کسی ساتھی نے کچھ غیر مقلدوں کے سوال میرے پاس لا کر انکا جواب طلب کیا ہے
تو جواب حاضر خدمت ہے 👇👇👇👇
اس کا جواب دے،مہلت تا قیامت!!!!!
مقلدوں سے چند سوالات کے جوابات درکار ہیں ؟؟-
سوال نمبر ١: تقلید فرض ہے واجب ہے یا سنّت ؟؟ قرآن و احدیث نبوی یا ائمہ اربعہ کے اقوال کی روشنی میں جواب دیں ؟؟؟
🚫الجواب ۔ تقلید غیر مجتہد پر واجب ہے پھلے آپ خود فیصلہ کرو آپ کیا ہو مجتہد ہو یا مقلد کیوں کہ انسان یا تو مقلد ہوگا یا مجتہد آپ کے بڑے مولوی جی
علامہ ابن تیمیہؒ ( وفات 728 ھ) لکھتے ہیں " ” دین کا داعی دو حال سے خالی نہیں، مجتہد ہو گا یا مقلد، ۔
ﺍﮔﺮ ﺁﺩﻣﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺟﺎﮨﻞ
ﮨﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﻦ ﻭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺤﮑﻢ
ﻗﺮﺁﻥ ﻋﻠﻤﺎﺀﻭ ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ، ﻏﯿﺮ
ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮐﺎ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺑﻼ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﮐﮯ
ﺷﺮﯾﻌﺖ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ
ﺍﻧﺪﯾﺸﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
تقلید محمود بمعنی غیر مجتھد کا مجتھد کی پیروی،عامی کا مفتی کی پیروی کرنا یا جاہل کا اہل علم کی پیروی کرنا
بنص قران واجب ہے فاسئلو ااھل الذکر ان کنتم لا تعلمون الایۃ
اب اپ سے ہمارا سوال
👈اللہ تعالی نے انسانوں کی جو یہ تقسیم فرمائی ہے کہ کچھ لوگ اہل ذکر ہوتے ہیں، باقی ناواقف، ان ناواقفوں کو اہل ذکر سے سوال کا حکم دیا ہے ، آپ اس تقسیم کے قائل ہیں یا نہیں؟
👈اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو اہل استنباط قرار دیا ہے باقی لوگوں کو ان کی طرف لوٹنے کا حکم دیا ہے ۔ اس تقسیم کے آپ قائل ہیں یا نہیں؟
👈اہل قرآن کہتے ہیں کہ ہم نبی پاک صلی الله علیه وسلم کے ارشادات کا انکار نہیں کرتے، ہاں صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث کو ہم قرآن کے برابراور دین کا ماخذ نہیں مانتے ۔ تو اہلحدیث ان کو منکرین حدیث کہتے ہیں لیکن خود چار فقہوں کا انکار کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو منکرین فقہ نہیں کہتے، یہ کیسا تضاد ہے ۔
سوال نمبر ٢: اگر تقلید فرض ہے یا واجب ہے یا سنّت ہے تو اس کو خود آئمہ اربعہ نے اپنی زندگی میں اپنے اوپر لاگو کیوں نہیں کیا - کیا اس طرح وہ خود اس فرض واجب یا سنّت عمل کو چھوڑنے کی بنا پر گناہ گار نہ ہوے ؟؟
🚫الجواب ۔مجتہد پر اجتہاد واجب ہے اور اپنے جیسے مجتہد کی تقلید حرام ہے۔ ہاں اپنے سے بڑے مجتہد کی تقلید جائز ہے یا نہیں، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جواز کے قائل ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عدم جواز کے۔
ائمہ نے یہ فرمایا :: جو شخص خود اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے اس پر اجتہاد واجب ، تقلید حرام ہے ۔ جو خطاب انہوں نے مجتہدین کو کیا تھا ان کو عوام پر چسپاں کرنا یحرفون اکلم عن مواضعه کی بدترین مثال ہے ۔ ہمارے ہاں مجتہد پر اجتہاد واحب ، غیر مجتہد پر تقلید واجب ہے اور غیر مقلد پر تعزیر واجب ہے ۔
ائمہ اربعہ کے زمانے میں قلت وسائط کے سبب وہ جلد ہی محنت کرکے اجتہاد کے مراتب پا گئے تھے ۔اور مجتھد عام حالات میں اجتھاد کرتے ہیں نہ تقلید اور کبھی کبھار تقلید کرنا اپنے سے اعلم کی اجتھاد کے منافی نہیں کماقال ابن قیم رح
کتاب و سنت پر عمل کرنا مجتہد پر فرض ہے اور مقلد پر بھی فرض ہے لیکن مجتہد اپنے اجتہاد کی روشنی میں عمل کرتا ہے اور مقلد ان کی راہنمائی میں کتاب و سنت پر عمل کرتا ہے جیسے آنکھوں والا چاند کو دیکھ کر روزہ رکھتا ہے اور نابینا پوچھ کر ، جیسے نماز میں قبلہ رو ہونا بینا اور نابینا دونوں پر فرض ہے ، بینا دیکھ کر اور نابینا بینا سے پوچھ کر ۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام مجتہد سے انتہائی زیادہ ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع مسائل منصوصہ غیر معارضہ محکمہ میں ہے ، مجتہد کی اتباع ان مسائل میں ہے جہاں اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت نہیں ملی ، اس لئے یہاں مقابلے کی صورت ہی نہیں ہے
اب ہمارا سوال
👈اہل قرآن کا کہنا ہے کہ اہلحدیث یہ دعوی کرتے ہیں کہ احادیث قرآن کا بیان اور قرآن کی تفسیر اور تشریح ہیں لیکن ہم نے بارہا چیلنج دیا کہ آیئے ہم ترتیب وار ایک ایک حدیث پڑھتے جائیں گے آپ ہر حدیث کے موافق ایک ایک صریح آیت لکھاتے جائیں مگر ایک بھی اہلحدیث آج تک اس چیلنج کو قبول نہ کرسکا کیا وجہ ہے
👈ان کا کہنا ہے کہ اہلحدیث کو قرآن کی بالکل سمجھ نہیں ہے چناچہ نواب صدیق حسن نے تفسیر لکھی تو مولوی ثناء اللہ نے لکھا کہ سب شوکانی کی تفسیر ہے)مظالم روپڑی ص 21 ( مولانا ثناء اللہ نے تفسیر لکھی تو علماء عرب و عجم نے اسے کافر اور مرتد قرار دیا۔ مولوی عنایت اثری نے تفسیر لکھی تو عبد اللہ روپڑی نے اس کو غلط قرار دیا ۔ عبد اللہ روپڑی نے تفسیر لکھنا شروع کی تو مولوی ثناء اللہ نے اس تفسیر کا نام کوک شاستر رکھا
سوال نمبر ٣: اگر تقلید آئمہ اربعہ یا مجتہد کے لئے فرض یا واجب نہیں بلکہ صرف عامی (غیر مجتہد) پرفرض یا واجب ہے تو کیا آئمہ اربعہ پیدائشی طور پر عالم و فاضل تھے کہ وہ تقلید سے مستثنیٰ ہو گئے ؟؟ یا پیدا ہوتے ہی انہوں نے قرآن و احادیث نبوی کے علوم پر دسترس حاصل کرلی تھی کہ ان پر تقلید فرض نہ ہوئی ؟؟
🚫الجواب ۔جس طرح ان سات قاریوں سے پہلے بھی قرأت پڑھنے والے سب مسلمان تھے اور بعد میں ان قرأتوں کے پڑھنے والے بھی مسلمان ہیں، فرق اتنا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم اس قرأت کو قاری حمزہ کی نہیں کہتے تھے ۔ اسی طرح صحاح ستہ والوں سے پہلے مسلمان احادیث پر عمل کرتے تھے لیکن یہ نہیں کہتے تھے کہ میں ترمذی کی حدیث پر عمل کررہا ہوں، تو نسائی کی حدیث پر، اس لئے صرف اس نام کی وجہ سے پہلے اور پچھلے اسلام میں فرق کرنا ایسی جہالت ہے جیسے پہاڑوں پر برف باری ہوئی ہو گو پانی کی شکل میں بہہ نکلی، لوگ اسے پانی کہتے تھے، وہی پانی دریا کی شکل میں آیا تو اسے دریا کہنے لگے ، دریا نہر میں آیا تو اس کا نام نہر کا پانی ہوا ، نالے میں جانے سے نالے کا پانی کہا جانے لگا ۔ پانی ایک ہی ہے، مختلف نام راستے کے تعارفی نام ہیں ۔ وہی طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو تو اسے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے ، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنهم میں پھیل گیا تو اس کا نام صحابہ کرام رضی اللہ عنهم کا طریقہ قرار پایا ، جب فقہ حنفی میں مرتب ہوگیا تو اب اس کا نام فقہ حنفی قرار پایا ، یہ کہنا کہ فقہ حنفی اور ہے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ، یہ ایسی جہالت ہے جیسے کوئی کہے کہ نہر کا پانی اور ، دریا کا اور ، یا یہ کہ قاری عاصم رحمہ اللہ کی قرأت اور ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ، قاری حمزہ رحمہ اللہ کی اور ، ان سوالات سے معلوم ہوا کہ غیرمقلد بننے کے لئے جاہل مرکب بننا ضروری ہے۔
اب فرمائیں ؟ کہ پہلی دو صدیوں کے مسلمان صحاح ستہ کو مانے بغیر مسلمان تھے یا نہیں ، ان کو آپ منکر حدیث مانیں گے یا حدیث والے ؟ اب اگر کوئی پہلی دو صدیوں کی طرح صحاح ستہ والوں کو نہ مانے، آپ اس کو خیرالقرون والا مسلمان مانیں گے یا نہیں ؟ اسی طرح آج بھی کوئی شخص ساتوں قرأتوں کو ترك کرکے یہ چاہے کہ میں پہلی صدی کا مسلمان ہوں تو کیا آپ نے اس پر عمل کرلیا یا نہیں ؟
👈ہمارا سوال
👈کیا صحاح ستہ والے پیدائشی طور پر محدث تھے
صحاح ستہ والے افضل تھے یا خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم ؟ تو پھر خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی کتابوں کو صحاح ستہ میں کیوں شامل نہ کیا گیا ؟
👈قرآن و حدیث میں اجماع امت کے منکر کو دوزخی کہا گیا ہے مگر آج اجماع امت کے منکر اپنے کو اہلحدیث کہتے ہیں جو کسی حدیث سے ثابت نہیں
👈آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فقہ کے مخالف کو شیطان اور منافق فرمایا۔ فقہ کے مخالف کا نام اہلحدیث کسی حدیث میں نہیں
سوال نمبر ٤: اگر تقلید صرف عامی (غیرمجتہد) کے لئے واجب ہے تو جب ایک مقلد عامی علم کی منازل طے کرتا ہوا مجتہد بن جاتا ہے تب بھی وہ حنفی ، شافعی ، حنبلی و مالکی کہلاتا ہے اور زندگی بھر مقلد ہی رہتا ہے - احناف کے بہت سے عالم مرتے دم تک امام ابو حنیفہ کے مقلد ہی رہے- ایسا کیوں ؟؟
🚫الجواب ۔ہھھھی عجیب جہالت برا سوال ہے کیا آپ کے وہاں کوئی علم کے منازل طے کر کے مجتہد بنا ہو تو پیش کرے غیر مقلد مرتے دم تک رائے ناقص از خودرائی ، کم علمی ، کم فہمی ، بدفہمی ، کج فہمی ، اور خوش فہمی کو کہتے ہیں ۔
