Wednesday, 30 September 2020

نماذ میں قدموں کے درمیان کا فاصلہ

 *نماذ میں قدموں کے درمیان کا فاصلہ*


🌹 *مذہبِ اہل السنت و الجماعت:*


👈 نمازی اپنے دونوں پاؤں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھے، جو کم از کم چار انگشت سے لے کر زیادہ سے زیادہ ایک بالشت کی مقدار ہونا چاہیے۔


✍ *دلائل*👇


1⃣: مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت نافع سے مروی ہے:


أن بن عمر كان لا يفرسخ بينهما ولا يمس إحداهما الأخرى قال بين ذلك


(مصنف عبد الرزاق : ج2 ص172باب التحریک فی الصلاۃ)


ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دونوں پاں کو پھیلا کر (اور چیر کر )نہیں کھڑے ہوتے تھے اور نہ ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں سے چھوتے تھے بلکہ ان کی درمیانی حالت پر رکھتے تھے۔


2⃣: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی کے بارے میں مروی ہے:


وكان ابن عمر لا يفرج بين قدميه ولا يمس إحداهما بالأخرى ولكن بين ذلك لا يقارب ولا يباعد


(المغنی لابن قدامۃ: ج1 ص696- فصل : ما يكره من حركۃ البصر فی الصلاة)


ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما دونوں قدموں کے درمیان نہ زیادہ فاصلہ کرتے اور نہ ایک دوسرے سے ساتھ لگاتے بلکہ (ان دونوں کی درمیانی حالت کو اختیار فرماتے یعنی ) دونوں پاؤں کو نہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب کرتے اور نہ ایک دوسرے سے زیادہ دور رکھتے۔


3⃣: علامہ بدر الدین العینی لکھتے ہیں:


يستحب للمصلي أن يكون بين قدميه في القيام [ قدر] أربع أصابع يديه ، لأن هذا أقرب للخشوع.


(شرح ابی داود للعینی:ج3 ص354 باب وضع الیمنی علی الیسریٰ فی الصلاۃ)


ترجمہ: نمازی کے مستحب ہے کہ اس کے دونوں پاؤں کے درمیان ہاتھ کی چار انگلیوں کا فاصلہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے۔


4⃣: خالد بن ابراہیم السقبعی الحنبلی لکھتے ہیں:


رابعاً: تَفْرِقَتُه بين قدميه, والقاعدة هنا { أن الهيئات في الصلاة تكون على مقتضى الطبيعة, ولا تخالف الطبيعة إلا ما دل النص عليه}, والوقوف الطبيعي أن يفرج بين قدميه فكذلك في الصلاة, فما كان على غير وفق الطبيعة يحتاج إلى دليل.


(القول الراجح مع الدلیل: ج2 ص85)


ترجمہ: چوتھی سنت قدموں کے درمیان فاصلہ کرنا ہے۔ فاصلہ کرنے کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ نماز والی کیفیات انسانی طبیعت کےتقاضا کے مطابق ہوتی ہیں اور طبیعت کے تقاضے کے خلاف وہی کیفیت ہو گی جو مستقل نص سے ثابت ہو۔ چنانچہ قیام کی حالت میں طبعی تقاضا یہ ہے کہ کہ دونوں قدموں کے درمیان کشادگی ہو، لہذا نماز میں قیام کی حالت میں طبعی تقاضے کے مطابق قدموں کے درمیان فاصلہ ہونا چاہیے۔ پس نماز کی جو کیفیت بھی غیر طبعی ہے وہ محتاجِ دلیل ہے۔


5⃣: قال الأثرم [احمد بن محمد ہانی البغدادی] : ( رأيت أبا عبد الله وهو يصلي وقد فرَّج بين قدميه)۔۔۔ هذا هو الأولى ، لأن قبل هذا الفعل يجعل القدمين على طبيعتها ، وحيث لم يرد نص في قدميه حال القيام فإنه يبقيهما على الطبيعة


(شرح زاد المستقنع للشيخ حمد بن عبد الله: ج5 ص150)


ترجمہ: امام اثرم کہتے ہیں: میں نے امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کو نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ نے اپنے قدموں کے درمیان فاصلہ کیا ہوا ہے۔ یہی بہتر ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے اپنے قدموں کو اپنی طبعی حالت پر رکھے، چونکہ قیام کی حالت میں قدموں کے درمیان فاصلہ کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں ہے اس لیے ان کو اپنی طبعی حالت پر باقی رکھے۔


6⃣: پاؤں پھیلا کر کھڑا ہونا تکبر کی علامت ہے۔ یہ بات واضح ہے۔


تنبیہ:


غیر مقلدین کے پاس اپنے موقف کے بارے میں نہ صریح حدیث مرفوع ہے نہ موقوف، یہ لوگ اس بات کو بنیاد قرار دینے پر مصر ہیں کہ نماز میں ٹخنے سے ٹخنہ ملانا چاہیے اس لیے قدموں کے درمیان فاصلہ خود بخود ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کا یہ موقف درست نہیں اس لیے کہ ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کا مطلب قریب قریب کھڑا ہونا ہے۔ لہذا ان لوگوں کا استدلال باطل ہے۔ (اس کی مزید تفصیل آئندہ عنوان آ رہی ہے)


🌹🌹🌹🌹🌹🌹

No comments:

Post a Comment