مسئلہ ترک رفع الیدین فی الصلوۃ
از افادات: متکلمِ اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
مذہب اہل السنت و الجماعت احناف:
نماز پنجگانہ شروع کرتے وقت صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کیا جائے، اس کے علاوہ باقی پوری نماز میں نہ کیا جائے۔ رکوع کو جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتےہوئے رفع یدین کرنا خلاف سنت ہے۔
(بدائع الصنائع ج1 ص208 فَصْلٌ وَأَمَّا سُنَنُهَا فَكَثِيرَةٌ ، فتاویٰ عالمگیری ج 1 ص 72 الْفَصْلُ الثَّالِثُ في سُنَنِ الصَّلَاةِ وَآدَابِهَا وَكَيْفِيَّتِهَا)
مذہب غیر مقلدین:
نماز شروع کرتے ہوئے تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع کو جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتےہوئے اور تیسری رکعت کے شروع میں رفع یدین کرنا فرض یا واجب ہے۔
(رفع یدین فرض ہےازمسعود احمد غیر مقلد ، فتاوی رفیقیہ از محمد رفیق پسروری حصہ چہارم ص153، مسئلہ رفع یدین از پروفیسر عبد اللہ ، اثبات رفع یدین از خالد گھر جاکھی، نور العینین از زبیر علی زئی, مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ از رئیس ندوی غیر مقلد ص246)
دلائل اہل السنۃ و الجماعۃاحناف
قرآن مع التفسیر
قال اللہ تعالیٰ: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ•
( سورۃ المؤمنون:2،1)
تفسیر نمبر1:
قال الامام ابو طاہرمحمد بن یعقوب الفیروزآبادی: اخبرنا عبد اللہ الثقۃ ابن المامور الہِرَوِی قال اخبرنا ابی قال اخبرنا ابو عبد اللہ قال اخبرنا ابو عبید اللہ محمود بن محمد الرازی قال اخبرنا عمار بن عبد المجید الہِرَوِی قال اخبرنا علي بن إسحاق السمرقندي عن محمد بن مروان عن الكلبي عن أبي صالح عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : { الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ}مخبتون متواضعون لایلتفتون یمینا ولاشمالا ولا یرفعون ایدیہم فی الصلاۃ
. (تفسیر ابن عباس ص212)
اعتراض:
غیرمقلدین کہتے ہیں کہ تفسیر ابن عباس کی سند میں محمد بن مروان السدی، محمد بن سائب الکلبی اور ابوصالح باذام سخت ضعیف ہیں۔
جواب:
ایسا ممکن ہے کہ ایک آدمی ایک فن میں ماہر اور ثقہ نہ ہو لیکن دوسرے فن کا امام ہو۔ اسی حقیقت کے پیش نظر محدثین نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ بعض ائمہ فن حدیث میں تو ناقابل اعتبار ہیں لیکن فن تفسیر میں ان کی روایات قابل قبول ہوتی ہیں۔مثلاً۔۔۔
قال الامام البیہقی : قال یحیی بن سعید یعنی القطان تساھلوا فی التفسیر عن قوم لایوثقونھم فی الحدیث ثم ذکر لیث بن ابی سلیم و جُوَيْبِرِ بن سعید والضحاک ومحمد بن السائب یعنی الکلبی وقال ھولاء لایحمد حدیثھم ویکتب التفسیر عنھم•
(دلائل النبوۃ للبیہقی ج1ص33،میزان الاعتدال للذہبی ج1ص391 فی ترجمۃ جويبر بن سعيد ، التہذیب لابن حجر ج1ص398 ترجمۃ جويبر بن سعيد )
مذکورہ روات کا تذکرہ ائمہ نے مفسرین کے طور پر کیا ہے لہذا اصولی طور ان کی تفسیری روایات مقبول ہیں، رہا ان پر کلام تو وہ فن حدیث کے بارے میں ہے۔ ائمہ کرام کی تصریحات ان روات کے بارے میں ملاحظہ ہوں۔
محمد بن مروان السدی:
1:قال الامام بدر الدین محمود بن أحمد العینی: وصاحب التفسير، محمد بن مروان الكوفى وهو أيضًا يعرف بالسدى
(مغانى الأخيار فى شرح أسامى رجال معانى الآثار أبی محمد للغيتابى ج3ص416)
2: قال الحافظ ابن حجر العسقلاني : محمد بن مروان بن عبد الله بن إسماعيل الكوفي السدي الصغير صاحب التفسير عن محمد بن السائب الكلبي۔
(لسان الميزان لابن حجر ج7 ص375)
3: قال الامام عبد الحي بن أحمد العكري الدمشقي: محمد بن مروان السدي الصغير الكوفي المفسر صاحب الكلبي
(شذرات الذهب لعبد الحي العكري ج1ص318 )
محمد بن السائب الکلبی:
1: قال الامام ابن عدی : [محمد بن سائب الکلبی] وهو رجل معروف بالتفسير۔۔۔ وحدث عن الكلبي الثوريُّ وشعبةُ۔۔۔ ورضُوْه بالتفسير
(الکامل لابن عدی ج6ص2132)
2:قال الذہبی: محمد بن السائب الكلبى، أبو النضر الكوفى المفسر النسابة الاخباري.
(میزان الاعتدال ج 3ص 556)
3: قال الحافظ ابن حجر العسقلاني : وهو معروف بالتفسير وليس لاحد أطولُ من تفسيره وحدث عنه ثقاتٌ من الناس ورضُوْه في التفسير
. ( تہذیب التہذیب ج9 ص 157)
ابو صالح باذام:
1: قال العِجلي: باذام أبو صالح روى عنه إسماعيل بن أبي خالد في التفسير، ثقةٌ وهو مولى أم هانئ۔
(معرفة الثقات للعجلي ج1 ص 242)
2: قال يحيى بن سعيد: لم ار احدا من اصحابنا ترك ابا صالح مولى ام هانئ لاشعبة ولا زائدة.
(الجرح والتعديل لابن ابى حاتم: ج1 ص 135)
لہذا ان روات پر اعتراض باطل ہے۔
تفسیر نمبر 2:
قال الحسن البصری رحمہ اللہ: خاشعون الذین لایرفعون ایدیہم فی الصلوۃ الا فی التکبیرۃ الاولیٰ۔
(تفسیر السمر قندی ج2ص408)
احادیث مبارکہ:
احادیث مرفوعہ :
دلیل نمبر1:
قال الامام الدارقطني م385ھ : [رَوی عَبد الرَّحِيمِ بن سُلَيمان عَن أَبِي بَكرٍ النَّهشَلِيِّ عَن عاصِمِ بنِ كُلَيبٍ ، عَن أَبِيہ] عَن عَلِيٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلم : أَنَّهُ كان يَرفَعُ يَدَيهِ فِي أَوَّلِ الصَّلاَةِ ثُمّ لا يَعُودُ.
اسنادہ صحیح ورواتہ ثقاۃ
(کتاب العلل للدارقطنی ج4ص106سوال457)
اعتراض:
یہ حدیث مرفوع نہیں ہے کیونکہ امام دارقطنی نےاسے نقل کر کے فرمایا ہے:
وَخالَفَهُ [عَبدَ الرَّحِيمِ بن سُلَيمان] جَماعَةٌ مِن الثِّقاتِ۔۔۔ فَرَووهُ عَن أَبِي بَكرٍ النَّهشَلِيِّ مَوقُوفًا عَلَى عَلِيٍّ.
