Wednesday, 12 August 2020

مسئلہ استمداد من غیر اللہ کی وضاحت

 ﴿ مسئلہ استمداد من غیر اللہ کی وضاحت﴾

اہل السنت والجماعت علماء دیوبند (نوراللہ وجوھھم یوم القیامۃ ) کے نزدیک دلائل کی روشنی میں ندا ء اور استعانت میں تفصیل اور تقسیم ہے ۔نہ نداء  واستعانت تمام کے تمام بالکلیہ جائز ہے اور نہ مطلقاً شرک ہے بلکہ اس میں تقسیم ہے جس کی تفصیل حاضر خدمت ہے ۔ بتوفیق اللہ تعالیٰ وعونہ ۔ 

بحث اول :  استعانت من غیر اللہ کے بارے میں کریں گے ۔ 

استمداد من غیراللہ آٹھ قسم پر ہے :

(۱)... قسمِ او ل:  اللہ تعالیٰ کے علاوہ (نبی ،ولی ،پیر ،بُت و دیگر غیراللہ) کو مستقل اور قادر بالذّات سمجھنا  اور ان سے مدد مانگنا ۔ 

حکم :  ایسی مدد مانگنا صریح شرک ہے ،ایسا شرک جس کی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اور عموماً مدّعیانِ اسلام میں اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے صرف وثنیہ (بت پرست ) اس کے قائل ہیں کہ وہ وجود باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ دوسری مخلوقات کو بھی قادر بالذّات سمجھتے ہیں اور ان سے مدد مانگتے ہیں ۔العیاذباللہ 

(۲)... قسم دوم :  غیراللہ (مستعان منہ ،جس سے مدد مانگی جاتی ہے )کو تو قادر بالذَّات نہیں سمجھتے ہیں ۔لیکن قادر بالعطاء سمجھتے ہیں ۔ لیکن ان کا عقیدہ ایسا ہوتا ہے کہ اس بندے(نبی یا ولی ودیگر مخلوق ) کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قدرت دی ہے جس کے بعد یہ مستقل اور خود مختاربن گیاہے کہ اب جو بھی چاہتاہے اور جب بھی چاہتاہے اور جس کے حق میں بھی چاہتاہے وہ کرسکتاہے ۔ 

حکم :  استعانت کی یہ صورت بھی شرک ہے اورمنصوصی(قرآن کی رُو سے) شرک ہے ۔ مشرکین مکہ کا بھی یہی قصور تھا ۔ کیوں کہ وہ اپنے معبودوں کو قادر بالذات نہیں کہتے تھے بلکہ ان کو متصرف باِذن اللہ سمجھتے تھے ۔ لیکن ان کا خیال یہ ہوتاتھا کہ ان بتوں کو تو اب ویسے بھی اختیارات حاصل ہوگۓ ہیں ،وہ اب جس کے لئے اور جب بھی چاہیں مدد کرسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکین زمانہ جاہلیت میں ایسی تلبیہ پڑھتے تھے۔ 

’’ لبیک اللھم لبیک لاشریک لک الاشریکا ھو لک تملکہ وماملک ‘‘ 

’’ ہم حاضر ہیں اے اللہ ہم حاضر ہیں ۔ آپ کا کوئی بھی شریک نہیں ہے لیکن وہ (شریک ) ہے کہ جو آپ کا (شریک ) ہے ۔ آپ ان کے اور ان کے تمام مملوکات کے مالک ہو“ ۔ 

اگر قرآن کی طرف رجوع کی جائے وہاں بھی ہمیں تصریح ملتی ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو قادر بالذات نہیں سمجھتے تھے :  (هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّه.مَا نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونا إِلَى اللَّهِ زُلْفى)

’’ وہ کہتے تھے کہ یہ (اصنام ) اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری شفاعت کرنے والے ہوں گے ۔ ہم ان کی عبادت صرف اس وجہ سے کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ تک پہنچائے ۔ 

الغرض:  ایسا عقیدہ بھی شرکیہ عقیدہ ہے اور افسوس کی بات ہے کہ آج کل بعض جهلاء  مدّعیانِ اسلام نے بھی یہ عقیدہ اپنایا هوا ہے ۔ اللھم احفظنا منہ۔ آمین ۔

میری مراد  بریلوی طبقه(واخواتهم) هے. 

(۳)... قسم سوم :  زندہ آدمی سے امورِ عادیہ میں مدد مانگنا ، کہ وہ فعل عادۃً  انسان کا فعل شمار ہوتاہے ۔یہ مستعان منہ محض ذریعہ اورآلہ بن جاتاہے اور حاجت روا  اور مشکل کشا فقط اللہ تعالیٰ کو ہی سمجھا جاتا ہو ۔ 

مثلاً:  میں نے زید سے کہا کہ مجھے پانی دیدو ، یامثلا میری فلاں مدد کرو ، یا جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زندہ دوستوں سے امورِ عادیہ مدد مانگی تھی کہ :( مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّه(سورة ال عمران آیت۵۲) 

اسی طرح دوسری جگہ میں ذوالقرنین کے بارے میں آتاہے کہ اس نے اپنے زندہ ساتھیوں سے امورِ عادیہ میں مدد مانگی تھی کہ:( فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ)(سورة الکهف:۹۵) میرے ساتھ اپنی قوت میں مدد کرو ۔ 

ایسے بہت زیادہ دلائل اور شواھد موجود ہیں کہ انبیاء کرام علیھم السلام اور صحابہ عظام رضی اللہ عنھم اور سلف صالحین رحمھم اللہ تعالیٰ نے مدد مانگی ہے ۔ اس سے یہی قسم مراد ہے ۔ اور اس کو ماتحت الاسباب استمداد کهتے هے 

حکم :  یہ قسم بالاتفاق جائز ہے ۔ 

نوٹ:    ہم اہل السنة والجماعۃ جس طرح تفریط ( کمی ) کے قائل نہیں ہیں اسی طرح افراط (زیادتی ) کے بھی قائل نہیں ہیں ۔ بالفاظ دیگر جس طرح بدعت کے قائل نہیں ہیں اسی طرح الحاد کے بھی قائل نہیں ہیں ۔ 

یہاں امین اللہ پشاوری غیرمقلد نے الحاد سے کام لیا ہے وہ کہتا ہے کہ( استعانت من غیراللہ کی) یہ قسم بھی غلط ہے ۔ مزید کہتاہے کہ اس میں تین نقصانات ہیں ایک یہ کہ اس میں شرکِ خفی کا شائبہ ہے ..... الخ (حکمۃ القرآن طبع اول : ۱/ ۷۸) 

جو که سراسر ظلم و زیادتی هے.

(۴)... قسمِ چہارم :  زندہ آدمی سے امورِ غیرعادیہ میں امداد طلب کرنا کہ وہ عادۃً  اور شرعاً  انسان کی قدرت سے باہر ہو اور انسان کا فعل بھی شمار نہیں ہوتاہو ۔ 

مثلاً :  اے مرشد اے پیر مجھے بچہ دیدو وغیرہ ۔ 

حکم :  (استعانت من غیراللہ ) کی یہ قسم بھی ناجائز ہے ۔البتہ کرامت اور اعجاز (معجزہ ) اس سے مستثنیٰ ہے (اس کی تفصیل مستقل نمبر میں آرہی ہے ان شاء اللہ تعالیٰ،  اور چونکہ کرامت میں استمرار نہیں ہوتاہے اس وجہ سے وہ اس قسم سے خود بخود مستثنیٰ ہوجاتاہے ۔) 

(۵)... قسم پنجم:  نبی یاولی کی وفات کے بعد امور غیرِعادیہ یاان امورِ عادیہ کہ جس میں انسان کی موت کے ساتھ اس کی قدرت اورطاقت ختم ہوجاتی ہے میں مدد مانگنا.

مثلاً: (امور غیرِعادیہ کی مثال ) اے مرشداے پیر مجھے اولاد عطا کر ۔ (ان امور عادیہ کی مثال جس کی موت کی وجہ سے طاقت وقوت ختم ہوجاتی ہے ) اے فلاں میری فلاں مقدمہ ختم کرو ۔ 

حکم :  یہ بھی ناجائزہے ۔ 

(۶)... قسم ششم : کسی نبی یاولی سے بعد از وفات روحانی فیض حاصل کرنے میں مدد طلب حاصل کرنا ۔

حکم : یہ قسم جائز ہے ۔ 

تنبیہ :  روحانی فیض سے بریلویوں قبرپرستوں جیساحصولِ فیض مراد نہیں ہے کہ روح مدد کرتی ہے العیاذباللہ ۔ بلکہ شریعت کے دائرہ میں رہ کر جائز صورت میں مرادہے۔یعنی اس سے مراد فیضِ قبور ہے ۔ جس کی وضاحت اور تفصیل گزر چکی ہے ۔ 

(۷).. قسم ہفتم :  اُمورِ عادیہ اور غیرِعادیہ میں زندہ یا وفات شدہ کے توسل اور برکت کی مددسے اللہ تعالیٰ سے دعا اور مدد مانگنا ۔ 

حکم : یہ قسم جائز ہے اس کو مجازاً مدد کہا گیا ہے حقیقت میں توسل ہے اور مدد اللہ سے مانگنی ہے ۔ 

تنبیہ:  اس قسم میں استشفاع بھی داخل ہے ۔ 

(۸)... قسم ہشتم :  ایک نبی یا ولی ایک خاص وقت میں بطور اعجاز وکرامت کہہ دیں کہ مانگو کیا مانگتے ہو ۔ اس خاص وقت میں سائل اس سے امور عادیہ اورغیرعادیہ میں کوئی مطالبہ کرے اور مدد مانگے ۔ 

حکم: یہ جائز ہے ۔ 

ایک تو اس میں استمرار نہیں ہے کیونکه یہ کرامت ہے اور کرامت میں استمرار نہیں ہوتاہے ۔ اوردوسرا یہ کہ یہ بندہ کا فعل نہیں ہوتاہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے ۔ کیونکہ کرامت اور معجزہ بندہ کا فعل نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتاہے جو بندہ کے ہاتھ پہ ظاہر ہوتاہے ۔(کما مرّ تفصیله) اس میں طاقتِ بشریہ کو دخل نہیں ہے۔اس وجہ سے یہ خلافِ قانون ہے اور خلاف قانون میں استمرار اوردوام نہیں ہوتاہے ۔ 

خلاصہ:  یہ کل آٹھ قسمیں ہوئیں جس میں چار قسم جائز اور چار ناجائز ہیں ۔

فائده: مذکورتقسیم کو آسان الفاظوں میں یوں بھی تعبیر کرسکتے هیں که وه مدد جو مافوق لااسباب هو تو ناجائز اور جو ماتحت الاسباب هو تو وه جائز هوکا. تو جو جواز کی قسم هو وه ماتحت الاسباب میں داخل هوگا اور باقی مافوق لاسباب میں هوگا..


