مسئلہ ترک رفع الیدین فی الصلوۃ
احادیث مرفوع
خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور ترک رفع یدین:
دلیل نمبر 1:
روی الامام الحافظ المحدث ابویعلی أحمد بن علي بن المثنى الموصلي التميمي : قال حدثنا اسحاق بن ابی اسرائیل حدثنا محمد بن جابر عن حماد عن ابراہیم عن علقمہ عن عبداللہ قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وعمر فلم یرفعوا ایدیھم الا عند افتتاح الصلوۃ وقد قال محمد فلم یرفعوا ایدیہم بعدالتکبیرۃ الاولی،
تحقیق السند: اسنادہ حسن و رواتہ ثقات
(مسندابی یعلی ص 922 رقم الحدیث 5036، کتاب المعجم لابی بکر اسماعیلی ج2ص692،693رقم154 ، الکامل لابن عدی ج7ص337 رقم الترجمۃ 1646)
ملحوظہ: اس روایت کے ایک راوی محمد بن جابر پر غیر مقلدین اعتراض کرتے ہیں۔ اس کا جواب احادیث مرفوعہ دلیل نمبر 5 کے تحت گزر چکا ہے۔
دلیل نمبر 2:
روی الامام الحافظ الفقیہ ابوعبداللہ محمد بن حسن الشیبانی: قال اخبرنا ابوبکر بن عبداللہ النہشلی عن عاصم بن کلیب الجرمی عن ابیہ وکان من اصحاب علی ان علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کان یرفع یدیہ فی التکبیرۃ الاولیٰ التی یفتتح بھا الصلوۃ ثم لایرفعہما فی شیئ من الصلوۃ
تحقیق السند: اسنادہ صحیح و رواتہ ثقات۔
(موطا امام محمد ص94باب افتتاح الصلوۃ ،کتاب الحجۃ:ج1ص76باب افتتاح الصلوۃ و ترک الجہر ، المدونۃ الکبری ج1ص166 باب فی رفع الیدین فی الرکوع والاحرام)
اعتراض :
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ یہ روایت منکر ہے، کیونکہ امام بخاری نے عبد الرحمن بن مہدی کا قول نقل فرمایا ہے:
قال عبد الرحمن بن مہدی ذکرت للثوری حدیث النہشلی عن عاصم بن کلیب فا نکرہ
(جزء رفع الیدین ص267)
نیز ابو بکر النہشلی ضعیف راوی ہے۔
جواب نمبر1:
امام بخا ری نے امام سفیا ن ثوری سے اس جرح کی سند متصل بیان نہیں کی ،لہذا اس جرح کی سند منقطع ہونے کی وجہ سے یہ جرح ناقابل قبول ہے۔مزید یہ کہ امام عبد الرحمن بن مہدی سے امام بخا ری کی ملاقات ثابت نہیں۔ کیو نکہ امام بخا ری کی پیدا ئش سن 194ھ میں بخارا میں ہو ئی اور امام عبدالرحمن بن مہدی کی وفات سن 198 ھ میں بصرہ میں ہو ئی۔
جواب نمبر2:
اس حدیث کا مدار امام ابو بکر النہشلی کو فی پر ہے جو عند الجمہور ثقہ ، صا لح ، حا فظ ، صدوق ،ثبت ، حسن الحدیث ہیں۔ آپ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔
(تہذیب التہذیب ج6ص315، تا ریخ الثقات للعجلی ص493،المعرفت والتا ریخ ج3ص237، صحیح مسلم ج1ص213، الجرح والتعدیل ج9ص407)
لہذا حدیث علی صحیح اور حجت ہے۔
جواب نمبر3:
امام سفیان ثوری کو فی م 161ھ خود تر ک رفع الیدین پر عا مل ہیں۔
(فقہ سفیا ن ثوری ص560، عمدۃ القاری ج4ص380)
اور ترک کی روایت عاصم بن کلیب سے نقل کرتے ہیں۔
(سنن النسائی ج 1 ص161،162باب الرخصۃ فی ترک ذلک)
امام ابو بکر نہشلی کو فی (م 166ھ) بھی ترک کی روایت عاصم بن کلیب سے ہی نقل کرتے ہیں
(موطا امام محمد ص94)
تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جس روایت کو امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے مذہب کی بنیاد بناتے ہیں اس کا انکار کر بیٹھیں؟!! پس یہ جرح باطل ہے۔
دلیل نمبر 3:
روی الامام زید بن علی بن الحسین بن علی الہاشمی عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنہ عن علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ انہ کان یرفع یدیہ فی التکبیرۃ الاولی الی فروع اذنیہ ثم لایرفعہماحتی یقضی صلوٰتہ۔
تحقیق السند: اسنادہ صحیح وراتہ ثقاۃ
(مسند الامام زید ص89 باب التکبیر فی الصلوۃ ،ص149باب الصلوۃ علی المیت و کیف یقال ذلک )
دیگر صحابہ کرام اور ترک رفع یدین :
دلیل نمبر 1:
روی الامام الاعظم ابوحنیفۃ التابعی الکوفی : عن حماد عن ابراہیم عن الاسود ان عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کان یرفع یدیہ فی اول التکبیر ثم لایعود لشیئ من ذالک،
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین۔
(مسند ابی حنیفۃ بروایۃ الحارثی ج2 ص502 رقم الحدیث 801 ،جامع المسانید بروایۃ الخوارزمی ج1ص355رقم1867 ، ،مختصر خلافیات البیہقی لاحمد بن فرح ج2ص77)
دلیل نمبر 2:
روی الامام أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي : قال حدثنا ابوبکر بن عیاش عن حصین عن مجاہد قال ما رایت ابن عمر یرفع یدیہ الا فی اول ما یفتتح ،
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص268رقم13باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود)
فائدہ: یہ طریق صحیح بخاری میں بھی موجود ہے: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ [بن عیاش] الخ
( ج1ص274باب الاعتکاف فی العشر الاوسط من رمضان)
دلیل نمبر 3:
روی الامام ابوجعفر أحمد بن محمد بن سلامة الطحاوي : قال حدثنا ابن ابی داؤد قال ثنا احمد بن یونس قال ثنا ابوبکر بن عیاش عن حُصَيْنٍ عن مجاہد قال صلیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیہ الا فی التکبیرۃ الاولیٰ من الصلوۃ،
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین
(سنن الطحاوی ج1ص163باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود)
فائدہ: یہ طریق صحیح بخاری میں بھی موجود ہے: أَبُو بَكْرٍ [ابْن عَيَّاشٍ ]عَنْ حُصَيْنٍ الخ
( ج2ص725 بَاب قولہ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ)
اعتراض:
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ایک راوی ابو بکر بن عیاش ہے۔ اس کا آخری عمر میں حافظہ خرا ب ہو گیا تھا اور یہ اختلاط کا شکا ر ہو گیا تھا۔
جواب نمبر1:
امام ابو بکر بن عیاش صحیح بخاری، صحیح مسلم (مقدمہ) اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اورعند الجمہور ثقہ ہیں۔ مثلاً:
امام عبد اللہ بن مبارک: أثنى عليه۔
امام احمد بن حنبل: صدوق صالح صاحب قرآن وخبر۔۔ ثقة
امام بخاری: اخرج عنہ فی صحیحہ
امام مسلم: اخرج عنہ فی صحیحہ
امام ابن خزیمۃ: اخرج عنہ فی صحیحہ
عثمان الدارمی: من أهل الصدق والامانة
