Friday, 10 April 2020

ضعیف احادیث اور غیرمقلدین خصوصًا زبیر علی زئی

{ضعیف احادیث اور غیرمقلدین خصوصًا زبیر علی زئی }
🚫بخاری کے دعوے داروں کا بخاری پر عمل نہیں 🚫

الحمد للّٰہ ربّ العالمین والصّلوٰۃ والسّلام علی سیدالانبیاء و المرسلین: أمابعد!میرا ایک مضمون [ضعیف احادیث کا کلی انکار ایک فتنہ ،منکرین حدیث کانیا روپ]مجلہ’’ البرہان الحق جولائی تا ستمبر ۲۰۱۲ء‘‘ میں شائع ہوا،اس کے علاوہ یہی مضمون[النظامیہ لاہور،الحقیقہ شکر گڑھ،چار یار مصطفی راولپنڈی اور سواد اعظم دہلی(انڈیا)میں بھی شائع ہوا اور عوام و خواص خصوصًا علمائے اہل سنت نے اس کو بہت پسند فرمایامگرغیر مقلد زبیر علی زئی مدیر ’’الحدیث‘‘ حضروکویہ بات پسند نہیں آئی اور انھوں نے اپنے شمارہ الحدیث جون ،جولائی۲۰۱۳ء میں اس کا اپنے زعم میں جواب لکھا اسی کا جواب حاضر خدمت ہے:سب سے پہلے یہ بات سمجھ لی جائے کہ اس مسئلہ میں ہمارا اہل سنت وجماعت کا مؤ قف کیا ہے ہمارا مؤقف بالکل دوٹوک اور واضح ہے کہ [ہم نہ ضعیف حدیث کا کلی انکار کرتے ہیں اور نہ کلی اقرار ،عقائد واحکام میں ضعیف احادیث کوقبول نہیں کرتے اسی طرح صحیح احادیث کے مقابل بھی نہیں قبول کرتے اور فضائل اعمال ومناقب وغیرہا میں ضعیف احادیث کو قبول کرتے ہیں اور ضعیف روایات کو احادیث میں ہی شمار کرتے ہیں جبکہ اس میں شدید ضعف نہ ہو یا وہ موضوع نہ ہوں]اور جرح وتعدیل کے معاملے میں محدثین کے فیصلے کو اجتہادی  معاملہ سمجھتے ہیں ان صورتوں میں ضعیف روایات کو ترک کرنا ہے ,جب کوئی ضعیف روایت قرآن کے خلاف ہو-جب کوئی ضعیف روایت کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو.جب کسی ضعیف روایت میں کوئی راوی کذاب یا اس میں شدید ضعف ہو جن صورتوں میں ضعیف روایات قبول ہیںجب کوئی ضعیف روایت قرآن وسنت کے مخالف نہ ہو اور اس مسئلہ میں کوئی صحیح حدیث نہ ہو جب کسی ضعیف روایت میں راوی کذاب نہ ہواور اس کے کسی راوی میں شدید ضعف بھی نہ ہوتو قبول ہے جبکہ وہ فضائل میں ہو جب کسی ضعیف روایت کے متابعات اور شواہد ہوں توان تمام صورتوں میں ضعیف حدیث کا کلی انکار کرنا بھی غلط ہے اور ان ساری صورتوں میں ضعیف روایات کا حجت ماننا بھی غلط ہے بلکہ جن صورتوں میں ان کی قبولیت ہے ان کوقبول کرنا ہے اور جن صورتوں میں ان کا ترک ہے توان صورتوں میں ضعیف روایت کا ترک کرنا ہے یہی سلف صالحین،محدثین و فقہاء کا منہج ہے   اس تمہید کے بعد اب جواب حاضر ہے:    غیرمقلدحافظ زبیر علی زئی نے الحدیث شمارہ ۱۰۶جون۲۰۱۳ء صفحہ نمبر۳۰ تا۳۴ تک دس نمبروں کے تحت محدثین کے اقوال لکھے جس سے زبیر علی زئی نے یہ تاثر دیا کہ یہ حضرات بھی مطلقًا ضعیف حدیث کو رد کرتے ہیں مردود سمجھتے ہیں لیکن یہ ان کی بھول ہے میرا  موضوع ضعیف حدیث کا کلی انکار ہے اور زبیر صاحب جزوی انکار دکھاتے ہیں اور محدثین کی بات میں اپنا فہم داخل کرتے ہیں اور موڑ توڑ کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں آئیے دیکھیں محدثین ضعیف احادیث کے بارے میں صراحتًا کیا فرماتے ہیں :
