Friday, 28 February 2020

نظریہ وحدت الوجود پر تحریری مناظرہ

تحریری مناظرہ پارٹ 7
#Ayesha_Malik
نامی انٹی جی  کا جھوٹ نمبر 7
پچھلے 6 جھوٹ آپ نے ملہذا کیے جس کی لنک یہ رہی
https://www.facebook.com/577458639281781/posts/1077726085921698/
اس پر ہم یہی کہے گے
لعنت اللہ الکاذبین
انٹی جی  نے حضرت امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت کونقل کرکے قاری کو مغالطہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے اس عبارت کا تعلق وحدۃ الوجود سے ہے اور مسئلہ وحدۃ الوجودایک دقیق اور غامض مسئلہ ہے اور اس کے وہ معنی جو حضرت امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت سے انٹی جی  نے لیے ہیں کہ خالق اور مخلوق دونوں ایک ہیں اوردونوں میں کوئی فرق نہیں یہ معنی مراد لینا ایک مغالطہ ہے۔ انٹی جی  اگر آپ حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی اس عبارت کوبنیاد بنا کر ان کوگمراہ ثابت کرنے کی کوشس کی رہے ہیں تو پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ اس عقیدے کے بارے میں آپ کے اکابر کی کیا رائے ہے عبارت ملاحظہ فرمائیں۔

#دعوی_الوہیت_وتصرف_اور_غیر_مقلدین:
غیر مقلدین کے رئیس نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:
شیخ عارف محی الدین ابن عربی صاحب فتوحات مکیہ نے ابن حزم کی تعریف کی ہے اور دوسو تینتیس باب میں ص674پر کہا ہے یہ وصال کی انتہاء ہوتی ہے کہ چیز اس چیز کاعین بن جائے جو ظاہر ہے اور معلوم نہ ہو کہ وہی چیز ہے (ایک چیز دوسری چیز میں اس طرح ظاہر ہوکہ پہلی چیز کابالکل پتہ نہ چلے )جیساکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ ابن حزم سے معانقہ فرمارہے ہیں اس طرح ایک جسم دوسر ے میں بالکل غائب ہے، نظر ایک ہی آرہا ہے اور وہ رسول ﷺ ہیں ان کی طرف سے آپﷺ ہی اس اتحاد اور وحدت کو ظاہر کررہے ہیں یعنی دو کا ایک ہونا اور وجود میں کسی امر زائد کا نہ ہونا اسی کو اتحاد سے تعبیرکیاجاتا ہے۔
التاج المکلل ص90
توہم واشیاء بلیل
فہم یسعی بیننا بالتباعد
فعانقۃ حتیٰ اتحدنا تعانقا
فلما اتانا ما رای غیر واحد


