Tuesday, 17 March 2020

حدیث اور سنت میں فرق

difference between Hadees and Sunnat, Molana Ameen Safdar Okarvi

حدیث اور سنت میں فرق، مولانا امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ تعالی
اعداد: احناف میڈیا سروس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع اللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہربان اور نہا یت رحم کرنے والا ہے ۔
الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی ۔ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اھدنا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیھم ۔ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین۔ وقال رسول اللہ 
 علیکم بسنتی و سنة الخلفاءالراشدین المھدیین۔ صدق اللہ مولنا العظیم و بلغنا رسولہ النبی الکریم الامین۔ ونحن علی ذالک لمن الشاھدین والشاکرین والحمد للہ رب العالمین ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ اس نے اپنی پوری مخلوقات میں سے ہمیں انسان بنایا جو کہ اشرف المخلوقات ہے اور انسانوں میں سے اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں مسلمان بنایا کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں سچا دین صرف اور صرف اسلام ہے ۔ اور پھر مسلمانوں میں اہل سنت والجماعت بننے کی توفیق عطاء فرمائی ۔ جس طرح سارے دینوں میں سچا دین صرف اسلام ہے اسی طرح مسلمانوں میں سے نجات پانے والی جماعت کا نام اہل سنت والجماعت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں تاکیدیں فرمائیں کہ علیکم بسنتی میری سنت کو لازم پکڑنا اور فرمایا فمن رغب عن سنتی فلیس منی جو میری سنت سے منہ موڑ گیا وہ میرا کہلانے کا حقدار نہیں۔ من احب سنتی فقد احبنی جس نے میری سنت سے پیار کیا اس نے مجھ سے پیار کیا ومن احبنی کان معی فی الجنة اور جس نے مجھ سے پیار کیا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت پر عمل کرنے کی بہت تاکیدیں فرمائیں۔

حضرت آپ کی سنت کیا ہے ؟
ایک دن صحابہ کرام 
ؓ نے عرض کیا کہ حضرت آپ کی سنت کیا ہے ؟ فرمایا میری سنت یہ ہے کہ سینہ کینے سے پاک ہو ۔ ہمارے مسلک اہل السنت والجماعت میں جہاں اور ہزاروں خوبیاں ہیں ایک سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس مسلک کی بنیاد کسی کینے پر نہیں۔ آپ اردگرد نظر دوڑائیں تو کسی فرقے کی بنیاد ہی یہی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ سے کینہ رکھا جائے کسی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت سے کینہ ہو ۔ کسی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ فقہاءکرام کے خلاف کینہ ہو کسی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ محدثین کے خلاف کینہ ہو۔ عثمانی کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ اولیاءاللہ کے خلاف کینہ رکھا جائے ۔ کوئی علماءامت کے خلاف کینہ رکھتا ہے لیکن ایک مسلک اہل السنت والجماعت ہے جو دنیا میں محبت اور پیار کا پیغام دیتا ہے وہ یہی کہتا ہے ، ان کی دعا اور محنت یہی ہے کہ یا اللہ جس طرح ہمارا سینہ صحابہ کرام کی محبت سے پرنور ہے سب کے سینے کو صحابہ کی محبت سے پر نور کر دے ۔ یا اللہ جس طرح ہمارے دل اہل بیت کی محبت سے منور ہیں سب کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور اہل بیت کی محبت پیدا فرما دیجیئے ۔ یا اللہ جس طرح فقہاءو محدثین سے ہمیں محبت ہے ، یہ دو جماعتیں ہیں فقہاءاور محدثین جنہوں نے صحابہ ؓ کے بعد دین کی خدمت کی ہے ۔

