Friday, 7 June 2019

شوال کے چھ روزوں کی تحقیق


☄شوال کے 6 روزوں کی فضیلت☄

رمضان المبارک کے مہینہ کے بعدشوال کا مہینہ آتا ہے ،رمضان میں ایک مہینہ تک مسلسل روزوں کا اہتما م کیا جاتا ہے،اور چوں کہ رمضان کے روزے فرض ہیں اس لئے ہر کوئی ہر ممکن رکھنے کی پوری کوشش بھی کرتا ہے ۔رمضان کے گزرنے کے بعد شوال کے مہینہ میں چھ نفل روزے رکھے جاتے ہیں ،جن کو ’’ ستۂ شوال ‘‘ کہاجاتا ہے ،یعنی شوال کے چھ روزے ۔عام طور پر ہمارے پاس رمضان المبارک کا جو نظام الاوقات چھپتا ہے اس میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس کے بھی سحر و افطار کے اوقات درج ہوتے ہیں ،اور اللہ کے کچھ بندے ان چھ روزوں کے رکھنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں ۔تو آئیے مختصراً ان روزوں کی حقیقت ،فضیلت او ر ان سے متعلق ضروری مسائل جانتے ہیں ،تاکہ ہمیں ان روزوں کی حقیقت اور حیثیت معلوم ہوجائے۔

✨چھ روزوں کی فضیلت✨

شوال کے مہینہ میں رکھے جانے والے ان روزوں کی فضیلت میں مختلف حدیثیں وارد ہوئی ہیں
1⃣حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيلَ، - قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، - أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عُمَرَ، بْنِ ثَابِتِ بْنِ الْحَارِثِ الْخَزْرَجِيِّ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، - رضى الله عنه - أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ ‏''
جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے (کے ثواب)کی طرح ہیں
صحیح مسلم :1164 ،دارالسلام 2758، صحیح ابن خزیمہ:2114،صحیح ابن حبان :3626/3634،صحیح ابی عوانہ :القسم المفقود صفحہ :94/95، سنن الترمزی : 759 وقال :''حدیث حسن صحیح '' شرح السنتہ للبغوی 6/331 حاشیہ 1780 ، وقال :''ھذا حدیث صحیح ''
اس حدیث کو درج ذیل اماموں نے صحیح قرار دیا ہے :
1⃣ـ امام مسلم ،
2⃣امام ابن خزیمہ ، 
3⃣امام ترمذی ، 
4⃣حافظ ابوعوانہ ،
5⃣حافظ ابوعوانہ ، 5ـ حافظ ابن حبان ،
 6⃣حافظ حسین بن مسعود البغوی رحمہم اللہ

2⃣حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْحَارِثِ الذِّمَارِيُّ، عَنِ ابِي، أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال‏:‏ صِيَامُ شَهْرٍ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ وَسِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَهُنَّ بِشَهْرَيْنِ فَذَلِكَ تَمَامُ سَنَةٍ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ
" رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں ، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں ''
(السنن الدارمی : 1762 و سندہ صحیح ، سنن ابن ماجہ : 1715 ، صحیح ابن خزیمہ : 2115 ، صحیح ابن حبان : 3635 ، السنن الکبری للنسائی : 2861 ، مسندہ احمد 280/5 ، وغیرہ )
اس حدیث کو ابن خزیمہ اور ابن حبان وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے
 امام نسائی رحمہ ﷲ فرماتے ہیں :
3⃣"انبا محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکیم قال : حدثنا ابوعبد الرحمن المقری قال :حدثنا شعبتہ بن الحجاج عن عبد ربہ بن سعید عن عمر بن ثابت عن ابی ایوب الانصاری انہ قال :من صام شھر رمضان ثم اتبعہ ستتہ ایام من شوال فکانما صام السنتہ کلھا ''
ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو شخص رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اسنے سارا سال کےروزے رکھے
(السنن الکبری للنسائی 163/2 ، 164 ھجریہ 2865 )اس موقوف روایت کی سند صحیح ہے ـ عبدریہ بن سعید بن قیس ثقہ اور صحیحن کے راوی ہیں دیکھئے تقریب التہذیب (3786) اور ان تک سند صحیح ہے
 ان احادیث کے علاوہ بھی اور حدیثیں ان چھ روزوں کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے منقو ل ہیں۔

