قارئین کرام متوجہ ہوں
بیس رکعات تراویح پراجماع کی مخالفت میں غیرمقلدوھابی عالم زبیرعلی زئی صاحب کے6جھوٹ کاپردہ فاش
زبیرعلی زئی صاحب کاپہلاجھوٹاوراس کا جواب
بیس رکعات تراویح کے خلاف فرقہ غیرمقلدین کے ایک نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب تعدادرکعات قیام رمضان کےصفحہ نمبر۸۴پرلکھتے ہیں کہ
بیس تراویح پراجماع کادعویٰ باطل ہے
اوراپنے اس جھوٹے دعوےٰ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے امام مالکؒ کاقول پیش کرتے ہیں
امام مالک فرماتے ہیں: میں اپنے لئے قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعتیں اختیارکرتاہوں، اسی پرعمربن الخطابؓ نے لوگوں کوجمع کیاتھااوریہی رسول اﷲﷺکی نمازہے، مجھے پتانہیں کہ لوگوں نے یہ بہت سی رکعتیں کہاں سےنکالی ہیں؟ اسے ابن مغیث مالکی نے ذکرکیاہے‘‘
(کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۰، دوسرا نسخہ تصنیف عبدالحق اشبیلی[المتوفی: ۵۸۱ھ]بحوالہ تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۴)
زبیرعلی زئی صاحب کی اس کھوکھلی اوربے بنیاددلیل پرہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ موصوف عبدالحق اشبیلیؒ(المتوفی: ۵۸۱ھ)اورابن مغیث القرطبیؒ(المتوفی: ۴۲۹ھ) کے درمیان ملاقات ثابت کریں
اورساتھ ہی ابن مغیث القرطبیؒ(المتوفی: ۴۲۹ھ)اورامام مالکؒ(المتوفی: ۱۷۹ھ)کی بھی آپس میں ملاقات ثابت کرکے دکھائیں
کیونکہ امام مالکؒ کی وفات اورابن مغیثؒ کی پیدائش کےدرمیان تقریباً۱۵۹ سال کافاصلہ ہے اورابن مغیثؒ کی وفات اورعبدالحق اشبیلیؒ کی پیدائش کے درمیان تقریباً۱۷۶ سالوں کا فاصلہ ہے لہٰذا ان تینوں کا آپس میں سماع ثابت نہیں
تعجب کی بات یہ ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب بیس رکعات تراویح پرجلیل القدرتابعین فشتیربن شکل، ابن ابی ملیکہ، حارث الھمدانی، عطاءبن ابی رباح، ابوالبختری، سعیدبن ابی الحسن البصری جوالحسن کے بھائی ہیں، عبدالرحمٰن ابن ابی بکراورعمران العبدی کی بیان کردہ روایات کو منقطع کہہ کرضعیف قراردیدتے ہیں
حالانکہ ان تمام ثقہ تابعین کازمانہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانے سےصرف چندسالوں کے فاصلے پرہےاوراس زمانے میں صحابہ کرامؓ بکثرت موجودتھے، اس کے باوجودبھی تابعین کی بیان کردہ روایات زبیرعلی زئی صاحب کے نزدیک منقطع ہیں اورابن مغیث ؒاورعبدالحق اشبیلیؒ کے درمیان دیڑھ سو سالوں سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہونے کے باوجود بھی امام مالکؒ کاقول ان کے نزدیک صحیح ہے
زبیرعلی زئی صاحب کے اس باطل اوردوہرے اصول سے ہی قارئین کواس بات کابخوبی اندازہ ہوگیاہوگاکہ فرقہ غیرمقلدین کے شیوخ اپنے باطل فرقے کو حق پرثابت کرنے کے لئے کیسی کیسی چالبازیاں اختیارکرتےہیں تاکہ عام اورلاعلم مسلمانوں کو بیوقوف بناسکیں
زبیرعلی زئی صاحب کادوسرادجل وفریب یہ ہے کہ موصوف نے عبدالحق اشبیلیؒ کی کتاب التہجد سے امام مالکؒ کا پہلاقول تو بیان کردیالیکن اسی کے نیچے امام مالکؒ کے ثقہ مامون شاگردامام ابن القاسمؒ سے مروی امام مالکؒ کا دوسرا قول حذف کردیا، تاکہ عام اورلاعلم مسلمانوں کوان کے مکروفریب کاعلم نہ ہوسکے
عبدالحق اشبیلیؒ کتاب التہجدمیں لکھتے ہیں ’’وَ قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ کرہ مالک رحمہ ﷲ تعالیٰ أن ینقص الناس من عدد الرکوع الذی جری نہ العمل فی مسجد رسول ﷲ ﷺ وھی تسع وثلاثون رکعۃ بالوتر، والوتر ثلاثً، واختار ھو لنفسہ احدی عشرۃ رکعۃ‘‘
’’امام ابن القاسمؒ فرماتے ہیں کہ: امام مالکؒ نےناپسند کیاکہ رسول اﷲﷺکی مسجد (یعنی مسجدنبوی) میں لوگوں کارکوع کی تعداد میں جوعمل چلاآرہاہے اس میں کمی کریں اوروہ وترکے ساتھ انتالیس رکعات ہیں، اوراس میں تین رکعات وترہے، اورخود اپنے لئے گیارہ رکعات اختیارکیا‘‘
(کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۱)
عبدالحق اشبیلیؒ امام مالکؒ کے قول کے بعدلکھتے ہیں
’’ویروی أن الناس اشتد علیھم طول القیام فشکوا ذلک الی عمر بن الخطاب، قأمر القارئین أن یُخففا من طول القیام ویزیدا فی عدد الرکوع، فکانا یقومان بثلاث وعشرین رکعۃ، ثم شکوا فنقصوا من طول القیام وزیدا فی الرکوع حتیٰ أتموا ستاً وثلاثین، والوتر ثلاث، فاستقر الأمر علی ھذا‘‘