 👈 (1)امام ابوزکریا نووی شارح صحیح مسلم فرماتے ہیں :  [قد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الأعمال]ترجمہ:بے شک علماء کا اتفا ق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے  (شرح الأربعین للنووی ص۱)
👈(2)علامہ مولانا علی قاری ضعیف کے بارے میں فرماتے ہیں [لجواز العمل بہ فی فضائل الاعمال بالاتفاق]ترجمہ: فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل بالاتفاق جائز ہے                     
      (حرزثمین شرح مع حصن حصین ص۲۳)
👈 (3)امام عبدالوہاب شعرانی  فرماتے ہیں:[قد احتج جمہور المحدثین بالحدیث الضعیف اذا کثرت طرقہ والحقوہ بالصحیح تارۃ ،وبالحسن اخری]ترجمہ:بیشک جمہور محدثین نے حدیث ضعیف کو کثرت طرق سے حجت مانا اور اسے کبھی صحیح اور کبھی حسن سے ملحق کیا      (المیزان الکبرٰی للشعرانی ۱/۶۸مطبوعہ مصر   )
👈(4) امام عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی فرماتے ہیں :[محدثین وغیرہم علماء کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل اور بے اظہار ضعف موضوع کے سوا ہر قسم کی روایت اور اس پر عمل فضائل اعمال وغیرہا امور میں جائز ہے جنہیں عقائد واحکام سے تعلق نہیں       (تدریب الراوی : ۱/۲۹۸مطبوعہ الریاض،تحذیر الخواص۷۳)
👈(5)امام عثمان بن عبدالرحمن،أبو عمروتقی الدین المعروف بابن الصلاح فرماتے ہیں :[محدثین وغیرہم علماء کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل اور بے اظہار ضعف موضوع کے سوا ہر قسم کی روایت اور اس پر عمل مواعظ، قصص ،فضائل اعمال،ترغیب وترہیب وغیرہا امور میں جائز ہے جنہیں عقائد و احکام سے تعلق نہیں      (مقدمۃ ابن الصلاح فی علوم الحدیث ص۱۰۳مطبوعہ بیروت)
👈(6)امام ابن ہمام فرماتے ہیں :[الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل الاعمال]یعنی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف جو موضوع نہ ہوپر عمل کیا جائے گا      (فتح القدیر لابن ہمام۱/۳۴۹)
👈(7)امام ابن حجر عسقلانی ضعیف حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :[محدثین وغیرہم علماء کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل اور موضوع کے سوا ہر قسم کی روایت اور اس پر عمل کرتے ہیں]   (النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح۲/۳۰۸مطبوعہ الریاض)