یعنی رات کے وقت رقیب نے ہمارے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کی تو میں نے اپنے محبوب کے ساتھ اس طرح معانقہ کیا کہ ہم بالکل ایک ہوگئے جب رقیب آیا تو اسے ایک کے علاوہ دوسرانظر نہیں آیا۔ اسی مضمون کاایک فارسی شعر نقل کرنے کے بعدنواب صاحب موصوف فرماتے ہیں اور عجب نہیں یہی لوگ (اہل حدیث) محبت اور اتحاد والے بلکہ حق وانصاف کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ وحدت مطلقہ کے مالک ہیں۔
علامہ وحید الزمان کی رائے:
علامہ وحید الزمان اپنی کتا ب میں لکھتے ہیں:
فرقہ صوفیہ وجودیہ جس میں شیخ ابن عربی ہیں یہ لوگ حلول اور خالص اتحاد کے قائل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کوعرش پر تمام مخلوق سے الگ ثابت کرتے ہیں ، یہ لوگ کہتے ہیں حق تعالیٰ من وجہ عین مخلوق ہیں یعنی وجود کی جہت سے اس لیے کہ وجود صرف ایک ہے اور وہ حق تعالیٰ کاوجود ہے۔
حاشیہ[ (آگےاس عبارت پر حاشیہ لگا کر لکھا ہے
اسی لیے شیخ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ تمام آسمان اور زمینوں کانور ہے۔ اللہ تعالیٰ بذات خود عرش پر ہے۔ اور اسی کانور یعنی اس سے پھیلنے والا وجود تمام آسمانوں اور زمینوں کوشامل ہے پس تمام اشیاء اسی کے وجود سے موجود ہیں اور فصوص الحکم میں جو یہ کہا گیا ہے۔ الحمدللہ الذی خلق الاشیاء وھو عینا۔
تو اس کے معنی ہیں کہ حق تعالیٰ کا وجود ہے نہ یہ کہ مخلوقات کادوسرا وجود ہے جیسا کہ متکلمین کا خیال ہے، شیخ نے ’’فتوحات‘‘ ص12 میں اس کی تصریح کی ہے۔ باقی تمام اشیاء اس ایک وجو د کی وجہ سے موجود ہیں ، ان کاکوئی مستقل وجود نہیں ہے جیسا کہ متکلمین کہتے ہیں کہ یہاں دووجود ہیں ایک وجودواجب اور دوسرا وجود ممکن۔ اور حق تعالیٰ غیر مخلوق ہے من وجہ یعنی ماہیت اور ذات کی جہت سے اس لیے کہ ممکن کی ذات اور اس کی ماہیت واجب کی ذات اور اس کی ماہیت سے متغایر ہے اور اس قول کے ذریعے سے عام لوگوں کے ذہن میں جو بات ہے کہ خالق اور مخلوق کے درمیان معمار اور عمارت کی نسبت ہے اس مفہوم سے وہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ بدیہی البطلان ہے کیونکہ حدوث عالم سے قبل حق تعالیٰ کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں تھا تو اب یہ اشیا کہاں سے وجود میں آئیں حضور اکرمﷺ نے ارشادفرمایا کان ﷲ ولم یکن معہ شیئ اللہ تعالیٰ (کائنات کی خلقت سے قبل) تھااور اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ تھی۔
علامہ ابن اتیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے ابن عربی پر بڑا سخت رد کیا ہے، حافظ اور تفتازانی نے ان اتباع کی ہے۔ لیکن میر ے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات شیخ ابن عربی رحمہ اللہ تعالی کا مطلب نہیں سمجھے ان کی مرادسمجھنے میں انہوں نے غور نہیں کیا ’’فصوص ‘‘ میں شیخ کے ظاہری الفاظ ان کو نامانوس لگے اگر یہ حضرات ’’فتوحات ‘‘ میں غور کرتے تو جان لیتے کہ اصول اور فروع دونوں کے اعتبار سے شیخ اہل حدیث ہیں اور ارباب تقلید پر بڑا سخت رد کرنے والوں میں سے ہیں۔
ہدیۃ المہدی ص50، 51
انٹی جی  جو جواب آ پ کانواب صدیق حسن خان اور علامہ وحید الزمان کی رائے کے بارے میں ہوگا وہی جواب ہمارا حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی رائے کے بارے میں ہوگا۔
وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے بارے میں ہماری کتب کا مطالعہ کریں اور اس کا صحیح مفہوم ہمارے علماء سے سمجھیں۔

