السلام علیکم ورحمة اللہ وربرکاتہ ۔
محترم قارئین !
غیر مقلدین کا اعتراض
اور یہ اعتراض اپنے علماء سوء ہی کی اندھی تقلید میں کرتے ہیں
اعتراض
کہتے ہیں کہ حنفی مذہب میں ہے کہ اجرت دیکر زنا کرنے پر کوئ حد نہیں ۔۔۔۔۔۔
حضرات یہ اعتراض بھی انکا باطل ہے
(1) حد نہ ہونے کا مطلب انہوں نے غلط سمجھا
یہ حضرات ,,, حد نہ ہونے کا مطلب ,,, یہ سمجھتے ہیں کہ جائز ہے کوئ گناہ اور سزا نہیں حالانکہ اسکا مطلب جو فریق مخالف نے پیش کی وہ ہرگز نہیں ۔۔
(2) چلئیے ہم ہی ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کوئ صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض ایک حدیث پیش کردیں جس میں یہ ہو کہ اجرت لیکر زنا پر حد ہے ۔۔
(3) قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ فما استطعتم بہ منہن فآتوہن اجورہن ۔۔
کہ ان عورتوں سے جتنا نفع تم نے اٹھایا ہے انکی اجرت انکو دیدو
یہاں اللہ تعالی نے مہر کو اجرت قرار دیا ۔ اور مہر اور اجرت آپس میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اسلئیے اس آیت سے لفظ اجرت میں مہر کا شبہ پیدا ہوگیا ۔ اور حدیث کے موافق شبہ سے حد ساقط ہوگئی
اسکو قرآن و حدیث پر عمل کرنا کہتے ہیں ۔ تم نے تو نہ قرآن کو مانا اور نہ حدیث کو ۔ عالمگیری میں صراحت ہیکہ شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہوتی ہے ( عالمگیری ج 2 ص 149)
ساتھ میں یہ بھی جان لینا چاہئیے کہ اسلام میں جو کام گناہ کبیرہ ہے ان پر شرعی سزا دی جاتی ہے ۔ اس سزا کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک حدود دوسری تعزیر
حدود ! وہ سزا ہے جو نص قطعی یا اجماع قطعی سے مقرر ہو اس میں کمی بیشی کا اختیار کسی کو نہیں ہوتا ۔ اس میں قیاس و اجتہاد کا بھی دخل نہیں ہوتا اور بنص شبہات یعنی شبہات کے نص کی وجہ سے ساقط ہوجاتی ۔۔
دوسری قسم کی سزا تعزیر ہے ! جو ہر اس گناہ پر لگائ جاتی ہے جس میں شرعی حد ثابت نہ ہو یا شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہوجائے ۔ چنانچہ لکھا ہے ,, کل مرتکب معصیة لاحد فیہا فیہا التعزیر ,, ( درمختار ج 3 ص 182) ہر وہ گناہ جس میں حد مقرر نہ ہو اس میں تعزیر ہے ۔۔۔
چنانچہ تعزیر کی سزا قید سے بھی دی جاسکتی ہے اور کوڑے سے بھی یہاں تک کہ قتل سے بھی ویکون التعزیر بالقتل ( درمختار ج 3 ص 179 )
اس سے معلوم ہواکہ ,,, حد نہ ہونے ,,, کا مطلب جو غیر مقلدین لیتے ہیں کہ کوئ سزا نہیں کوئ حد نہیں یہ بلکل غلط ہے اور سفید فریب اور چالبازی ہے ۔ اگر اب بھی یہ لامذہب ٹولہ ضد کریں تو ہم یہ لفظ حدیث سے دکھاتے ہیں اور وہاں بھی یہی ترجمہ اور مطلب بیان کرکے دکھائیں ۔ عن ابن عباس ؓ من اتی بھیمة فلاحد علیہ (ترمذی ج 1 ص 229 ۰ ابن ماجہ ص 187)
حضرت عمرؓ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے کسی چوپائے سے بدفعلی کی تھی آپ نے اس پر حد نہیں لگائ ( کتاب الآثار محمدص 92) اب لامذہب ٹولہ یہاں وہی مطلب اور وہی ترجمہ کریں جو فقہ حنفی کے ,, لاحد ,,, میں کرتے ہیں
اگر نہیں تو عوام کو ,,,لاحد کہ کر گمراہ نہ کریں