اسی کا نام غیرمقلدیت ہے
ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ
ﺷﺮﺍﺋﻂ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ، ﺍﮔﺮ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ، ﭘﮩﻠﮯ
ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ
👈اب ہمارا سوال
👈اجتہادی اختلاف کیا ہوتا ہے؟ کون کرتا ہے اجتہاد ؟ جو نہیں جانتا اجتہاد وہ کیا کرے؟ اور کس کو اجتہاد کی اجازت نہیں؟
👈اللہ تعالی نے ہر قوم سے ایک یا چند ایک کو فقیہ بننے کا حکم دیاہے اور باقی ساری قوم کو ان کی فقہ ماننے کا حکم دیا ہے یا نہیں؟
👈آپ کے فرقہ میں بھی یہ تقسیم ہے یا آپ کے فرقہ کے سب لوگ فقیہ ،اہل ذکر اور اہل استنباط ہیں؟
سوال نمبر ٥: صحابہ کرام رضوان الله اجمعین آئمہ اربعہ سے کہیں بہتر قرآن و احادیث نبوی کو سمجھنے والے تھے - فقہ کے مسائل ان کے دور میں بھی تھے- پھر ایک صحابی نے کسی دوسرے صحابی رسول کی تقلید کیوں نہ کی- ؟؟-
🚫الجواب ۔تقلید شخصی ہر زمانہ میں رہی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورے یمن میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی اور دور صحابہ رضی اللہ عنهم میں ہر شہر کے لوگ اپنے شہر کے مجتہد کی تقلید کرتے تھے ۔تقلید شخصی خیرالقرون میں موجود تھی البتہ اسے شرک اور بدعت کہنا دور وکٹوریہ کی بدعت ہے
تقلید کا تعلق چونکہ اجتہادی مسائل سے ہے ، اس لئے اجتہاد کا دائرہ کار کا پتہ چلنے سے تقلید کی ضرورت بھی واضح ہوتی ہے ۔ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے 9ھ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ فرمایا تو پوچھا : اے معاذ : فیصلہ کیسے کروگے ؟ تو انہوں نے عرض کیا : کتاب اللہ سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فان لم تجد فیه عرض کیا : بسنة رسول الله ۔ فرمایا فان لم تجد فیه عرض کیا : اجتهد برأیی و لا آلو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ألحمد لله الذی وفق رسول رسول الله لما یرضی به رسول الله ( ابوداؤد ، ترمذی ) اس سے معلوم ہوا کہ جو مسئلہ اور حکم کتاب و سنت میں صراحۃ نہ ملے وہاں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وضاحت یوں ہے کہ
مسائل فرعیہ کی دو قسمیں ہیں : منصوصہ ، غیر منصوصہ ۔
پھر منصوصہ کی دو قسمیں ہیں : متعارضہ ، غیر متعارضہ ۔
پھر غیر متعارضہ کی دو قسمیں ہیں : محکمہ ، محتملہ
تمہید :دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیکر آخر خیرالقرون تک اہل سنت والجماعت میں مجتہدین اجتہاد کرتے تھے اور غیر مجتہدین ان کی تقلید کرتے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم اور تابعین و تبع تابعین کرام رحمہ اللہ میں سے ایک نام بھی پیش نہیں کیا جاسکتا جو نہ اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو اور نہ تقلیدآ کتاب و سنت پر عمل کرتا ہو اور اپنے کو غیرمقلد کہتا ہو ۔ ہم فی حوالہ سو روپے انعام دیں گے ۔ خیرالقرون کے بعد اجتہاد کی ضرورت نہ رہی اس لئے سب اہل سنت ائمہ اربعہ رحمہ اللہ میں سے کسی کی تقلید کرتے تھے ۔ اس لئے چار ہی قسم کی کتابیں ملتی ہیں : طبقات حنفیہ ، طبقات مالکیہ ، طبقات شافعیہ ، طبقات حنابلہ۔
جس طرح ملکہ وکٹوریہ کے دور سے پہلے طبقات مرزائیہ نام کا ذکر کہیں نہیں ملتا اس لئے کہ مرزائیوں کا وجود ہی نہیں تھا ، اسی طرح طبقات غیرمقلدین نامی کوئی کتاب کسی محدث یا مؤرخ کی لکھی ہوئی ملکہ وکٹوریہ سے پہلے کہیں نہیں پائی گئی کیونکہ غیرمقلدین کا فرقہ کہیں نہیں تھا ۔
نوٹ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں پورے یمن میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی تقلید شخصی ہوتی تھی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم تابعین اور تبع تابعین رحهم اللہ تعالی علیہ کے دور میں سب لوگ اپنے شہر کے مجتہد مفتی کی تقلید شخصی کرتے تھے۔
چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم تابعین اور تبع تابعین رحهم اللہ تعالی علیہ میں غیرمقلدیت کا نام و نشان تک نہ تھا اس لئے غیرمقلدین کے بدعتی ہونے میں کوئی شک نہیں
چاروں اماموں سے پہلے بھی ہر قوم اپنی قوم کے فقیہ کی تقلید کرتی تھی ۔ لیفقهوا فی الدين و لینذروا قومهم اذا رجعوا الیهم لعلهم یحذرون ( سورۃ التوبہ آیت : 122 ) چاروں اماموں سے پہلے اپنے علاقے یا قوم کے مجتہد کی تقلید ہوتی تھی : لعلمه الذین یستنبطونه منهم ( سورۃ النساء آیت : 83 ) اس وقت واجب تھی لیکن چونکہ ان کے مذاہب مدون نہ تھے اور نہ عمل متواتر ہوا ، اس لئے ان کی وفات کے بعد ان کا مذہب مٹ گیا ، تقلید ختم ہوگئی جیسے مسجد کے امام کی وفات کے بعد اقتداء ختم ہوجاتی ہے
ائمہ اربعہ رحمہ اللہ سے پہلے مکہ مکرمہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، ان کے بعد حضرت عطاء رحمہ اللہ کی تقلید ہوتی رہی مدینہ میں اپنی اپنی خلافت میں خلفاء راشدین رضی الله عنهم ، زید بن ثابت ، ان کے بعد فقہاء سبعہ کی تقلید ہوتی رہی ، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، انکے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ پھر حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی تقلید ہوتی رہی ، بصرہ میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی تقلید ہوتی رہی ، ان کے چونکہ مذاہب مدون نہ ہوسکے اس لئے ان کے جو مسائل عملا متواتر تھے ان کو ائمہ اربعہ نے اپنی فقہ میں لے لیا ، جو ان سے شاذ اقوال مروی تھے ان کو ترک کردیا ، یہ ایسے ہی ہے
جیسے صحابہ رضی اللہ عنهم کے زمانہ میں بہت سے قاری تھے مگر انہوں نے اپنی قرأت کو مکمل طور پر مدون نہ فرمایا ، پھر سات قاریوں نے صحابہ رضی اللہ عنهم کی متواتر قرأت کو مدون کیا ، شاذ و متروک قرأت کو ترک کردیا ، اب ان سات متواتر قرأتوں میں تلاوت کرنے میں صحابہ رضی اللہ عنهم کی متواتر قرأت پر عمل ہورہا ہے ، البتہ ان سات قرأتوں کے علاوہ کوئی قرأت صحابہ رضی اللہ عنهم کی طرف منسوب ہو تو اس کی تلاوت جائز نہیں کیونکہ متواتر کے خلاف شاذ واجب الترک ہے ۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنهم کے متواتر فقہی مسائل پر ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کی تقلید میں عمل ہورہا ہے ، ان متواترات کے خلاف کوئی شاذ قول کسی صحابی رضی اللہ عنه ، مجتہد یا تابعی کی طرف منقول ہو تو اس پر عمل جائز نہیں کیونکہ متواتر کے خلاف شاذ واجب الترک ہے
👈اب ہمارا سوال
👈جو لوگ اتنا علم نہیں رکھتے کہ خود قرآن و حدیث کی تحقیق کر سکیں اور وہ آپ کے علماء پر بھروسہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے ؟ اس اختلاف کے بعد تو وہ آپ کے علماء کی طرح ہی گمراہ قرار نہیں دیئے جائیں گے؟
👈آپ کے فرقہ کے وہ لوگ جو اہل استنباط اور فقیہ نہیں اور ان پر بھی کتاب و سنت کے مطابق زندگی گزارنا لازم ہے یا نہیں؟
👈اگر وہ لوگ احکام کے پابند ہیں تو ان کیلئے ایسے اجتہادی احکام جاننے کا کیا راستہ ہے اور اس راستہ کا اختیار کرنا ان پر فرض ہے یا واجب؟
سوال نمبر ٦: اگر امّت مسلمہ کا آئمہ اربعہ کی تقلید پراجماع ہو چکا ہے - تو حضرت عیسیٰ علیہ سلام قرب قیامت کے وقت اپنے نزول کے بعد کس امام کی تقلید کریں گے ؟؟ کیا وہ اپنے آپ کو حنفی کہلائیں گے یا شافعی کہلائیں گے یا حنبلی کہلائیں گے یا مالکی کہلائیں گے ؟؟
🚫الجواب ۔ لگتا ہے آپ کے پاس عقل نام ki کوئی چیز نہیں ہے حضرت عیسی علیہ السلام امام حاکم عادل مجتھد ہونگے بنص حدیث۔۔۔ اور اس کا اجتھاد اول تو فقہ اربعہ سے باہر نہیں ہوگا بلکہ ان موافق ہوگا اور اگر چند مسائل میں وہ باہر نکلے تو مجتھد ہونگے
آپ کی طرح غیر مقلد نہیں ہوگے معاز اللّه
👈اب ہمارا سوال
👈آپ نے عمر بھر اللہ کی عبادت اور اللہ کے بندوں سے معاملات اجتہادسے کئے یا تقلید سے ؟
👈اجتہاد کی کیا کیا شرائط ہیں؟ آپ سب میں موجود ہیں یا بعض میں، جو لوگ اجتہاد کی قوت نہ رکھتے ہوئے اجتہاد کریں وہ فافتوا بغیر علم فضلوا و اضلو کے مصداق ہیں یا نہیں؟
سوال نمبر ٧: اگر کسی کی پیروی کا نام تقلید ہے تو ائمہ اربعہ کی تقلید ہی کیوں؟؟ - نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی تقلید کیوں نہیں کی جا سکتی ؟؟-