(کتاب العلل للدارقطنی ج4ص106سوال457)
جواب نمبر1:
اس حدیث کو مرفوع بیان کرنے والے امام عبدالرحیم بن سلیمان ہیں۔ آپ صحیحین اور سنن اربعہ کے ثقہ راوی ہیں۔
(تقریب التہذیب: ص354)
ان کا اس روایت کو مرفوع بیان کرنا ایک زیادت ہے اور جمہور فقہا ء و محدثین کے نزدیک ثقہ کی زیادتی مقبول ہے؛
1:والزیادۃ مقبولۃ،(صحیح البخاری ج1ص201 باب العشر فیما یسقی من ماء السماء والماء الجاری)
2:أن الزيادة من الثقة مقبولة(المستدرک علی الصحیحین للحاکم ج1ص307 کتاب العلم)
جواب نمبر2:
اگر حدیث کے موقوف اور مرفوع ہونے میں اختلاف ہو جائے توفقہاءا ورمحدثین خصوصا امام بخاری اورامام مسلم رحمہما اللہ کے نزدیک حدیث مرفوع قرار دی جاتی ہے۔
قال الامام النووی: والصحیح طریقۃ الاصولیین والفقہاء و البخاری ومسلم و محققی المحدثین انہ یحکم بالرفع والاتصال لانھا زیادۃ ثقۃ
(شرح مسلم للنووی ج1ص256،282)
حدیث علی رضی اللہ عنہ مرفوع ہے اور یہ اعتراض باطل ہے۔
دلیل نمبر2:
روی الامام الحافظ المحدث أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن النسائي م303ھ:قال أخبرنا سويد بن نصر حدثنا عبد الله بن المبارك عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد الله قال ألا أخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : فقام فرفع يديه أول مرة ثم لم يعد
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم
(سنن النسائی ج1ص158باب ترک ذلک ، السنن الکبری للنسائی ج1ص350،351رقم1099باب ترک ذالک)
دلیل نمبر 3:
روی الامام الحافظ المحدث أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن النسائي م303ھ: قال اخبرنا محمود بن غیلان المروزی حدثنا وکیع حدثنا سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمن بن الاسود عن علقمۃ عن عبداللہ انہ قال الا اصلی بکم صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الامرۃ واحدۃ،
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم
(سنن النسائی ج 1 ص161،162باب الرخصۃ فی ترک ذلک ،السنن الکبری للنسائی ص221رقم 645باب الرخصۃ فی ترک ذلک)
دلیل نمبر 4:
روی الامام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي م 279ھ قال :حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبدالرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ: الا اصلی بکم صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الا فی او ل مرۃ
قال [ابوعیسی ] وفی الباب عن البراء بن عازب
قال ابوعیسی حدیث ابن مسعودرضی اللہ عنہ،حدیث حسن وبہ یقول غیر واحد من اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وھو قول سفیان [الثوری] واہل الکوفۃ۔
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم تغلیباً•
(جامع الترمذی ج1ص59باب رفع الیدین عند الرکوع )
وفی نسخۃ الشیخ صالح بن عبد العزیز ص71 باب ماجاء ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یرفع الا فی اول مرۃ رقم الحدیث 257 ، مختصر الاحکام للطوسی ص109رقم 218طبع مکۃ مکرمۃ و فی سنن ابی داؤد ج1ص116باب من لم یذکرالرفع عندالرکوع
اعتراض نمبر 1 :
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کے بارے میں امام عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا:
قد ثبت حديث من يرفع يديه وذكر حديث الزهري عن سالم عن أبيه ولم يثبت حديث ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه و سلم لم يرفع [يديه] إلا في أول مرة
(جامع الترمذی ج1 ص 59 باب رفع اليدين عند الركوع) کہ یہ حدیث ثابت نہیں۔
جواب نمبر1:
حدیث ابن مسعود کےتمام روات ثقہ ہیں۔ اس کے بارے میں امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی یہ جرح غیر مفسر اور غیر مبین السبب ہے۔اصول حدیث کے اعتبار سے ایسی جرح قابل قبول نہیں۔
1: لا يقبل الجرح الا مفسرا
(الکفایہ فی علم الروایۃ للخطیب ص:101)
2: إذا كان الجرح غير مفسر السبب فاِنه لا يعمل به
(صيانة صحيح مسلم لابن الصلاح ص96)
3:ولا يقال إن الجرح مقدم على التعديل لأن ذلك فيما إذا كان الجرح ثابتا مفسر السبب وإلا فلا يقبل الجرح إذا لم يكن كذلك
(توجيه النظر إلى أصول الأثرلطاهر الجزائري ج2 ص550 )
جواب نمبر 2:
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ مختلف الفاظ سے مروی ہے۔
1: عن عبد الله قال ألا أخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : فقام فرفع يديه أول مرة ثم لم يعد ،
(سنن النسائی ج1ص158باب ترک ذلک)
2: قال عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ الا اصلی بکم صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الا فی او ل مرۃ
(جامع الترمذی ج1ص59باب رفع الیدین عند الرکوع)
3: عن عبد الله عن النبي صلى الله عليه و سلم : أنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة ثم لا يعود
(سنن الطحاوی ج 1ص162 باب التكبير للركوع والتكبير للسجود والرفع من الركوع )
