🔴 *Part 12*
ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﻧﮯ پر غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات
🌟 *ازﺍﻓﺎﺩﺍﺕ : ﻣﺘﮑﻠﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﮔﮭﻤﻦ حفظہ ﺍﻟﻠﮧ*
▪▪▪▪▪▪▪▪▪
🌸 *
🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸
💠 *دلیل :*
رواه البيهقي في سننه من جهة بن عبد الله بن حمدان الرقي ثنا عصمة بن محمد الأنصاري ثنا موسى بن عقبة عن نافع عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع، وكان لا يفعل ذلك في السجود، فما زالت تلك صلاته حتى لقي الله تعالى انتهى. رواه عن أبي عبد الله الحافظ عن جعفر بن محمد بن نصر عن عبد الرحمن بن قريش بن خزيمة الهروي عن عبد الله بن أحمد الدمجي عن الحسن به.
(بحوالہ نصب الرایہ ص483 ،صلوۃ الرسول ص201 ،اثبات رفع یدین لخالد گھرجاکھی ص84، 86، 87، رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز: ص331 ط صہیب اکیڈمی شیخوپورہ، حدیثِ نماز از عبد المتین میمن جونا گڑھی: ص125 ط مکتبہ عزیزیہ لاہور)
🌹 *ترجمہ:* حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اٹھاتے اور اسوقت بھی جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے. اور سجدہ میں رفع یدین نہیں کرتے آپکی نماز اسی طرح رہی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے.
🌼 *جواب نمبر1:*
اس کی سند میں ایک راوی ”امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ“ ہیں جو کٹر شافعی مقلد ہیں ،اور مقلد آپ کے ہاں مشرک ہوتا ہے۔
🔻دوسرا راوی عبداللہ بن احمد الدمحبی ہے یہ مجہول ہے۔
🔻تیسرا راوی حسن بن عبداللہ الرقی یہ بھی مجہول العین ہے۔
💐 کتب اسماء الرجال میں ان کی تعدیل ثابت ہے نہ توثیق اور مجہول راوی کی روایت نا قابل قبول ہوتی ہے۔ ائمہ کی تصریحات:
🔸امام شافعی: لم يكلف الله أحدا أن يأخذ دينه عن من لا يعرفه
(کتاب القراءۃ خلف الامام للبیہقی ص129)
🌸 *ترجمہ:* امام شافعی نے فرمایا اللہ تعالی نے کسی کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ دین میں سے اس چیز کو لے جس کو وہ نہیں جانتا
🔸امام بیہقی: ولسنا نقبل دين الله تعالى عمن لا يعرفه أهل العلم بالحديث بالعدالة
(کتاب القراءۃ خلف الامام للبیہقی ص157)
💠 *ترجمہ:* امام بیہقی نے فرمایا کہ ہم اللہ کا دین ایسے شخص سے قبول نہیں کرتے جسکی عدالت کا علم علماء حدیث کو نہ ہو
🔸امام نووی : لا يقبل رواية المجهول
(شرح مسلم مقدمہ مسلم ص11)
🔆 *ترجمہ:* امام نووی نے فرمایا. کہ مجہول راوی کی روایت قبول نہیں کی جاتی
🌺 لہذا یہ روایت بوجہ جہالت روات غیر مقبول ہے۔
✳ *جواب نمبر2:*
یہ روایت موضوع، من گھڑت اور کذب محض ہے کیونکہ اس میں دو راوی ہیں جو سخت مجروح اور حدیث گھڑنے والے ہیں۔ ان روات کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کی آراء ملاحظہ فرمائیں:
🔻راوی نمبر۱: عبد الرحمٰن بن قریش ابن خزیمۃ الہروی