امام ابوحاتم الرازی: أصح كتابا۔۔۔ أبو بكر أحفظ منه [ای من عبد الله بن بشر] وأوثق
امام ابن حبان: ذكره في الثقات
امام عبد اللہ بن عدی: لم أجد له حديثا منكرا
امام العجلی: كان ثقة قديما صاحب سنة وعبادة
امام ابن سعد: وكان ثقة صدوقا عارفا بالحديث والعلم
امام ثوری، امام ابن المبارک، امام ابن مہدی: يثنون عليه
امام یعقوب بن شیبۃ: شيخ قديم معروف بالصلاح البارع وكان له فقه كثير وعلم باخبار الناس ورواية للحديث
امام الساجی: صدوق یھم•
(تہذیب التہذیب لابن حجر العسقلانی: ج7 ص 308 تا ص311)
نیز آپ اس روایت کے بیا ن کر نےمیں منفرد نہیں بلکہ امام محمد حسن بن الشیبانی ثقہ وصدوق نے ان کی متا بعت معنوی کی ہے۔مثلاً:
قال محمد اخبرنا محمد بن اابان بن صالح عن عبد العزیز بن حکیم قال رایت ابن عمر یرفع یدیہ حذاء اذنیہ فی اول تکبیرۃ افتتاح الصلوۃ و لم یرفعہما فیما سوی ذلک۔
(موطا امام محمد ص93 باب افتتاح الصلوۃ، کتا ب الحجہ لامام محمد ج1ص76 باب افتتاح الصلوۃ)
پس الزام اختلاط باطل ہے۔
جواب نمبر2:
امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ مختلط راوی کے متعلق ایک قاعدہ بیان کرتے ہیں:
وحكم المختلط أنه لا يُحتج بما روى عنه فى الاختلاط أو شك فى وقت تحمله، ويحتج بما روى عنه قبل الاختلاط، وما كان فى الصحيحين عنه محمول على الأخذ عنه قبل اختلاطه
.(تہذیب الاسماء واللغات للنووی ج1ص242)
یعنی جو راوی اختلاط کا شکار ہو گئے ہوں تو امام بخا ری ومسلم ان کے ایسے شاگردوں کی روایتیں تخریج کرتے ہیں جن کا سما ع قبل الاختلاط والتغیر ہوتاہے۔ ہماری پیش کردہ روایت ”ابن أبي شيبة عن ابی بکر بن عیاش“ اور”احمد بن یونس عن ابی بکر بن عیاش“ کے طریق سے مروی ہے اور یہی طریق صحیح بخاری میں موجود ہیں۔
1: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ [بن عیاش] الخ
( ج1ص274باب الاعتکاف فی العشر الاوسط من رمضان)
2: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ[بن عیاش] الخ
( ج2ص725 بَاب قولہ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ)
لہذا یہ بات با لتحقیق ثابت ہوئی کہ حدیث ابن عمر من طریق ابی بکر بن عیاش قبل الاختلاط والتغیر کی ہے، پس اعتراض باطل ہے۔
دلیل نمبر 4:
قال الامام محمد الشیبانی: ان فقیہھم[اہل المدینۃ] مالک بن انس قدروی عن نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ وابی جعفر القاری انہما اخبراہ ان ابا ہریرۃ رضی اللہ عنہ کان یصلی بہم فیکبر کلما خَفَضَ ورفع ،قالا: وکان یرفع یدیہ حین یکبر ویفتتح الصلوۃ۔ فہذا حدیثکم[یا اہل المدینۃ] موافق لعلی وابن مسعود رضی اللہ عنہمالا حاجۃ بنا معہما الی قول ابی ہریرۃ ونحوہ ولکنا احتججنا علیکم بحدیثکم•
(کتاب الحجۃ للامام محمد ج1ص75باب افتتاح الصلوۃ وترک الجہر ببسم اللہ ،وموطا الامام محمد ص90باب افتتاح الصلوۃ)
تحقیق السند:اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین
دلیل نمبر 5:
قد روی الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي : قال حدثنا ابن فضیل عن عطاء عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال لاترفع الایدی الافی سبع مواطن اذا قام الی الصلوۃ واذا رای البیت وعلی الصفاوالمروۃ وفی عرفات و فی جمع وعند الجمار،
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص 267،268 رقم الحدیث 11باب من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لایعود ،)
1500صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ترک رفع الیدین:
کوفہ وہ اسلامی شہر ہے جسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آباد کیا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دارالخلافہ بنایا تھا۔ اس میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد آکر قیام پذیر ہوئی۔ مؤرخین نے ان کی تعداد 1500 بیان کی ہے۔ چنانچہ امام احمد بن عبد اللہ بن صالح العجلی الکوفی م 261ھ فرماتے ہیں:
نزل الکوفۃ الف وخمس مائۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم
(تاریخ الثقات للعجلی ص517باب فیمن نزل الکوفۃ وغیرھا من الصحابۃ)
اور کوفہ میں قیام پذیر تمام حضرات نے شروع نماز کے علاوہ رفع یدین چھوڑ دیا تھا، جیسا کہ ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے:
1: قال ابن عبد البر م463ھ : قال الامام ابوعبداللہ محمد بن نصر الْمَرْوَزِيُّ فی کتابہ فی رفع الیدین من الکتاب الکبیر: لانعلم مصرا من الامصار یُنسَب الی اہلہ العلمُ قدیماً ترکوا باجماعہم رفع الیدین عندالخفض والرفع فی الصلوۃ الا اہل الکوفۃ
(التمہید لابن عبدالبر ج4ص187،الاستذکار لابن عبدالبر ج1ص408باب افتتاح الصلوۃ)
2: قال الامام المحدث ابوعیسی محمد بن عيسى الترمذي : وبہ [ ترک رفع الیدین]یقول غیرواحد من اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وھو قول سفیان واہل الکوفۃ ،
(جامع الترمذی ج1ص59 باب رفع الیدین عندالرکوع،مختصر الاحکام للطوسی ج2ص104)
احادیث مقطوعہ
دلیل نمبر 1:
قد روی الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي : قال حدثنا ابن مبارک عن اشعث عن الشعبی انہ کان یرفع یدیہ فی اول التکبیر ثم لایرفعہما
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص267باب من کان یرفع یدیہ فی اول التکبیرۃ ثم لایعود، سنن الطحاوی ج1ص164باب التکبیرللرکوع والتکبیر للسجود)
دلیل نمبر 2:
روی الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي : قال حدثنا یحیی بن سعید عن اسماعیل قال کان قیس [بن ابی حازم البجلی الکوفی ] یرفع یدیہ اول مایدخل فی الصلوۃ ثم لایرفعہما،
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین
( مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص267باب من کان یرفع یدیہ فی اول التکبیرۃ ثم لایعود،رقم10)
دلیل نمبر 3:
روی الامام الفقیہ محمد بن الحسن الشیبانی: قال اخبرنا محمد بن ابان بن صالح عن حماد عن ابراہیم النخعی قال لاترفع یدیک فی شیئ من الصلوۃ بعدالتکبیرۃ الاولی
تحقیق السند: اسنادہ صحیح رواتہ ثقات۔