                                                                        ﴿نداء بالغیر﴾ 

اس میں بھی استعانت کی طرح آٹھ قسمیں بنتی ہیں ۔ جس میں بعض جائز اور بعض ناجائز صورتیں هیں.

مخلوق کو جو نداء دی جاتی ہے وہ  دو حال سے خالی نہیں ہوگا۔ 

(۱)...  یا زندہ کو ندادی جائے گی ۔

(۲)... یامردہ کو  ندا دی جائے گی.

 اگر زندہ کو ندا دی جاتی ہے اس کی تین قسمیں بنتی ہیں : 

(۱)..  اس زنده منادٰی کو نزدیک سے ندا دی جائے گی جو عادۃً سنتاہے۔ 

حکم:  اس میں کوئی نزاع نہیں ہے یہ جائز ہے ۔ کیونکه ایسی نداء قریب سے عادةً سنی جاتی ہے ۔ 

(۲)...  زندہ آدمی(جس کو پکارا جائے) کو بُعدا ً(دور) سے نداء دی جائے محض شوق ،محبت ،اور تلذذ کی نیت اور غرض سے ۔ 

حکم :  ایسی ندا ءبھی جائز ہے ۔ 

(۳)...  زندہ آدمی(جس کوپکارا جائے) کو غائبانہ نداءکرنا  اس نیت سے کہ وہ  دور سےبھی عادةً سنتاہے ۔ 

حکم :  یہ نداء ناجائز  اور شرک ہے۔ 

ہر چہ فوت شدہ آدمی کو نداءکرنا ہے اس میں چار پانچ قسمیں بنتی ہیں ۔

(۱)... میت کو (قبل دفن) نزدیک جاکر یا قبر کے پاس جاکر نداء  دینا ۔ 

حکم:  یہ جائز ہے بشرطیکہ یہ نداء بطور استعانت(طلب امداد) نہ ہو ۔ اگر بغرض سلام ہو تو ایسی نداء میں نبی ، ولی اور عام مؤمنین سب کے سب شامل ہیں ۔ 

مثلاً: جناب نبی کریمﷺ کے قبر کے پاس جب تشریف لے جائے تو ایسا کہہ سکتے ہوکہ :” الصّلوۃ والسّلام علیک یارسول اللہ“ 

یا کسی ولی مثلاً حضرت ابوبکر صدیق کی قبر کے پاس جاکر یہ کہہ دیں کہ : ” السّلام علیک یا ابابکر“ اسی طرح حضرت عمر فاروق اور دیگر خواص وعوام اولیاء کرام اور عام المؤمنین کو اسی طرح نداء  بدون الاستمداد  کهه سکتے ہو ۔ 

تنبیہ:  اگر یہ نداءسلام کے علاوہ کسی دوسری نیت کے لئے ہو پھر تو جناب نبی کریمﷺ کے قبر مبارک کے ساتھ ایسی نداء جائز ہے کیونکه جناب نبی کریمﷺ کی سَماع میں تو اتفاق ہے ۔البتہ عام قبور کو سلام کے علاوہ  نداء کرنے میں آج کل کے دور میں احتیاط اسی میں ہے کہ سلام کے علاوہ دوسری نداء کی اجازت نہ دی جائے ۔ 

۲:  فوت شدہ کو غائبانہ طور پہ نداءکرنا بدون الاستمداد محض شوقاً ، محبةً  اور تلذذاً تحسّراً حِرماناًکے غلبہ کی وجہ سے ۔

حکم :  یہ صورت بھی جائز ہے ۔ 

ملاحظہ :  اکثر بزرگانِ دین کی قصائدِ شعریہ میں جو ند اء پائی جاتی ہے وہ نداء  اس قسم میں داخل ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ وہ  دور سے بھی سنتے اور مدد کرسکتے ہیں  العیاذبالله... 

۳:  فوت شدہ شخص(نبی یاکوئی دوسرے ولی کو) غائبانہ نداء دینا  اس نیت سے کہ وہ  دورسے بھی عادةً سنتے ہیں۔

حکم :  نداء کی یہ صورت ناجائز اور شرک ہے ۔ 

۴:  کسی کو غائبانہ نداءسےپکارے لیکن اس سے مقصود استمداد یاشوق ومحبت نہ ہو بلکہ کسی دعا وغیرہ میں اس کا نام بصیغہ نداء مذکور ہو اور وہ اتباعاً و حکایةً  ایسی ندا ء کرے  ۔ 

حکم :  یہ بھی جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ نداءوغیرہ قرآن وحدیث سے ثابت ہو ۔ 

مثلاً: التحیات میں” السلام علیک ایھا النبیّ“ کہنا جو یہاں صیغہ نداء کے ساتھ ہی ہے ۔ یا  اسی طرح قرآن مجید میں ”یافرعون“  ”یا ھامان“ وغیرہ یا حدیث پاک میں”یارسول الله“  اسماءِ صیغہ نداء کے ساتھ مذکور ہیں ۔ تو ایسے وقت میں اتباعاً ایسی نداء کریں تو یہ جائز ہے ۔ 

خلاصہ:  اس تمام بحث کا یہ خلاصہ نکلا کہ نہ ہم مطلقا استمداد کی اجازت دیتے ہیں ۔اور نہ مطلقاً نداء جائز سمجھتے ہیں ۔ بلکہ اس میں بین بین (مبنی بر اعتدال ) انصاف کے ساتھ اپنے اپنے وصف کے ساتھ بات کرتے ہیں ۔ 

بالفاظ دیگر نہ افراط سے کا م لیتے ہیں اور نہ تفریط سے بلکہ اعتدال سے کام لیتے ہیں ۔ یعنی ہم اس نداء اوراستعانت سے لوگوں کو منع کرتے ہیں کہ وہ امور غیرعادیہ میں مطلقاً (میتاوحیّا ) اور ان امور ِعادیہ میں استعانت (مددمانگنا) جو اس کی قدرت کے باہر ہو یا کسی مخلوق کو قادر بالذات یا قادر بالعطاء سمجھتے ہوئے پھر اسے مستقل اور خود مختار بنادے ۔ ایسی استعانات ہم بدلائلٍٍٍ نہیں مانتے ہیں ۔ 

اوروہ نداء  و استعانت جو انسان کی قدرت میں ہو اور ماتحت الاسباب ہو ایسی ندا اور استعانت کو ہم مانتے ہیں ۔ فللہ الحمد ۔ 

اور اکابرین دیوبند رحمھم اللہ تعالیٰ کے بھی یہی نظریات ہیں کہ استعانتِ محرّمہ کے قائل ہیں اور نہ بالکلیہ استعانت کے منکرین ہیں ۔

     بالفاظ دیگر۔ ہم (علماء دیوبند ) ہر گز ہرگز استعانتِ محرّمہ کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ ہم تو اس کو صریح شرک اور ناجائز کہتے ہیں ۔

 بریلوی حضرات یہاں خوش نہ ہوں کہ گویا ہمارے شرکیہ عقائد علماء دیوبند کی کتب سے بھی ثابت ہیں ، نہیں هرگز نهیں بلکہ ہمارے نزدیک اس میں تفصیل ہے جو پہلے گزرچکی ہے ۔ تو بریلویوں اور علماءِ حقہ کے عقائد میں آسمان اور زمین کا فرق ہے ۔لیکن ناسمجھ اور قلتِ عقل والے غیرمقلدین اور بریلوی اس فرق سے یاتو جاہل ہیں یا متجاہل ہیں۔ 

خود اکابرین دیوبند رحمھم اللہ تعالیٰ سے بھی ملاحظہ فرمائیں کہ علماء دیوبند (رحمھم اللہ ) نہ تو استعانتِ فاسدہ کے قائل ہیں اور نہ مطلقاً استعانت کو شرک وناجائز کہتے ہیں ۔ 

مثلاً:  حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ استعانت کی ایسی اقسام بیان کرتے ہیں کہ : 

(۱) ... استعانت واستمداد بالمخلوق جو باعتقاد علم وقدرت مستقل مستمد منہ ہو وہ شرک ہے ۔ 

(۲) ...اور جو باعتقاد علم وقدرت غیرمستقل ہو مگر وہ علم وقدرت کسی دلیل سے ثابت نہ ہو معصیت ہے ۔ 

(۳) ...اور جو باعتقاد علم وقدرت غیر مستقل ہو اور وہ علم وقدرت کسی دلیل سے ثابت ہو جائز ہے خواہ وہ مستمد منہ زندہ ہو یامیت ۔ 

(۴) ...اور جو استمداد بلا اعتقاد علم وقدرت ہو نہ مستقل نہ غیرمستقل پس اگر طریق استمداد مفید ہو تب بھی جائز ہے جیسے استمداد بالنار والماء والواقعات التاریخیہ ۔ 

(۵) وگرنہ لغو ہے ۔        (امداد الفتاویٰ : ۵/ ۳۳۵ ) 

تو معلوم هوا که حضرت تھانوی ؒ نہ تو مطلقاً استمداد کے شرک کے قائل ہیں اور نہ مطلقاً جواز کے قائل ہیں ۔ 

اور مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ بھی اس کے بارے میں تقسیم کے قائل ہیں ، غیرمقلدین اور انکے بھائی بریلوی حضرات مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ کا عقیدہ بھی ملاحظہ فرمائیں وہ فرماتے ہیں کہ : استعانت کی تین معنیٰ ہیں : 

(۱) ... حق تعالیٰ سے دعا کرے کہ بحرمتِ فلاں میرا کام کردے یہ بالاتفاق جائز ہے خواہ عندا لقبر ہو خوا ہ دوسری جگہ اس میں کسی کا کلام نہیں ۔ 

(۲) ...صاحب قبر کو کہے کہ تم میرا کا م کردو یہ شرک ہے ...