’’اوریہ روایت کیاگیاہے کہ لوگوں پرگراں تھا قیام کا لمباہوناجس کی وجہ سےانہوں نے حضرت عمررضی اﷲعنہ سے اس کی شکایت کی توحضرت عمررضی اﷲعنہ نے قرأت کرنے والوں (یعنی تراویح پڑھانے والوں) کوحکم دیاکہ وہ قرأت کے لمباہونے میں کمی کریں اوررکعات کی تعداد بڑھادیں، لہٰذا جودوامام تھے انہوں نےتئیس رکعات کے ساتھ قیام شروع کردیا، لوگوں نےپھرسےشکایت کی تو پھرایسی صورت میں انہوں نے قیام کے لمبا ہونے کومزید کم کیااوررکعات کی تعدادمیں مزید اضافہ کیاپھر اس کو انتالیس رکعات پرتمام کیا، ان میں تین رکعات وترکی تھیں، اب اسی پرعمل چلاآرہاہے
(کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۲)
عبدالحق اشبیلیؒ یہ بھی لکھتے ہیں کہ
وکان علی بن ابی طالب رضی ﷲ عنہ یؤم الناس فی رمضان یعنی فی القیام، واختار أحمد بن حنبل الصلاۃ مع الناس فی قیام رمضان لقول النبیﷺ: اذا قام الرجل مع الأمام حتیٰ یصلی کتب لہ بقیۃ لیلۃ، وکذلک اللیث بن سعد، ویحییٰ بن سعد، وأبو البختری، وزاذان
حضرت علی رضی اﷲعنہ رمضان میں لوگوں کی امامت کیاکرتے تھےیعنی کہ تراویح میں، امام احمدبن حنبلؒ نے بھی یہی پسند کیا ہے کہ تراویح لوگوں کے ساتھ پڑھیں، اس کی وجہ نبیﷺکایہ فرمان ہے کہ جب کوئی آدمی امام کے ساتھ کھڑاہوتاہےیہاں تک کے اس کےساتھ نماز مکمل کرلےتواس کے لئے پوری رات عبادت کاثواب لکھاجاتاہے، اوریہی بات لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، ابوالبختری اورزاذان کے نزدیک ہے
(کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۳)
زبیرعلی زئی صاحب اوران کے متبعین سے گزارش ہے کہ وہ عبدالحق اشبیلیؒ کی نقل کردہ تمام باتوں کو قبول فرمائیں، یہ کیاکہ اپنے مطلب کی ایک بات توعوام الناس میں بیان کردی اوراپنے مؤقف کے خلاف جانے والی بقیہ تین باتوں کوحذف کردیا
(((اسکین موجود ہے)))
زبیرعلی زئی صاحب یہاں ایک اورجھوٹ اوربہتان لگاتے ہوئے لکھتے ہیں
امام مالک سے ابن القاسم کانقلِ قول: مرودوہے(دیکھئے کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی: ص۵۳۴)
(تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۵)
زبیرعلی زئی صاحب کے اس مکروفریب اورکذب بیانی پرسب سے پہلےہم انہیں اِن ہی کے قلم سے منہ توڑالزامی جواب دیتے ہیں
زبیرعلی زئی صاحب نے جنوری ۲۰۰۹ میں مؤطا امام مالک کا اردوترجمہ شایع کیاجس پرکتاب کا عنوان ان الفاظ میں رکھا
مؤطا امام مالک روایۃ ابن القاسم،اب حیرت انگیزبات یہ ہے کہ اگر بقول زبیرعلی زئی صاحب کے امام مالکؒ سے ابن القاسمؒ کا نقل قول مردود ہے
تو پھر انہوں مؤطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی تخریج وتشریح کرکےتمام مردوداقوال جمع کیوں کیئے؟
اس الزامی جواب کے بعدہم زئی صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی کی وہ عبارت نقل کردیں
جس میں ابن القاسمؒ کےقول کومرودکہاگیاہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ زبیرعلی زئی صاحب اوران کے متبعین قیامت تک یہ عبارت پیش نہیں کرسکتےکیونکہ ابن القاسمؒ کے متعلق کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی میں ایسی کوئی بھی بات لکھی ہی نہیں ہے
زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹ کو واضح کرنے کے لئے ہم انہیں کے پیش کردہ کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی کی اصل کتاب کے اسی صفحہ نمبر۵۳۴کاحوالہ پیش کیئے دیتے ہیں تاکہ قارئین کو زبیرعلی زئی صاحب کی علمی حیثیت، کذب بیانیوں اور بہتان تراشیوں کاصحیح علم ہوسکے
(((اسکین موجودہے)))
زبیرعلی زئی صاحب کادوسراجھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب امام محمد بن الحسن الشيبانیؒ کے حوالےسےامام ابوحنیفہؒ پرجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں
امام ابوحنیفہ سے بیس رکعات تراویح باسندصحیح ثابت نہیں ہیں، اس کے برعکس حنفیوں کے ممدوح محمد بن الحسن الشيبانی کی الموطأسے ظاہرہوتاہے کہ امام ابوحنیفہ گیارہ رکعات کے قائل تھے
(تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۵)
امام محمد بن الحسن الشيبانیؒ الموطأ میں بیس رکعات تراویح پر اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئےفرماتے ہیں
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالصَّلاةِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ تَطَوُّعًا بِإِمَامٍ، لأَنَّ الْمُسْلِمِينَ قَدْ أَجْمَعُوا عَلَى ذَلِكَ وَرَأَوْهُ حَسَنًا
