Saturday, 29 August 2020

مولوی احمد رضا خان بریلوی کی بدنامِ زمانہ کتاب ”حسام الحرمین“ کے جھوٹی ہونے کی قسط سوم


 مولوی احمد رضا خان بریلوی کی بدنامِ زمانہ کتاب ”حسام الحرمین“ کے جھوٹی ہونے کی

#دلیل نمبر ۳

مولوی احمد رضا خان بریلوی حجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ پر”ختم نبوت کے انکار“ کا الزام لگاتے ہوئے ”حسام الحرمین“ میں لکھتےہیں:

”والقاسمیۃ المنسوبۃ الی قاسم النانوتوی صاحب تحذیرالناس وھو القائل فیہ (لو فُرض فی زمنہ صلی اللہ علیہ وسلم بل لو حدث بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی جدید لم یخل ذلک بخاتمیتہ وانما یتخیل العوام انہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین بمعنٰی آخر النبیین مع أنہ لا فضل فیہ اصلاً عند اھل الفھم )“(حسام الحرمین صفحہ ۱۹)

#ترجمہ:

اور قاسمیہ قاسم نانوتوی کی طرف منسوب جس کی تحذیر الناس ہےاور اس نے اپنے اس رسالہ میں کہا ہے کہ (اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فرض کر لیا جائے ؛بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی پیدا ہوجائے تو یہ آپ کی نبوت میں خلل انداز نہ ہوگااور عوام تو یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین آخرالنبیین کے معنٰی میں ہیں جبکہ اِس میں اہل فہم کے نزدیک بالکل فضیلت نہیں ہے)

مولوی احمد رضا خان بریلوی نے بین القوسین عبارت کو تحذیر الناس کی عبارت قرار دیا ہےجیسا کہ انہوں نے لکھا ہے

”وھو القائل فیہ“(اور اس نے اپنے اس رسالہ میں کہا ہے)

حالانکہ یہ عبارت پوری تحذیرالناس میں کہیں بھی نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ ”حسام الحرمین“ عربی کا ترجمہ جب مولوی احمد رضا خاں بریلوی کے بھتیجے حسنین رضا نے اردو میں کیا تو خط کشیدہ عربی عبارت کا ترجمہ کرنے کے بجائے تحذیرالناس کے تین مختلف جگہوں کی ادھوری عبارت بے ترتیب اِس طرح رکھ دی:۔

” بلکہ بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو ۔جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہےبلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب میں آخر نبی ہے ۔ مگر اہل فہم پر روشن کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں الخ“ (حسام الحرمین صفحہ ۲۰ )

کوئی بھی شخص تحذیرالناس اٹھا کر دیکھ سکتا ہے کہ اُس میں یہ پوری عبارت اِس طرح کہیں بھی نہیں ہے؛ بلکہ وہ عربی عبارت خود مولوی احمد رضا خان کی بنائی ہوئی ہے؛لہٰذا مولوی احمد رضا خان بریلوی کا اپنی طرف سے ایک عربی عبارت بناکر اُس کو حجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کی کتاب تحذیرالناس کی طرف منسوب کرنا اور اُس خودساختہ عربی عبارت کا صحیح ترجمہ کرنے کے بجائے حجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کی کتاب تحذیرالناس کے تین مختلف جگہوں کی ادھوری عبارت بے ترتیب رکھنا یہ سراسر جھوٹ، دجل اور خیانت نہیں تو پھر کیا ہے؟

مولوی احمد رضاخان نے اپنی طرف سے ایک عربی عبارت بنائی اور اس کو تحذیرالناس کی طرف منسوب کر دیا ، اُس کو چونکہ معلوم تھا کہ علمائے حرمین شریفین اردو زبان جانتے نہیںہیں؛ اسلئے اِس خودساختہ عربی عبارت کو تحذیرالناس کی اردوعبارت سے ملانے کا معاملہ ہی نہیں آئے گا،اور پھر جب بھتیجے حسنین رضا خاں نے حسام الحرمین عربی عبارت کا اردو ترجمہ کرنے کیلئے قلم اٹھایا تو اُس نے سوچاہوگا کہ اگر چچا کی اِس خودساختہ عربی عبارت کا صحیح ترجمہ کر دیا جائے تو یہ عبارت تحذیرالناس میں ملے گی ہی نہیں پھر تو سارا بھانڈا ہی پھوٹ جائے گا؛ اسلئے یہ چال چلی کہ اُس خود ساختہ عربی عبارت کا صحیح ترجمہ کرنے کے بجائے تحذیرالناس کی تین مختلف جگہوں کی ادھوری عبارت بے ترتیب رکھ دی۔