👈(8)علامہ جمال الدین القاسمی الدمشقی ضعیف حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :[اور زہد ،مکارم الاخلاق جن کا تعلق حلال و حرام سے نہیں ہوتاموضوع روایات کے سوا دیگر روایات میں نرمی برتتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں]   (  قواعد التحدیث من فنون مصطلح الحدیث ص۷۱    )
👈(9)علامہ حلبی ضعیف حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :[الجمہور علی العمل بالحدیث الضعیف الذی لیس بموضوع فی فضائل الاعمال] ترجمہ:جمہور علماء کا مسلک فضائل اعمال میں حدیث ضعیف غیر موضوع پر عمل کرناہے (حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
👈(10)امام حافظ السخاوی حدیث ضعیف کے بارے میں فرماتے ہیں:[ضعیف حدیث فضائل میں عمل کے لئے مقبول ہوتی ہے ] (فتح المغیث:۱ /۷۳)اسی طرح یہی  بات 👈(11)زین الدین عبدالرحیم بن حسین العراقی نے[التقیید والایضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح ص۱۳۵   ]اور
👈(12)برہان الدین ابو اسحاق الشافعی نے [الشذا الفیاح من علوم ابن الصلاح ۱/۳۳۲،۳۳۳  ]میں
👈(13)امام حاکم نے [المستدرک علی الصحیحین ۱/۴۹۰   ]میں
👈(14)امام ابن دقیق العید نے [کتاب الامام۱/۱۷۱]میں 👈(15)حافظ ابن تیمیہ [فتاوٰی ابن تیمیہ ۱/۳۹]میں👈(16)محمود عیدان احمد الدلیمی نے[جرح الرواۃ وتعدیلہم ۶/۵۰   ]میں اور
👈(17)علی بن نایف الشحود نے [الخلاصۃ فی أحکام الحدیث الضعیف ص۳۹   ]میں اور
👈(18) غیر مقلدین کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی نے[فتاوٰی نذیریہ۱/۳۰۳]میں اور
👈 (19)نواب صدیق حسن خاں نے[دلیل الطالب علی ارجع المطالب ص۸۸۹] میں
👈(20)مولانا ثنا ء اللہ امرتسری[اخبار اہل حدیث۱۵شوال۱۳۴۶ھ]میں
👈(21)مولانا عبداللہ روپڑی غیر مقلد نے[فتاوٰی اہل  حدیث ۲/۴۷۳]میں فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل کرنے کوصحیح سمجھا ہے 
 زبیر علی زئی خود بھی اس بات سے متفق ہیں کہ امام بخاری  نے بھی صحیح بخاری میں [ضعیف روایات ]لائی ہیں دیکھئے[الحدیث جولائی۲۰۱۳ء ص۲۳]میں ،تو گزارش ہے کہ اگرآپ کے بقول ضعیف روایات مردود روایات ہیں تو ان تمام محدثین بشمول امام بخاری  کے اپنی اپنی کتابوں میں اور وہ بھی صحاح ستہ کی کتب میں ان ضعیف یعنی بقول زبیر علی زئی کے مردود روایات کو نقل کیا ہے اگر وہ حضرات ان کو مردود روایات سمجھتے تو کیا وہ ان روایات کو اپنی کتابوں میں نقل کرکے وہ بھی بغیر اس کو مردود بتائے جرم نہیں کر رہے؟اگر جواب ہا ں میں ہیں تو کھلم کھلا اعلان کریں اور اگر جواب نہیں میں ہے توضعیف احادیث کا کلی انکار سے رجوع کا اعلان کریں
زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کا دفاع کرنا اہل حدیث کا شعار ہے دیکھئے [الحدیث جون۲۰۱۳ء ص۱۹]
اس کا مطلب ہے جب بخاری ومسلم کتب نہیں تھیں اہل حدیث کا شعار بھی نہ تھااور اہل حدیث یعنی غیر مقلدین بھی نہ تھے