🔸[۱]: ابو الفضل احمد بن علی بن عمرو السلیمانی: اتهمہ السليمانى بوضع الحديث•
(میزان الاعتدال: ج2 ص513 رقم الترجمہ 4692)
🔸[۲]:ابو بکرالخطیب البغدادی(قال): في حديثه غرائب•
(تاریخ بغداد ج8ص300)
🔻راوی نمبر۲: عصمہ بن محمد انصاری
🔸[۱]: ابن سعد (قال): وکان عندھم ضعیفا فی الحدیث•
(طبقات ابن سعد ج7 ص239، تاریخ بغداد ج10 ص210)
🔸[۲]: یحیی ابن معین (قال): کان کذاباً، یروی احادیث کذبا… من اکذب الناس … یضع الحدیث•
(تاریخ بغداد ج10 ص210، میزان الاعتدال ج3 ص75، الضعفاء الکبیر للعقیلی ج3 ص340)
🔸[۳]: ابوحاتم الرازی(قال) :لیس بالقوی•
(میزان الاعتدال ج3 ص75)
🔸[۴]: العقیلی(قال): یحدث بالاباطیل عن الثقات•
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج3 ص340، میزان الاعتدال ج3 ص75)
🔸[۵]: ابن عدی (قال): كل حديثه غير محفوظ وهو منكر الحديث•
(الکامل لابن عدی ج7 ص89، میزان الاعتدال ج3 ص76)
🔸[۶]: الدارقطنی (قال): متروک•
(تاریخ بغداد ج10 ص210، میزان الاعتدال ج3 ص75)
⚜ *جواب نمبر3:*
اس روایت کومحققین اور خود غیر مقلدین علماء نے موضوع قرار دیا ہے۔
🔸1:قال الامام محمد بن علی النیموی م1322ھ: رواہ البیہقی وھوحدیث ضعیف بل موضوع
(آثار السنن للنیموی ص118)
🔸2: مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کذب [یہ روایت جھوٹی ہے]
(نیل الفرقدین: ص36)
🔸3: عطاء اللہ حنیف غیر مقلد: وحدیث البیہقی مازالت۔۔۔ضعیف جداً
(تعلیقات سلفیہ علی النسائی: ج1ص104)
🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
✍ *
ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﻧﮯ پر غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات
🌟 *ازﺍﻓﺎﺩﺍﺕ : ﻣﺘﮑﻠﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﮔﮭﻤﻦ حفظہ ﺍﻟﻠﮧ*
▪▪▪▪▪▪▪▪▪
🌸 *
🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸 🔸
💠 *دلیل :*
رواه البيهقي في سننه من جهة بن عبد الله بن حمدان الرقي ثنا عصمة بن محمد الأنصاري ثنا موسى بن عقبة عن نافع عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع، وكان لا يفعل ذلك في السجود، فما زالت تلك صلاته حتى لقي الله تعالى انتهى. رواه عن أبي عبد الله الحافظ عن جعفر بن محمد بن نصر عن عبد الرحمن بن قريش بن خزيمة الهروي عن عبد الله بن أحمد الدمجي عن الحسن به.
(بحوالہ نصب الرایہ ص483 ،صلوۃ الرسول ص201 ،اثبات رفع یدین لخالد گھرجاکھی ص84، 86، 87، رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز: ص331 ط صہیب اکیڈمی شیخوپورہ، حدیثِ نماز از عبد المتین میمن جونا گڑھی: ص125 ط مکتبہ عزیزیہ لاہور)
🌹 *ترجمہ:* حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو ہاتھ اٹھاتے اور اسوقت بھی جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے. اور سجدہ میں رفع یدین نہیں کرتے آپکی نماز اسی طرح رہی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے.