(موطاالامام محمد ص92باب افتتاح الصلوۃ)
دلیل نمبر 4:
روی الامام الحافظ المحدث أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي : عن الحجاج عن طلحۃ عن خَيْثَمَةَ وابراہیم قال کانا لایرفعان ایدیہما الا فی بدء الصلوۃ ،
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
( مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص267باب من کان یرفع یدیہ فی اول التکبیرۃ ثم لایعود)
دلیل نمبر 5:
روی الامام ابن ابی شیبۃ: قال حدثنا معاویۃ بن ہشیم عن سفیان بن مسلم الْجُهَنِيّ قال کان ابن ابی لیلی یرفع یدیہ اول شیئ اذاکبر،
تحقیق السند: اسنادہ جید
( مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص268باب من کان یرفع یدیہ فی اول التکبیرۃ ثم لایعود)
دلیل نمبر 6:
روی الامام ابن ابی شیبۃ قال حدثنا وکیع وابواسامۃ عن شعبۃ عن ابی اسحاق قال کان اصحاب عبداللہ واصحاب علی لایرفعون ایدیہم الافی افتتاح الصلوۃ، قال وکیع ثم لایعودون
اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج1ص267باب من کان یرفع یدیہ فی اول التکبیرۃ ثم لایعود،،الاوسط فی السنن لابن المنذر ج3ص148،149،رقم الحدیث 1391باب ذکررفع الیدین عندالرکوع وعندالرفع)
بلاد اسلامیہ اور ترک رفع الیدین
اہل مدینہ اور ترک رفع الیدین:
امام مالک بن انس المدنی رحمہ اللہ مدینہ منورہ کے فقیہ ہیں، آپ فرماتے ہیں:
لا اعرف رفع الیدین فی شیئ من تکبیر الصلوۃ، لا فی خفض ولا فی رفع الا فی افتتاح الصلوۃ۔۔۔قال ابن القاسم : وکان رفع الیدین عند مالک ضعیفا الا فی تکبیرۃ الاحرام•
(المدونۃ الکبری للامام مالک ج1ص165 باب فی رفع الیدین فی الرکوع والاحرام ،التمہید لابن عبدالبر ج4ص187)
اہل کوفہ اور ترک رفع الیدین:
1: قال الامام الحافظ ابن عبد البر القرطبي م463ھ : قال الامام ابوعبداللہ محمد بن نصر الْمَرْوَزِيُّ فی کتابہ فی رفع الیدین من الکتاب الکبیر: لانعلم مصرا من الامصار یُنسَب الی اہلہ العلمُ قدیماً ترکوا باجماعہم رفع الیدین عندالخفض والرفع فی الصلوۃ الا اہل الکوفۃ
(التمہید لابن عبدالبر ج4ص187،الاستذکار لابن عبدالبر ج1ص408باب افتتاح الصلوۃ)
2: وقال ایضاً: فقال مالك فيما روى عنه ا بن القاسم يرفع للإحرام عند افتتاح الصلاة ولا يرفع في غيرها۔۔۔ وھو قول الکوفیین ابی حنیفۃ وسفیان الثوری والحسن بن حُيَيٍّ وسائر فقھاء الکوفۃ قدیماً وحدیثاً•
(الاستذکار لابن عبدالبر ج1ص408 باب افتتاح الصلوۃ ،التمہید لابن عبدالبر ج4ص187)
ائمۃ مجتہدین اور ترک رفع الیدین
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ م 150ھ:
قال ابوحنیفۃ رضی اللہ عنہ اذا افتتح الرجل الصلوۃ کبر ورفع یدیہ حذو اذنیہ فی افتتاح الصلوۃ ولم یرفعھما فی شیئ من تکبیرالصلوۃ غیر تکبیرۃ الافتتاح
(کتاب الحجۃ للامام محمد ج1ص74 باب افتتاح الصلوۃ و ترک الجہر ببسم اللہ ،سنن الطحاوی ج1ص165باب التکبیر للرکوع و التکبیر للسجود الخ)
امام سفیان بن سعیدالثوری رحمہ اللہ م 161ھ:
قال الامام سفیان الثوری: ویرفع یدیہ الی حذاء اذنیہ مع ھذہ التکبیرۃ ثم لایرفعھما ابدا مع غیر ھذہ التکبیرۃ
(فقہ سفیان الثوری ص560،جزء رفع الیدین للبخاری ص128 رقم الحدیث 133)
امام مالک بن انس المدنی م179ھ:
قال الامام الفقیہ مالک بن انس المدنی :لا اعرف رفع الیدین فی شیئ من تکبیر الصلوۃ، لا فی خفض ولا فی رفع الا فی افتتاح الصلوۃ۔۔۔قال ابن القاسم : وکان رفع الیدین عند مالک ضعیفا الا فی تکبیرۃ الاحرام
(المدونۃ الکبری للامام مالک ج1ص165 باب فی رفع الیدین فی الرکوع والاحرام ،التمہید لابن عبدالبر ج4ص187)
امام ابو یوسف القاضی م181ھ:
[ترک رفع الیدین مع تکبیرۃ النہوض و تکبیرۃ الرکوع ] وھو قول ابی حنیفۃ و ابی یوسف و محمد رحمہم اللہ تعالی
(سنن الطحاوی ج1ص165 باب التکبیر للرکوع و التکبیر للسجود والرفع من الرکوع الخ)
امام محمد بن حسن الشیبانی م189ھ:
قال الامام ابو سلیمان الجوزجانی رحمہ اللہ: قلت:اَ راَیت الرجل اذا صلی ہل یرفع یدیہ فی شیئ من تکبیرۃ الصلوۃ حین یرکع او حین یسجد او حین یرفع راسہ من الرکوع او حین یرفع راسہ من السجود ؟ قال: [الامام محمد بن الحسن الشیبانی] لایرفع یدیہ فی شیئ من ذلک الا فی التکبیرۃ التی یفتتح بہا الصلوۃ•
(کتاب الاصل المعروف بالمبسوط للامام محمد ج1ص13باب افتتاح الصلوۃ وما یصنع الامام ،موطا امام محمد ص91،90،سنن الطحاوی ج1ص165 باب التکبیر للرکوع و التکبیر للسجود والرفع من الرکوع الخ
غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات
دلیل نمبر1:
وَحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ إِمْلاَءً حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ : عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمْدَانَ الْجَلاَّبُ بِهَمَذَانَ حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ : مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الرَّازِىُّ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ أَبِى مَرْحُومٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ حَاتِمٍ عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ عَنِ الأَصْبَغِ بْنِ نُبَاتَةَ عَنْ عَلِىِّ بْنِ أَبِى طَالِبٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ : قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- (إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصْلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ) قَالَ النَّبِىُّ صلى الله عليه وسلم لِجِبْرِيلَ :« مَا هَذِهِ النَّحِيرَةِ الَّتِى أَمَرَنِى بِهَا رَبِّى عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ : إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَحِيرَةٍ ، وَلَكِنَّهُ يَأْمُرُكَ إِذَا تَحَرَّمْتَ لِلصَّلاَةِ أَنْ تَرْفَعَ يَدَيْكَ إِذَا كَبَّرْتَ ، وَإِذَا رَكَعْتَ ، وَإِذَا رَفَعْتَ رَأْسَكَ مِنَ الرُّكُوعِ ، فَإِنَّهَا صَلاَتُنَا وَصَلاَةُ الْمَلاَئِكَةِ الَّذِينَ فِى السَّمَوَاتِ السَّبْعِ.