🚫آئیے دیکھتے ہیں کہ بخاری کے دیوانے صحیح بخاری پر کس طرح عمل کرتے ہیں🚫

👈 صرف ۱۰روایات پیش خدمت ہیں,

🖋امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب[الابراد بالظہر فی شدۃ الحر]کے تحت یہ روایت لکھی [حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرو اس لئے کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے ]    (صحیح بخاری۱/۳۲۰)

🚫 جبکہ اس کے مقابلے میں غیر مقلدین کا عمل ظہر کی نماز گرمیوں میں جلدی پڑھنا ہے -

🖋 امام بخاری نے باب [المیت یسمع خفق النعال]مردہ جانے والوں کے جوتوں کی آواز کو سنتا ہے ،کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کایہ فرمان لکھا:[جب آدمی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پیٹھ موڑ کر چل دیتے ہیں وہ ان کے جوتوں کی آوازوں کو سنتا ہے ]   (صحیح بخاری۱/۵۷۹)

🚫جبکہ غیر مقلدین مردے کا سننا مانتے ہی نہیں .

🖋امام بخاری نے باب[الصلوٰۃ بعد الفجر حتیٰ تر تفع الشمس] کے تحت یہ روایت نقل فرمائی [حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا اورعصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک]                                                                (صحیح بخاری۱/۳۱۷)

🚫جبکہ غیر مقلدین کا عمل اس کے مخالف ہے /

🖋امام بخاری نے باب [اذارکع دون الصف]صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کرنا ،کے تحت یہ روایت نقل فرمائی [حضرت ابو بکرہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ رکوع میں تھے تو صف میں شامل ہونے سے پہلے انھوں نے رکوع کرلیا پھر حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ اس سے زیادہ تجھ کو حرص دے لیکن پھر ایسا نہ کر]        (صحیح بخاری۱/۳۸۶)اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت مل جاتی ہے حالانکہ اس نے سورۃفاتحہ نہیں پڑھی ہوتی

🚫 لیکن غیر مقلدین کا عمل اس کے مخالف ہے

🖋امام بخاری نے باب [الاذان  یوم الجمعۃ]کے تحت یہ روایت نقل کی :[سائب بن یزیدفرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ،ابو بکر وعمرj کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھا کرتا حضرت عثمان غنی hکے زمانے میں جب لوگ بہت ہوگئے انھوںنے زورا ء کے مقام پر تیسری اذان پڑھائی پھر یہ مستقل طریقہ ہوگیا  ]
نوٹ:دو اذانیں اور ایک اقامت کو اس روایت میں اکٹھا بیان کیا گیا ہے   (صحیح بخاری۱/۴۳۰،۴۳۱)
اب بھی ساری امت مسلمہ بشمول مکہ مکرمہ ومدینہ منورہ میں جمہ کی دوسری اذان دی جاتی ہے حضرت عثمان غنیh  کے دور سے یہ صحابہ کی سنت شروع ہوئی اور آج تک جاری وساری ہے سوائے اہل تشیع و غیر مقلدین کے سب مسلمان اس پرعمل کرتے ہیں

🚫 لیکن غیر مقلدین اس کو بدعت کہتے ہیں دیکھئے [فتاوٰی ستاریہ ۳/۸۵،فتاوٰی علمائے حدیث ۲/۱۷۹،تیسرالباری۲/۲۱]  1

🖋امام بخاریmنے ایک روایت نقل فرمائی :[حضرت عبداللہ بن عمرhسے روایت ہے کہ حضورaنے ارشاد فرمایا داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ حضرت عبداللہ بن عمرmجب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لے کر جتنی مٹھی سے زیادہ ہوتی اسے کاٹ دیتے ]       (صحیح بخاری حدیث ۵۸۹۲)
اس روایت کے راوی صحابی کا عمل یہ بتاتا ہے کہ مسنون داڑھی بقدر قبضہ ہے صحابہ کرام خصوصًا عبداللہ بن عمرhجو حضورa کے مزاج شناس بھی تھے ،فقیہہ بھی تھے اس حدیث کے راوی بھی ہیں اور صحابی رسول a بھی ہیں
 مگر پھر بھی غیر مقلدین اس بات کو قبول نہیں کرتے :اس حدیث کی شرح میں علامہ ابن حجر عسقلانیm فرماتے ہیں [میں کہتا ہوں کہ جو بات ظاہر ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر hکا داڑھی کٹوانا اور بقدر ایک مشت کے رکھنا یہ حج و عمرہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ وہ داڑھی بڑھانے کے حکم کو اس حالت پر محمول کرتے ہیں کہ داڑھی طول وعرض میں زیادہ بڑھ کر صورت کو بھدی اور بدنما نہ کردے ،پھر آخر میں لکھا کہ حضرت ابن عمر ،حضرت عمر فاروق، حضرت ابو ہریرہj کا بھی ایسا  ہی عمل تھا]    (فتح الباری ۱۰/۳۵۰مطبوعہ بیروت)

🚫لیکن غیرمقلدین کا عمل اس کے خلاف ہے یہ سامنے کی بات ہے

🖋امام بخاری m نے باب [من اجاز طلاق الثلاث]کے تحت یہ روایت نقل فرمائی :[حضرت عویمر hنے حضور a کے سامنے اپنی بیوی کو تین اکٹھی طلاقیں دے دیں تو نبی aنے ان دونوں کو الگ کردیا یعنی تین طلاقیں واقع ہو گئیں ]      (صحیح بخاری ۱/۱۴۹)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرh کافتوٰی بھی نقل فرمایا آپ فرماتے ہیں[اگر تو ایک بار یادو بار طلاق دیتا تو رجعت کرسکتا تھا کیونکہ حضور aنے مجھ کو ایسا ہی حکم دیا لیکن جب تو نے تین طلاق دے دئیے تو اب وہ عورت تجھ پر حرام ہو گئی یہاں تک کہ تیرے سوا کسی اور سے نکاح کرے ]     (صحیح بخاری۱/۱۵۱)

