Saturday, 29 September 2018

ترک رفع یدین کے دلائل قرآن و حدیث کی روشنی میں

ترک رفع یدین کے دلائل قرآن و حدیث کی روشنی میں ................

پہلی دلیل قرآن مجید سے ملاحظہ ہو

قدافلح المومنون الذین ھم فی صلوٰتہم خاشعون

بلا شبہ وہ مومن کامیاب ہوئے جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں ۔سورة المومنون پارہ 18

اس آیت کی تفسیر میں ترجمان القرآن رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباس رض فرماتے ہیں مخبتون متواضعون لا یلتفتون یمیناً ولاشمالاً ولا یرفعون ایدیہم فی الصلوٰة

ترجمہ ، عاجزی و تواضع کرنے والے نہ دائیں بائیں التفات کرتے اور نہ نماز میں رفع یدین کرتے ہیں
تفسیر ابن عباس ص 395 (تفسیر ابن عباس رض :ص212)

طرزاستدلال

آیت کریمہ کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رض صحابی رسول ﷺ فرماتے ہیں وہ مومن کامیاب ہیں جو نماز میں رفع یدین نہیں کرتے یعنی نماز کے اندر والی رفع یدین ( رکوع کو جاتے رکوع سے سراٹھاتے تیسری رکعت کی ابتداءمیں ) سے روکا جارہا ہے

حضرت عبد ا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ان آیات کی تفسیر میں ”لا یرفعون ایدیہم فی الصلوٰة [نہ ہی نمازمیں رفع یدین کرتے ہیں]کے واضح الفاظ موجود ہیں۔
لا یرفعون ایدیہم فی الصلوٰة“ کے الفاظ سے نمازکے اندر پائے جانے والے ہر رفع یدین کی نفی ہو جاتی ہے چاہے وہ رکوع سے پہلے کا ہو ، رکوع کے بعد کا ہو ، سجدوں کے وقت کا ہو یا تیسری رکعت کے شروع کا، الگ سے ہر ایک کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جیسے ”لَاالہ الا اللہ“ میں لَاسے ہر معبودِ باطل کی نفی ہو جاتی ہے چاہے وہ لات ہو یا عزی یا کوئی اور، ہر ایک کا ذکر ضروری نہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قد افلح المؤمنون الذین ھم فی صلوٰتھم خاشعون۔
(المؤمنون،۱،۲)
ترجمہ:تحقیق وہ ایمان والے کامیاب ہوگئے،جو اپنی نمازوں کو خشوع وخضوع سے ادا کرتے ہیں۔

محدثین کی وضاحت:
اس کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت امام حسن بصری رحمہ الله تابعی بیان کرتے ہیں:
’’خاشعون الذین لایرفعون ایدیھم فی الصلوٰۃ الا فی التکبیرۃ الاولیٰ‘‘ ۔(تفسیر سمر قندی ج۲ص۴۰۸)
ترجمہ:خشوع وخضوع کرنے والے وہ لوگ ہیں جو نماز کی ابتداء میں صرف ایک بار رفع یدین کرتے ہیں۔

یعنی بار بار رفع یدین کرنا نماز میں خشوع وخضوع کے منافی ہے اس لیئے صرف ایک بار شروع میں ہی رفع یدین کرنا چاہیئے۔ اس کے بعد رکوع وسجود کے وقت رفع یدین کرنا درست نہیں۔

ژ… امام بیہقی علیہ الرحمۃ رقمطراز ہیں:
جمیع ابواب الخشوع فی الصلوٰۃ والاقبال علیھا ۔قال اللہ جل ثناؤہ،قد افلح المؤمنون الذین ھم فی صلوٰتھم خاشعون…عن جابر بن سمرۃ…قال دخل علینا رسول اللہا ونحن رافعی ایدینا فی الصلوٰۃ فقال مالی اراکم رافعی ایدیکم کانھا اذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوٰۃ۔
(السنن الکبریٰ ج۲ص۲۸۰،۲۷۹)
ترجمہ:نماز میں خشوع وخضوع کرنے کا بیان۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: تحقیق وہ ایماندار فلاح پاگئے جو اپنی نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں…