حدیث کے وہ الفاظ جو امام ابن مبارک کی جرح میں مذکور ہیں وہ سنن طحاوی کی روایت سے ملتے جلتے ہیں، باقی روایات سے اس جرح کا کوئی تعلق نہیں۔رہی یہ جرح تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امام ابن مبارک نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جس حدیث کو روایت کیا ہے (سنن النسائی ج1ص158باب ترک ذلک) ا س میں یہ ذکر ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز کا نقشہ لوگوں کو پڑھ کر دکھایا، لیکن سنن طحاوی میں نماز کا نقشہ نہیں صرف زبانی بیان کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پہلی مرتبہ رفع یدین کرتے تھے بعد میں نہیں کرتے تھے۔ چونکہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے یہ روایت اس طرح سنی تھی (یعنی ابن مسعود کے عمل کے ساتھ) اس لیے اس حدیث پر اعتراض کر دیا جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ سے قولا مروی ہے۔ حقیقتا دیکھا جائے تو یہ اعتراض بنتا نہیں۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز پڑھ کر دکھانے اور اس کو زبانی بیان کرنے میں کوئی تضاد نہیں، اس لیے کہ یہ ممکن ہے کہ راوی ایک مرتبہ حدیث کو عملا بیان کرے اور دوسری مرتبہ اسے قولا بیان کر دے، یہ حدیث کے غیر ثابت ہونے کی دلیل نہیں۔
جواب نمبر 3:
بالفرض یہ جرح اگر فعلی روایت پر بھی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ سے اس ا عتراض کو نقل کرنے والے ان کے شاگرد سفیان بن عبدالملک المروزی ہیں۔
(جامع الترمذی ج1ص59باب رفع الیدین عند الرکوع )
اور یہ آپ کے بڑے شاگردوں میں سے ہیں جیسا کہ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے:
من کبار اصحاب ابن المبارک
( تقریب التہذیب لابن حجر ص:278)
لیکن ان کے ایک اور شاگرد سوید بن نصر المروزی نے اسی حدیث کو آپ ہی سے بلا اعتراض نقل کیا ہے۔
(سنن النسائی ج1ص158باب ترک ذلک)
اور یہ آپ کے آخری عمر کے شاگرد ہیں جیسا کہ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے:
کان راویۃ ابن المبارک
(تہذیب التہذیب لابن حجرج:3،ص:110)
معلوم ہوا کہ یہ اشکال آپ کو اول عمر میں تھا جسے آپ نے اپنے قدیمی شاگردوں کو نقل کرایا تھالیکن آخر عمر میں جب آپ نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے یہ روایت سنی تو اپنے صغیر شاگرد سوید بن نصر المروزی کو بلا اعتراض املاء کرائی جیسا کہ سنن النسائی (ج:1ص:157 )میں یہ حدیث بلا اعتراض موجود ہے معلوم ہوا کہ آپ نے اس اعتراض سے رجوع فرمالیا تھا۔
جواب نمبر 4:
اس حدیث کو کئی شمار فقہاء اور محدثین نے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔
1:امام ترمذی م 279ھ: حسن۔۔ وفی نسخۃ: حسن صحیح
(جامع الترمذی ج1 ص159 ، شرح سنن ابی داؤد ج2 ص346)
2: امام دار قطنی م385ھ:اسنادہ صحیح
(کتاب العلل للدارقطنی ج5ص172سوال804)
3: امام ابن حزم م 456ھ: صَحَّ خَبَرُ ابْنِ مَسْعُودٍ
( المحلی بالآثار ج 2ص578)
4: امام ابن القطان الفاسی م 628ھ: والحديث عندي - لعدالة رواته - أقرب إلى الصحة
(بيان الوهم والإيهام للفاسی ج5 ص367)
5: امام زیلعی م 762ھ: و الرجوع الی صحۃ الحدیث لورودہ عن الثقات
( نصب الرایۃ للزیلعی ج1 ص396)
6: امام عینی م855ھ: قد صح
( شرح سنن ابی داؤد ج2 ص346)
7: علامہ محمد انور شاہ کشمیری م 1350ھ: رواہ الثلاثۃ و ہو حدیث صحیح۔
( نیل الفرقدین ص56)
حتی کہ مشہور غیر مقلد ین نے بھی اس کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے:
1:احمد شاکر المصری غیر مقلد: الحق انہ حدیث صحیح و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
( شرح الترمذی ج2 ص43)
2: ناصر الدین البانی :والحق انہ حدیث صحیح و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم
(مشکوۃ المصابیح بتحقیق الالبانی ج1ص254)
لہذا حدیث بالکل صحیح اور ثابت ہے۔
اعتراض نمبر2:
حدیث ابن مسعود صحیح نہیں ہے کیونکہ اس پر امام ابوداؤد نے اعتراض کیا ہے:
قال ابوداؤد: ھذا حدیث مختصر من حدیث طویل ولیس ھو بصحیح علی ھذا اللفظ
(ابوداؤد ص117باب من لم یذکر الرفع عندالرکوع- رقم الحدیث 748 طبع دارالسلام)
جواب نمبر1:
سنن ابی داؤد کے کئی نسخے ہیں جن میں سے پانچ بہت مشہور ہیں۔
1: نسخہ ابو علی اللؤلوی۔۔۔ (مکتبہ امدادیہ پاکستان) یہ نسخہ امام ابوداؤد کی وفات والے سال کا ہے اور تمام نسخوں میں سے سب سے زیادہ صحیح ہے،جیسا کہ محشی سنن ابی داؤد نے تصریح کی ہے:
الامام الحافظ ابوعلی محمد بن احمد بن عمرو اللؤوی البصری روی عن ابی داؤد ھذا السنن فی المحرم سنۃ خمس وسبعین وماتین وروایتہ من اصح الروایات لانھا من آخر ما املی ابو داؤد وعلیھا مات
(حاشیہ ابی داؤد: ج1ص2)
اس نسخہ میں یہ اعتراض موجوود نہیں ہے۔
2: نسخہ ابن داسۃ۔۔۔ یہ نسخہ امام ابو سلیمان خطابی نے خود ابو بکر بن داسہ سے روایت کیا ہے اور اس کی شرح ”معالم السنن“ کے نام سے لکھی ہے جو کہ مطبوع ہے۔ یہ اعتراض اس نسخہ میں بھی موجود نہیں ہے۔
3: نسخہ ابو عیسی الرملی۔۔۔ یہ نسخہ ابن داسہ کے نسخہ سے ملتا جلتا ہے جیسا کہ أبو المنذر خالد بن إبراهيم المصري نے تصریح کی ہے:
ورواية ابن داسة أكمل الروايات، ورواية الرملي تقاربها
(مقدمۃ التحقیق شرح سنن ابی داؤد للعینی ج1 ص33)
جب نسخہ داسہ میں یہ اعتراض نہیں ہے تو نسخہ رملی میں بھی نہ ہو گا۔
4: نسخہ ابن الاعرابی۔۔۔ یہ نسخہ نامکمل ہے ، بہت سی کتب اس میں نہیں ہیں۔
قال أبو المنذر خالد بن إبراهيم المصری: رواية ابن الأعرابي يسقط منها كتاب الفتن والملاحم والحروف والخاتم ونحو النصف من كتاب اللباس وفاته أيضاً من كتاب الوضوء والصلاة والنكاح أوراق كثيرة.
(مقدمۃ التحقیق شرح سنن ابی داؤد للعینی ج1 ص33)
5: نسخہ ابن العبد۔۔۔۔ ان کا نام ابو الحسن ا بن العبد الانصاری ہے۔ یہ بھی سنن کا ایک نسخہ روایت کرتے ہیں۔
( تہذیب التہذیب ج3ص 9)
مندرجہ بالا پانچ نسخوں میں سے یہ اعتراض صرف نسخہ ابن العبد میں ہے جیسا کہ امام مغلطائی نے تصریح کی ہے:
اعترض على هذا بما ذكره أبو داؤد في رواية ابن العبد قال: هذا حديث مختصر من حديثه، وليس بصحيح على هذا اللفظ.