محدث اور فقیہ میں فرق کی مثال:
کیا بات ہے ؟ کیا بات ہے (ڈانٹ کے ساتھ غصے کا اظہار کرتے ہوئے) ۔ کیا بات ہے ( تعریفی انداز میں) دیکھئے ایک فقرہ میں نے آپ کے سامنے تین دفعہ بولا ہے ۔ پہلے میرا لہجہ سوالیہ تھا تو سب نے پیچھے دیکھا پتہ نہیں کیا بات ہے ادھر ۔ دوسری بار میں نے صرف لہجہ بدلا ہے ایک نقطہ بھی کم و بیش نہیں کیا اور اور میں نے پورا غصہ اس میں بھر دیا ہے گویا میں کسی کو ڈانٹ رہا ہوں ۔تیسری مرتبہ میں نے یہی فقرہ بولا ہے صرف لہجہ بدلا ہے اور اسی فقرے میں محبت اور پیار بھر دیا ہے گویا میں کسی کی تعریف کر رہا ہوں کہ کیا بات ہے ۔ اب یہ میرا بولا ہوا فقرہ کاغذ پر لکھ کر کسی کے سامنے رکھ دیا جائے تو جس نے میرا لب و لہجہ نہیں دیکھا تو وہ کیا سمجھے گا کہ یہ پیار میں کہا ہے یا غصے میں کہا ہے یا سوالیہ لہجہ ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ ہمیں صرف الفاظ کی ضرورت نہیں ہے ۔ کس ماحول میں حضرت نے ارشاد فرمایا آپ کا لب و لہجہ کیا تھا اس کی بھی ضرورت ہے اسی لےے محدثین کون ہیں؟ الفاظ شناسِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فقہاء ہیں مزاج شناسِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ محدث کی رسائی زبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہے کہ حضرت فرمان کیا فرما رہے ہیں۔ اور فقہاءحضرت کی پیشانی سے سینکڑوں مسائل پڑھ جاتے ہیں۔ اسی لئے یہ دونوں جماعتیں دین کی خادم ہیں کہ ایک نے چھلکے کو محفوظ کیا ہے دوسرے نے مغز کو محفوظ کیا ہے اور اہل السنت والجماعت (الحمد للہ ) دونوں سے محبت رکھتے ہیں ۔ اولیاءاللہ سے محبت رکھتے ہیں ۔ تو ایک تو خوبی یہ ہوئی دنیا میں کہ اہل سنت والجماعت جو مسلک ہے یہ محبت اور پیار کا مسلک ہے ۔ صحابہ 
ؓ سے محبت رکھو، اہل بیت سے محبت رکھو، اولیاءاللہ سے محبت رکھو ، علماءامت سے پیار کرو، فقہاءسے محبت رکھو، محدثین سے محبت رکھو۔ یہ تو دنیا میں فائدہ ہے ۔ اور آخرت میں جب ان کی بات سنی جائے گی اللہ کی بارگاہ میں تو آج اگر حضرت تونسوی دامت برکاتہم العالیہ یہ گالیاں سن کر بھی فاروق اعظم ؓ کی شان بیان کرتے ہیں تو کیا قیامت کے دن فاروقِ اعظم ؓ جو ہیں وہ حضرت تونسوی کو بھول جائیں گے ؟ وہ سفارش کریں گے سنیوں کی ۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب دامت برکاتہم العالیہ سب کی گالیاں سن کر بھی اہل بیت کی شان بیان کرتے ہیں۔ تو کیا قیامت کے دن اہل بیت قاضی کو بھول جائیں گے ۔ قیامت میں فائدہ یہ ہو گا کہ صحابہ کہیں گے آﺅ ہم تمہاری سفارش کردیں اللہ کی بارگاہ میں ۔ اہل بیت بھی آوازیں دیں گے سنیو آﺅ ہم تمہاری سفارش کردیں اللہ کی بارگاہ میں ۔ محدثین بھی ہماری سفارش کریں گے الحمد للہ ۔ فقہاءبھی ہماری سفارش کریں گے ۔ اولیاءاللہ بھی ہماری سفارش کریں گے ۔ تو اس لئے یہ ایک ایسی بابرکت جماعت ہے جو دنیا میں بھی محبت اور پیار کا پیغام دیتی ہے ۔