سیدنا جابر بن سمرہ ص…بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے،اس حال میں کہ ہم نماز میں رفع یدین کررہے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں رفع یدین کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں،جیسے وحشی گھوڑے اپنی دمیں ہلاتے ہیں۔نماز سکون سے ادا کرو

ژ…شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
عدم رفع راجح ست بآں کہ وے از جنس سکون ست کہ مناسب ترست بحال صلوٰۃ کہ خضوع وخشوع است ۔
ترجمہ:رفع یدین نہ کرنا راجح ہے اور اس کا تعلق سکون سے جو نماز کے مناسب ہے کہ اس میں خضوع وخشوع ہونا چاہئیے۔(اشعۃ اللمعات ج۱ص۳۵۸)

ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ:
ژ… نماز میں صرف ایک مرتبہ ،شروع میں ہی رفع یدین کرنا چاہیئے۔
ژ… باربار رفع یدین کرنا نماز میں خشوع وخضوع اور سکون کے خلاف اور ناپسندیدہ ہے۔
ژ… اللہ تعالیٰ نے نماز میں خشوع وخضوع کرنے کا حکم دیا اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نماز میں سکون اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
ژ… جو لوگ نماز میں صرف ایک بار رفع یدین کرتے ہیں وہ دونوں حکموں کو مانتے ہیں ۔
ژ… صرف ایک بار رفع یدین والی نماز اللہ ورسول دونوں کو پسند ہے۔
ژ… صرف ایک بار رفع یدین کرنے والے کامیاب اور بامراد ہیں