وکیل احناف امام طحاوی علیہ الرحمة فرماتے ہیں کہ حدود میں قیاس کو دخل نہیں ۔ مثلا مردار , خون , خنزیر کا گوشت , اور شراب چاروں حرام ہیں مگر حد صرف شراب پر ہے ۔۔ مردار , خون , خنزیر کا گوشت کھانے پر کوئ حد نہیں ۔ اسی طرح کسی پر زنا کی تہمت لگانا حرام ہے ۔ اس پر 80 کوڑے حد ہیں اور وہ مردود الشہادة بھی ہے ۔ اور فاسق بھی ۔ اور کسی مسلمان کو کافر کہنا اس سے بڑا گناہ ہے مگر اس پر حد شرعی مقرر نہیں ۔ ( طحاوی ج 2ص 98)
📢📢📢📢📢📢👇👇👇👇👇👇💁♂💁♂ اب غیر مقلدین لامذہب ٹولہ مردارکھانے , خون پینے , خنزیر کھانے , کسی کو کافر کہنے پر کسی حدیث صحیح صریح غیر معارض سے ثابت کریں کہ کتنے کوڑے ہیں ان پر ۔ اگر ثابت نہ کرسکیں اور کربھی نہیں سکتے تو پہر مردار کھانا , خون پینا , خنزیر کا گوشت کھانا ابھی سے شروع کردیں ۔ اور اپنی جماعت کو کافر کہنا بھی شروع کردیں ۔ اگر یہ پسند نہ ہو تو فقہ کتاب میں ,,حد نہ ہونے ,, کا لفظ دکھاکر عوام کو مغالطے میں نہ ڈالیں ۔
📢📢📢📢📢👇
لا مذہب غیر مقلد بتاؤ ! سود کھانے والے , شراب پینے والے , پاخانہ کھانے والے نذر لغیر اللہ دینے اور کھانے والے پر حدیث صحیح سے کتنے کوڑے حد ثابت ہے اگر ثابت نہیں کرسکتے اور تا قیامت ثابت نہیں کرسکتے ہیں تو ان پر عمل کرنا شروع کردو ۔۔
📢📢📢👇👇
لا مذہب ٹولہ بتاؤ ❓❓❓❓❓ غیراللہ کو پکارنے , قبروں اور تعزیوں کو جلسہ کرنے والوں , کسی بزرگ کے مزار کا حج و طواف کرنے والوں , عید میلادالنبی ﷺ کے جلوس نکالنے والوں , تیجا , دسواں , چالیسواں وغیرہ کرنے والوں پر حدیث صحیح میں کتنے کوڑے ثابت ہیں ۔ اگر ثابت نہ کرسکو تو یہ کام بھی کرنا شروع کردو , لوگوں کو کہو کہ یہ نہ گناہ ہے اور نہ سزا ۔
کیونکہ ثابت نہیں ۔
(4) حد نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ انکو بدکاری کی چھٹی دی جائیگی اور اس پر کوئ سزا نہ دی جائیگی بلکہ عالمگیری میں ہے کہ
محترم قارئین !
غیر مقلدین کا اعتراض
اور یہ اعتراض اپنے علماء سوء ہی کی اندھی تقلید میں کرتے ہیں
اعتراض
کہتے ہیں کہ حنفی مذہب میں ہے کہ اجرت دیکر زنا کرنے پر کوئ حد نہیں ۔۔۔۔۔۔
حضرات یہ اعتراض بھی انکا باطل ہے
(1) حد نہ ہونے کا مطلب انہوں نے غلط سمجھا
یہ حضرات ,,, حد نہ ہونے کا مطلب ,,, یہ سمجھتے ہیں کہ جائز ہے کوئ گناہ اور سزا نہیں حالانکہ اسکا مطلب جو فریق مخالف نے پیش کی وہ ہرگز نہیں ۔۔
(2) چلئیے ہم ہی ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ کوئ صریح آیت یا صحیح صریح غیر معارض ایک حدیث پیش کردیں جس میں یہ ہو کہ اجرت لیکر زنا پر حد ہے ۔۔
(3) قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ فما استطعتم بہ منہن فآتوہن اجورہن ۔۔
کہ ان عورتوں سے جتنا نفع تم نے اٹھایا ہے انکی اجرت انکو دیدو
یہاں اللہ تعالی نے مہر کو اجرت قرار دیا ۔ اور مہر اور اجرت آپس میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اسلئیے اس آیت سے لفظ اجرت میں مہر کا شبہ پیدا ہوگیا ۔ اور حدیث کے موافق شبہ سے حد ساقط ہوگئی
اسکو قرآن و حدیث پر عمل کرنا کہتے ہیں ۔ تم نے تو نہ قرآن کو مانا اور نہ حدیث کو ۔ عالمگیری میں صراحت ہیکہ شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہوتی ہے ( عالمگیری ج 2 ص 149)
ساتھ میں یہ بھی جان لینا چاہئیے کہ اسلام میں جو کام گناہ کبیرہ ہے ان پر شرعی سزا دی جاتی ہے ۔ اس سزا کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک حدود دوسری تعزیر
