Sunday, 2 August 2020

فرقہ رجسٹرڈ کا یہ کہنا سند گواہی کے زمرے میں آنا تو بس ثابت ہوگیا اس میں تقلید نہیں اور آیت مبارکہ پیش کرنا


کسی ساتھی نے یہ پوسٹر بیجھا ہے اور جواب طلب کیا ہے تو 
فرقہ رجسٹرڈ کا یہ کہنا سند گواہی کے زمرے میں آنا تو بس ثابت ہوگیا اس میں تقلید نہیں اور آیت مبارکہ پیش کرنا 
فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون
تو رجسٹرڈ والے غور سے سنے 
جو آیت پیش کی یہ بلکل آپ کے حق میں نہیں ہے 
آیت میں صرف خبر کے بارے میں ہے
نیز علم حدیث صرف خبروں تک تو محدود نہیں
اس میں جو محدثین نے قواعد وضع کیے ہیں
وہ کس لحاظ سے نبا اور خبر ہیں ؟ 
مثلا تدلیس کے احکام 
ثقہ کی زیادتی 
ثقہ کا دیگر ثقات کی مخالفت 
الفاظ توثیق و تجریح کون کون سے ہیں
کتنے مراتب پر منقسم ہیں
اختلاف کے وقت کن کا قول مقدم کیا جائے گا
۔۔۔
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
یہ سب قواعد نہ قرآن میں ہیں نہ حدیث میں
صرف محدث کے کہنے پر مانے جاتے ہیں
 اور وہ بھی بلا دلیل
اب کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو حالانکہ علم حدیث میں صرف خبر کی بات نہیں ہوتی تو اس کے لئے محدثین نے قواعد بنائے ہیں تو بات وہی ہوگی نہ محدث کی بات ہے وہ قواعد قرآن و حدیث میں ہے یا محدث کے فوائد ہیں باقی صرف وہ قواعد القرآن حدیث میں بے تو دلیل پیش کرے  آپ کے  کی زبیر علی زئی صاحب نے باقی تمام ائمہ کو چھوڑ کے کہتے ہیں کہ امام شافعی کا مسلک ہماری نزدیک راجح کیا وہ قرآن میں ہیں حدیث میں دکھا دے 
اور غیر مقلدین کا طرز استدلال آنکھوں میں دھول جھونکنے والا ہوتا ہے، دعوی کے وقت وہ غیر مقلد ہوتے ہیں اور دلیل پیش کرتے وقت مقلد بن جاتے ہیں،  رد کرنے کے لیے تقلید ہی کو اختیار کرتے ہیں یہ عجیب استدلال ہے غیر مقلدین سے میں پوچھتا ہو 
اپنے یہ امتی کے اتنے قول نقل کے جو نا آپ کے نزدیک معتبر ہے نا ہمارے اور تو اور 
کوئی امام کی تقلید کریں تو یہ ناجائز، بدعت اور شرک ہو جاتا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے؟
اور اپنے اتنے ساروں کی کر رکھی ہے افسوس

یاد رکھیں کہ مُحدثین کرام کےنزدیک  ” حديث ضعيف ” کی اصطلاحی تعریف میں مختلف اقوال وآرائیں، تين أقوال بطورخلاصہ وبغرض فائده نقل کرتاہوں ۔

1.  كل حديث لم تجتمع فيه صفات الحديث الصحيح ولا صفات الحديث الحسن
ہروه حدیث جس میں “حدیث صحیح اورحدیث حسن ” کے صفات وشرائط موجود نہ ہوں تو وه ” حديث ضعيف ” ہے ۔
یہ مشہور مُحدث امام ابن صلاح شافعی رحمہ الله کا قول ہے ،اوراسی تعریف کوان کے بعد حافظ ابن جماعة اورحافظ ابن كثيراورحافظ نووی اورحافظ جرجانی وغيرهم رحمہم الله نے ذکرکیا ہے ،اورپھراسی تعریف پردیگر مُحدثین کے کچھ تعقیبات بھی ہیں ، جس کی تفصیل اصول حدیث کی کتب میں موجود ہے ۔