(السنن الکبری للبیہقی ج2ص75،76 باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ رَفْعِ الرَّأْسِ مِنْهُ)
جواب نمبر1:
یہ روایت موضوع ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ”اسرائیل بن حا تم الرازی“ ہے۔ اس کے متعلق امام ابن حبان نے تصریح کی ہے کہ یہ موضوع روایات بیان کیا کرتا تھا:
روى عن مقاتل الموضوعات والاوابد والطامات
(میزان الاعتدال ج1ص229رقم التر جمہ 977)
اور موضوع روایات کی مثال میں یہی روایت پیش کی ہے۔
امام مطہر بن طاہر المقدسي فرماتے ہیں: إسرائيل بن حاتم ومقاتل بن حبان والإصبع بن نباتة لا تقوم بهم حجة•
(كتاب معرفة التذكرة لابن طاهر المقدسي ص50)
دوسرا راوی ”اَصْبَغ بْن نُبَاتَة“ ہے، یہ بھی سخت مجروح ہے۔مثلاً:
كذاب،ليس بثقة،ليس بشئ،متروك، كان يقول بالرجعة، فتن بحب على، فأتى بالطامات، فاستحق من أجلها الترك.
(میزان الاعتدال ج1ص285رقم الترجمہ 1188)
جواب نمبر2:
محققین نے بھی اسے باطل اور ناقابل اعتبار قرار دیا۔امام بیہقی نے اس روایت کو بیان کر نے کے بعد فر مایا:
وَقَدْ رُوِىَ هَذَا وَالاِعْتِمَادُ عَلَى مَا مَضَى
(السنن الکبری للبیہقی: ج2ص76)
کہ روایت مروی تو ہے لیکن اعتما د اس روایت پرہے جو پہلے بیان ہو چکی۔ (یعنی اس روایت پر اعتماد نہیں کیا)
امام ابن حبان اور علامہ ابن الجوزی نے بھی اس روایت کو موضو ع اور باطل قرار دیاہے۔
(کتا ب المجرو حین لابن حبان ج1ص200،الموضوعات لابن جوزی ج2ص24)
دلیل نمبر2:
عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا
(صحیح البخاری ج1 ص 102 بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ)
جواب نمبر1:
حضرت مالک بن الحویرث سے سجدوں کی رفع یدین بھی مروی ہے:
اذا سجد و اذا رفع راسہ من السجود حتی یحاذی بہما فروع اذنیہ
(سنن النسائی ج 1 ص165 باب رفع الیدین للسجود، سنن النسائی ج 1 ص172 باب رفع الیدین عند الرفع من السجدۃ الاولی، مسند احمد بن حنبل ج3ص533 رقم الحدیث 15606، 15610، السنن الکبری للنسائی ج1ص228 باب رفع الیدین للسجود رقم الحدیث 674،673،672، مسند ابی عوانہ ج1ص336، رقم الحدیث 1263، مشکل الآثار للطحاوی ج2 ص29، رقم الحدیث 633،632،631)
غیر مقلدین خود اس روایت پر پورا عمل نہیں کرتے اور سجدوں کی رفع یدین چھوڑ دیتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ ان کے ہاں بھی معمول بہا نہیں۔
جواب نمبر 2:
حضرت مالک بن الحویرث سن 9 ھ میں 20 دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رہ کر اپنے وطن چلے گئے۔
(صحیح البخاری ج1 ص88،87 مع فتح الباری ج2 ص145، ج8 ص138)
مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مسلسل رہنے والے صحابہ کرام سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود، سیدنا ابن عمر، سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہم وغیرہم نے واضح گواہی دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شروع نماز میں تکبیر تحریمہ کی رفع یدین کے علاوہ تمام نماز میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
( دلائل احناف میں ان کے حوالہ جات گزر چکے ہیں)
جواب نمبر3:
اس روایت میں رفع یدین کا ثبوت تو ہے لیکن دوام ثابت نہیں، آپ کا مقصد دوام کو ثابت کرنا ہے۔
دلیل نمبر3:
عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا وَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ
(صحیح البخاری ج1 ص 102 بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مَعَ الِافْتِتَاحِ سَوَاءً)
جواب نمبر1:
حضرت عبد اللہ بن عمرسے سجدوں کی رفع یدین، دو سجدوں کے درمیان کی رفع الیدین بلکہ ہر اونچ نیچ کی رفع الیدین بھی مروی ہے:
یرفع یدیہ فی الرکوع و السجود۔۔ کان یرفع یدیہ فی کل خفض ور فع و رکوع و سجود و قیام و قعود بین السجدتین۔۔۔ اذا رکع و اذا سجد۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص266 باب من کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوۃ، مشکل الآثار للطحاوی ج 2 ص20 رقم الحدیث 24، جزء رفع الیدین للبخاری ص48 رقم 83، المعجم الاوسط للطبرانی ج1 ص83)
غیر مقلدین خود اس روایت پر پورا عمل نہیں کرتے کیونکہ باقی مقامات کی رفع یدین چھوڑ دیتے ہیں۔ تو یہ ان کے ہاں بھی معمول بہا نہیں۔
جواب نمبر2 :
حضرت عبد اللہ بن عمرسے ترک رفع الیدین عند الرکوع و السجود کی حدیث سندا صحیح موجود ہے ( دلائل احناف میں ان کے حوالہ جات گزر چکے ہیں)
معلوم ہوا کہ رفع یدین ترک ہو چکی تھی اسی لیے تو ترک کی احادیث روایت کی ہیں۔
جواب نمبر3:
اس روایت میں رفع یدین کا ثبوت تو ہے لیکن دوام ثابت نہیں، آپ کا مقصد دوام کو ثابت کرنا ہے۔
جواب نمبر4:
یہ حدیث غیر مقلدین کے پورے عمل کی دلیل نہیں۔ اس لیے کہ اس میں ان کے قول و فعل کی یہ باتیں نہیں ہیں:
(1): دس مرتبہ کی نفی اور اٹھارہ کا ثبوت
(2) اس رفع الیدین کی فرض یا واجب ہونے کی تصریح
(3):وفات تک کے لفظ
(4):حدیث کی صحت آپ کی دو دلیلوں یعنی قرآن و حدیث سے
(5):یہ حکم کہ جو یہ رفع یدین نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی
دلیل نمبر4:
حدثنا زهير بن حرب حدثنا عفان حدثنا همام حدثنا محمد بن جحادة حدثني عبد الجبار بن وائل عن علقمة بن وائل ومولى لهم أنهما حدثاه عن أبيه وائل بن حجر أنه: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه حين دخل في الصلاة كبر وصف همام حيال أذنيه ثم التحف بثوبه ثم وضع يده اليمنى على اليسرى فلما أراد أن يركع أخرج يديه من الثوب ثم رفعهما ثم كبر فركع فلما قال سمع الله لمن حمده رفع يديه فلما سجد سجد بين كفيه۔
(صحیح مسلم ج 1ص 173باب وضع يده اليمنى على اليسرى بعد تكبيرة الإحرام ، رفع اليدين للبخاري ص30، سنن ابی داؤد ج1 ص112 باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ)
جواب نمبر 1:
حضرت وائل بن حجر سے ہر تکبیر کے ساتھ اور سجدوں کی رفع یدین کا ثبوت بھی صحیح حدیث میں ہے:
و اذا رفع راسہ من السجود ایضاً رفع یدیہ حتی فرغ من صلوتہ۔۔۔ واذا رکع و اذا سجد۔۔۔ رفع یدیہ مع کل تکبیرۃ
