ہندوستان کے غیر مقلد: سلفی کب سے بنے اور کیوں بنے؟
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ: شافعی تھے، اس لئے دنیا کے تمام شوافع اشعری ہیں، اور امام ابو منصور ماتریدی: حنفی تھے، اس لئے دنیاکے تمام حنفی ماتریدی ہیں، اور سلفیت امام احمد سے چلی ہے جس طرح حنبلیت ان سے چلی ہے، اس لئے تمام حنبلی : سلفی ہیں، اور مالکیہ میں تینوں مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
غرض: سعودیہ والے فقہ میں حنبلی ہیں اور علم کلام میں سلفی، پھر وہاں پیٹرول نکل آیا تو ہندوستان کے غیر مقلدین نے خود کو سلفی کہناشروع کردیا حالانکہ پہلے ان کا ہر عالم خود کو اشعری لکھتا تھا، ماتریدی وہ کبھی نہیں رہے، کیونکہ حنفیہ سے ان کو اللہ واسطے کی دشمنی ہے، اس لئے وہ ماتریدی نہیں ہوسکتے تھے، ہاں اشعری ہوسکتے تھے، کیونکہ امام ابو الحسن اشعری شافعی تھے، اور غیر مقلدوں کے شوافع سے فقہ میں ڈانڈے ملتے ہیں۔ شوافع بھی رفع یدین کرتے ہیں وہ بھی کرتے ہیں، شوافع بھی امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتے ہیں: وہ بھی پڑھتے ہیں، شوافع بھی آمین بالجہر کے قائل ہیں: وہ یہ بھی یہی کہتے ہیں، چنانچہ وہ علم کلام میں اشعری بن گئے اور وہ خود کو اشعری کہتے اور لکھتے تھے۔
پھر جب انھوں نے دیکھا کہ اب سلفی بنے بغیر چارہ نہیں، یہ لبادہ اوڑھے بغیر ریال ہاتھ نہیں آسکتے تو انھوں نے اشعریت کا لبادہ اتار پھینکا اور سلفی بن گئے اور سعودیہ والے بے چارے دھوکہ میں آگئے، وہ سمجھے کہ یہ بھی ہمارے جیسے سلفی ہیں، حالانکہ وہ نقلی سلفی ہیں۔
غرض مسئلہ میں یہ سمجھارہا تھا کہ اہل حق کون ہیں؟ جو عقائد میں تین میں سے ایک ہو، اور فقہ میں چار میں سے ایک ہو، وہی مکمل طور پر اہل حق ہیں، اور اگر ایک طرف سے اہل حق میں سے ہو، اور دوسری طرف سے اہل باطل میں سے تو وہ کریلا نیم چڑھا ہے، اور اگر دونوں طرف سے اہل باطل میں سے ہو تو اس سے اللہ کی پناہ!
خلاصہ کلام:
اب آخر میں دو باتیں سنو!
پہلی بات: سب سے پہلا سلفی میں ہوں، لیکن میں اشعری بھی ہوں، اور ماتریدی بھی، تینوں کس طرح جمع ہوسکتے ہیں؟ اس طرح کہ اللہ کی تمام صفات کو جو قرآن وحدیث میں آئی ہیں: میں مانتا ہوں، قرآن میں ہے:(أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِیْ السَّمَآء): پس میں مانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہیں، چنانچہ ہم جب بھی کہتے ہیں: اللہ نے یہ فرمایا تو ہم انگلی اوپر کی طرف کرتے ہیں، زمین کی طرف نہیں کرتے، مگر اللہ کے آسمان میں ہونے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ میں نہیں جانتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ عرش نشیں ہیں، اللہ کا عرش بھی مانتا ہوں، اللہ کے عرش پر بیٹھنے کو بھی مانتا ہوں لیکن کوئی پوچھے کہ اس کی کیفیت کیا ہے؟ تو میں یہ بات نہیں جانتا، اسی طرح اللہ کا چہرہ بھی ہے، ہاتھ بھی ہے، پنڈلی بھی ہے، میں یہ سب باتیں مانتا ہوں، مگر کوئی پوچھے کہ وہ کیسے ہیں؟ تو میں یہ بات نہیں جانتا۔