سنت کسے کہتے ہیں ؟
آپ اپنے کاموں پر نظر دوڑائیں تو یقیناً آپ اپنے کاموں کو دو حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔ ایک وہ کام جو آپ عادتاً کرتے ہیں۔ اور ایک وہ کام جو کبھی ضرورتاً کرتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی کی عادت ہے کہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد ایک پارہ تلاوت کرتا ہے اس نے عادت بنالی ۔ اسی طرح ایک آدمی ہے وہ روازنہ اذان سے پہلے سیر کو نکل جاتا ہے پھر آکر جماعت سے نماز پڑھ لیتا ہے انہوں نے ایک عادت بنالی ہے ۔ ایک دن آپ نے دیکھا اس نے تلاوت نہیں کی اٹھ کر چلا گیا ہے اگلے دن آپ نے پوچھا کل آپ بیٹھے نہیں۔ وہ جواب دیتا ہے کہ ایک دوست بیمار تھا میں نے سوچا کالج جانے سے پہلے اس کی بیمار پرسی کرلوں ۔ تو یہ عمل جو اس نے کیا یہ ضرورت تھی کہ عادت ۔ تو جب آپ اپنے کاموں پر نظر دوڑائیں گے تو کچھ کام آپ ضرورتا ً کرتے ہیں اور کچھ کام آپ عادتاً کرتے ہیں۔ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کام بھی ان دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ کچھ کام آپ عادتاً فرماتے تھے اور کچھ کام ضرورتاً فرماتے تھے ۔ اب ان میں سے ہم نے تابعداری کن کاموں کی کرنی ہے فرمایا علیکم بسنتی وہ جو میں عادتاً کام کرتا ہوں ان کی تابعداری کرو۔ اب حدیث میں دونوں چیزیں آئیں گی سنت والے کام بھی اور عادت والے کام بھی اب جس میں دو چیزیں آجائیں وہاں ہمیں حکم ہے علیکم بسنتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت کا اتباع کرنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عادت کو ہم نے بھی عادت بنانا ہے اور اپنانا ہے ۔

اس بات کو ایک دو مثالوں سے سمجھیں:
آپ روزانہ وضو میں کلی کرتے ہونا؟ یہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک عادت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزانہ وضو میں کلی فرماتے تھے ۔ اب یہ عادت امت نے عادت کے انداز میں ہی اپنالی ۔ جہاں بھی کوئی وضو کرتا ہے اس میں کلی کرتا ہے یا نہیں کرتا؟ اگر ایک دن آپ وضو میں کلی نہ کریں تو آپ کا دل یقیناً جھنجھوڑے گا کہ آج ایک سنت کا ثواب ضائع ہوگیا ہے ۔ جھنجھوڑے گا یا نہیں؟ لیکن جن حدیث کی کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس مبارک عادت کا تذکرہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلی فرماتے تھے ۔ فقہاء نے اس کو سنتوں میں شمار کیا ہے ۔ احادیث کی کتابوں میں ایسی کتابیں بھی ملتی ہیں کہ وضو کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی سے بوس و کنار بھی فرمایا ہے ۔ یہ عادت نہیں تھی بلکہ ضرورت تھی ۔ کیونکہ پیغمبر پر مسئلہ سمجھانا بھی ایک ضرورت ہوتی ہے کہ کہاں تک وضو ہے اور کہاں تک ٹوٹ گیا۔

جیسے :
ایک مرتبہ حضرت فاروقِ اعظم
ؓ تشریف لائے ایک سیب ہاتھ میں ہے رمضان کا مہینہ ہے اور روزہ رکھا ہوا ہے آکر عرض کیا حضرت اگر روزے کی حالت میں بیوی سے بوس وکنار کر لیا جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں؟ حضرت یوں بھی فرما سکتے تھے کہ ٹوٹ جاتا ہے اور یوں بھی کہ نہیں ۔ لیکن دیکھا کہ یہ صحابی تو مجتہد ہے اس کو تو اجتہاد کا انداز سکھانا چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ ہاتھ میں کیا ہے فرمایا جی سیب ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ذرا مجھے دو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیب لے کر مبارک ہونٹوں پر رکھ لیا پھر حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ عمر کیا میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے ؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ ایسے تو نہیں بلکہ کھانے سے ٹوٹے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسئلہ تو نے پوچھا وہ سمجھ آگیا یا نہیں۔ حضرت عمرؓ کہنے لگے کہ سمجھ آگیا۔

حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہ
ؒ کی ذہانت:
حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہ
ؒ سبق پڑھا رہے تھے برقعے میں ایک عورت آئی اس نے ایک سیب اور ایک چھری امام صاحب کو دے دی ۔ طلباءبڑے خوش ہوئے کہ بھئی بہت ہی نیک عورت ہے کہ سیب تو لائی ساتھ چھری بھی لے آئی تاکہ ہمیں تلاش نہ کرنی پڑے۔ کیونکہ طالب علموں کی سستی تو بڑی مشہور ہوتی ہے ۔