(۳) ... قبر کے پاس جاکر کہے کہ اے فلاں تم میرے واسطے دعا کرو کہ حق تعالیٰ میرا کا م کردے اس میں علماء کا اختلاف ہے ،مجوّزین سماع موتی اس کے جواز کے قائل ہیں ... الخ ۔ (فتاویٰ رشیدیہ ) 

اور دوسری جگہ فرماتے ہیں : ’’ ندا ء غیراللہ کو کرنا دور سے شرکِ حقیقی تب ہوتا ہے کہ ان کو عالم ِسماع مستقل عقیدہ کرے ورنہ شرک نہیں ، مثلاً یہ جانے کہ حق تعالیٰ اس کو مطلع فرمادے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچادیویں گے جیسا درود کی نسبت وارد ہے یامحض شوقیہ کہتاہو محبت میں یا عرض حال محل تحسر وحرمان میں کہ ایسے مواقع میں اگر چہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں لیکن ہرگز نہ مقصود اً سماع ہوتا ہے نہ عقیدۃً ، پس ان ہی اقسام سے کلمات مناجات واشعار بزرگان کی ہوتی ہے کہ فی حد ذاتہ نہ شرک نہ معصیت مگر ہاں بوجہ موہم ہونے کے ان کلمات کا مجامع میں کہنا مکروہ ہے کہ عوام کو ضرر ہے اور فی حد ذاتہ ایہام بھی ہے “۔ (فتاویٰ رشیدیہ،صفحہ: ۱۸۲ ) 

ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں کہ: ” جب انبیاء علیھم السلام کو علمِ غیب نہیں تو یارسول اللہ کہنا بھی ناجائز ہوگا اگر یہ عقیدہ کرکے کہے کہ وہ دور سے سنتے ہیں بسببِ علمِ غیب کی تو خود کفر ہے اور جو یہ عقیدہ نہیں تو کفر نہیں مگر مشابہ کفر ہے ....“  (ایضاً ص: ۲۰۳ و ۲۰۴ ، مکاتیب رشیدیہ ص:۷۲) 

اسی طرح ایک جگہ پر حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ ایک قول ذکر کرتے ہیں کہ:”سو اشعار ومدح میں جو نداء خطاب پڑھا جاتا ہے اگر ذات فخرِ عالم کو حاضر وناظر بالذات کوئی عقیدہ کرے تو وہ مشرک ہوتا ہے اور اگر یہ عقیدہ نہیں بلکہ محض محبت میں کہتا ہے یا بوجہ اس کی کہ اگر ضمن صلوۃ  و سلام میں ہے تو ملائک آپﷺ تک پہنچا دیں گے اور جو بدون اس کی ہے وقت غرض ِاعمال کی پیش ہوجاوے گا تو جائز ہے مگر چوں کہ اس مجمع میں جہّال، سفہاء  اور اہلِ بدعت کہ تمام اولیاء تک کی نسبت ان کا عقیدہ عالمِ بالذات ہونے اور متصرف بالذات ہونے کا ہے موجود هوتے ہیں تو بصورت ندا ء خطاب کے ان کے عقائدکا افساد اور ان کی بدعت وشرک کی تائید ہوتی ہے تو در صورتیکہ یہ امر مظنون بلکہ بحکم یقین ہے تو در صورۃِ ثانیہ خطاب شرک نہیں مگر توہّم شرک اور سببِ فتنہ وفساد کا ہے .... الخ ۔ ( البراہین القاطعہ ، ص:۲۷) 

(۳)... اسی طرح تقسیمات شیخ الاسلام محدّث دوران مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ نے بھی” الارشاد فی مسئلۃ الاستمداد “ میں مفصّلا ومحققاً بحث کی ہے ۔ 

(۴) ... اسی طرح ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند منا ظرِ وقت فقیہ العصر مولانا حسن چاندپوری رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً نے بھی اس کے متعلق مفصّل ومدلل اور منقح بحث کیا ہے ، دیکھئے :(سبیل السداد فی مسئلۃ الاستمداد“ مشمولہ رسائل چاندپوری جلد دوم ) 

اس پر اگر مزید تفصیل پیش کریں گے تو بات بهت لمبی ہوجائیگی ۔ لیکن مختصراً یہ کہ ہم نداء اوراستعانت میں تقسیم کرتے ہیں یہ ویسے اہل باطل کے الزامات اور اتھامات ہیں کہ ایک طرف تو متشددین غیرمقلدین کہتے ہیں کہ علماء دیوبند بھی بریلویوں کی طرح نداء اور استعانت کے قائل ہیں ۔ 

اور دوسری طرف بریلوی حضرات (واخواتہم سیفیان) کہتے ہیں کہ علماء دیوبند مطلقاً ہر نداء  اور استعانت کو شرک کہتے ہیں ۔ 

           ہم  ان دونوں فرقوں کے جواب میں کہتے ہیں کہ:(سبحٰنک ھٰذا بھتان عظیم) 

ہم (علماء اہل السنت والجماعت دیوبند کثراللہ سوادھم ) نے اپنا موقف پیش کیا کہ ہم ان میں تقسیم کے قائل ہیں ، نہ تو بریلویوں اورسیفیوں کی طرح عقیدہ حاضر وناظرو علمِ غیب جیسےعقائدکےساتھ نداء کے قائل ہیں اور نہ غیرمقلدین کی طرح قائل ہیں کہ محض ندا ء کرنے سے بندہ کو کافر کہیں گے حاشا وکلا ۔ بلکہ خود غیرمقلدین کے اکابرین بھی یہ تصریح کرتے ہیں کہ علماء دیوبند مطلق استمداد کے قائل نہیں ہیں ۔ 

غیرمقلدوں کے شیخ الاسلا م ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں کہ: ” مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی اشعار میں ندا ء شوقیہ بخذبہ حال مراد ہے نہ کہ نداء حقیقی غائبانہ حاضر وناظر جان کر .... ‘‘ (اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان ، ص: ۱۱۳ ) 

اسی طرح ایک اور  کتاب(رسائلِ ثنائیه)میں بھی اس طرح مضمون کی طرف اشاره کیاهے

معلوم ہواکہ غیرمقلدین کے نزدیک بھی علماء دیوبند استمدادِ بدعی کے قائل نہیں ہیں ۔ فللہ الحمد والمنّۃ ۔ 

اور یہ (نداء اور استعانت کے بارے میں ) تقسیم ہم نے اصل یعنی شریعت سے لیا ہے مثلاً : استعانت کے بارے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلا م نے اپنے دوستوں سے مدد مانگی تھی کہ (من انصاری الی اللہ ) کہ کون میری مدد کرے گا ۔ اسی طرح ذوالقرنین نے بھی اپنے ساتھیوں سے ماتحت الاسباب مدد مانگی تھی کہ (فاعینونی بقوّۃ ) کہ میرے ساتھ اپنی قوت میں مدد کرو ۔ اس سے بریلویوں کی شرکی استعانت بھی مراد نہیں ہے اور ساتھ ساتھ غیرمقلدوں کو بھی سبق ملتاہے کہ مطلق استعانت شرک نہیں ہے ۔ 

          اسی طرح ندا کے متعلق بخاری شریف میں آتاہے کہ : جناب نبی کریمﷺ نے روم کے بادشاہ ہِرَقْل کو ایک خط بھیجا تھا اس میں ایسے الفاظ تھے بخاری شریف کی روایت ملاحظہ فرمائیں : ” بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ: سَلاَمٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ،“۔ (بخاری :۱/ ۵ قدیمی کتب خانہ ) 

بسم الله الرحمن الرحیم: محمد(ﷺ) جو الله کا بنده اور رسول هے هرقل رومِ عظیم کے بادشاه کو. سلام اس پر جو هدایت کا تابع هو.اس کے بعد بیشک میں آپ کو اسلام کی دعوت دیتاہوں آپ قبول کرو تو سالم ہوجاؤگے ۔

 دیکھئے جناب نبی کریمﷺ) حاضر کاصیغہ استعمال کرتے ہیں حالانکہ اس وقت جناب نبی کریمﷺ عرب میں ہیں اور روم کا بادشاہ روم میں ، لیکن جناب نبی کریمﷺ کا یہ خیال تھا کہ یہ خط مکتوب الیہ(بادشاہ ) کو پہنچ جائیگا ، اس کے ہاتھ تک پہنچ جائے گا ، اس کی نظر سے گزرے گا تب خطاب صحیح ہوجائے گا ۔ 

          یا اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ، قوم ثمود نے جب اپنے پیغمبر کی نافرمانی کی اور تباہ ہوئے تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ : (فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ .... )سورة الأعراف:آیت۷۹)         

        اسی طرح خطاب حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی کیا تھا جبکہ کے اس کی قوم ہلاک ہوچکا تھا لیکن پھر بھی فوت شدہ لوگوں کو پیغمبر نداء خطابیہ کے ساتھ خطاب کرتے ہیں ۔ یہ خطاب اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ مطلقاً ندا ء شرک وناجائز نہیں ہے ۔

         بعض اوقات بعض صحیح العقیدہ حضرات کے اشعار اور مدح میں اگر جناب نبی پاکﷺ پر درود بصیغہ خطاب کے ہوتو اگر کوئی بغیر عقیدہ فاسدہ کے ایسا کہے تو ڈائریکٹ شرک اور کفر کے فتویٰ لگانا جہالت اور احمقانہ حرکت ہے ۔ 

حضرت علی ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی کے دور خلافت میں مسجد تشریف لے آئے جب دیکھا تولوگ تراویح میں مصروف تھے ۔ تو حضرت علی عمر فاروق ایسے الفاظ سے دعا دیتے ہیں (اس وقت عمر فاروق وفات ہوچکے تھے)کہ :

” نورت مساجدنا نور الله قبرك يابن الخطاب 

                             (السيرة الحلبية،جلد ثانی ، ص: ۱۱۲، باب الهجرة إلى المدينة، الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت) 

آپ نے ہماری مساجد کو منور کیا اللہ تعالیٰ آپ کے قبر کو منور کرے اے (عمر ) ابن الخطاب ۔ 

دیکھئے : یہاں حضرت علی حضرت عمر فاروق کو وفات کے بعد نداء خطابیہ دیتے ہیں ،لیکن یہ نداء بطور استغاثہ واستمداد (کمثل المبتدعین) نہیں ہے ،مقصود یہ ہے کہ علی الاطلاق استعانت ونداء الی غیر اللہ کو شرک کہنا یا ان سے امداد طلب کرنا غلو اور ناجائز ہے ۔ 

٭... صرف یہ نہیں بلکہ غیرمقلدین کے اکابر کا موقف بھی دیکھئے کہ وہ اس کے متعلق کیا کہتے ہیں ۔ 

(۱) ... امین اللہ پشاوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

”دا نداء شوقیہ دہ اور نداء شوقیہ پہ نزد د بعض علماؤ جائز دہ“ (یارسول اللہ آواز ص: ۵۵)

