اشکال: غیرمقلدین حضرات حضرت جابر بن سمرۃ رضی اﷲ عنہ کی حدیث سے رفع یدین کی منسوخیت کے ثبوت پر یہ اشکال بھی کرتے ہیں،’’کہ اس حدیث کے حکم سے تو نمازِعیدین میں کہی جانےوالی (۶) زائد تکبیرات کے رفع یدین اور نمازِوترمیں دعاءِ قنوت سے پہلےکیا جانے والا رفع یدین بھی منسوخ ہوجاتا ہے تو پھر حنفی حضرات ان نمازوں میں رفع یدین کیوں کرتے ہیں؟‘‘۔
جواب: میری اس بات سے تو تمام غیرمقلدین حضرات بھی اتفاق کریں گے کہ حضرت جابررضی اﷲ عنہ کی یہ حدیث نمازِ پنجگانہ کے بارے میں ہے کسی خاص نماز (یعنی نمازِعیدین یانمازِوتر) کے بارے میں نہیں۔یہی وجہ ہے کہ تمام محدثین نے اس حدیث کو باب الصلاۃ میں رقم کیا ہے باب الصلاۃ العیدین یا باب الصلاۃ الوتر میں نہیں۔لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ رسول اکرمﷺ نے یہ حکم نمازِ پیجگانہ (یعنی پانچ فرض نمازوں کےساتھ پڑھی جانی والی نمازوں) کے بارے میں ہےکسی خاص نماز (یعنی نمازِعیدین یا نمازِ وتر) کے بارے میں نہیں۔
دوسری بات یہ کہ احناف نمازمیں جن مواقعوں (یعنی رکوع میں جاتےوقت، رکوع سے اٹھتےوقت، سجدے میں جاتےاوراٹھتے وقت، دونوں سجدوں کے درمیان، دوسری رکعت کے شروع میں، تیسری رکعت کے شروع میں اور سلام پھیرتے وقت) کے رفع یدین کو منسوخ مانتے ہیں ان تمام مواقعوں پر رسول اﷲﷺ سے رفع یدین کرنا بھی ثابت ہےاورنہ کرنابھی ثابت ہےجبکہ اس کے برعکس نمازِ عیدین اور نمازِ وتر میں جن مواقعوں پر احناف رفع یدین کرتے ہیں ان مواقعوں پر رسول اﷲﷺ سے رفع یدین کرنے کی دلیل تو ملتی ہے لیکن نہ کرنے کی نہیں ملتی۔ اسی لئے ہم (احناف) ان مواقعوں پر رفع یدین کرتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ نمازِ عیدین میںنہ اذان دی جاتی ہے اور نہ اقامت (تکبیر)کہی جاتی ہےاوراس کے پڑھنے کا طریقہ بھی عام نمازوں سے مختلف ہے لہٰذا اس کو نمازِ پنجگانہ سے مشابہت دینااوراس کے حکم کا اطلاق کرناعقل سے بالاترہے۔
چوتھی بات یہ کہ ہم (احناف) نمازِ عیدین اور نمازِوتر میں جن مقامات پر رفع یدین کرنے کے قائل ہیں وہ نمازِ پنجگانہ میں کیئےجانے والے رفع یدین کے مقامات سے بالکل الگ ہیں ۔ لہٰذااگر ہم نمازِ عیدین اور نمازِوتر میں ان مقامات پر رفع یدین کے قائل ہوتے جن مقامات پرمنسوخ سمجھتے ہیں تو اعتراض کی صورت بنتی تھی لیکن جب ہم ان نمازوں میں بھی ان مقامات پر رفع یدین کے قائل نہیں تو پھر اعتراض کس بات کا؟
غیرمقلدین حضرات کے اس اشکال پر ہمارا بھی حق بنتاہے کہ ہم بھی کچھ اشکال پیش کریں۔ غیرمقلدین حضرات جو وترکی تیسری رکعت میں بعدازرکوع رفع یدین کرنےکے بجائے عام دعاکی طرح ہاتھ اٹھاکردعائے قنوت پڑھتے ہیں، کیا اس عمل کے بارے میں زبیرعلی زئی صاحب یا کسی غیرمقلد کے پاس کوئی ایک صحیح صریح مرفوع حدیث ہے؟ اگرہے تو ذراپیش فرمائیں ورنہ اس قسم کے سطحی اعتراضات سے گریز فرمائیں۔
غیرمقلدین حضرات کے اس اشکال پر ہمارا بھی حق بنتاہے کہ ہم بھی کچھ اشکال پیش کریں۔ غیرمقلدین حضرات جو وترکی تیسری رکعت میں بعدازرکوع رفع یدین کرنےکے بجائے عام دعاکی طرح ہاتھ اٹھاکردعائے قنوت پڑھتے ہیں، کیا اس عمل کے بارے میں زبیرعلی زئی صاحب یا کسی غیرمقلد کے پاس کوئی ایک صحیح صریح مرفوع حدیث ہے؟ اگرہے تو ذراپیش فرمائیں ورنہ اس قسم کے سطحی اعتراضات سے گریز فرمائیں۔
دعاء ِقنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، فتاویٰ علمائے حدیث
دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے چنانچہ اسود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دعائے قنوت میں سینہ تک اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے اور ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میں ہمارے ساتھ دعاء قنوت پڑھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں بازو ظاہر ہو جاتے اور خلاص سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس کو دیکھا کہ نماز فجر کی دعاء قنوت میں اپنے بازو آسمان کی طرف لمبے کرتے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ماہِ رمضان میں دعاء قنوت کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے اور ابو قلابہ اور مکحول بھی رمضان شریف کے قنوت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اورابراہیم سے قنوت وتر سے مروی ہے کہ وہ قرأۃ سے فارغ ہوکر تکبیر کہتے اور ہاتھ اٹھاتے پھر دعائے قنوت پڑھتے پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرتے اور روایت ہے وکیع سے وہ روایت کرتا ہے محل سے وہ ابراہیم سے کہ ابراہیم نے محل کو کہا کہ قنوت وتر میں یوں کہا کرو اور وکیع نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے قریب تک اٹھا کربتلایا اور کہا کہ پھر چھوڑ دیوے ہاتھ اپنے عمر بن عبدالعزیز نے نماز صبح میں دعاء قنوت کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور سفیان سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو دوست رکھتے تھے کہ وتر کی تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھ کر پھر تکبیر کہے اوردونوں ہاتھ اٹھاوے پھر دعائے قنوت پڑھے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ قنوت میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھاوے کہا ہاں مجھے یہ پسند آتا ہے۔ ابوداؤد نے کہا کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اسی طرح شیخ احمد بن علی المقریزے کی کتاب مختصر قیام اللیل میں ہے اور ابو مسعود اور ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی ان قاریوں کے بارے میں جو معونہ کے کنوئیں میں مارے گئے قنوت وتر میں دونوں ہاتھوں کااٹھانا مروی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تحقیق میں نے رسول اللہﷺ کو ان لوگوں پر جنہوں نے قاریوں کو قتل کیا تھا ہاتھ اٹھا کر بد دعاء کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسے ہی بیہقی کی کتاب مسمیٰ معرفت میں ہے۔ حررہ عبدالجبار العزنوی عفی عنہ (فتاویٰ غزنویہ: ص ۵۱)(فتاویٰ علمائے حدیث : جلد ۴ ،ص ۲۸۳)
No comments:
Post a Comment