🚫جبکہ ان روایات پر غیر مقلدین کا عمل نہیں ،بلکہ تین طلاق کو ایک طلاق قرار دیتے ہیں

🖋 امام بخاری mنے قنوت وتر کے بارے میں ایک باب[القنوت قبل الرکوع وبعدہ]کے تحت یہ روایت بیان کی :[عاصم بن سلیمان mنے کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالکh سے قنوت کے بارے میں پوچھاانھوں نے فرمایا بیشک قنوت تھی میں نے پوچھارکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد انھوں نے فرمایا رکوع سے پہلے میں نے کہا فلاں صاحب آپ سے روایت کرتے ہیں کہ رکوع کے بعد آپ نے فرمایا کہ وہ غلط کہتے ہیں رکوع کے بعد تو حضورa نے ایک مہینے تک قنوت(نازلہ)پڑھی تھی (جب ستر صحابہj کوشہید کیا گیا تواس قبیلے کے خلاف)     (صحیح بخاری رقم الحدیث ۱۰۰۲)ایک اور روایت میں حضرت انس h سے یہی سوال ہوا [حضرت عبدالعزیزm فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نے حضرت انس hسے قنوت وتر کے بارے میں پوچھا کہ رکوع کے بعد پڑھی جائے یا یا قرأت سے فارغ ہو کر(یعنی رکوع سے پہلے)آپ نے فرمایا قرأت سے فارغ ہوکر ]       (صحیح بخاری رقم الحدیث۴۰۸۸)

🚫غیر مقلدین کا مستقل عمل رکوع کے بعد ہی ہے ان روایات کے خلاف عمل کرتے ہیں بلکہ رکوع کے بعد قنوت وتر ہاتھ اٹھا کر پڑھتے ہیں دیکھئے فتاوٰی علمائے حدیث ۳/۲۰۵،تحفۃ الاحوذی۱/۲۴۳
نوٹ:غیر مقلدین قنوت نازلہ کی روایات پیش کرتے ہیں جبکہ قنوت نازلہ اور ہے اور قنوت وتر اور ہے قنوت وتر کا ثبوت بعد الرکوع نہیں ہے
 
🖋امام بخاریm نے [صحیح بخاری رقم الحدیث ۵۵۶۹،۵۵۷۰،۵۵۷۳،۵۵۷۴]میں مختلف الفاظ سے روایات لکھیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی تین دن ہے

🚫 مگر غیر مقلدین کا عمل ان روایات پر نہیں وہ قربانی چار دن کے قائل ہیں

🖋5امام بخاریmنے باب[الصلوٰۃ قبل المغرب]کے تحت ایک روایت نقل فرمائی[حضرت عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں کہ مجھے عبداللہ بن مغفل hنے نبی aسے یہ حدیث بیان کی کہ آپa  نے فرمایاکہ مغرب سے پہلے نماز پڑھو تیسری بار آپ aنے فرمایا’’لمن شاء کراہیۃ أن یتخذہا الناس سنۃ‘‘جو چاہے(وہ پڑھ لے)اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ لوگ اسے سنت نہ بنا لیں ]      (صحیح بخاری رقم الحدیث ۱۱۸۳)

🚫لیکن غیر مقلدین اس کو سنت سمجھتے ہیں اور جو اس کو سنت نہ سمجھے تو اس کو ظالم اور بدعتی کہتے ہیں دیکھئے فتاوٰی علمائے حدیث ۴/۲۳۵

یہ چند روایات صحیح بخاری سے نقل کیں چونکہ یہ مضمون طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا اس کے لئے پوری ایک کتاب ہونی چاہیے یہ صرف ایک نمونہ ہے ان کے لئے جو لوگ بخاری بخاری کرتے رہتے ہیں
اور خود بخاری پر عمل نہیں کرتے
 بلکہ مخالفت کرتے ہیں

جاری ہے
اگلے پوسٹ کا عنوان ہوگا ان شاء اللہ‎ 👇👇👇

 {علمی دنیا میں غیر مقلدین خصوصًا زبیر علی زئی کا انوکھا فراڈ}

No comments:

Post a Comment