حضرت عمرؓ نے ابی بن کعبؓ کورمضان میں امام بناکرتراویح پڑھانے کاحکم دیاہے۔ اسی کوہم اختیارکرتے ہیں۔ اس لئے کہ مسلمانوں (صحابہؓ) نے اس (بیس رکعات) پراجماع کیاہے اوراس کوپسندکیاہے اورآنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ مسلمان (صحابہؓ) جسے پسندکریں وہ خداکے نزدیک بھی پسندیدہ ہے
(موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيبانی: باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل، رقم الحديث ۲۱۴)
(((اسکین موجود ہے)))
ذرابھی عقل وشعور رکھنے والاشخص اس بات کوبآسانی سمجھ سکتاہے کہ اگرامام ابوحنیفہؒ بیس کے بجائے گیارہ رکعات کے قائل ہوتے توامام محمدؒ الموطأ میں بیس رکعات تراویح پراجماع کادعویٰ کبھی نہ کرتے، لہٰذا ثابت ہوگیا کہ زبیرعلی زئی صاحب نے امام ابوحنیفہؒ اورامام محمدؒ دونوں پرجھوٹ بولاہے کہ امام صاحبؒ گیارہ رکعات کے قائل تھے
زبیرعلی زئی صاحب کاتیسراجھوٹ اوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب امام شافعیؒ کےحوالےسےجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں
معلوم ہوا امام شافعی نے بیس رکعات تراویح سے رجوع کرلیاتھااوروہ آٹھ اوربیس دونوں کوپسند کرتے اورآٹھ کوزیادہ بہترسمجھتےتھے
(تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۵)
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب کےمتبعین سےگزارش ہے کہ وہ امام شافعی کے بیس رکعات تراویح سے رجوع پرصحیح سند کے ساتھ کوئی ایک دلیل پیش کردیں ورنہ ہم یہ سمجھنے پرمجبورہونگے کے شاید آپ نے غیب دانی کا دعویٰ کررکھاہے یاپھر شاید آپ یہ کہناچاہتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے خودآکرآپ کواپنے اس رجوع کی خبردی، زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹے دعوےٰ پرہم امام ترمذیؒ سے دلیل پیش کیئے دیتے ہیں جوائمہ کرام کے مذاہب نقل کرنے میں سب سے معتبرشخصیت سمجھےجاتےہیں
امام أبوعیسیٰ الترمذیؒ امام شافعیؒ کے بارے میں فرماتےہیں
وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ۔ وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً
اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے
(الجامع الکبیر وجامع الترمذی: ج۲، أبواب الصوم، بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، ص۱۵۹)
(((اسکین موجودہیں)))
زبیرعلی زئی صاحب کاچوتھاجھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب امام احمدبن حنبلؒ کےحوالےسےجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں
راوی کہتے ہیں "ولم یقض فیہ بشیٔ امام احمد نے اس میں کوئی فیصلہ نہیں کیا
(تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۶)
زبیرعلی زئی صاحب نے یہاں بھی انتہائی کذب بیانی سے کام لیاہے کیوں کہ عبدالحق اشبیلیؒ(المتوفی: ۵۸۱ھ) کی جس کتاب التہجدسے موصوف نے امام مالکؒ سے آٹھ رکعت تراویح کا قول ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس کتاب کے اسی صفحہ نمبر۱۷۶، فقرہ نمبر۸۹۳پرلکھا ہےکہ
وکان علی بن أبی طالب رضی ﷲ عنہ یؤم الناس فی رمضان یعنی فی القیام، واختار أحمد بن حنبل الصلاۃ مع الناس فی قیام رمضان
اورعلی بن ابی طالب رضی اﷲعنہ زمضان میں لوگوں کے ساتھ قیام کیاکرتے تھے، اوراسے اختیارکیااحمد بن حنبل نےکہ وہ رمضان میں لوگوں کے ساتھ تراویح پڑھتے
(کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۳)
(((اسکین موجودہے)))
اب ہم زبیرعلی زئی صاحب اوران کے متبعین سے گزارش کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے عبدالحق اشبیلیؒ کی کتاب التہجد سے امام مالکؒ کاقول قبول کیاہے ویسے ہی امام احمدؒکاقول بھی قبول فرمائیں، ورنہ یہ توآپ کے کھلی منافقت کہلائے گی کہ اپنے مطلب کاقول لے لیااوراپنے خلاف جانے قول کوحذف کرتے ہوئے چھوڑدیا
زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹ کاردہم فقہ حنبلی کے مشہورامام علامہ موفق الدین ابن قدامہؒ سے پیش کیئے دیتے ہیں
وَقَدْ جَاءَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي الْجَمَاعَةِ۔ وَبِهَذَا قَالَ الْمُزَنِيّ، وَابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ، وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ، قَالَ أَحْمَدُ: كَانَ جَابِرٌ، وَعَلِيٌّ وَعَبْدُ اللَّهِ يُصَلُّونَهَا فِي جَمَاعَةٍ
