Saturday, 18 January 2020

کیا تقلید چوتھی صدی کی ایجاد ہے

🌳 ایک دفعہ کا ذکر ہے کے مسلمانوں کے سخت ترین علمی ،اخلاقی ،مادی زوال میں ایک شخص پیدا ہوے ،جن کا نام رکھا گیا ،
"محمد جونا گڑھی"
بڑے ہوکر وہ بنے مولانا محمد جونا گڑھی صاحب ،
🍃جب وہ مولوی بن گئے پھر کیا ہوا ¿؟
🌳الہام
🍃 ھیییں الہام ؟؟؟
🌳 ہاں  الہام !
 ایک دن انکو الہام ہوا کہ
چوتھی صدی سے قبل خیرون القرون میں ائمہ کرامؒ کی  تقلید کا ثبوت نہیں ،اس لئے یہ چوتھی صدی کے بعد کی بدعت ہے۔
اس الہام کا کارن انہوں نے اپنے اندھے مقلدین کو پتہ ہے کیا بتایا ؟؟
🍃کیا ،،،،،، کیا بتایا ¿؟؟
🌳 👈 قول امام الہند شاہ ولی اللہ صاحبؒ ،
 بقول ان کے امام الہند شاہ ولی اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:۔
اءلم الناس کا نوا قبل المائۃ الرابعۃ غیر مجتمعین علٰی التقلید الخالص لمذھب واحدِ ِبعینھ
“تم جان لو کہ بلا شبہُ لوگ چوتھی صدی سے پہلے کسی ایک معین مذہب کی تقلید خالص پر مجتمع اور متفق نہ تھے۔”
(حجۃ اللہ البالغہ ج 1ص122)
چنانچہ مولانا محمد جونا گڑھی حضرت شاہ صاحبؒ کی اس عبارت کو نقل کرکے اپنا الہام فرماتے ہیں کہ۔
“اس سے صاف ظاہر ہے کہ چاروں مذہب  مالکی،حنفی،حنبلی اور شافعی چار سو برس بعد کے مسلمانوں میں پھیلے چار سو برس تک کے مسلمان اُن سے دُور تھے الخ بلفظہٖ ” (طریق محمدی ص6)
🍃 تو اس الہام کے ساتھ کہانی ختم ،،،،،
🌳 نہیں ،،، کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ کہانی آگے چلتی  ہے ۔اور اس کہانی کو چلانے والے ہیں ،مولانا محمد جونا گڑھی صاحب کے اندھے مقلدین ،
 اندھے مقلدین کے گلوں میں ڈالا گیا خصوصی ڈھول ،
اور اس ڈھول پر چھاپ ،دخا دخ  دخا دخ دخا دخ
تقلید چوتھی صدی کے بعد کی بدعت ، تقلید چوتھی صدی ،،،____،،،، کے بعد کی بدعت ،تقلید ،،،،۔۔۔۔۔۔،،

۔.............................  Twist in the story........................
.......................... کہانی میں موڑ ..............................

ایک اور مولوی صاحب کی انٹری کی وجہ سے ،

پتہ ہے وہ مولوی صاحب کون ہے ؟??؟
🍃 نہیں
🌳چلو میں ہی بتا دیتا ہو ،
نواب صدیق حسن خاں صاحب ۔
👈۲۲۸ھ میں جب خلیفہ واثق باللہ العباسی ؒ نے سد سکندری کاحال دریافت کرنے کے لیے کچھ لوگ بھیجے تو انہوں نے وہاں کے لوگوں کو حنفی المذہب پایا, چنانچہ نواب صدیق حسن خاں صاحب بحوالہ مسالک الممالک لکھتے ہیں کہ
محافظان سد کہ وراں جا بو ومذہمہ دین اسلام واشتند و مذہب حنفی و زبان عربی و فارسی میگفتند اما از سلطنت عباسیہ بے خبر بو وند
“سد سکندری کے محافظ ( باشندے) بھی مسلمان اور حنفی المذہب تھے اور عربی و فارسی زبان بولتے تھے مگر سلطنت عباسیہ سے بے خبر تھے”۔
(ریاض المرتاض ص316 بحوالہ خیرالتنقید ص23)
اگر چوتھی صدی سے قبل تقلید شخصی کا وجود نہ تھا تو شمالی علاقہ میں سد سکندری کے پاس لینے والے یہ حنفی المسلک کہاں سے آگئے تھے ؟ اور بڑی حیرانی کی بات ہے کہ اُس دور میں تمام اسلامی علاقوں میں ایک ہی خلیفہ ہوتا تھا۔ جو اس وقت عباسی تھا اور سد سکندری کے پاس رہنے والے لوگ اسلام اور مذہب حنفی کے تو دلدادہ تھے لیکن سلطنت عباسیہ سے شناسا نہ تھے۔