2.  كل حديث لم تجتمع فيه صفات القبول ۔
ہروه حدیث جس میں صفات قبول موجود نہ ہوں ۔
یہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله کا قول ہے ، اوربعض دیگرمُحدثین نے بھی اسی کواختیارکیا ہے ، اعتراضات وتعقیبات اس پربھی ہیں ۔
3.  ما قصر عن درجة الحسن قليلا
ہروه حدیث جودرجہ میں “حدیث حسن ” سے کم ہو۔
حافظ الذہبی رحمہ الله نے اپنی کتاب [ الموقظة ] میں یہ تعریف کی ہے ، اور اصل اس تعریف کا امام ابن دقيق العيد اور علامہ عراقی کا کلام ہے ،اور اعتراضات وتعقیبات اس پربھی ہیں ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ حافظ ابنُ الصَلاح الشافعی رحمہ الله اپنی کتاب[مقدمة ابنُ الصلاح ]میں فرماتے ہیں کہ وه حدیث جس میں چھ شرائط پائے جائیں تو وه ” صحيح ” ہے ، اور وه چھ شرائط یہ ہیں ۔
1. اتصال سند

2. عدالة الرُواة

3. ضبط الرواة

4. السلامة من الشذوذ

5. السلامة من العلة

6. وجود العاضد

اور جمہورمتأخرین مُحدثین کے نزدیک ” حديث حسن ” کی تعریف بھی یہی ہے جس میں شروط سابقہ پائی جائیں ، مگر ” حديث حسن ” کا  راوی اگرچہ حافظ ہوتا ہے لیکن حفظ میں ” حدیث صحیح ” کے راوی سے کم ہوتا ہے ،
اور پھر ” حديث ضعيف ” بھی اسی کے ساتھ مُلحق ہے ، لہذا متأخرین مُحدثین کے نزدیک ” حديث ضعيف ” کی تعریف یہ ہے کہ جس میں ان شروط مذكورة بالا میں سے کوئی  ایک شرط یا اکثر مفقود ہوں ،پھراس کے بعد ” حديث ضعيف ” کے أنواع واقسام کی ایک طویل بحث ہے ۔
[ من شاء المزید فلیراجع الی المطولات]
فحاصل الكلام انهم عرفوا الحديث الضعيف بأنه :هو ما فقد شرطا من شروط الحديث المقبول وهي ستة:

1. ألعدالة: أي الصدق والتقوى والالتزام الظاهر بأحكام الإسلام.

2. ألضبط: هو الدقة في الحفظ والإتقان ثم الاستحضار عند الأداء .

3. ألاتصال: أي كل واحد من الرواة قد تلقاه من رواة الحديث حتى النهاية دون إرسال أو انقطاع.

4. عدم الشذوذ: وهو مخالفة الراوي الثقة لمن هو أثق منه .

5. عدم وجود العلة القادحة: أي سلامة الحديث من وصف خفي قادح في صحة الحديث والظاهر السلامة منه .

6. ألعاضدُ عند الاحتياج إليه . 
راجع : مقدمة ابن الصلاح(ج 1 / ص 6 ), والباعث الحثيث في اختصار علوم الحديث(ج 1 / ص 5 ), وتدريب الراوي في شرح تقريب النواوي(ج 1 / ص 73 ), والتقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث(ج 1 / ص 2 ), وتدريب الراوي في شرح تقريب النواوي (ج 1 / ص 120 (.