🚫الجواب ۔یاد رہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو شرعی حکام معلوم کرنے کے 3 تین طریقے تھے : جو لوگ ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے وہ ہر مسئلہ دریافت کرلیتے ، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوتے وہ اگر مجتہد ہوتے تو اجتہاد کرتے جیسے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یمن میں ، جو مجتہد نہ ہوتے تو وہ اپنے علاقے کے مجتہد کی تقلید کرتے جیسے اہل یمن ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دو طریقے باقی رہے : مجتہدین اجتہاد کرتے اور غیر مجتہدین تقلید کرتے ۔ خیرالقرون کے بعد اجتہاد کی ضرورت باقی نہ رہی اس لئے وہ ختم ہوگیا ، اس کے بعد صرف تقلید ہی باقی رہ گئی : یہ تقلید شروع سے پہلے دن سے ہے ۔ خیرالقرون میں کچھ مجتہدین ہوتے تھے ، اب صرف مقلدین باقی رہ گئے ہیں ، یہ تفصیل مقدمہ ابن خلدون میں ہے ۔ اس اجماع میں عملآ تمام محدثین ، مفکرین ، فقہاء ، سلاطین شامل ہیں جیسا کہ کتب طبقات سے روز روشن کی طرح واضح ہے ۔
ﺗﻘﻠﯿﺪ ﺗﻮ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺎﮨﺮ
ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺎ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺗﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﻏﯿﺮ
ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﻣﺸﮑﻮﮎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ
ﺍﻥ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺟﺎﮨﻞ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﭘﺮ
ﺩﺳﺘﺮﺱ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ
ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺩﺭﺟﮧ ﺟﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﮔﺴﺘﺎﺧﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ
ﮨﮯ۔
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﯾﮧ ﺣﺮﮐﺖ
ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﺁﭖ ﭘﺮ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ
ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﻼ ﺷﺒﮧ ﺳﯿﺪﮬﮯ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ
ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻋﻤﻞ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ،
ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﻭﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺩ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﮯ
ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻏﯿﺮ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ،
ﺑﻠﮑﮧ ﺍﷲ ﻭ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮨﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻏﯿﺮ
ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﯾﮧ ﻏﯿﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﯾﻦ ﻭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ
ﺣﻘﺎﺋﻖ ﻭ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﮐﺎ ﺭﺍﺯ ﺩﺍﮞ ﮨﮯ
👈ہمارا سوال
👈 غیرمقلدین سے ہے کہ قرآن و حدیث سے جواب دیں کہ اجماع کی تعریف کیا ہے ؟ اجماع کن کا اور بخاری کی اصح کتب ہونے پر اجماع کب ہوا اور کہاں ہوا اور کن کا ہوا ؟
👈کیا آپ تمام مسائل میں اجتہاد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یا بعض میں، اپنے خاص اجتہاد کے کم از کم دس نمونے پیش فرمائیں اور کم از کم دس مسائل وہ لکھیں جن میں آپ نے تقلید فرمائی ہو؟
👈اجتہادی مسائل میں مجتہد اجتہاد کرے تو اس میں صواب پر دو اجر اور خطاء پر بھی ایک اجر ملے گا ، تو یہ فرمان نبوی صلی الله علیه وسلم ہے ، مگر اہلحدیث کا کہنا ہے کہ یہ رائے اور اجتہاد کار شیطان ہے ، یہ کس حدیث میں ہے؟
سوال نمبر ٨: مقلدوں کے نزدیک نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا بیان کردہ دین اتنا مشکل تھا کہ اس کو سمجھنے کے لئے چار اماموں کی ضرورت پڑ گئی (نعوزو باللہ) - لیکن ان آئمہ اربعہ کا بیان کردہ دین اتنا آسان ہے کہ اس کو سمجھنے کے لئے کسی پانچویں امام کی ضرورت قیامت تک کے لئے نہیں - ایسا کیوں ہے ؟؟
🚫الجواب ۔یہ باطل وسوسہ بهی ایک عام آدمی بہت جلد قبول کرلیتا ہے ، لیکن اس وسوسہ کے جواب میں عرض ہے کہ آیت مذکور کا اگریہ مطلب ہے کہ قرآن سمجهنے کے لیئے کسی استاذ ومعلم ومفسر کی ضرورت نہیں ہے ، اور ہر بنده خود کامل ہے تو پھر " فقه " کے ساتھ حدیث بهی جاتی ہے ، اور اگرقرآن کے ساتھ اس کےآسان ہو نے کے باوجود کتب احادیث صحاح ستہ اور ان کے شروح وحواشی کی بهی ضرورت ہے ، تو پھر کتب " فقه " کا بهی دین سے خارج ہو نا بڑا مشکل ہے ، اگرفہم قرآن کے لیئے حدیث کی ضرورت ہے تو فہم حدیث کے لیئے" فقه " کی ضرورت ہے ، اگرقرآن سمجهنے کے لیئے رسول الله صلى الله عليه وسلم کی حدیث وتعلیم وارشادات کی ضرورت ہے ، تو آپ کی حدیث سمجهنے کے لیئے آپ کے خاص شاگرد صحابہ کرام اور ان کے شاگرد تابعین وتبع تابعین رضی الله عنہم کی تعلیمات وارشادات وتشریحات کی ضرورت ہے ، اگرحدیث قرآن کی تفسیر ہے تو " فقه " حدیث کی شرح ہے ، اور فقہاء کرام نے ( معاذ الله ) دین میں کوئی تغیر تبدل نہیں کیا بلکہ دلائل شرعیہ کی روشنی احکامات ومسائل مستنبط ( نکال ) کرکے ہم ارے سامنے رکھ دیئے ، جو کام ہمیں خود کرنا تها اور ہم اس کے لائق واہل ہرگز نہ تھے ، وه انہو ں نے ہماری طرف سے ہمارے لئے کردیا ، یہ فقہاء امت تو بے انتہاء شکریہ وتعریف وتوصیف قابل ومستحق ہیں ، درحقیقت ان حضرات کا امت مسلمہ پر اتنے بڑے احسانات ہیں ، کہ پوری امت مل کر بهی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی ، امت پر لازم ہے ان کے لیئے ہمیشہ دعاء خیر کرے ، اسی لیے تمام اہل علم نے فقہاء کرام کے عظیم الشان کارناموں کی تعریف وتوصیف کی ہے ، اور ان کو دین شناس اور امت مسلمہ کاعظیم محسن ومحافظ قرار دیا ہے ، اور اگلے پچهلے عوام وخواص سب ان کی تعریف وعظمت میں رطب اللسان ہیں . فجزاہم الله عنا وعن المسلمین خیر الجزاء ،
منکرین حدیث اورنیچریوں اور قادیانی امت نے یہ دعوی کیا کہ فہم قرآن کے حدیث کی ضرورت نہیں ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟؟ دین کو ایک بے معنی چیز اور کهیل تماشہ بنا دیا ، کیونکہ ان گمراه لوگوں نےہر کس وناکس کو اختیاردے دیا کہ قرآن کے جو معنی خود سمجھو بیان کرو ، اسی طرح حدیث کے ساتھ اگر " فقه " اور "اقوال فقہاء" اور فہم سلف کو لازم نہ کیا جائے ، جیسا کہ فرقہ جدید اہل حدیث کے بعض جہلاء عوام کو بے راه کرنے کے لیے کہتے ہیں ، تو پھر حدیث کا بهی وہی حال ہو گا ، جو منکرین حدیث ، نیچریوں ، اور قادیانیوں وغیره گمراه لوگوں نے قرآن کے ساتھ کیا ، جس کا جو جی چاہے گا حدیث کا معنی بیان کرے گا ، اور جب حدیث کا معنی غلط ہو گا تو قرآن کا معنی کس طرح صحیح ره سکتا ہے ، نتیجہ کیا نکلے گا گمراہی اور تباہی بربادی ( نعوذ بالله ) بدقسمتی سے ہندوستان میں پیدا شده نومولود نام نہاد فرقہ اہل حدیث کے بعض جہلاء زمانہ نے جہاں دیگر وساوس کا سہارا لے کرعوام کو دین سے برگشتہ کیا ، وہاں یہ وسوسہ بهی بڑے زور وشور سے پهیلایا کہ " فقه " قرآن وحدیث کے مخالف چیز کا نام ہے ، اور " فقہ وفقہاء " کی اتباع شرک وبدعت ہے ، اورآج ہم مشاہده کر رہے ہیں کہ نام نہاد فرقہ اہل حدیث میں شامل جہلاء جن کو ناواقف عوام شیخ وامام کا درجہ دیتے ہیں ، انهی وساوس کے ذریعہ سے عوام کو گمراه کر رہے ہیں اور عوام کو سلف صالحین کی اتباع سے نکال کر اپنی اتباع وتقلید میں ڈال رہے ہیں . فإلى الله المشتكى وہو المُستعان
چار ائمہ کی ضرورت اجتھادی مسائل میں پڑھ گئی اور اجتھاد مسائل ہر دور میں سمجھنا آسان نہیں تھا دور صحابہ میں بھی نئے پیش آنے والے مسائل میں کبار صحابہ کی طرف رجوع ہوتا رہتا۔۔۔ ہاں چار ائمہ کے اصول فقہ اور اکثر مسائل مدون ومنقح ومیسر ہیں اس سے پہلے کوئی فقہ یا اصول فقہ مدوون ومنقح نہیں تھا۔۔ اس لئے اجتھادی مسائل فقہ اربعہ ہی آسان ہے۔۔۔ باقی جو اجتھادی مسائل کے علاوہ دین کی باتیں ہیں وہ واضح آسان ہیں اور ہر دور میں واضح وآسان رہی ہیں
ہمارے سوال
👈کیا آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا تھا کہ اے اہل قرآن ! وتر پڑھو اور کیا یہ بھی فرمایا تھا کہ اہل قرآن خاص اہل اللہ ہیں۔کیا ان احادیث میں اہل قرآن سے موجودہ فرقہ اہل قرآن یعنی منکرین حدیث مراد ہے ؟
(2) کیا اس لفظ : اہل قرآن سے علمی طبقہ یعنی حفاظ کرام مراد ہیں یا کوئی مذہبی فرقہ؟
(3) کیا انگریز کے دور حکومت سے پہلے کسی جاہل کو اہل قرآن کہا گیا ہے ؟
(4)کیا پاک و ہند میں 90ھ میں جو مسلمان آئے وہ سب اہل قرآن تھےکیونکہ اس زمانہ میں صحاح ستہ کا وجود نہ تھا؟
(5)کیا فرقہ اہل قرآن کا وجود کسی پہلی اسلامی حکومت میں تھا، ان کا ترجمہ قرآن، تفسیر قرآن، نماز کی کتاب، ان کا مدرسہ، ان کی مسجد، ان کی قبر بھی کسی اسلامی ملک میں تھی؟
(6)اس فرقہ نے جب اپنا نام اہل قرآن رکھ لیا تو اب قرآن ان کا ہوگیا ، اہلحدیث کا قرآن سے کوئی تعلق رہا یا نہیں؟
اہلحدیث غیر مسلم