یعنی یہ نداء شوقیہ ہے اور نداء شوقیہ بعض علماء کے نزدیک جائز ہے ۔ 

(۲) ... اسی طرح غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل نذیر حسین دھلوی لکھتے ہیں کہ: ” اگر کبھی غلبہ محبت کی بنا پر یارسول اللہ یا یا غوث الاعظم زبان سے نکل جائے تو یہ جائز ہے ۔“ (فتاویٰ نذیریہ : ۱/ ۱۳۳ ) 

(۳)... اسی طرح غیرمقلدین کے مفسّر وعالم ،امام اہل حدیث (مجموعۃ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ) نواب وحیدالزمان غیرمقلد لکھتے ہیں :

”وبھٰذا ظھر ان ماتقولہ العامہ یارسول اللہ اویاعلی اویاغوث فمجرد النداء لانحکم بشرکھم“(ھدیۃ المھدی ص:۲۴) 

ترجمہ:  اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ عام لوگ جو یارسول اللہ ﷺ یا یاعلی یا یا غوث کہتے ہیں ہم صرف نداء کی وجہ سے شرک کا حکم نہیں لگاتے ہیں ۔

دیکھئے ...! امام اہلحدیث تو کہتے ہیں کہ ہم مطلق نداء کی وجہ سے شرک کا حکم نہیں لگاتے ہیں ۔ 

(۴) ... غیرمقلدین کے مشہور مؤرّخ اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب میں ہے کہ : ”۱۹۵۳ کی تحریک ختم نبوت میں مولانا غزنوی پر جب مقدمہ چلا تو عدالت میں جسٹس منیر نے آپ سے سوال کیا کہ کیا آپ (یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ) کہنے والے کو مشرک قرار دیتے ہیں ؟ مولانا غزنوی نے فرمایا : اس کا انحصار کہنے والے کی نیت پر ہے ہر اس شخص کو جو یہ الفاظ زبان سے نکالتا ہے مشرک نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ “َ(نقوش عظمت رفتہ ۔ص:۵۶) 

(۵) ... غیرمقلدین کے شیخ الاسلا م ثناءاللہ امرتسری صاحب کےرساله اهلحدیث میں  نواب صدیق حسن خان غیرمقلد کے ایک شعر کے متعلق ایک غیرمقلّد وضاحت کرتےهوۓ لکھتے هیں که: ”نواب صاحب مرحوم کي مذکوره شعر کا مطلب آپ کی عام تصنیفات کی روشنی میں سمجھنا چاهیے تو معلوم هوگا که اس سے مقصود حقیقة استمداد نهیں بلکه اظهارِ محبت هے.(رساله اهلحدیث امرتسر،۳جون۱۹۸۳، صفحه۷)

ایک جکه بریلوی حضرات مولانا قاسم نانوتوی ؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اور مولانا جامی ؒ وغیرہ کے اشعار نقل کئے ہیں کہ دیکھئے ان لوگوں نے بھی نداء غائبیہ بطور طلب امداد استعمال کیا ہے ۔غیرمقلدین کے اس مفتی اور شیخ الاسلام ثناءاللہ امرتسری صاحب نے اس بریلوی کو مفصل جواب دیا ہے ، لیکن ہم نشاندہی کے طور پر مختصر اقتباس لیں گے ، موصوف اس کو جواب دیتے ہیں :

” .... مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے اشعار میں نداء شوقیہ بجذبہ حال مراد ہے نہ کہ نداء حقیقی غائبانہ حاضر وناظر جان کر ....“ ۔

 (اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان ،ص:۱۱۳) 

٭...  امین اللہ پشاوری غیرمقلد نے بھی یہ حقیقت واضح کی ہے کہ : 

” اسباب کے درجہ میں مخلوق سے مدد مانگنا ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے یعنی مدد دو قسم پر ہے : 

(۱) ...ایک ماتحت الاسباب ہوتی ہے ، کہ ایک بندے کے پاس اسباب موجود ہیں اور آپ اس سے مدد مانگے ۔ یہ جائز ہے ... 

(۲) ...دوسری ایسی مدد مانگنی ہے کہ کسی کے پاس اسباب نہ ہو اور وہ بندہ غائب ہو یا وہ مردہ ہو اس کو پتہ نہیں ہوتا ہے اور آپ اس کو یہاں سے آواز دیتے ہیں .... یہ تمام شرک ہے“ ۔ ( حکمۃ القرآن : ۱/ ۷۷ طبع اول،تحت سورۃ الفاتحہ:آیت:۴) 

نوٹ:  امین اللہ پشاوری غیرمقلد کی یہ تفصیل پشتو زبان میں ہے یہاں اس کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے ۔

٭نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلّد لکھتے هیں:

”اس میں کوئی اختلاف نهیں که جن کاموں پر مخلوق کو قدرت حاصل هے ان کاموںمیں مخلوق سےاستغاثه کرنا جائز هے“  

(اخلاص التوحید للحمید المجید مشموله مجوعه رسائل جلد۱صفحه۳۲۵ و ۳۲۸،۳۶۵) 

بس اسی پر ہی اکتفاء کریں گے ۔ورنہ دلائل اور بھی ہیں لیکن خوف طوالت کی وجہ سے اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں ۔ 

اب آتے ہیں بعض ان اشعار اور نداء کی طرف جن پر مخالفین اعتراضات کرتے ہیں : 

حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی کے اشعار کی وضاحت : 

حضرت تھانوی کے اشعار ونداء پر بعض غیرمقلدین اورسیفی اور بریلوی حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تھانوی ؒ نے مندرجہ ذیل اشعار میں ندا ء کے ساتھ ساتھ استمداد کا بھی اخذ کیا ہے ،حضرت تھانوی ؒ کے اشعار یہ ہیں : 

یاشفیع العباد خذبیدی انت فی الاضطرار معتمدی        

لیس لی ملجأسواک اغث مسّنی الضّر سیدی وسندی 

     غشنی الدھر یا ابن عبداللہ کن مغیثاً فأنت لی مددی 

                      لیس  لی  طاعۃ  و لا عمل  بید  حبیک  فھو لی  عتدی

 یارسول الالہ باب لی من غمام الغموم ملتحدی   

                                                                                                                                                  [نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیب ، ص: ۱۵۶] 

جواب:

تو هم کهتے هیں که یهاں بھی یه بطور محبت کے ذکر کی گئ هیں نه که حقیقةً استمداد مراد هے.

آمدم برسرمقصد:  یہ جواب تھوڑا مفصل مگر اُصولی لکھیں گے تاکہ تمام اشعار اور نداء کے متعلق بات واضح ہوجائے ،ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ 

       ہر کلام کو قائل کے عقیدے اورنظریہ کے مطابق لیا جائے گا ۔ اورموصوف (تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ) تو علماء دیوبند کے سرخیل ہیں ، اور علماء دیوبند کے اس بارے میں عقیده اور نظریه کی تفصیل گزر چکی ہے کہ علماء دیوبند رحمھم اللہ تعالیٰ تقسیم کے قائل ہیں اور کسی بدعی استعانت اور بدعی نداء الی غیر اللہ کے قائل نہیں هے ۔ علماء دیوبند رحمھم اللہ تعالیٰ استمداد (مافوق الاسباب ) کے قائل نہیں ہیں ، جب بات ایسی ہے تو پھر موصوف کے اشعار غیرمقلدین سمیت بریلوی حضرات اورسیفی حضرات کیوں موصوف کے نظریہ کے مطابق نہیں لیتے ہیں ...؟ 

        موصوف (تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ ) کا اس باب میں کیا عقیدہ تھا  وہ تو پہلے گزر چکا ہے ، البتہ موقع کی مناسبت سے اور یاددہانی کے لئے دوبارہ ذکر کریں گے مع التفصیل ، ان شا ء اللہ تعالیٰ ۔ 

موصوف حاضر وناظر یعنی مافوق الاسباب والی نداء کو خود شرک کہتے ہیں ،اور نداء شوقیہ کو جائز سمجھتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں : 

(۱) ... استعانت واستمداد بالمخلوق جو باعتقاد علم وقدرت مستقل مستمد منہ ہو وہ شرک ہے ۔ 

(۲) ...اور جو باعتقاد علم وقدرت غیرمستقل ہو مگر وہ علم وقدرت کسی دلیل سے ثابت نہ ہو معصیت ہے ۔ 

(۳) ...اور جو باعتقاد علم وقدرت غیر مستقل ہو اور وہ علم وقدرت کسی دلیل سے ثابت ہو جائز ہے خواہ وہ مستمد منہ زندہ ہو یامیت ۔ 

(۴) ...اور خو استمداد بلا اعتقاد علم وقدرت ہو نہ مستقل نہ غیرمستقل پس اگر طریق استمداد مفید ہو تب بھی جائز ہے جیسے استمداد بالنار والماء والواقعات التاریخیہ ۔ 

(۵) وگرنہ لغو ہے ۔ (امداد الفتاویٰ : ۵/ ۳۳۵ ) 

اسی فتاویٰ میں ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں کہ : ” پس اگر اکابر میں سے کسی کی کلام میں ایسی نداء ہو تو اس کو یا مجاز پر محمول کیا جاوے گا یا ان کی طرف نسبت کرنے کو غیرصحیح کیا جاوے گا یا مثل اس کی کوئی اور مناسب توجیہ کی جاوے گی یہ تو ان کی تبریہ کے لئے ہے باقی عوام کو بوجہ متیقن مفسدہ کے جزماً وحتماً روکا جاوے گا “ ۔ ( فتاوی امدادیہ : ۵/ ۳۱۶ مکتبہ احمد شیہد اکوڑہ خٹک پشاور ) 

دیکھئے ...! حضرت تھانوی ؒنے خود اشعار کی وضاحت فرمائی کہ جن خواص نے ایسے اشعار میں نداء استعمال کی ہو اس کو ہم صحیح محمل پر حمل کریں گے ، اور جو عوام ہیں ان کو جزما وحتما ایسے اشعار سے منع کیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے عقیدہ کو نقصان پہنچے (یعنی ایسانہ ہو کہ مخلوق کے لئے علمِ غیب کے قائل ہوجائے ) ۔ 

      ایک اور جگہ پر ایک سائل کے جواب میں کہتے ہوئے ( غیراللہ کو ) علم غیب وغیرہ (ثابت ) کرنے پر ایسی بمباری کرتے ہیں کہ : ” بہر حال اس سے حاجتیں مانگنا اور اس کو متصرف سمجھنا اور غیب دان جاننا محض شرک ہے جن لوگوں نےان کے کھانے پینے ،ملنے سے کنارہ کیا بہت اچھا کیا خداتعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور جو لوگ ان گمراہوں کی مدد کرتے ہیں وہ بھی انہی میں ہیں “ ۔ (ایضاً،ص:۳۵۶) 

افسوس ایسے لوگوں پر جو تھانوی رح کو ان حوالہ جات کے بعد بھی بدعی اور شرکی نداء کے قائل سمجھتے ہیں ۔ العیاذباللہ        فیاللعجب وضیعۃ الادب !! 