لطیفہ :
ایک بار طالب علم روٹی کھارہے تھے لقمہ اٹک گیا اب اس کو کوئی پانی لاکر نہیں دے رہا تھا بلکہ ایک اٹھتا ہے دو مکے مارتا ہے دوسرا اٹھتا ہے دو مکے مارتا ہے تاکہ نیچے چلا جائے ۔ آخر لقمہ بھی ایسا تھا جو کسی کی بات نہیں مانتا تھا لقمے کو مکوں کو دلیل سمجھ میں نہیں آرہی تھی ۔ اب وہ خود ہی اٹھا اور جاکر کنویں میں ڈول ڈالا جب کھینچنے لگا اس بھرے ہوئے ڈول کو تو زور لگا وہ لقمہ نیچے چلا گیا تو وہ بھی ڈول وہیں پھینک کر آگیا۔

خیر بات یہ کر رہا تھا کہ طلباء بڑے خوش ہوئے کہ بڑی نیک عورت ہے کہ سیب تو لائی ہے ساتھ چھری بھی لائی ہے ۔ امام اعظم
ؒ نے سیب کاٹا اس کا جو اندر کا حصہ تھا وہ باہر نکال کر چھری اور سیب عورت کو واپس کر دیا ۔ اب شاگرد امام صاحب کو حدیثیں سنا رہے ہیں کہ حضرت حدیث میں تو آتا ہے کہ ہدیہ قبول کر لینا چاہیے تو آپ نے تو حدیث کے خلاف عمل کیا ہے اگر آپ کو ضرورت نہیں تھی تو ہم جو یہاں بیٹھے ہوئے تھے اور ہدیے میں سارے شریک ہوتے ہیں آپ ہمیں دے دیتے ۔ امام صاحبؒ نے فرمایا وہ بے چاری تو مسئلہ پوچھنے آئی تھی ۔ اب یہ حیران کہ مسئلہ کونسا پوچھ کر گئی ہے ۔ نہ اس نے زبان سے پوچھا نہ اس نے زبان سے بتایا ۔ فرمایا کہ سیب کے باہر کئی رنگ ہوتے ہیں کہیں مٹیالہ ہے، کہیں مہندی کا رنگ ہے ،کہیں سبز ہے کہیں سرخ ہے ۔ عورت جب ناپاک ہوتی ہے تو خون کئی رنگ بدلتا رہتا ہے وہ یہ مسئلہ پوچھنے آئی تھی کہ کونسا رنگ ناپاکی کا ہے اور کانسا پاکی کا ہے کہ کب نماز شروع کی جائے اگرچہ سیب کے باہر بہت سے رنگ ہوتے ہیں لیکن اس کو کاٹیں تو اندر ایک ہی سفید رنگ ہے اور کوئی رنگ نہیں ۔تو میں نے کاٹ کر وہ حصہ باہر کی طرف کرکے اس کو دے دیا کہ سوائے سفید کے سارے رنگ ناپاکی کے ہیں۔ وہ خیرالقرون کا زمانہ تھا اندازہ کرو کہ عورت کو بھی اللہ تعالیٰ نے کیسا دماغ دیا تھا کہ کس طرح مسئلہ پوچھا اور امام اعظمؒ نے بھی کس انداز میں مسئلہ سمجھایا ۔

تو خیر میں عرض کر رہا تھا وضو کے بعد بیوی سے بوس و کنار کی حدیث آتی ہے ۔ لیکن آپ لوگوں نے زندگی میں جتنے وضو کئے تو کیا جس طرح آپ ہر وضو میں کلی کرتے ہیں کیا اسی طرح ہر وضو کے بعد بیوی سے بوس و کنار بھی کرتے ہیں؟ اور اگر نہیں کرتے تو کیا آپ کو دل جھنجھوڑتا ہے کہ آج سنت کا ثواب نہیں ملا؟ آخر کیوں؟ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل ہے اور یہ بھی ۔ فرق کیا ہے کہ وہ (کلی کرنا) صرف حدیث نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ ہے اور یہ صرف حدیث ہے ۔ ہمیں حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ کو اپنانے کا ۔ اس لئے ہم وضو کریں گے کلی کریں گے اور نماز پڑھیں گے ۔ یہ ہوا سنت پر عمل ۔ اور اگر ہم وضو کرکے بیوی سے بوس و کنار کریں گے تو یہ ہے حدیث پر عمل نہ کہ سنت پر ۔

