Monday, 13 May 2019

اعتراض حنفیہ کے ہاں استمناء بالید جائز ہے بلکہ زنا کا خوف ہو تو واجب ہے۔

اعتراض حنفیہ کے ہاں استمناء بالید جائز ہے بلکہ زنا کا خوف ہو تو واجب ہے۔
إِنْ أَرَادَ تَسْكِينَ الشَّهْوَةِ يُرْجَى أَنْ لَا يَكُونَ عليه وَبَالٌ.
(البحر الرائق لابن نجیم: ج2 ص475 باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسد)
ترجمہ: اگر شہوت کو ختم کرنے کا ارادہ ہو تو امید ہے کہ اس پر کوئی وبال (گناہ) نہ ہو۔
وَلَوْ خَافَ الزِّنَى يُرْجَى أَنْ لَا وَبَالَ عَلَيْهِ .
(الدر المختار مع رد المحتار: ج3 ص426 باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسد)
ترجمہ: اگر زنا کا خوف ہو تو امید ہے کہ اس پر کوئی وبال (گناہ) نہ ہو۔

جواب نمبر 1

حنفیہ کا مذہب ہے: الِاسْتِمْنَاءُ حَرَامٌ ، وَفِيهِ التَّعْزِيرُ .
(الدر المختار: ج6 ص44 کتاب الحدود، فرع: الاستمناء)
ترجمہ: مشت زنی حرام ہے اور اس میں تعزیر ہے۔
دلیل یہ ہے: ناکح الید ملعون
(کشف الخفاء للعجلونی: ج2 ص325)
ترجمہ: ہاتھ سے نکاح کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے۔
ہاں البتہ اگر غلبہ شہوت ہو اور زنا کا خطرہ ہو تو بھی واجب یا مستحب نہیں بلکہ صرف امید معافی کی بات ہے۔ اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
إنْ أَرَادَ بِذَلِكَ تَسْكِينَ الشَّهْوَةِ الْمُفْرِطَةِ الشَّاغِلَةِ لِلْقَلْبِ وَكَانَ عَزَبًا لَا زَوْجَةَ لَهُ وَلَا أَمَةَ أَوْ كَانَ إلَّا أَنَّهُ لَا يَقْدِرُ عَلَى الْوُصُولِ إلَيْهَا لِعُذْرٍ قَالَ أَبُو اللَّيْثِ أَرْجُو أَنْ لَا وَبَالَ عَلَيْهِ
(رد المحتار: ج3 ص426 باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسد)
ترجمہ: اگر شہوت کو ختم کرنے کا ارادہ ہو جو حد سے زیادہ ہو اور دل کو گناہ کی طرف میلان کرنے والی ہو اور وہ آدمی غیر شادی شدہ ہو کہ نہ اس کی بیوی ہو نہ کوئی باندی یا ہو تو شادی شدہ لیکن ان تک پہنچنے میں کوئی عذر ہو۔ فقیہ ابو اللیث فرماتے ہیں کہ مجھے امید ہے کہ اس پر کوئی وبال (گناہ) نہ ہو گا۔
اوراگر محض لذت کے لیے ہوتو سراسر حرام لکھا ہے:
وَأَمَّا إذَا فَعَلَهُ لِاسْتِجْلَابِ الشَّهْوَةِ فَهُوَ آثِمٌ
(رد المحتار: ج3 ص426 باب ما یفسد الصوم و ما لا یفسد)
ترجمہ: اگر شہوت لانے کےلیے مشت زنی کرتا ہے تو یہ گناہ گار ہو گا۔
بلکہ علامہ علاء الدین الحصکفی نے تو بیوی اور باندی سے بھی استمناء کو مکروہ لکھا ہے:
اَلْاِسْتِمْنَاءُ حَرَامٌ ، وَفِيهِ التَّعْزِيرُ وَلَوْ مَكَّنَ امْرَأَتَهُ أَوْ أَمَتَهُ مِنْ الْعَبَثِ بِذَكَرِهِ فَأَنْزَلَ كُرِهَ.
(الدر المختار: ج6 ص44 کتاب الحدود، فرع: الاستمناء)
ترجمہ: مشت زنی حرام ہے اور اس میں تعزیر ہے، اور اگر بیوی یا باندی کو ذکر سے کھیلنے دیا اور انزال ہو گیا تو یہ مکروہ ہے

۔
جواب نمبر2:

خود غیر مقلدین کو یہ اعتراض کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے کیونکہ ان کا مذہب یہ ہے کہ:
و بالجملہ استنزال منی بکف یا بچیزے از جمادات نزد دعائے حاجت مباح است و لا سیماچوں فاعل خاشے از وقوع در فتنہ یا معصیت کہ اقل احوالش کہ نظر بازیست باشد کہ دریں حین مندوب است بلکہ گاہے واجب گردد۔
(عرف الجادی از نواب میر نور الحسن خان: ص207)
ترجمہ: خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہتھیلی یا جمادات میں سے کسی چیز کے ساتھ منی نکالنا ضرورت کے وقت مباح ہے خاص کر جب اس کام کرنے والے کو فتنہ یا معصیت میں واقع ہونے کا خوف ہو جس کی اول حالت یہ ہے کہ بد نظری کرنے لگے تو اس وقت استمناء مستحب اور بلکہ کبھی تو یہ فعل واجب بھی ہو جاتا ہے

No comments:

Post a Comment