(7) کراچی کے مسعودی فرقہ نے اہلحدیث سے کٹ کر اپنا نام جماعت المسلمین رکھ لیا، اب قرآن و حدیث میں جہاں مسلم کا لفظ آتا ہے وہ اپنا فرقہ مراد لیتا ہے اور اہلحدیث کو غیر مسلم کہتا ہے ، کیا اس میں وہ حق بجانب نہیں؟
(8) قرآن پاک میں لفظ ربوہ دو جگہ آیا ہے کیا اس سے قادیانیوں کاشہر ربوہ شہر مراد ہے ؟ نہیں تو کیوں؟
(9)کیا قرآن پاک میں جہاں حزب اللہ کا لفظ آیا ہے اس سے کیپٹن عثمانی کراچی والے کا فرقہ مراد ہے؟
(10) اہل قرآن کا کہنا ہے کہ جب سے قرآن ہے اس وقت سے اہل قرآن ہیں۔ جبقرآن سچا ہے تو اہل قرآن یقینا سچے ہیں۔ اہل قرآن کو اس وقت تک جھوٹا نہیں کہا جاسکتا جب تک قرآن کو جھوٹا نہ کہا جائے؟ یہ اہل قرآن والے کہتے ہے
سوال نمبر ٩: اگر کسی کی پیروی کا نام تقلید ہے تو پیروی اس بات کی کی جاتی ہے جو حتمی ہو - مقلدوں کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ اپنے امام کی جس بات پر عمل کررہے ہیں وہ حتمی ہے - اور ان کے امام اس پر آخری وقت تک قائم و دائم رہے ؟؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ انہوں نے کسی مسلے میں اپنا موقف تبدیل کرلیا ہو ؟؟ پھر ایسی تقلید کا فائدہ ؟؟
🚫الجواب ۔آپ کس طرح سے پتا لگائیں گے کہ کس کا مسئلہ 100 فیصد صحیح ہے اور کون صریح غلطی پر ہے؟ اور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی اس پر کی جانے والی تحقیق 100 فیصد درست ہی ہوگی
آج کل سو 100% فیصد مسلمان ایسے ہیں جو اس لئے مسلمان ہیں کہمسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ، وہ کسی غیر مسلم کے سامنے اسلام کی صداقت کودلائل سے بیان نہیں کرسکتے خود اسلام کو بلامطالبہ دلیل تسلیم کیا ہے ،یہ لوگ مسلمان ہیں یا کافر ؟ اگر ان پر رحم فرماکر ان کو مسلمان کہا جائے تو فرمایئے کہ جب ایمانیات میں تقلید جائز ہے تو فروعات میں کیسے کفر ہوگی ؟
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺴﯽ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ
ﻓﺘﻮﯼ ﮐﻮ ﺭﺏ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﺎ، ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ
ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻋﺎﻟﻢ
ﻣﺠﺘﮩﺪ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﷲ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﮧ
ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ
ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ﻭﺍﻗﻒ ﮐﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﯾﮩﯽ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻋﺎﻟﻢ
ﺍﻭﺭ ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮐﮯ ﻓﺘﻮﯼ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﮮ، ﺧﻮﺩ ﺳﮯ
ﺟﺎﮨﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻧﺎ
ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ، ﺍﺏ ﻭﮦ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﻮ ﺳﻨﺖ
ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﺳﻨﺖ ﺳﻤﺠﮭﮯ، ﺍﮔﺮ ﻭﺍﺟﺐ ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﻭﺍﺟﺐ
ﺳﻤﺠﮭﮯ، ﺍﮔﺮ ﺟﺎﺋﺰ ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ
ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﺳﻤﺠﮭﮯ۔ ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﺟﺎﮨﻠﻮﮞ
ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﻋﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻣﺠﺘﮩﺪﯾﻦ ﮐﮯ
ﺫﻣﮧ ﻣﺠﺘﮩﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺟﺐ
ﮨﮯ۔
ﻣﮕﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺮ ﻋﺎﻡ ﻭ
ﺧﺎﺹ ﮐﻮ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻋﻠﻢ
ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔
ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﺍﻥ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺍﻣﺎﻣﻮﮞ
میں ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺻﺪﻕ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺮﯾﮟ
ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﷲ ﻧﺠﺎﺕ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس عقیدہ سے عمل کرے گا کہ مجتہد صواب کو پہنچتا ہے اور خطاء کو بھی ، اس لئے مجتہد کا عمل یقینی ہے ، مقبول ہے ، جیسے تحری فی القبلہ والے کی نماز یقینآ مقبول ہے اور ایک اجر کا پکا یقین ہے ۔ چونکہ مجتہد فقط خطاء پر ماجور ہے اور دوسرے اجر کی مجتہد اور مقلد کی خدا کی رحمت واسعہ سے امید ہے ۔ اس کے برعکس غیرمقلدین کا عمل جو محض خودرائی پر مبنی ہے ۔ خودرائی کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ، وہ یقینآ مردود ہے اور اس پر گناہ لازم ہے ، وہ نیکی برباد گناو لازم کا مصداق ہے
👈اب ہمارا سوال
👈ائمہ مجتہدین کی تقلید کو شرک کہنا اور اپنے نفس کی تقلید کو فرض کہنا ، یعنی فہم محتہد حجت نہیں کیونکہ خطاء سے معصوم نہیں مگر فہم نااہل حجت ہے کہ معصوم عن الخطاء ہے مثل رسول و خدا کے ، اسی لئے جو لوگ اس کے فہم کا انکار کرتے ہیں تو وہ یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے ہمارے فہم کا انکار کیا بلکہ کہتے ہیں کہ اس نے خدا، رسول صلی الله علیه وسلم کا انکار کیا۔
👈آپ حضرات ائمہ لغت کی تقلید کرتے ہیں ، ائمہ صرف ، ائمہ نحو اورائمہ اصول کی تقلید کرتے ہیں ۔ راویوں کو ضعیف اور ثقہ کہتے ہیں تو علماءاسماءالرجال کی تقلید کرتے ہیں ۔ راویوں کی پیدائش ، رہائش ، موت میں مؤرخین کی تقلید کرتے ہیں ۔ حدیث کے صعیف و صحیح ہونے میں محدثیں کی تقلید کرتے ہیں ، یہ سب تقلیدیں کرتے ہیں کس کے حکم سے ؟ کیا خدا و رسول صلی الله علیه وسلم نے ان کی تقلید کا حکم دیا تھا ؟ اور آپ کے کوئی بڑے بزرگ فرماگئے تھے کہ بیٹا سب کی تقلید کرنا بس ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہ کرنا ؟
👈اگر کوئی کافر بلامطالبہ دلیل مسلمان ہوجائے تو اس کو مسلمان مانا جائے گا یا وہ ڈبل کافر ہوجائے گا ۔ ایک کفر پہلے تھا ایک کفر تقلیدی ہوگیا ؟
معاذاللہ : اگر کو مسلمان بلامطالبہ دلیل مرتد ہوجائے تو اس کومرتد مانا جائے گا یا مسلمان ؟
سوال نمبر ١٠: دور جدید میں بھی فروعی و فقہی مسائل موجود ہیں -جیسے سود یا لاٹری کی مختلف جدید صورتیں- ہوائی سفر میں نماز پڑھنا - شدید ٹھنڈ والے علاقوں میں وضو وغیرہ کا مسلہ - مقلد ان مسائل کو اپنے امام کی فقہ کی روشنی میں حل کیوں نہیں کرتے ؟؟ اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ مقلدوں کے آئمہ اربعہ کی فقہ صرف ان کے اپنے دور یا ان کے مرنے کے چند سالوں یا چند صدیوں تک کے لئے ہی کار آمد ہے ؟؟ کیا ایسا نہیں ہے ؟؟
🚫الجواب ۔جب ہر فقہ کے اصول فقہ مدون ہے تو موجودہ معتبر علمائے کرام نے ملکر یا انفرادی طور ہر نئے مسئلے حل تلاش کر سکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔۔۔
عجیب جہالت برا سوال ہے
عواء الکلب لایظلم البدر
ائمہ اربعہ رحمہ اللہ سے فقہ کے جو اصول متواتر ہیں ان میں مسائل ہیں دلائل نہیں تو بلاذکر دلائل مسائل کو جمع کرانا اور اس پر متواتر عمل ہونا یہ ائمہ اربعہ رحمہ اللہ سے جواز تقلید کا متواتر ثبوت ہے
👈ہمارا سوال
👈آپ حضرات کی تقریر و تحریر سے واضح ہے کہ ائمہ اربعہ کو تو دین کےٹکڑے کرنے والا کہا جاتا ہے لیکن ان کے مقلدین جیسے ابن حجر رحمہ اللہ ، امام نووی رحمہ اللہ کی جوتیاں تک چاٹی جاتی ہیں ۔ جب حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کی تقلید شرک ہے تو ابن حجر رحمہ اللہ کی تقلید کیا ایمان ہے ؟ عجیب بات حجر پرستی شرک ہو مگر ابن حجر رحمہ اللہ پرستی توحید ، مشرکین کا بھی کچھ ایسا ہی طرز تھا کہ رب الارباب ذی العرش کو چھوڑ کر اس کے بندوں کی بندگی کرتے تھے
👈دعوی تو یہ کرتا ہے کہ کہ خدا اور رسول صلی الله علیه وسلم کے سوا کسی کی بات حجت نہیں لیکن چند معدلوں اور جارحوں کو درمیان میں کھڑا کر رکھا ہے کہ ان کے قول کو نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث کے برابر بلکہ قرآن و سنت پر حاکم بنادیا ہے ، وہ شریک فی الالوہیت نہ ہوں تو شریک فی الرسالت ضرور ہیں بلکہ مصداق اتخذوا احبارهم و رهبانهم اربابا من دون الله کا ہیں۔
👈ائمہ اور اقوال میں ہر مکلف عامی کو تخییر ہے یا تخیر اور اس کی کیا سبیل ہے ؟
👈 یہ تخییر یا تخیر مطلق ہے یا ائمہ اربعہ رحمہ اللہ میں محصور ؟
👈تلفیق آپ کے ہاں جائز یا فسق ؟ مختلف اعمال میں یا ایک عمل میں بھی؟ قبل عمل یا بعد عمل بھی ؟
ہم جواب کے منتظر رہے گے
اس پوسٹ کا جواب دے،مہلت تا قیامت!!!!!
جیسے ہم نے پائنٹ ٹو پائنٹ جواب دیا
🖋Admin batil exposing centre
تو جواب حاضر خدمت ہے 👇👇👇👇
اس کا جواب دے،مہلت تا قیامت!!!!!