بخاری و مسلم میں حدیث موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے ۔ جوتے اتار کر نماز پڑھنے کی حدیث بخاری و مسلم میں بالکل نہیں ہے بلکہ ابو داﺅد شریف میں ہے لیکن کیونکہ جوتے اتار کر نماز پڑھنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی اس لئے امت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی عادت کو اپنایا اور اسی لئے ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق جوتے اتار کر نماز پڑھتے ہیں اگرچہ جوتا پہن کر نماز پڑھنے کی احادیث بخاری و مسلم میں موجود ہے ۔ یہ ہے سنت اور حدیث میں فرق ۔ اس لئے جو حضرات یہ رٹ لگاتے ہیں کہ حدیث پر عمل کرو حدیث پر عمل کرو یہ نہ دیکھا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کیا تھی وہ حدیث کے نام پر سنت کو منا رہا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو فرمایا تھا میری سنت کو اپنانا جبکہ آج کل شوروغل ہے کہ حدیث پر عمل کرو حدیث پر۔

اسی طرح کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے جبکہ بیٹھ کر پیشاب کرنے کی حدیث بخاری و مسلم میں بالکل ہی نہیں بلکہ ترمذی و ابوداﺅ میں ہے ۔ لیکن بیٹھ کر پیشاب کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت کو امت نے عادتاً ہی اپنایا ۔ اور ساری امت بیٹھ کر پیشاب کرتی آرہی ہے ۔ اب بیٹھ کر پیشاب کرنے والا کیونکہ سنت پر عمل کررہا ہے اس لئے یہ اہل سنت ہے اور جو کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والی بخاری و مسلم کی حدیث پر عمل کرتا ہے وہ اہل حدیث ہے ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کیونکہ ہمارے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ علیکم بسنتی میری سنت کو اپنانا اسی لئے ہم کو تو سنت پر چلنے دو ۔ اگر آپ کہتے ہو کہ ہم نے تو حدیث پر عمل کرنا ہے اہل حدیث ہی بننا ہے سنت پر عمل نہیں کرنا تو ہم کو سنت سے نہ ہٹاﺅ بلکہ ہم آپ کو حدیث پر عمل کروانے میں آپ کی مدد کردیں گے وہ ایسے کہ جہاں کسی کو بیٹھ کر پیشاب کرتے دیکھ لیا اسے فوراً کھڑا کردیں گے کہ بھائی بیٹھ کر پیشاب کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اس لئے یہ اہل سنت کا طریقہ ہے تو اہل حدیث ہے حدیث پر عمل کر کھڑا ہو کر پیشاب کر۔

الحمد للہ ہم اہل سنت والجماعت ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ کو اپنانے والے ۔ معلوم ہوا کہ صرف حدیث کے لئے سنت ہونا ضرورت نہیں (یعنی جو بات بھی حدیث میں آجائے ضروری نہیں کہ وہ ہی سنت ہو جیسا کہ سابقہ مثالوں سے معلوم ہوگیا)۔

سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث بخاری میں ہے :
چنیوٹ کا ایک طالب علم میری پاس پڑھتا تھا ۔ شکیل نام تھا۔ میں لڑکوں کو کہتا تھا کہ تبلیغی جماعت والوں کی طرح کبھی کبھی اپنی مسجد میں اکٹھے ہوکر سب بیٹھ جاﺅ ایک لڑکا کھڑا ہو کر بیان کرے تاکہ بات کرنے کی جھجک دور ہو ۔ اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ جواب دینے میں کیا کمزوری رہ گئی ہے پھر اس جواب کی تیاری ہو ۔ خیر وہ لڑکا کسی مسجد میں گیا جماعت ہو چکی تھی دو تین آدمی نماز پڑھ رہے تھے ۔ یہ ایک آدمی کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ جب اس نے سلام پھیرا تو اس نے سلام کیا۔ اس نماز پڑھنے والے نے جواب دیا اس نے پوچھا کہ جی آپ کے والد صاحب حیات ہیں ؟ اس نے کہا جی ہاں لڑکے نے پوچھا کہ کیا کسی باہر کے ملک میں رہتے ہیں کہا جی ہاں باہر رہتے ہیں مگر آپ کو کیسے معلوم آپ کیوں پوچھ رہے ہیں لڑکے نے کہا کہ کچھ نہیں بس کوئی بات تھی ۔ اس آدمی نے پھر پوچھا کہ آپ کے پوچھنے کی وجہ کیا تھی ۔ اس لڑکے نے جواب دیا کہ آپ امی والی نماز پڑھ رہے تھے ابا والی نہیں پڑھ رہے تھے اسی سے میں نے سمجھ لیا کہ یا تو ابا وفات پا گئے ہوں گے یا باہر کسی ملک میں ہوں گے اور نماز امی سے سیکھی ہوگی ۔ اسی لئے سینے پر ہاتھ باندھ رہے ہیں۔ وہ آدمی بڑا تلملایا ۔ کہا کہ بخاری میں ہے یہ حدیث بخاری میں ہے لڑکے نے کہا کہ بالکل جھوٹ ہے یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے ۔

