے جارہے ہیں اس کانقصان یہ کہ بچہ دنیا کی ساری چیزیں سمجھ کرپڑھتاہے مگرصرف  قران ہی کت متعلق وہ خیال کرتاہے کہ یہ ایسی کتاب جسے سمجھنے کی ضرورت نہیں پس الفاط پڑھ لینے کافی ہیں
اس غلط طریقہ کی وجہ سے مجھے بے سمجھے قرآن پڑھ نے کی عادت پڑھ گئ تھی 
آگے چل جب میں نے عربی زبان پڑھ لی اس وقت بھی برسوں تک بغیر سمجھے قرآن پڑھتارہا   ۲۱ برس کی مجھے پہلی مرتبہ  اپنی اس غلطی کااحساس ہوا اور  میں نے قرآن کو سمجھنے کی کوشش شروع کی

(مولانامودودی سے ملیے خلاصہ از ۸۱ تا۸۸)

*✍🏻ترک تعلیم*

کچھ مجبوریوں کے باعث مودودی صاحب کاسلسلہ تعلیم زیادہ آگے نہ بڑھ سکابلکی عمر
کی بارہویں منزل میں تھے کہ سلسلہ تعلیم منقطع کرناپڑا
ان ہی کی جماعت کے ایک ترجمان ڈاکٹرسید انورعلی نے قدرے تفصیل سے یوں بیان کیاہے
ابتدائ تعلیم کاآغاز گھ پر ہی ہوامولوی ندیم اللہ حسینی کے مشورے سے انہیں مدرسہ فوقانیہ اورنگ آباد کی جماعت رشیدیہ (مڈل)میں داخلہ کردیاگیا (۱۹۱۴)میں مولوی کاامتحان سکنڈکلاس  میں پاس کیاکیوں کہ ریاضی میں بہت کمزورتھے اس کے بعد حیدرآباد میں مولوی عالم کے کلاس میں داخلہ لیالیکم چندماہ بعد سلسلہ تعلیم کواس وجہ سے خیر باد کہناپڑاکہ والدپرفالج کاحملہ ہواتھافورًا ہی اورنگ آباد سے بھوپال جاناپڑا 
(ردفتنہ مودودیت صفہ ۲۳    -۲۴)

مولوی کا امتحان جومودودی صاب نے پاس کیاہے یہ وہ اصطلاحی روایتی مولوی نہیں ہے جس نے باقاعدہ صحاح ستہ وغیرہ احادیث پڑھی ہوں بلکہ

خود موصوف کےاس سلسلہ میں الفاظ ہیں حیدرآباد میں اس وقت جونظام تعلیم رائج تھااس میں    رشدیہ    مڈل  کوکہتے ہیں اس کے بعد نویں دسویں جماعت کانام مولوی تھا جومیٹرک کے مساوی تھا اس میں مدارس یونیورسٹی کے میٹرک کے تمام مضامین اردومیں پڑھائے جاتے تھے اور اس کے علاوہ عربی ادب کی تعلیم دی جاتی تھی اور فقہ وحدیث اور منطق عربی میں پڑھائ جاتی تھی

 (مکاتیب مودودی ج۲    صفہ ۳۴۹)

انگریزی زبان
خلیل احمد الحامدی کابیان ہے کہ مودودی صاب نے دہلی میں رہتے ہوئے ایک استاذ کے پاس انگریزی صرف چار ماہ میں پڑھی
 مودودی صاحب خود بھی یہی لکھتے ہیں
میں نے انگریزی زبان ۱۵  ۱۶ سال کی عمر میں سیکھ لی تھی
اور ۲۲سال کی عمر میں اگریزی کتابوں کامطالعہ بڑی آسانی سے کرنے لگاتھا

 ( مکاتیب  ج۲ صفہ ۳)

No comments:

Post a Comment