روی الامام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي م 279ھ قال :حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ: الا اصلی بکم صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الا فی او ل مرۃ
قال [ابوعیسی ] وفی الباب عن البراء بن عازب
قال ابوعیسی حدیث ابن مسعودرضی اللہ عنہ،حدیث حسن وبہ یقول غیر واحد من اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وھو قول سفیان [الثوری] واہل الکوفۃ۔
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم تغلیباً•
(جامع الترمذی ج1ص59باب رفع الیدین عند الرکوع )
وفی نسخۃ الشیخ صالح بن عبد العزیز ص71 باب ماجاء ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یرفع الا فی اول مرۃ رقم الحدیث 257 ، مختصر الاحکام للطوسی ص109رقم 218طبع مکۃ مکرمۃ و فی سنن ابی داؤد ج1ص116باب من لم یذکرالرفع عندالرک
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ مختلف الفاظ سے مروی ہے۔
1: عن عبد الله قال ألا أخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : فقام فرفع يديه أول مرة ثم لم يعد ،
(سنن النسائی ج1ص158باب ترک ذلک)
2: قال عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ الا اصلی بکم صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الا فی او ل مرۃ
(جامع الترمذی ج1ص59باب رفع الیدین عند الرکوع)
3: عن عبد الله عن النبي صلى الله عليه و سلم : أنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة ثم لا يعود
(سنن الطحاوی ج 1ص162 باب التكبير للركوع والتكبير للسجود والرفع من الركوع )
حدیث کے وہ الفاظ جو امام ابن مبارک کی جرح میں مذکور ہیں وہ سنن طحاوی کی روایت سے ملتے جلتے ہیں، باقی روایات سے اس جرح کا کوئی تعلق نہیں۔رہی یہ جرح تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امام ابن مبارک نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جس حدیث کو روایت کیا ہے (سنن النسائی ج1ص158باب ترک ذلک) ا س میں یہ ذکر ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز کا نقشہ لوگوں کو پڑھ کر دکھایا، لیکن سنن طحاوی میں نماز کا نقشہ نہیں صرف زبانی بیان کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پہلی مرتبہ رفع یدین کرتے تھے بعد میں نہیں کرتے تھے۔ چونکہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے یہ روایت اس طرح سنی تھی (یعنی ابن مسعود کے عمل کے ساتھ) اس لیے اس حدیث پر اعتراض کر دیا جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ سے قولا مروی ہے۔ حقیقتا دیکھا جائے تو یہ اعتراض بنتا نہیں۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز پڑھ کر دکھانے اور اس کو زبانی بیان کرنے میں کوئی تضاد نہیں، اس لیے کہ یہ ممکن ہے کہ راوی ایک مرتبہ حدیث کو عملا بیان کرے اور دوسری مرتبہ اسے قولا بیان کر دے، یہ حدیث کے غیر ثابت ہونے کی دلیل نہیں
:احمد شاکر المصری غیر مقلد: الحق انہ حدیث صحیح و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
( شرح الترمذی ج2 ص43)
2: ناصر الدین البانی :والحق انہ حدیث صحیح و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
(مشکوۃ المصابیح بتحقیق الالبانی ج1ص254)
لہذا حدیث بالکل صحیح اور ثابت ہے
۔یہ اشکال آپ کو اول عمر میں تھا جسے آپ نے اپنے قدیمی شاگردوں کو نقل کرایا تھالیکن آخر عمر میں جب آپ نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے یہ روایت سنی تو اپنے صغیر شاگرد سوید بن نصر المروزی کو بلا اعتراض املاء کرائی جیسا کہ سنن النسائی (ج:1ص:157 )میں یہ حدیث بلا اعتراض موجود ہے معلوم ہوا کہ آپ نے اس اعتراض سے رجوع فرمالیا تھا
۔حدیث ابن مسعود کےتمام روات ثقہ ہیں۔ اس کے بارے میں امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی یہ جرح غیر مفسر اور غیر مبین السبب ہے۔اصول حدیث کے اعتبار سے ایسی جرح قابل قبول نہیں۔
1: لا يقبل الجرح الا مفسرا
(الکفایہ فی علم الروایۃ للخطیب ص:101)
2: إذا كان الجرح غير مفسر السبب فاِنه لا يعمل به
(صيانة صحيح مسلم لابن الصلاح ص96)
3:ولا يقال إن الجرح مقدم على التعديل لأن ذلك فيما إذا كان الجرح ثابتا مفسر السبب وإلا فلا يقبل الجرح إذا لم يكن كذلك
(توجيه النظر إلى أصول الأثرلطاهالجزا505ے

Jam e Tirmazi Hadees # 257

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ:‏‏‏‏    أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ   . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.

 عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: ”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں براء بن عازب رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔
( * ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﻳﻒ * ﺗﺮﻣﺬﻯ، ﺃﺑﻮﺩﺍﻭﺩ،ﻧﺴﺎﺉ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺷﯿﺒﮧ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﻘﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯽ ...
ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﻟﻨﺎ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺍﻻ ﺍﺻﻠﻰ ﺑﻜﻢ ﺻﻠﻮﺓ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺼﻠﻰ ﻭﻟﻢ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺍﻻ ﻣﺮﺓ ﻭﺍﺣﺪﺓ ﻣﻊ ﺗﻜﺒﻴﺮ ﺍﻻﻓﺘﺘﺎﺡ ﻭﻗﺎﻝ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﻯ ﺣﺪﻳﺚ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺣﺪﻳﺚ ﺣﺴﻦ ﻭ ﺑﻪ ﻳﻘﻮﻝ ﻏﻴﺮ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﻦ ﺍﻫﻞ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻣﻦ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺍﻟﻨﺒﻰ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺍﻟﺘﺎﺑﻌﻴﻦ،
* ﺗﺮﺟﻤﮧ * ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮧ ﭘﮍﮬﻮﮞ ﭘﺲ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ، ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﺗﺤﺮﯾﻤﮧ ﮐﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ،
ﺍﻣﺎﻡ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﺣﺴﻦ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ،
* ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﭼﻨﺪ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻗﻮﯼ ﮨﮯ *
* ﺍﻭﻝ * ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺍﻭﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﮨﯿﮟ،ﺟﻮ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﻓﻘﯿﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﯿﮟ
* ﺩﻭﻡ * ﯾﮧ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺉ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ
ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﮐﯽ، ﺍﮔﺮ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﺳﻨﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻥ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ ،
* ﺳﻮﻡ * ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﺿﻌﯿﻒ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺣﺴﻦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ،
* ﭼﮩﺎﺭﻡ * ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺗﺮﻣﺬﯼ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻭﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﻧﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﮨﻮﺋﯽ
* ﭘﻨﺠﻢ * ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﻣﺠﺘﮩﺪ ﻭﻗﺖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ
* ﺷﺸﻢ * ﯾﮧ ﮐﮧ ﻋﺎﻡ ﺍﻣﺖ ﺭﺳﻮﻝ صلی ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮨﮯ
) 2 ( * ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﻳﻒ * ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺮﺍﺀ ﺑﻦ ﻋﺎﺯﺏ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯽ ...
ﻗﺎﻝ ﺭﺃﻳﺖ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﺣﻴﻦ ﺍﻓﺘﺢ ﺍﻟﺼﻠﻮﺓ ﺛﻢ ﻟﻢ ﻳﺮﻓﻌﻬﻤﺎ ﺣﺘﻰ ﺍﻧﺼﺮﻑ،
* ﺗﺮﺟﻤﮧ * ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﭘﮭﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﻧﮯ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ،
) 3 ( * ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﻳﻒ * ﺍﻣﺎﻡ ﻃﺤﺎﻭﯼ ﻧﮯ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﮧ ...
ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻓﻰ ﺍﻭﻝ ﺗﻜﺒﻴﺮﺓ ﺛﻢ ﻻ ﻳﻌﻮﺩ،
* ﺗﺮﺟﻤﮧ * ﻭﮦ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﭘﮩﻠﯽ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ

ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺎﮐﻢ ﻭﺑﯿﮩﻘﯽ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻭ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯽ ...
ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺗﺮﻓﻊ ﺍﻻﯾﺪﯼ ﻓﯽ ﺳﺒﻊ ﻣﻮﺍﻃﻦ ﻋﻨﺪ ﺍﻓﺘﺘﺎﺡ ﺍﻟﺼﻠﻮﺍﺓ ﻭﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﺍﻟﺒﻴﺖ ﻭﺍﻟﺼﻔﺎ ﻭﺍﻟﻤﺮﻭﺓ ﻭﺍﻟﻤﻮﻗﻔﻴﻦ ﻭﺍﻟﺠﻤﺮﺗﻴﻦ،
* ﺗﺮﺟﻤﮧ * ـ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺳﺎﺕ ﺟﮕﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ،ﮐﻌﺒﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﻨﮫ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ،ﺻﻔﺎ ﻣﺮﻭﮦ ﭘﮩﺎﮌ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﻣﻮﻗﻒ ﻣﻨﯽ ﻭﻣﺰﺩﻟﻔﮧ ﮨﯿﮟ ،ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﻤﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ،
ﯾﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﺰﺍﺭ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺳﮯ،ﺍﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﺷﯿﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮩﻘﯽ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺳﮯ،ﻃﺒﺮﺍﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻤﻔﺮﺩ ﻣﯿﮟ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻓﺮﻕ ﺳﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺭﻭﺍﯾﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﻋﯿﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ،
) 5 ( * ﺣﺪﯾﺚ ﺷﺮﻳﻒ * ﻋﯿﻨﯽ ﺷﺮﺡ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯽ ...
ﺍﻧﻪ ﺭﺃﻯ ﺭﺟﻼ ﻳﺮﻓﻊ ﻳﺪﻳﻪ ﻓﻰ ﺍﻟﺼﻠﻮﺓ ﻋﻨﺪﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻭﻋﻨﺪ ﺭﻓﻊ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺮﻛﻮﻉ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﻻ ﺗﻔﻌﻞ ﻓﺎﻧﻪ ﺷﺊ ﻓﻌﻠﻪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺛﻢ ﺗﺮﻛﻪ،
* ﺗﺮﺟﻤﮧ * ـ � ﮐﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺭﮐﻮﻉ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﮐﻮﻉ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ،

Sahih Bukhari Hadees # 828

شروع نماز  کے علاوہ  رفع یدین نہی........