( شرح سنن ابن ماجہ للمغلطائی: ص 1467)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ اعتراض امام ابو داؤد کو اول عمر میں تھا جسے آپ کے شاگرد ابن العبد نے نقل کیا ہے لیکن بعد میں آپ نے اس اعتراض سے رجوع فرما لیا۔ اس لیے باقی نسخوں خصوصا نسخہ ابو علی اللؤلوی میں ( جو وفات والے سال کا نسخہ ہے) یہ اعتراض موجود نہیں ہے۔
جواب نمبر2:
اگر اس جرح کو مان بھی کیا جائے تب بھی یہ مبہم ہے اور مبہم جرح قابل قبول نہیں(جیسا کہ حوالہ جات گزر چکے ہیں)
جواب نمبر3:
امام ابو داؤد نے زیر بحث حدیث کوجس طویل حدیث کا اختصار قرار دیا ہے وہ جزء رفع الیدین للبخاری میں موجود ہے:
حدثنا الحسن بن الربيع ، حدثنا ابن إدريس ، عن عاصم بن كليب ، عن عبد الرحمن بن الأسود ، حدثنا علقمة أن عبد الله رضي الله عنه قال : « علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة : فقام فكبر ورفع يديه ، ثم ركع ، فطبق يديه جعلهما بين ركبتيه فبلغ ذلك سعدا فقال : صدق أخي قد كنا نفعل ذلك في أول الإسلام ثم أمرنا بهذا » . قال البخاري : « وهذا المحفوظ عند أهل النظر من حديث عبد الله بن مسعود
(جزء رفع الیدین للبخاری ص 292 رقم الحدیث 33 )
اگر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی زیر بحث حدیث کو اس طویل حدیث کا اختصار بھی قرار دیا جائے تو بھی یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا، کیونکہ اگر اس مختصر حدیث میں جو الفاظ (لم یعد وغیرہ) ہیں وہ طویل حدیث میں نہیں تو یہ زیادت ثقہ ہے اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہے [حوالہ جات گزر چکے ہیں]
محدث کبیر مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لو سلم انہ مختصر من ھذا الحدیث الطویل ففی المختصر زیادۃ لفظ لیس فی الطویل و زیادۃ ثقۃ مقبولۃ عند اہل الحدیث
( بذل المجہود ج 2ص 22باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع)
پس یہ اعتراض درست نہیں اور حدیث صحیح ہے۔
فائدہ : سنن ابی داؤد کا نسخہ عرب ممالک میں پہلے دارالفکر بیروت بتحقیق عبدالحمید طبع ہواتھا، اس میں بریکٹ لگا کر اس اعتراض کو لکھا گیاتھالیکن اس کے بعد دارالسلام کے غیرمقلدین نے بریکٹ کو ہٹا کر اسی اعتراض کو متن میں لگا دیا ہے۔
اعتراض نمبر3:
غیر مقلدین خصوصازبیر علی زئی کہتا ہے کہ حدیث ابن مسعود کی سند میں سفیان ثوری ہے جو کہ غضب کامدلس ہے اور مدلس کا حکم یہ ہے کہ اس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے گی جس میں وہ سماع کی تصریح کرے یا اس کی کوئی معتبر متابعت موجود ہو اور یہاں سماع کی تصریح نہیں ہے، نیز اس روایت میں یہ عاصم بن کلیب سے منفرد بھی ہے، کوئی معتبر متابعت نہیں ہے۔ لہذا یہ سند ضعیف ہے۔
(نورالعینین: ص118 تا 128)
جواب نمبر 1:
امام سفیان ثوری صحیح البخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے ثقہ بالاجماع راوی ہیں اورعند الجمہور یہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں جیسا کہ ائمہ حضرات نے ان کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا ہے۔
(جامع التحصیل فی احکام المراسیل لابی سعيد العلائی ص113،طبقات المدلسین لابن حجر ص64،التعلیق الامین علی کتاب التبیین لاسماء المدلسین لابن العجمی ص92، جزء منظوم فی اسماء المدلسین لبدیع الدین غیرمقلد ص89)
اور طبقہ ثانیہ کی تدلیس عندالمحدثین صحت حدیث کے منافی نہیں ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے۔
جواب نمبر2:
امام سفیان ثوری اس روایت میں متفرد نہیں بلکہ دیگر ثقات بالاجماع روا ت نے ان کی متابعت تامہ کر رکھی ہے، مثلاً۔۔۔
1: امام ابوبکر النہشلی (م ت س ق)
وَرَواهُ أَبُو بَكرٍ النَّهشَلِيُّ ، عَن عاصِمِ بنِ كُلَيبٍ ، عَن عَبدِ الرَّحمَنِ بنِ الأَسوَدِ ، عَن أَبِيهِ ، وعَلقَمَةَ ، عَن عَبدِ الله.
(کتاب العلل للدارقطنی ج5ص172سوال804)
2:امام وکیع بن الجراح (ع)
حدثنا عبد الوارث بن سفيان قال حدثنا قاسم بن أصبغ قال حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل قال حدثني أبي قال حدثنا وكيع عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة قال قال ابن مسعود
(التمہید الابن عبد البر ج4 ص189)
لہذا تفرد کا اعتراض باطل ہے، اور حدیث ابن مسعود صحیح ہے۔
دلیل نمبر 5:
روی الامام ابوبکر اسماعیلی قال حدثنا عبد الله بن صالح بن عبد الله أبو محمد صاحب البخاري صدوق ثبت قال : حدثنا إسحاق بن إبراهيم الْمَرْوَزِيُّ ، حدثنا محمد بن جابر السُّحَيْمِىُّ ، عن حماد ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال : صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر ، فلم يرفعوا أيديهم إلا عند افتتاح الصلاة۔
اسناد صحیح ورواتہ ثقات•
(کتاب المعجم لابی بکر الاسماعیلی ج2ص692،693رقم154،مسند ابی یعلی ص922رقم5037)
اعتراض:
غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی محمد بن جابر ہیں، ان پر ائمہ نے جرح کی ہے۔ نیز آخر عمر میں ان کا حافظہ خراب ہوگیا تھا اور اختلاط کا شکار بھی تھے۔ان کی کتابیں ضائع ہوگئیں تھیں اور یہ تلقین کو قبول کرنے لگے تھے۔ لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔
جواب:
محمد بن جابر یمانی عندالجمہور ثقہ وصدوق ہیں ، درج ذیل ائمہ نے ان کی توثیق و مدح فرمائی ہے:
امام عمرو بن علی الفلاس:
قال الفلاس: صدوق كثير الوهم
(شرح سنن ابن ماجۃ للمغلطائي: ج1 ص 435، الجرح و التعدیل ج7ص219، )
امام ابو حاتم الرازی:
قال عبد الرحمن بن ابى حاتم الرازي: وسئل ابى عن محمد بن جابر وابن لهيعة فقال محلهما الصدق ومحمد بن جابراحب إلى من ابن لهيعة.
(الجرح و التعدیل ج7ص219، 220)
ابو زرعہ الرازی و امام ابو حاتم الرازی:
قال ابن ابى حاتم الرازي: وسمعت أبي وأبا زرعة يقولان من كتب عنه باليمامة وبمكة فهو صدوق
(تہذ یب التہذیب ج9ص77)
امام نور الدین الہیثمی:
محمد بن جابر السحيمي وفيه كلام كثير وهو صدوق في نفسه صحيح الكتاب ولكنه ساء حفظه
(مجمع الزوائد:ج2 ص 479، ج3 ص 349)
امام عبدالله بن عدی الجرجانی:
قال الامام أبو أحمد عبدالله بن عدي الجرجاني: وعند إسحاق بن أبي إسرائيل عن محمد بن جابر كتاب أحاديث صالحة وكان إسحاق يفضل محمد بن جابر على جماعة شيوخ هم أفضل منه وأوثق وقد روى عن محمد بن جابر كما ذكرت من الكبار أيوب وابن عون وهشام بن حسان والثوري وشعبة وابن عيينة وغيرهم ممن ذكرتهم ولولا أن محمد بن جابر في ذلك المحل لم يرو عنه هؤلاء الذين هو دونهم وقد خالف في أحاديث ومع ما تكلم فيه من تكلم يكتب حديثه
(الکامل لابن عدی ج6ص153)
امام ذہلی:
وقال الذهلي لا بأس به
(تہذ یب التہذیب ج9ص75)
امام ابو الولید:
قال ابو الولید: نحن نظلم محمد ابن جابر بامتناعنا من التحديث عنه.