پس میرا مذہب تنزیہ مع التفویض ہے، تنزیہ کا مطلب ہے: اللہ کی مخلوق کی مشابہت سے پاکی بیان کرنا، پس کہیں گے: اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھ جیسا نہیں ، اللہ کا چہرہ ہمارے چہرے جیسا نہیں، اور تفویض کا مطلب ہے: صفات کی کیفیت کو اللہ کے حوالہ کرنا۔ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی صفات کو بہتر جانتے ہیں۔ یہی اصل سلفیت ہے، اور علمائے دیوبند اسی کے قائل ہیں۔ لیکن بیمار ذہنوں کو مطمئن کرنے کے لئے میں اللہ کی صفات کی مناسب تاویل کو بھی جائز کہتا ہوں، یعنی درجۂ احتمال میں مطلب بیان کرنے کو بھی جائز کہتا ہوں، مگر ضروری نہیں کہتا، پس اگر کوئی کہے:(کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ، وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلاَلِ وَالِکْرَامِ): زمین پر جو کچھ ہے وہ ختم ہونے والا ہے، اور تیرے پروردگار ذوالجلال والاکرام کا چہرہ ہی باقی رہنے والا ہے، یعنی اللہ کی ذات ہی باقی رہے گی تو ایسا کہنا جائز ہے، صرف جائز ہے فرض نہیں، کیونکہ تاویل تو درجہ احتمال میں ہوتی ہے، وہ فرض وواجب نہیں ہوتی، اسی طرح جب پنڈلی کھولی جائے گی اور لوگوں کو حکم دیا جائے گا کہ اللہ کو سجدہ کریں، تو کافر سجدہ نہیں کرسکیں گے یعنی جس دن اللہ کی خاص تجلی ظاہر ہوگی، اور میدان محشر میں لوگوں سے کہا جائے گا کہ اس تجلی کے سامنے سجدہ کرو تو جنھوں نے دنیا میں اللہ کو سجدہ کیا ہوگاوہی سجدہ کریں گے اور جنھوں نے دنیا میں اللہ کو سجدہ نہیں کیا یعنی کفار وہ اس تجلی کے ظاہر ہونے پر سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ غرض پنڈلی کو تجلی سے تعبیر کرنا جائز ہے، اگر ایسا مطلب بیان کیا جائے تو سننے والے جو بیمار ذہن رکھتے ہیں وہ یہیں رک جائیں گے، اس سے آگے اِدھر اُدھر کی نہیں سوچیں گے۔
پس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کل کے سلفی، چاہے وہ ظاہری ہوں یا سعودیہ والے حنبلی سلفی: سب امام احمد رحمہ اللہ کے بعد غلو میں مبتلا ہوچکے ہیں، وہ غلو کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کے نزدیک سارے عقیدے اور سارا علم کلام انہی دو باتوں میں منحصر ہوگیا ہے کہ اللہ کو عرش پر بیٹھا ہوا مانو، اور اللہ کو آسمان دنیا پر اترتا ہوا مانو تبھی تم مسلمان ہو، ورنہ تم مسلمان نہیں!
