...........................سوال29:کیا صوفیائے کرام کی کتابوں میں قرآن و سنت کے خلاف اقوال موجود ہیں؟
یہ بالکل بے بنیاد الزام ہے۔بڑے بڑےصوفیائے کرام کی کتابیں اُٹھا کر دیکھ لیں وہ صرف قرآن پاک، سنت نبوی ﷺ اور اِجماعِ اُمت پر عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور ایمان و تقویٰ کے اعلیٰ ترین درجات کو حاصل کرنےکی ترغیب دیتے ہیں۔البتہ اگر کسی جگہ پر اُن کی تحریروں یا تقریروں میں بظاہر کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف نظر آئے تو بدگمان ہونے کی بجائے دیگر علمائے کرام اور صوفیائے کرام سےرہنمائی حاصل کرنی چاہیئے اور چند عبارات کی بنیاد پر بزرگانِ دین پر گمراہی کے فتوے نہیں لگانے چاہیئے۔البتہ اگر کسی نام نہاد صوفی کی اپنی زندگی شریعت کے خلاف گذری ہو اوراُس کے اقوال و افعال قرآن و سنت کے خلاف نظر آئیں تو صوفیاء اور علماء کو چاہیئے کہ کھل کر اُس کی تردید کریں ۔
اس معاملے میں اب تک علمائے کرام کا یہی طریقہ کارچلا آرہا ہے کہ وہ باعمل صوفیائے کرام سے منسوب قابل اعتراض ارشادات اور کشف و کرامات کو فورا ً رَد نہیں کرتے بلکہ اگر ممکن ہو تو اُن کی مناسب تاویل کرتے ہیں البتہ کوئی بات واضح طور پر شریعت کی تعلیمات کے خلاف ہو تو اُن کے احترام اور ادب کالحاظ رکھتے ہوئے ، اُن سے منسوب قابل اعتراض ارشادات کی کھل کر تردید فرماتے ہیں اور شریعت کےصحیح احکامات لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
تمام علماء ،فقہاء اور صوفیائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ دین اسلام پر عمل کرنے کے لئے اصل سرچشمہ قرآن پاک،سنت نبوی اور اُمت کا اِجماع (امت کا متفقہ فیصلہ)ہے، صوفیائے کرام کے کشف و کرامات نہیں ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات صوفیا ئے کرام کے مضامین بالکل درست ہوتے ہیں لیکن پڑھنے والے کی سمجھ نہیں آتے اور الزام صوفیائے کرام پر لگا لیتے ہیں۔
صوفیائے کرام کی پیچیدہ عبارات اور راہِ اعتدال
ہر علم و فن کے انداز ِ بیان اوراِصطلاحات کے مخصوصماہرین ہوتے ہیں۔جو شخص کسی علم و فن کا ماہر اور تجربہ کار نہ ہو تو بعض اوقات غیر متعلقہ فَن کی کتابیں پڑھ کر غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔دنیاوی اور دینی علوم دونوں میں یہ اصول کار فرما ہے۔اِن میں سب سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ مضامین اُن کتابوں میں ملتے ہیں جو تصوف اور اُس کے فلسفے پر لکھی گئی ہیں،کیونکہ ان کا تعلق عقائد اور ظاہری اعمال کی بجائے اُن باطنی تجربات اور کیفیا ت سے ہوتا ہے جو صوفیائے کرام پر بعض اوقات طاری ہوتے ہیں اور بعض اوقات اُن کیفیات کو عام فہم اور مشہور الفاظ کے ذریعہ بیان کرنا دشوار ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علماء اور فقہاء نے کبھی بھی دین کے بنیادی عقائد، مسائل اور عملی احکامات کے لئے تصوف کی کتابوں کو سرچشمہ قرار نہیں دیا بلکہ ہمیشہ قرآن، سنت اور اجماع ہی کی پیروی کو لازم قرار دیا ہے۔عقائد کے مسائل ،عقائد کی کتابوں سے سمجھے جاتے ہیں اورعبادات،معاملات اور معاشرت کے احکامات فِقہ کی کتابوں سے سمجھے جاتے ہیں ،خود صوفیائے کرام ان معاملات میں اِنہی علوم کی کتابوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
صوفیائے کرام نے خود بھی اس بات کی وضاحت کی ہوتی ہے کہ جو شخص تصوف کے اِن باطنی کیفیات سے نہ گذرا ہو اُس کے لئے صوفیائے کرام کی کتابوں کا دیکھنا جائز نہیں کیونکہ بعض اوقات ان کتابوں میں ایسی باتیں نظر آتی ہیں کہ جو مفہوم بظاہر سمجھ میں آرہا ہوتا ہے وہ بالکل عقل یا شریعت کے خلاف ہوتا ہے لیکن لکھنے والے کی مُراد کچھ اور ہوتی ہے، صوفیائے کرام کی اس قسم کی عبارات کو ’’شَطحِیات‘‘ کہا جاتا ہے۔
تمام علماء اور فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ دین کے کسی بنیادی عقیدے یا مسائل کے لئے تصوف کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا غلط ہے اور اس کا نتیجہ بعض اوقات گمراہی کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔اِس اصول کو خود بڑے بڑے صوفیائے کرام نے بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ جو فَنِ تصوف کے اِمام سمجھے جاتے ہیں،بعض صوفیائے کرام کی چند ایسی ہی خلافِ شریعت باتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ یہ باتیں خواہ شیخ کبیر یمنی نے کہی ہوں یا شیخ اکبر شامی نے ، ہمیں محمد عربی ﷺ کا کلام چاہیئے نہ کہ محی الدین ابن عربی ، صدر الدین قونیوی اور عبدالرزاق کاشی کا کلام۔ ہمیں نَص(یعنی قرآن و سنت) سے غرض ہے نہ کہ فَص سے ( یہ ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم کی طرف اشارہ ہے) ۔فتوحات مدنیہ نے ہمیں فتوحات مکیہ(صوفیاء کی ایک کتاب کا نام ہے) سے مستغنی(بے نیاز) کر دیا ہے۔‘‘
( مکتوبات شریف حصہ اول دفتر اول مکتوب نمبر ۱۰)
No comments:
Post a Comment