( تہذ یب التہذیب ج9ص78)
لہذا محمد بن جابر یمانی سے مروی روایت کم از کم حسن درجہ کی ہے۔ رہا اختلاط اور کتب کے ضائع ہونے کی وجہ سے تلقین قبول کرنے کا اعتراض توائمہ اصول ان جیسے روات کے متعلق ایک قاعدہ بیان کرتے ہیں :
امام نووی
: وحكم المختلط أنه لا يُحتج بما روى عنه فى الاختلاط أو شك فى وقت تحمله، ويحتج بما روى عنه قبل الاختلاط
(تہذیب الاسماء واللغات للنووی ج1ص242)
امام خطیب بغدادی: محمد بن خلاد الاسکندرانی کے تذکرہ میں ایک قاعدہ بیان کرتے ہیں:
كل من سمع منه قديما قبل ذهاب كتبه فحديثه صحيح ومن سمع منه بعد ذلك فليس حديثه بذاك
(الکفایۃ:ص153)
اور امام ابو زرعہ اور امام ابو حاتم الرازی نے تصریح فرمائی ہے کہ محمد بن جابر سے جس نے یمامہ اور مکہ میں روایت لی ہے وہ اس وقت صدوق تھے۔
و قال عبد الرحمن بن ابى حاتم الرازي: وسمعت أبي وأبا زرعة يقولان من كتب عنه باليمامة وبمكة فهو صدوق
(تہذ یب التہذیب ج9ص77)
اور ہماری پیش کردہ روایت میں بھی امام اسحاق بن ابراہیم المروزی نے ان سے یمامہ میں روایت کی ہے جیسا کہ ائمہ نے تصریح کی ہے:
1: قال الامام محمد بن سعد فی ترجمۃ اسحاق بن ابراہیم المروزی : وکان رحل الی محمد بن جابر بالیمامۃ فکتب کتبہ ،وقدم البصرۃ من الیمامۃ بعد موت ابی عوانۃ بیومین او ثلاثۃ
(طبقات ابن سعد: ج7ج 7ص353)
2: قال أبو يعقوب إسحاق بن أبي إسرائيل لما انصرفت من اليمامة من عند هذا الشيخ يعنى محمد بن جابرالخ
( تاریخ بغداد ج5ص357)
3: قال الامام أبو أحمد عبدالله بن عدي الجرجاني: وعند إسحاق بن أبي إسرائيل عن محمد بن جابر كتاب أحاديث صالحة وكان إسحاق يفضل محمد بن جابر على جماعة شيوخ هم أفضل منه وأوثق الخ
(الکامل لابن عدی ج6ص153)
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ محمد بن جابر الیمامی سے اسحاق المروزی کا سماع قبل الاختلاط کا ہے اور انہوں نے سماع حدیث کتاب سے کی ہے۔پس اعتراض باطل ہے۔
دلیل نمبر 6:
روی الامام الاعظم ابوحنیفۃ رحمہ اللہ یقول سمعت الشعبی یقول سمعت البراء بن عازب رضی اللہ عنہ یقول کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حتی یحاذی منکبیہ لایعود برفعھما حتی یسلم من صلوتہ،
اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم
(مسند ابی حنیفۃ بروایۃ ابی نعیم ص344رقم225وفی نسخۃ ص156طبع الریاض)
دلیل نمبر 7:
روی الامام أبو داؤد السجستاني :قال حدثنا محمد بن الصباح البزاز نا شریک عن یزید بن ابی زیاد عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن البراء ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ الی قریب من اذنیہ ثم لایعود،
اسنادہ صحیح علی شرط المسلم
(سنن ابی داؤد ج1ص116باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع ، مسند ابی یعلیٰ ص 400 رقم الحدیث 1692،1691،1690)
اعتراض:
غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اس حدیث میں یزید بن ابی زیاد کوفی راوی ضعیف ہے۔کیونکہ اس کا آخری عمر میں حافظہ خراب ہوگیا تھا اور یہ تلقین کو قبول کرتا تھا۔ یہ حدیث تغیر حفظ کے بعد کی ہے نیز ثم ”لایعود“کا جملہ ان کےقدماء اصحاب نے بیان نہیں کیا ہے۔پس یہ روایت ضعیف ہے۔
جواب:
امام یزید بن ابی زیاد کو فی صحیح البخاری تعلیقاً،صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ایک جماعت محدثین نے ثقہ ، صدوق ، عدل قرار دیا ہے مثلاً:
امام جریر بن عبد الولید: يزيد احسنهم استقامة في الحديث
(الجرح و التعدیل ج9 ص327)
امام أبو داؤد: لا أعلم أحدا ترك حديثه
( سیر اعلام النبلاء ج5ص381)
امام ترمذی: يزيد بن ابی زياد سے مروی کئی روایات کو ”حسن صحیح“ اور کئی جگہ ”حسن“ قرار دیا۔
(باب ما جاء فی المنی و المذی،باب ما جاء من الرخصة في ذلك[ای الحجامۃللصائم]، باب ما جاء في مواقيت الإحرام لأهل الآفاق ، باب مناقب العباس بن عبد المطلب)
امام احمد بن حنبل: قال کما قال جریر
(الجرح و التعدیل ج9 ص327)
احمد بن صالح: يزيد بن أبي زياد ثقة لا يعجبني قول من يتكلم فيه
( تاریخ الثقات لابن شاہین ص256 ، معرفة الثقات للعجلي ج2 ص364)
امام سفیان الثوری: فهو على العدالة والثقة وإن لم يكن مثل منصور والحكم والأعمش فهو مقبول القول ثقة.
(المعرفة والتاريخ للفسوی ج 3ص 175)
امام الشیخ ابن دقیق العید: ويزيد بن أبي زياد معدود في أهل الصدق، كوفي، يكنى أبا عبد الله
( نصب الرایۃ ج 1ص 477)
امام ابو الحسن: يزيد بن أبي زياد، جيد الحديث
( نصب الرایۃ ج 1ص 477)
امام الذہبی:[ يزيد بن أبي زياد] الامام المحدث أبو عبد الله، الهاشمي
( سیر اعلام النبلاء ج5ص380)
مشہور غیر مقلداحمد محمد شاکر شرح ترمذی میں یزید کی کافی توثیق نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: و الحق انہ ثقۃ
پھر امام شعبہ سے توثیق نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
و ہذا نہایۃ التوثیق من شعبۃ و ہو امام الجرح و التعدیل۔۔۔ فقد اصاب الترمذی فی تصحیحہ
( شرح الترمذی ج1 ص195)
مزیدآگے جا کر لکھتے ہیں:
فمدار الحدیث علی یزید ابن ابی زیاد و ہو ثقۃ صحیح الحدیث و قد تکلمنا علیہ تفصیلا فیما مضی
( شرح الترمذی ج2ص409)
لہذا عند الجمہور یزید ثقہ ،صدوق ، عاد ل ہے ، رہا تغیر حفظ اور تلقین قبول کرنے کا اعتراض تو امام ابن حبان نے تصریح کی ہے:
وكان يزيد صدوقا إلا أنه لما كبر ساء حفظه وتغير، فكان يتلقن مالقن، فوقع المناكير في حديثه۔۔۔ فسماع من سمع منه قبل دخوله الكوفة في أول عمره سماع صحيح
( کتاب المجروحین لابن حبان ج3 ص 100)
اس روایت میں آپ کے شاگرد شریک آپ سے ”ثم لایعود“ وغیرہ کا جملہ نقل کیا ہے اور یہی جملہ آپ کے کبار اصحاب نے بھی نقل کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جملہ آپ نے تغیر حفظ سے پہلے نقل کیا ہے، مثلاً:
امام سفیان الثوری:
حدثنا أبو بكرة قال ثنا مؤمل قال ثنا سفيان قال ثنا يزيد بن أبي زياد عن بن أبي ليلى عن البراء بن عازب رضي الله عنه قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا كبر لافتتاح الصلاة رفع يديه حتى يكون إبهاماه قريبا من شحمتي أذنيه ثم لا يعود•