✨ *چھ روزں کی خصوصیت:* ✨

احادیث میں خود نبی کریم ﷺ سے یہ منقول ہے کہ رمضان المبارک کے تیس روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا گویا پورا سال روزے رکھنے کے برابر ہو گا اور سال بھر روزے رکھنے کا اجر وثواب ملے گا۔
1⃣علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ مسلم کی شرح ’’فتح المہلم ‘‘میں حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:وَاِنَّمَاکَانَ ذٰلِکَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ،ِ لاَنَّ الْحَسَنَۃَ بِعَشْرَ اَمْثَالِہَا،فَرَمَضَان بِعَشْرَۃِ اَشْھُرٍ وَالِستَّۃُ بِشَھْرَیْنِ ۔( فتح الملھم : 6/258،دار الضیا ء کویت)ان روزوں کی وجہ سے عمر بھر روزے رکھنے کی طرح ہوگیا ،اس لئے کہ ہر نیکی کا اجر دس گناہ ہے ، پس رمضان کے تیس روزے دس مہینے ( یعنی تین سو دن )کے برابر ہوگئے ،اور چھ روزے دو مہینے ( یعنی ساٹھ دن ) کے برابر ہوگئے اس طرح پورا سال روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔
2⃣حکیم الاسلام قاری محمد طیب ؒ بھی اس کی اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :ماہِ رمضان کے دنوں کو دیکھئے تو ان میں 30 روزے رکھے گئے ہیں اور شریعت کی بخششیں بے کراں نے ایک نیکی کو دس نیکی کے برابر شمار کیا ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالہا ۔ اس اصول پر یہ 30 روزے 300 ہوجاتے ہیں،اور ادھر عید کے بعد شش عید جو بطور تتمہ و توابع رمضان کے ساتھ لاحق کئے گئے ( گو بوجہ تسہیل و رحمت انہیں اختیاری رکھا گیا ،اور جزو رمضان نہیں بنایا گیا) اصولِ مذکورہ پر 60 ہوجاتے ہیں تو رمضان کے اصل اور ملحقہ روزوں کا مجموعہ بھی وہی 360 ہوجاتا ہے جو سال کے دنوں کی تعداد ہے ،اور اس کا حاصل بھی وہی نکلا کہ رمضان کے یہ انعامی 360 روزے سال بھر کے پورے 360 دنوں کے مساوی ہیں اور رمضان کے یہ اصل اور توابع روزے پورے کردینے والا سال کے تمام روزے رکھنے والا بن کر ’’صائم الدھر‘‘ بن جاتا ہے ۔( خطبات حکیم الاسلام:9/108)

✏ *چھ روزوں کے مسائل:* ✏

1⃣شوال کے یہ روزے لگاتار رکھنا ، یا عید کے اگلے دن سے فوراً رکھنا ضروری نہیں بلکہ شوال کے مہینے میں عید کا دن چھوڑ کر جب اور جس طرح سے چاہیں رکھ سکتے ہیں ،بس اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ ان چھ روزوں کی تعداد شوال کے مہینے میں مکمل ہوجانی چاہیے ۔( شوال و عید الفطر : فضائل واحکام:418)
2⃣رمضان کے روزے فرض ہیں ،شوال کے چھ روزے نفل ہیں ،لہذا شوال کے چھ روزوں میں رمضان کے روزوں کی قضا کی نیت کرنادرست نہیں ،اس طرح رمضان کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔( روزے کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا:131)
3⃣شوال کے روزے جائز اور مستحب ہیں ،نہ فرض ہیں اور نہ واجب ، اس لئے یہ سمجھنا کہ رمضان کے روزوں کا اجر ان روزوں پر موقوف رہتا ہے ،درست نہیں ہے۔( کتاب الفتاوی :3/442)
4⃣عید کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں ہے لیکن اگر عید کے بعد سے لگاتا رہے تو یہ افضل ہے۔( الفقہ الاسلامی وادلتہ :2/589)
5⃣بعض لوگ عید الفطر گزرنے کے بعد شوال کی آٹھ تاریخ کو ایک اور عید مناتے ہیں ،جب کہ بعض لوگ شوال کے چھ روزوں سے فارغ ہو کر یہ عید مناتے ہیں اور بعض لوگ اس عید کو ’’ عیدِ ابرار‘‘ کانام دیتے ہیں،اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں اور اس کو عید قراردینا شرعاً غلط ہے ۔( شوال و عید الفطر کے فضائل واحکام:422

 📌 *کیا امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے*
 *نزدیک شوال کے چھ روزے رکھنا مکروہ ہے*  📌