حضرت عمررضی اﷲعنہ (تراویح کی) نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتے تھے، اسی طرح مزنی کہتے ہیں کہ ابن عبدالحکم اورابوحنیفہ کے اصحاب کا ایک گروہ بھی (تراویح کی) نماز جماعت سےادا کرتاتھا، امام احمد بن حنبل فرماتےہیں کہ حضرت جابر، حضرت علی اورحضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہم اجمعین تراویح جماعت کے ساتھ اداکرتےتھے
(المغنی لابن قدامہ: ج۲، ص۶۰۵)
(((اسکین موجودہے)))
زبیرعلی زئی صاحب کاپانچواں جھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں
معلوم ہواکہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہیں
(تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۶)
زبیرعلی زئی صاحب نے اپنے اس دعوےٰ میں مسئلہ تراویح پراپنے بولے گئے جھوٹوں میں سب سے بڑاجھوٹ بولاہے جس کوواضح کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ چاروں مکاتب فکرکے ائمہ کرام کی کتابیں اورائمہ اربعہ کے متبعین کا ۱۴۰۰ سوسالہ عمل اس بات کی سب سےبڑی دلیل ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی بیس رکعات سے کم تراویح ثابت نہیں
جیساکہ امام أبوعیسیٰ الترمذیؒ فرماتےہیں کہ
وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالمَدِينَةِ۔ وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ۔ وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً
تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے
(جامع الترمذی: ج۲، أبواب الصوم، بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، ص۱۵۹)
اگرگیارہ رکعات پرکسی ایک امام یا ان کے متبعین کاعمل ہوتاتوامام ترمذی اسے ضرور بیان کرتے، مسئلہ تراویح میں امام ابوعیسیٰ الترمذیؒ سے معتبرقول کسی کا نہیں ہوسکتااوروہ فرماتے ہیں کہ جمہوراہل علم بیس رکعت کے قائل ہیں
زبیرعلی زئی صاحب کاچھٹاجھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب علامہ عینی حنفیؒ، علامہ جلال الدین سیوطیؒ، ابن حمام حنفیؒ، اورامام ترمذیؒ کے ایک جملے
وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ،تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، سےعوام الناس کویہ دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بیس اورآٹھ رکعت تراویح میں علماء کا اختلاف ہے،
حالانکہ علماء کا بیس اورآٹھ رکعت تراویح پرنہیں بلکہ بیس یابیس سے زیادہ (یعنی چھتیس یا اکتالیس) رکعات پراختلاف ہے،جبکہ کم ازکم بیس رکعات پرتوتمام علماء سمیت پوری امت مسلمہ ہردورمیں متفق رہی ہے سوائے انگریزکے دورمیں پیداہونے والے فرقہ غیرمقلدین کے، یہی وجہ ہے کہ علامہ عینی حنفیؒ، علامہ جلال الدین سیوطیؒ اور ابن حمام حنفیؒ فرماتے ہیں:
علامہ بدرالدین عینیؒ فرماتے ہیں
وَهُوَ قَول جُمْهُور الْعلمَاء، وَبِه قَالَ الْكُوفِيُّونَ وَالشَّافِعِيّ وَأكْثر الْفُقَهَاء، وَهُوَ الصَّحِيح عَن أبي بن كَعْب من غير خلاف من الصَّحَابَة
بیس رکعات تراویح جمہورعلماءکاقول ہےاوریہی قول اہل کوفہ، امام شافعی اوراکثرفقہاءکرام کاہےاورحضرت ابی ابن کعب سے بھی یہی قول صحت سے مروی ہے، صحابہ میں سےکسی نے بھی اختلاف نہیں کیا
(عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۷)
ابن الہمامؒ فرماتےہیں
وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِأَنَّهُ وَقَعَ أَوَّلًا ثُمَّ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ عَلَى الْعِشْرِينَ فَإِنَّهُ الْمُتَوَارِثُ،بالآخر بیس رکعت پراتفاق ہوااوریہی متوارث ہے
(فتح القدير للكمال ابن الهمام: ج۱، ص۴۸۵)
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتےہیں
وَفِي سُنَنِ الْبَيْهَقِيِّ وَغَيْرِهِ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ الصَّحَابِيِّ قَالَ: كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً
سنن بیہقی وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ صحابی رسول حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ميں لوگ ماه رمضان ميں بيس ركعت پڑھا کرتے تھے
(الحاوی للفتاوی: ج۱، ص۳۳۶)
زباں جل جائے گر میں نے کچھ کہا ہو
تمہارے تیغ کے چھینٹے تمہارا نام لیتے ہیں
بیس رکعات تراویح پراجماع کی مخالفت میں غیرمقلدوھابی عالم زبیرعلی زئی صاحب کے6جھوٹ کاپردہ فاش
زبیرعلی زئی صاحب کاپہلاجھوٹاوراس کا جواب