(سنن الطحاوی ج 1 ص162)
امام ہشیم بن بشیر:
حدثنا إسحاق حدثنا هشيم عن يزيد بن أبي زياد عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن البراء قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افتتح الصلاة كبر ورفع يديه حتى كادتا تحاذيان أذنيه ثم لم يعد•
(مسند ابی یعلی ص400 رقم الحدیث 1691)
امام ابن عیینہ:
عبد الرزاق عن بن عيينة عن يزيد عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن البراء بن عازب مثله وزاد قال مرة واحدة ثم لا تعد لرفعها في تلك الصلاة
(مصنف عبد الرزاق ج 2ص 45رقم الحدیث 2534)
امام اسماعیل بن زکریا:
حدثنا يحيى بن محمد بن صاعد نا محمد بن سليمان لوين ثنا إسماعيل بن زكريا ثنا يزيد بن أبي زياد عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن البراء أنه : رأى رسول الله صلى الله عليه و سلم حين افتتح الصلاة رفع يديه حتى حاذى بهما أذنيه ثم لم يعد إلى شيء من ذلك حتى فرغ من صلاته
(سنن الدارقطني ص 196 رقم الحدیث 1116)
امام ابن ادریس:
حدثنا إسحاق حدثنا ابن إدريس قال : سمعت يزيد بن أبي زياد عن ابن أبي ليلى عن البراء قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم رفع يديه حين استقبل الصلاة حتى رأيت إبهاميہ قريبا من أذنيه ثم لم يرفعهما
(مسند ابی یعلی ص400 رقم الحدیث 1692)
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ ”ثم لایعود“ کا جملہ تغیر حفظ سے پہلے کا جسے آپ کے کبار اصحاب نے بھی ذکر کیا ہے، اسے تلقین کا نتیجہ قرار دینا غلط ہے، پس حدیث صحیح ہے۔
دلیل نمبر 8:
روی الامام أبو بكر عبدالله بن الزبير الحميدي: قال [حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قال] ثنا الزہری قال اخبرنی سالم بن عبداللہ عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع فلایرفع ولا بین السجدتین،
تحقیق السند: اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم
(مسند الحمیدی ج2ص277رقم614طبع بیروت،مسند ابی عوانۃ ج1ص334باب بیان افتتاح الصلوۃ)
اعتراض:
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ یہ روایت اثبات رفع الیدین کی تھی مگر حنفیو ں نے تحریف کر کے ترک رفع الیدین کی بنا دی۔ نسخہ ظا ہریہ دمشقیہ میں اثبات ہی کی ہے۔
(نور العینین ص68و ص71 وغیرہ)
جواب اول :
یہ روایت ”الحمیدی عن سفیان بن عیینہ “ کے طریق سے مروی ہے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو اس طریق سے تخریج نہیں کیا۔ اپنے ”جزء رفع الیدین“ میں امام حمیدی کے طریق سے موقوف روایت کو تو نقل کیا ہے لیکن مرفوع روایت کو تخریج نہیں کیا، حالانکہ امام بخاری کا ضا بطہ ہے :
قال الحاکم کا ن البخا ری اذا وجد الحدیث عند الحمیدی لا یعود ہ الی غیرہ•
(تقریب التہذیب: ج1 ص288، تہذیب التہذیب: ج3 ص142،جزء رفع الیدین ص272رقم 15)
اگر الحميدي عن سفیان ابن عیینۃ کے طریق والی روایت اثبات رفع الیدین عند الرکوع کی ہو تی تو امام بخاری اس کو ضرور تخریج کرتے۔ ثابت ہوا کہ بالیقین یہ روایت ترک رفع الیدین ہی کی ہے۔پس تحریف والا اعترا ض باطل ہے۔
جواب نمبر2:
تحریف والا اعتراض اس لیے بھی باطل ہے کہ امام ابو عوانہ نے بھی من طریق سفیان عند الرکوع ترک رفع کی حدیث بھی نقل کی ہے۔
(مسند ابی عوانۃ ج1ص334)
نیز امام محمد بن حارث القیروانی ااور امام بیہقی نے حضرت ابن عمر ہی سے دیگر طرق سے تر ک رفع الیدین عند الرکوع کی سند اً صحیح حدیثیں نقل کی ہیں۔
(اخبا ر الفقہاء ص214، مسند ابی عوانہ : ج1 ص334، خلافیات البیہقی بحوالہ شرح سنن ابن ما جہ للمغلطائی: ج5 ص1472)
دلیل نمبر 9:
روی الإمام أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الاسفرائني: قال حدثنا عبداللہ بن ایوب الْمُخَرِّمِيُّ و سَعْدان بن نصر وشعیب بن عمر وفی آخَرِينَ قالوا حدثنا سفیان بن عیینۃ عن الزہری عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما وقال بعضھم حذو منکبیہ واذا اراد ان یرکع وبعد ما یرفع راسہ من الرکوع لایرفعھما وقال بعضھم ولایرفع بین السجدتین،
اسنادہ صحیح علی شرط البخاری ومسلم
(مسند ابی عوانۃ ج1ص334 بيان رفع اليدين في افتتاح الصلاة قبل التكبير بحذاء منكبيه وللركوع ولرفع رأسه من الركوع وأنه لا يرفع بين السجدتين، رقم1251، الخلافيات للبيهقي بحوالہ شرح سنن ابن ماجہ لمغلطائی ج5ص1472باب رفع الیدین اذا رکع واذارفع راسہ من الرکوع)
وقال الامام ابو عبد اللہ المغلطائی: حدیث لاباس بہ•
(شرح سنن ابن ماجہ لمغلطائی ج5ص1472)
دلیل نمبر 10:
روی الامام الحافظ ابوعبداللہ محمد بن الحارث الخشنی القیروانی : قال حدثنی عثمان بن محمد قال قال لی عبیداللہ بن یحیی حدثنی عثمان بن سوادۃ ابن عباد عن حفص بن میسرۃ عن زید بن اسلم عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قال کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بمکۃ نرفع ایدیَنا فی بدء الصلوۃ وفی داخل الصلوۃ عندالرکوع فلما ھاجر النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی المدینۃ ترک رفع الیدین فی داخل الصلوۃ عندالرکوع وثبت علی رفع الیدین فی بدء الصلوۃ•
اسنادہ صحیح ورواتہ ثقات•
(اخبار الفقہاء والمحدثین للقیروانی: ص214تحت رقم الترجمۃ378طبع بیروت)
اعتراض:
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ اس روایت کے راوی محمد بن حا رث نے روایت ذکر کرنے سے پہلے تصریح کی ہے :
وھو من غرا ئب الحدیث واراہ من شواذ ھا
(اخبار الفقہاء والمحدثین ص214)
یعنی یہ حدیث غریب بلکہ شا ذ ہے۔ لہذا ضعیف و ناقابل استدلال ہے۔
جواب اول :
غرا بت وجہ ضعف نہیں ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ حدیث غریب ہو اور صحیح بھی ہو۔چنانچہ امام حا کم ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
رواه البخاري في الجامع الصحيح۔۔۔ وهو من غرائب الصحيح
(معرفت علوم الحدیث :ص:94)
آگے لکھتے ہیں:
رواه مسلم في المسند الصحيح عن أبي بكر بن أبي شيبة وغيره عن سفيان وهو غريب صحيح