🍃🍃🍃 تو کون سچا پہلا مولوی یا دوسرا ؟؟

🌳 خود فیصلہ کریں کہ چوتھی صدی سے قبل تقلید تھی یا نہ اور یہ غلط رائے کرنے میں قصور کس کا ہے؟
نواب صاحب ؒ انصاف کے حوالہ سے رقطراز ہیں کہ:۔
فشا ابن شریحؒ فَاسَّ قواعد التقلید (الٰی ان قال)، ولذالک یعد من المجددّین علٰی رأس الماتین
“امام ابن شریحؒ نے ہمت کی اور قواعد تقلید کی بنیاد ریکھی (پھر فرمایا کہ) اسی لیے دوسری صدی کے مُجددین میں شمار ہوتے ہیں”۔
(الجنۃ ص39)
اگر چوتھی صدی سے پہلے تقلید نہ تھی تودوسری صدی کے مجدد کو قواعد اور ضوابط تقلید مرتب کرنے کی کیا مصیبت پڑی تھی؟ اور پھر وہ یہ کاروائی کرنے کی وجہ سے مجدد کیسے بن گئےَ جب کہ تقلید ہی ہے ناروا ۔ کیا شرک اور بدعت اور ناروا کام کرنے والا بھی اسلام میں مجدد کہلا سکتا ہے؟ شاید کہ ؏
،،،،،،،،،،،،،رکھ لیا ہے نام اس کا آسماں تحریر میں،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

🍃کیا 👈قول امام الہند شاہ ولی اللہ صاحبؒ ، سے مولوی صاحب کو غلط الہام ہوا ؟؟؟
🌳جی ،
🍃وہ کیسے ؟؟؟

🌳وہ ایسے کہ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ چوتھی صدی سے قبل نہ صرف یہ کہ تقلید ہوتی تھی بلکہ بکثریت رائج تھی لہذا حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کی حجۃ اللہ البالغہ کی عبارت کو چوتھی صدی سے قبل تقلید کی نفی کے سلسلہ میں پیش کرنا قطعاً غلط اور سراسر باطل ہے۔ اور خود ان کی اپنی عبارت کے خلاف ہے ۔
 چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ:۔
وبعد الماتین ظھر فیھم المذھب للمجتھدین باعیانھم وقَلَّ من کان لا یعتمد علٰی مذھب مجتھد بعینہ وکان ھذا ھو الواجب فی ذالک الزمان
(انصاف مع ترجمہ اردو کشاف ص59)
حضرت شاہ صاحبؒ کی اس عبارت میں یہ امُور بالکل واضع ہیں۔
(۱)۔ دوسری صدی کے بعد معین مذہب کی تقلید (شخصی) رائج ہو چکی تھی۔
(۲)۔ اُس دور میں ایسے آدمی بہت ہی کم تھے جو معین فقہی مذہب پر اعتماد نہ کرتے ہوں۔
(۳)۔ اور یہ معین اور شخصی تقلید اس وقت نہ صرف یہ کہ رائج اور چالو ہی تھی بلکہ واجب بھی تھی۔

پھر تو حجۃ اللہ البالغہ سے مولوی صاحب کا الہام لینا،ایک بہت بڑے فقیہ محدث اور متکلم کے کلام میں کھُلا تعارض اور تضاد ثابت کرتا ہے ،اور یہ ڈر بھی ہے کہ مولوی صاحب کے اندھے مقلدین کہیں حضرت شاہ صاحبؒ ہی پر نہ برس پڑے کہ تقلید شخصی کو واجب کہہ کر ( معاذ اللہ تعالٰی) وہ بھی مشرکین کے زمرہ میں شامل ہو گئے ہیں ۔