دوسری بات: تین فرقے علم کلام میں برحق ہیں اور چار فقہیں برحق ہیں، پس جو بھی ان چار سے خارج ہوگا وہ اہل حق میں سے نہیں ہوگا، اور جو بھی ان تین سے خارج ہوگا وہ بھی اہل حق میں سے نہیں ہوگا۔ اور آج کے سلفی ان تین میں سے نہیں، اصلی سلفی اور تھے ، اور یہ سلفی اور ہیں، وہ لوگ سلفی نہیں ہیں جو اللہ کے لئے جسم مانتے ہیں، اللہ کو مخلوق کے مشابہ مانتے ہیں، اللہ کے لئے جہت مانتے ہیں، اور اللہ کے لئے مکان مانتے ہیں۔
سلفی، اشعری اور ماتریدی: سب اہل حق ہیں
بہرحال: میں اشعری بھی ہوں ماتریدی بھی، اور سلفی بھی، کیونکہ ان تینوں میں کوئی جھگڑا نہیں، یہ تینوں اہل حق ہیں، لیکن آج کے جو سلفی ہیں وہ اہل حق نہیں، وہ امام احمد رحمہ اللہ کے بعد غلو میں مبتلا ہوگئے ہیں، امام احمد رحمہ اللہ تک جو سلفی تھے وہی اصلی سلفی تھے، اور بعد کے لوگ نام نہاد سلفی ہیں۔
اوردیوبندمیں تینوں مکاتب فکر کی کتابیں نصاب میں داخل ہیں، امام طحاوی رحمہ اللہ کی عقیدة الطحاوی بہت پہلے کی کتاب ہے، یہ کتاب سلف کے مسلک کی ترجمانی کرتی ہے، دیوبندمیں سب سے پہلے یہ کتاب پڑھائی جاتی ہے، پھر شرح عقائد نسفی پڑھائی جاتی ہے، اس کا متن:العقائد النسفیہ:عمرنسفی ماتریدی کا ہے، اور شارح علامہ سعد الدین تفتازانی شافعی: اشعری ہیں، اس طرح تینوں مکاتب فکر کی کتابیں دیوبندمیں پڑھائی جاتی ہیں، کیونکہ تینوں مسلک برحق ہیں۔
فقہی مکاتب فکرمیں سے چار ہی مکاتب فکربرحق ہیں:
یہ تو علم کلام کی تفصیل تھی کہ امت میں کس طرح بحثیں ہوئیں اور کس طرح فرقے وجود میں آئے۔ اب مسائل میں آؤ۔ آپ جانتے ہیں کہ مسائل فقہیہ کے بھی اصول ہیں، وہ اصول کیا ہیں؟ اس میں اختلاف ہوا ہے۔ پس اگر اصول صحیح ہیں تو فقہ صحیح ہے، اور اگر اصول غلط ہیں تو فقہ بھی غلط ہے۔
اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک اصول شرع کیا ہے؟ نور الانوار کے شروع میں ہے: اعلم أن أصول الشرع ثلثة: کتابُ اللّٰہ، وسنةُ رسولِہ، وجماع الأمة، والأصل الرابع: القیاس المُسْتَنْبِطُ من ہذہ الأصول الثلاثة: یہ بات جان لو کہ شریعت( فقہ وکلام) کے اصول تین ہیں: اللہ کی کتاب، اللہ کے رسول کی سنت اور اجماع امت اور چوتھی اصل وہ قیاس ہے جس کے ذریعہ ان تین اصولوں میں سے مسائل نکالے جاتے ہیں۔
اب آگے چلو، سب سے پہلے ایک فرقہ پیدا ہوا، اس نے کہا:حسبنا کتابُ اللّٰہ: ہمارے لئے قرآن کافی ہے، اس سے آگے ہم کوئی چیز نہیں مانتے، یہ فرقہ خود کو اہل قرآن کہتا ہے، پس یہ فرقہ جو صرف قرآن کو مانتا ہے اس کی فقہ کیسے برحق ہوسکتی ہے؟ اصول تو تین ہیں، ان میں سے جو صرف قرآن کو مانتا ہے: اس کی فقہ کیسے برحق ہوسکتی ہے؟
دوسرا فرقہ کہتا ہے: قرآن کے بعد حدیثیں حجت ہیں، آگے کوئی چیز حجت نہیں، یہ فرقہ خود کو اہل حدیث کہتا ہے، یہ فرقہ چونکہ سنت کو اور اجماع کو حجت نہیں مانتا: اس لئے اس کی فقہ ( فقہ ظاہری) کیسے برحق ہوسکتی ہے؟
اور اہل السنہ والجماعہ کہتے ہیں: قرآن کے بعد حدیث حجت نہیں، سنت حجت ہے، اور حدیث اور سنت میں فرق میں نے گذشتہ تقریر میں سمجھایا ہے، پھر تیسری اصل اجماع امت ہے، یہ بھی حجت شرعیہ ہے، اِن حضرات کا نام اہل السنہ والجماعہ ہے۔