🌼 *جواب نمبر1:*
اس کی سند میں ایک راوی ”امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ“ ہیں جو کٹر شافعی مقلد ہیں ،اور مقلد آپ کے ہاں مشرک ہوتا ہے۔
🔻دوسرا راوی عبداللہ بن احمد الدمحبی ہے یہ مجہول ہے۔
🔻تیسرا راوی حسن بن عبداللہ الرقی یہ بھی مجہول العین ہے۔
💐 کتب اسماء الرجال میں ان کی تعدیل ثابت ہے نہ توثیق اور مجہول راوی کی روایت نا قابل قبول ہوتی ہے۔ ائمہ کی تصریحات:
🔸امام شافعی: لم يكلف الله أحدا أن يأخذ دينه عن من لا يعرفه
(کتاب القراءۃ خلف الامام للبیہقی ص129)
🌸 *ترجمہ:* امام شافعی نے فرمایا اللہ تعالی نے کسی کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ دین میں سے اس چیز کو لے جس کو وہ نہیں جانتا
🔸امام بیہقی: ولسنا نقبل دين الله تعالى عمن لا يعرفه أهل العلم بالحديث بالعدالة
(کتاب القراءۃ خلف الامام للبیہقی ص157)
💠 *ترجمہ:* امام بیہقی نے فرمایا کہ ہم اللہ کا دین ایسے شخص سے قبول نہیں کرتے جسکی عدالت کا علم علماء حدیث کو نہ ہو
🔸امام نووی : لا يقبل رواية المجهول
(شرح مسلم مقدمہ مسلم ص11)
🔆 *ترجمہ:* امام نووی نے فرمایا. کہ مجہول راوی کی روایت قبول نہیں کی جاتی
🌺 لہذا یہ روایت بوجہ جہالت روات غیر مقبول ہے۔
✳ *جواب نمبر2:*
یہ روایت موضوع، من گھڑت اور کذب محض ہے کیونکہ اس میں دو راوی ہیں جو سخت مجروح اور حدیث گھڑنے والے ہیں۔ ان روات کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کی آراء ملاحظہ فرمائیں:
🔻راوی نمبر۱: عبد الرحمٰن بن قریش ابن خزیمۃ الہروی
🔸[۱]: ابو الفضل احمد بن علی بن عمرو السلیمانی: اتهمہ السليمانى بوضع الحديث•
(میزان الاعتدال: ج2 ص513 رقم الترجمہ 4692)
🔸[۲]:ابو بکرالخطیب البغدادی(قال): في حديثه غرائب•
(تاریخ بغداد ج8ص300)
🔻راوی نمبر۲: عصمہ بن محمد انصاری
🔸[۱]: ابن سعد (قال): وکان عندھم ضعیفا فی الحدیث•
(طبقات ابن سعد ج7 ص239، تاریخ بغداد ج10 ص210)
🔸[۲]: یحیی ابن معین (قال): کان کذاباً، یروی احادیث کذبا… من اکذب الناس … یضع الحدیث•
(تاریخ بغداد ج10 ص210، میزان الاعتدال ج3 ص75، الضعفاء الکبیر للعقیلی ج3 ص340)
🔸[۳]: ابوحاتم الرازی(قال) :لیس بالقوی•
(میزان الاعتدال ج3 ص75)
🔸[۴]: العقیلی(قال): یحدث بالاباطیل عن الثقات•
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج3 ص340، میزان الاعتدال ج3 ص75)
🔸[۵]: ابن عدی (قال): كل حديثه غير محفوظ وهو منكر الحديث•
(الکامل لابن عدی ج7 ص89، میزان الاعتدال ج3 ص76)
🔸[۶]: الدارقطنی (قال): متروک•
(تاریخ بغداد ج10 ص210، میزان الاعتدال ج3 ص75)
⚜ *جواب نمبر3:*
اس روایت کومحققین اور خود غیر مقلدین علماء نے موضوع قرار دیا ہے۔
🔸1:قال الامام محمد بن علی النیموی م1322ھ: رواہ البیہقی وھوحدیث ضعیف بل موضوع
(آثار السنن للنیموی ص118)
🔸2: مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کذب [یہ روایت جھوٹی ہے]
(نیل الفرقدین: ص36)
🔸3: عطاء اللہ حنیف غیر مقلد: وحدیث البیہقی مازالت۔۔۔ضعیف جداً
(تعلیقات سلفیہ علی النسائی: ج1ص104)
🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
✍ *
No comments:
Post a Comment