بیس رکعات تراویح کے خلاف فرقہ غیرمقلدین کے ایک نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب اپنی کتاب تعدادرکعات قیام رمضان کےصفحہ نمبر۸۴پرلکھتے ہیں کہ
بیس تراویح پراجماع کادعویٰ باطل ہے
اوراپنے اس جھوٹے دعوےٰ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے امام مالکؒ کاقول پیش کرتے ہیں
امام مالک فرماتے ہیں: میں اپنے لئے قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعتیں اختیارکرتاہوں، اسی پرعمربن الخطابؓ نے لوگوں کوجمع کیاتھااوریہی رسول اﷲﷺکی نمازہے، مجھے پتانہیں کہ لوگوں نے یہ بہت سی رکعتیں کہاں سےنکالی ہیں؟ اسے ابن مغیث مالکی نے ذکرکیاہے‘‘
(کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۰، دوسرا نسخہ تصنیف عبدالحق اشبیلی[المتوفی: ۵۸۱ھ]بحوالہ تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۴)
زبیرعلی زئی صاحب کی اس کھوکھلی اوربے بنیاددلیل پرہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ موصوف عبدالحق اشبیلیؒ(المتوفی: ۵۸۱ھ)اورابن مغیث القرطبیؒ(المتوفی: ۴۲۹ھ) کے درمیان ملاقات ثابت کریں
اورساتھ ہی ابن مغیث القرطبیؒ(المتوفی: ۴۲۹ھ)اورامام مالکؒ(المتوفی: ۱۷۹ھ)کی بھی آپس میں ملاقات ثابت کرکے دکھائیں
کیونکہ امام مالکؒ کی وفات اورابن مغیثؒ کی پیدائش کےدرمیان تقریباً۱۵۹ سال کافاصلہ ہے اورابن مغیثؒ کی وفات اورعبدالحق اشبیلیؒ کی پیدائش کے درمیان تقریباً۱۷۶ سالوں کا فاصلہ ہے لہٰذا ان تینوں کا آپس میں سماع ثابت نہیں
تعجب کی بات یہ ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب بیس رکعات تراویح پرجلیل القدرتابعین فشتیربن شکل، ابن ابی ملیکہ، حارث الھمدانی، عطاءبن ابی رباح، ابوالبختری، سعیدبن ابی الحسن البصری جوالحسن کے بھائی ہیں، عبدالرحمٰن ابن ابی بکراورعمران العبدی کی بیان کردہ روایات کو منقطع کہہ کرضعیف قراردیدتے ہیں
حالانکہ ان تمام ثقہ تابعین کازمانہ حضرت عمررضی اﷲعنہ کے زمانے سےصرف چندسالوں کے فاصلے پرہےاوراس زمانے میں صحابہ کرامؓ بکثرت موجودتھے، اس کے باوجودبھی تابعین کی بیان کردہ روایات زبیرعلی زئی صاحب کے نزدیک منقطع ہیں اورابن مغیث ؒاورعبدالحق اشبیلیؒ کے درمیان دیڑھ سو سالوں سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہونے کے باوجود بھی امام مالکؒ کاقول ان کے نزدیک صحیح ہے
زبیرعلی زئی صاحب کے اس باطل اوردوہرے اصول سے ہی قارئین کواس بات کابخوبی اندازہ ہوگیاہوگاکہ فرقہ غیرمقلدین کے شیوخ اپنے باطل فرقے کو حق پرثابت کرنے کے لئے کیسی کیسی چالبازیاں اختیارکرتےہیں تاکہ عام اورلاعلم مسلمانوں کو بیوقوف بناسکیں
زبیرعلی زئی صاحب کادوسرادجل وفریب یہ ہے کہ موصوف نے عبدالحق اشبیلیؒ کی کتاب التہجد سے امام مالکؒ کا پہلاقول تو بیان کردیالیکن اسی کے نیچے امام مالکؒ کے ثقہ مامون شاگردامام ابن القاسمؒ سے مروی امام مالکؒ کا دوسرا قول حذف کردیا، تاکہ عام اورلاعلم مسلمانوں کوان کے مکروفریب کاعلم نہ ہوسکے
عبدالحق اشبیلیؒ کتاب التہجدمیں لکھتے ہیں ’’وَ قَالَ ابْنُ الْقَاسِمِ کرہ مالک رحمہ ﷲ تعالیٰ أن ینقص الناس من عدد الرکوع الذی جری نہ العمل فی مسجد رسول ﷲ ﷺ وھی تسع وثلاثون رکعۃ بالوتر، والوتر ثلاثً، واختار ھو لنفسہ احدی عشرۃ رکعۃ‘‘
’’امام ابن القاسمؒ فرماتے ہیں کہ: امام مالکؒ نےناپسند کیاکہ رسول اﷲﷺکی مسجد (یعنی مسجدنبوی) میں لوگوں کارکوع کی تعداد میں جوعمل چلاآرہاہے اس میں کمی کریں اوروہ وترکے ساتھ انتالیس رکعات ہیں، اوراس میں تین رکعات وترہے، اورخود اپنے لئے گیارہ رکعات اختیارکیا‘‘
(کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۱)
عبدالحق اشبیلیؒ امام مالکؒ کے قول کے بعدلکھتے ہیں
’’ویروی أن الناس اشتد علیھم طول القیام فشکوا ذلک الی عمر بن الخطاب، قأمر القارئین أن یُخففا من طول القیام ویزیدا فی عدد الرکوع، فکانا یقومان بثلاث وعشرین رکعۃ، ثم شکوا فنقصوا من طول القیام وزیدا فی الرکوع حتیٰ أتموا ستاً وثلاثین، والوتر ثلاث، فاستقر الأمر علی ھذا‘‘
’’اوریہ روایت کیاگیاہے کہ لوگوں پرگراں تھا قیام کا لمباہوناجس کی وجہ سےانہوں نے حضرت عمررضی اﷲعنہ سے اس کی شکایت کی توحضرت عمررضی اﷲعنہ نے قرأت کرنے والوں (یعنی تراویح پڑھانے والوں) کوحکم دیاکہ وہ قرأت کے لمباہونے میں کمی کریں اوررکعات کی تعداد بڑھادیں، لہٰذا جودوامام تھے انہوں نےتئیس رکعات کے ساتھ قیام شروع کردیا، لوگوں نےپھرسےشکایت کی تو پھرایسی صورت میں انہوں نے قیام کے لمبا ہونے کومزید کم کیااوررکعات کی تعدادمیں مزید اضافہ کیاپھر اس کو انتالیس رکعات پرتمام کیا، ان میں تین رکعات وترکی تھیں، اب اسی پرعمل چلاآرہاہے
(کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۲)
عبدالحق اشبیلیؒ یہ بھی لکھتے ہیں کہ
وکان علی بن ابی طالب رضی ﷲ عنہ یؤم الناس فی رمضان یعنی فی القیام، واختار أحمد بن حنبل الصلاۃ مع الناس فی قیام رمضان لقول النبیﷺ: اذا قام الرجل مع الأمام حتیٰ یصلی کتب لہ بقیۃ لیلۃ، وکذلک اللیث بن سعد، ویحییٰ بن سعد، وأبو البختری، وزاذان
حضرت علی رضی اﷲعنہ رمضان میں لوگوں کی امامت کیاکرتے تھےیعنی کہ تراویح میں، امام احمدبن حنبلؒ نے بھی یہی پسند کیا ہے کہ تراویح لوگوں کے ساتھ پڑھیں، اس کی وجہ نبیﷺکایہ فرمان ہے کہ جب کوئی آدمی امام کے ساتھ کھڑاہوتاہےیہاں تک کے اس کےساتھ نماز مکمل کرلےتواس کے لئے پوری رات عبادت کاثواب لکھاجاتاہے، اوریہی بات لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، ابوالبختری اورزاذان کے نزدیک ہے
(کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۳)
زبیرعلی زئی صاحب اوران کے متبعین سے گزارش ہے کہ وہ عبدالحق اشبیلیؒ کی نقل کردہ تمام باتوں کو قبول فرمائیں، یہ کیاکہ اپنے مطلب کی ایک بات توعوام الناس میں بیان کردی اوراپنے مؤقف کے خلاف جانے والی بقیہ تین باتوں کوحذف کردیا
(((اسکین موجود ہے)))
زبیرعلی زئی صاحب یہاں ایک اورجھوٹ اوربہتان لگاتے ہوئے لکھتے ہیں
امام مالک سے ابن القاسم کانقلِ قول: مرودوہے(دیکھئے کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی: ص۵۳۴)
(تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۵)
زبیرعلی زئی صاحب کے اس مکروفریب اورکذب بیانی پرسب سے پہلےہم انہیں اِن ہی کے قلم سے منہ توڑالزامی جواب دیتے ہیں
زبیرعلی زئی صاحب نے جنوری ۲۰۰۹ میں مؤطا امام مالک کا اردوترجمہ شایع کیاجس پرکتاب کا عنوان ان الفاظ میں رکھا
مؤطا امام مالک روایۃ ابن القاسم،اب حیرت انگیزبات یہ ہے کہ اگر بقول زبیرعلی زئی صاحب کے امام مالکؒ سے ابن القاسمؒ کا نقل قول مردود ہے
تو پھر انہوں مؤطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی تخریج وتشریح کرکےتمام مردوداقوال جمع کیوں کیئے؟
اس الزامی جواب کے بعدہم زئی صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی کی وہ عبارت نقل کردیں
جس میں ابن القاسمؒ کےقول کومرودکہاگیاہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ زبیرعلی زئی صاحب اوران کے متبعین قیامت تک یہ عبارت پیش نہیں کرسکتےکیونکہ ابن القاسمؒ کے متعلق کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی میں ایسی کوئی بھی بات لکھی ہی نہیں ہے
زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹ کو واضح کرنے کے لئے ہم انہیں کے پیش کردہ کتاب الضعفاءلابی زرعۃالرازی کی اصل کتاب کے اسی صفحہ نمبر۵۳۴کاحوالہ پیش کیئے دیتے ہیں تاکہ قارئین کو زبیرعلی زئی صاحب کی علمی حیثیت، کذب بیانیوں اور بہتان تراشیوں کاصحیح علم ہوسکے
(((اسکین موجودہے)))
زبیرعلی زئی صاحب کادوسراجھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب امام محمد بن الحسن الشيبانیؒ کے حوالےسےامام ابوحنیفہؒ پرجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں
امام ابوحنیفہ سے بیس رکعات تراویح باسندصحیح ثابت نہیں ہیں، اس کے برعکس حنفیوں کے ممدوح محمد بن الحسن الشيبانی کی الموطأسے ظاہرہوتاہے کہ امام ابوحنیفہ گیارہ رکعات کے قائل تھے
(تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۵)
امام محمد بن الحسن الشيبانیؒ الموطأ میں بیس رکعات تراویح پر اجماع کا دعویٰ کرتے ہوئےفرماتے ہیں
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، لا بَأْسَ بِالصَّلاةِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، أَنْ يُصَلِّيَ النَّاسُ تَطَوُّعًا بِإِمَامٍ، لأَنَّ الْمُسْلِمِينَ قَدْ أَجْمَعُوا عَلَى ذَلِكَ وَرَأَوْهُ حَسَنًا
حضرت عمرؓ نے ابی بن کعبؓ کورمضان میں امام بناکرتراویح پڑھانے کاحکم دیاہے۔ اسی کوہم اختیارکرتے ہیں۔ اس لئے کہ مسلمانوں (صحابہؓ) نے اس (بیس رکعات) پراجماع کیاہے اوراس کوپسندکیاہے اورآنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ مسلمان (صحابہؓ) جسے پسندکریں وہ خداکے نزدیک بھی پسندیدہ ہے
(موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيبانی: باب قيام شهر رمضان وما فيه من الفضل، رقم الحديث ۲۱۴)
(((اسکین موجود ہے)))
ذرابھی عقل وشعور رکھنے والاشخص اس بات کوبآسانی سمجھ سکتاہے کہ اگرامام ابوحنیفہؒ بیس کے بجائے گیارہ رکعات کے قائل ہوتے توامام محمدؒ الموطأ میں بیس رکعات تراویح پراجماع کادعویٰ کبھی نہ کرتے، لہٰذا ثابت ہوگیا کہ زبیرعلی زئی صاحب نے امام ابوحنیفہؒ اورامام محمدؒ دونوں پرجھوٹ بولاہے کہ امام صاحبؒ گیارہ رکعات کے قائل تھے
زبیرعلی زئی صاحب کاتیسراجھوٹ اوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب امام شافعیؒ کےحوالےسےجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں
معلوم ہوا امام شافعی نے بیس رکعات تراویح سے رجوع کرلیاتھااوروہ آٹھ اوربیس دونوں کوپسند کرتے اورآٹھ کوزیادہ بہترسمجھتےتھے
(تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۵)
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب کےمتبعین سےگزارش ہے کہ وہ امام شافعی کے بیس رکعات تراویح سے رجوع پرصحیح سند کے ساتھ کوئی ایک دلیل پیش کردیں ورنہ ہم یہ سمجھنے پرمجبورہونگے کے شاید آپ نے غیب دانی کا دعویٰ کررکھاہے یاپھر شاید آپ یہ کہناچاہتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے خودآکرآپ کواپنے اس رجوع کی خبردی، زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹے دعوےٰ پرہم امام ترمذیؒ سے دلیل پیش کیئے دیتے ہیں جوائمہ کرام کے مذاہب نقل کرنے میں سب سے معتبرشخصیت سمجھےجاتےہیں
امام أبوعیسیٰ الترمذیؒ امام شافعیؒ کے بارے میں فرماتےہیں
وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ۔ وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً
اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے
(الجامع الکبیر وجامع الترمذی: ج۲، أبواب الصوم، بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، ص۱۵۹)
(((اسکین موجودہیں)))
زبیرعلی زئی صاحب کاچوتھاجھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب امام احمدبن حنبلؒ کےحوالےسےجھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں
راوی کہتے ہیں "ولم یقض فیہ بشیٔ امام احمد نے اس میں کوئی فیصلہ نہیں کیا
(تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۶)
زبیرعلی زئی صاحب نے یہاں بھی انتہائی کذب بیانی سے کام لیاہے کیوں کہ عبدالحق اشبیلیؒ(المتوفی: ۵۸۱ھ) کی جس کتاب التہجدسے موصوف نے امام مالکؒ سے آٹھ رکعت تراویح کا قول ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس کتاب کے اسی صفحہ نمبر۱۷۶، فقرہ نمبر۸۹۳پرلکھا ہےکہ
وکان علی بن أبی طالب رضی ﷲ عنہ یؤم الناس فی رمضان یعنی فی القیام، واختار أحمد بن حنبل الصلاۃ مع الناس فی قیام رمضان
اورعلی بن ابی طالب رضی اﷲعنہ زمضان میں لوگوں کے ساتھ قیام کیاکرتے تھے، اوراسے اختیارکیااحمد بن حنبل نےکہ وہ رمضان میں لوگوں کے ساتھ تراویح پڑھتے
(کتاب التہجد: ص۱۷۶، فقرہ۸۹۳)
(((اسکین موجودہے)))
اب ہم زبیرعلی زئی صاحب اوران کے متبعین سے گزارش کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے عبدالحق اشبیلیؒ کی کتاب التہجد سے امام مالکؒ کاقول قبول کیاہے ویسے ہی امام احمدؒکاقول بھی قبول فرمائیں، ورنہ یہ توآپ کے کھلی منافقت کہلائے گی کہ اپنے مطلب کاقول لے لیااوراپنے خلاف جانے قول کوحذف کرتے ہوئے چھوڑدیا
زبیرعلی زئی صاحب کے اس جھوٹ کاردہم فقہ حنبلی کے مشہورامام علامہ موفق الدین ابن قدامہؒ سے پیش کیئے دیتے ہیں
وَقَدْ جَاءَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي الْجَمَاعَةِ۔ وَبِهَذَا قَالَ الْمُزَنِيّ، وَابْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ، وَجَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ، قَالَ أَحْمَدُ: كَانَ جَابِرٌ، وَعَلِيٌّ وَعَبْدُ اللَّهِ يُصَلُّونَهَا فِي جَمَاعَةٍ
حضرت عمررضی اﷲعنہ (تراویح کی) نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتے تھے، اسی طرح مزنی کہتے ہیں کہ ابن عبدالحکم اورابوحنیفہ کے اصحاب کا ایک گروہ بھی (تراویح کی) نماز جماعت سےادا کرتاتھا، امام احمد بن حنبل فرماتےہیں کہ حضرت جابر، حضرت علی اورحضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲعنہم اجمعین تراویح جماعت کے ساتھ اداکرتےتھے