حدثنا يحيى بن بكير ،‏‏‏‏ قال حدثنا الليث ،‏‏‏‏ عن خالد ،‏‏‏‏ عن سعيد ،‏‏‏‏ عن محمد بن عمرو بن حلحلة ،‏‏‏‏ عن محمد بن عمرو بن عطاء ،‏‏‏‏ ‏.‏ وحدثنا الليث ،‏‏‏‏ عن يزيد بن أبي حبيب ،‏‏‏‏ ويزيد بن محمد ،‏‏‏‏ عن محمد بن عمرو بن حلحلة ،‏‏‏‏ عن محمد بن عمرو بن عطاء ،‏‏‏‏ أنه كان جالسا مع نفر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فذكرنا صلاة النبي صلى الله عليه وسلم فقال أبو حميد الساعدي أنا كنت أحفظكم لصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيته إذا كبر جعل يديه حذاء منكبيه ،‏‏‏‏ وإذا ركع أمكن يديه من ركبتيه ،‏‏‏‏ ثم هصر ظهره ،‏‏‏‏ فإذا رفع رأسه استوى حتى يعود كل فقار مكانه ،‏‏‏‏ فإذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما ،‏‏‏‏ واستقبل بأطراف أصابع رجليه القبلة ،‏‏‏‏ فإذا جلس في الركعتين جلس على رجله اليسرى ونصب اليمنى ،‏‏‏‏ وإذا جلس في الركعة الآخرة قدم رجله اليسرى ونصب الأخرى وقعد على مقعدته‏.‏ وسمع الليث يزيد بن أبي حبيب ويزيد من محمد بن حلحلة وابن حلحلة من ابن عطاء‏.‏ قال أبو صالح عن الليث كل فقار‏.‏ وقال ابن المبارك عن يحيى بن أيوب قال حدثني يزيد بن أبي حبيب أن محمد بن عمرو حدثه كل فقار‏.‏

وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو (زمین پر) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے۔ پاؤں کی انگلیوں کے منہ قبلہ کی طرف رکھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے۔ لیث نے یزید بن ابی حبیب سے اور یزید بن محمد بن حلحلہ سے سنا اور محمد بن حلحلہ نے ابن عطاء سے، اور ابوصالح نے لیث سے «كل فقار مكانه» نقل کیا ہے اور ابن مبارک نے یحییٰ بن ایوب سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا کہ محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ان سے حدیث میں «كل فقار» بیان کیا۔

Sahih Bukhari Hadees # 786

حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ كَبَّرَ وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ أَخَذَ بِيَدِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ ذَكَّرَنِي هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ لَقَدْ صَلَّى بِنَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"".

 میں نے اور عمران بن حصین نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ تو وہ جب بھی سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے۔ اسی طرح جب سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ جب دو رکعات کے بعد اٹھتے تو تکبیر کہتے۔ جب نماز ختم ہوئی تو عمران بن حصین نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلائی، یا یہ کہا کہ اس شخص نے ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرح آج نماز پڑھائی۔

جامع تر مذی حدیث نمبر 257
سٹیٹس صحیح
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ:‏‏‏‏    أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ   . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: ”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں براء بن عازب رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے راوی یہ ہیں:
1: هناد بن السری:

آپ سے امام بخاری نے”خلق افعال العباد“ میں ، امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور اصحاب سنن اربعہ نے روایت لی ہے۔ ثقہ و صدوق ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی:ج۲ ص۷۰، تہذیب التہذیب لابن حجر
2: وكيع بن الجراح:

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔آپ ثقہ، حافظ اور عادل ہیں۔ ثقہ بالاجماع ہیں۔
تقریب التہذیب: ج۲ ص۶۴۶ وغیرہ
3: سفیان الثوری:

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ائمہ نے آپ کو ”الامام، شیخ الاسلام، سید الحفاظ [حفاظ حدیث کے سردار]، فقیہ، کان سفیان بحراً [آپ علم کا سمندر تھے]، ثقۃ حافظ امام حجۃ امیر المؤمنین فی الحدیث [حدیث میں امیر المؤمنین ہیں]“ جیسے القابات سے نواز کر آپ کے توثیق و تعدیل کی ہے۔ آپ ثقہ بالاجماع ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج۱ ص ۱۵۱ تا ۱۵۳، تقریب التہذیب: ج۱ ص۲۱۶
4: عاصم بن كليب :

صحیح بخاری معلقاً، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ کو ائمہ نے ثقۃ، صدوق، مامون قرار دیا ہے۔
تاریخ الثقات للعجلی: ص۲۴۲، کتاب الثقات لابن جبان: ص۷ ص۲۵۶، تہذیب التہذیب لابن حجر: ج۳ ص۴۰، ۴۱

زبیر علی زئی نے ایک مقام پر لکھا:

یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ [نماز میں ہاتھ: ص۱۳]
5:عبد الرحمن بن الأسود:

آپ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ کو الفقیہ، الامام بن الامام، ثقۃ من خیار الناس کہا گیا ہے۔ بالاتفاق ثقہ ہیں۔
سیر اعلام النبلاء للذہبی: ج۵ ص۷، تہذیب التہذیب لابن حجر:ج۳ ص۳۳۹
6:علقمہ بن قیس الکوفی:

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ فقیہ، ثقۃ اور ثبت تھے۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج۱ ص۳۹، تقریب التہذیب لابن حجر: ج۱ ص۴۰۸
7: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:

مشہور صحابی ہیں ، آپ کا لقب فقیہ الامۃ ہے۔
تاریخ الصحابہ لابن حبان: ص۱۴۹، تقریب التہذیب لابن حجر: ج۱ ص۳۱۳

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحیح علی شرط مسلم ہے۔ اس کی صحت صر ف امام ترمذی رحمہ اللہ کے حسن فرمانے پر موقوف نہیں

یہ بھی واضح رہے کہ محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح یا حسن فرمایاہے:
1: امام الدار قطنی م385ھ: اسنادہ صحیح [اس کی سند صحیح ہے]
(کتاب العلل للدارقطنی ج5ص172سوال804)
2: امام ابن القطان الفاسی م 628ھ: والحديث عندي - لعدالة رواته - أقرب إلى الصحة [یعنی یہ حدیث راویوں کی عدالت کی وجہ سے صحیح ہے۔]
(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام للفاسی ج5 ص367 )
3: امام زیلعی م 762ھ: و الرجوع الی صحۃ الحدیث لورودہ عن الثقات [یعنی ثقہ راویوں سے مروی ہونے کی وجہ سے صحیح ہے۔]
( نصب الرایۃ للزیلعی ج1 ص396)
4: امام العینی م855ھ: قد صح [یہ صحیح حدیث ہے۔]
( شرح سنن ابی داود ج2 ص346)
5: امام انور شاہ الکشمیری م 1350ھ: رواہ الثلاثۃ و ہو حدیث صحیح۔ [اس حدیث کو امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور یہ صحیح حدیث ہے۔]
(نیل الفرقدین ص56)

حتی کہ خود غیر مقلد ین نے بھی اس کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے:
احمد شاکر المصری غیر مقلد: الحق انہ حدیث صحیح و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
( شرح الترمذی ج2 ص43)

کہ حق بات یہ ہے کہ یہ صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔
ناصر الدین البانی :والحق انہ حدیث صحیح و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
(مشکوۃ المصابیح بتحقیق الالبانی ج1ص254)

یعنی حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔
ترک رفع یدین

Sunnan e Nisai Hadees # 1067 ststus saheeh
تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم : 1027 ( صحیح )
رفع یدین
قال الْبُخَارِي، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏  أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً .

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ چنانچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، تو انہوں نے صرف ایک بار رفع یدین کیا۔

روی الامام الحافظ المحدث أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن النسائي م303ھ:قال أخبرنا سويد بن نصر حدثنا عبد الله بن المبارك عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد الله قال ألا أخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : فقام فرفع يديه أول مرة ثم لم يعد

تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم

(سنن النسائی ج1ص158باب ترک ذلک ، السنن الکبری للنسائی ج1ص350،351رقم1099باب ترک ذالک)

Sahih Bukhari Hadees # 828
شروع نماز  کے علاوہ  رفع یدین نہی
حدثنا يحيى بن بكير ،‏‏‏‏ قال حدثنا الليث ،‏‏‏‏ عن خالد ،‏‏‏‏ عن سعيد ،‏‏‏‏ عن محمد بن عمرو بن حلحلة ،‏‏‏‏ عن محمد بن عمرو بن عطاء ،‏‏‏‏ ‏.‏ وحدثنا الليث ،‏‏‏‏ عن يزيد بن أبي حبيب ،‏‏‏‏ ويزيد بن محمد ،‏‏‏‏ عن محمد بن عمرو بن حلحلة ،‏‏‏‏ عن محمد بن عمرو بن عطاء ،‏‏‏‏ أنه كان جالسا مع نفر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فذكرنا صلاة النبي صلى الله عليه وسلم فقال أبو حميد الساعدي أنا كنت أحفظكم لصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيته إذا كبر جعل يديه حذاء منكبيه ،‏‏‏‏ وإذا ركع أمكن يديه من ركبتيه ،‏‏‏‏ ثم هصر ظهره ،‏‏‏‏ فإذا رفع رأسه استوى حتى يعود كل فقار مكانه ،‏‏‏‏ فإذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما ،‏‏‏‏ واستقبل بأطراف أصابع رجليه القبلة ،‏‏‏‏ فإذا جلس في الركعتين جلس على رجله اليسرى ونصب اليمنى ،‏‏‏‏ وإذا جلس في الركعة الآخرة قدم رجله اليسرى ونصب الأخرى وقعد على مقعدته‏.‏ وسمع الليث يزيد بن أبي حبيب ويزيد من محمد بن حلحلة وابن حلحلة من ابن عطاء‏.‏ قال أبو صالح عن الليث كل فقار‏.‏ وقال ابن المبارك عن يحيى بن أيوب قال حدثني يزيد بن أبي حبيب أن محمد بن عمرو حدثه كل فقار‏.‏

وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو (زمین پر) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے۔ پاؤں کی انگلیوں کے منہ قبلہ کی طرف رکھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے۔ لیث نے یزید بن ابی حبیب سے اور یزید بن محمد بن حلحلہ سے سنا اور محمد بن حلحلہ نے ابن عطاء سے، اور ابوصالح نے لیث سے «كل فقار مكانه» نقل کیا ہے اور ابن مبارک نے یحییٰ بن ایوب سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا کہ محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ان سے حدیث میں «كل فقار» بیان کیا۔

جامع تر مذی حدیث نمبر 257
سٹیٹس صحیح
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ:‏‏‏‏    أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ   . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: ”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں براء بن عازب رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے راوی یہ ہیں:
1: هناد بن السری:

آپ سے امام بخاری نے”خلق افعال العباد“ میں ، امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور اصحاب سنن اربعہ نے روایت لی ہے۔ ثقہ و صدوق ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی:ج۲ ص۷۰، تہذیب التہذیب لابن حجر
2: وكيع بن الجراح:

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔آپ ثقہ، حافظ اور عادل ہیں۔ ثقہ بالاجماع ہیں۔
تقریب التہذیب: ج۲ ص۶۴۶ وغیرہ
3: سفیان الثوری:

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ائمہ نے آپ کو ”الامام، شیخ الاسلام، سید الحفاظ [حفاظ حدیث کے سردار]، فقیہ، کان سفیان بحراً [آپ علم کا سمندر تھے]، ثقۃ حافظ امام حجۃ امیر المؤمنین فی الحدیث [حدیث میں امیر المؤمنین ہیں]“ جیسے القابات سے نواز کر آپ کے توثیق و تعدیل کی ہے۔ آپ ثقہ بالاجماع ہیں۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج۱ ص ۱۵۱ تا ۱۵۳، تقریب التہذیب: ج۱ ص۲۱۶
4: عاصم بن كليب :

صحیح بخاری معلقاً، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ کو ائمہ نے ثقۃ، صدوق، مامون قرار دیا ہے۔
تاریخ الثقات للعجلی: ص۲۴۲، کتاب الثقات لابن جبان: ص۷ ص۲۵۶، تہذیب التہذیب لابن حجر: ج۳ ص۴۰، ۴۱

زبیر علی زئی نے ایک مقام پر لکھا:

یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ [نماز میں ہاتھ: ص۱۳]
5:عبد الرحمن بن الأسود:

آپ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ کو الفقیہ، الامام بن الامام، ثقۃ من خیار الناس کہا گیا ہے۔ بالاتفاق ثقہ ہیں۔
سیر اعلام النبلاء للذہبی: ج۵ ص۷، تہذیب التہذیب لابن حجر:ج۳ ص۳۳۹
6:علقمہ بن قیس الکوفی:

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ آپ فقیہ، ثقۃ اور ثبت تھے۔
تذکرۃ الحفاظ للذہبی: ج۱ ص۳۹، تقریب التہذیب لابن حجر: ج۱ ص۴۰۸
7: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:

مشہور صحابی ہیں ، آپ کا لقب فقیہ الامۃ ہے۔
تاریخ الصحابہ لابن حبان: ص۱۴۹، تقریب التہذیب لابن حجر: ج۱ ص۳۱۳

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ صحیح علی شرط مسلم ہے۔ اس کی صحت صر ف امام ترمذی رحمہ اللہ کے حسن فرمانے پر موقوف نہیں

یہ بھی واضح رہے کہ محدثین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح یا حسن فرمایاہے:
1: امام الدار قطنی م385ھ: اسنادہ صحیح [اس کی سند صحیح ہے]
(کتاب العلل للدارقطنی ج5ص172سوال804)
2: امام ابن القطان الفاسی م 628ھ: والحديث عندي - لعدالة رواته - أقرب إلى الصحة [یعنی یہ حدیث راویوں کی عدالت کی وجہ سے صحیح ہے۔]
(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام للفاسی ج5 ص367 )
3: امام زیلعی م 762ھ: و الرجوع الی صحۃ الحدیث لورودہ عن الثقات [یعنی ثقہ راویوں سے مروی ہونے کی وجہ سے صحیح ہے۔]
( نصب الرایۃ للزیلعی ج1 ص396)
4: امام العینی م855ھ: قد صح [یہ صحیح حدیث ہے۔]
( شرح سنن ابی داود ج2 ص346)
5: امام انور شاہ الکشمیری م 1350ھ: رواہ الثلاثۃ و ہو حدیث صحیح۔ [اس حدیث کو امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور یہ صحیح حدیث ہے۔]
(نیل الفرقدین ص56)

حتی کہ خود غیر مقلد ین نے بھی اس کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے:
احمد شاکر المصری غیر مقلد: الحق انہ حدیث صحیح و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
( شرح الترمذی ج2 ص43)

کہ حق بات یہ ہے کہ یہ صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔
ناصر الدین البانی :والحق انہ حدیث صحیح و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
(مشکوۃ المصابیح بتحقیق الالبانی ج1ص254)

یعنی حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔
Video link
Scans
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1707616492873716&id=100008761453343

No comments:

Post a Comment