حدود ! وہ سزا ہے جو نص قطعی یا اجماع قطعی سے مقرر ہو اس میں کمی بیشی کا اختیار کسی کو نہیں ہوتا ۔ اس میں قیاس و اجتہاد کا بھی دخل نہیں ہوتا اور بنص شبہات یعنی شبہات کے نص کی وجہ سے ساقط ہوجاتی ۔۔
دوسری قسم کی سزا تعزیر ہے ! جو ہر اس گناہ پر لگائ جاتی ہے جس میں شرعی حد ثابت نہ ہو یا شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہوجائے ۔ چنانچہ لکھا ہے ,, کل مرتکب معصیة لاحد فیہا فیہا التعزیر ,, ( درمختار ج 3 ص 182) ہر وہ گناہ جس میں حد مقرر نہ ہو اس میں تعزیر ہے ۔۔۔
چنانچہ تعزیر کی سزا قید سے بھی دی جاسکتی ہے اور کوڑے سے بھی یہاں تک کہ قتل سے بھی ویکون التعزیر بالقتل ( درمختار ج 3 ص 179 )
اس سے معلوم ہواکہ ,,, حد نہ ہونے ,,, کا مطلب جو غیر مقلدین لیتے ہیں کہ کوئ سزا نہیں کوئ حد نہیں یہ بلکل غلط ہے اور سفید فریب اور چالبازی ہے ۔ اگر اب بھی یہ لامذہب ٹولہ ضد کریں تو ہم یہ لفظ حدیث سے دکھاتے ہیں اور وہاں بھی یہی ترجمہ اور مطلب بیان کرکے دکھائیں ۔ عن ابن عباس ؓ من اتی بھیمة فلاحد علیہ (ترمذی ج 1 ص 229 ۰ ابن ماجہ ص 187)
حضرت عمرؓ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جس نے کسی چوپائے سے بدفعلی کی تھی آپ نے اس پر حد نہیں لگائ ( کتاب الآثار محمدص 92) اب لامذہب ٹولہ یہاں وہی مطلب اور وہی ترجمہ کریں جو فقہ حنفی کے ,, لاحد ,,, میں کرتے ہیں
اگر نہیں تو عوام کو ,,,لاحد کہ کر گمراہ نہ کریں
وکیل احناف امام طحاوی علیہ الرحمة فرماتے ہیں کہ حدود میں قیاس کو دخل نہیں ۔ مثلا مردار , خون , خنزیر کا گوشت , اور شراب چاروں حرام ہیں مگر حد صرف شراب پر ہے ۔۔ مردار , خون , خنزیر کا گوشت کھانے پر کوئ حد نہیں ۔ اسی طرح کسی پر زنا کی تہمت لگانا حرام ہے ۔ اس پر 80 کوڑے حد ہیں اور وہ مردود الشہادة بھی ہے ۔ اور فاسق بھی ۔ اور کسی مسلمان کو کافر کہنا اس سے بڑا گناہ ہے مگر اس پر حد شرعی مقرر نہیں ۔ ( طحاوی ج 2ص 98)
📢📢📢📢📢📢👇👇👇👇👇👇💁♂💁♂ اب غیر مقلدین لامذہب ٹولہ مردارکھانے , خون پینے , خنزیر کھانے , کسی کو کافر کہنے پر کسی حدیث صحیح صریح غیر معارض سے ثابت کریں کہ کتنے کوڑے ہیں ان پر ۔ اگر ثابت نہ کرسکیں اور کربھی نہیں سکتے تو پہر مردار کھانا , خون پینا , خنزیر کا گوشت کھانا ابھی سے شروع کردیں ۔ اور اپنی جماعت کو کافر کہنا بھی شروع کردیں ۔ اگر یہ پسند نہ ہو تو فقہ کتاب میں ,,حد نہ ہونے ,, کا لفظ دکھاکر عوام کو مغالطے میں نہ ڈالیں ۔
📢📢📢📢📢👇
لا مذہب غیر مقلد بتاؤ ! سود کھانے والے , شراب پینے والے , پاخانہ کھانے والے نذر لغیر اللہ دینے اور کھانے والے پر حدیث صحیح سے کتنے کوڑے حد ثابت ہے اگر ثابت نہیں کرسکتے اور تا قیامت ثابت نہیں کرسکتے ہیں تو ان پر عمل کرنا شروع کردو ۔۔
📢📢📢👇👇
لا مذہب ٹولہ بتاؤ ❓❓❓❓❓ غیراللہ کو پکارنے , قبروں اور تعزیوں کو جلسہ کرنے والوں , کسی بزرگ کے مزار کا حج و طواف کرنے والوں , عید میلادالنبی ﷺ کے جلوس نکالنے والوں , تیجا , دسواں , چالیسواں وغیرہ کرنے والوں پر حدیث صحیح میں کتنے کوڑے ثابت ہیں ۔ اگر ثابت نہ کرسکو تو یہ کام بھی کرنا شروع کردو , لوگوں کو کہو کہ یہ نہ گناہ ہے اور نہ سزا ۔
کیونکہ ثابت نہیں ۔
(4) حد نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ انکو بدکاری کی چھٹی دی جائیگی اور اس پر کوئ سزا نہ دی جائیگی بلکہ عالمگیری میں ہے کہ
No comments:
Post a Comment