پس جو صرف قرآن کو اصل مانتے ہیں اور انھوں نے جو فقہ تیار کی ہے وہ برحق نہیں، اور جو قرآن کے ساتھ حدیث کو بھی حجت مانتے ہیں، انھوں نے جو فقہ تیار کی ہے وہ بھی برحق نہیں ، کیونکہ ان کے اصول صحیح نہیں، اور اہل السنہ والجماعہ کی فقہ چار حصوں میں تقسیم ہوگئی: حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ، یہ چاروں فقہیں برحق ہیں، کیونکہ ان کے اصول صحیح ہیں، یہ حضرات قرآن کو بھی حجت مانتے ہیں، سنت کو بھی، اجماع کو بھی اور قیاس کو بھی، اور قیاس تین اصولوں سے الگ کوئی چیز نہیں ، وہ توایک آلہ ہے اس کے ذریعہ سے تین اصولوں( قرآن، سنت اور اجماع) سے مسائل نکالے جاتے ہیں ۔اہل حق وہ ہیں جو دونوں سلسلوں سے برحق ہوں:
اب سمجھو: عقائد میں برحق تین فرقے ہیں: اشاعرہ، ماتریدیہ اور امام احمد رحمہ اللہ تک کے سلفی، آج کے یہ سلفی نہیں، یہ تو امام احمد کے بعد غلو کرنے والے سلفی ہیں، یہی تین جماعتیں برحق ہیں، ان کے علاوہ سب گمراہ ہیں۔
اور فقہ میں چار جماعتیں برحق ہیں: حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی: پس جب دونوں طرف سے حق پرجمع ہونگے تو مکمل برحق ہوں گے، عقائد میں اشعری ، ماتریدی یا سلفی ہوں، اور فقہ میں حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی ہوں تو وہ مکمل طور پر برحق ہیں، اور اگر ایک سلسلہ سے برحق ہے اور دوسرے سلسلہ سے گمراہ تو وہ کریلا نیم چڑھا ہے۔ مثلاً: عقائد میں تینوں میں سے کچھ نہیں اور فقہ میں چار میں سے ایک ہے، جیسے علامہ جار اللہ زمخشری عقائد میں معتزلی تھے، اور فقہ میں حنفی، پس وہ کریلا نیم چڑھاتھے، اسی طرح ہندوستان کے وہ سلفی( غیر مقلد) جو سعودیہ میں پیٹرول نکلنے سے پہلے اشعری تھے اور فقہ میں ظاہری تھے: وہ برحق نہیں ، وہ بھی کریلا نیم چڑھا ہیں۔
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ: شافعی تھے، اس لئے دنیا کے تمام شوافع اشعری ہیں، اور امام ابو منصور ماتریدی: حنفی تھے، اس لئے دنیاکے تمام حنفی ماتریدی ہیں، اور سلفیت امام احمد سے چلی ہے جس طرح حنبلیت ان سے چلی ہے، اس لئے تمام حنبلی : سلفی ہیں، اور مالکیہ میں تینوں مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
غرض: سعودیہ والے فقہ میں حنبلی ہیں اور علم کلام میں سلفی، پھر وہاں پیٹرول نکل آیا تو ہندوستان کے غیر مقلدین نے خود کو سلفی کہناشروع کردیا حالانکہ پہلے ان کا ہر عالم خود کو اشعری لکھتا تھا، ماتریدی وہ کبھی نہیں رہے، کیونکہ حنفیہ سے ان کو اللہ واسطے کی دشمنی ہے، اس لئے وہ ماتریدی نہیں ہوسکتے تھے، ہاں اشعری ہوسکتے تھے، کیونکہ امام ابو الحسن اشعری شافعی تھے، اور غیر مقلدوں کے شوافع سے فقہ میں ڈانڈے ملتے ہیں۔ شوافع بھی رفع یدین کرتے ہیں وہ بھی کرتے ہیں، شوافع بھی امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتے ہیں: وہ بھی پڑھتے ہیں، شوافع بھی آمین بالجہر کے قائل ہیں: وہ یہ بھی یہی کہتے ہیں، چنانچہ وہ علم کلام میں اشعری بن گئے اور وہ خود کو اشعری کہتے اور لکھتے تھے۔
پھر جب انھوں نے دیکھا کہ اب سلفی بنے بغیر چارہ نہیں، یہ لبادہ اوڑھے بغیر ریال ہاتھ نہیں آسکتے تو انھوں نے اشعریت کا لبادہ اتار پھینکا اور سلفی بن گئے اور سعودیہ والے بے چارے دھوکہ میں آگئے، وہ سمجھے کہ یہ بھی ہمارے جیسے سلفی ہیں، حالانکہ وہ نقلی سلفی ہیں۔
غرض مسئلہ میں یہ سمجھارہا تھا کہ اہل حق کون ہیں؟ جو عقائد میں تین میں سے ایک ہو، اور فقہ میں چار میں سے ایک ہو، وہی مکمل طور پر اہل حق ہیں، اور اگر ایک طرف سے اہل حق میں سے ہو، اور دوسری طرف سے اہل باطل میں سے تو وہ کریلا نیم چڑھا ہے، اور اگر دونوں طرف سے اہل باطل میں سے ہو تو اس سے اللہ کی پناہ!