اس مختصر بحث اورائمہ حدیث کی تصریحات سے یہ واضح ہوا ، کہ حدیث کی تعریف وتقسیم وغیره سب مُحدثین کے اجتہاد کا ثمره ہے ، اس لئے اس باب میں مُحدثین کے اقوال وآراء اختلاف بھی پایا جاتا ہے ، اور حدیث کا ہرطالب ان سب تعریفات واصطلاحات خالص تقلید میں پڑھتا ہے اوراستعمال کرتا ہے ۔ سمجھ نہیں آتا کہ وہی تقلید فقہاء کرام ؒ  کے اجتہادات کی ہو تو فرقہ جدید کےنزدیک شرک وبدعت وجہالت بن جائے ، اور وہی خالص تقلید مُحدثین کی ہوتو کچھ فرق نہ پڑے ، حالانکہ فقہاء کرام ومُجتہدین عظام کے تمام اجتہادات دلائل کےساتھ موجود  ہیں ، جب کہ مُحدثین کے ان اجتہادات کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے ، ہرمُحدث نے اپنی ذوق وفہم وبصیرت سے یہ تعریفات واصطلاحات وضع کی ہیں۔ 
سوال  یہ ہے کہ پھر عوام کے سامنے اس فرقہ جدید کے علمبردار تقلید کوشرک وبدعت وضلالت کیوں کہتے ہیں ؟؟
اس کا واضح جواب یہ ہے کہ عوام کواگر پوری حقیقت بتلادیں تو پھر تو اہل حق کے خلاف پروپیگنڈه کا سارا سلسلہ بند ہوجائے ، اوراگرعوام کو صحیح مسئلہ بتائیں تواس فرقہ جدید کی ساری تحریک ہی ختم ہوجائے ، اس فرقہ جدید کا دعوی ہے کہ دین میں ائمہ کی تقلید ناجائز  وحرام وبدعت ہے ،اس لئے مثلا  جو اہل اسلام امام ابوحنیفہ کی اجتہادی وفروعی مسائل میں تقلید کرتے ہیں ، ان کواس فرقہ جدید کی طرف سے کبھی مُشرک وبدعتی کا خطاب دیا جاتا ہے ، کبھی احبار ورُھبان  و اکابر  کا پجاری کہا جاتا ہے ، کبھی تقلید کا مریض کبھی تقلیدی امت وغیره القابات سے پکارا جاتا ہے ، اور یہ سب کچھ تقلید ائمہ کی وجہ سے کہاجاتا ہے ، اب جو فرقہ دوسروں کو تقلید کی وجہ سے اس درجہ شدید الفاظ سے پکارتا ہے ، وه فرقہ خود بھی تمام مسائل میں تقلید ہی کرتا ہے ، لیکن اپنی تقلید کو وه تقلید نہیں کہتے ، اب اس طرز کوکیا کہاجائے جہالت وحماقت یا عداوت ومنافقت وشرارت ؟؟

