Thursday, 25 October 2018

Part 1* ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﻧﮯ پر غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات

🔴 *Part 1*
ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﮐﺮﻧﮯ پر غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات

🌟 *ازﺍﻓﺎﺩﺍﺕ : ﻣﺘﮑﻠﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻟﯿﺎﺱ ﮔﮭﻤﻦ حفظہ ﺍﻟﻠﮧ*
▪▪▪▪▪▪▪▪▪
🌸 *دلائل 🔸
💠 *دلیل:*
وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ إِمْلاَءً حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمْدَانَ الْجَلاَّبُ بِهَمَذَانَ حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الرَّازِىُّ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ أَبِى مَرْحُومٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ حَاتِمٍ عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ عَنِ الأَصْبَغِ بْنِ نُبَاتَةَ عَنْ عَلِىِّ بْنِ أَبِى طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ : قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- (إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصْلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ) قَالَ النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم لِجِبْرِيلَ :« مَا هَذِهِ النَّحِيرَةِ الَّتِى أَمَرَنِى بِهَا رَبِّى عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ : إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَحِيرَةٍ ، وَلَكِنَّهُ يَأْمُرُكَ إِذَا تَحَرَّمْتَ لِلصَّلاَةِ أَنْ تَرْفَعَ يَدَيْكَ إِذَا كَبَّرْتَ ، وَإِذَا رَكَعْتَ ، وَإِذَا رَفَعْتَ رَأْسَكَ مِنَ الرُّكُوعِ ، فَإِنَّهَا صَلاَتُنَا وَصَلاَةُ الْمَلاَئِكَةِ الَّذِينَ فِى السَّمَوَاتِ السَّبْعِ.

(السنن الکبری للبیہقی ج2ص75 ،76 باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ رَفْعِ الرَّأْسِ مِنْهُ)

🌷 *ترجمہ:* حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت (إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصْلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر ○ بے شک ہم نے آپ کو حوض کوثر عطا کیا ہے، لهذا آپ اپنے رب کےلئے نماز پڑهیں اور قربانی کریں) نازل ہوئ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل سے دریافت فرمایا کہ یہ "نحیرہ" کیا چیز ہے، جس کا حکم میرے پروردگار نے مجهے دیا ہے؟
تو حضرت جبرئیل نے جواب دیا کہ یہ "نحیرہ" نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ جب آپ تکبیر تحریمہ کہیں تو اپنے دونوں ہاتهہ اٹهائیں، اور جب رکوع کریں تب بهی، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹهائیں تب بهی اپنے دونوں ہاتهہ اٹھائیں، کیوں کہ یہ ہماری اور ساتوں آسمان کے فرشتوں کی نماز ہے-

💠 *جواب نمبر1:*
یہ روایت موضوع ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ”اسرائیل بن حا تم الرازی“ ہے۔

🔸اس کے متعلق امام ابن حبان نے تصریح کی ہے کہ یہ موضوع روایات بیان کیا کرتا تھا:

روى عن مقاتل الموضوعات والاوابد والطامات
(میزان الاعتدال ج1ص229رقم التر جمہ 977)

اور موضوع روایات کی مثال میں یہی روایت پیش کی ہے۔

🔸امام مطہر بن طاہر المقدسي فرماتے ہیں: إسرائيل بن حاتم ومقاتل بن حبان والإصبع بن نباتة لا تقوم بهم حجة•

(كتاب معرفة التذكرة لابن طاهر المقدسي ص50)

🔸دوسرا راوی ”اَصْبَغ بْن نُبَاتَة“ ہے، یہ بھی سخت مجروح ہے۔مثلاً:

كذاب، ليس بثقة ،ليس بشئ ،متروك، كان يقول بالرجعة، فتن بحب على، فأتى بالطامات، فاستحق من أجلها الترك.

(میزان الاعتدال ج1ص285رقم الترجمہ 1188)

📚 *جواب نمبر2:*
محققین نے بھی اسے باطل اور ناقابل اعتبار قرار دیا۔

🔸امام بیہقی نے اس روایت کو بیان کر نے کے بعد فر مایا:

وَقَدْ رُوِىَ هَذَا وَالاِعْتِمَادُ عَلَى مَا مَضَى
(السنن الکبری للبیہقی: ج2ص76)

کہ روایت مروی تو ہے لیکن اعتما د اس روایت پرہے جو پہلے بیان ہو چکی۔ (یعنی اس روایت پر اعتماد نہیں کیا)

🔸امام ابن حبان اور علامہ ابن الجوزی نے بھی اس روایت کو موضو ع اور باطل قرار دیاہے۔

(کتا ب المجرو حین لابن حبان ج1 ص200، الموضوعات لابن جوزی ج2 ص24)
🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹

No comments:

Post a Comment