(سنن ابی داؤد ج1 ص112 باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ، الآحاد و المثانی لابن ابی عاصم ص79،78 رقم الحدیث 2619، المعجم الکبیر للطبرانی ج9 ص150 رقم الحدیث 17529)
غیر مقلدین خود اس روایت پر پورا عمل نہیں کرتے کیونکہ باقی مقامات کی رفع یدین چھوڑ دیتے ہیں۔ تو یہ ان کے ہاں بھی معمول بہا نہیں۔
جواب نمبر 2:
حضرت وائل بن حجر جب حجۃ الوداع کے موقع پر تشریف لائے تو واپس جانے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ چند نمازیں پڑھی ہیں۔ان نمازوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ صرف شروع کے رفع الیدین کی تصریح تو کرتے ہیں لیکن باقی مقامات کا رفع الیدین بیان نہیں کرتے۔ اگر باقی مقامات کا رفع الیدین باقی رہا ہوتا تو ضرور بیان کرتے۔ ثابت ہوا کہ باقی مقامات کا رفع الیدین ترک ہو چکا تھا۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں ہے:
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- حِينَ افْتَتَحَ الصَّلاَةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِيَالَ أُذُنَيْهِ - قَالَ - ثُمَّ أَتَيْتُهُمْ فَرَأَيْتُهُمْ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِلَى صُدُورِهُمْ فِى افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ وَعَلَيْهِمْ بَرَانِسُ وَأَكْسِيَةٌ.
(سنن ابی داؤد ج1 ص112 باب رَفْعِ الْيَدَيْنِ )
جواب نمبر3:
حضرت وائل بن حجر کے وطن واپس جانے کے 80 یا 90 دن بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی۔
( رسول اکرم کی نماز از اسماعیل سلفی ص53)
لہذا ن تین مہینوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بالیقین رکوع اور سجود کی رفع یدین ترک کر دی تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلسل رہنے والے صحابہ کرام سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود، سیدنا ابن عمر، سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہم وغیرہم سے بسند صحیح مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شروع نماز میں تکبیر تحریمہ کی رفع یدین کے علاوہ تمام نماز میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔( دلائل احناف میں ان کے حوالہ جات گزر چکے ہیں)
دلیل نمبر5:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِى ابْنَ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِى مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِىَّ فِى عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. قَالُوا فَلِمَ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلاَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً. قَالَ بَلَى. قَالُوا فَاعْرِضْ. قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلاَ يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلاَ يُقْنِعُ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ». ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ يَهْوِى إِلَى الأَرْضِ فَيُجَافِى يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِى رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِى رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ ثُمَّ يَصْنَعُ فِى الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِى بَقِيَّةِ صَلاَتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِى فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ. قَالُوا صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّى صلى الله عليه وسلم
(سنن ابی داؤد ج1ص113 باب افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ.)
جواب نمبر1:
اس کی سند میں ایک راوی عبد الحمید بن جعفر ہے۔ ائمہ نے اس پر کلام کیا ہے:
امام ابو حاتم الرازی: لا يحتج به
( میزان الاعتدال للذہبی ج2 ص539)
امام ابن حبان: ربما أخطأ
(کتاب الثقات لابن حبان ج7ص122)
امام یحیی بن سعید القطان: يضعفه
(الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي ج2 ص84)
امام سفیان الثوری: يضعفه
(الضعفاء والمتروكين لابن الجوزي ج2 ص84)
علامہ ابن حجر: رمي بالقدر وربما وهم
(تقریب التہذیب ص 333)
امام نسائی: ليس بالقوي
(الضعفاء والمتروكين للنسائی ص211)
امام یحی بن معین: وكان يرى القدر
(تہذيب الكمال للمزي ج6 ص30 )
یہ تقدیر کا منکر بدعتی راوی ہے۔
اور قدریو ں کے متعلق امام مالک بن انس رحمہ اللہ علیہ کا فیصلہ ہے:
لا یصلی خلف القدریۃ ولا یحمل عنہم الحدیث۔
(الکفایہ فی علم الروایہ ص124)
پس روایت ضعیف ہے۔
جواب نمبر2:
ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح البخاری میں موجود ہے (دلائل اہل السنت احناف میں دلیل نمبر 11 کے تحت موجود ہے)
لیکن اس میں شروع نماز میں رفع الیدین کا تو ذکر ہے بعد والی رفع الیدین کا ذکر نہیں۔ کیونکہ اس میں عبد الحمید بن جعفر موجود نہیں ہے۔ ثابت ہوا کہ یہ تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین عبد الحمید بن جعفر کی خطا ء کی وجہ سےزائد ہوا ہے، پس ناقابل حجت ہے۔
دلیل نمبر 6:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِىٍّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ داؤد الْهَاشِمِىُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِى الزِّنَادِ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِى رَافِعٍ عَنْ عَلِىِّ بْنِ أَبِى طَالِبٍ - رضى الله عنه - عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّكُوعِ وَلاَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِى شَىْءٍ مِنْ صَلاَتِهِ وَهُوَ قَاعِدٌ وَإِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ كَذَلِكَ وَكَبَّرَ.۔
(سنن ابی داؤد ج1ص115، 116)
جواب:
اس روایت کی سند میں ایک راوی ”عبد الرحمن بن ابی الزناد“ہے جو کہ خطا کار، مضطرب الحدیث ، ضعیف اور مجروح عند الجمہور ہے۔ ائمہ کی تصریحات:
امام احمد بن جنبل: مضطرب الحديث
( الجرح و التعدیل ج5 ص252)
امام يحییٰ بن معين: لا يحتج بحديثه ، ضعيف.