مجھے واپس آکر اس لڑکے نے یہ لطیفہ سنایا کہ آج یہ ماجرہ پیش آیا ۔ کل اس نے مجھے بخاری میں یہ حدیث دکھانی ہے ۔ میں نے کہا کہ فکر نہ کرو بخاری میں یہ حدیث ہے ہی نہیں اب اس لڑکے کے ساتھ ایک دو ساتھی اور چلے گئے کہ جی وہ کل آپ نے کہا تھا کہ حدیث دکھاﺅں گا وہ حدیث دیکھنی ہے وہ آگے سے لڑ پڑا کہ دفعہ ہو جاﺅ یہاں سے ۔ مجھے کل پتہ نہیں چلا تو نیو ٹاﺅن سے آیا ہے اور امین کا شاگرد ہے لڑکے نے کہا کہ امین کے شاگرد کو حدیث دکھانے سے کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع کیا ہے ۔ اس آدمی نے کہا کہ نہیں تو شرارت کرتا ہے ۔ لڑکے نے کہا کہ چلو بالفرض میں شرارت کر رہا ہوں تو حدیث تو دکھا دے نا۔

بخاری و مسلم کے خلاف ہے :
ایک دن اسی طرح وہ جامعہ ستاریہ چلا گیا کہتا ہے کہ میں نے جاکر دو نفل پڑھے۔ دو تین بابے بیٹھے تھے شور مچانے لگے نماز نہیں ہوتی ۔ نماز نہیں ہوتی ۔ بخاری مسلم کے خلاف ہے ۔ حدیث کے خلاف ہے میں نے کہا بابا جی نماز تو پڑھ لینے دو شور کیوں مچاتے ہو وہ پھر بول پڑے جی ہوتی ہی نہیں ہے ہوتی ہی نہیں ہے پوچھا کیا ہوا کہا بزرگوں نے کہ بخاری و مسلم کی حدیث کے خلاف ہے ۔ اس نے کہا چلو حدیث کے خلاف ہے سنت کے خلاف تو نہیں میں تو اہل سنت ہوں ۔ آپ کو کس نے کہا کہ میں اہل حدیث ہوں۔ بزرگوں نے گرج کر کہا کہ جو بخاری کے خلاف نماز پڑھتا ہو اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ لڑکے نے کہا کہ ویسے ہی غصہ کر رہے ہو یہ جو باقی لوگ نماز پڑھ رہے ہیں ان کو کیوں نہیں کچھ کہتے ہیں کہا کہ یہ لوگ تو بخاری کے خلاف نماز نہیں پڑھ رہے ۔ لڑکے نے پوچھا کہ کون پڑھ رہا ہے کسی نے نماز میں جوتا نہیں پہنا ہوا ان سب کے جوتے پہناﺅ تاکہ بخاری و مسلم پر عمل ہو جائے ۔