ایک اورجگہ پر حضرت تھانوی رح نے نزاع کو ہی ختم کیا ہے فرماتے ہیں کہ : ” بارادہ استعانت واستغاثہ یاباعتقاد حاضر وناظر ہونے کی منہی عنہ ہے اور بدون اس اعتقاد کے محض شوقاً واستلذاذا ماذون فیہ ہے چونکہ اشعار پڑھنے کی غرض محض اظہار شوق واستلذاذ ہوتاہے اس لئے نقل میں توسع کیا گیا لیکن اگر کسی جگہ اس کے خلاف دیکھا جائے گا منع کردیا جائے گا “ ۔ (ایضاً ،ص:۳۵۴) 

دیکھئے اے عقلاء ...! عبارات  چیخ چیخ کرکهه رهی هیں کہ تھانوی ؒ تو محض شوقی ندا کے قائل تھے فاسد عقیدہ کے ہرگز ہرگز قائل نہیں تھے ،وہ تو مؤحد ،متبع سنت ، پیر ھادی اور مھدی تھے وہ کیسے بدعت کے قائل ہوسکتے ہیں چہ جائیکہ شرک ۔ !! 

ایک اور جگہ  حضرت تھانوی رح لکھتے ہیں کہ:” نداء غیراللہ بطور استغاثہ کے ناجائز ہے “ ۔ (مسائل تصوف قرآن کی روشنی میں، ص:۲۱۱ ) 

ایک اور جگہ پر بھی حضرت رح  نے ایک عنوان قائم کیا ہے کہ :” مصیبت کے وقت غیراللہ کو پکارنا زیادہ قابل افسوس ہے“ ۔ (ایضاً ،ص:۲۴۸ ) 

اسی طرح مزید علمِ غیب کے متعلق اپنا عقیدہ ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : 

”انبیاء(علیهم السلام)کو علمِ غیب نهیں“ (ایضاً صفحه۴۰۷) 

آمدم بر سر مطلب :  اس تمام بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ حضرت تھانوی رح حاضر وناظر ودیگر فاسد عقیدہ کے قائل نہیں تھے ۔ تو ان کے یه اشعار محض شوقاً،محبةً اور تلذّذاً هے نه که بطور حقیقی استمداد. 

اس پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت تھانوی ؒ نے ان اشعار کے بعد یہ شعر کا حصه بھی ذکر کیا ہے (اور مخالفین اس کو چھپاتے ہیں ظاہر نہیں کرتے ہیں ) کہ:”جُدْ بِلُقْیَاکَ فِی الْمَنَامِ“ 

ترجمہ: مجھے خواب میں اپنا چہرہ انور دکھادیں ۔ 

اگر حضرت تھانوی ؒ حاضر وناظر کے قائل ہوتے(جیساکہ اہل باطل یہ الزام لگاتے ہیں ) تو پھر حضرت رح نے”فی المنام“(خواب میں ) کی قید کیوں ذکرکرتے ، حیات کی بات کیوں ذکر نہیں کی کہ مجھے زندگی میں اپنا چہرہ انور دکھادے ۔ معلوم هوا که یه محض شوقیه نداء هے بدون العقیدة الفاسده

توجیہ نداء :  عبدالغفور لاری ؒ لکھتے ہیں کہ: ” قولھم فی المیراثی لاتبعد ای لاتھلک کأنھم من ضنھم بالمیت تصوّروہ حیاً فکرھوا موتہ فقالو ا لاتبعدای لابعدت ولاھلکت“ (عبدالغفور علی الفوائد الضیائیہ ۔ص: ۳۲۸) 

علامہ عبدالحکیم ؒ اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ :” ای لابعد ت بکسر العین صیغۃ الخطاب یعنی ان صیغۃ النھی مستعمل للدعاء “ ۔ (حاشیہ نمبر :۱۵، ص:۳۲۸) 

دیکھئے ...! انہوں نے ان مُردوں کو زندہ تصور کیا تھا اس وجہ سے ان کو خطابی صیغہ جات سے خطاب کرتے ہیں ۔ 

یا اسی طرح گزر گیا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ، قوم ثمود نے جب اپنے پیغمبر کی نافرمانی کی اور تباہ ہوئے تو قرآن اس کے متعلق فرماتا ہے کہ: (فتولیٰ عنھم وقال یٰقوم لقد ابلغتکم رسالۃ ربی ) 

اسی طرح خطاب حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی کیا تھا  باوجود اس کے کہ ان کی قوم ہلاک ہوچکی تھی لیکن پھر بھی فوت شدہ لوگوں کو نبی وقت نداء خطابیہ کے ساتھ خطاب کرتے ہیں ۔ 

الغرض :  بعض اوقات صحیح العقیدہ والا منادی اپنی نداء بغرض شوق ومحبت کرتے ہیں کہ ان کا مقصود اسماع نہیں ہوتا اور نہ کوئی دوسرے فاسد عقیدے کا مقصود ہوتاہے ۔ توحضرت تھانوی ؒ کے ان اشعار اور دوسرے اشعار کا یہی حکم ہے۔ باوجود اس کے که خود بھی فرماتے هے که”چونکہ اشعار پڑھنے کی غرض محض اظہار شوق واستلذاذ ہوتاہے“ (فتاوی امدادیه جلد۵صفحه۳۵۴)

معلوم هوا که تھانوی رح کے یه اشعار محض شوقا هے نه استمداداً.

حضرت تھانوی ؒ کا ایک اور شعر بھی ذکر کریں گے اس میں بھی اسی طرح صحیح تصور ہے بلا فاسد عقیدہ ونظریہ کے ۔ لیکن اہل باطل کی بڑی نا انصافی اور عظیم دجل کو بھی دیکھئے کہ  اہل باطل کی بڑی شخصیت اتنی بڑی خیانت سے کام لیتے ہیں تو پھر ان کے اصاغرین(چھوٹوں)سےکیاگلہ ہے ..!

غیرمقلدین کے مناظر ِاعظم ،شیخ الحدیث مولانا افضل سواتی غیرمقلد صاحب  اپنی کتاب میں ایک شعر نقل کرتے ہیں کہ : 

وَلَا اَتَاکَ اِمْرُءٌ مِّنْ ذَنْبِہِ                            وَجِلٌ اِلَّاوَعَادُ بِعَفْوٍ وَھُوَ مُغْتَفِرُ 

وَلَادَعَاکَ لَھِیْفٌ عِنْدَ نَازِلَۃٍ                        اِلَّا وَلِیَّاہُ مِنْکَ الْعَوْنُ وَالْیُسْرُ 

(نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیب ۔ص: ۲۰۱ ناشر : اسلامی کتب خانہ اردو بازار لاہور) 

شیخ افضل غیرمقلد صاحب نے تو یہ اشعار تھانوی رح سے نقل کئے لیکن ترجمہ اپنی طرف سے کیا ہے ۔ 

ان اشعار کا ترجمہ خود تھانوی ؒ کرتے ہیں اور ابہام کے وقت قوسین میں اس کی تشریح خود کرتے ہیں ۔ 

ٍ چنانچہ تھانویؒ ان اشعار کا ترجمہ مع افادہ فی القوسین ایسے کرتے ہیں کہ: 

ترجمه:  اور ه آپ پاس(مزار شریف)پر کوئي شخص اپنی گناه سے ڈرتا هوا دعا ئے مغفرت کیلئے  عرض کرنے کو آیا مگر که وه عفو کےساتھ بخشا هوا گیا (اس طرح سےکه حیاتِ برزخیه کےسبب آپ نےسن کر دعا فرمائی اور وه کامیاب هوگیا)

اور نه کسی مغموم نےکسی حادثه کےوقت آپ کو(مزار پر حاضر هوکردعا کیلے)

پکارا مگر آپ کی جانب سےعون اور آسانی نے اس کوجواب دیا(اس طرح سےکه حیاتِ برزخیه کےسبب آپ نےسن کر دعا فرمائی اور وه کامیاب هوگیا)

نوٹ: قوسین میں عبارت خودحضرت تھانوی رح هی کا هے 

یہ تھے وہ اشعار اور اس کا ترجمہ وتشریح خود حضرت تھانویؒ کے قلم سے ۔ لیکن غیرمقلدین کی ناانصافی کو داد دینا چاہئے کہ غیرمقلدین اپنی آخرت اور پریشانی کا سخت دن بھول گئے ہیں کہ اشعار توپورا نقل کئے لیکن شیخ افضل نے اپنی کتاب ”د

دیوبندیانو خطر ناک عقائد ۔ص:۲۳ “ میں ترجمہ میں اپنی غیرمقلدیت بدون اجتہاد کی خاطر صریح خیانت اور تحریف سے کام لیا ہے کہ تھانویؒ خود جگہ جگہ پر ترجمہ میں مابین القوسین خود اپنے قول کی تشریح کرتے ہیں ،  لیکن غیرمقلدین وہ قوسین والا ترجمہ نقل هی نہیں کرتے ہیں ۔ صرف اس کا متن بغیر ترجمہ وقوسین کے تشریح کے نقل کرتے ہیں ۔ 

ناظرین کرام ...!  آپ نے دیکھا کہ غیرمقلد شیخ افضل نے کتنی خیانت سے کام لیا ہے کہ حضرت تھانوی ؒ کے اشعار لیکر خفیہ انداز میں اس میں غیرمقلدانہ تحریف کیا کہ عوام تو کجا وہ بے خبر علماء جو اس باب میں مطالعہ نہیں رکھتے ہیں ان کوبھی دھوکہ دینا چاہا لیکن الحمد للہ ،اللہ تعالیٰ کی توفیق سے طلباء دیوبند (کثراللہ سوادھم ) کی کوششوں کی بدولت یہ مجرمانہ حرکت آشکارا  ہوا ۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ انہوں نے اور کتنے جھوٹ اور الزامات سے کام لیا ہوگا ۔ اورحقیقت بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب میں جگہ جگہ اپنی میراثی عادت خیانت سے کام لیا ہے اور اپنے بدعی عقائد پر مبنی مسلک کو چمکانے کی ناکام کوشش کی ہے ۔ یہ موقعہ اس کا نہیں کہ ہم ان کے الزامات اور کذبات دکھادیں ، یہی وجہ ہے کہ اس کتاب (د  دیوبند یانو خطرناک عقائد ) پر اپنا اسمِ محضہ بھی نہیں لکھا ہے بلکہ غیرمعروف کنیت لکھی ہے یعنی  ” ابو ناصر السلفی“