خلاصہ کلام:
اب آخر میں دو باتیں سنو!
پہلی بات: سب سے پہلا سلفی میں ہوں، لیکن میں اشعری بھی ہوں، اور ماتریدی بھی، تینوں کس طرح جمع ہوسکتے ہیں؟ اس طرح کہ اللہ کی تمام صفات کو جو قرآن وحدیث میں آئی ہیں: میں مانتا ہوں، قرآن میں ہے:(أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِیْ السَّمَآء): پس میں مانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہیں، چنانچہ ہم جب بھی کہتے ہیں: اللہ نے یہ فرمایا تو ہم انگلی اوپر کی طرف کرتے ہیں، زمین کی طرف نہیں کرتے، مگر اللہ کے آسمان میں ہونے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ میں نہیں جانتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ عرش نشیں ہیں، اللہ کا عرش بھی مانتا ہوں، اللہ کے عرش پر بیٹھنے کو بھی مانتا ہوں لیکن کوئی پوچھے کہ اس کی کیفیت کیا ہے؟ تو میں یہ بات نہیں جانتا، اسی طرح اللہ کا چہرہ بھی ہے، ہاتھ بھی ہے، پنڈلی بھی ہے، میں یہ سب باتیں مانتا ہوں، مگر کوئی پوچھے کہ وہ کیسے ہیں؟ تو میں یہ بات نہیں جانتا۔
پس میرا مذہب تنزیہ مع التفویض ہے، تنزیہ کا مطلب ہے: اللہ کی مخلوق کی مشابہت سے پاکی بیان کرنا، پس کہیں گے: اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھ جیسا نہیں ، اللہ کا چہرہ ہمارے چہرے جیسا نہیں، اور تفویض کا مطلب ہے: صفات کی کیفیت کو اللہ کے حوالہ کرنا۔ یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنی صفات کو بہتر جانتے ہیں۔ یہی اصل سلفیت ہے، اور علمائے دیوبند اسی کے قائل ہیں۔ لیکن بیمار ذہنوں کو مطمئن کرنے کے لئے میں اللہ کی صفات کی مناسب تاویل کو بھی جائز کہتا ہوں، یعنی درجۂ احتمال میں مطلب بیان کرنے کو بھی جائز کہتا ہوں، مگر ضروری نہیں کہتا، پس اگر کوئی کہے:(کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ، وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلاَلِ وَالِکْرَامِ): زمین پر جو کچھ ہے وہ ختم ہونے والا ہے، اور تیرے پروردگار ذوالجلال والاکرام کا چہرہ ہی باقی رہنے والا ہے، یعنی اللہ کی ذات ہی باقی رہے گی تو ایسا کہنا جائز ہے، صرف جائز ہے فرض نہیں، کیونکہ تاویل تو درجہ احتمال میں ہوتی ہے، وہ فرض وواجب نہیں ہوتی، اسی طرح جب پنڈلی کھولی جائے گی اور لوگوں کو حکم دیا جائے گا کہ اللہ کو سجدہ کریں، تو کافر سجدہ نہیں کرسکیں گے یعنی جس دن اللہ کی خاص تجلی ظاہر ہوگی، اور میدان محشر میں لوگوں سے کہا جائے گا کہ اس تجلی کے سامنے سجدہ کرو تو جنھوں نے دنیا میں اللہ کو سجدہ کیا ہوگاوہی سجدہ کریں گے اور جنھوں نے دنیا میں اللہ کو سجدہ نہیں کیا یعنی کفار وہ اس تجلی کے ظاہر ہونے پر سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ غرض پنڈلی کو تجلی سے تعبیر کرنا جائز ہے، اگر ایسا مطلب بیان کیا جائے تو سننے والے جو بیمار ذہن رکھتے ہیں وہ یہیں رک جائیں گے، اس سے آگے اِدھر اُدھر کی نہیں سوچیں گے۔
پس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ آج کل کے سلفی، چاہے وہ ظاہری ہوں یا سعودیہ والے حنبلی سلفی: سب امام احمد رحمہ اللہ کے بعد غلو میں مبتلا ہوچکے ہیں، وہ غلو کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کے نزدیک سارے عقیدے اور سارا علم کلام انہی دو باتوں میں منحصر ہوگیا ہے کہ اللہ کو عرش پر بیٹھا ہوا مانو، اور اللہ کو آسمان دنیا پر اترتا ہوا مانو تبھی تم مسلمان ہو، ورنہ تم مسلمان نہیں!