بخاری میں باب ہے باب الصلوة فی ثوب واحد ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا باب ہے تین کپڑوں میں نماز پڑھنے کا باب بخاری میں نہیں ہے تو ان کے کپڑے اتارو کسی کی قمیص رہنے دو کسی کی جراب رہنے دو کسی کی صرف بنیان رہنے دو۔ تاکہ آرام سے گن کر بتایا جا سکے کہ یہ دیکھئے ایک کپڑے میں نماز ہو رہی ہے حدیث پر عمل ہو رہا ہے بخاری پر عمل ہو رہا ہے اور بخاری و مسلم میں ہے کان یصلی وھو حامل حمامة بنت عاص کہ اپنی نواسی کو گود میں اٹھا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں۔دو چار بچے یہاں موجود رکھو تاکہ جو بھی نماز پڑھے اس پر بچے کو سوا کر دیا جائے ۔ تاکہ نماز بخاری و مسلم کے مطابق ہو جائے ۔ وہ لڑکا کہتا ہے کہ اتنے میں دیکھا کہ ایک آدمی بیٹھ کر استنجا کر رہا تھا میں نے کہا کہ دیکھو وہ آدمی بیٹھ کر استنجا کر رہا ہے اسے کھڑا کرو بخاری و مسلم کے خلاف کر رہا ہے ۔ کم از کم اس کو تو بتاﺅ کہ بخاری و مسلم میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی حدیث موجود نہیں ہے وہ لڑکا کہتا ہے کہ مجھے کہنے لگے کہ چلو ہمارے شیخ الحدیث کے پاس ۔ لڑکے نے کہا چلو بزرگوں نے جا کر کہا کہ جی یہ کہتا ہے کہ یہ یہ بات بخاری و مسلم میں ہے ۔ شیخ الحدیث نے کہا کہ جی ہاں ہے ۔ بزرگوں نے کہا کہ پھر اس پر ہمارا عمل کیوں نہیں ؟ شیخ الحدیث نے کہا کہ بس یہ لڑکا کوئی شرارتی معلوم ہوتا ہے ۔ لڑکے نے کہا کہ بخاری و مسلم کی حدیث پر عمل کرنے کو آپ شرارت کہتے ہیں۔

آمین تین بار کہنا سنت ہے ۔
اسی طرح فتاوی ستاریہ میں مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ تین دفعہ آمین کہنا سنت ہے اور آمین کے ساتھ رب اغفرلی کہنا بھی سنت ہے ۔ تین بار ایک شاگرد نے وہ صفحہ فوٹو سٹیٹ کروالیا جیب میں ڈالا اور چلا گیا ان کی مسجد میں مغرب کی نماز تھی ۔ امام نے کہا ولاالضا لین ۔ سب نے کہا آمین ۔ اس لڑکے نے کہا ۔ آمین رب اغفرلی ۔ پھر کہا آمین رب اغفرلی ۔ پھر کہا آمین رب اغفرلی ۔

اب شور مچ گیا ۔ پوچھا گیا تو کہاں سے آیا ہے ۔ کہنے لگا کہ جی میں تو حدیث پر عمل کر رہا ہوں یہ دیکھو فتاویٰ ستاریہ میں لکھا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ اہل حدیث کی مسجد ہے اور حدیث پر عمل کرنے سے ناراض ہو رہے ہو ۔ کیوں ناراض ہو رہے ہو کہنے لگے نہیں نہیں تو شرارت کر رہا ہے ۔لڑکے نے کہا کہ حدیث پر عمل کرنا شرارت ہے ؟ عجیب بات ہے ؟ اہل حدیث کے منہ سے یہ کہنا کیسے زیب دیتا ہے کہ حدیث پر عمل کرنا شرارت ہے انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی عمل کرنا چاہئے ۔ کہنے لگا کہ بھئی کبھی کبھی کا لفظ دکھاﺅ کہ کہاں ہے حدیث میں ؟ تو میں کبھی کبھی کر لیا کروں گا تو وہ خاموش ہو گئے ۔

تو بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اہل سنت والجماعت ہیں اہل سنت وہ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ کو اپناتے ہیں ۔ ثبوت اور چیز ہے سنت اور چیز ہے جیسے نماز پڑھتے ہوئے دروازہ کھول دینا ثابت ہے سنت نہیں۔نماز کی حالت میں بچے کو اٹھا لینا ثابت ہے سنت نہیں ۔ لیکن ہم اہل سنت ۔ سنت کہتے ہی سڑک اور راستے کو ہیں اسی لئے جو عمل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امت میں چل پڑا وہی سنت ہے ۔

چند وسوسوں کے جوابات :
ہمارے دوست جو ہیں ان کے پاس صرف چند وسوسے ہوتے ہیں اور کچھ نہیں میں جب کراچی تھا تو دس بارہ آدمی آگئے میں نگرانی کر رہا تھا امتحانات میں ۔ دو ساتھی آئے کہ یہ آدمی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم بیٹھ گئے بڑا عجیب انداز تھا ان کا پڑھے لکھے آدمی تھے کوئی پروفیسر، کوئی ٹیچر، کوئی وکیل کہنے لگے ہم بہت پریشان ہیں پوچھا کیا ہوا جی ۔ کہنے لگا ہوا کیا چار امام ہو گئے ہیں ۔ چار ،چار، چار میں نے کہا کہاں؟ یہاں جھنگ میں کتنے مدرسے ہیں شافعیوں کے ؟ مالکیوں کے ؟ حنبلیوں کے کتنے ہیں ؟ تو میں نے کہا کہ جو بھینگا ہو تا ہے نا اس کو ایک کے دو نظر آتے ہیں ۔ تو یہاں صرف ایک حنفی ہیں پھر یہ آپ کو ایک کے چار کہاں سے نظر آنے لگے ؟ کہنے لگے کہ جی وہ کہیں نہ کہیں تو ہوں گے نا۔ میں نے کہا کہ جہاں جہاں وہ ہوں گے تو وہاں کے لوگ پریشان ہوں آپ کو کیا پریشانی لگ گئی ہے یہاں پر بیٹھے بیٹھے ؟