مقلدوں سے چند سوالات کے جوابات درکار ہیں ؟؟-
سوال نمبر ١: تقلید فرض ہے واجب ہے یا سنّت ؟؟ قرآن و احدیث نبوی یا ائمہ اربعہ کے اقوال کی روشنی میں جواب دیں ؟؟؟
🚫الجواب ۔ تقلید غیر مجتہد پر واجب ہے پھلے آپ خود فیصلہ کرو آپ کیا ہو مجتہد ہو یا مقلد کیوں کہ انسان یا تو مقلد ہوگا یا مجتہد آپ کے بڑے مولوی جی
علامہ ابن تیمیہؒ ( وفات 728 ھ) لکھتے ہیں " ” دین کا داعی دو حال سے خالی نہیں، مجتہد ہو گا یا مقلد، ۔
ﺍﮔﺮ ﺁﺩﻣﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺟﺎﮨﻞ
ﮨﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﻦ ﻭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺤﮑﻢ
ﻗﺮﺁﻥ ﻋﻠﻤﺎﺀﻭ ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ، ﻏﯿﺮ
ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮐﺎ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺑﻼ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﮐﮯ
ﺷﺮﯾﻌﺖ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ
ﺍﻧﺪﯾﺸﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
تقلید محمود بمعنی غیر مجتھد کا مجتھد کی پیروی،عامی کا مفتی کی پیروی کرنا یا جاہل کا اہل علم کی پیروی کرنا
بنص قران واجب ہے فاسئلو ااھل الذکر ان کنتم لا تعلمون الایۃ
اب اپ سے ہمارا سوال
👈اللہ تعالی نے انسانوں کی جو یہ تقسیم فرمائی ہے کہ کچھ لوگ اہل ذکر ہوتے ہیں، باقی ناواقف، ان ناواقفوں کو اہل ذکر سے سوال کا حکم دیا ہے ، آپ اس تقسیم کے قائل ہیں یا نہیں؟
👈اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو اہل استنباط قرار دیا ہے باقی لوگوں کو ان کی طرف لوٹنے کا حکم دیا ہے ۔ اس تقسیم کے آپ قائل ہیں یا نہیں؟
👈اہل قرآن کہتے ہیں کہ ہم نبی پاک صلی الله علیه وسلم کے ارشادات کا انکار نہیں کرتے، ہاں صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث کو ہم قرآن کے برابراور دین کا ماخذ نہیں مانتے ۔ تو اہلحدیث ان کو منکرین حدیث کہتے ہیں لیکن خود چار فقہوں کا انکار کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو منکرین فقہ نہیں کہتے، یہ کیسا تضاد ہے ۔
سوال نمبر ٢: اگر تقلید فرض ہے یا واجب ہے یا سنّت ہے تو اس کو خود آئمہ اربعہ نے اپنی زندگی میں اپنے اوپر لاگو کیوں نہیں کیا - کیا اس طرح وہ خود اس فرض واجب یا سنّت عمل کو چھوڑنے کی بنا پر گناہ گار نہ ہوے ؟؟
🚫الجواب ۔مجتہد پر اجتہاد واجب ہے اور اپنے جیسے مجتہد کی تقلید حرام ہے۔ ہاں اپنے سے بڑے مجتہد کی تقلید جائز ہے یا نہیں، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جواز کے قائل ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عدم جواز کے۔
ائمہ نے یہ فرمایا :: جو شخص خود اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہے اس پر اجتہاد واجب ، تقلید حرام ہے ۔ جو خطاب انہوں نے مجتہدین کو کیا تھا ان کو عوام پر چسپاں کرنا یحرفون اکلم عن مواضعه کی بدترین مثال ہے ۔ ہمارے ہاں مجتہد پر اجتہاد واحب ، غیر مجتہد پر تقلید واجب ہے اور غیر مقلد پر تعزیر واجب ہے ۔
ائمہ اربعہ کے زمانے میں قلت وسائط کے سبب وہ جلد ہی محنت کرکے اجتہاد کے مراتب پا گئے تھے ۔اور مجتھد عام حالات میں اجتھاد کرتے ہیں نہ تقلید اور کبھی کبھار تقلید کرنا اپنے سے اعلم کی اجتھاد کے منافی نہیں کماقال ابن قیم رح
کتاب و سنت پر عمل کرنا مجتہد پر فرض ہے اور مقلد پر بھی فرض ہے لیکن مجتہد اپنے اجتہاد کی روشنی میں عمل کرتا ہے اور مقلد ان کی راہنمائی میں کتاب و سنت پر عمل کرتا ہے جیسے آنکھوں والا چاند کو دیکھ کر روزہ رکھتا ہے اور نابینا پوچھ کر ، جیسے نماز میں قبلہ رو ہونا بینا اور نابینا دونوں پر فرض ہے ، بینا دیکھ کر اور نابینا بینا سے پوچھ کر ۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام مجتہد سے انتہائی زیادہ ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع مسائل منصوصہ غیر معارضہ محکمہ میں ہے ، مجتہد کی اتباع ان مسائل میں ہے جہاں اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت نہیں ملی ، اس لئے یہاں مقابلے کی صورت ہی نہیں ہے
اب ہمارا سوال
👈اہل قرآن کا کہنا ہے کہ اہلحدیث یہ دعوی کرتے ہیں کہ احادیث قرآن کا بیان اور قرآن کی تفسیر اور تشریح ہیں لیکن ہم نے بارہا چیلنج دیا کہ آیئے ہم ترتیب وار ایک ایک حدیث پڑھتے جائیں گے آپ ہر حدیث کے موافق ایک ایک صریح آیت لکھاتے جائیں مگر ایک بھی اہلحدیث آج تک اس چیلنج کو قبول نہ کرسکا کیا وجہ ہے
👈ان کا کہنا ہے کہ اہلحدیث کو قرآن کی بالکل سمجھ نہیں ہے چناچہ نواب صدیق حسن نے تفسیر لکھی تو مولوی ثناء اللہ نے لکھا کہ سب شوکانی کی تفسیر ہے)مظالم روپڑی ص 21 ( مولانا ثناء اللہ نے تفسیر لکھی تو علماء عرب و عجم نے اسے کافر اور مرتد قرار دیا۔ مولوی عنایت اثری نے تفسیر لکھی تو عبد اللہ روپڑی نے اس کو غلط قرار دیا ۔ عبد اللہ روپڑی نے تفسیر لکھنا شروع کی تو مولوی ثناء اللہ نے اس تفسیر کا نام کوک شاستر رکھا
سوال نمبر ٣: اگر تقلید آئمہ اربعہ یا مجتہد کے لئے فرض یا واجب نہیں بلکہ صرف عامی (غیر مجتہد) پرفرض یا واجب ہے تو کیا آئمہ اربعہ پیدائشی طور پر عالم و فاضل تھے کہ وہ تقلید سے مستثنیٰ ہو گئے ؟؟ یا پیدا ہوتے ہی انہوں نے قرآن و احادیث نبوی کے علوم پر دسترس حاصل کرلی تھی کہ ان پر تقلید فرض نہ ہوئی ؟؟
🚫الجواب ۔جس طرح ان سات قاریوں سے پہلے بھی قرأت پڑھنے والے سب مسلمان تھے اور بعد میں ان قرأتوں کے پڑھنے والے بھی مسلمان ہیں، فرق اتنا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم اس قرأت کو قاری حمزہ کی نہیں کہتے تھے ۔ اسی طرح صحاح ستہ والوں سے پہلے مسلمان احادیث پر عمل کرتے تھے لیکن یہ نہیں کہتے تھے کہ میں ترمذی کی حدیث پر عمل کررہا ہوں، تو نسائی کی حدیث پر، اس لئے صرف اس نام کی وجہ سے پہلے اور پچھلے اسلام میں فرق کرنا ایسی جہالت ہے جیسے پہاڑوں پر برف باری ہوئی ہو گو پانی کی شکل میں بہہ نکلی، لوگ اسے پانی کہتے تھے، وہی پانی دریا کی شکل میں آیا تو اسے دریا کہنے لگے ، دریا نہر میں آیا تو اس کا نام نہر کا پانی ہوا ، نالے میں جانے سے نالے کا پانی کہا جانے لگا ۔ پانی ایک ہی ہے، مختلف نام راستے کے تعارفی نام ہیں ۔ وہی طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو تو اسے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے ، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنهم میں پھیل گیا تو اس کا نام صحابہ کرام رضی اللہ عنهم کا طریقہ قرار پایا ، جب فقہ حنفی میں مرتب ہوگیا تو اب اس کا نام فقہ حنفی قرار پایا ، یہ کہنا کہ فقہ حنفی اور ہے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ، یہ ایسی جہالت ہے جیسے کوئی کہے کہ نہر کا پانی اور ، دریا کا اور ، یا یہ کہ قاری عاصم رحمہ اللہ کی قرأت اور ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ، قاری حمزہ رحمہ اللہ کی اور ، ان سوالات سے معلوم ہوا کہ غیرمقلد بننے کے لئے جاہل مرکب بننا ضروری ہے۔
اب فرمائیں ؟ کہ پہلی دو صدیوں کے مسلمان صحاح ستہ کو مانے بغیر مسلمان تھے یا نہیں ، ان کو آپ منکر حدیث مانیں گے یا حدیث والے ؟ اب اگر کوئی پہلی دو صدیوں کی طرح صحاح ستہ والوں کو نہ مانے، آپ اس کو خیرالقرون والا مسلمان مانیں گے یا نہیں ؟ اسی طرح آج بھی کوئی شخص ساتوں قرأتوں کو ترك کرکے یہ چاہے کہ میں پہلی صدی کا مسلمان ہوں تو کیا آپ نے اس پر عمل کرلیا یا نہیں ؟
👈ہمارا سوال
👈کیا صحاح ستہ والے پیدائشی طور پر محدث تھے
صحاح ستہ والے افضل تھے یا خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم ؟ تو پھر خلفاء راشدین رضی اللہ عنهم کی کتابوں کو صحاح ستہ میں کیوں شامل نہ کیا گیا ؟
👈قرآن و حدیث میں اجماع امت کے منکر کو دوزخی کہا گیا ہے مگر آج اجماع امت کے منکر اپنے کو اہلحدیث کہتے ہیں جو کسی حدیث سے ثابت نہیں
👈آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فقہ کے مخالف کو شیطان اور منافق فرمایا۔ فقہ کے مخالف کا نام اہلحدیث کسی حدیث میں نہیں
سوال نمبر ٤: اگر تقلید صرف عامی (غیرمجتہد) کے لئے واجب ہے تو جب ایک مقلد عامی علم کی منازل طے کرتا ہوا مجتہد بن جاتا ہے تب بھی وہ حنفی ، شافعی ، حنبلی و مالکی کہلاتا ہے اور زندگی بھر مقلد ہی رہتا ہے - احناف کے بہت سے عالم مرتے دم تک امام ابو حنیفہ کے مقلد ہی رہے- ایسا کیوں ؟؟
🚫الجواب ۔ہھھھی عجیب جہالت برا سوال ہے کیا آپ کے وہاں کوئی علم کے منازل طے کر کے مجتہد بنا ہو تو پیش کرے غیر مقلد مرتے دم تک رائے ناقص از خودرائی ، کم علمی ، کم فہمی ، بدفہمی ، کج فہمی ، اور خوش فہمی کو کہتے ہیں ۔
اسی کا نام غیرمقلدیت ہے
ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺘﮩﺎﺩ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ
ﺷﺮﺍﺋﻂ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ، ﺍﮔﺮ
ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ، ﭘﮩﻠﮯ
ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ
👈اب ہمارا سوال
👈اجتہادی اختلاف کیا ہوتا ہے؟ کون کرتا ہے اجتہاد ؟ جو نہیں جانتا اجتہاد وہ کیا کرے؟ اور کس کو اجتہاد کی اجازت نہیں؟
👈اللہ تعالی نے ہر قوم سے ایک یا چند ایک کو فقیہ بننے کا حکم دیاہے اور باقی ساری قوم کو ان کی فقہ ماننے کا حکم دیا ہے یا نہیں؟
👈آپ کے فرقہ میں بھی یہ تقسیم ہے یا آپ کے فرقہ کے سب لوگ فقیہ ،اہل ذکر اور اہل استنباط ہیں؟
سوال نمبر ٥: صحابہ کرام رضوان الله اجمعین آئمہ اربعہ سے کہیں بہتر قرآن و احادیث نبوی کو سمجھنے والے تھے - فقہ کے مسائل ان کے دور میں بھی تھے- پھر ایک صحابی نے کسی دوسرے صحابی رسول کی تقلید کیوں نہ کی- ؟؟-
🚫الجواب ۔تقلید شخصی ہر زمانہ میں رہی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پورے یمن میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی اور دور صحابہ رضی اللہ عنهم میں ہر شہر کے لوگ اپنے شہر کے مجتہد کی تقلید کرتے تھے ۔تقلید شخصی خیرالقرون میں موجود تھی البتہ اسے شرک اور بدعت کہنا دور وکٹوریہ کی بدعت ہے
تقلید کا تعلق چونکہ اجتہادی مسائل سے ہے ، اس لئے اجتہاد کا دائرہ کار کا پتہ چلنے سے تقلید کی ضرورت بھی واضح ہوتی ہے ۔ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے 9ھ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ فرمایا تو پوچھا : اے معاذ : فیصلہ کیسے کروگے ؟ تو انہوں نے عرض کیا : کتاب اللہ سے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فان لم تجد فیه عرض کیا : بسنة رسول الله ۔ فرمایا فان لم تجد فیه عرض کیا : اجتهد برأیی و لا آلو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ألحمد لله الذی وفق رسول رسول الله لما یرضی به رسول الله ( ابوداؤد ، ترمذی ) اس سے معلوم ہوا کہ جو مسئلہ اور حکم کتاب و سنت میں صراحۃ نہ ملے وہاں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وضاحت یوں ہے کہ
مسائل فرعیہ کی دو قسمیں ہیں : منصوصہ ، غیر منصوصہ ۔
پھر منصوصہ کی دو قسمیں ہیں : متعارضہ ، غیر متعارضہ ۔
پھر غیر متعارضہ کی دو قسمیں ہیں : محکمہ ، محتملہ
تمہید :دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیکر آخر خیرالقرون تک اہل سنت والجماعت میں مجتہدین اجتہاد کرتے تھے اور غیر مجتہدین ان کی تقلید کرتے تھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم اور تابعین و تبع تابعین کرام رحمہ اللہ میں سے ایک نام بھی پیش نہیں کیا جاسکتا جو نہ اجتہاد کی اہلیت رکھتا ہو اور نہ تقلیدآ کتاب و سنت پر عمل کرتا ہو اور اپنے کو غیرمقلد کہتا ہو ۔ ہم فی حوالہ سو روپے انعام دیں گے ۔ خیرالقرون کے بعد اجتہاد کی ضرورت نہ رہی اس لئے سب اہل سنت ائمہ اربعہ رحمہ اللہ میں سے کسی کی تقلید کرتے تھے ۔ اس لئے چار ہی قسم کی کتابیں ملتی ہیں : طبقات حنفیہ ، طبقات مالکیہ ، طبقات شافعیہ ، طبقات حنابلہ۔
جس طرح ملکہ وکٹوریہ کے دور سے پہلے طبقات مرزائیہ نام کا ذکر کہیں نہیں ملتا اس لئے کہ مرزائیوں کا وجود ہی نہیں تھا ، اسی طرح طبقات غیرمقلدین نامی کوئی کتاب کسی محدث یا مؤرخ کی لکھی ہوئی ملکہ وکٹوریہ سے پہلے کہیں نہیں پائی گئی کیونکہ غیرمقلدین کا فرقہ کہیں نہیں تھا ۔
نوٹ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں پورے یمن میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی تقلید شخصی ہوتی تھی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم تابعین اور تبع تابعین رحهم اللہ تعالی علیہ کے دور میں سب لوگ اپنے شہر کے مجتہد مفتی کی تقلید شخصی کرتے تھے۔
چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم تابعین اور تبع تابعین رحهم اللہ تعالی علیہ میں غیرمقلدیت کا نام و نشان تک نہ تھا اس لئے غیرمقلدین کے بدعتی ہونے میں کوئی شک نہیں
چاروں اماموں سے پہلے بھی ہر قوم اپنی قوم کے فقیہ کی تقلید کرتی تھی ۔ لیفقهوا فی الدين و لینذروا قومهم اذا رجعوا الیهم لعلهم یحذرون ( سورۃ التوبہ آیت : 122 ) چاروں اماموں سے پہلے اپنے علاقے یا قوم کے مجتہد کی تقلید ہوتی تھی : لعلمه الذین یستنبطونه منهم ( سورۃ النساء آیت : 83 ) اس وقت واجب تھی لیکن چونکہ ان کے مذاہب مدون نہ تھے اور نہ عمل متواتر ہوا ، اس لئے ان کی وفات کے بعد ان کا مذہب مٹ گیا ، تقلید ختم ہوگئی جیسے مسجد کے امام کی وفات کے بعد اقتداء ختم ہوجاتی ہے
ائمہ اربعہ رحمہ اللہ سے پہلے مکہ مکرمہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، ان کے بعد حضرت عطاء رحمہ اللہ کی تقلید ہوتی رہی مدینہ میں اپنی اپنی خلافت میں خلفاء راشدین رضی الله عنهم ، زید بن ثابت ، ان کے بعد فقہاء سبعہ کی تقلید ہوتی رہی ، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، انکے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ پھر حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی تقلید ہوتی رہی ، بصرہ میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی تقلید ہوتی رہی ، ان کے چونکہ مذاہب مدون نہ ہوسکے اس لئے ان کے جو مسائل عملا متواتر تھے ان کو ائمہ اربعہ نے اپنی فقہ میں لے لیا ، جو ان سے شاذ اقوال مروی تھے ان کو ترک کردیا ، یہ ایسے ہی ہے
جیسے صحابہ رضی اللہ عنهم کے زمانہ میں بہت سے قاری تھے مگر انہوں نے اپنی قرأت کو مکمل طور پر مدون نہ فرمایا ، پھر سات قاریوں نے صحابہ رضی اللہ عنهم کی متواتر قرأت کو مدون کیا ، شاذ و متروک قرأت کو ترک کردیا ، اب ان سات متواتر قرأتوں میں تلاوت کرنے میں صحابہ رضی اللہ عنهم کی متواتر قرأت پر عمل ہورہا ہے ، البتہ ان سات قرأتوں کے علاوہ کوئی قرأت صحابہ رضی اللہ عنهم کی طرف منسوب ہو تو اس کی تلاوت جائز نہیں کیونکہ متواتر کے خلاف شاذ واجب الترک ہے ۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنهم کے متواتر فقہی مسائل پر ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کی تقلید میں عمل ہورہا ہے ، ان متواترات کے خلاف کوئی شاذ قول کسی صحابی رضی اللہ عنه ، مجتہد یا تابعی کی طرف منقول ہو تو اس پر عمل جائز نہیں کیونکہ متواتر کے خلاف شاذ واجب الترک ہے
👈اب ہمارا سوال
👈جو لوگ اتنا علم نہیں رکھتے کہ خود قرآن و حدیث کی تحقیق کر سکیں اور وہ آپ کے علماء پر بھروسہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا حکم ہے ؟ اس اختلاف کے بعد تو وہ آپ کے علماء کی طرح ہی گمراہ قرار نہیں دیئے جائیں گے؟
👈آپ کے فرقہ کے وہ لوگ جو اہل استنباط اور فقیہ نہیں اور ان پر بھی کتاب و سنت کے مطابق زندگی گزارنا لازم ہے یا نہیں؟
👈اگر وہ لوگ احکام کے پابند ہیں تو ان کیلئے ایسے اجتہادی احکام جاننے کا کیا راستہ ہے اور اس راستہ کا اختیار کرنا ان پر فرض ہے یا واجب؟
سوال نمبر ٦: اگر امّت مسلمہ کا آئمہ اربعہ کی تقلید پراجماع ہو چکا ہے - تو حضرت عیسیٰ علیہ سلام قرب قیامت کے وقت اپنے نزول کے بعد کس امام کی تقلید کریں گے ؟؟ کیا وہ اپنے آپ کو حنفی کہلائیں گے یا شافعی کہلائیں گے یا حنبلی کہلائیں گے یا مالکی کہلائیں گے ؟؟
🚫الجواب ۔ لگتا ہے آپ کے پاس عقل نام ki کوئی چیز نہیں ہے حضرت عیسی علیہ السلام امام حاکم عادل مجتھد ہونگے بنص حدیث۔۔۔ اور اس کا اجتھاد اول تو فقہ اربعہ سے باہر نہیں ہوگا بلکہ ان موافق ہوگا اور اگر چند مسائل میں وہ باہر نکلے تو مجتھد ہونگے
آپ کی طرح غیر مقلد نہیں ہوگے معاز اللّه
👈اب ہمارا سوال
👈آپ نے عمر بھر اللہ کی عبادت اور اللہ کے بندوں سے معاملات اجتہادسے کئے یا تقلید سے ؟
👈اجتہاد کی کیا کیا شرائط ہیں؟ آپ سب میں موجود ہیں یا بعض میں، جو لوگ اجتہاد کی قوت نہ رکھتے ہوئے اجتہاد کریں وہ فافتوا بغیر علم فضلوا و اضلو کے مصداق ہیں یا نہیں؟
سوال نمبر ٧: اگر کسی کی پیروی کا نام تقلید ہے تو ائمہ اربعہ کی تقلید ہی کیوں؟؟ - نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی تقلید کیوں نہیں کی جا سکتی ؟؟-
🚫الجواب ۔یاد رہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تو شرعی حکام معلوم کرنے کے 3 تین طریقے تھے : جو لوگ ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے وہ ہر مسئلہ دریافت کرلیتے ، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوتے وہ اگر مجتہد ہوتے تو اجتہاد کرتے جیسے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یمن میں ، جو مجتہد نہ ہوتے تو وہ اپنے علاقے کے مجتہد کی تقلید کرتے جیسے اہل یمن ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دو طریقے باقی رہے : مجتہدین اجتہاد کرتے اور غیر مجتہدین تقلید کرتے ۔ خیرالقرون کے بعد اجتہاد کی ضرورت باقی نہ رہی اس لئے وہ ختم ہوگیا ، اس کے بعد صرف تقلید ہی باقی رہ گئی : یہ تقلید شروع سے پہلے دن سے ہے ۔ خیرالقرون میں کچھ مجتہدین ہوتے تھے ، اب صرف مقلدین باقی رہ گئے ہیں ، یہ تفصیل مقدمہ ابن خلدون میں ہے ۔ اس اجماع میں عملآ تمام محدثین ، مفکرین ، فقہاء ، سلاطین شامل ہیں جیسا کہ کتب طبقات سے روز روشن کی طرح واضح ہے ۔