#پہلی جگہ کی عبارت یہ ہے :۔
”بلکہ بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو ۔جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے“
یہ عبارت صفحہ۱۴ کی ہے،اور ”بلکہ“ کا لفظ بتارہا ہے کہ یہ عبارت ادھوری ہے۔

#دوسری جگہ کی عبارت یہ ہے:۔
”بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا“
یہ عبارت صفحہ۲۸ کی ہے، اِس میں بھی ”بلکہ“ کا لفظ بتارہا ہے کہ یہ عبارت بھی ادھوری ہے۔

#تیسری جگہ کی عبارت یہ ہے :۔
”عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب میں آخر نبی ہے ۔ مگر اہل فہم پر روشن کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں“ یہ عبارت صفحہ۳ کی ہے ۔

پھراِن تین مختلف جگہوں کی ادھوری عبارتوں کو اِس طرح بے ترتیب رکھا:۔
”بلکہ بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو ۔جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہےبلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب میں آخر نبی ہے ۔ مگر اہل فہم پر روشن کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں“
پہلے صفحہ۱۴ کی پھر صفحہ۲۸ کی پھر صفحہ ۳کی، اور اُن کے درمیان کوئی ایسا امتیاز بھی قائم نہیں کیا جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ مختلف جگہوں کی عبارتیں ہیں۔ یہ ہے دیانتداری کا حال؟؟؟

چچا بھتیجے کی کارروائی واضح ہو چکی کہحجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کو کافر ثابت کرنے کیلئے چچا نے اپنی طرف سے ایک عبارت بناکراُس کو تحذیرالناس کی طرف منسوب کیا، اور بھتیجے نے تحذیرالناس کی تین مختلف جگہوں کی ادھوری عبارت بےترتیب رکھدی۔جیسی کارروائی چچا بھتیجے نے کی ہے اگر اِس طرح کارراوائی کی جائے تو مولوی احمد رضا خان کی پوری نسل کافر ہو جائے گی۔

مولوی احمد رضا خان ”حسام الحرمین “ میں لکھتے ہیں :
”نعرض منھا ذکربعض الفرق بلفظہ“ ( ہم بعض فرقوں کا ذکر اسی کی عبارت میں ۔۔۔عرض کرتے ہیں) (حسام الحرمین۱۱)

اِس سے معلوم ہوا کہ مولوی احمد رضا خان نے ”حسام الحرمین “ میں جن فرقوں کا ذکر کیا ہے، انہیں کی عبارتیں نقل کی ہیں، اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا ہے۔
جیسا کہ مولوی نعیم الدین مرادآبادی بھی لکھتے ہیں کہ:۔
”حسام الحرمین میں ۔۔۔ عبارتیںبلفظہا نقل کی گئیں ہیں“ (التحقیقات لدفع التلبیسات /بحوالہ: الصوارم الہندیہ صفحہ ۱۳۹)

حالانکہ یہ سب جھوٹ ہے؛ کیونکہ جب عبارتیں بلفظہا نقل کی گئی ہیں تو سوال یہ ہے کہ مولوی احمد رضا خان نے جس عبارت کو تحذیرالناس کی طرف منسوب کیا ہے وہ عبارت تحذیرالناس میں کہاں ہے؟آج تک کوئی اُس عبارت کو تحذیرالناس میں کیوں نہیں دکھا سکا؟اور بھتیجے نے صحیح ترجمہ کرنے کے بجائے تین مختلف جگہوں کی ادھوری عبارت بے ترتیب کیوں رکھی؟

ایک طرف تو دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حسام الحرمین میں عبارتیں بلفظہا نقل کی گئی ہیں اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ جس کو تحذیرالناس کی عبارت قرار دیا ہے وہ تحذیر الناس میں ہے ہی نہیں۔

یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ مولوی احمد رضا خان نے وہ عربی عبارت اپنی طرف سے بناکر تحذیرالناس کی طرف منسوب کیا تھا شائد اِس خیال سے کہ علمائے حرمین شریفین اردو زبان نہیں جانتے ہیں ؛ اسلئے اُن کے سامنے میرا دَجل نہیں کھلے گا، مگر ساتھ ہی مولوی احمد رضا خان کو یہ بھی ڈر تھا کہ اگر علمائے حرمین شریفین نے کسی اردو جاننے والے سے اِس عربی عبارت کو تحذیرالناس میں تلاش کروایا اور نہیں ملی تو پھر میرا دَجل سب پر کھل جائےگا اِس ڈر سے مولوی احمد رضا خان نے علمائے حرمین شریفین کے سامنے دیگر کتابیں تو پیش کیں مگر تحذیرالناس کو پیش ہی نہیں کیا۔

#جیساکہ وہ خود علمائے حرمین شریفین کے سامنے کتابیں پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”ویا سادتنا!بینوانصراً لدین ربکم أن ھؤلاء الذین سماھم ونقل کلامھم (وھاھو ذا نبذ من کتبھم کالاعجاز الأحمدی و إزالۃ الأوھام للقادیانی وصورۃ فتیا رشید أحمد الکنکوھی فی فوتو غرافیا والبراھین القاطعۃ حقیقۃ لہ ونسبۃ لتلمیذہ خلیل احمد الأنبھتی وحفظ الایمان لأشرفعلی التانوی معروضات۔۔۔)“ (اور اے ہمارے سردارو! اپنے رب عزوجل کے دین کی مدد کو بیان فرمائیےکہ یہ لوگ جن کا نام مصنف نے لیا اور اُن کا کلام نقل کیا( اور ہاں یہ ہیں کچھ اُن کی کتابیں جیسے قادیانی کی اعجازِ احمدی اور ازالۃ الاوہام اور فتوائے رشید احمد گنگوہی کا فوٹواور براہینِ قاطعہ کہ در حقیقت اسی گنگوہی کی ہے اور نام کے لئے اس کے شاگرد خلیل احمد انبہٹی کی طرف نسبت ہے۔ اور اشرفعلی تھانوی کی حفظ الایمان۔۔۔) (حسام الحرمین صفحہ ۱۱)

دیکھئے ! مولوی احمد رضا خان نے جو کتابیں علمائے حرمین شریفین کے سامنے پیش کی تھیں اُن میں تحذیرالناس نہیں تھی،آخر علمائے حرمین شریفین کے سامنے تحذیرالناس کیوں نہیں پیش کی گئی؟
حجۃالاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کو کافر ثابت کرنے کیلئے مولوی احمد رضا خان نے اُن کی طرف ایک کفری عقیدہ ”ختم نبوت کے انکار“ کا منسوب کیا، اور اِس کفری عقیدہ کو ثابت کرنے کیلئے مولوی احمد رضا خان نے اپنی طرف سے ایک عبارت بناکر اُس کو تحذیرالناس کی طرف منسوب کیا اور بھتیجے حسنین رضا نے تحذیرالناس کی تین مختلف جگہوں کی ادھوری عبارت بے ترتیب ایک جگہ رکھ دی،جب علمائے دیوبند نے چچا بھتیجے کی اِس گھناؤنی کارراوئی سے پردہ اٹھایا تو بریلوی علماء سے مولوی احمد رضا خاں کی کارراوائی کا تو کوئی جواب نہ بن پڑا ، مگر بھتیجے صاحب کی طرف سے صفائی پیش کرنے لگے کہ تینوں عبارتوں میں سے ہر ایک میں کفر تھے اسلئے تینوں عبارتوں کو ایک جگہ رکھ دیا ، جیسا کہ مولوی نعیم الدین مرادآبادی لکھتے ہیں:
”اِن میں سے ہر ایک عبارت کفری معنی رکھتی ہے“(التحقیقات لدفع التلبیسات /بحوالہ: الصوارم الہندیہ صفحہ ۱۳۹)
اگر واقعی اِن میں سے ہر ایک عبارت کفری معنی رکھتی ہے تو مولوی احمد رضا خان نےبعینہٖ اِن تینوں عبارتوں کی عربی عبارت بنانے کے بجائے اپنی طرف سے ایک عربی عبارت کیوں بنائی جو تحذیرالناس میں ہے ہی نہیں؟
ہاں! مولوی احمد رضا خان کو یقینی طور پر یہ معلوم تھا کہ تحذیرالناس کی کسی بھی عبارت میں کفری معنی نہیں ہے؛ اسی لئے اپنی طرف سے ایک عبارت بنا کر تحذیرالناس کی طرف منسو ب کیا اور تحذیرالناس کو علمائے حرمین شریفین کے سامنے پیش نہیں کیا۔

No comments:

Post a Comment