 ۔
اس معاملے میں اب تک علمائے کرام کا یہی  طریقہ کارچلا آرہا ہے کہ وہ باعمل صوفیائے کرام سے منسوب قابل اعتراض ارشادات اور کشف و کرامات کو فورا ً رَد نہیں کرتے بلکہ اگر ممکن ہو تو اُن کی مناسب تاویل کرتے ہیں البتہ کوئی بات واضح طور پر شریعت کی تعلیمات کے خلاف ہو تو اُن  کے احترام اور ادب کالحاظ رکھتے ہوئے ، اُن سے منسوب  قابل اعتراض ارشادات کی کھل کر تردید فرماتے ہیں اور شریعت کےصحیح احکامات لوگوں کے سامنے  پیش کرتے ہیں۔
         تمام علماء ،فقہاء اور صوفیائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ  دین اسلام پر عمل کرنے کے لئے اصل سرچشمہ قرآن پاک،سنت نبوی اور اُمت کا اِجماع (امت کا متفقہ فیصلہ)ہے، صوفیائے کرام کے کشف و کرامات نہیں ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے  کہ بعض اوقات صوفیا ئے کرام کے مضامین بالکل درست ہوتے ہیں لیکن پڑھنے والے کی سمجھ نہیں آتے اور الزام صوفیائے کرام پر لگا لیتے  ہیں۔
صوفیائے کرام کی پیچیدہ عبارات اور راہِ اعتدال
ہر علم و فن کے انداز ِ بیان اوراِصطلاحات  کے مخصوصماہرین ہوتے ہیں۔جو شخص  کسی علم و فن کا ماہر اور تجربہ کار نہ ہو تو بعض اوقات غیر متعلقہ فَن کی کتابیں پڑھ کر غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔دنیاوی اور دینی علوم دونوں میں یہ اصول کار فرما ہے۔اِن میں سب سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ مضامین اُن کتابوں میں ملتے ہیں جو تصوف اور اُس کے فلسفے پر لکھی گئی ہیں،کیونکہ ان کا تعلق عقائد اور ظاہری اعمال کی بجائے اُن باطنی تجربات اور کیفیا ت سے ہوتا ہے جو صوفیائے کرام پر بعض اوقات طاری ہوتے ہیں اور بعض اوقات اُن کیفیات کو عام فہم اور مشہور الفاظ کے ذریعہ بیان کرنا دشوار ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علماء اور فقہاء نے کبھی بھی دین کے بنیادی عقائد، مسائل اور عملی احکامات کے لئے تصوف کی کتابوں کو سرچشمہ قرار نہیں دیا بلکہ ہمیشہ قرآن، سنت اور اجماع ہی کی پیروی کو لازم قرار دیا ہے۔عقائد کے مسائل ،عقائد کی کتابوں سے سمجھے جاتے ہیں اورعبادات،معاملات اور معاشرت کے احکامات  فِقہ کی کتابوں سے سمجھے جاتے ہیں ،خود صوفیائے کرام ان معاملات میں اِنہی علوم کی کتابوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
صوفیائے کرام نے خود بھی اس بات کی وضاحت کی ہوتی ہے کہ جو شخص تصوف کے اِن باطنی کیفیات سے نہ گذرا ہو اُس کے لئے صوفیائے کرام کی کتابوں کا دیکھنا جائز نہیں کیونکہ بعض اوقات ان کتابوں میں ایسی باتیں نظر آتی ہیں کہ جو مفہوم بظاہر سمجھ میں آرہا ہوتا ہے وہ بالکل عقل یا شریعت کے خلاف ہوتا ہے لیکن لکھنے والے کی مُراد کچھ اور ہوتی ہے، صوفیائے کرام کی اس قسم کی عبارات کو ’’شَطحِیات‘‘ کہا جاتا ہے۔
تمام علماء اور فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ دین کے کسی بنیادی عقیدے یا مسائل کے لئے تصوف کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا غلط ہے اور اس کا نتیجہ بعض اوقات   گمراہی کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔اِس اصول کو خود بڑے بڑے صوفیائے کرام نے بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ جو فَنِ تصوف کے اِمام سمجھے جاتے ہیں،بعض صوفیائے کرام کی چند ایسی ہی خلافِ شریعت باتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ یہ باتیں خواہ شیخ کبیر یمنی نے کہی ہوں یا شیخ اکبر شامی نے ، ہمیں محمد عربی ﷺ  کا کلام چاہیئے نہ کہ محی الدین ابن عربی ، صدر الدین قونیوی اور عبدالرزاق کاشی کا کلام۔ ہمیں نَص(یعنی قرآن و سنت) سے غرض ہے نہ کہ فَص سے ( یہ ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم کی طرف اشارہ ہے) ۔فتوحات مدنیہ نے ہمیں فتوحات مکیہ(صوفیاء کی ایک کتاب کا نام ہے) سے مستغنی(بے نیاز) کر دیا ہے۔‘‘
  ( مکتوبات شریف حصہ اول دفتر اول مکتوب نمبر ۱۰)
جواب
یہ عبارت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی کتاب" ضیاء القلوب" میں مذکور ہے، جو بنیادی طور پر تصوف وسلوک کے اشغال واوراد اور احوال و مدارج کے بیان پر مشتمل ہے، دراصل صوفیا کے ہاں باطنی ترقی کے مختلف ادوار میں کئی انواع کی کیفیات کا ظہور ہوتا ہے، جن کو "مقامات" سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، اس نوع کی ایک کیفیت کی طرف ایک حدیثِ قدسی میں بھی اشارہ ہے کہ بندہ کثرتِ عبادت کی بنا پر ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: "میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھے" الخ واضح بات ہے کہ اس حدیث کا ظاہری معنی کسی کے ہاں بھی مراد نہیں، بلکہ بندے کی مرضی کا اللہ تعالی کی رضا میں فنا ہوجانا ہی مراد ہوسکتا ہے، صوفیا کے ہاں اسی طرح کے ایک حال کو "وحدت الوجود" سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس پر قدیم زمانے سے علمی حلقوں میں بحثیں چھڑی چلی آرہی ہیں،اور پیشِِ نظر عبارت بھی اسی دقیق مسئلے سے متعلق ہے۔اس طرح کی عبارات کے متعلق ایک عامی کے لئے بہتر طرزِ عمل یہ ہے کہ بزرگوں سے بد گمانی پالنے کی بجائے خود کو عقلی نابالغ سمجھ کر ان کی دنیا کی باتوں کو انہی کے سپرد کرکے دماغ کو فارغ کر لیا جائے، تلک امۃ قد خلت لھا ماکسبت وعلیھا ما اکتسبت ولا تسالون عما کانوا یعملون۔مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں: حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے افادات پر مشتمل کتاب "شریعت وطریقت" مرتبہ مولانا محمد دین چشتی ۔ واللہ اعلم

No comments:

Post a Comment