دوسری بات: تین فرقے علم کلام میں برحق ہیں اور چار فقہیں برحق ہیں، پس جو بھی ان چار سے خارج ہوگا وہ اہل حق میں سے نہیں ہوگا، اور جو بھی ان تین سے خارج ہوگا وہ بھی اہل حق میں سے نہیں ہوگا۔ اور آج کے سلفی ان تین میں سے نہیں، اصلی سلفی اور تھے ، اور یہ سلفی اور ہیں، وہ لوگ سلفی نہیں ہیں جو اللہ کے لئے جسم مانتے ہیں، اللہ کو مخلوق کے مشابہ مانتے ہیں، اللہ کے لئے جہت مانتے ہیں، اور اللہ کے لئے مکان مانتے ہیں۔
سلفی، اشعری اور ماتریدی: سب اہل حق ہیں
بہرحال: میں اشعری بھی ہوں ماتریدی بھی، اور سلفی بھی، کیونکہ ان تینوں میں کوئی جھگڑا نہیں، یہ تینوں اہل حق ہیں، لیکن آج کے جو سلفی ہیں وہ اہل حق نہیں، وہ امام احمد رحمہ اللہ کے بعد غلو میں مبتلا ہوگئے ہیں، امام احمد رحمہ اللہ تک جو سلفی تھے وہی اصلی سلفی تھے، اور بعد کے لوگ نام نہاد سلفی ہیں۔
اوردیوبندمیں تینوں مکاتب فکر کی کتابیں نصاب میں داخل ہیں، امام طحاوی رحمہ اللہ کی عقیدة الطحاوی بہت پہلے کی کتاب ہے، یہ کتاب سلف کے مسلک کی ترجمانی کرتی ہے، دیوبندمیں سب سے پہلے یہ کتاب پڑھائی جاتی ہے، پھر شرح عقائد نسفی پڑھائی جاتی ہے، اس کا متن:العقائد النسفیہ:عمرنسفی ماتریدی کا ہے، اور شارح علامہ سعد الدین تفتازانی شافعی: اشعری ہیں، اس طرح تینوں مکاتب فکر کی کتابیں دیوبندمیں پڑھائی جاتی ہیں، کیونکہ تینوں مسلک برحق ہیں۔
فقہی مکاتب فکرمیں سے چار ہی مکاتب فکربرحق ہیں:
یہ تو علم کلام کی تفصیل تھی کہ امت میں کس طرح بحثیں ہوئیں اور کس طرح فرقے وجود میں آئے۔ اب مسائل میں آؤ۔ آپ جانتے ہیں کہ مسائل فقہیہ کے بھی اصول ہیں، وہ اصول کیا ہیں؟ اس میں اختلاف ہوا ہے۔ پس اگر اصول صحیح ہیں تو فقہ صحیح ہے، اور اگر اصول غلط ہیں تو فقہ بھی غلط ہے۔
اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک اصول شرع کیا ہے؟ نور الانوار کے شروع میں ہے: اعلم أن أصول الشرع ثلثة: کتابُ اللّٰہ، وسنةُ رسولِہ، وجماع الأمة، والأصل الرابع: القیاس المُسْتَنْبِطُ من ہذہ الأصول الثلاثة: یہ بات جان لو کہ شریعت( فقہ وکلام) کے اصول تین ہیں: اللہ کی کتاب، اللہ کے رسول کی سنت اور اجماع امت اور چوتھی اصل وہ قیاس ہے جس کے ذریعہ ان تین اصولوں میں سے مسائل نکالے جاتے ہیں۔
اب آگے چلو، سب سے پہلے ایک فرقہ پیدا ہوا، اس نے کہا:حسبنا کتابُ اللّٰہ: ہمارے لئے قرآن کافی ہے، اس سے آگے ہم کوئی چیز نہیں مانتے، یہ فرقہ خود کو اہل قرآن کہتا ہے، پس یہ فرقہ جو صرف قرآن کو مانتا ہے اس کی فقہ کیسے برحق ہوسکتی ہے؟ اصول تو تین ہیں، ان میں سے جو صرف قرآن کو مانتا ہے: اس کی فقہ کیسے برحق ہوسکتی ہے؟