( الجرح و التعدیل ج5 ص252، کتاب المجروحین لابن حبان ج2 ص 56 )
امام نور الدین الہیثمی: ضعفه الجمهور
( مجمع الزوائد ج4ص406)
امام ابو حاتم الرازی: يكتب حديثه ولا يحتج به
( الجرح و التعدیل ج5 ص252)
امام النسائی: ضعیف
(الضعفاء والمتروكين للنسائی ص207)
امام ابن حبان: كان ممن ينفرد بالمقلوبات عن الاثبات، وكان ذلك من سوء حفظه وكثرة خطئه
(کتاب المجروحین : ج2 ص 56)
امام علی بن المدینی: كان عند أصحابنا ضعيفا
( تاریخ بغداد ج10 ص228)
امام عبد الرحمن بن المہدی: خطط على أحاديث عبد الرحمن بن أبي الزناد
( تاریخ بغداد ج10 ص228)
امام محمد بن سعد: كان يضعف لروايته عن أبيه
( تاریخ بغداد ج10 ص228)
امام صالح بن محمد: قد روى عن أبيه أشياء لم يروها غيره
( تاریخ بغداد ج10 ص228)
امام زكريا بن يحيى الساجي: فيه ضعف
( تاریخ بغداد ج10 ص228)
علامہ ابن حجر: صدوق، تغیر حفظہ لما قدم بغداد
( تقریب لابن حجر)
پس روایت ضعیف ہے۔
نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرفوع صحیح السند روایت میں صرف تکبیر تحریمہ کی رفع یدین کا ذکر ہے(دلائل احناف میں دلیل نمبر1) معلوم ہوا کہ اس میں رفع یدین کا ذکر کرنا عبد الرحمن بن ابی الزناد کی خطا کی وجہ سے ہے جو ناقابل حجت ہے۔
دلیل نمبر7:
حضرت عبد الله بن زبير فرماتے ہیں:
صليت خلف أبى بكر الصديق رضى الله عنه فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ، وإذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع ، وقال أبو بكر : صليت خلف رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ، وإذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع.
(السنن الکبریٰ للبیہقی: ج2 ص73)
جواب نمبر1:
اولاً……… حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے با سندِ حسن ترک رفع یدین ثابت ہے۔ (دیکھیے دلائل اہل السنت و الجماعت؛ مرفوع دلیل نمبر5)
ثانیاً……… اس کی سند میں ایک راوی ابو النعمان محمد بن فضل سدوسی المعروف ’’عارم‘‘ہے۔ تقریباً 213ھ میں اس کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا [المیزان للذہبی: ج4 ص7 وغیرہ] جس کی وجہ سے یہ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا اور اس کی عقل زائل ہو گئی تھی۔ اس لیے اس راوی پر امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ سمیت دیگر بہت سے محدثین نے یہی جرح کی ہے۔ مثلاً:
1: امام بخاری ؒم652:
محمد بن الفضل ابو النعمان السدوسی البصری یقال لہ عارم تغیر بآخرہ۔
(تاریخ الکبیرللبخاری ج1ص208رقم الترجمۃ 654)
2: امام ابو داود م275 ھ
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج4ص121،122)
3: امام ابوحاتم الرازی م277ھ
(الجرح والتعدیل للرازی ج8ص69،70، سیراعلام النبلا ء للذھبی ج7ص464)
4: امام موسی بن حماد
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج4ص122،الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب ص136)
5: امام ابراھیم الحربی م285 ھ
(الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب136،الکواکب النیرات لا بن الکیال ص99)
6: امام عقیلی م322ھ
(الضعفا ء الکبیر للعقیلی ج4ص121وغیرہ)
7: امام ابن ابی حاتم الرازی م327ھ
(الجرح والتعدیل للرازی ج8ص69)
8: امام امیۃ الا ھوازی
(الضعفا ء الکبیر للعقیلی ج4ص123 وغیرہ)
9: امام ابن حبان م354ھ
(تہذیب التہذیب لابن حجر ج5ص258، سیر اعلام النبلاء للذھبی ج7ص465، الضعفاء والمتروکین لابن جوزی ج2ص91-92)
11: امام ابو الولید البا جی م474ھ
(التعدیل والتجریح للباجی ج2ص675،676)
12: امام ابن الجوزی م598ھ
(الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج3ص91،92)
13: امام ابن الصلاح م642ھ
(مقدمۃ ابن الصلاح ص368)
14: امام نووی 676
(تقریب مع التدریب ج2ص323،329)
15: امام ابو الحجاج المزی م742ھ
(تہذیب الکمال للمزی ج9ص272،273)
16: امام ذھبی م748ھ
(العبر للذھبی ج1ص195،تذکرۃ الحفاظ للذھبی ج1ص301)
17: امام ابن کثیر الدمشقی م774 ھ
(اختصار علوم الحدیث: ص239)
18: امام عراقی م804ھ
(فتح المغیث للعراقی ص454،459،460)
19: امام ابن حجر عسقلانی م852ھ
(تقریب لابن حجر ج2ص547، تہذیب لا بن حجر ج5ص258)
20: امام ابوبکر سیوطی م911ھ
(تدریب الراوی للسیوطی ج2ص329،323)
21: امام احمد بن عبداللہ الخزرجی م923ھ
(خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال للخزرجی ص356)
22: امام محمد بن احمد الکیال م926ھ
(الکواکب النیرات فی معرفۃ من اختلط من الرواۃ الثقات لابن الکیال ص97،98)
23: امام ابن العماد الحنبلی م1089ھ
(شذرات الذھب لابن العماد ج2ص159)
مندرجہ بالا ائمہ کے نزدیک محمد بن فضل سدوسی مختلط اور متغیر الحافظہ راوی ہے اور اس مخلتلط راوی [محمد بن فضل]کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے:
اختلط فی آخر عمرہ حتی کان لا یدری مایحدث بہ فوقع فی حدیثہ المناکیر الکثیرۃ فیجب التنکب عن حدیثہ فیما رواہ المتأخرون فان لم یعلم ھذا من ھذا ترک الکل ولا یحتج بشئ منہا•
(تہذیب التہذیب لابن حجر ج5ص258)
اس قاعدے سے معلوم ہوا کہ محمد بن فضل کا جو شاگرد قدماء [اول عمر کے شاگرد] میں سے نہ ہو بلکہ متاخرین شاگردوں میں سے ہو تو اس سے مروی روایت متروک قرار پائے گی۔ زیر بحث روایت میں ان سے روایت کرنے والے محمد بن اسماعیل السلمی قدماء شاگردوں میں سے نہیں ہیں بلکہ متاخرین شاگردوں میں سے ہیں۔چنانچہ مشہورمحدث علامہ نیموی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فیہ النعمان محمد بن فضل السدوسی و ھو ثقۃ تغیر بالآخرۃ رواہ عنہ ابو اسماعیل السلمی و ھو لیس من اصحابہ القدماء•