فرقہ جدید اہل حدیث اور محدثین کی تقلید
فرقہ جدید کا دعوی ہے کہ دین میں ائمہ کی اجتہادات کی تقلید ناجائز وحرام وبدعت ہے ، اب یہ فرقہ جدید اپنے اس اصول پرقائم نہیں ہے ۔
میں اس ضمن میں ایک مثال عرض کرتا ہوں ۔مُحدثین کرام نے محض اپنی اجتہادات سے ” حدیث ” کے مختلف اقسام ذکر کئے ہیں ، اور آج تک انہیں کی تقلید میں بلا چوں وچرا ” حدیث ” کے ان اقسام کو اس فرقہ جدید سمیت تمام اہل اسلام استعمال کرتے ہیں ، مثلا 
[[المتواتر ، متواتر لفظي، ومتواتر معنوي، المشهور، المستفيض ، الخبرالواحد ،العزيز ، التابع ، الشاهد ، الاعتبار ، الشاذ ، المحفوظ ، المنكر ، الغريب ، المعروف ، المضطرب ، المقلوب ، المدرج ، مدرج المتن، ومدرج الإسناد ، المصحَّف ، تصحيف السمع ، تصحيف البصر ، المعلل ، المعل في السند ، المعل في المتن ، المعل في السند والمتن ، المنقطع ، المرسل ، المعلق ، المعضل ، المدلس ، تدليسالإسناد ، تدليس الشيوخ ، المرسل الخفي ، المتصل ،المسند ، المعنعن ، المؤنئن ، المسلسل ، العالي ، النازل ، المزيد في متصل الأسانيد،الصحيح لذاته، الصحيح لغيره ، الحسن لذاته ،الحسن لغيره ، الضعيف ، الخ]] 
یہ چند اقسام میں نے بطور مثال ذکرکئے جس کو محدثین کرام متن  و سند ،  رُوَاة الحدیث ،  ومراتب حدیث ،  وغیره کے اعتبارسے استعمال کرتے ہیں ، اور یہ تمام اقسام واسماء واصطلاحات خالص اجتہادی ہیں ، محدثین کرام کے اجتہادات کا ثمره ہیں ، اسی لئے اس باب میں محدثین کرام کے مابین اختلاف بھی پایا جاتا ہے جس کی تفصیل ” اصُول حدیث ” کی کتب میں موجود ہے ،
ایسا ہی ” جرح وتعدیل ” کے باب میں مُحدثین کرام نے اپنے اپنے ظن واجتہاد سے مختلف مراتب واصطلاحات مُقر ر کئے ہیں ، اور آج تک انہیں کی تقلید میں بلا چوں وچرا ان اصطلاحات کو اس فرقہ جدید سمیت تمام اہل اسلام استعمال کرتے ہیں ، مثلا 
[[ ثقة ، متقن ، ثبت ، جَيِّد الحَديثِ ، صدوق ، لا بأس به ، ليس به بأس ، حسن الحديث ، مقارب الحديث ، وَسَطٌ ، شيخ ، محدث ، صالح الحديث ، صويلح ، ملحه الصدق ، لَيِّنُ الحديث ، ليس بالحافِظ ، معروف ، يُكْتَبُ حديثُهُ ، يُعْتَبَرُ به ، لا يحتجُّ به ، ليس بذاك ، ليس بالقوي ، إلى الضَّعفِ ماهو ، تَعْرِفُ وَتُنْكِرُ ، سيء الحفظ ، فيه نظر ، ضعيف ، مضطرب الحديث ، يُخالِفَ الثِّقات ، لا يتابع على حَديثه ، روى مناكير أو روى أحاديث منكرة ، منكر الحديث ، روى أحاديث معضلة أويروي المعضلات ، أستخيرُ اللهَ فيه ، ليس بشيء ، لاشيء ، لايعتبرُ به ، ليس بثقة ، متروك الحديث ، تركه فلان ، لمْ يحدث عنه فلان ، سكتوا عنه ، کذاب ، دجال ، واه ،ذاهب الحديث ، متهم بالكذب حديثه يهوي ، الخ ]]
جرح وتعدیل کے چند اجتہادی اسماء  و اصطلاحات میں نے ذکرکئے آج پوری امت حدیث کے باب میں اسی کی تقلید کرتی ہے ، جرح وتعدیل کے یہ اقسام بھی خالص اجتہادی ہیں ہر مُحدث کی اس باب میں اپنا  ذوق واجتہاد ہے ،
اب سوال یہ ہے کہ مُحدثین کے اس ذوق واجتہاد کی تقلید جائز ہے اور فقہاء کرام کی اجتہادات کی تقلید کیوں ناجائز وحرام ہے ؟؟
کیا فرقہ جدید اہل حدیث نے اپنے لئے ” حدیث ” کے باب میں اپنے اجتہادی اقسام واسماء متعین کئے ہیں یا گذشتہ مُحدثین کے مُتعین کرده اقسام واسماء کو ہی تقلیدا  استعمال کرتے ہیں ؟؟ جواب ظاہر ہے کہ فرقہ جدید اہل حدیث بھی محدثین کی تقلید میں ” حدیث ” کے اقسام واسماء صحیح ، حسن ، ضعیف ، وغریب وغیره استعمال کرتے ہیں ، یہی حال جرح وتعدیل ورجال وغیره میں ہے ، یہ بھی یاد  رہے کہ اصول حدیث وعلوم حدیث وجرح وتعدیل ورجال کی تمام کتب بھی مُقلدین کی لکھی ہوئی ہیں مثلا حافظ ذہبی ؒ، حافظ ابن حجرؒ ، خطیب بغدادی  ؒ، حافظ نووی ؒ ، حافظ ابن الصلاح ؒ ، حافظ العراقی ؒ ، وغیرهم سب مُقلد ہیں ،اب اس طرز وروش کو کیا کہا جائے ایک طرف یہ دعوی کہ تقلید ناجائز وحرام وشرک دوسری طرف حدیث کے باب میں وہی تقلید جائزولازم بن جائے ، اور پھر وه تقلید بھی مُقلدین کے کتب کی کیونکہ اس باب تمام کتب مُقلدین علماء کی ہیں ، تو یہ دوہرا  جرم ہوگیا  فرقہ اہل حدیث کا  کہ تقلید کرتے ہیں اور وه بھی مقلدین کی ۔ الله تعالی صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔

الله تعالی تمام اہل اسلام کوصحیح فہم وبصیرت عطا فرمائے ۔

No comments:

Post a Comment