ﺗﻘﻠﯿﺪ ﺗﻮ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﻗﻮﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺎﮨﺮ
ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺎ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺗﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﻏﯿﺮ
ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﻣﺸﮑﻮﮎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ
ﺍﻥ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺟﺎﮨﻞ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﭘﺮ
ﺩﺳﺘﺮﺱ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ
ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺩﺭﺟﮧ ﺟﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﮔﺴﺘﺎﺧﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ
ﮨﮯ۔
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﯾﮧ ﺣﺮﮐﺖ
ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﺁﭖ ﭘﺮ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ
ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﻼ ﺷﺒﮧ ﺳﯿﺪﮬﮯ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ
ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻋﻤﻞ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ،
ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺍﮨﻠﺴﻨﺖ ﻭﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺩ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﮯ
ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻏﯿﺮ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ،
ﺑﻠﮑﮧ ﺍﷲ ﻭ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮨﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻏﯿﺮ
ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﯾﮧ ﻏﯿﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﯾﻦ ﻭ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ
ﺣﻘﺎﺋﻖ ﻭ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﮐﺎ ﺭﺍﺯ ﺩﺍﮞ ﮨﮯ
👈ہمارا سوال
👈 غیرمقلدین سے ہے کہ قرآن و حدیث سے جواب دیں کہ اجماع کی تعریف کیا ہے ؟ اجماع کن کا اور بخاری کی اصح کتب ہونے پر اجماع کب ہوا اور کہاں ہوا اور کن کا ہوا ؟
👈کیا آپ تمام مسائل میں اجتہاد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یا بعض میں، اپنے خاص اجتہاد کے کم از کم دس نمونے پیش فرمائیں اور کم از کم دس مسائل وہ لکھیں جن میں آپ نے تقلید فرمائی ہو؟
👈اجتہادی مسائل میں مجتہد اجتہاد کرے تو اس میں صواب پر دو اجر اور خطاء پر بھی ایک اجر ملے گا ، تو یہ فرمان نبوی صلی الله علیه وسلم ہے ، مگر اہلحدیث کا کہنا ہے کہ یہ رائے اور اجتہاد کار شیطان ہے ، یہ کس حدیث میں ہے؟
سوال نمبر ٨: مقلدوں کے نزدیک نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا بیان کردہ دین اتنا مشکل تھا کہ اس کو سمجھنے کے لئے چار اماموں کی ضرورت پڑ گئی (نعوزو باللہ) - لیکن ان آئمہ اربعہ کا بیان کردہ دین اتنا آسان ہے کہ اس کو سمجھنے کے لئے کسی پانچویں امام کی ضرورت قیامت تک کے لئے نہیں - ایسا کیوں ہے ؟؟
🚫الجواب ۔یہ باطل وسوسہ بهی ایک عام آدمی بہت جلد قبول کرلیتا ہے ، لیکن اس وسوسہ کے جواب میں عرض ہے کہ آیت مذکور کا اگریہ مطلب ہے کہ قرآن سمجهنے کے لیئے کسی استاذ ومعلم ومفسر کی ضرورت نہیں ہے ، اور ہر بنده خود کامل ہے تو پھر " فقه " کے ساتھ حدیث بهی جاتی ہے ، اور اگرقرآن کے ساتھ اس کےآسان ہو نے کے باوجود کتب احادیث صحاح ستہ اور ان کے شروح وحواشی کی بهی ضرورت ہے ، تو پھر کتب " فقه " کا بهی دین سے خارج ہو نا بڑا مشکل ہے ، اگرفہم قرآن کے لیئے حدیث کی ضرورت ہے تو فہم حدیث کے لیئے" فقه " کی ضرورت ہے ، اگرقرآن سمجهنے کے لیئے رسول الله صلى الله عليه وسلم کی حدیث وتعلیم وارشادات کی ضرورت ہے ، تو آپ کی حدیث سمجهنے کے لیئے آپ کے خاص شاگرد صحابہ کرام اور ان کے شاگرد تابعین وتبع تابعین رضی الله عنہم کی تعلیمات وارشادات وتشریحات کی ضرورت ہے ، اگرحدیث قرآن کی تفسیر ہے تو " فقه " حدیث کی شرح ہے ، اور فقہاء کرام نے ( معاذ الله ) دین میں کوئی تغیر تبدل نہیں کیا بلکہ دلائل شرعیہ کی روشنی احکامات ومسائل مستنبط ( نکال ) کرکے ہم ارے سامنے رکھ دیئے ، جو کام ہمیں خود کرنا تها اور ہم اس کے لائق واہل ہرگز نہ تھے ، وه انہو ں نے ہماری طرف سے ہمارے لئے کردیا ، یہ فقہاء امت تو بے انتہاء شکریہ وتعریف وتوصیف قابل ومستحق ہیں ، درحقیقت ان حضرات کا امت مسلمہ پر اتنے بڑے احسانات ہیں ، کہ پوری امت مل کر بهی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں چکا سکتی ، امت پر لازم ہے ان کے لیئے ہمیشہ دعاء خیر کرے ، اسی لیے تمام اہل علم نے فقہاء کرام کے عظیم الشان کارناموں کی تعریف وتوصیف کی ہے ، اور ان کو دین شناس اور امت مسلمہ کاعظیم محسن ومحافظ قرار دیا ہے ، اور اگلے پچهلے عوام وخواص سب ان کی تعریف وعظمت میں رطب اللسان ہیں . فجزاہم الله عنا وعن المسلمین خیر الجزاء ،
منکرین حدیث اورنیچریوں اور قادیانی امت نے یہ دعوی کیا کہ فہم قرآن کے حدیث کی ضرورت نہیں ہے تو اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟؟ دین کو ایک بے معنی چیز اور کهیل تماشہ بنا دیا ، کیونکہ ان گمراه لوگوں نےہر کس وناکس کو اختیاردے دیا کہ قرآن کے جو معنی خود سمجھو بیان کرو ، اسی طرح حدیث کے ساتھ اگر " فقه " اور "اقوال فقہاء" اور فہم سلف کو لازم نہ کیا جائے ، جیسا کہ فرقہ جدید اہل حدیث کے بعض جہلاء عوام کو بے راه کرنے کے لیے کہتے ہیں ، تو پھر حدیث کا بهی وہی حال ہو گا ، جو منکرین حدیث ، نیچریوں ، اور قادیانیوں وغیره گمراه لوگوں نے قرآن کے ساتھ کیا ، جس کا جو جی چاہے گا حدیث کا معنی بیان کرے گا ، اور جب حدیث کا معنی غلط ہو گا تو قرآن کا معنی کس طرح صحیح ره سکتا ہے ، نتیجہ کیا نکلے گا گمراہی اور تباہی بربادی ( نعوذ بالله ) بدقسمتی سے ہندوستان میں پیدا شده نومولود نام نہاد فرقہ اہل حدیث کے بعض جہلاء زمانہ نے جہاں دیگر وساوس کا سہارا لے کرعوام کو دین سے برگشتہ کیا ، وہاں یہ وسوسہ بهی بڑے زور وشور سے پهیلایا کہ " فقه " قرآن وحدیث کے مخالف چیز کا نام ہے ، اور " فقہ وفقہاء " کی اتباع شرک وبدعت ہے ، اورآج ہم مشاہده کر رہے ہیں کہ نام نہاد فرقہ اہل حدیث میں شامل جہلاء جن کو ناواقف عوام شیخ وامام کا درجہ دیتے ہیں ، انهی وساوس کے ذریعہ سے عوام کو گمراه کر رہے ہیں اور عوام کو سلف صالحین کی اتباع سے نکال کر اپنی اتباع وتقلید میں ڈال رہے ہیں . فإلى الله المشتكى وہو المُستعان
چار ائمہ کی ضرورت اجتھادی مسائل میں پڑھ گئی اور اجتھاد مسائل ہر دور میں سمجھنا آسان نہیں تھا دور صحابہ میں بھی نئے پیش آنے والے مسائل میں کبار صحابہ کی طرف رجوع ہوتا رہتا۔۔۔ ہاں چار ائمہ کے اصول فقہ اور اکثر مسائل مدون ومنقح ومیسر ہیں اس سے پہلے کوئی فقہ یا اصول فقہ مدوون ومنقح نہیں تھا۔۔ اس لئے اجتھادی مسائل فقہ اربعہ ہی آسان ہے۔۔۔ باقی جو اجتھادی مسائل کے علاوہ دین کی باتیں ہیں وہ واضح آسان ہیں اور ہر دور میں واضح وآسان رہی ہیں
ہمارے سوال
👈کیا آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے فرمایا تھا کہ اے اہل قرآن ! وتر پڑھو اور کیا یہ بھی فرمایا تھا کہ اہل قرآن خاص اہل اللہ ہیں۔کیا ان احادیث میں اہل قرآن سے موجودہ فرقہ اہل قرآن یعنی منکرین حدیث مراد ہے ؟
(2) کیا اس لفظ : اہل قرآن سے علمی طبقہ یعنی حفاظ کرام مراد ہیں یا کوئی مذہبی فرقہ؟
(3) کیا انگریز کے دور حکومت سے پہلے کسی جاہل کو اہل قرآن کہا گیا ہے ؟
(4)کیا پاک و ہند میں 90ھ میں جو مسلمان آئے وہ سب اہل قرآن تھےکیونکہ اس زمانہ میں صحاح ستہ کا وجود نہ تھا؟
(5)کیا فرقہ اہل قرآن کا وجود کسی پہلی اسلامی حکومت میں تھا، ان کا ترجمہ قرآن، تفسیر قرآن، نماز کی کتاب، ان کا مدرسہ، ان کی مسجد، ان کی قبر بھی کسی اسلامی ملک میں تھی؟
(6)اس فرقہ نے جب اپنا نام اہل قرآن رکھ لیا تو اب قرآن ان کا ہوگیا ، اہلحدیث کا قرآن سے کوئی تعلق رہا یا نہیں؟
اہلحدیث غیر مسلم