(المغنی لابن قدامہ: ج۲، ص۶۰۵)
(((اسکین موجودہے)))
زبیرعلی زئی صاحب کاپانچواں جھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب لکھتے ہیں
معلوم ہواکہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہیں
(تعدادرکعات قیام رمضان: ص۸۶)
زبیرعلی زئی صاحب نے اپنے اس دعوےٰ میں مسئلہ تراویح پراپنے بولے گئے جھوٹوں میں سب سے بڑاجھوٹ بولاہے جس کوواضح کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ چاروں مکاتب فکرکے ائمہ کرام کی کتابیں اورائمہ اربعہ کے متبعین کا ۱۴۰۰ سوسالہ عمل اس بات کی سب سےبڑی دلیل ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی بیس رکعات سے کم تراویح ثابت نہیں
جیساکہ امام أبوعیسیٰ الترمذیؒ فرماتےہیں کہ
وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ: أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالمَدِينَةِ۔ وَأَكْثَرُ أَهْلِ العِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ۔ وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً
تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، بعض وتر سمیت اکتالیس رکعت کے قائل ہیں، اہلِ مدینہ کا یہی قول ہے اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل ہے، اور اکثر اہلِ علم بیس رکعت کے قائل ہیں، جو حضرت علی، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے۔ سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات ہی پڑھتے پایا ہے
(جامع الترمذی: ج۲، أبواب الصوم، بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ، ص۱۵۹)
اگرگیارہ رکعات پرکسی ایک امام یا ان کے متبعین کاعمل ہوتاتوامام ترمذی اسے ضرور بیان کرتے، مسئلہ تراویح میں امام ابوعیسیٰ الترمذیؒ سے معتبرقول کسی کا نہیں ہوسکتااوروہ فرماتے ہیں کہ جمہوراہل علم بیس رکعت کے قائل ہیں
زبیرعلی زئی صاحب کاچھٹاجھوٹاوراس کا جواب
فرقہ غیرمقلدین کے نام نہاد شیخ زبیرعلی زئی صاحب علامہ عینی حنفیؒ، علامہ جلال الدین سیوطیؒ، ابن حمام حنفیؒ، اورامام ترمذیؒ کے ایک جملے
وَاخْتَلَفَ أَهْلُ العِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ،تراویح میں اہلِ علم کا اختلاف ہے، سےعوام الناس کویہ دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بیس اورآٹھ رکعت تراویح میں علماء کا اختلاف ہے،
حالانکہ علماء کا بیس اورآٹھ رکعت تراویح پرنہیں بلکہ بیس یابیس سے زیادہ (یعنی چھتیس یا اکتالیس) رکعات پراختلاف ہے،جبکہ کم ازکم بیس رکعات پرتوتمام علماء سمیت پوری امت مسلمہ ہردورمیں متفق رہی ہے سوائے انگریزکے دورمیں پیداہونے والے فرقہ غیرمقلدین کے، یہی وجہ ہے کہ علامہ عینی حنفیؒ، علامہ جلال الدین سیوطیؒ اور ابن حمام حنفیؒ فرماتے ہیں:
علامہ بدرالدین عینیؒ فرماتے ہیں
وَهُوَ قَول جُمْهُور الْعلمَاء، وَبِه قَالَ الْكُوفِيُّونَ وَالشَّافِعِيّ وَأكْثر الْفُقَهَاء، وَهُوَ الصَّحِيح عَن أبي بن كَعْب من غير خلاف من الصَّحَابَة
بیس رکعات تراویح جمہورعلماءکاقول ہےاوریہی قول اہل کوفہ، امام شافعی اوراکثرفقہاءکرام کاہےاورحضرت ابی ابن کعب سے بھی یہی قول صحت سے مروی ہے، صحابہ میں سےکسی نے بھی اختلاف نہیں کیا
(عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری: ج۱۱، ص۱۲۷)
ابن الہمامؒ فرماتےہیں
وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِأَنَّهُ وَقَعَ أَوَّلًا ثُمَّ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ عَلَى الْعِشْرِينَ فَإِنَّهُ الْمُتَوَارِثُ،بالآخر بیس رکعت پراتفاق ہوااوریہی متوارث ہے
(فتح القدير للكمال ابن الهمام: ج۱، ص۴۸۵)
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتےہیں
وَفِي سُنَنِ الْبَيْهَقِيِّ وَغَيْرِهِ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ الصَّحَابِيِّ قَالَ: كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً
سنن بیہقی وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ صحابی رسول حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت ميں لوگ ماه رمضان ميں بيس ركعت پڑھا کرتے تھے
(الحاوی للفتاوی: ج۱، ص۳۳۶)
زباں جل جائے گر میں نے کچھ کہا ہو
تمہارے تیغ کے چھینٹے تمہارا نام لیتے ہیں
No comments:
Post a Comment