کہنے لگے کہ جی کسی حدیث میں ہے کہ صرف ایک ہی امام کی تقلید کرنا ؟ میں نے پوچھا کہ آپ قرآن پاک پڑھتے ہیں ؟ کہنے لگے جی ہاں ۔ میں نے کہا کہ ساتوں قراتیں آتی ہیں ؟ کہنے لگے کہ نہیں جی ایک ہی قرات میں ہم تو پڑھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کسی حدیث میں ہے کہ سات میں سے صرف ایک ہی قرات میں پڑھنا ؟ کہنے لگے کہ ہم کیا کریں کہ ہمیں آتی ہی ایک قرات ہے ۔ میں نے کہا کہ کیا کریں کہ یہاں ہے ہی ایک مسلک امام ابو حنیفہ
ؒ کا ۔ اس کی حدیث تم دکھا دو اس کی ہم دکھا دیتے ہیں۔ پوچھنے لگے کہ جی خدا کتنے ہیں ؟ میں نے کہا کہ ایک ۔ کہنے لگے کہ خدا ایک اور امام چار بن گئے ؟ توبہ توبہ غضب خدا کا ۔ میں نے کہا ابھی تھوڑا ہے ۔ کیسے ؟ خدا ایک ہے اور نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں میں نے پوچھا کہ آپ کا مقصد کیا ہے صاف صاف بات کریں ۔ کہنے لگے کہ ہم نے تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سب کو چھوڑ دو۔ میں نے کہا کہ دیکھو جلدی نہ کرنا کیونکہ قرآن پاک میں سات قاریوں کا اختلاف ہے قرات کا۔ تو سات کا اختلاف بڑا ہے یا چار کا؟ اس لئے اگر ائمہ کو چھوڑنا ہے تو پہلے لکھ کر دو کہ آج کے بعد ہم قرآن نہیں پڑھیں گے کیوں کہ اس کی قرات میں سات قاریوں کا اختلاف ہے اور ہم اختلاف کو پسند نہیں کرتے ۔ اس کے بعد احادیث کی باقی کتابیں تو ایک طرف کردیں۔ صرف صحاح ستہ ہی ایسی چھ کتابیں ہیں جن میں آپس میں اختلافی حدیثیں ہیں ۔تو چھ کا اختلاف زیادہ ہے یا چار کا ؟ کہنے لگے کہ چھ کا میں نے کہا کہ پھر دوسرے نمبر پر چھ والا اختلاف چھوڑنا پڑے گا ان بے چارے اماموں کی کہیں جا کر تیسرے نمبر پر باری آئے گی جن کے پیچھے آپ پہلے نمبر پر ہی لاٹھی اٹھائے پھر رہے ہیں

پھر کہنے لگے کہ چاروں امام ہی بر حق ہیں ؟ میں نے کہا جی ہاں چاروں برحق ہیں ۔ پھر کہا کہ چاروں ؟ میں نے کہا ہاں چاروں کہنے لگے کہ پھر آپ باقی تین کی تقلید کیوں نہیں کرتے میں نے کہا نہی کرتے ۔ ہماری مرضی پھر کہنے لگے کہ ان کو برحق کیوں کہتے ہو؟ میں نے کہا بالکل برحق کہتے ہیں مگر تقلید اپنے امام کی کرتے ہیں ۔

پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آج آپ جمعہ پڑھ رہے ہیں نا کیونکہ آپ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بر حق مانتے ہیں ۔ اور کیا کل آپ لوگ یہودیوں کی عبادت گاہوں میں جائیں گے ؟ کیونکہ آپ موسیٰ علیہ السلام کو برحق مانتے ہیں کیا پرسوں عیسائیوں کے گرجے میں جائیں گے

No comments:

Post a Comment