📝 *فقہاء مالکیہ کا موقف* 📝

امام مالک کی طرف ان روزوں کی کراہیت کا جو قول منسوب کیا جاتا ہے اس کے متعلق خود مالکیہ نے مختلف تاویلات کی ہیں:
1⃣. ابن عبدالبر رحمه اللہ کا قول:
ابن عبدالبر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک نے ان روزوں کی ممانعت ایک خاص وجہ سے کی ہے اور وہ یہ کہ ان روزوں کو رمضان کے روزوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے لہذا احتیاطا امام مالک نے ان روزوں کی کراہت کا قول فرمایا.
2⃣. ابو عبداللہ العبدری رحمه اللہ:
ابو عبداللہ العبدری رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ ان روزوں کو واجب نہ سمجھ لیں اس لئے منع فرماتے تھے ورنہ امام مالک رحمه اللہ خود ان روزوں کو رکھتے تھے.
یہی بات امام قرطبی نے بھی مطرف کی روایت سے نقل کی ہے.
□ وذهب أبو عبدالله العبدري إلى تأويل آخر لقول مالك وهو: أن مالكا إنما كره صومها لسرعة أخذ الناس بقوله فيظن الجاهل وجوبها، وزعم العبدري -وهو من فقهاء المالكية- أنّ مالكا كان يصومها وحضَّ مالكٌ الرشيدَ على صيامها [168].
○ كما أن القرطبي قال: "وروي مطرف عن مالك أنه كان يصومها في خاصة نفسه". [169].

 *اہل خراسان کا عمل:*

امام مالک جس بات کا خوف کرتے تھے وہ عمل اہل خراسان نے شروع کیا کہ ان روزوں کا بھی باقاعدہ اسی طرح کا اہتمام کیا جاتا جیسا کہ رمضان کے روزوں میں کیا جاتا تھا.
○ قد وقع ما خافه الإمام مالك في بعض بلاد خراسان إذ كانوا يقومون لسحورها على عادتهم في رمضان (153).

 📝 *جمھور مالکیة کا عمل:* 📝

1⃣:جمھور مالکیہ کا عمل ابتداء سے ہی ان روزوں کے رکھنے کا ہے اور ابتدائی دور میں جب جھل زیادہ تھا تو خوف تھا کہ لوگ اسکو فرض کا حصہ نہ سمجھ بیٹھیں لیکن جب علم عام ہوا تو اب کراہت بھی ختم ہوگئی.
2⃣وللمالكية المتأخرين قيود معروفة لثبوت الكراهة، إذا انتفى قيد منها انتفت الكراهة.
3⃣: وعمل جمهورهم منذ زمن على المبادرة لصومها اتباعا لظاهر النص، بعد انتشار العلم وذهاب ما خشيه الإمام. والله أعلم.

📝 احناف فقہا کرام کا موقف* 📝

1⃣امام ابویوسف رحمه اللہ ان روزوں کو مسلسل رکھنے کی کراہت کے قول کو نقل فرماتے ہیں، لیکن اگر یہ روزے متفرق طور پر رکھے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں.
2⃣:وقال ابن نُجيم في البحر الرائق: ومن المكروه... صوم ستة من شوال عند أبي حنيفة متفرقا كان أو متتابعا، وعن أبي يوسف كراهته متتابعا لا متفرقا [161]

3⃣"فتح القدیر" میں جمھور احناف کا قول ان روزوں کے استحباب کا نقل کیا ہے اور یہی قول ہمارے زمانے کے تمام فتاوی میں بھی موجود ہے.
4⃣:صاحب بدائع علامہ کاسانی رحمه الله نے فرمایا: اتباع مکروہ یہ ہے کہ آدمی عیدالفطر کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد پانچ دن روزے رکھے اور اگر کسی نے عیدالفطر کے دن افطار کیا، پھر اس کے بعد چھ دن روزے رکھا تو یہ مکروہ نہیں؛ بلکہ مستحب وسنت ہے۔
والاتباع المکروہ هو أن یصوم یوم الفطر ویصوم بعدہ خمسة أیام، فأما اذا أفطر یوم العید ثم صام بعدہ ستة أیام فلیس بمکروہ؛ بل هو مستحب وسنة (بدائع الصنائع، کتاب الصوم ۲:۵۶۲، ط: دارالکتب العلمیة بیروت)
5⃣5: صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی رحمه الله نے فرمایا: مرغوب وپسندیدہ روزوں میں شوال کے مسلسل چھ روزے بھی ہیں (رسالہ: تحریر الأقوال في صوم الست من شوال من مجموعة رسائل العلامة قاسم بن قطلوبغا، ص۳۸۶)۔