دوسرا فرقہ کہتا ہے: قرآن کے بعد حدیثیں حجت ہیں، آگے کوئی چیز حجت نہیں، یہ فرقہ خود کو اہل حدیث کہتا ہے، یہ فرقہ چونکہ سنت کو اور اجماع کو حجت نہیں مانتا: اس لئے اس کی فقہ ( فقہ ظاہری) کیسے برحق ہوسکتی ہے؟
اور اہل السنہ والجماعہ کہتے ہیں: قرآن کے بعد حدیث حجت نہیں، سنت حجت ہے، اور حدیث اور سنت میں فرق میں نے گذشتہ تقریر میں سمجھایا ہے، پھر تیسری اصل اجماع امت ہے، یہ بھی حجت شرعیہ ہے، اِن حضرات کا نام اہل السنہ والجماعہ ہے۔
پس جو صرف قرآن کو اصل مانتے ہیں اور انھوں نے جو فقہ تیار کی ہے وہ برحق نہیں، اور جو قرآن کے ساتھ حدیث کو بھی حجت مانتے ہیں، انھوں نے جو فقہ تیار کی ہے وہ بھی برحق نہیں ، کیونکہ ان کے اصول صحیح نہیں، اور اہل السنہ والجماعہ کی فقہ چار حصوں میں تقسیم ہوگئی: حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ، یہ چاروں فقہیں برحق ہیں، کیونکہ ان کے اصول صحیح ہیں، یہ حضرات قرآن کو بھی حجت مانتے ہیں، سنت کو بھی، اجماع کو بھی اور قیاس کو بھی، اور قیاس تین اصولوں سے الگ کوئی چیز نہیں ، وہ توایک آلہ ہے اس کے ذریعہ سے تین اصولوں( قرآن، سنت اور اجماع) سے مسائل نکالے جاتے ہیں ۔اہل حق وہ ہیں جو دونوں سلسلوں سے برحق ہوں:
اب سمجھو: عقائد میں برحق تین فرقے ہیں: اشاعرہ، ماتریدیہ اور امام احمد رحمہ اللہ تک کے سلفی، آج کے یہ سلفی نہیں، یہ تو امام احمد کے بعد غلو کرنے والے سلفی ہیں، یہی تین جماعتیں برحق ہیں، ان کے علاوہ سب گمراہ ہیں۔
اور فقہ میں چار جماعتیں برحق ہیں: حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی: پس جب دونوں طرف سے حق پرجمع ہونگے تو مکمل برحق ہوں گے، عقائد میں اشعری ، ماتریدی یا سلفی ہوں، اور فقہ میں حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی ہوں تو وہ مکمل طور پر برحق ہیں، اور اگر ایک سلسلہ سے برحق ہے اور دوسرے سلسلہ سے گمراہ تو وہ کریلا نیم چڑھا ہے۔ مثلاً: عقائد میں تینوں میں سے کچھ نہیں اور فقہ میں چار میں سے ایک ہے، جیسے علامہ جار اللہ زمخشری عقائد میں معتزلی تھے، اور فقہ میں حنفی، پس وہ کریلا نیم چڑھاتھے، اسی طرح ہندوستان کے وہ سلفی( غیر مقلد) جو سعودیہ میں پیٹرول نکلنے سے پہلے اشعری تھے اور فقہ میں ظاہری تھے: وہ برحق نہیں ، وہ بھی کریلا نیم چڑھا ہیں۔
No comments:
Post a Comment