مگر حجۃ اللہ البالغہ کی عبارت کا مطلب ؟؟؟
حجۃ اللہ البالغہ کی عبارت پر غور کرنا ،مولوی صاحب کے الہام کو چھاپنے سے بہت بہتر ہے ۔

حضرت شاہد صاحبؒ کی عبارت میں تین جملے قابل غور ہیں (۱)۔ غیر مجتمعین (۲)۔ تقلید خالص (۳)۔ مذہب واحد بعینہ اور اس کے ساتھ مزید یہ کڑی بھی ملا لیں کہ حضرت شاہ صاحبؒ ہی فرماتے ہیں کہ:۔
واعلم ان الناس کا نوافی الماتہ الا ولٰی والثانیۃ غیرمجتمعین علٰی التقلید لمذھب واحدِِ بعینہ
“ تم جان لو کہ لوگ پہلی اور دوسری صدی میں کسی معین مذہب کی تقلید پر مجتمع نہ تھے”۔
(انصاف ص57)
اس عبارت میں پہلی اور دوسری صدی کا صراحتاً ذکر ہے اور اس کا ذکر بھی ہے کہ ان صدیوں میں مذہب خاص کی تقلید پر اجتماعیت نہ تھی یعنی گو تقلید ہوتی تھی لیکن متفرق تھی اور متعدد حضرات ائمہ کرامؒ کی ہوتی تھی اور اس وقت ان میں علمی قابلیت بھی عروج پر تھی اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے کہ وہ تقلید بھی کرتےتھے اور خود بھی مسائل کو دلائل سے اخذ کرنے کی استطاعت رکھتے تھے اور بعد کے لوگوں میں علمی کمزوری پیدا ہو گئی اور تقلید خالص زوروں پر ہو گئی اور تقلید کا عالم رحجان ہو گیا یہ نہیں کہ پہلے تقلید نہ تھی۔ چنانچہ مشہور غیرمقلد عالم مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی لکھتے ہیں کہ۔ چوتھی صدی کے بعد تقلید کا رحجان عام ہو گیا ائمہ کرامؒ کی علمی اور اجتہادی کوششیں اپنے حلقوں میں محدود ہو کر رہ گئیں الخ (پیش لفظ معیار الحق ص7)
مطلب بالکل واضع ہے کہ چوتھی صدی سے قبل پہلی اور دوسری صدی میں بھی فی الجملہ تقلید رائج تھی۔ لیکن تقلید خاص کا رحجان اور اجتماعیت نہ تھی کیف من التفق کوئی کسی امام کی تقلید کرتا اور کوئی کسی کی اور کوئی نہ بھی کرتا۔ اور چوتھی صدی سے قبل حضرات ائمہ اربعہؒ کے علاوہ اور حضرات ائمہ کرام کی تقلید بھی ہوتی رہی لیکن بعد کو ان کی تقلید متروک ہو گئی اور اکثریت کا اتفاق حضرت ائمہ اربعہؒ کی تقلید پر ہو گیا اور انہیں کی تقلید قابل اعتبار ہوئی الحاصل کُتب اسماء الرجال کے صریح اور محکم حوالوں (انشاء اللہ‎ بعد میں اس پر بھی پوسٹ کرو گا)کی روشنی میں اور خود حضرت  شاہ صاحبؒ کی انصاف کی عبارت کی روشنی میں حجۃ اللہ البالغہ کی عبارت کا مطلب واضع ہے کہ چوتھی صدی سے قبل بھی تقلید تھی مگر اس میں اجتماعیت نہ تھی حضرات ائمہ اربعہؒ کے علاوہ اور حضرات ائمہ کرام ؒ کی تقلید بھی باقاعدہ ہوتی تھی اور تقلید بکھری ہوئی تھی اور چوتھی صدی کے بعد تشتّت رفع ہو گیا اور اجتمارعیّت پیدا  ہو گئی اور تاریخی ٹھوس حوالے اس کا وضع ثبوت ہے ؎

🎯نتیجہ :- 🎯خود ہی کمنٹس میں لکھ دے ۔ شکریہ🎯

No comments:

Post a Comment