اور اپنی معصومیت لوگوں کو دکھلارهے هیں که دیکھے بریلوی فرقه بھی هرجگه سے رسول اللهﷺکو پکارتے هیں معاذالله

جبکه خود تھانوی رح قوسین ( ) میں فرماتے هیں که”مزار پر حاضر هوکر دعا کیلےپکارا...“ مطلب یه خطاب هرجگه سے نهیںبلکه یه عند القبر الشریف هے

اور یه وه مدد نهیں جو عام طور بریلوی متبدعانه طریقے سےمانگتے هیں جیسا که شیخ افضل غیرمقلدنے دھوکا دیا اور هم پر یهی بریلویانه والا طریقه ملزم کیا که دیکھو بریلوی حضرات بھی غیرالله سے مدد مانگتے هیں اور علماء دیوبند رح  بھی غیرالله سے امداد مانگتے هیں معاذالله

نهیں هرگز نهیں بلکه خودحضرت تھانوی نے اس کی تشریح کی هے(اگر غیرمقلد خیانت نه کرتے اور وه ترجمه مع القوسین نقل کردیتے تو قارئین کرام خود بخود سمجھ جاتے، لیکن غیرمقلّدین تو پھر غیرمقلّدین هی هیں اگر پور ی عبارت نقل کردیتے تو پھر ان کی خیانت ظاهر هوجاتي حضرت تھانوی اس مدد کی تشریح خود قوسین میں یوںکرتےهیں که ” آپ نےسن کر دعا فرمائی....“ مطلب نبی کریمﷺ زائر کیلئے  الله سے دعا فرمائیں گے تو یه زائر(زیارت کرنےوالا) کی حق میں مدد هوگئ.

خلاصہ:  حضرت تھانوی ؒ یہاں جناب نبی کریمﷺ سے استشفاع کا مسئلہ ذکر کرتے ہیں کہ قبر کے پاس جائے اور جناب نبی کریمﷺ کو کہے کہ :اللہ تعالیٰ سے میرے لئے فلاں دعامانگو اور جناب نبی پاکﷺ چونکہ زندہ ہیں حیات برزخی کے ساتھ (بضوء الدلائل الشرعیہ ) اس حیات برزخی کی وجہ سے عندالقبر جناب نبی پاکﷺ کا 

سماع بھی ثابت ہے  تو جناب نبی پاکﷺ آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں گے تو آپ کی روحانی مدد ہوجائیگی جناب نبی پاکﷺکے ذریعہ سے ۔یعنی یہ دعاقبول ہوجائے گی اور آپ کی وہ مراد اللہ تعالیٰ پوری فرمائیں گے ۔ 

یہاں تو یہ مراد نہیں ہے(جیسا کہ شیخ افضل اور دیگر غیرمقلدین یہ تصور دیتے ہیں ) کہ گویا نبی پاکﷺ کو ہر جگہ سے اگرآواز دی جائے تو وہ بذاتِ خود سنتے ہیں ۔العیاذباللہ تعالیٰ ۔ اور یا کہ یہاں جو عون اور مدد آیا ہے تو یہ جناب نبی پاکﷺ سے وہ عرفی مدد مانگنی ہے ، العیاذباللہ تعالیٰ۔ بلکہ خود تھانوی ؒ نے اس کے ترجمہ میں مابین القوسین میں یہ ذکر کیا ہے کہ قبر کے ساتھ آواز دے اور اسی طرح عون کا مطلب بھی خود واضح کیا ہے کہ جناب نبی پاک ﷺ آپ کے لئے دعامانگیں گے ۔ 

       لیکن افسوس اگر آپ انصاف سے کام لیتے اور خیانت نہ کرتے تو یہ سب کچھ واضح ہوجاتا ۔ 

نیز : ... ان اشعار سے پہلےحضرت تھانوی ؒ نے یہ بھی کہا ہے کہ :” یہ نہ سمجھا جاوے کہ آپﷺ کو ہر جگہ سے پکارنا جائز ہے “ ۔ (صفحہ:۱۹۹) 

غیرمقلدو...! خداکے لئے یہ حوالہ بھی دیکھیں ، کم از کم پوری زندگی ایک مرتبہ تو خیانت کے بغیر قدم اٹھائیے ...!!! 

تنبیہ: ہم حضرت تھانوی ؒ کے تمام اشعار فرداً فرداً ذکر نہیں کرسکتے ہیں کہ ہر ایک شعر اور نداء کی توجیہات پیش کردی ۔ 

بس تفصیلی اور اُصولی بات ہم نے پیش کی بس ان اُصول کو تمام اشعار پر فٹ کرلیں ۔ 

یہ تفصیل اگر چہ طویل ہوگئی لیکن فائدہ سے بہر حال خالی نہیں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ کیوں کہ ہر شعر میں اہل باطل کوئی نہ کوئی خیانت ضرور کرے گا ۔اگرکسی کو شک هوتو تجربہ کرسکتے ہیں ۔ 

فیہ کفایۃ لمن لہ ھدایۃ ۔ 

مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ :

مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے بعض وہ اشعار جو اہل باطل پیش کرکے یہ تأثر دیتے ہیں کہ گویا محمد قاسم نانوتویؒ بھی نداء محرّمہ کے قائل ہیں ۔العیاذباللہ ۔  وہ اشعار مندرجه ذیل ہیں : 

مدد کر اے کرم احمدی کہ تیرے سوا 

نہیں ہے قاسم بے کس کا کوئی حامی کار

    ( قصائد ،ص: ۸ ) 

جواب ::  اور امرتسری صاحب کا یه اُصول که نواب صاحب کا یه اشعار بطور محبت هے نه که بطورِ حقیقی استمداد(کمامرّ)

تو یهاں بھی هم کهینگے که یه بطور محبت هے نه که بطور حقیقی استمداد.

تحقیقی جواب:  علماء کرام نے یہ اصول لکھا ہے کہ شعر کا مفہوم شاعر کے عقیدہےکے موافق لیں گے ۔ (تلخیص المفتاح ۔ص:۸) 

اور حضرت نانوتوی ؒ تو علماء دیوبند کے مرکزی رؤؤس اور اکابرین میں شمار ہوتے ہیں اور علماء دیوبند کا مسئلہ نداء کے متعلق تفصیل گزر چکی ہے کہ ہم بطور استغاثہ نداء کو شرک کہتے ہیں تو نانوتوی ؒ نداء محرّمہ کے کیسے قائل ہوسکتے ہیں العیاذباللہ تعالیٰ ۔ وہ (محمدقاسم نانوتوی ؒ ) تو پکّا مؤحد بلکہ اپنے زمانہ میں رئیس المؤحدین تھے ۔ ان کا عقیدہ بھی بطور مزیدافادہ کے ملاحظہ فرمائیں ۔ حضرت اپنے مرید کو صحیح عقیدہ سمجھاتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ : 

”مرشدوں کی نسبت یہ خیال غلط ہے کہ وہ ہر دم ساتھ رہتے ہیں اور ہر دم آگاہ رہتے ہیں یہ خدا ہی کی شان ہے کہ گاہ وبے گاہ بطور خرق عادت (بطور کرامت بوجہ کشف یابصورۃِ مثالیہ کے ) بعض اکابر سے ایسے معاملات ہوئی ہیں اس سے جاہلوں کو یہ دھوکہ پڑا ہے، تصور میں صورت کا خیال امر فضول ہے جیسے کسی کی تذکرہ کے وقت کسی کا خیال آتاہے ایساہی تصور شیخ میں ، مگر تصور کرو تو اپنے آپ کو اپنی جگہ اور شیخ کو اپنی وطن میں اور اس کے ساتھ یہ خیال رہے کہ ادھر سے (محض اللہ کے حکم سے ) کچھ فیض آتا ہے اللہ الصمد اور بسم اللہ کو برائے چندے موقوف رکھو اور الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ بہت مختصر ہے مگر رسول اللہ ﷺکو حاضر وناظر نہ سمجھنا چاہئے ورنہ اسلام کیا ہوگا کفر ہوگا بلکہ یوں سمجھئے یہ پیام فرشتے پہنچاتے ہیں والسلام “  (فیوضاتِ قاسمیہ ، ص:۴۹) 

دیکھئے ...! قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ تو حاضر وناظر جیسے فاسد عقیدے کو کفر کہتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی یاران اپنے حصولِ ریال اور حصولِ ڈالر کی خاطر جھوٹ اور اتھامات سے کام لیتے ہیں کہ علماء دیوبند حاضر وناظر اور علم غیب (لغیراللہ ) وغیرہ کے قائل ہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ 

ایک اور کتاب میں اس ولی اللہ اور مجاھد اسلام (نانوتوی ؒ ) کا عقیدہ ایسا چمکتا ہے ،فرماتے ہیں کہ: 

” بعد خدا سب میں افضل محمد رسول اللهﷺ ہیں نہ کوئی آدمی ان کی برابر نہ کوئی فرشتہ نہ عرش نہ کرسی ان کی ہمسر نہ کعبہ ان کا ہم پلّہ مگر بایں ہمہ ان کو بایں ہر طرح خدا کا محتاج سمجھتے ہیں ایک ذرہ کی بنانے کا ان کو اختیار نہیں ایک رتی برابر نقصان کی ان کو قدرت نہیں .... ۔(قبلہ نما ،ص:۷) 

دیکھئے رئیس المؤحدین کے قلم سے توحید سے بھری موتیاں اور مؤحدانہ خوشبو والا عقیدہ ۔ سبحان اللہ ۔ 

اگر قاسم نانوتوی ؒ کے ایسے توحید سے لبریز الفاظ والے اقتباسات وفرامین نقل کریں گے تو بحث کافی لمبی ہوجائے گا ۔ 

مختصراً : ان اشعار میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جناب نبی کریم ﷺ قیامت کے دن ہماری مدد یعنی شفاعت کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے لئے دعا کریں ۔ 

اصل میں ان اشعار کے آگے اور پیچھے قیامت اور شفاعت کا ذکر ہے۔ لیکن باطل سیاق وسباق کو چھپانے میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ۔ 