(معرفت علوم الحدیث :ص95)
جواب ثا نی:
غیر مقلدین اگر یہ کہیں کہ عثمان بن سوادہ (جس کا ترجمہ امام قیروانی لائے ہیں) غریب حدیث لاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری ومسلم کے بہت سے راوی غریب الحدیث ہیں: مثلاً
1:امام احمد بن صبا ح النہشلی۔۔ ثقہ ،حا فظ ، لہ غرا ئب۔
(تقریب ج1ص16)
2: امام ابرا ہیم بن اسحا ق البنانی۔۔ صدوق، یَغْرُبُ
(تقریب ص 25ج1)
3:امام اسبا ط بن نصر۔۔۔صدوق ، کثیر الخطاء ، یَغْرُبُ
(تقریب ص40ج1)
4ابراہیم بن طحمان الخراسانی۔۔۔ثقہ ، یَغْرُبُ
(تقریب ص29ج1)
5:حکام بن سلم۔۔۔ثقہ ، لہ غرا ئب
(تقریب ص132ج1)
لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔
جواب ثا لث :
شا ذ کی دو تعریفیں کی گئیں ہیں :
1: فأما الشاذ فإنه حديث يتفرد به ثقة من الثقات۔
(معرفت لعلوم الحدیث للحا کم ص119)
یعنی تفرد من الثقات کو شاذ کہا جاتا ہے لیکن یہ تعریف مرجوح ہے، راجح تعریف یہ ہے:
2: قال الشافعي ليس الشاذ من الحديث أن يروي الثقة ما لا يرويه غيره هذا ليس بشاذ إنما الشاذ أن يروي الثقة حديثا يخالف فيه الناس هذا الشاذ من الحديث
(معرفت لعلوم الحدیث للحا کم ص119، مقدمۃ ابن الصلاح ص76 وغیرہ)
اسی کو حافظ ابن حجر نے راجح فرمایا ہے:
وهذا هو المعتمد في تعريف الشاذ، بحسَبِ الاصطلاح
(نزہۃ النظر ص 213، الشرح للقاری ص336)
مخا لفت ثقات والی تعریف جو کہ راجح ہے حدیث ابن عمر پر صا دق نہیں آتی کیو نکہ کسی ثقہ راوی نے ایسی کوئی صحیح حدیث بیان نہیں کی جس میں وفات تک کے الفاظ مروی ہوں۔ لہذا یہ حدیث تفرد من الثقات کے قبیل سے ہے جو جمہور ائمہ فقہاء ومحدثین کے ہا ں بالاتفاق مقبو ل ہے:
قال الجمهور من الفقهاء وأصحاب الحديث زيادة الثقة مقبولة إذا انفرد بها
(الکفایہ ص365)
لہذا شاذ وغریب ہونے کی جر ح مردود ہے اور یہ حد یث صحیح اور حجت ہے۔
دلیل نمبر11:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِوبْنِ عَطَائٍ اَنَّہٗ کَانَ جَالِسًا مَعَ نَفْرٍ مِّنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم فَذَکَرْنَا صَلٰوۃَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم فَقَالَ اَبُوْحُمَیْدِ السَّاعِدِیُّ رضی اللہ عنہما اَنَا کُنْتُ اَحْفَظُکُمْ لِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم رَاَ یْتُہٗ اِذَا کَبَّرَ جَعَلَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکَبَیْہِ وَاِذَا رَکَعَ اَمْکَنَ یَدَیْہِ مِنْ رُکْبَتَیْہِ ثُمَّ ھَصَرَظَھْرَہٗ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ اِسْتَویٰ حَتّٰی یَعُوْدَ کُلُّ فَقَارٍ مَّکَانَہٗ وَاِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَمُفَتَرِشٍ وَّلَا قَابِضَہُمَا الخ
(صحیح البخاری: ج1ص114‘ صحیح ابن خزیمۃ؛ ج1ص298)
اعتراض:
عدمِ ذکر سے نفی ذکر لازم نہیں آتا۔ محمد قاسم نانوتوی(بانی مدرسہ دیوبند)نے لکھا: ”مذکورنہ ہونا معدوم ہونے کی دلیل نہیں۔“ اور سنن ابی داؤد میں حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر موجود ہے۔
جواب:
اولاً: ہمارا مؤقف یہ ہے کہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کیا جائے،اس کے علاوہ پوری نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے۔ صحیح بخاری کی اس حدیث میں حضرت ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کا ذکر کرتے ہیں،باقی مقامات کا ذکر نہیں کرتے۔اس سے ہمارا مؤقف ثابت ہے۔ نیز حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا قول اس استدلال کے خلاف نہیں،اس لیے کہ اصول ہے:
السکوت فی معرض البیان بیان
(مرعاۃ المصابیح لعبیداللہ المبارکپوری ج3 ص385،روح المعانی ج18ص7)
وہ مقام جہاں ایک شے کو بیان کرنا چاہیے،وہاں اس کے بیان کو چھوڑنے کا مطلب اس شے کا عدم بیان کرنا ہوتاہے۔
حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نماز کے اس نقشہ کو بیان فرمارہے ہیں جو دیکھنے سے نظر آتا ہے کمافی الحدیث ”رایتہ“ (میں نے انھیں دیکھا)۔ اگررفع الیدین عندالرکوع وبعد الرکوع ہوتا تو ضرور بیان کرتے۔ معلوم ہو ا کہ یہ رفع یدین نہیں ہوتا تھا۔
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا قاعدہ مطلق ہے اور ہمارا بیان کردہ اصول ایک قید ”فی معرض البیان“کے ساتھ مقید ہے۔دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔
ثانیاً: ابو داؤد کی محولہ روایت کا تفصیلی جواب تو غیر مقلدین کی دلیل نمبر5 کے تحت آئے گا۔ مختصراً عرض ہے کہ اس روایت میں ایک راوی عبدالحمید بن جعفر ہے جو کہ ضعیف، خطاکار اور قدری ہے۔امام نسائی،امام ابوحاتم،امام سفیان ثوری،امام یحییٰ بن سعید القطان،امام یحییٰ بن معین،امام ابن حبان،امام ترمذی،امام طحاوی رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہ نے اس پر جرح کی ہے۔نیز یہ روایت منقطع بھی ہے کہ محمد بن عمرو بن عطاء کا سماع حضرت ابوقتادہ سے نہیں اور سنداً متنًابھی یہ روایت مضطرب ہے۔ لہذا یہ روایت نا قابلِ احتجاج ہے۔
دلیل نمبر 12:
روی الامام الحافظ المحدث مسلم بن الحجاج القشيري النيسابوري: حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وأبو كريب قالا حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن المسيب بن رافع عن تميم بن طرفة عن جابر بن سمرة قال خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس اسكنوا في الصلاة
(صحیح مسلم ج1ص181باب الامر بالسکون فی الصلوۃ ، السنن الکبری للبیہقی ج2ص280جماع ابواب الخشوع فی الصلوۃ والاقبال علیہا ، صحیح ابن حبان ص584رقم1878باب ذکر مایستحب للمصلی رفع الیدین ، سنن ابی داؤد ج1ص150باب فی السلام،سنن النسائی ج1ص176باب السلام بالایدی فی الصلوۃ)
اعتراض:
غیر مقلدین کہتے ہیں حدیث جا بر بن سمرہ میں اشارہ عند السلام فی التشہد سے منع کیا گیا ہے،ترک رفع الیدین سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اسی لیے علماء نے اسے باب السلام میں ذکر کیا ہے نہ کہ باب رفع الیدین میں۔ نیز علما ء دیوبند سے پہلےکسی نے بھی اس حدیث سے نفی اور منع رفع یدین پر استدلال نہیں کیا۔