(التعلیق الحسن: ص114)
لہذا یہ روایت ضعیف اور ناقابلِ حجت ہے۔
جواب نمبر2:
غیر مقلد تیسری رکعت کے شروع میں بھی رفع یدین کرتے ہیں۔
[نماز نبوی ص206، آپ کے مسائل اور ان کا حل از مبشر ربانی غیر مقلد:ص120]
اور اس ضعیف روایت کا متن دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تین مقام کی رفع یدین تو موجود ہے، چوتھے مقام(تیسری رکعت کے شروع میں)کی رفع یدین کا نام و نشان تک نہیں۔
معلوم ہوا یہ روایت خود غیر مقلدین کے ’’عمل‘‘ کو بھی ثابت نہیں کرتی۔ پس اسے پیش کرنا اپنے موقف اور عمل سے جہالت کی دلیل ہے۔
دلیل نمبر8:
عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يرفع يديه إذا دخل في الصلاة وإذا ركع
(سنن ابن ماجۃ ج1ص62)
جواب نمبر1:
اس کی سند میں ایک راوی ”حمید الطویل“ ہے جو کہ مدلس ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صیغہ ”عن“ سے روایت کر رہا ہے۔علامہ ابن حجر نے اس کو طبقہ ثالثہ میں شمار کیا ہے۔
(طبقات المدلسین لابن حجر ص86 رقم الترجمہ71)
اور مدلس کا عنعنہ غیر مقلدین کے نزدیک صحت حدیث کے منافی ہوتا ہے۔
جواب نمبر2:
یہ روایتِ مدلس ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت انس پر موقوف ہے۔ امام الدارقطنی لکھتے ہیں:
لم يروه عن حميد مرفوعا غير عبد الوهاب والصواب من فعل أنس
(سنن الدار قطنی ص290 باب ذكر التكبير ورفع اليدين عند الافتتاح والركوع والرفع منه)
امام طحاوی لکھتے ہیں:
وأما حديث أنس بن مالك رضي الله عنه فهم يزعمون أنه خطأ وأنه لم يرفعه أحد إلا عبد الوهاب الثقفي خاصة والحفاظ يوقفونه على أنس رضي الله عنه
(سنن الطحاوی ج1 ص باب التكبير للركوع والتكبير للسجود )
جبکہ غیر مقلدین کے نزدیک صحابی کا قول و عمل حجت نہیں ہے:
1: افعال الصحابۃ رضی اللہ عنہم لا تنتہض للاحتجاج بھا۔
(فتاوی نذیریہ بحوالہ مظالم روپڑی: ص 58)
2: صحابہ کا قول حجت نہیں۔
(عرف الجادی: ص 101)
3: صحابی کا کردار کوئی دلیل نہیں اگرچہ وہ صحیح طور پر ثابت ہوں۔
(بدور الاہلہ: ج 1 ص 28)
4:آثار صحابہ سے حجیت قائم نہیں ہوتی۔
(عرف الجادی: ص 80)
5: خداوند تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو صحابہ کرام کے آثار کا غلام نہیں بنایاہے۔
(عرف الجادی: ص 80)
6: موقوفات صحابہ حجت نہیں۔
(بدورا لاہلہ: ص 129)
جواب نمبر3:
اس روایت کےدیگرطرق میں”اذا قام بین الرکعتین“ ،”کل خفض ورفع“، ”واذا سجد وفی السجود“ کے الفاظ موجود ہیں جن میں دو رکعتوں کے درمیان، ہر اٹھنے اور بیٹھنے کی حالت میں ، سجدوں میں جاتے اور سجدوں سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرنے کا ذکر اورثبوت موجود ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص266،مسند ابی یعلی ج6ص399رقم3752،سنن دارقطنی ج1ص292رقم1104،معجم الشیوخ ابن الاعرابی ج2ص326رقم1997،المحلی بالآثار ج3ص9،الاحادیث المختارہ لمقدسی ص51،52رقم2025،2026،معجم الاوسط للطبرانی ج1ص19)
اور غیر مقلدین ان پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ لہذا جب یہ روایت ان کے ہاں بھی معمول بھا نہیں تو ہمارے لیے حجت کیوں بنا رہے ہیں؟ فما ہو جوابکم فہو جوابنا
دلیل نمبر9:
نا محمد بن عصمة ، نا سوار بن عمارة ، نا رُدَيْحُ بْنُ عَطِيَّةَ، عن أبي زرعة بن أبي عبد الجبار بن معج قال رأيت أبا هريرة فقال لأصلين بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم لا أزيد فيها ولا أنقص فأقسم بالله إن كانت لهي صلاته حتى فارق الدنيا قال : فقمت عن يمينه لأنظر كيف يصنع ، فابتدأ فكبر ، ورفع يده ، ثم ركع فكبر ورفع يديه ، ثم سجد ، ثم كبر ، ثم سجد وكبر حتى فرغ من صلاته قال : أقسم بالله إن كانت لهي صلاته حتى فارق الدنيا
(معجم الشیوخ لابن الاعرابی ج1ص130،131رقم144)
جواب نمبر1:
اولاً:۔۔۔ اس کی سند میں ایک راوی ”محمد بن عصمۃ“ ہے ،اس کے حالات معلوم نہیں ہوئے اور نہ ہی اس کی ثقاہت وعدالت ثابت ہے۔ جہالت وجہ ضعف ہے۔ اور بتصریح امام نووی: لا يقبل رواية المجهول (مقدمہ مسلم ص11) مجہول کی روایت حجت نہیں ہے حتی کہ علی زئی صاحب نے خود اس کی تصریح کی ہے :”مجھے اس کے حالات نہیں ملے۔“
(نورالعینین از زبیر علی زئی ص 338)
ثانیاً:۔۔۔ اس میں دوسرا راوی ”سوار بن عمارۃ“ ہے۔ اسے اگرچہ بعض نے ثقہ کہا ہے لیکن ابن حبان نے فرمایا ہے: ربما خالف۔
(کتاب الثقات لابن حبان ج8 ص302 ، تہذیب التہذیب ج2ص454)
ثالثاً:۔۔۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی ”رُدَیح بن عطیہ“ ہے۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں:
لا يتابع فيما يروى
(تہذیب التہذیب ج2ص161)
کہ اس کی کوئی راوی متابعت نہیں کرتا۔
جواب نمبر2:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سندِ صحیح سے مروی ہے کہ آپ شروع والا رفع یدین تو کرتے تھے، باقی ہر اٹھنے بیٹھنے میں تکبیر تو کہتے تھے لیکن رفع یدین مروی نہیں ہے۔
( احناف کے دلائل میں ”دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اور ترکِ رفع یدین“ کے تحت دلیل نمبر4)
لہذا آپ کی پیش کردہ ضعیف روایت اس صحیح کے سامنے مرجوح ہے۔
جواب نمبر3:
اس ضعیف روایت میں رکوع سے اٹھنے اور تیسری رکعت کے شروع کا رفع یدین موجود نہیں ہے جبکہ غیر مقلدین ان مقامات کا رفع الیدین کرتے ہیں۔ تو یہ روایت ضعیف ہونے کے باوجود غیر مقلدین کے عمل کی دلیل ہر گز نہیں۔
دلیل نمبر10:
حدثنا الحميدي ، أنبأنا الوليد بن مسلم ، قال سمعت زيد بن واقد يحدث عن نافع أن ابن عمر ، « كان » إذا رأى رجلا لا يرفع يديه إذا ركع ، وإذا رفع رماه بالحصى
(جزء رفع الیدین للبخاری ص10رقم15)
جواب نمبر1:
غیرمقلدین کے ہاں قول صحابی حجت نہیں ہے۔ (حوالہ جات گزر چکے ہیں)
جواب نمبر2:
اس کی سند میں ولید بن مسلم ہے جو کہ طبقہ رابعہ کا مدلس ہے
(طبقات المدلسین لابن حجر ص134رقم الترجمہ127)
اور حضرات ائمہ نے ان پر جرح بھی کی ہے :مثلاً:
وکان الولید کثیر الخطاء، اختلطت عليه أحاديث ما سمع وما لم يسمع وكانت له منكرات
( تہذیب لابن حجر ج6ص98،99)
وذکرہ ابن الجوزی والذہبی فی الضعفاء
(الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی ج3ص187،المغنی فی الضعفاء للذہبی ج2ص501رقم6888)
لہذا یہ روایت ان وجوہات کی بناء پر ضعیف ومتروک ہے،حجت نہیں۔
جواب نمبر3:
اس روایت میں ہر اونچ نیچ کی رفع یدین کا بھی ثبوت ہے اور ظاہر ہےکہ اس میں سجدوں کی رفع یدین بھی ہے۔
(مسند الحمیدی ج2ص277،278رقم615،سنن دار قطنی ج1ص292رقم1105)
اس پر آپ کا بھی عمل نہیں۔
فما ہو جوابکم فہو جوابنا
دلیل نمبر11:
حدثنا مسدد ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، عن عاصم الأحول قال : رأيت أنس بن مالك رضي الله عنه « إذا افتتح الصلاة كبر ، ورفع يديه ، ويرفع كلما ركع ورفع رأسه من الركوع »
(جزء رفع الیدین للبخاری ص43، رقم الحدیث 66)
جواب:
اولاً۔۔۔ غیرمقلدین کے ہاں قول صحابی حجت نہیں ہے۔ (حوالہ جات گزر چکے ہیں)
ثانیاً۔۔۔ اس موقوف روایت میں سند صحیح کے ساتھ سجدوں کی رفع یدین کا ذکر بھی آیا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص304رقم2باب فی رفع الیدین بین السجدتین،جزء رفع الیدین ص60رقم106)
آپ کا اس پر عمل نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک یہ موقوف اثر حدیث مرفوع کے مقابلے میں مرجوح ہے۔
دلیل نمبر12:
رواه البيهقي في سننه من جهة بن عبد الله بن حمدان الرقي ثنا عصمة بن محمد الأنصاري ثنا موسى بن عقبة عن نافع عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع، وكان لا يفعل ذلك في السجود، فما زالت تلك صلاته حتى لقي الله تعالى انتهى. رواه عن أبي عبد الله الحافظ عن جعفر بن محمد بن نصر عن عبد الرحمن بن قريش بن خزيمة الهروي عن عبد الله بن أحمد الدمجي عن الحسن به.
(بحوالہ نصب الرایہ ص483،صلوۃ الرسول ص201،اثبات رفع یدین لخالد گھرجاکھی ص84،86،87، رسول اکرم کا صحیح طریقہ نماز: ص331 ط صہیب اکیڈمی شیخوپورہ، حدیثِ نماز از عبد المتین میمن جونا گڑھی: ص125ط مکتبہ عزیزیہ لاہور)
جواب نمبر1:
اس کی سند میں ایک راوی ”امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ“ ہیں جو کٹر شافعی مقلد ہیں ،اور مقلد آپ کے ہاں مشرک ہوتا ہے۔
دوسرا راوی عبداللہ بن احمد الدمحبی ہے یہ مجہول ہے۔
تیسرا راوی حسن بن عبداللہ الرقی یہ بھی مجہول العین ہے۔
کتب اسماء الرجال میں ان کی تعدیل ثابت ہے نہ توثیق اور مجہول راوی کی روایت نا قابل قبول ہوتی ہے۔ ائمہ کی تصریحات:
امام شافعی: لم يكلف الله أحدا أن يأخذ دينه عن من لا يعرفه
(کتاب القراءۃ خلف الامام للبیہقی ص129)
امام بیہقی: ولسنا نقبل دين الله تعالى عمن لا يعرفه أهل العلم بالحديث بالعدالة
(کتاب القراءۃ خلف الامام للبیہقی ص157)
امام نووی : لا يقبل رواية المجهول
(شرح مسلم مقدمہ مسلم ص11)
لہذا یہ روایت بوجہ جہالت روات غیرمقبول ہے۔
جواب نمبر2:
یہ روایت موضوع، من گھڑت اور کذب محض ہے کیونکہ اس میں دو راوی ہیں جو سخت مجروح اور حدیث گھڑنے والے ہیں۔ ان روات کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کی آراء ملاحظہ فرمائیں:
راوی نمبر۱: عبد الرحمٰن بن قریش ابن خزیمۃ الہروی
[۱]: ابو الفضل احمد بن علی بن عمرو السلیمانی: اتهمہ السليمانى بوضع الحديث•
(میزان الاعتدال: ج2ص513رقم الترجمہ4692)
[۲]:ابو بکرالخطیب البغدادی(قال): في حديثه غرائب•
(تاریخ بغداد ج8ص300)
راوی نمبر۲: عصمہ بن محمد انصاری
[۱]: ابن سعد (قال): وکان عندھم ضعیفا فی الحدیث•
(طبقات ابن سعد ج7ص239، تاریخ بغداد ج10ص210)
[۲]: یحیی ابن معین(قال): کان کذاباً، یروی احادیث کذبا… من اکذب الناس … یضع الحدیث•
(تاریخ بغداد ج10ص210، میزان الاعتدال ج3ص75، الضعفاء الکبیر للعقیلی ج3ص340)
[۳]: ابوحاتم الرازی(قال) :لیس بالقوی•
(میزان الاعتدال ج3ص75)
[۴]: العقیلی(قال): یحدث بالاباطیل عن الثقات•
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ج3ص340، میزان الاعتدال ج3ص75)
[۵]: ابن عدی (قال): كل حديثه غير محفوظ وهو منكر الحديث•
(الکامل لابن عدی ج7ص89، میزان الاعتدال ج3ص76)
[۶]: الدارقطنی (قال):متروک•
(تاریخ بغداد ج10ص210، میزان الاعتدال ج3ص75)
جواب نمبر3:
اس روایت کومحققین اور خود غیر مقلدین علماء نے موضوع قرار دیا ہے۔
1:قال الامام محمد بن علی النیموی م1322ھ:رواہ البیہقی وھوحدیث ضعیف بل موضوع
(آثار السنن للنیموی ص118)
2: مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کذب [یہ روایت جھوٹی ہے]
(نیل الفرقدین: ص36)
3: عطاء اللہ حنیف غیر مقلد: وحدیث البیہقی مازالت۔۔۔ضعیف جداً
(تعلیقات سلفیہ علی النسائی: ج1ص104
)
No comments:
Post a Comment