Wednesday, 22 July 2020

نعرہ فریب : میرا کوئی مسلک نہیں

نعرہ فریب : میرا کوئی مسلک نہیں

( ایک گروپ پر ایک تحریر دیکھی جس میں مسلکیت سے بیزاری کا اظہار تھا اور اسے اجتماعیت کے خلاف ہونا بتایا گیا تھا ، اسی تحریر پر بندہ کا تبصرہ )
اسلام ایک مذہب ہے ، اور اہل السنہ و الجماعہ اس کا ایک جمہوری و بزبان نبوت مستند مسلک ہے ۔
بڑی حیرت ہوتی جب غیر علماء کی طرح علماء بھی اس طرح کی بات کرتے ہیں کہ میرا کوئی مسلک نہیں ، خواہ کسی انداز و تعبیر میں ہو ۔
کیونکہ یہ فرقہ وارانہ تفریق تو صادق و مصدوق  صلی اللہ علیہ وسلم نے بزبان اقدس خود فرمائی ہے ، جسے پوری امت قرنا بعد قرن نقل کرتی آئی ہے اور اسی پر نسلا بعد نسل تعامل و تواتر رہا ہے ۔
اب ایک نیا طبقہ پیدا ہوگیا جو مسلک بیزاری کے نام پر ایسی باتیں کرتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ( حدیث افتراق امت )  کا قولی یا عملی یا فکری انکار ہے ، اگر کسی کے لئے حدیث کا انکار  معمولی و ہلکی بات ہو تو ہو ، ہم تو اسے الحاد و  سلب ایمان کا باب سمجھتے ہیں ۔

دیوبندیت کوئی مسلک نہیں ، ہندوستان میں غیر اہل السنہ کے افکار کو عیاں کرنے اور پھر اس کا ابطال کرنے کا کام شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رح کے شاگردوں نے کیا ، جس میں دیوبند کے علاوہ بھی علماء شامل ہیں ، وہاں سے یہ کام ادارتی و جماعتی حیثیت سے  ، یا اور  بھی اسباب ہیں جن کے سبب اہل السنہ کو ہمارے یہاں دیوبندی کہنے لگے ، جب کہ خود دیگر علماء کہتے ہیں کہ علماء دیوبند کا مسلک ہمارا ہی مسلک ہے ، اور علماء دیوبند کہتے ہیں کہ دیوبندیت کوئی نیا فرقہ و مسلک نہیں ، بلکہ ہم اہل السنہ و الجماعہ کے مسلک کے پابند ہیں ۔
لیکن کوئی اہل السنہ ہونے سے انکار نہیں کرتا ، اور نہیں کہتا کہ ہمارا کوئی مسلک نہیں ، غیر دیوبندی نا جانے کیسے کیسے جہابذہ علم و فکر کے پیدا ہوئے کیا کسی نے کہا ہے کہ میرا کوئی مسلک نہیں؟

یہ عمومی غلط فہمیاں ہیں جو اس تحریر کا محرک ہیں ۔
ایک اور بات کہ سائل بالکل ناداں تھا ، اسے کچھ خبر نہ تھی ، تبھی مجیب صاحب کے سوالات: حضور صلی اللہ علیہ وسلم دیوبندی تھے یا بریلوی ؟ صحابہ دیوبندی تھے یا نہیں وغیرہ کا جواب نہ دیا ۔
ہر بات کا صحیح جواب ہوہی نہیں سکتا ، کیونکہ بعض مرتبہ سوال ہی غلط ہوتا ہے تو جواب کہاں سے صحیح ہو ، یہی حال یہاں بھی ہوا ، اللہ جانے عمدا یا خطا یہ کیا ، ورنہ سارے سوالات تو واضح مغالطہ ہیں،  جن پر مسلک کا مدار ہے ، ان کا مسلک پوچھا جارہا ہے ، صحابہ و تابعین تو خود مسلک کا مدار ہیں، ان کا کیا مسلک ہوگا ۔
اختلافات امت کے زوال کا سبب ہیں،  لیکن ان کے جو حق سے ہٹے ہوئے،  جو حق پر ہیں،  ان کے افکار نہیں،  ان کا طرز عمل درست کرنے کی ضرورت ہے کہ اہل السنہ کے دوسروں سے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں،  نفرت نہ ہو ، اس فرقہ بندی کے سبب کوئی نزاع و کینہ نہ ہو وغیرہ ۔
اعتصموا بحبل اللہ وغیرہ آیات سے عموما رفع اختلافات والے دھوکا کھاتے ہیں اور پھر دوسرے تک اسی تشریح کو پہنچاتے ہیں ، حکیم الامت مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رح نے بوادر النوادر میں اس کی وضاحت فرمائی ہے ، مختصر اپنے الفاظ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں :
اصل حکم اعتصام بحبل اللہ ہے ، ترک تفرق اس کا نتیجہ ہے ، اگر ترک تفرق کو طے کرنے میں سب آزاد ہوں تو خود یہ بھی ہزار نزاع کا سبب ہوگا ، اس لئے اعتصام بحبل اللہ پر ترک تفرق اور امت کی اجتماعیت کو مرتب کیا گیا ہے ۔
اجتماعیت کا دعوت تبھی سود مند ہے جب کہ اعتصام بحبل اللہ ہے ، اور جب سب یا جتنے بھی اعتصام میں شریک ہوں گے ، کم از کم ان میں تو اجتماعیت پیدا ہوگئی ۔
اعتصام بحبل اللہ کا نمونہ امت کے لئے صحابہ و تابعین ہیں،  اعتقادات میں کوئی ادنی اختلاف نہیں،  فروعات کے اختلاف کے ساتھ محبت کا برتاؤ ۔
اور جو چیز اس سے ہٹی ہوئی ہے ، یعنی اللہ و رسول کے احکام نہیں،  یا صحابہ و تابعین والے عقائد و طرز تعامل نہیں ، ان سے اجتماعیت نہ تو ہوسکتی ہے ، نہ ہی شریعت میں مطلوب ہے ۔
واللہ اعلم
محمد توصیف قاسمی
یکم دسمبر 2019

No comments:

Post a Comment