Wednesday, 22 July 2020

شیعوں کے لئے فکری نرمی کی کوئی گنجائش نہیں

شیعوں سے ہمارا فکری و مذہبی اختلاف ان بنیادوں پر ہے کہ اگر شیعہ ان کو کبھی نہیں چھوڑ سکتے ، کیونکہ وہی ان کے مذہب و فکر کی بنیادیں ہیں ، چند اہم باتیں یہاں مذکور ہیں :
تحریف قرآن ; 
مذہب شیعہ میں دلائل اقوال ائمہ ہیں اور بس ، اور تقریبا 2 ہزار روایتیں ان کے ائمہ کی تحریف قرآن کی موجود ہیں ، قول امام یعنی ان ئے نزدیک معصوم کے قول کو ترک کرنا مذہب سے کروں ہے ، کوئی ایک روایت بھی ان سے قرآن کے کامل و مکمل ہونے کی ان کے یہاں نہیں ، اگر ہوئی بھی تو اس تواتر کے مقابلہ اس کی حیثیت نہیں ـ
لہذا قرآن ہی ان ہے نزدیک جب معتبر نہیں تو ہم اور کسی چیز پر ان سے اتفاق کا تصور بھی نہیں کرسکتے ـ
اگر کوئی تقیةً کہتا ہے کہ تحریف قرآن نہیں ہوا اور قرآن کامل و مکمل ہے تو اسے ہم متعہ ہی کہیں گے تاآنکہ وہ یہ کام کرے :
💠 سب سے پہلے تو ان کے خلاف فتوی دیں جو تحریف قرآن کے قائل ہیں ـ
💠 ان روایتوں کا جواب دیں جو متواترا ان کے مذہب میں موجود ہیں ـ
💠 پھر اس نئے عقیدے کے مطابق کون کون شیعہ متقدمین ہیں ، یا یہ نئی چیز شیعیت میں لائی گئی ہے ، اس کی وضاحت کریں ـ
مسئلہ امامت :
تحریف قرآن کے عقیدے کے بعد اب کسی چیز کی گنجائش نہیں ، لیکن مسئلہ امامت بھی شیعوں کے یہاں اتنا بدترین عقیدہ ہے اس سے اتفاق اسلام میں مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ، کیونکہ شیعہ ائمہ کی عصمت کے قائل ہیں ہوکر انھیں شارع کا درجہ دیتے ہیں ، جو مسئلہ نبوت و ختم نبوت میں سیندھ لگانا ہے ، مسئلہ امامت بھی ائمہ کی متواتر روایتوں سے ثابت اور طے شدہ ہے ، اس کی بھی تبدیلی کی کوئی گنجائش بغیر شرائط بالا کے نہیں ـ
چنانچہ اس کے رہتے بھی ہمارا مذہبی اتحاد ان سے نہیں ـ
3
تکفیر صحابہ و توہین صحابہ :
( یہ دونوں الگ الگ مسئلہ ہیں ، یہاں اجمالا ایک کردیا گیا ہے ) 
صحابہ کی عظمت نصوص قرآنیہ میں صراحت کے ساتھ اور احادیث میں مجموعی حیثیت سے تواتر کے ساتھ موجود ہے ، جبکہ صحابہ کی عظمت و احترام کے ساتھ شیعیت ایک لمحہ اپنے ناپاک وجود میں باقی نہیں رہ جاتی ـ
یہ بھی وہ بنیادی امر ہے جس پر شیعوں سے کبھی رجوع ممکن نہیں ـ
اگر کوئی تقیہ باز کہتا ہے کہ ہم توہین و تکفیر صحابہ کے خلاف ہیں تو اسے چاہئے کہ :
💠 اپنے مذہب سے عظمت صحابہ ثابت کرکے دکھائیں ـ
💠 یہ بتائیں کہ ان کے متقدمین میں کون کون اس عقیدے پر تھا ؟
💠 جو نہیں ہیں ان کا حکم و فتوی ؟
💠 ان روایتوں و کتابوں کا جواب جو عظمت صحابہ کی پامالی میں ان کے یہاں موجود ہیں ـ
شیعوں سے ہمارا مسلکی و فروعی اختلاف نہیں ، اصولی ، بنیادی اور مذہبی اختلاف ہے ، اس لئے ان سے اتحاد بس ایک جھوٹا نعرہ ہے یا گوز حمار ـ
*سیاسی معاملات* میں جمہوریت کے کی بنیاد پر ان سے ویسے ہی تعلقات جائز ہوسکتے ہیں جیسے غیر مسلموں سے ، انہی شرائط و حدود میں ـ
یہ خدشہ بالکل ہی واہیات ہے کہ موجودہ احوال کی نزاکت کے سبب ہم ان کے بارے میں فکرا نرم گوشہ ہو جائیں ، جس طرح  اسلامی سرحدوں کی حفاظت فرض عین ہے ، اسی طرح ملکی امن و امان کا قیام بھی عینِ فریض ، یہ کہنا کہ خارجی معاملات کے سبب داخلی امور کو نظر انداز کردیا جائے تو یہ عقل و تدبیر کے بھی خلاف ہے ، و اسلامی تعلیمات کے بھی ، اور جیسا کہ ہم نے بتایا کہ شیعوں سے ہمارا مسلکی نہیں مذہبی اور دینی نزاع ہے ، جس میں اتحاد کی کوئی بنیاد نہیں ـ
بر صغیر کے شیعہ غالی و رافضی ہیں ، تفضیلی امامی وغیرہ کا کم از کم یہاں وجود آٹے میں نمک کے برابر ہے ، اس لئے ان کا بہانہ بناکر تعلقات کا جواز نہیں مل سکتا ـ
ہم ان کے کے ساتھ ملکی ملی اسٹیج کا اشتراک کر سکتے ہیں ، بدرجہ مجبوری ، یا دفع شر کے لئے ، لیکن اس کے لئے ان کی نجی محفلوں میں شرکت دل کے مرض کی علامت ہے ـ
مولانا انیس الرحمن صاحب کا بیان سنا میں نے بھی ، بڑی حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے کہا دونوں طرف -شیعہ و سنی - سے زیادتی ہوئی ہے ، تیسری جماعت یعنی صوفیہ کرام نے حضرت علی رض کا حق ادا کیا ، یہ بتاتا ہے کہ نرمی کے بہانہ سے بڑے بڑے کیسے اور کہاں تک بہہ کر نکل پہنچ 
چکے ہیں ـ
یعنی علماء اہلسنت آج تک حضرت علی کا حق مارتے رہے ـ
علماء اہلسنت نے حضرت کا مرتبہ و تعلیمات کا مکمل حق ادا کرلیا ہے ، آپ کو ایک تو نظر نہ آیا ،اور اس کی شکایت کی بھی تو محرفین قرآن ، مغلظات بکنے والے شیعوں سے ؟
انتہائی بے شرمی کی بات ہے ـ
اگر غیر اندیش لوگوں کو چھوٹ دی گئی تو قوم وملت کا خسارہ طے ہے ، لکھنؤ کے ایک معروف مقرر جس حد تک جاچکے ہیں جگ ظاہر ہے ، صرف اس لئے کہ ان کے بڑوں نے رسمی و نمائشی گرفت کرکے اپنا پلا جھاڑ لیا اور ایک قومی ادارہ کی ساخت کو بربادی کے لئے ان کے حوالہ کردیا ـ انا للہ وانا الیہ راجعون
اب امارت شرعیہ والوں کے رد عمل کے ہم منتظر ہیں ـ

No comments:

Post a Comment