صفحہ ۷ پر ایسا شعر ہے کہ:

                                   ”یہ سن کے آپ شفیع گناہ گاراں ہیں 

                                    کئے ہیں میں نے اکھٹے گناہ کے انبار“ 

اورصفحہ ۸ میں ایسا شعر ہے کہ: 

                                 ” مگر جہاں ہو فلک آستان سے بھی نیچا 

                                وہاں ہو قاسم بے بال وپر کا کیوں کہ گزار“ 

اس شعر میں قیامت کا ذکر ہے ۔ 

الغرض :  حضرت قاسم نانوتویؒ نے ایسی نداء نہیں کی ہے جو ناجائز ہے اور جو مافوق الاسباب ہے ،بلکہ یہاں ندا ء تشفعاً ہے کہ قیامت کے دن مجھ گناہ گار کی بھی شفاعت کرو ۔ تو اس میں کونسی قباحت ہے ۔ اگر چہ آپ نبی پاکﷺ کی شفاعت کو پسند نہیں کروگے لیکن ہم تو پسند کرتے ہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں ۔

نواب صدیق حسن خان غیرمقلد لکھتےهیں: ”رسول اللهﷺشافع و مشفع هیں اور قیامت کےدن مخلوق کی سفارش کریں گے“(مجموعه رسائل جلد۱ص۳۲۸) 

یہی وجہ ہے کہ فاتح بریلویت ، قاطع بدعت ، امام اھلسنت شیخ سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً بھی فرماتے ہیں کہ یہ وہ استمداد نہیں ہے جس کے اہل بدعت قائل ہیں ، چنانچہ فرماتے ہیں کہ: 

’’ اس مدد سے مافوق الاسباب قسم کی مدد جو خاصہ خداوندی ہے ہر گز مراد نہیں جیسا کہ بعض اہل بدعت نے یہ سمجھ رکھا ہے بلکہ اس سے شفاعت کی مدد مراد ہے جو قیامت کے دن ہوگی اور اس قصیدہ کی اس سے پہلے اشعار اس کا واضح قرینہ اور دلیل ہیں جن میں صاف طور شفاعت کا ذکر کیا گیا ہے  ۔“ (بانی دارالعلوم دیوبند ،ص: ۵۰ ) 

دیکھئے ...! ہم نے ”صاحب البیت ادری مافیه“ کے مطابق یہ شہادت بھی پیش کی کہ خبردار دھوکہ نہیں ہونا اے اہل باطل ہمارا یه عقیدہ بالکل نہیں ہے جو آپ کے زعمِ باطل میں ہے ۔اگر ایسا عقیدہ ہمارا ہوتا تو ہم اپنے عقیدہ کی برملا تشہیر کرتے لیکن چونکہ یہ عقیدہ ہماراهے هی نہیں تو اس وجہ سے ہم اس کا انکار کرتے ہیں ۔ بلکہ یہ صرف اہل باطل نے ہم پر الزام لگایا ہے کہ یہ (علماء دیوبند ) بھی مافوق الاسباب امداد کے قائل ہیں ۔ العیاذباللہ۔ 

بلکہ خود غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ نانوتوی ؒ کے ان اشعار میں نداء ،نداء شوقیہ ہے نہ کہ نداء بدعی ۔

چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ”مولانا محمد قاسم صاحب رحمہ اللہ کی اشعار میں نداء شوقیہ بجذبہ حال مراد ہے نہ کہ نداء حقیقی غائبانہ حاضر وناظر جان کر ۔ چنانچہ خود مولانا محمد قاسم صاحب مرحوم فیوض قاسمیہ حصہ اول ص: ۵۲ میں فرماتے ہیں : اور الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ بہت مختصر ہے مگر رسول اللهﷺ کو حاضر وناظر نہ سمجھناچاہئے ورنہ اسلام کیا ہوگا کفر ہوگا۔بلکہ یوں سمجھئے یہ پیام فرشتے پہنچاتے ہیں ۔والسلام “ (اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان، ص: ۱۱۳ ) 

نوٹ:  اس کتاب (اکمل البیان )کا اصل مصنف حافظ عزیزالدین مراد آبادی غیرمقلد ہے لیکن اس کتاب پر تمہید ثناءاللہ امرتسری نے لکھی ہے ۔ اور اس پر مقدّمہ مولانا اسماعیل سلفی صاحب نےلکھی ہے ،اور اس کتاب پر نظر ثانی مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانوی غیرمقلد نے کی ہے ۔ گویاکہ یہ تمام اکابرینِ غیرمقلدین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے یہ اشعار بطور شوقا کہے ہیں نہ کہ عقیدۃً ۔ 

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے جو دوسرے اشعار ہیں انکو بھی انہی اصول پر حمل کریں گے ۔ وباللہ التوفیق ۔ 

((حاجی امداد اللہ مہاجر مکّی رحمۃ اللہ علیہ)):

اہل باطل حضرات حاجی صاحب ؒ کی بعض عبارات کی بنیاد پر علماء دیوبند( قدس اللہ اسرارھم) پر بے جا اعتراضات کرتے ہیں کہ وہ (علماء دیوبند رحمھم اللہ ) غیراللہ سے مدد مانگتے ہیں ۔سبحان اللہ !!

اپنی بات کو حق ثابت کرنے کے لئے وہ حضرت حاجی صاحب ؒ کے بعض شوقیانہ اشعار پیش کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے تمام علماء دیوبند ؒ پر تبرا بازی کرتے ہیں ۔ حالانکہ ان عقل اور علم کے یتیمو ں کو یہ پتہ نہیں کہ پہلے حاجی صاحب رح کا عقیدہ تو پہچان لیں ،پھر بعد میں جناب حاجی صاحب کے اشعار اس کے عقیدہ پر فٹ کرکے دیکھئے ۔ (کہ کیا سچ میں حاجی صاحب ایسا ہے جیساکہ ہم ان پر الزام لگاتے ہیں ۔ تو خوب معلوم ہوجائے گا کہ آپ کی الزمات بے بنیاد تھے) 

خیر آتے ہیں ان اشعار کی طرف جن کو اہل باطل اپنے جھوٹے دعویٰ کو سچ ثابت کرنے کے لئے ناکام کوشش کرتے ہوئے پیش کرتے ہیں ۔لیکن اس میں بری طرح

سراسر ناکام ہیں ۔ وہ اشعار مندرجہ ذیل ہیں :

یارسولِ کبریا فریاد ہے یامحمد مصطفی فریاد ہے 

آپ کی امدادہو میرانبی حال ابتر ہوا فریاد ہے 

سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل ۔

                  اے         مرے       مشکل  کشا            فریاد              ہے 

                                               (کلیات امدادیہ،ص:۹۰،دارالاشاعت کراچی پاکستان)

ایک اورجگہ(اہل باطل ) کہتے ہیں کہ دیوبندیوں نے حضرت علی کو بھی مشکل کشا کہا ہے مثلاً : حضرت حاجی صاحب رح لکھتے ہیں کہ :

دور کر دل سے حجاب جہل وغفلت میرے رب 

کھولدے دل میں درعلم حقیقت میرے رب 

ہادی عالم مشکل کشاکے واسطے ۔ (ص:۱۰۳) 

 علماء دیوبند رح بھی کہتے ہیں کہ: اشعار کہنے کا غرض محض اظہار شوق ہوتاہے ۔ 

 (امدادالفتاویٰ:۵/۳۵۴) 

: ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ ہر شاعر کی شاعری اس کے عقیدے کے مطابق پررکھیں گے ۔اگر حاجی صاحب کودیوبندی مان لیا جائے یاعلماء دیوبند  کا ممدوح مان لیا جائے تونداء کے متعلق علماء دیوبند کاعقیدہ  ذکر ہوچکا ہے تو پھر کیوں ہم (علماء دیوبند ) پر الزامات لگاتے ہیں ۔ ہم تو اس باب میں تقسیم کے قائل ہیں تو ضرور بالضرور اس کو عشقاً وشوقاً پر حمل کریں گے، کیونکه ہم غیراللہ سے مافوق الاسباب استمداد کے قائل نہیں ہیں ۔ 

لیکن پھر بھی بعض حضرات کے منہ بند کرنے کے لئے ہم حاجی امداد اللہ مھاجرمکی ؒ کے قلم سے نداء کے متعلق وضاحت پیش کردیتے هیں گے ۔ دیکھئے کہ خود شاعر اور قائل حاجی صاحب اپنی اشعار اور نداء کے متعلق کیا نظریہ رکھتے ہیں، چنانچہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب ؒ نے نداء کے متعلق لمبی تفصیل بیان کی ہے ، لیکن خوف طوالت کی وجہ سے تمام کی تمام ہم نقل نہیں کرسکتے ہیں ،مختصرا چند اقتباسات ذکر کریں گے ان شاء اللہ تعالی ،فرماتے ہیں کہ:

”چھوتھا مسئلہ ندائے غیراللہ کا  اس میں تحقیق یہ ہے کہ اسکی مقاصد واغراض مختلف ہوتی ہیں کبھی محض اظہار شوق کبھی تحسر کبھی منادی کو سنانا کبھی اس کو پیام پہنچانا سو مخلوق غائب کو پکارنا اگر محض واسطے تذکرہ اور شوق وصال اور حسرت فراق کی ہو جیسے عاشق اپنے محبوب کا نام لیا کرتے ہیں اور اپنے دل کو تسلی دیا کرتے ہیں اس میں تو کوئی گناہ نہیں ........ سمجھتاہے کہ فلاں ذریعہ سے اس کو خبر پہنچ جاوے گا اور وہ ذریعہ ثابت بالدلیل ہوتب بھی جائز ہے مثلاً ملائکہ کا درود شریف حضور اقدسﷺ کو پہنچانا احادیث سے ثابت ہے اس اعتقاد سے کوئی شخص ”الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ “ کہے تو مضائقہ نہیں ۔اور اگر نہ مشہود ہو نہ پیغام پہنچانا مقصود ہو نہ پیغام پہنچانے کا کوئی ذریعہ دلیل سے موجود ہو تو ندا ء ممنوع ہے مثلاً کسی ولی کو دور سے نداکرنا اس طرح کہ اس کو سنانا منظور ہے اور روبرو نہیں نہ ابھی تک اس شخص کو یہ امر ثابت ہوا کہ انکو کسی ذریعہ سے خبر پہنچے گی یاذریعہ متعین کیا مگر اس پر کوئی دلیل شرعی قائم نہیں یہ اعتقادافتراء علی اللہ اور دعویٰ علم غیب ہے بلکہ مشابہ شرک کی ہے ..... مشرب اس فقیر کا یہ ہے کہ ایسی نداء میرامعمول نہیں ہاں بعض اشعار میں ذوق شوق سے صیغہ ندا برتا گیا ہے اور عمل درآمد وہی رکھنا چاہئے جو اوپر تین مسئلوں میں مذکور ہے ۔“