(7) کراچی کے مسعودی فرقہ نے اہلحدیث سے کٹ کر اپنا نام جماعت المسلمین رکھ لیا، اب قرآن و حدیث میں جہاں مسلم کا لفظ آتا ہے وہ اپنا فرقہ مراد لیتا ہے اور اہلحدیث کو غیر مسلم کہتا ہے ، کیا اس میں وہ حق بجانب نہیں؟
(8) قرآن پاک میں لفظ ربوہ دو جگہ آیا ہے کیا اس سے قادیانیوں کاشہر ربوہ شہر مراد ہے ؟ نہیں تو کیوں؟
(9)کیا قرآن پاک میں جہاں حزب اللہ کا لفظ آیا ہے اس سے کیپٹن عثمانی کراچی والے کا فرقہ مراد ہے؟
(10) اہل قرآن کا کہنا ہے کہ جب سے قرآن ہے اس وقت سے اہل قرآن ہیں۔ جبقرآن سچا ہے تو اہل قرآن یقینا سچے ہیں۔ اہل قرآن کو اس وقت تک جھوٹا نہیں کہا جاسکتا جب تک قرآن کو جھوٹا نہ کہا جائے؟ یہ اہل قرآن والے کہتے ہے
سوال نمبر ٩: اگر کسی کی پیروی کا نام تقلید ہے تو پیروی اس بات کی کی جاتی ہے جو حتمی ہو - مقلدوں کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ اپنے امام کی جس بات پر عمل کررہے ہیں وہ حتمی ہے - اور ان کے امام اس پر آخری وقت تک قائم و دائم رہے ؟؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ انہوں نے کسی مسلے میں اپنا موقف تبدیل کرلیا ہو ؟؟ پھر ایسی تقلید کا فائدہ ؟؟
🚫الجواب ۔آپ کس طرح سے پتا لگائیں گے کہ کس کا مسئلہ 100 فیصد صحیح ہے اور کون صریح غلطی پر ہے؟ اور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی اس پر کی جانے والی تحقیق 100 فیصد درست ہی ہوگی
آج کل سو 100% فیصد مسلمان ایسے ہیں جو اس لئے مسلمان ہیں کہمسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ، وہ کسی غیر مسلم کے سامنے اسلام کی صداقت کودلائل سے بیان نہیں کرسکتے خود اسلام کو بلامطالبہ دلیل تسلیم کیا ہے ،یہ لوگ مسلمان ہیں یا کافر ؟ اگر ان پر رحم فرماکر ان کو مسلمان کہا جائے تو فرمایئے کہ جب ایمانیات میں تقلید جائز ہے تو فروعات میں کیسے کفر ہوگی ؟
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺴﯽ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ
ﻓﺘﻮﯼ ﮐﻮ ﺭﺏ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﺎ، ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ
ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻋﺎﻟﻢ
ﻣﺠﺘﮩﺪ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﷲ ﻧﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﮧ
ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ
ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ﻭﺍﻗﻒ ﮐﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﯾﮩﯽ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻋﺎﻟﻢ
ﺍﻭﺭ ﻣﺠﺘﮩﺪ ﮐﮯ ﻓﺘﻮﯼ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﮮ، ﺧﻮﺩ ﺳﮯ
ﺟﺎﮨﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻧﺎ
ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ، ﺍﺏ ﻭﮦ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﻮ ﺳﻨﺖ
ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﺳﻨﺖ ﺳﻤﺠﮭﮯ، ﺍﮔﺮ ﻭﺍﺟﺐ ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﻭﺍﺟﺐ
ﺳﻤﺠﮭﮯ، ﺍﮔﺮ ﺟﺎﺋﺰ ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ
ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﮐﮩﮯ ﺗﻮ ﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﺳﻤﺠﮭﮯ۔ ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﺟﺎﮨﻠﻮﮞ
ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﻋﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻣﺠﺘﮩﺪﯾﻦ ﮐﮯ
ﺫﻣﮧ ﻣﺠﺘﮩﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺩﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺟﺐ
ﮨﮯ۔
ﻣﮕﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺮ ﻋﺎﻡ ﻭ
ﺧﺎﺹ ﮐﻮ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﮐﺘﺎﺏ ﻭ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻋﻠﻢ
ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔
ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﺍﻥ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺍﻣﺎﻣﻮﮞ
میں ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺻﺪﻕ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺮﯾﮟ
ﺍﻧﺸﺎﺀﺍﷲ ﻧﺠﺎﺕ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس عقیدہ سے عمل کرے گا کہ مجتہد صواب کو پہنچتا ہے اور خطاء کو بھی ، اس لئے مجتہد کا عمل یقینی ہے ، مقبول ہے ، جیسے تحری فی القبلہ والے کی نماز یقینآ مقبول ہے اور ایک اجر کا پکا یقین ہے ۔ چونکہ مجتہد فقط خطاء پر ماجور ہے اور دوسرے اجر کی مجتہد اور مقلد کی خدا کی رحمت واسعہ سے امید ہے ۔ اس کے برعکس غیرمقلدین کا عمل جو محض خودرائی پر مبنی ہے ۔ خودرائی کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ، وہ یقینآ مردود ہے اور اس پر گناہ لازم ہے ، وہ نیکی برباد گناو لازم کا مصداق ہے
👈اب ہمارا سوال
👈ائمہ مجتہدین کی تقلید کو شرک کہنا اور اپنے نفس کی تقلید کو فرض کہنا ، یعنی فہم محتہد حجت نہیں کیونکہ خطاء سے معصوم نہیں مگر فہم نااہل حجت ہے کہ معصوم عن الخطاء ہے مثل رسول و خدا کے ، اسی لئے جو لوگ اس کے فہم کا انکار کرتے ہیں تو وہ یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے ہمارے فہم کا انکار کیا بلکہ کہتے ہیں کہ اس نے خدا، رسول صلی الله علیه وسلم کا انکار کیا۔
👈آپ حضرات ائمہ لغت کی تقلید کرتے ہیں ، ائمہ صرف ، ائمہ نحو اورائمہ اصول کی تقلید کرتے ہیں ۔ راویوں کو ضعیف اور ثقہ کہتے ہیں تو علماءاسماءالرجال کی تقلید کرتے ہیں ۔ راویوں کی پیدائش ، رہائش ، موت میں مؤرخین کی تقلید کرتے ہیں ۔ حدیث کے صعیف و صحیح ہونے میں محدثیں کی تقلید کرتے ہیں ، یہ سب تقلیدیں کرتے ہیں کس کے حکم سے ؟ کیا خدا و رسول صلی الله علیه وسلم نے ان کی تقلید کا حکم دیا تھا ؟ اور آپ کے کوئی بڑے بزرگ فرماگئے تھے کہ بیٹا سب کی تقلید کرنا بس ائمہ اربعہ میں سے کسی کی تقلید نہ کرنا ؟
👈اگر کوئی کافر بلامطالبہ دلیل مسلمان ہوجائے تو اس کو مسلمان مانا جائے گا یا وہ ڈبل کافر ہوجائے گا ۔ ایک کفر پہلے تھا ایک کفر تقلیدی ہوگیا ؟
معاذاللہ : اگر کو مسلمان بلامطالبہ دلیل مرتد ہوجائے تو اس کومرتد مانا جائے گا یا مسلمان ؟
سوال نمبر ١٠: دور جدید میں بھی فروعی و فقہی مسائل موجود ہیں -جیسے سود یا لاٹری کی مختلف جدید صورتیں- ہوائی سفر میں نماز پڑھنا - شدید ٹھنڈ والے علاقوں میں وضو وغیرہ کا مسلہ - مقلد ان مسائل کو اپنے امام کی فقہ کی روشنی میں حل کیوں نہیں کرتے ؟؟ اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ مقلدوں کے آئمہ اربعہ کی فقہ صرف ان کے اپنے دور یا ان کے مرنے کے چند سالوں یا چند صدیوں تک کے لئے ہی کار آمد ہے ؟؟ کیا ایسا نہیں ہے ؟؟
🚫الجواب ۔جب ہر فقہ کے اصول فقہ مدون ہے تو موجودہ معتبر علمائے کرام نے ملکر یا انفرادی طور ہر نئے مسئلے حل تلاش کر سکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔۔۔
عجیب جہالت برا سوال ہے
عواء الکلب لایظلم البدر
ائمہ اربعہ رحمہ اللہ سے فقہ کے جو اصول متواتر ہیں ان میں مسائل ہیں دلائل نہیں تو بلاذکر دلائل مسائل کو جمع کرانا اور اس پر متواتر عمل ہونا یہ ائمہ اربعہ رحمہ اللہ سے جواز تقلید کا متواتر ثبوت ہے
👈ہمارا سوال
👈آپ حضرات کی تقریر و تحریر سے واضح ہے کہ ائمہ اربعہ کو تو دین کےٹکڑے کرنے والا کہا جاتا ہے لیکن ان کے مقلدین جیسے ابن حجر رحمہ اللہ ، امام نووی رحمہ اللہ کی جوتیاں تک چاٹی جاتی ہیں ۔ جب حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کی تقلید شرک ہے تو ابن حجر رحمہ اللہ کی تقلید کیا ایمان ہے ؟ عجیب بات حجر پرستی شرک ہو مگر ابن حجر رحمہ اللہ پرستی توحید ، مشرکین کا بھی کچھ ایسا ہی طرز تھا کہ رب الارباب ذی العرش کو چھوڑ کر اس کے بندوں کی بندگی کرتے تھے
👈دعوی تو یہ کرتا ہے کہ کہ خدا اور رسول صلی الله علیه وسلم کے سوا کسی کی بات حجت نہیں لیکن چند معدلوں اور جارحوں کو درمیان میں کھڑا کر رکھا ہے کہ ان کے قول کو نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث کے برابر بلکہ قرآن و سنت پر حاکم بنادیا ہے ، وہ شریک فی الالوہیت نہ ہوں تو شریک فی الرسالت ضرور ہیں بلکہ مصداق اتخذوا احبارهم و رهبانهم اربابا من دون الله کا ہیں۔
👈ائمہ اور اقوال میں ہر مکلف عامی کو تخییر ہے یا تخیر اور اس کی کیا سبیل ہے ؟
👈 یہ تخییر یا تخیر مطلق ہے یا ائمہ اربعہ رحمہ اللہ میں محصور ؟
👈تلفیق آپ کے ہاں جائز یا فسق ؟ مختلف اعمال میں یا ایک عمل میں بھی؟ قبل عمل یا بعد عمل بھی ؟
ہم جواب کے منتظر رہے گے
اس پوسٹ کا جواب دے،مہلت تا قیامت!!!!!
جیسے ہم نے پائنٹ ٹو پائنٹ جواب دیا
🖋Admin batil exposing centre

No comments:
Post a Comment