جواب شق 1:
اس حدیث کا ترک رفع الیدین سے تعلق ہے، کیونکہ اس میں ”اسكنوا في الصلاة“ کےالفاظ ہیں اورعلامہ بدر الدین عینی اور امام زیلعی نے اس حد یث کے متعلق تصریح کی ہے:
انما یقال ذلک لمن یر فع یدیہ فی اثناء الصلوۃ وھو حا لۃ الرکوع او السجود ونحو ذلک
( شرح سنن ابی داؤد للعینی ج3ص297، نصب الرا یہ ج1ص472)
لہذا اس کا تعلق منع رفع یدین کے ساتھ ہے نہ کہ تشہد کے ساتھ۔
جواب شق2:
علماء نے اس حدیث کو رفع یدین یا ترک رفع یدین کے باب میں بھی ذکر فرمایا ہے، مثلاً۔۔
1:علامہ زمحشری نے اس حدیث کو
”باب لا تر فع الایدی فی الصلوۃ الا عند افتتاح الصلوۃ“ میں ذکر کیا ہے۔
( رؤوس المسائل الخلافیہ بین الحنفیۃ والشافعیۃ ج1ص156)
3: امام ابو محمد علی بن زکر یا المنبجی نے اس حدیث کو ”باب لاترفع الایدی عند الرکوع ولا بعد الرفع منہ “ میں ذکر کیا ہے۔
(اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1ص256)
4: امام ابو الحسن القدوری اس حدیث کو ”باب لا تر فع الیدین فی تکبیر الرکوع“ میں لائے ہیں۔
(التجرید للقدوری ج2ص519)
جواب شق3:
علماء و فقہاءنے اس حدیث سے نفی اور منع رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔مثلاً:
1: قال الامام النووی: وقال أبو حنيفة والثوري وابن ابى ليلي وسائر اصحاب الرأى لا يعرف يديه في الصلاة الا لتكبيرة الاحرام وهى رواية عن مالك واحتج لهم بحديث البراء بن عازب رضي الله تعالي عنهما۔۔۔ وعن جابر بن سمرة رضي اللله عنه قال " قال رسول الله صلي الله عليه وسلم مالى اراكم رافعي ايديكم
(المجموع شرح المہذب ج3 ص400 فصل في مسائل مهمة تتعلق بقراءة الفاتحة)
2: قال الامام ابن عبد البر: وقد احتج بعض المتأخرين للكوفيين ومن ذهب مذهبهم في رفع اليدين بما حدثنا۔۔۔ عن جابر بن سمرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مالي أراكم
( التمہید لابن عبد البر ج4ص194)
3: امام ابو الحسن القدوری:
(التجرید للقدوری ج2ص519 باب لا تر فع الیدین فی تکبیر الرکوع)
4: علامہ زمحشری:
( روس المسائل الخلافیہ بین الحنفیۃ والشافعیۃ ج1ص 156باب لا تر فع الایدی فی الصلوۃ الا عند افتتاح الصلوۃ )
5: امام ابو محمد علی بن زکر یا المنبجی:
(اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1ص256 باب لاترفع الایدی عند الرکوع ولا بعد الرفع منہ)
6: علامہ زیلعی •
(نصب الرایہ ج1ص472)
7:علامہ عینی•
(شرح سنن ابی داود ج3ص29)
8:ملاعلی قاری•
(فتح باب العنایہ ج1ص258)
دلیل نمبر 13:
روی الامام الحافظ المحدث أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة الطحاوي: قال حدثنا ابن ابی داؤد قال حدثنا نعیم بن حماد قال ثنا الفضل بن موسی قال ثنا ابن ابی لیلی عن نافع عن ابن عمروعن الحکم عن مقسم عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ترفع الایدی فی سبع مواطن فی افتتاح الصلوۃ وعند البیت وعلی الصفا والمروۃ وبعرفات وبمزدلفۃ عندالجمرتین۔
وبہ قال حدثنا فہد ثنا الحمانی قال المحاربی عن ابن ابی لیلی عن نافع عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مثلہ،
(سنن الطحاوی ج1ص416باب رفع الیدین عند رؤیۃ البیت،المعجم الکبیرللطبرانی ج5ص428رقم الحدیث 11904،صحیح ابن خزیمۃ ج4ص209رقم2703باب کراہیۃ رفع الیدین عند رؤیۃ البیت)
اعتراض:
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ابن عبا س اور ابن عمر کی سند میں قاضی ابن ابی لیلی ہے، اور یہ ضعیف ہے۔
جواب:
امام ابن ابی لیلی کی جمہور ائمہ نے تعدیل وتو ثیق کی ہے ،مثلاً
1: امام احمد بن يونس [شیخ البخاری]: كان أفقه أهل الدنيا.
( میزان الاعتدال ج4ص175 ، تذکرۃ الحفاظ ج1 ص129 )
2: امام زائدة: كان أفقه أهل الدنيا.
(سیر اعلام النبلاء ج6 ص311 )
3: امام أحمد بن عبدالله العجلى: كان فقيها صدوقا، صاحب سنة، جائز الحديث، قارئا عالما، قرأ عليه حمزة الزيات
(میزان الاعتدال ج4ص175 ، تہذیب التہذیب)
4: امام ابو یوسف القاضی: ما ولى القضاء أحد أفقه في دين الله، ولا أقرأ لكتاب الله، ولا أقول حقا بالله، ولا أعف عن الاموال - من ابن أبي ليلى.
(میزان الاعتدال ج4 ص176)
5: امام ابو حاتم الرازی
: محله الصدق كان سيئ الحفظ
(الجرح و التعدیل ج7ص322)
6: امام ابو زرعہ الرازی:
هو صالح ليس باقوى ما يكون
(الجرح و التعدیل ج7ص322)
7: امام عطاء بن ابی رباح:
قال ابن أبي ليلى: دخلت على عطاء، فجعل يسألنى، فکأ ن أصحابه أنكروا عليه ذلك، وقالوا: تسأله ؟ قال: وما تنكرون ؟ هو أعلم منى
.
( میزان الاعتدال ج4 ص176)
8: حافظ ابن حجر: له ذكر في الاحكام من صحيح البخاري قال أول من سأل على كتاب القاضي البينة ابن أبي ليلى وسوار.
(تہذیب التہذیب ج 5ص706 )
9: امام سفیان الثوری: فقهاؤنا ابن أبي ليلى وابن شبرمة
(تہذیب التہذیب ج 5ص707)
10: امام ترمذی: کئی مقامات پر اس کی حدیث کو حسن صحیح فرمایا ہے۔
(باب ما جاء في الرجل يقرأ القرآن على كل حال ما لم يكن جنبا،باب ما جاء متى تقطع التلبية في العمرة ، باب ما جاء في كراهية الشرب في آنية الذهب والفضة وغیرہ )
11: امام ذہبی: حديثه في وزن الحسن
( تذکرۃ الحفاظ ج1ص128)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابن ابی لیلی عند الجمہو ر فقیہ ، ثقہ ، صدوق اور عادل ہے۔ چونکہ ان پر کچھ جرح بھی ہے (کما مر) اس لیے اصولاً یہ حسن الحدیث درجے کا راوی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی نے تصریح کی ہے کہ امام ابن ابی لیلی حسن الحدیث ہیں اور جب دیگراحادیث اس کی روایت کی متا بعت کریں تو یہ درجہ صحیح کو پہنچ جائے گی۔یہی بات علامہ شاکر غیر مقلد نے لکھی ہے:
و مثل ہذا [ابن ابی لیلی]لا یَقِلُّ حدیثُہ عن درجۃ الحسن المحتج بہ و اذا تابعہ غیرہ کان الحدیث صحیحا
( شرح جامع التر مذی لاحمد محمد شاکر غیر مقلد بحوا لہ نور الصبا ح ج1 ص166، 167)
لہذا یہ اعترا ض باطل ہے اور حدیث حسن درجہ کی ہے اور حجت ہے۔
No comments:
Post a Comment