 (کلیات امدادیہ،ص: ۸۴ ) 

یہ تھا حضرت حاجی امداد اللہ مھاجر مکی کی وضاحت کہ وہ خود علم غیب (غیراللہ کے لئے ) اور حاضر وناظر کی نفی کرتے ہیں اور حضرت نے استعانت محرّمہ کے پرخچے اڑادئے ۔ لیکن پھر بھی اہل باطل کے الزمات اور اتھامات (تہمتوں ) میں کوئی کمی نہیں آتی ہے اور اسکےبعد بھی حضرت حاجی صاحب ؒ پرمعاذالله بریلویت کا ٹھپه  لگاتے هوئے حیا نهیں آتی ۔ اور افضل سلفی غیرمقلد پر ماتم کرنے کا جی چاہتاہے کہ اتنی جہالت اور ظلم سے کام لیا ہے وہ کہتا ہے کہ :”دابعینہ عقیدہ د بریلیانو دہ.... حقیقت کی دادواڑہ فرقی یوہ عقیدہ لری“ (یہ بعینہ بریلویوں والا عقیدہ ہے .... حقیقت میں یہ دونوں فرقے ایک عقیدہ رکھتے ہیں ۔ (د دیوبندیانو خطرناک عقائد ،ص:۲۴)

انا للہ وانا الیه راجعون ..... سبحٰنک ھٰذا بھتان عظیم ۔ 

حضرت حاجی صاحب ؒ خود بریلویو ں کے عقائد کی نفی کرتے ہیں لیکن پھربھی غیرمقلدین کو حاجی صاحب  اور بریلویوں کی عقائد میں فرق نظر نہیں آتا۔!! 

ناظرین کرام کی تلذذ طبع کی خاطریہ عرض کرینگے کہ غیرمقلدین نے خود بریلویوں اور علماءِ دیوبند میں فرق کیا ہے، مثلاً غیرمقلدوں کے مناظر ،شیخ الحدیث ومفتی عبدالقادر حصاری غیرمقلد لکھتے ہیں کہ :

”اصلی ان کی شناخت دو طرح سے هےکتبِ فقه کي پابند هوۓ تو دیوبندی حنفی اور اگر بدعاتِ سیئه کے عامل هوئے  تو بریلوی بدعتی حنفی...» (فتاوی حصاریه ۱۴/۲)  

الغرض :   شاعر کا عقیدہ جب صحیح ہے تواب دیکھتے هیںکہ اس  کاصحیح مطلب کیا ہے ..؟  یہ اشعار جهاں ذکر کیئے گیئے   ہیں وہ اس عنوان کے ماتحت ہیں کہ :  ”شوق زیارت آنحضرتﷺ“   معلوم ہواکہ حضرت حاجی صاحب یہ اشعار عقیدۃً نہیں بلکہ محض شوقاً کہا ہے ۔ 

اور مزید اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ  ” شوق زیارت .....“  معلوم یہ ہواکہ جناب حضرت حاجی صاحب  یہ مناجات جناب نبی کریمﷺ کے روضہ کی زیارت کے شوق سے کہتے ہیں ۔ اور جناب نبی پاکﷺ کے روضہ مبارکہ کی حاضری اور وہاں اللہ تعالیٰ سے جناب نبی پاک ﷺ کی شفاعت ومغفرت کی درخواست کرنا باتفاق اہل السنت والجماعت جائز ہے ۔ (اس مسئلہ کی تحقیق  آگےاپنی مقام پرآئیگی ان شاء اللہ تعالیٰ )

  حضرت حاجی صاحب بھی شفاعت کی درخواست کرتے ہیں کہ : ’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !  زار وفریاد کرتاہوں (چونکہ نبی پاک ﷺکا سماع عندالقبر اجماعی ہے ، تحقیق آگے اپنےمقام پر آئیگی ان شاء الله) کہ آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دعامانگو اور میری یہ روحانی مدد کرو (یعنی میرے لئے دعاکرو) میں بہت سخت مشکل میں پھنسا ہوں ۔ (یعنی گناہوں میں ڈوباہوں ) تاکہ آپ کی روحانی توجہ اور دعا سے میری پریشانی اورمشکلات دور ہوجائے ۔ ( یعنی میری مشکلات اللہ تعالیٰ دور کرے آپ کے دعاکی ذریعہ سے ) تو میری یہ مشکل کشائی ہوجائے گی ۔(یعنی میری مشکل حل ہوجائے گی )۔

ان اشعار میں مشکل کشا  کا  وہ معنی نہیں ہے جس کو اہل بدعت لیتے ہیں کہ یہ فو ت شدہ آدمی مجھے اولاد دے دینگے یا میری فلاں مافوق الاسباب کام کرے وغیرہ ۔  حاشا وکلا. 

 کیونکہ حضرت حاجی صاحب ؒ صحیح القعیدہ بزرگ تھے اس نے خوداستمدادمحرّمہ کی نفی کی ہے (کمامرتفصیله) تو حاجی صاحب کی لفظ مشکل کشا سے مطلب یہ ہے کہ آپ میرے لئے دعاکرو تاکہ آپ کی دعا کی برکت سے میری مشکل حل ہوجائے اور میری مغفرت ہوجائے ۔ تو گویا آپ کے ذریعہ سے میری مشکل کشائی ہوگئی اس وجہ سے حضرت حاجی صاحب ؒ نے مشکل کشا  کا لفظ استعمال کیا ہے ۔  اہل بدعت کے نظریه کی طرح مشکل کشائی  مراد نہیں ہے ۔ 

صاحب البیت ادری بما فیه کے مطابق اسی طرح توجیہ ترجمان علماء ِدیوبند حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظه الله نے بھی کی ہے ، دیکھئے : (فتاوی عثمانی : ۱/ ۵۸) 

ہمارا عقیدہ جو بھی ہے اس کا ہم بر ملا اظہار کرتے ہیں ۔ اور جو ہمارا عقیدہ نہیں ہوتا ہے ہم اس کو ہرگز بیان نہیں کرتے ہیں ۔

اگر یہ ہماراعقیدہ ہوتاکہ نبی پاک ﷺمشکل کشا ہیں معاذالله(جیساکہ اہل البدعۃ سمجھتے ہیں ) تو ہم اس عقیدہ کا برملا پرچار کرتے ۔حالانکہ ہم نبی پاکﷺ سے مدد مانگنا(جیسے اہلِ بدعت کا نظریہ ہے ) کو شرک کہتے ہیں ۔ بالخصوص ترجمانِ علماء دیوبند ، شیخ الحدیث رئیس المؤحّدین، قاطع الشرک والبدعۃ مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ وکثراللہ امثالھم کی تحریرات اس پر شاھد ہیں ،اور اس نے ایسی مبتدعانہ عقائد کی بیخ کنی کی ہے ۔ که غیرمقلدین کی ساری جماعت اکھٹا هوجا ئے تو وه خدمت نهیں کرسکتے فللہ الحمد جزاھم للہ عنا وعن سائر المسلمین ۔ 

مزید ” صاحب البیت ادری مافیہ “ مصداق کے مطابق مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ کا حوالہ بھی دیکھئے کہ وہ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں ،حضرت سے کسی نے سوال کیا ہے کہ : اشعار اس مضمون کی پڑھنے :

یارسولِ کبریا فریاد ہے یامحمد مصطفی فریاد ہے مدد کر / محمد مصطفی میرے تم سے ہر گھڑی فریاد ہے ۔کیسی ہیں ...؟ 

جواب:  ایسے الفاظ پڑھنے محبت میں اور خلوت میں بایں خیال کہ حق تعالیٰ آپ کی ذات کو مطلع فرمادیویں یا محض محبت سے بلاکسی خیال کی جائز ہیں اور بعقیدہ عالم الغیب اور فریاد رس ہونے کی شرک ہیں اور مجامع میں منع ہیں کہ عوام کی عقیدہ کو فاسد کرتی ہیں لھٰذا مکروہ ہوں گے ۔  (تالیفاتِ رشیدیہ ،ص:۱۰۴) 

تنبیہ:  اس زمانہ میں ایسی ذوجہتین معنی ہر گز استعمال نہ کیا جائے ،جس سے اہل بدعت بے جافائدے اٹھاتے ہیں. 

اور ہر چہ حضرت علی کو مشکل کشاکہا گیا ہے وہ باعتبار” ماکان “ کے ہے ، یعنی حضرت علی اپنے زمانہ میں دقیق ،سخت اورمشکل ترین مسائل اور مقدمات بہت جلدی حل کرلیتے تھے ،تو ایسے مشکل چیزیں حل کرنے والے کو فارسی زبان میں مشکل کشا کہتے ہیں اس وجہ سے حضرت علی  کو مشکل کشاکہا گیا ہے ۔ 

مثلاً :  ہم حضرت عمر فاروق  کو فاروق کہتے ہیں اور فاروق کا معنی ہے ” الفارق بین الحق والباطل“  یعنی حق اور باطل میں فرق کرنے والا، اور ہم اب بھی(یعنی عمر فاروق کےوفات کےبعدبھی)  عمر کو عمر فاروقکہتے ہیں حالانکہ عمر  فوت ہوچکے ہیں ، تو کیا وہ اب بھی (حالاً ) فرق کرنے والا ہے ...؟  نہیں  بلکہ وہ اپنے زمانہ میں حق اور باطل میں فرق کرنے والے تھے ، یعنی باعتبار ”ماکان“کے فاروق ہیں ۔ اسی طرح حضرت علی کو بھی باعتبار  ”ماکان“کے مشکل کشاکہا گیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں مشکل ترین مقدمات حل کرلیتے تھے ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اب بھی (حالاً) مشکل کشاء ہیں اور لوگوں کی مشکل کشائی کرتے ہیں اولاد وغیرہ دیتے ہیں، حاشاوکلا ۔ 

خلاصہ:  حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکی ؒ اللہ تعالیٰ سے دعامانگنے میں حضرت علی  کو وسیلہ میں پیش کرتے ہیں ۔ نه کوئی چیز علی سےمانگتے هیں.

No comments:

Post a Comment