6⃣: فتاویٰ عالمگیری میں البحرالرائق کے حوالے سے ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں کچھ حرج نہیں اور محیط سرخسی کے حوالے سے ہے: صحیح ترقول یہ ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں کچھ حرج نہیں، یعنی: یہ روزے مستحب ہیں؛ کیوں کہ حرج کی نفی قول کراہت کے مقابلہ میں ہے اور ایسی صورت میں حرج نہ ہونے کا مطلب استحباب ہوتا ہے۔

عامة المتأخرین لم یروا بہ - بصوم الستة من شوال - بأسًا ہکذا في البحر الرائق، والأصح أنہ لا بأس بہ کذا فی محیط السرخسي (الفتاوی الہندیة، کتاب الصوم، الباب الثالث فیما یکرہ للصائم وما لا یکرہ، ۱:۲۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،
 وکلمة ”لابأس“ ہنا مستعملة فی المندوب؛ لأنہا لیست مطردة لما ترکہ أولیٰ؛ بل تستعمل فی المندوب أیضاً اذا کان المحل مما یتوہم فیہ البأس أي: الشدة، خاصة اذا تأید ذلک الأمر بالحدیث النبوي - علی صاحبہ الصلاة والسلام - کذا حققہ الحصکفي وابن عابدین الشامی فی الدرالمختار وحاشیتہ رد المحتار (کتاب الطہارة ۱:۲۴۱، کتاب الصلاة، باب العیدین ۳:۶۵، باب الجنائز فی شرح قول الدر: ”ولا بأس برش الماء علیہ“ ۳:۱۴۳ و ۶:۲۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،
 مثلها کلمة ”لاجناح“ بل قد استعملت هذه في سورة البقرة (رقم الآیة: ۱۵۸) بمعنی الوجوب کما فی رد المحتار لابن عابدین الشامی (۶:۲۵۷)، وکلمة ”لا حرج“ أیضاً؛ لأنہا بمعناہا․

 7⃣:علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے درمختار میں ابن کمال کے حوالے سے وہی مضمون نقل فرمایا ہے، جو اوپر بدائع کے حوالے سے ذکر کیاگیا، یعنی: عیدالفطر کا دن چھوڑ کر ماہ شوال میں چھ روزے رکھنا مستحب وسنت ہے اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حاشیہ میں اسے برقرار رکھا؛ بلکہ متعدد کتابوں کے حوالے سے اسے موٴکد فرمایا اور کراہت کے قول کی تردید فرمائی اور آخر میں علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ کے رسالہ (تحریر الأقوال فی صوم الست من شوال) کا حوالہ دیا جس میں علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ نے کراہت کے قول کی تردید فرماکر کتب مذہب سے استحباب وسنیت کے قول کو موٴکد فرمایا ہے، ذیل میں صرف درمختار کی عبارت پیش کی جاتی ہے:
والاتباع المکروہ ہو أن یصوم الفطر وخمسة بعدہ، فلو أفطر لم یکرہ؛ بل یستحب ویسن، ابن کمال (الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما یکرہ فیہا، ۳:۴۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

8⃣:اسی طرح علامہ محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ نے بھی سنن ترمذی کی مشہور شرح: معارف السنن (کتاب الصوم، باب ما جاء في صیام ستة من شوال) میں علامہ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ کے رسالہ کی روشنی میں اسی قول کو موٴکد فرمایا ہے کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں اور کراہت کے قول کی تردید فرمائی ہے۔

9⃣: علامہ ظفر احمد عثمانی نے اعلاء السنن (۹:۱۷۷، مطبوعہ: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراچی) میں حضرت ابی ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت پر استحباب کا باب قائم فرمایا ہے، یعنی: باب استحباب صیام ستة من شوال الخ معلوم ہوا کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں۔

🔟 بہشتی زیور کامل (۳:۱۴۲) میں ہے
عید کے بعدچھ دن نفل روزہ رکھنے کا بھی اورنفلوں سے زیادہ ثواب ہے۔

درج بالا چند دلائل اور حوالہ جات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ شوال کے چھ روزے احناف کے نزدیک بلاشبہ مستحب وسنت ہیں اور ان کی کراہت کا قول صحیح نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ أعلم


No comments:

Post a Comment