...................سوال30:وَحدۃ الوجود کے نظریہ سے کیا مُراد ہے؟ اور کیا صوفیائے کرام وَحدۃ الوجود کا نظریہ رکھتے ہیں؟
”وَحدَت الوجود“چند صوفیائے کرام کو درپیش آنے والے کشفی حالات میں سے ایک حال ہے ۔بعض صوفیوں نے اس کا وہ مفہوم مشہور کر دیا جس کی سرحدیں کفر تک جا ملتی ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر دور میں علمائے کرام اور صوفیائے کرام نے تصوف کے شعبے میں پیدا ہونے والی اِس قسم کی گمراہیوں کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں بر تی۔
وَحدَت الوجود کا درست مفہوم نیچے دَرج کیا جارہا ہے؛
وَحدَت الوجود کا لفظی معنیٰ ہے ” وجود کا ایک ہونا“۔ اور ”ایک“ ہونے کے معنی یہ ہر گز نہیں ہیں کہ خالق اور مخلوق ایک ہی ہیں (اور اِن میں کوئی فرق نہیں) یا یہ کہ (نعوذُ باللہ) اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں میں حلول(داخل ہوجانا) فرمایا ہے یا یہ کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ متّحد(مِلی ہوئی) ہیں ۔ یہ تمام نظریات توتمام علماء اور محقق صوفیائے کرام کے مطابق واضح طور پرکفر یہ ہیں۔
وَحدَت الوجود کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر چہ دوسری مخلوقات موجود ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کے سامنےاُن کا وجود اتنا ناقص اور نامکمل ہے گویا کہ دوسری مخلوقات موجود ہیں ہی نہیں، اِسی کو مبالغۃً ”وَحدَۃُ الوَجود“یا ” ہَمہ اوست“ کہا گیا ہے ۔
شَیخُ الاِسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں؛
”وَحدَت الوجود کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود صرف ذات ِ باری تعالیٰ کا ہے،اس کے سوا ہر وجود بے ثبات ،فانی اور نامکمل ہے۔ایک تو اس لئے کہ وہ ایک نہ ایک دن فنا ہو جائے گا،دوسرے اس لئے کہ ہر شئے اپنے وجود میں ذاتِ باری تعالیٰ کی محتاج ہے،لہٰذا جتنی اشیاء ہمیں اس کائنات میں نظر آتی ہیں ،اُنہیں اگر چہ وجود حاصل ہے لیکن اللہ کے وجود کے سامنے اُس وجود کی کوئی حقیقت نہیں ، اس لئے وہ کالعَدَم ہے ( یعنی نہ ہونے کی طرح ہے)۔
اس کی نظیر (مثال) یوں سمجھئے جیسے دن کے وقت آسمان پر سورج کے موجود ہونے کی وجہ سے ستارے نظر نہیں آتے،وہ اگر چہ موجود ہیں،لیکن سورج کا وجود اُن پر اس طرح غالب ہو جاتا ہے کہ اُن کا وجود نظر نہیں آتا۔اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے حقیقت شناس نگاہ دی ہو وہ جب اِس کا ئنات میں اللہ تعالیٰ کے وجود کی معرفت حاصل کرتا ہے تو تمام وجود اُسے ہیچ، ماند بلکہ کالعدم نظر آتے ہیں۔
وحدت الوجود کا یہ مطلب صاف، واضح اور درست ہے ،اس سے آگے اِس کی جو فلسفیانہ تعبیرات کی گئی ہیں،وہ بڑی خطرناک ہیں اور اگر اُس میں غلو ( اعتدال سے تجاوز ) ہو جائے تو اِس عقیدے کی سرحدیں کفر تک جا ملتی ہیں۔اس لئے ایک مسلمان کو بس سیدھا سادا یہ عقیدہ رکھنا چاہیئے کہ کائنات میںحقیقی اور مکمل وجود اللہ تعالیٰ کا ہے ، باقی ہر وجود نامکمل اور فانی ہے۔
( فتاویٰ عثمانی ج 1 صفحہ 66)
اس کو ایک دوسری مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے کوئی شخص بادشاہ کے دربار میں کوئی درخواست پیش کرے اور بادشاہ اُسے چھوٹے حکام کی طرف رجوع کا مشورہ دےاور یہ شخص جواب میں کہے کہ حضور آپ ہی سب کچھ ہیں تو اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ حکام اور بادشاہ دونوں ایک ہی ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ سب حکام آپ کے سامنے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
No comments:
Post a Comment